محمد فردوس بابا


گذشتہ عشرے کے سیاسی منظر نامے کو غور سے دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ۲۰۱۴ء سے بالعموم اور ۲۰۱۹ء سے انڈیا میں بالخصوص کشمیریوں کے خلا ف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پھر پلوامہ کا افسوس ناک واقعہ محض ایک واقعہ نہ رہا، بلکہ نفرت کی جڑ بنادیا گیا۔ اس کے بعد سے کشمیری مزاحمت کا ہر عمل اور بھارتی ریاست کی طرف سے ترتیب دیے گئے، سابقہ روایت کے مطابق ہرانڈین ساختہ فلیگ آپریشن کو انڈین عوامی جذبات کو مزیدبھڑکانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نفرت کو نہ صرف اُبھارا گیا بلکہ انڈین قومی نفسیات میں مستقل حیثیت سے ذہنوں میں ٹھونک دیا گیا۔ 

یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے پہلگام واقعے کے بعد انڈیا کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بجا طور پر اظہارِ تشویش کیا ہے۔اپنے بیان میں ان ماہرین نے کہا کہ پہلگام واقعے کے بعد انڈین حکام نے مقبوضہ کشمیر میں وسیع آپریشن شروع کیے، آپریشن کے نتیجے میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں سمیت تقریباً ۲۸ سو افراد کو حراست میں لیا گیا۔حراست کے دوران افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، وکلا اور خاندان کے افراد تک رسائی بھی نہیں دی گئی۔ انھوں نے ان گرفتاریوں، نظربندیوں، حراست میں مشتبہ اموات، تشدد اور دیگر ناروا سلوک کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان ماہرین نے مزید کہا کہ ’’کشمیری اور مسلم آبادیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی بھی مذمت کرتے ہیں، ان سے متعلق خبروںاور اطلاعات کے بلیک آؤٹ اور آزادی صحافت پر پابندیوں پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔اسی طرح کشمیری طلبہ کو ہراساں کیا گیا، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور تشدد کے لیے اُکسایا گیا،۸ ہزار سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کیے گئے۔ دوسری طرف گجرات اور آسام میں مسلمانوں کے ہزاروں گھر، مساجد اور کاروبار مسمار کرنے کی اطلاعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے انڈیا میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرنے اور احتساب کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔ 

تاہم، یاد رہے کہ یہ نفرت نہ تو نئی ہے اور نہ اچانک پیدا ہوئی ہے۔ چودھویں صدی عیسوی سے، جب کشمیریوں کی غالب اکثریت نے اپنی مرضی اور بلاکسی خوف و دباؤکے شاہ ہمدانؒ کے ہاتھوں اسلام قبول کیا، تو ایک نہایت معمولی اقلیت نے لوگوں کی اس تبدیلیٔ مذہب کو ہضم نہ کیا اور انھوں نے اس تبدیلی کے خلاف ایک متعصبانہ موقف تخلیق کیا، جس میں افسانہ سازی اور جھوٹ کا سہارا لے کر کشمیری مسلمانوں کو مندر توڑنے والے، مقدسات کی بے حُرمتی کرنے والے اور ظالم قرار دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس پراپیگنڈے کو مزید تقویت دی گئی۔ 

 ۱۹۹۰ء کے عشرے میں اس کی سب سے مہلک شکل سامنے آئی۔ جب کشمیریوں نے بھارتی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تو نئی دہلی نے یہ موقع غنیمت جانا اور انڈین حکمرانوں اور ’ہندوتوا‘ کے پرستاروں نے کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی کا الزام مسلمان اکثریت پر لگا دیا، حالانکہ یہ شرمناک ڈراما ان کے اپنے مقرر کردہ گورنر جگ موہن نے رچایا تھا۔ درحقیقت یہ جگ موہن ہی تھا، جس نے ان کی بے دخلی کو منظم اور آسان بنایا تاکہ کشمیری مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا راستہ کھل جائے، اور منصوبے کے مطابق، پنڈتوں کے روانہ ہونے کے صرف چند ہی دنوں بعد ہزاروں کشمیری مسلمانوں کا خون بہایا گیا اور اس طرح جدید تاریخ کے سب سے وحشیانہ فوجی آپریشنوں کا آغاز ہوا۔ 

آج یہ نفرت اس درجہ بڑھ چکی ہے کہ ہر کشمیری کو غیر معمولی نفسیاتی دباؤ میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ ہرکشمیری سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حد سے زیادہ شائستہ، حد سے زیادہ صابر اور حد سے زیادہ پُرامن رہتے ہوئے مسلسل اپنی پُرامن فطرت ثابت کرتا پھرے۔ اس پر براہِ راست اور بالواسطہ دباؤڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی اس مزاحمتی تحریک سے بھی لاتعلقی اختیار کر لے، جو اس نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے شروع کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیریوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ غداری کررہے ہیں جس ملک کی وفاداری کا حلف انھوں نے کبھی لیا ہی نہیں، جس میں وہ کبھی اپنی رضامندی سے شامل ہی نہیں ہوئے اور جسے وہ کبھی اپنا ملک نہیں سمجھتے۔ حق خود ارادیت کا مطالبہ، جس کا انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے اقوامِ متحدہ میں کھلے عام وعدہ کیا تھا، اسے جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ 

اس تناظر میں انڈیا نے ایک بار پھر وہی پرانا ڈراما شروع کر دیا ہے، جس میں کشمیریوں کو مستقل ملزم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور ریاستی مشینری ’سیکیورٹی‘ کے لبادے میں انتقام کے جذبے کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہے۔ حالیہ دہلی دھماکا، جو ابھی تک غیر یقینی صورتِ حال اور بے جواب سوالات میں لپٹا ہوا ہے، کشمیریوں کے خلاف گرفتاریوں، چھاپوں، تفتیش اور نفسیاتی جنگ کی نئی لہر کے لیے ایک نیا بہانہ بنالیا گیا ہے۔ 

دہلی کے مبینہ واقعے سے بھی پہلے، ہزاروں کشمیریوں کوجن میں طلبہ، مزدور، تاجر اور مسافر شامل ہیں، —وادیٔ کشمیر میں ’پری ایمپٹو ڈیٹینشن‘ کے نام پر گھیر کر پکڑ لیا گیا۔ ۹نومبر ۲۰۲۵ء کو ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کو سری نگر میں کشمیر کی آزادی کے حق میں پوسٹرز لگانے کے الزام پر انڈین ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور میں گرفتار کیا گیا ہے، جو وہاں ایک نجی ہسپتال میں کام کر رہا تھا۔ پولیس نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈاکٹر عادل احمد کی شناخت سی سی ٹی وی فوٹیج کے ذریعے ہوئی ہے جس میں اسے سرینگر کے متعدد مقامات پر پوسٹرز لگاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔۱۱ نومبر ۲۰۲۵ء کو ضلع پلوامہ، شوپیاں، سرینگر، بڈگام، ہندواڑہ، کولگام اور گاندربل کے علاقوں میں انڈین فوج اور پولیس اہلکاروں اور دیگر ایجنسیوں نے صرف تین دنوں کے دوران محاصرے اور تلاشی کی مہم تیز کرتے ہوئے تقریباً ۱۵۰۰؍ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کر لیا۔   ان کارروائیوں کا بنیادی ہدف آزادی پسند کارکن اور ان کے ہمدرد تھے، جن کے مکان اور بینک کی دستاویزات، ڈیجیٹل آلات، کتابیں اور دیگر اشیا ضبط کیے گئے۔ 

بریکنگ نیوز کی ہیڈلائن ’دہلی دھماکا کیس میں ایک اور کشمیری گرفتار‘ اتنی بار دُہرایا جا رہا ہے کہ وہ بھارت کا قومی نعرہ لگنے لگا ہے۔ اب وہ خاص طور پر اور دانستہ طور پر کشمیریوں کے دانش ور طبقے کو نشانہ بنا رہے ہیں، ’وائٹ کالر دہشت گردی‘ جیسی نئی اصطلاحات گھڑ کر ہر کشمیری پر شک اور مسلمان ہونے کی سزا دے رہے ہیں، تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جہاں ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر اور محققین کو بغیر کسی جواز کے ستایا جا سکے۔ 

 ۱۳ نومبر ۲۰۲۵ء کو انڈین تحقیقاتی ایجنسیوں نے دلی میں لال قلعے کے قریب ہونے والے حالیہ دھماکے کی آڑ میں ڈاکٹر عمر النبی اور مزمل احمد گنائی سمیت ۵۷ ڈاکٹروں کو دھماکے میں ملوث کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس کی تفتیشی ٹیموں نے وادی میں پہنچ کر تین ڈاکٹروں اور خواتین سمیت ۱۷ سو سے زائد کشمیریوں کو حراست میں لیا، جن میں سے بہت سوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اےجیسے کالے قوانین کے تحت جیل بھیج دیا گیا ہے۔  

انڈین قابض انتظامیہ نے سیاسی اور دینی تنظیموں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھتے ہوئے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور دیگر حریت پسند تنظیموں کے اراکین اور کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر مکینوں کو ہراساں کیا اور بینک اور مکانوں کے اہم کاغذات، موبائل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ قبضے میں لے لیے ہیں۔ ضلع پونچھ میں پولیس نے ایک کشمیری محمد اقبال کی جائیداد، جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے، ضبط کر لی۔  

انڈین فوج، انڈین پولیس، اور کاؤنٹر انٹیلی جنس کشمیر کے اہلکاروں نے وادیٔ کشمیر کے اسلام آباد، پلوامہ اور کولگام اضلاع کے علاوہ جموں خطے کے ضلع ڈوڈہ میں تقریباً ۱۳ مقامات پر چھاپے مارے اور آزادی پسند کارکنوں، کشمیری پیشہ ور افراد اور عام شہریوں کے گھروں کو نشانہ بنایا۔ ۱۵ نومبر ۲۰۲۵ء کو گرمائی دارالحکومت سری نگر کے مضافات میں واقع نوگام تھانے میں ہونے والے ایک پُراسرار دھماکے میں کم از کم ۹ پولیس اہلکار ہلاک، جب کہ ۳۰ کے لگ بھگ زخمی ہو گئے اور یہ تمام کے تمام مسلمان ہیں ۔ دھماکا اس وقت ہوا جب پولیس کی ایک ٹیم تھانے میں رکھے گئے دھماکا خیز مواد کی جانچ کر رہی تھی۔  

قبل ازیں انڈین حکام نے انڈین ریاست ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں ایک کرائے کے مکان سے ۳۶۰ کلو گرام دھماکا خیز مواد کی برآمدگی کا دعویٰ کیا تھا۔ مواد کا کچھ حصہ جانچ کے لیے نوگام تھانے میں لایا گیا تھا۔ حکام نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ فرید آباد کے جس مکان سے دھماکاخیز مواد برآمد کیا گیا اس میں ایک کشمیری ڈاکٹر مزمل گنائی رہائش پذیر تھا۔ پولیس نے مزمل گنائی کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔یہاں یہ سوال پیدا ہوا کہ جب وادی میں ہونے والے بم دھماکوں میں شامل مواد کو دہلی فرانزک ٹیسٹ کے لیے لیاجاتا تھا، تو اب کی بار کیوں دہلی اور یوپی کی جدید ترین فرانزک لیبارٹریز پر کشمیر کےایک دُور دراز دیہات کے تھانے کی فرانزک لیبارٹری کا انتخاب کیا گیا؟ 

بات یہ نہیں کہ پہلے وہ ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کو نشانہ نہیں بناتے تھے، انھوں نے ماضی میں سینکڑوں ایسے افراد کو قتل کیا ہے۔ لیکن اب ان افراد کے خلاف تشدد کشمیری دانش ور برادری کے پورے طبقے کے خلاف ایک مکمل حملے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔آج کا انڈیا سو فی صد اسلام مخالف اور کشمیر مخالف بیانئے کے ایندھن پر چل رہا ہے اور لگتا ہے کہ ’ہندوتوا‘ کے پرستاروں کو ایک مستقل دشمن اور ولن کی ضرورت ہے، جس کے وجود سے ریاستی جبر، نفرت کی مشینری اور ہندوتوا کے نظریاتی خوابوں کو جواز ملتا رہے۔ اس کردار کے لیے کشمیریوں سے بہتر کوئی کردار نہیں۔ بقول ان کی فلاسفی کے کہ کشمیری ظاہری طور پر تو سیدھے سادھے مسلمان لگتے ہیں، لیکن سیاسی طور پر سرکش ہیں۔  

اس سوچ کا احاطہ معروف کشمیری نژاد امریکی مصنفہ اطہر ضیا نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ’قابل گردن زدنی‘ قوم ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے یہی نظر آتا ہے اگر انڈیا کے بس میں ہوتا تو وہ ہرکشمیری مسلمان کو گرفتار کر لیتا، پوری قوم کو کسی دھماکے سے جوڑ کر جیلوں میں ڈال دیتا اور ساری آبادی کو ایک ہیڈلائن کا توسیعی حصہ بنا دیتا۔ ابھی تک اسے صرف عالمی سطح پر جمہوریت کا چربہ برقرار رکھنے کی مجبوری ہے۔انڈین عوام سے توقع رکھنا کہ وہ تاریخ سمجھیں گے اور اپنے تعصب سے باہر نکلیں گے، ایک مشکل بات لگتی ہے۔ وہ نادان جنونی جو انڈین مسلمانوں کو محض فریج میں گوشت رکھنے کے شبہے میں بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں اور کھلم کھلا ان کے قتل عام کا مطالبہ کرتے ہیں، ان سے یہ توقع بے کار ہے۔ 

دُنیا کو جاگنا ہو گا اور ایک اور بڑے قتل عام کو روکنا ہو گا۔ انڈیا چاہتا ہے کہ عالمی برادری، کشمیریوں کو ولن، دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھ لے، تاکہ جب اگلی بڑی بے دخلی یا قتلِ عام ہو تو دنیا کندھے اُچکائے، یا اس سے بھی بُرا کوئی طریقہ اختیار کر کے، متاثرین کو ہی قصوروار ٹھیرائے۔ اسلامی دنیا کو بالخصوص اس صورت حال کو دیکھنا ہو گا اوربروقت اقدامات اٹھانے پڑیں گے ورنہ ایک اور جموں جیسا قتل عام اور اسپین جیسا منظر نامہ بالکل سامنے نظر آ رہا ہے۔