احمد بن قاسم ارمان


ایک مرحلے پر، روزہ رکھتے ہوئے میری طبیعت خراب ہونے لگی، لیکن میں نے کسی کو نہیں بتایا۔ اس کی وجہ یہ ڈر تھا کہ وہ روزہ رکھنے پر پابندی لگا دیں گے۔ بہرحال بیماری کی وجہ سے مسلسل روزے رکھنا مجھے چھوڑنا پڑا۔ جن دنوں روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا، رات کے کھانے کا کچھ حصہ سحری کے لیے بچا لیتا۔ ایک دن ایک گارڈ نے یہ دیکھا اور اپنے اعلیٰ افسران کو رپورٹ کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کمانڈر آیا اور کہا:’’تم رات کا کھانا بچا کر سحری کے لیے نہیں رکھ سکتے۔ اگر یہ زیادہ دیر رکھنے سے خراب ہو گیا اور تم بیمار ہو گئے تو اس کے نتیجے میں ہمیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لیے یہاں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں۔ اگر تم روزہ رکھنا چاہتے ہو، تو صرف پانی پیو اور رات کا کھانا رات ہی کو کھاؤ‘‘ ___ اس کے بعد، میں رات کا کھانا سحری کے لیے نہیں بچا سکتا تھا۔ روزے کے دنوں میں، مجھے صرف پانی کے ساتھ روزہ رکھنا پڑتا تھا۔ 

ایک رات کھانا ختم کر کے عشاء کی نماز کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک گارڈ آیا اور سرگوشی میں بولا:’’آج رات ہمیں کھانے کے ساتھ ایک ایک کیلا ملا ہے۔ چونکہ تم صرف پانی کے ساتھ روزہ رکھتے ہو، اس لیے میں تمھیں اپنے حصے کا کیلا دیتا ہوں۔ اسے سحری کے لیے چھپا کر رکھ لو‘‘۔ 

یہ ایک بڑا سا کیلا تھا۔ وہ آہستگی سے بولتا رہا،’’قیدیوں کو اس طرح کچھ دینے کی ہمیں بالکل اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کسی کو نہ بتانا کہ میں نے تمھیں یہ دیا ہے۔ سحری میں، اسے خاموشی سے کھانا اور چھلکا ٹوائلٹ میں پھینک کر پانی سے بہا دینا۔ اگر کسی کو پتا چل گیا، تو مجھے اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے‘‘۔ 

اس نے ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھا، اور سرگوشی میں کہا:’’جب ہم یہاں پر ڈیوٹی کے لیے پہلی بار آتے ہیں، تو ہمیں کچھ باتوں کی بریفنگ دی جاتی ہے۔ شروع میں، ہمیں کئی لاشوں کی تصاویر دکھائی جاتی ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ لاشیں گارڈوں کی ہیں۔ اس طرح ہمارے ذہن میں یہ بات بٹھائی جاتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنھوں نے مختلف طریقوں سے قیدیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لیے جس طرح قیدیوں کو نام نہاد کراس فائر (یعنی جعلی مقابلے) کے لیے لے جا کر مار دیا جاتا ہے، تو انھیں بھی ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ جن گارڈوں نے ان کی مدد کی تھی، قیدیوں کو سزا دینے کے بعد، ان گارڈوں کو بھی مار دیا جاتا ہے۔ پریس بریفنگ میں کہا جاتا ہے کہ ایک دہشت گرد اور ہمارا ایک آدمی اسلحہ برآمدگی کی کارروائی کے دوران فائرنگ میں ہلاک ہوا‘‘۔ 

اس کے یہ الفاظ سن کر میرے جسم میں خنجر جیسی تیز دھار نے سنسنی دوڑا دی۔ وہ بولتا رہا: ’’ہمیں ان مارے گئے گارڈوں کی، گولیوں سے چھلنی لاشیں دکھائی جاتی ہیں۔ پھر ہمیں بتایا جاتا ہے، یاد رکھو جو کوئی ایسی کوشش کرے گا، اسے اسی طرح مار دیا جائے گا۔ کوئی محکمانہ تحقیقات نہیں، کوئی جسمانی سزا نہیں، صرف براہ راست گولی کی سزا۔ ایسی وارننگ کے بعد ہمیں یہاں کام پر لگایا جاتا ہے۔ اسی لیے ہم ان معاملات سے بہت ڈرتے ہیں‘‘۔ 

میں نے کیلا کمرے کے ایک تاریک کونے میں رکھا اور لیٹ گیا۔ یہ سوچا کہ سحری سے پہلے اُٹھوں گا، تہجد پڑھوں گا، کیلا کھاؤں گا، اور پھر روزہ شروع کروں گا۔ اس وقت تک میری جسمانی گھڑی تربیت یافتہ ہو چکی تھی۔ اب اپنی مرضی کے وقت پر جاگ سکتا تھا۔ 

سحری کے وقت کا اندازہ لگا کر، میں جاگا اور کیلے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ حیرت سے یہ دیکھا کہ ایک چوہا اسے کھا رہا تھا۔ اچانک گھبرا کر، میں اچھل پڑا۔ اس اچانک حرکت میں، مجھے اپنے سینے کے بائیں جانب ایک تیز کھچاؤ محسوس ہوا، اور درد نے مجھے گرا دیا۔ اس وقت تک چوہا بھاگ چکا تھا۔ سینے کے شدید درد کے ساتھ بیٹھ کر، میں نے سوچا کہ کیا کروں؟ کیا میں گارڈز کو بلاؤں؟ پھر میں نے سوچا۔ وہ شاید کچھ اور تو نہ کر سکیں، لیکن روزہ رکھنے سے ضرور روک سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد درد کچھ کم ہوا، میری سانس دوبارہ نارمل ہوئی۔ میں نے کیلا اٹھایا۔ اس کا کچھ حصہ چوہا کھا چکا تھا، اس خراب حصے کو توڑ کر پھینک دیا اور باقی کھا کر روزہ شروع کیا۔ 

اس وقت تک، ایک بات واضح طور پر سمجھ چکا تھا کہ یہ لوگ مجھے کبھی کسی عام عمل کے نتیجے میں رہا نہیں کریں گے جب تک کہ اللہ کسی معجزاتی طریقے سے میری آزادی کا بندوبست نہ کرے۔ اگر اس نے مجھے کسی غیبی طاقت کے ذریعے نہ چھڑایا، تو یہ مجھے کبھی نہیں رہا کریں گے۔ بیماری کی وجہ سے یہ مجھے علاج کے لیے کہیں نہیں لے جائیں گے، نہ کوئی مناسب میڈیکل دیکھ بھال کا بندوبست کریں گے۔ 


زیادہ تر گارڈ، ہم قیدیوں کے ساتھ سخت ناروا سلوک کرتے تھے۔ ایک یا دو کے علاوہ، مشکل ہی سے کوئی نرم لہجے میں بات کرتا تھا۔ 

ایک رات میں تہجد پڑھ رہا تھا، دل بوجھل تھا، اور نماز میں رو رہا تھا۔ گارڈ عام طور پر ایک چھوٹی کھڑکی سے ہمیں دیکھتے اور گشت کرتے تھے۔ اچانک مجھے چھوٹی کھڑکی کھلنے کی آواز سنائی دی۔ معمول کے مطابق اس وقت کوئی نہیں آتا تھا، اس لیے میں چونک گیا۔ ایک گارڈ نے کہا:’’دیوار کی طرف منہ کرو اور قریب آؤ‘‘۔ 

جب میں قریب گیا، اس نے آہستہ سے کہا: ’’ہم تمھیں اکثر دیکھتے ہیں۔ آپس میں ہم کہتے ہیں کہ تم دوسرے قیدیوں جیسے نہیں ہو۔ تم خاموش رہتے ہو، روزہ رکھتے ہو اور نماز پڑھتے ہو۔ تمھیں اس حال میں دیکھ کر ہمیں تکلیف ہوتی ہے، لیکن ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہم یہاں صرف اپنے خاندانوں کو پالنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ اگر ہم کچھ اور کر سکتے، تو یہ نوکری فوراً چھوڑ دیتے۔ ہمیں یہ ملازمت اور یہ کام بالکل پسند نہیں‘‘۔ 

وہ مزید بولنے لگا:’’کیا تم جانتے ہو کہ بنگلہ دیش فوج کی کمانڈو تربیت کے دوران میری کارکردگی اچھی تھی، اور انھوں نے کہا کہ وہ مجھے اعلیٰ کورس کے لیے لیں گے۔ میں خوش تھا کہ زیادہ تربیت کا مطلب بہتر تنخواہ ہے۔ وہ ہمیں انڈیا لے گئے۔ وہاں پر انھوں نے ہمیں سکھایا کہ کس طرح اغوا کرنا ہے، اور کس طرح جسموں کو کاٹ کر پانی میں غرق کرنا ہے۔ یہ ایک خوفناک تربیت تھی! ہمارے گروپ میں ہر طرح کے فوجی تھے، سینئر اور جونیئر بھی۔ پھر یہ زیادہ تر فوجی ملازمین، عوامی سیاست سے وابستہ رہے تھے‘‘۔ 

وہ بغیر رُکے بولتا رہا: ’’زیادہ تر چھاترو لیگ [اسٹودنٹس لیگ] اور عوامی لیگ کے پس منظر سے تعلق رکھنے والے تھے۔ ہم میں سے چند ہی لوگ فوج میں عام خاندانوں سے تھے۔ ہمیں صرف اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ ہم نے سروس میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی۔ انھوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ کسی کا پیچھا کیسے کرنا ہے، فون ٹریک کرنا، پھر کسی گواہ کی نشانی کے بغیر اپنے ہدف کو اغوا کرنا۔ اور اگر کوئی اغوا کرتے دیکھ لیتا، چاہے مرد، عورت یا بچہ ہو، ہمیں حکم تھا کہ اسے بھی اٹھا لیں۔ کبھی ہم خاموشی سے ایک دوسرے سے پوچھ لیتے ہیں کہ کسے نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ لیکن اب ہم یہ ملازمت چھوڑ نہیں سکتے۔ ہمارے خاندانوں کا انحصار ہمارے اوپر ہے۔ ہم میں سے کچھ کے باپ کسان تھے، اور کچھ رکشہ چلاتے تھے۔ ہم نے بہت سی راتیں بھوک میں گزاریں۔ یہ نوکری بڑی جدوجہد کے بعد ملی۔ اگر ہم چھوڑ دیتے ہیں، تو ہمارے خاندان تباہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا، مجبوری میں ہم ان چیزوں کا حصہ ہیں۔ یقین کرو، بھائی، ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔ ہم اپنی قومی فوج میں اپنے ملک کی حفاظت کے لیے شامل ہوئے تھے، لیکن وہ ہمیں کرائے کے قاتلوں کی طرح استعمال کرتے ہیں‘‘۔ 

میں ملے جلے جذبات کے ساتھ یہ عبرت ناک حالات سنتا رہا۔ 

اس نے کہا:’’ست خیرا (Satkhira) میں مَیں نے ایک آدمی کو اعلیٰ حکام کے حکم پر جان سے مارڈالا۔ وہ ایک جماعت کا رہنما تھا اور بالکل میرے سسر جیسا نظر آتا تھا۔ اس بے گناہ قتل کے بعد سے میں آج تک ٹھیک طرح کھا نہیں سکتا۔ پہلے میں مضبوط تھا، لیکن اس کام کے بعد میری بھوک غائب ہو گئی ہے اور میرا جسم گھلتا جا رہا ہے۔ فوج میں ہمیں کیا کام کرنا چاہیے تھا، اور ہم سے کیا کام کرایا جا رہا ہے!‘‘ 

وہ لمحے بھر کے لیے رکا، پھر بتانے لگا: ’’تربیت کے دوران ایک سینئر نے پوچھا، ’اگر ہمیں اس کے لیے تیار کیا جا رہا ہے، تو جب کبھی یہ حکومت بدل جائے گی تو ہمارا کیا ہوگا؟ تب کون ہماری حفاظت کرے گا؟’ چونکہ یہ تربیت انڈیامیں ہو رہی تھی، اس لیے وہاں انڈین افسر نے جواب دیا، ’ہم یہ پروگرام ۱۹۵۰ء کے زمانے سے چلا رہے ہیں۔ تمھیں کسی فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تمھاری حفاظت کا خیال رکھیں گے‘‘۔ 

گارڈنے مزید بتایا: ’’دیکھو، بھائی، تم مسلمان ہو، میں بھی مسلمان ہوں۔ ہم سب کسی نہ کسی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ اگر تمھارے پاس یہاں گھڑی ہوتی، تو یہ تمھیں وقت پر نماز پڑھنے میں مدد دیتی۔ ہمارے بنگلہ دیشی مسلم افسران اس بات کو سمجھتے ہیں، لیکن یہاں موجود انڈین افسران اس کی کبھی اجازت نہیں دیتے۔ صرف یہی نہیں، جب بھی ہم اغوا کے لیے جاتے ہیں، انڈین افسران ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ ہر تفصیل پر نظر رکھتے ہیں۔ ہمارے بنگلہ دیشی اعلیٰ افسران ان کے ہاتھوں میں بے بس اور مجبور ہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے‘‘۔ 

وہ بولتا رہا اور وقت گزرتا گیا، حالانکہ میں نے مشکل سے کوئی لفظ اسے کہا۔ میں بس سنتا رہا۔ اس ڈیوٹی پر رہنے کے چند مہینوں میں، وہ کبھی کبھار باہر کی چھوٹی چھوٹی خبریں دینے کی کوشش کرتا۔ میں زیادہ بات نہیں کرتا تھا، اور اسے ڈر تھا کہ کوئی شکایت کر دے گا۔ 

مجھے نہیں معلوم کہ اس کے الفاظ میں کتنی حقیقی شرمندگی تھی اور کتنی اپنے جرم کا جواز پیش کرنے کی کوشش۔ وجہ یہ ہے کہ مجرم ہمیشہ اپنے دفاع کے لیے کہانی بناتے ہیں۔ ظالموں کے ساتھی خود سے کہتے ہیں: ’’میں صرف احکامات کا غلام ہوں، میں یہ نہیں چاہتا تھا، میں نے صرف اطاعت کی۔ اس لیے مجھ پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔ 


 

یہاں پر مجھے امام احمد بن حنبلؒ کا ایک سبق آموز واقعہ یاد آتاہے:امام احمد بن حنبلؒ بھی ایک ظالم حکمران کے ہاتھوں قید ہوئے تھے۔ وہ حدیث اور فقہ کے ایک عظیم عالم تھے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صدیوں بعد خدمت ِ دین کا روشن چراغ تھے۔ اس وقت قرآن اور حدیث کی تعلیم اور حفظ عام تھا۔ ایک دن، جس جیلر کے ماتحت وہ قید تھے، اس کے سامنے ایک حدیث پڑھی، جو اُسے انتہائی پریشان کر گئی۔ 

حضرت کعب بن عجرہؓ نے روایت کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے کعب بن عجرہ! میں تمھیں ایسے حکمرانوں کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں، جو میرے بعد ہوں گے۔ جو اُن کے دروازے پر گیا، اور جس نے ان کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم پر ان سے تعاون کیا، وہ نہ مجھ سے ہے اور نہ میں اس سے ہوں، اور نہ وہ حوض [کوثر] پر میرے پاس آئے گا۔ اور جو کوئی ان کے دروازے پر گیا یا نہیں گیا، لیکن نہ ان کے جھوٹ میں ان کی تصدیق کی، اور نہ ان کے ظلم پر ان کی مدد کی، تو وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ وہ عنقریب حوض پر میرے پاس آئے گا۔(سنن ترمذی:۶۱۴) 

یہ حدیث سن کر وہ جیلر گھبراگیا۔ کیونکہ وہ بھی حکمران کے ظلم میں شریک تھا۔ امام احمد جیسے عالم کو بغیر جرم قید کرنا، اذیت دینا، یہ سب جیل گارڈ کے اپنے ہاتھوں ہی سے ہو رہا تھا۔ 

جیلر نے بے چینی کے ساتھ، امام احمد سے اس حدیث کی تشریح پوچھی: ’’امام، ہم آپ کو اذیت دینا نہیں چاہتے۔ ہم آپ کو قید بھی نہیں رکھنا چاہتے۔ ہم صرف روزی کمانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہم احکامات کے غلام ہیں۔ جو ہمیں حکم دیا جاتا ہے، ہم کرتے ہیں۔ حدیث میں ’ظالم کے ساتھیوں‘ کی بات ہے۔ کیا ہم بھی اس دائرے میں آتے ہیں؟ حالانکہ ہم ظلم نہیں کرنا چاہتے‘‘۔ 

امام احمد بن حنبلؒ نے پُرسکون آواز میں جواب دیا:‘‘نہیں، تم صرف ساتھی ہی نہیں ہو۔ ساتھی تو وہ ہیں جو جانتے ہیں کہ کون ظالم ہے اور پھر بھی اس کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ بال کاٹنے، کپڑے دھونے، کھانا پکانے والے لوگ بھی ساتھی ہیں۔ لیکن تم جو ظالم کے احکامات پر عمل کرتے ہو، تم صرف ساتھی ہی نہیں بلکہ خود ظالم بھی بن جاتے ہو‘‘۔ 

اس حدیث اور امام احمد بن حنبلؒ جیسے عظیم محدث کی تشریح نے کچھ افسروں اور گارڈوں کو بے چین کر دیا ہوگا کہ صرف احکامات کی تعمیل کا بہانہ انھیں ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں کرتا۔ پھر بھی، دوسرے سخت افسروں اور گارڈوں کے مقابلے میں، چند گارڈ جو ذرا سی نرمی دکھاتے تھے، وہ گویا رحم دل لگتے تھے۔ 


اس کے بعد اوپر بیان کردہ تفصیل پر کوئی ردِ عمل دیے بغیر وہ خاص گارڈ اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں آہستہ آہستہ میرے ساتھ بات کرنے لگا۔ رات کی خاموشی میں اس کا ضمیر کچھ جاگتا تھا۔ اگرچہ اس کے دل میں کمزوری تھی، لیکن ضمیر کچھ بیدار ضرور ہوا۔ پھر یہ ہمارا ایک معمول بن گیا۔ میں شاذ و نادر بولتا، اور زیادہ تر اُس کی بات سنتا تھا۔ 

اس کے ذریعے مجھے باہر کی خبروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملنے لگے۔ وہ انھیں رپورٹ کی طرح اعلان نہیں کرتا تھا، بلکہ بے تکلفی یا لاشعوری طور پر چلتے چلتے چند جملوں میں بیان کر دیتا تھا۔ ایسی ہی ایک قابل ذکر خبر تھی: ’’خالدہ ضیاء کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘‘۔ مجھے یہ بات سن کر دُکھ ہوا۔ ہماری صورت حال اور اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری دیکھ کر، سیاسی تبدیلی کی امید بہت کم لگتی تھی۔ 

ایک دن اس گارڈ نے مجھ سے کہا:’’تم خوش نصیب ہو۔ ضیاء الحسن کے تبادلے کے بعد ایک اور آدمی یہاں آیا ہے۔ ضیاء ایک بے رحم اور بے درد افسر تھا، جو پل بھر میں لوگوں کو گولی مار دیتا تھا‘‘۔ جب ہم باتیں کرتے، مجھے اس سے قربت محسوس ہوتی تھی۔ لیکن جب کچھ مدت بعد اس کا تبادلہ کہیں دوسری جگہ ہوا، تو وہ رفاقت ختم ہو گئی اور میں طویل عرصے تک کسی سے کھل کر نہ بولا۔ میں بالکل تنہائی محسوس کرتا تھا، جیسے کسی نے مجھے زندہ دفن کر دیا ہو۔ ان برسوں میں صرف تین یا چار گارڈوں نے مجھ سے کھل کر بات کی۔ وہ عام طور پر صبح سویرے بات کرنے آتے، خاص طور پر جب دوسرے قیدی گہری نیند سو رہے ہوتے تھے۔ 


تین سے ساڑھے تین سال قید کے بعد، قدرے ایک عمر رسیدہ گارڈ بات کرنے کے لیے کھڑکی پر آنے لگا۔ اس نے کہا کہ ’میری ریٹائرمنٹ میں اب تھوڑا وقت باقی ہے‘‘، اور پھر وہ گہرے دکھ کے ساتھ بولا:‘‘اب ترقیاں اور ریٹائرمنٹس عام طور پر نہیں ہوتیں۔ فوج مکمل طور پر خوشامد پر چلتی ہے۔ جو کوئی رشتہ داری اور پارٹی تعلقات دکھا سکتا ہے، جو سب سے زیادہ چاپلوسی کرتا ہے، وہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتا اور ترقی پاتا ہے۔ کوئی امید باقی نہیں۔ میرے کیریئر کے آخر میں مجھے یہاں منتقل کیا گیا ہے اور یہ گھٹیا کام ہم سے کرائے جاتے ہیں‘‘۔ 

پھر اس نے ایسی بات بتائی جس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ اس نے کہا:’’تمھیں یہاں لانے کے تقریباً ایک ہفتے کے اندر انھوں نے تمھیں مارنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ سب کچھ تیار تھا۔ کیا تمھیں یاد ہے کہ جب تم آئے تو انھوں نے تمھارا وزن کیا تھا؟‘‘ 

میں نے کہا:’’ہاں، مجھے یاد ہے‘‘۔ 

وہ بولتا رہا:’’انھوں نے تمھارے وزن کے برابر اینٹیں تیار کی تھیں۔ بوریاں اور رسیاں، تاکہ لاش کو وزنی کر کے غرق کیا جا سکے۔ نارائن گنج کے واقعے کے بعد، جب لاشیں تیر کر سامنے آئیں اور ہنگامہ کھڑا ہوا، تب سے وہ لاشوں کو چھپانے میں زیادہ محتاط ہو گئے۔ اب وہ لاشیں باریسال کے علاقے میں لے جاتے ہیں۔ پہلے وہ آنکھیں، منہ اور ہاتھوں کو تیزاب سے جلا دیتے ہیں تاکہ چہرے کی شناخت نہ ہو۔ اس عمل سے وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ فنگر پرنٹس نہ لیے جا سکیں۔ پھر وہ پیٹ کھولتے ہیں اور جسم کے وزن کے برابر اینٹیں باندھ کر، لاشوں کو باریسال کے قریب دریا کے دہانوں میں پھینک دیتے ہیں‘‘۔ 

یہ تفصیل سن کر میرا پورا جسم ٹھنڈا ہو گیا۔ میری پلکوں پہ نمی جیسے جم گئی ہو۔ وہ بولتا رہا: ’’نارائن گنج میں لاشیں تیر گئیں کیونکہ ’شیتالکھیا‘(Shitalakkhya) ایک چھوٹا دریا تھا، اور لوگوں نے انھیں پہچان لیا۔ باریسال کے بڑے دریاؤں میں یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ انھوںنے تمھیں اسی طرح مارنے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن جس کمانڈر نے تمھارے قتل کا حکم دیا تھا، اسی دوران وہ سلہٹ میں ایک دہشت گردانہ حملے میں مارا گیا۔ اس کے بعد تمھارا کیس رُک گیا۔ اس کے بعد آنے والے ہر کمانڈر نے تمھیں نہ مارنے کا فیصلہ کیا۔ تمھاری فائل کئی بار اعلیٰ حکام کو بھیجی گئی کہ یا تو تمھیں رہا کیا جائے گا یا کوئی فیصلہ آئے گا۔ لیکن اعلیٰ حکام نے کبھی واضح حکم نہیں بھیجا۔ وزیراعظم کے دفتر سے ہمیشہ تمھاری رہائی کے بارے میں منفی جواب آیا ہے‘‘۔ 

بزرگ گارڈ نے کہا:’’چونکہ تمھارے قتل کا حکم دینے والا کمانڈر اس حملے میں مارا گیاتھا، غالباً اس وجہ سے دوسرے کمانڈرز خوف زدہ ہو گئے تھے۔ وہ سمجھتے آئے ہیں کہ تم اتنی عقیدت سے عبادت اور دعا کرتے ہو کہ تمھیں نقصان پہنچانا ان کے لیے بدقسمتی لاسکتا ہے۔ تم نے شاید نوٹ کیا ہو، اب کوئی تمھیں ‘تم‘ کہہ کر نہیں پکارتا۔ سب تمھارے ساتھ کچھ عزّت سے پیش آتے ہیں‘‘۔ 

جب تک وہ بزرگ گارڈ ڈیوٹی پر رہا، وہ اکثر میرے ساتھ بات کرنے آتا، اور زیادہ تر بین الاقوامی مسائل پر۔ جب میں قومی معاملات پوچھتا تو وہ کہتا،’’میں تمھیں صرف وہ باتیں بتاؤں گا جو اگر عام ہو جائیں تو ہمیں نقصان نہ دیں‘‘۔ 

میں نے اس سے کہا:’’یہ تنہائی اتنی شدید ہے کہ پانچ منٹ کی بات چیت بھی مجھے بہتر محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ مجھے لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے زندہ دفن کر دیا ہو‘‘۔ 

اس نے جواب دیا:’’ہاں، کبھی کبھار ہم تم سے بات کرنے آتے ہیں، تمام تر خطرے کے باوجود۔ تمھاری یہ حالت دیکھ کر ہمیں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ بس ہماری ایک گزارش ہے، براہ کرم ہمیں کبھی بددعا نہ دینا۔ ہم یہ کام کرنے کے لیے نوکری میں شامل نہیں ہوئے ہیں، ہم فوج میں شامل ہوئے تھے، لیکن دیکھو ہمیں کیا کرنے کے لیے کہاں کہاں رکھا گیا ہے‘‘۔ 

اس بزرگ گارڈ کو ذیابیطس تھی۔ وہ چپکے سے مجھے اپنے حصّے کی مٹھائیاں اور سافٹ ڈرنکس دیتا اور کہتا،’’میں ذیابیطس کا مریض ہوں، میں یہ نہیں کھا سکتا۔ انھیں خاموشی سے لے کرکھاؤ۔ اگر کوئی دوسرا ڈیوٹی کے دوران یہ دیکھ لے گا تو ہم دونوں مشکل میں پڑ جائیں گے‘‘۔ وہ یہاں دو سال سے زائد عرصے تک ڈیوٹی پر رہا اور اس نے میری بہت مدد کی۔ 


قید کے پانچویں سال کے آخر تک، میں نے ایک اور سپاہی سے بات کرنا شروع کی۔ وہ مجھ سے انگریزی میں بات کرتا۔ میں حیران ہوا اور کہا:’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں کوئی انگریزی بول سکتا ہے‘‘۔ 

اس نے جواب دیا:’’میں ایک بہت غریب خاندان سے ہوں، اسی لیے مجھے یہ نوکری کرنی پڑی۔ ورنہ، میں تو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کہ میں جا سکتا، مجھے مجبوری میں اس نوکری میں آنا پڑ گیا۔ میری صلاحیت کی وجہ سے، انھوں نے مجھے اس تربیت کے لیے منتخب کیا اور کہا کہ یہاں ترقی کے بہت مواقع ہیں‘‘۔ وہ صرف انگریزی میں بات کرتا تھا، تاکہ اگر کوئی سن لے تو وہ سمجھ نہ پائے۔ پھر اس نے کہا:’’میں ترقی نہیں چاہتا۔ میں یہاں صرف تھوڑا عرصہ اور ہوں۔ اس کے بعد، میں یہ نوکری چھوڑ دوں گا‘‘۔ 

اس نے افسوس کے ساتھ مزید کہا:’’میری انگریزی کی وجہ سے، بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ میں نے بہتر ملازمت کیوں نہیں لی، میں یہاں کیوں ہوں؟ میں ہمیشہ ایک ہی جواب دیتا ہوں: تقدیر کے جبر کی وجہ سے، میں یہاں پہنچ گیا ہوں‘‘۔ 

وقت کے ساتھ، میں اس سے مانوس ہو گیا اور اس کے کچھ ذاتی معاملات جاننے لگا۔  ایک دن اس نے کہا:’’تمھیں یہاں دیکھ کر مجھے بہت برا لگتا ہے، اسی لیے میں کبھی کبھار بات کرنے آتا ہوں۔ ہمیں خوفناک کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی برا کام ہو، جو ہم نے نہ کیا ہو۔ اس پر مجھے افسوس ہے، لیکن کوئی راستہ ہی نہیں بچا اس دلدل میں اترنے کے بعد‘‘۔ 

قدرے مذاق میں، میں نے پوچھا:’’تم نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘ 

اس نے جواب دیا:’’مجھے ڈر ہے کہ ان خوفناک کاموں کی وجہ سے جو میں کرتا آیا ہوں، میرا خاندان ملعون (Cursed)ہو جائے گا۔ شاید میری بیوی اچھی نہ ہو، اور اس وجہ سے زندگی بھر جلتا رہوں۔ شاید میرے بچے ٹھیک نہ ہوں اور ان کے دکھ کی وجہ سے ساری زندگی تڑپتا رہوں۔ اس خوف نے مجھے شادی سے روک رکھا ہے‘‘۔ 

اسی دوران اس نے ایسی بات کہی جس نے مجھے اُداس کر دیا: ’’میں اکثر تمھاری معصوم بچیوں کو فیس بک پر دیکھتا ہوں، اور اپنے آنسو نہیں روک پاتا۔ اس نوکری میں آنے کے بعد سے، میں نارمل زندگی کبھی نہیں جی سکا۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ہم قصوروار نہیں ہیں، لیکن حکومت ہم سے یہ کام کرواتی ہے، پھر بھی ہوتا تو سب کچھ ہمارے اپنے ہاتھوں ہی سے ہے! یہی میرا گناہ ہے اور یہی میرا غم ہے۔ اب اگر ہم چھوڑنا بھی چاہیں، تو نہیں چھوڑ سکتے۔ شاید بہت پہلے ہم استعفا دے سکتے تھے، لیکن اب یہاں تعیناتی کے بعد، کوئی اپنی مرضی سے نہیں جا سکتا۔ میں نے سنا ہے کہ جن کچھ سپاہیوں نے استعفا دینے کی درخواست کی، وہ غائب کر دیے گئے اور اُن کا کوئی نشان نہ ملا۔ لیکن ان کے خاندانوں کو کچھ معاوضہ دے کر خاموش رہنے کی دھمکی دی گئی، کہ ورنہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں بچا‘‘۔ 

اس کے الفاظ مجھے سچے لگے۔ میرے قید ہونے سے بہت پہلے، لاتعداد بے گناہوں کو یہاں قید کرکے لایا گیا ہوگا، اور عذاب دیا گیا ہو گا۔ پھر بھی ہم نے کبھی کسی افسر کو سچ بتاتے نہیں دیکھا۔ ضرور اُن کے ضمیر کو بھی کچھ چبھن ہوتی ہوگی! لیکن کوئی ان جرائم کو بے نقاب کرنے کے لیے استعفا نہیں دیتا۔ اس سپاہی کے الفاظ نے اس کی تصدیق کی کہ استعفا دینے کی انھیں آزادی نہیں ہے۔ بہت سے لوگ ظلم کے اس چکّر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ 

مجھے ان جوان اور ذہین سپاہیوں پر بہت ترس آیا۔ بعد میں، میں نے اس جیسے کئی اور اہل کاروں سے ملاقات کی۔ ان کی ذاتی داستانوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بہت باصلاحیت تھے۔ کچھ نے اقوام متحدہ کے تحت تربیت بھی لی تھی، مگر انھیں اسی طرح آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ہر وہ سپاہی جس نے مجھ سے کھل کر بات کی، اس نے ایک ہی بات کہی: ’’کوئی بھی اس ملازمت میں رہنا نہیں چاہتا، سب صرف مجبوری میں بندھے ہونے کی وجہ سے ملازمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی مرضی سے ملازمت چھوڑنے کا مطلب اپنی زندگی ختم کرنے کا فیصلہ ہے‘‘۔ 


 

ان لوگوں میں سے ایک بہت متقی آدمی تھا۔ وہ مجھے مختلف دعائیں سکھاتا، اکثر کہتا،’’اگر تم یہ دعا کرو گے تو تمھاری صحت بہتر ہوگی اوراگر وہ دعا کرو گے تو تم مصیبت سے بچ جاؤ گے‘‘۔ 

میں نے ایک بار اس سے پوچھا:’’آپ اتنے دین دار انسان ہیں۔ عام طور پر، متقی یا اچھے لوگ ایسی نوکریوں میں نہیں آتے۔ آپ یہاں کیسے آ گئے؟‘‘ 

اس نے جواب دیا:’’پہلے میں ایسا نہیں تھا۔ لیکن خوفناک کام کرنے پر مجبور ہونے کے بعد، مجھے شدید افسوس ہوا۔ اب میں اپنی جان کے ڈر سے استعفا نہیں دے سکتا۔ میں نے خود کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔ دعاؤں میں مشغول ہونا مجھے کچھ سکون دیتا ہے۔ ہم سے اتنا بُرا کام کروایا جاتا ہے، کہ ہمارے پاس جہنم سے بچ جانے کی کوئی ضمانت نہیں۔ آخرت کے اس ڈر نے مجھے دین داری کے راستے پر لگایا ہے۔ میں نے عزم کیا کہ میں اپنے بچے کو حافظ قرآن بناؤں گا اور اسے مدرسے میں بھیجوں گا، تاکہ شاید اللہ اس کے ذریعے مجھے معاف کر دے۔ بھائی، ہم احکامات کے غلام ہیں۔ براہ کرم، ہمارے خلاف کبھی نفرت نہ رکھنا اور ہمیں کبھی بددعا نہ دینا‘‘۔ 

وہ ایسی باتیں اکثر کہتے، اور میں ان کی آوازوں میں گناہ، غم اور محرومی محسوس کر سکتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا:’’اصل مجرم وہ ہیں جو کمانڈ چلا رہے ہیں۔ ان میں عوامی لیگ کے رہنما اور انڈیا سے کچھ کمانڈر ہیں، اور وہی اصل منصوبہ ساز ہیں‘‘۔ 


 

ان کی باتیں مجھ پر کئی حقیقتیں واضح کر دیتی تھیں۔ میں ان کی حالت سمجھتا اور دکھ محسوس کرتا تھا، لیکن اس سے بھی بڑا دکھ اس بات پر ہوتا کہ عوامی لیگ کی حکومت، محب وطن سپاہیوں کو کرائے کے قاتلوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے، بدامنی پھیلا رہی ہے، انڈیا انھیں تربیت دے رہا ہے اور روس اسباب فراہم کر رہا ہے۔ اس طرح حسینہ واجد اور اس کی پارٹی اپنے جرائم کو آسانی سے جاری رکھتی ہے۔ 

صرف اللہ ہی ان کی بے بسی کی اصلی حقیقت جانتا ہے۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کون واقعی بے بس ہے اور کون رضامندی سے ساتھی بننے پر تیار ہے۔ اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بے بس سپاہیوں کو معاف کرے اور انھیں اس لیے اجر دے کہ انھوں نے آخر کار محب وطن لوگوں کے خلاف نہ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ آخرت میں یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ لیکن جو واقعی قتل اور گمشدگیوں کے جرائم کے ذمہ دار ہیں، انھیں انصاف کا سامنا کرنا چاہیے۔ اور جنھوں نے سپاہیوں کو اس طرح کے گھناؤنے کاموں کے لیے استعمال کیا، انھیں سزا ملنی چاہیے، تاکہ بنگلہ دیش کی فوج ان داغوں سے پاک ہو، اپنی عزت اور وقار دوبارہ بحال کرے، اور بنگلہ دیش ایک بار پھر آزادی سے سرفراز ہو۔