عارف الحق عارف


آزاد کشمیرکی وادی بِناہ میں مولانا محمد اعظم صاحب، ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے بیٹے محمد شفیع بھائی سے بھی دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ اور پھر یہ دوستی تھوڑے عرصے کے لیے استاد اور شاگرد کے رشتے میں بدل گئی کہ وہ ہمارے پاس انگریزی پڑھنے کے لیے آنے لگے۔ ہم میٹرک کے بعد نومبر ۱۹۶۰ء میں کراچی آگئے اور محمد شفیع بھی دینی تعلیم کے لیے لاہور چلے گئے ،اور پھر وہیں، ماڈل ٹاؤن کی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ انھوں نے اپنی خطابت میں جوشیلے پن کی مناسبت سے ’جوش‘ کا لاحقہ بھی لگا لیا۔
برسوں بعد ۱۹۸۰ء میں ایک ملاقات کے دوران انھوں نے مولانا مودودیؒ کی زندگی کے بعض ایسے درخشاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جو ابھی تک ہم سے مخفی تھے اور ان کے بقول مولانا کی ہدایت تھی کہ ان کو بیان نہ کیا جائے۔ ایسی باتوں میں سے ایک حصہ اس رُوداد کا بھی شامل ہے، جو ’جب کلمہ طیبہ متنازع بنا دیا گیا‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے ستمبر۲۰۲۰ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ مولانا محمد شفیع نے بڑی تفصیل کے ساتھ مولانا سے اپنی ملاقاتوں اور اسلامیات کی نصابی کتاب میں کلمہ طیبہ میں اضافے کی نشان دہی، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور اس کے لیے مولانا مودودیؒ کی طرف سے جملہ اخراجات کی ذمہ داری تک کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
مولانا مودودی فرقہ وارانہ سوچ سے نہ صرف لا تعلق تھے، بلکہ سارے مکاتب فکر کے  جید علمائے کرام کے لیے احترام کے جذبات رکھتے تھے اور اس اعلیٰ مقصد کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون کرنے اور ان کو اعتماد میں لینے کے بھی شدت سے حامی تھے۔ بریلوی مکتبہ فکر کے عالم دین مولانا شفیع جوش سے ان کا اس قدر قریبی تعلق اور ان پر اعتماد اس کا واضح ثبوت تھا کہ سیدی نے کلمہ طیبہ کے حوالے سے ان کی نشان دہی اور تشویش کو پوری ملت اسلامیہ کا اہم مسئلہ سمجھا اوران سے بھرپور علمی،قانونی اور مالی تعاون کیا۔
ایسے ہی اعتماد کا مظاہرہ انھوں نے ایک اور موقع پر مفتی اعظم پاکستان شیخ الحدیث مفتی ولی حسنؒ کے ساتھ بھی کیا تھا، کہ جب انھوں نے ۱۹۷۸ء میں ریڈیوپاکستان سے نشر ہونے والے مشہور انٹر ویو میں ایڈیٹنگ سے پیدا ہونے والے اعتراض کی اپنی طرف سے وضاحت لکھ کر اخبارات کو جاری کرنے کا اختیار انھیں دیا تھا۔
۱۹۸۰ء ہی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج کی سعادت سے نوازا۔ رابطہ عالم اسلامی نے مختلف ممالک کے عازمین حج کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مکہ المکرمہ میں اپنا مہمان بنا لیا۔ ان مہمانوں میں  چیف جسٹس (ریٹائرڈ ) سردار محمداقبال بھی شامل تھے، جوحج کی سعادت کے لیے تشریف لائے تھے۔ اس لیے ہمیں ان سے کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور پھر مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ کا مبارک سفر بھی ہم دونوں نے ایک ہی گاڑی میں کیا۔ مکہ المکرمہ سے مدینہ المنورہ کے سفر کے دوران ہم نے ان سے دوسری باتوں کے علاوہ اس خاص مقدمے کا بھی ذکر کیا اور اس کے بارے میں چند سوالات بھی کیے۔ انھوں نے حیران ہوکر سوال کیا: ’’آپ کو اس کا علم کیسے ہوا ؟‘‘ جس پر انھیں بتایا کہ ’’ہم اور مولانا شفیع جوش، آزاد کشمیر کے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور بچپن کے دوست ہیں‘‘ تو یہ سن کر وہ بڑے خوش ہوئے اور مولانا جوش کے جذبۂ ایمانی اور کلمہ طیبہ کے تحفظ کے لیے ان کے جوش و خروش کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’میں ان کا شکر گزار ہوں کہ عدالت میں ان کے ایک مکالمے نے مجھے ایمان کی دولت سے مالامال کردیا‘‘۔
مولانا جوش نے ہمیں مزید بتایا تھا کہ ’’اسی زمانے میں مولانا مودودیؒ کی اپنے ساتھ شفقت، سرپرستی اور محبت سے بڑا متاثر تھا کہ انھوں نے قرآن وحدیث کے مجھ جیسے ایک ادنیٰ طالب علم کو اس قدر اہمیت دی اور قادیانیوں کی کتب کے حوالے سے تحقیقی کام کی سرپرستی اور رہنمائی بھی کی۔ نمازِ عصر کے بعد کی عصری نشستوں میں مَیں پابندی کے ساتھ شریک ہوتا تھا، اور ان دنوں اخبارات میں مضامین لکھنے کا بھی شوق تھا اور یہ مضامین نوائے وقت میں شائع ہوتے تھے۔ ایساہی میرا ایک مضمون امام اعظم امام ابو حنیفہؒ پر شائع ہوا، جس میں ان کے آباواجداد کے عجمی النسل اور اپنے قبیلے جاٹ ہونے اور قدیم علاقائی تعلق کے بارے میں یہ بات لکھی تھی کہ ’’امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دادا ،شمالی ہندستان سے کشمیر، کشمیر سے افغانستان اور افغانستان سے کوفہ میں آباد ہوئے‘‘۔ اس مضمون کی اشاعت کے ایک دو دن بعد میں حسب معمول عصری نشست میں شرکت کے لیے پہنچا، تو مولانا نے بڑے خوش گوار موڈ میں منہ میں پان کی گلوری لیتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بہت ہی پیارے انداز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا:’’جوش صاحب، امام ابوحنیفہؒ کے علاقائی تعلق کے بارے میں آپ نے شمالی ہندستان لکھنے کا خواہ مخواہ تکلف کیا ؟ سیدھے سبھاؤ لکھ دیتے کہ وہ ’مجوال شریف‘ ( آزاد کشمیر میں مولانا جوش کا گاؤں ) سے افغانستان اور وہاں سے کوفہ گئے تھے‘‘۔ اس پر مجلس میں زور کا قہقہہ لگا اور بات آئی گئی ہوگئی۔ تاہم، میں بہت حیران ہوا کہ مولانا نے مجھ جیسے عام نوجوان کا مضمون بھی مطالعہ فرمایا ہے۔
’’کچھ دن گزرے تو ہفت روزہ ایشیا میں یہ واقعہ ایک لطیفے کے طور پر شائع ہوگیا اور مَیں اس کی اشاعت سے بھی لا علم تھا۔ ایک ڈیڑھ مہینے بعد اپنے گاؤں گیا۔ آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان دورے پر ہمارے گاؤں آئے اور انھوں نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اس علاقے سے تو پہلے ہی واقف تھا، لیکن مولانا شفیع جوش نے ایک ایسا انکشاف کیا ہے کہ میں خاص طور پر اس گاؤں کو ایک بار پھر دیکھنے آیا ہوں کہ اس مجوال شریف کو دیکھوں جہاں امام ابو حنیفہؒ کا خاندان پہلے پہل آباد تھا‘‘۔ اور پھر انھوں نے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہونے والے مولانا مودودیؒ کے اس لطیفے کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’’مجھے تو یہاں کسی ’شریف‘ کا مزار نظر نہیں آیا‘‘۔ جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ ’’ہمارے یہاں مرنے کے بعد نہیں بلکہ زندگی ہی میں لوگ’شریف‘ کہلاتے ہیں‘‘۔
محمد شفیع صاحب نے یہ بھی بتایا:’’۱۹۷۴ء میں سردار عبدالقیوم صاحب نے مجھے کہا کہ تم قادیانیوں کی ساری کتابوں کا عام مولویوں اور روایتی مناظرہ بازوں کی طرح نہیں بلکہ ایک ریسرچ اسکالر کی طرح آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن وسنت کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لو اور ایک    مدلل کیس تیار کرو کہ ان دلائل کی بنیاد پر انھیں دائرۂ اسلام سے خارج کیا جا سکتا ہے‘‘ ۔ چنانچہ میں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی سو سے اوپر اور دوسرے مصنّفین کی ۵۰ کتب کا تنقیدی مطالعہ کیا اور ان تمام عبارتوں کی نشان دہی کی جہاں جہاں من مانی تفسیر،تشریح اور تعبیر کی گئی تھی۔ ان کتب کے بغور مطالعے کے دوران پتا چلا کہ ختم نبوت کا انکار تو ایک جرم ہے،پھر جہاد کا انکار دوسرا جرم ہے لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا سب سے بڑا کفر اس جرم کی صورت میں سامنے آیا کہ اس نے اپنے گمراہ کن اور کافرانہ دعویٰ نبوت کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے سات آیات قرآنی میں لفظی تحریف کر رکھی ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ کرتے کرتے جب میری نگاہ اس کی کتاب حقیقت الوحی  میں سورۃ الانبیاء کی آیت ۲۵ پر پڑی تو ماتھا ٹھنکا۔ جس کا اصل متن یہ ہے:  وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ۝۲۵ لیکن مرزا کی کتاب میں اس طرح لکھا ہوا ملا: وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَلَا نَبِیٍّ وَلَا مُحَدِّثٍ۔ اس آیت کو براہین احمدیہ کی فہرست ص۳۸ میں سورۃ الانبیاء کی آیت ۲۱، اور ۲۵ دکھایا گیا تھا۔ اس میں لفظ ’محدث‘ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ حالاں کہ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے مرزا صاحب کی کتب میں موجود قرآنی آیات کا زیادہ گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا تو مزید چھے آیات میں لفظی تحریف کا سراغ مل گیا‘‘۔
’’ اس قسم کی گستاخی کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے قرآن کریم میں لفظی تحریف کی ان ساری آیات کو حوالوں کے ساتھ جمع کیا اور مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے قرآن مجید میں الفاظ کی تحریف پر تحریف قرآن اور قادیانی امت اور قرآن کے نام سے الگ الگ دو کتابچے لکھے جن کو جمعیت اتحاد العلمائے پاکستان نے بڑی تعداد میں طبع کرایا۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اس کی باز گشت  سنی گئی اور حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ جس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ     یہ تحریف ثابت ہوتی ہے۔ اس پر قادیانی مرکز ربوہ سے ان کے ذمہ داروں کی طرف سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور اس لفظی تحریف کو ’سہو کتابت‘ قرار دیتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ اس کی اصلاح کر دی جائے گی۔حالاں کہ اس تحریف کو کسی بھی طرح کتابت کی غلطی تسلیم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کاوش کا علم سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ہوا، توانھوں نے ملاقات میں میری کوشش کی تحسین فرمائی‘‘۔
میں نے یہ تفصیلات اس نسبت سے تحریر کی ہیں کہ قارئین مولانا مودودی مرحوم و مغفور کی اس خوبی سے واقف ہوں، جس کے تحت وہ دین کے کام کے لیے ہرسطح پر افراد کی قدر کرتے تھے، چیزوں پر نظر رکھتے تھے اور نہایت مشفقانہ انداز سے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔

شروع سے میری عادت ہے کہ جہاز یا بس کے سفر پر ہوں یا کسی تقریب یا دفتر میں، کوشش کرتا ہوں کہ ساتھ بیٹھے ہوئے یا ملاقاتی سے بات چیت کروں۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ دوتین سوالات اور ان کے جوابات سے کسی مشترکہ تعلق کا علم ہو جاتا ہے اور پھر اگر ایک دوسرے کے مزاج اور خیالات میں کچھ ہم آہنگی ہو تو یہ ملاقات دوستی میں بھی بدل جاتی ہے۔مارچ ۲۰۱۸ء کے آخری ہفتے ایک بار پھر اللہ تعالیٰ نے عمرے کی سعادت بخشی۔ 
دوبئی کے راستے امریکا واپسی کا سفر شروع ہوا تو جہاز میں میری ملاقات ساتھ والی نشستوں پر بیٹھے پاکستان سے تعلق رکھنے والے میاں بیوی سے ہوئی۔معلوم کرنے پر انھوں نے اپنا نام شعیب لاری بتایا۔ پھر چند سوالات پر جان پہچان کا تعلق قائم ہو گیا۔ اسی گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ امریکا کی مشہور یونی ورسٹی سٹن فورڈ  سے پی ایچ ڈی ہیں ۔ ہمارا سان فرانسسکو تک یہ تقریباً ۱۴گھنٹے کا سفر تھا۔ایک آدھ گھنٹے بعد ہم زیادہ بے تکلفی سے گفتگو کررہےتھے۔ اسی گفتگو کے دوران میری نگاہ ان کے ذرا بڑی اسکرین والے موبائل فون پر پڑی، جس کی اسکرین پر تفہیم القرآن   کا صفحہ صاف نظر آرہا تھا۔میں نے دل میں سوچا کہ کہ بندہ تو اپنا ہم خیال بھی ہے، جس سے  والہانہ پن محسوس ہوا۔اب ان سے بات چیت کا موضوع یہ صفحہ بن گیا۔ میں نے اپنے بارے میں کچھ بتائے بغیر پوچھا: ’’یہ فون کی اسکرین پر کیا عبارت ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’یہ قرآن کی تفسیر تفہیم القرآن ہے، جس کا میں مطالعہ کرتا رہتا ہوں‘‘۔ میں نے مختصراً کہا کہ: ’’یہ میری بھی پسندیدہ تفسیر ہے، اور یہ میرے زیر مطالعہ رہتی ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوئے۔اب ہمارے درمیان اجنبیت ختم ہوچکی تھی۔ انھوں نے پاکستان میں اپنی تعلیم اور امریکا آمد اور مزید تعلیم کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ 
کچھ دیر کے بعد انھوں نے ایک اہم ذاتی معاملے پر مشاورت کے سے انداز میں کہا: ’’میں ان شاء اللہ اپنے بیٹے ظافر کا آیندہ ماہ نکاح کرنا چاہتا ہوں اور ستمبر میں ولیمہ ہوگا، جس میں آپ کو آنا ہو گا۔ یہ چاہتا ہوں کہ ولیمہ کے موقعے پر شرکا کو ایسا تحفہ دوں، جس نے میری زندگی بدل دی تھی اور اب میں چاہتا ہوں کہ ان مہمانوں کو بھی وہی تحفہ دوں، تا کہ وہ اور ان کے اہل خانہ بھی اس سے استفادہ کر سکیں‘‘۔ میں نے پوچھا: ’’آپ کیا تحفہ دینا چاہتے ہیں؟‘‘ ان کے جواب نے مجھے حیرت زدہ کر دیا: ’’میں اپنے مہمانوں کو مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی کی مشہور کتاب خطبات  تحفے کے طور پر دینا چاہتا ہوں‘‘۔ 
حیرانی اس بات پر نہیں تھی کہ وہ خطبات کا تحفہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ ان کی اس ہمت،جرأت اور حوصلے پر تھی کہ وہ یہ کام امریکا میں ولیمے کی ایک بڑی تقریب میں علانیہ کرنا چاہتے ہیں۔میں نے سوچا کہ اس شخص میں کتنا حوصلہ اور جذبہ ہے،حالاں کہ لوگ نام اور تعلق چھپانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں نے ان کی حوصلہ شکنی نہیں کی تاہم، یہ مشورہ ضرور دیا کہ: ’’آپ یہ کام اس کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے کر کریں‘‘۔ یہ خیال بھی گزرا کہ ممکن ہے وہ  اس وقت کسی خاص جذباتی کیفیت میں ہوں مگر شاید عملی طور پر وہ ایسا نہ کر سکیں گے۔ امریکا پہنچنے کے بعد دوچار بار فون پر ان سے بات ہوئی، مگر انھوں نے پھر دوبارہ اس بات کا ذکر نہیں کیا، جس سے میرے اس خیال کو تقویت مل رہی تھی کہ اب ان کا ایسا کرنے کا ارادہ نہیں۔ 
کچھ عرصے بعد ان کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا کہ ۳ ستمبر کو شہرسانتا کلارا  (کیلے فورنیا) کے چاندنی شادی ہال میں بیٹے کی تقریب ولیمہ ہے اور مجھے اس میں لازمی شرکت کرنا ہے ۔چنانچہ میں اپنے بیٹے اعجاز عارف کے ساتھ ولیمے کی تقریب میں شریک ہوا۔ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔میرا بیٹا چوںکہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۲ءتک اسی شہر میں رہ چکا تھا، اس لیے وہ بہت سے شرکا کو جانتا تھا۔ اس کے مطابق اس تقریب میں جدید ٹکنالوجی کے ماہرین، پروفیسر اور بڑی بڑی کمپنیوں کے چیف ،ڈاکٹر اور انجینیر موجود تھے۔مغرب کی اذان تک تمام مہمان آ چکے تھے۔ نماز مغرب کی ادایگی کے بعد پروگرام کا اعلان کیا گیا کہ پہلے امام احسن سید سہرا پیش کریں گے اور اس کے بعد دولہا کے والد ڈاکٹر شعیب مختصر تقریر کریں گے۔ میں اس سے قبل امریکا میں شادی کی درجنوں تقریبات میں دولھا اور دلھن اور ان کے والدین اور بہن بھائیوں کی ایسی تقاریر سن چکا تھا، اس لیے مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔لیکن ان کی تقریر سنی تو احساس ہوا کہ یہ تو شادیوں میں کی جانے والی مختصر تقاریر سے بڑی مختلف تھی۔ ڈاکٹر شعیب لاری کی یہ اپنی نوعیت کی وہ تقریر تھی، جس نے تمام شرکا کو حیران کر دیا تھا۔ انھوں نے خوشی کی اس تقریب کو بھی اسلام کا پیغام، اس کے شرکا تک پہنچانے کا ذریعہ بنا لیا تھا۔ 
ڈاکٹر شعیب لاری نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کا آغاز اس طرح کیا کہ: ’’میں اس موقعے پر آپ کو چند ایسے مشورے دینا چاہوں گا، جن کا مجھے اور میرے خاندان کو بڑا فائدہ ہوا، اور چاہتا ہوں کہ آپ کو بھی اس میں شریک کروں، تا کہ آپ اور آپ کی نئی نسل بھی ان سے استفادہ کرے۔ یہ گفتگو چار نکات کی صورت میں پیش خدمت ہے:
۱- Always Tell the Truth (ہمیشہ سچ بولیں): اپنی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہ بنا لیں کہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے۔ اس لیے کہ : ¤ جھوٹ بولنا اللہ تعالی کو پسند نہیں۔ قرآن و سنت کی تعلیمات سے صاف ظاہر ہے کہ جھوٹ بولنے والا اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے، جس سے ہرایک مسلمان کو ہر حالت میں پناہ مانگنی چاہیے۔ ¤ سچ اعتماد کی بنیاد ہے اور اعتماد ذاتی تعلقات اور ہر اچھے کام کو مضبوط کرتا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ اگر ایک شخص۹۹ء۹ فی صد جھوٹ نہیں بولتا تو اس کا صرف  ایک فی صد جھوٹ بھی آپ کے باہمی تعلقات اور کام میں فرق ڈال دے گا اور اعتماد کی پوری عمارت متزلزل ہو جائے گی۔¤ ہر وقت اور ہرمعاملے میں سچ بولنے کی کوشش ہمیشہ غلط کاموں سے رُکنے میں معاون ہو گی اور آپ زندگی بھر تمام دنیاوی اور دینی امور میں بھی دیانت داری کا مظاہرہ کریں گے۔¤ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی بُرائی نہیں کریں گے،جو بجاے خود بہت   بڑا گناہ ہے۔ ¤ آپ جس ملک میں رہ رہے ہیں اس میں تو سب سے بڑا جرم ہی جھوٹ بولنا ہے۔ اس لیے یہاں اس اصول پر عمل کرنا وقت کی بھی ضرورت ہے۔ 
۲-  Pray Five Times (پانچ وقت کی نماز پڑھیے): ¤ کبھی نماز کی ادایگی سے غفلت نہ برتیں، اور کوشش کر کے با جماعت ادا کریں۔ ¤ ہمارے دین میں نماز وقت پر پابندی سے ادا کرنا فرض ہے،جو ہمارے ایمان کی بنیاد بھی ہے۔¤ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری ہرچیز کا انحصار اللہ اور آخرت پر ایمان ہے۔اگر ایمان ہمارے دین کا دل ہے تو نماز اس دل کی سانس اور دھڑکن ہے۔ ¤جب ہم دن میں پانچ بار نماز پڑھتے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے ایمان کے عہد کو تازہ کرتے ہیں۔ ¤ نماز بے حیا ئی اور فحاشی سے روکتی ہے۔ ¤ نماز سے زندگی میں ڈسپلن اور احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتا ہے، جو زندگی کے ہر کام میں مدد اور قناعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ¤ نماز زندگی کو گھڑی کی طرح وقت کا پابند بناتی ہے۔ ¤ نماز کی ادایگی سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ¤ دعا نماز کا اہم حصہ ہے۔ دعا میں ہم اللہ تعالیٰ سے براہِ راست بات کرتے اور جو چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ نماز ہی اللہ تعالیٰ سے ہمارا براہِ راست تعلق قائم کرتی ہے۔ ¤ سب سے اہم نمازِ جمعہ ہے۔ جمعہ کے خطبے کو سننا کبھی نہ بھولیں کہ یہ    نمازِ جمعہ ہی کا لازمی حصہ اور فرض ہے۔ اس لیے خطبہ شروع ہونے سے پہلے مسجد آئیں۔ ¤ کوشش کریں کہ ہماری تمام نمازیں مسجد میں باجماعت ادا ہوں۔مسجد میں آنے سے جہاں بروقت ہر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا موقع ملے گا، وہیں ہمیں دوسرے نمازیوں سے ملنے اور تعلقات قائم کرنے،ایک دوسرے کے حالات جاننے اور باہم اخوت اور بھائی چارے کے تعلقات قائم کرنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔ ¤ جب ہم نماز پڑھیں تو یہ تصور کرتے ہوئے پڑھیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور یہ ہماری آخری نماز بھی ہو سکتی ہے۔ یہ تصور ہماری کیفیت کو بدل دے گا،اور نماز میں خشوع و خضوع اور گریہ و زاری کی کیفیت پیدا ہو گی۔¤ نماز میں جو کچھ پڑھتے ہیں اس کا ترجمہ اس طرح سمجھ لیں کہ جب نماز پڑھ رہے ہوں تو اس کے ہرلفظ کا مفہوم ہماری  سمجھ میں آرہا ہو۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ہماری توجہ صرف نماز پر اور اس میں ادا کیے جانے والے الفاظ پر مرکوز رہے گی۔ ¤ اگر کسی وجہ سے مسجد جانا ممکن نہ ہو تو دفتر یا گھر میں جہاں بھی ہوں با جماعت نماز کا ضرور اہتمام کریں، اور گھر کے افراد کے ساتھ تو ایک یا دونمازیں جماعت کے ساتھ ادا کرنا معمول بنالیں۔ اس طرح بچوں کو جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ہو جائے گی۔نماز کے اختتام کے بعد گھر کا ہر فرد کوئی ایک دعا بلندآواز میں مانگے اور باقی  سب بلند آواز ہی میں آمین کہیں۔ ¤ نماز کے بعد یہ بھی معمول بنائیں کہ پانچ یا ۱۰  منٹ کے لیے کسی قرآنی آیت یا کسی حدیث کو پڑھ کر اس کا مفہوم بیان کیا جائے۔ 
۳-  Be Likeable (پسندیدہ بنیے) : دوسروں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت بننے کو لازم سمجھیں۔ ¤ میں نے پیشہ ورانہ زندگی کی ترقی میں اس کے بڑے فائدے دیکھے ہیں، اور یہ مشاہدہ کی بات ہے کہ بڑے بڑے ذہین انجینیر بھی ترقی کی سیڑھیاں چڑھ نہیں پاتے، اگر ان کے اخلاق اچھے نہ ہوں اور ان کی فرم یا ادارے میں انتظامیہ اور دوسرا عملہ انھیں پسند نہ کرتا ہو ۔ اس کے مقابلے میں وہ لوگ بہت جلد آگے کے عہدوں پر ترقی پا جاتے ہیں، جو ذہین اور اسمارٹ ہونے کے ساتھ سب کی نظروں میں پسندیدہ شخصیت کے بھی مالک ہو تے ہیں۔ یہی لوگ آگے جا کر اپنی کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدوں تک جا پہنچتے ہیں۔ اس میں استثنا ہو سکتا ہے، لیکن زیادہ تر با اخلاق لوگ ہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ یہی لوگ نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی میں، بلکہ عام زندگی میں بھی مقبول اور مطمئن رہتے ہیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اعلیٰ اور اچھے اخلاق کی تعلیم ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھے۔ ہمارے لیے اچھے اخلاق کا مالک ہونا اتنا ہی لازم ہے، جتنا کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ،صدقہ،حج اور دیگر اچھے کام کرنا۔ ¤ میں گھر میں اکثر کہتا ہوں کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک ’چوزی‘ (Choosy) ہیں کہ جن کو لوگ پسند کرتے ہیں اور دوسرے ’موذی‘ ہیں جن سے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے، یا جو پسند نہیں کیے جاتے۔ آپ ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جن کے بارے میں آپ کو کہنا پڑتا ہے کہ کاش!  ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوتے۔اور بعض اچھے اور خوش اخلاق افراد سے مل کر آپ کو خوشی ہوتی ہے،اور پھر وہ زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔ ¤ اچھے اور پسندیدہ بننے کے لیے ضروری کہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹ ہو۔ خیال رہے کہ مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ ¤ ہمیشہ دوسروں سے ان کی اچھی بات کہیں۔ آپ دفتر جائیں یا گھر آئیں، کسی سے ملیں یا کوئی آپ سے ملے، ہمیشہ مسکراہٹ سے ملیں۔ یہ مسکراہٹ پہلی سیڑھی ہے، جو آپ کی شخصیت کو دوسروں سے ممتاز کر کے بلندی کی طرف لے جاتی ہے۔ پھر ہمیشہ خندہ پیشانی کے ساتھ نرم اور مہذب لہجے میں بات کریں۔ ¤ صبر اور توجہ کے ساتھ دوسروں کی بات سنیں اور ان کی مدد کریں۔ ¤ اپنی زندگی سے غصے کو ختم کر دیں کہ غصہ اسلام میں حرام ہے۔ ¤ دوسروں کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرنے کی کوشش کریں اور کبھی ان پر احسان نہ جتائیں۔ ¤ پسندیدہ فرد بننے کا مطلب ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اپنے اصولوں یا عقیدے پر سمجھوتا کیا جائے۔ ¤ اگر آپ کسی سے کسی وجہ سے کوئی اچھی بات نہیں کر سکتے تو پھر بہتر ہے کہ چپ رہیں۔ یہ کہ کسی کو بھی اپنے سے کم تر نہ سمجھیں اور نہ کبھی کسی پر طنز کریں اور نہ کسی کا مذاق اڑائیں۔ ¤ اگر آپ کسی اچھے عہدے پر ہیں تو ہمیشہ اپنے ماتحتوں کا خیال رکھیں، ان کے غم اور خوشی میں ان کا ساتھ دیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ¤ گھر میں بیوی اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔
۴- Read and understand the book Khutbat( خطبات پڑھیںاور سمجھیں): آخری گزارش کے طور پر میں آپ کو ایک ایسی کتاب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس نے میری زندگی پر نہایت گہرے اور مثبت اثرات مرتب کیے۔ اس کتاب نے مجھے اسلام کی صحیح روح اور عقیدے سے روشناس کرایا۔جسے میں نے سب سے پہلے۱۴ یا ۱۵ سال کی عمر میں پڑھا تھا اور اس کے بعد آج تک بار بار پڑھتا رہتا ہوں۔ ¤ قرآن کریم ہماری الہامی کتاب ہے اور ہمیں اس کو اچھے ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہیے۔ قرآن میں بیان کیے گئے عقیدے اور تعلیمات اور عبادات کو مَیں نے بہتر انداز اور آسان اردو میں جس کتاب سے سمجھا وہ کتاب خطبات ہے، جس کے مصنف عالم اسلام اور دنیا کے مشہور اسکالر اور مصنف مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودیؒ ہیں۔ ¤ اس کتاب میں مولانا نے عقیدے اور ساری عبادات نماز، روزہ،زکوٰۃ اور حج کی ضرورت کو نہایت عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے۔آپ اس کتاب کو تسلسل کے ساتھ پڑھتے جائیے، آپ اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس کریں گے۔ چوں کہ مجھے اس سے بڑا فائدہ پہنچا ہے، اس لیے چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کو پڑھیں۔ ¤ اس کتاب کے انگریزی میں دو ترجمے ہوئے ہیں۔ ایک قدیم ہے جو Fundamentals of Islam کے نام سے ملتا ہے، اور دوسرا برطانیہ سے شائع ہوا ہے اور پہلے سے بہتر ہے، اور Let us be Muslims کے نام سے موجود ہے۔ میں خطبات اور اس کا ترجمہ اپنے بیٹے کی شادی کی خوشی میں آپ سب شرکا کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ آپ جب یہاں سے جائیں تو دروازے کے قریب میز سے یہ تحفہ لے جانا نہ بھولیں۔ ¤ مولا نا نے اپنی سیکڑوں کتب کے ساتھ ساتھ توحید،رسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت کے نام سے بھی ایک مختصر کتابچہ لکھا ہے، جس کا انگریزی ترجمہ شائع ہو چکا ہےاور اس کا مطالعہ وقت کی ضرورت ہے۔ ¤ مولانا مودودی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ان کی مشہور زمانہ تفسیر تفہیم القرآن ہے، جو انگریزی کے علاوہ دنیا کی درجنوں زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہے، اور بلاشبہہ اس وقت   دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی قرآن کی ایک تفسیر ہے۔ مجھے تفہیم القرآن کے مسلسل مطالعے سے بھی بڑا فائدہ ہوا ہے اورآپ سے بھی کہوں گا کہ اس کو پڑھیں۔اس کا مقدمہ تو مصنف کی شاہ کار تحریر ہے، جس کا انگریزی ترجمہ Introduction to the Understanding of the Quran (قرآن فہمی کے بنیادی اصول)کے نام سے موجود ہے۔
¤  انھوں نے تقریب میں موجود غیر مسلم مہمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے سفارش کی کہ : ’’آپ مولانا کی کتاب رسالہ دینیات   کا انگریزی ترجمہ Towards Understanding Islam  کے نام سے ضرور پڑھیے ۔ آپ کے لیے بھی شادی کا یہ تحفہ شادی ہال کے دروازے کے پاس میز پر رکھا ہوا ہے‘‘۔
جاتے وقت تمام مہمان ایک ایک پیکٹ اپنے ساتھ لے گئے۔ میں نے گھر آکر پیکٹ کو کھولا تو دیکھا کہ اس میں خطبات کے علاوہ سلامتی کا راستہ ، شہادت حق، فضائل نماز اور مولانا مودودی کا تعارف بھی موجود تھا۔ میں حیران تھا کہ ڈاکٹر شعیب لاری نے امریکا کے   ایک بڑے اہم شہر میں کس طرح اپنے بیٹے کی شادی کی تقریب کو با مقصد بنا دیا تھا اور اس طرح انھوں نے ہم سب کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ شادی بیاہ کی خوشی کی تقریبات کو اس طرح بھی منعقد کیا جا سکتا ہے۔

۱۹۸۴ء میں مجھے بنگلہ دیش جانے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت ڈھاکا میں اسلامی ممالک کے وزراے خارجہ کا اجلاس ہو رہا تھا،جس کی رپورٹنگ کے لیے جنگ گروپ سے مجھے اور اخبار جہاں کے اس وقت کے مدیر نثار احمد زبیری کو بھیجا گیا تھا۔ سیّد منور حسن کی نظامت اعلیٰ کے دوران میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا مہتمم نشرواشاعت اور رکن رہ چکا تھا اور بعد میں جماعت اسلامی سے رکنیت کا تعلق تھا، جب کہ زبیری بھائی کا تعلق بھی ایک سرگرم تحریکی خاندان کے ساتھ تھا ۔ اس لحاظ سے نثار زبیری بھائی سے میری نظریاتی ہم آہنگی موجود تھی۔ چنانچہ ہم اس سفر میں پاکستان واپسی تک ساتھ ساتھ ہی رہے۔

کانفرنس ختم ہونے کے بعد ہم دونوں مزید ایک ہفتہ تک وہیں مقیم رہے۔ اس دوران ہم نے ڈھاکا میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں اور دوسرے بڑے شہر چٹا گانگ کا بھی دورہ کیا۔ جن رہنماؤں سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں حسینہ واجد (موجودہ وزیر اعظم )،پروفیسر غلام اعظم،مطیع الرحمٰن نظامی(شہید)،مشتاق احمد خوند کر اور شفیق اعظم کے نام یاد رہ گئے ہیں۔ حسینہ واجد نے تو اپنے والد شیخ مجیب الرحمٰن کے دھان منڈی والے گھر میں مدعو بھی کیا اور اس کی پہلی منزل پر وہ جگہ بھی دکھائی جہاں ان کو اس وقت موجود خاندان کے تمام افراد کے ساتھ قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت تک اس گھرکی ہر چیز کو اسی حالت میں برقرار رکھا گیا تھا۔ انھوں نے مجھے اور نثار زبیری کواپنے دست خط کے ساتھ اپنی تحریر کردہ ایک کتاب بھی دی جو انگریزی میں تھی اور جس میں ان کے خاندان کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ہماری سب سے تفصیلی اور یادگار ملاقات پروفیسر غلام اعظم صاحب کے ساتھ ہوئی۔ یہ ملاقات اس لیے یادگار تھی کہ اس دوران جہاں مجھے پروفیسر غلام اعظم صاحب کی شخصیت کے کئی نئے گو شوں کو جاننے کا موقع ملا وہیں یہ معلومات بھی حاصل ہوئیں کہ بنگلہ دیش کے سیاسی دھارے میں غداری کے الزامات کے باوجود جماعت اسلامی کو کس طرح دوبارہ اہم مقام حاصل ہوا اور کس طرح خود پروفیسر صاحب کو وہاں کے سیاسی رہنماؤں کے یہاں احترام بلکہ سیاسی گُرو کا درجہ حاصل ہوا ۔

پروفیسر صاحب سے ہماری اس ملاقات سے قبل جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا ایک ا جمالی تعارف اور اس کی مالی اور افرادی حا لت زار کا علم ہمیں ہو چکا تھا۔ ہمارے ڈھاکا آنے کا علم کسی طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک سابق سینیر رہنما کو ہو گیا تھا، وہ ہمارے پہنچتے ہی ہوٹل میں    ہم سے ملنے آگئے تھے۔انھوں نے گفتگو میں ہمیں اختصار کے ساتھ بتا یا تھا کہ جماعت شدید مالی بحران کا شکار ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈھاکا میں جماعت کے مرکز میں صرف ایک پرانی کار تھی۔پورے شہر میں پروفیسر صاحب کے سوا کسی رہنما،رکن یا کارکن کے پاس اپنا ذاتی ملکیتی گھر یا فلیٹ نہیں تھا۔سوائے چند کارکنوں کے کسی کے پاس موٹر سائیکلیں تک نہیں تھیں۔

جماعت کے مرکزی اور ضلعی تنظیمی ڈھانچے کو حالات کے مطابق تبدیل کردیا گیا تھا۔ اس کے انتخابات سالانہ اور کارکردگی کے ساتھ منسلک قرار دیے گئے تھے جس کی وجہ سے ہر سال متحرک اور باصلاحیت نوجوان قیادت اُبھر کر سامنے آتی جارہی تھی۔ اس نئی قیادت کا بڑا حصہ اسلامی جمعیت طلبہ فراہم کر رہی تھی۔اس ملک میں غدار ی کے داغ کے ساتھ کام کرنے والی جماعت اسلامی کو کام کرتے ہوئے صرف ۱۳ سال کا عرصہ ہوا تھا اور اس نے نہ صرف سیاست میں اپنی حیثیت منوا لی تھی بلکہ وہاں کی ایک بڑی سیاسی جماعت خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی (بی این پی) نے اسے اپنا سیاسی حلیف بھی بنا لیا تھا۔اس کی پارلیمنٹ میں مؤثر نمایندگی بھی موجود تھی۔ جماعت نے وہاں یہ مقام کیسے حاصل کیا تھا اور اسے یہ کامیابی کیسے حاصل ہوئی تھی؟ یہ جاننا ضروری تھا۔اس کا جواب وہی شخصیت دے سکتی تھی جس کی فکر رسا نے جماعت کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو نئے حالات کے مطابق تبدیل کر دیا تھا اور جماعت کے کارکنوں میں تبدیلی کی ایک نئی انقلابی روح پھونک دی تھی۔ یہ سحر انگیز شخصیت پروفیسر غلام اعظم صاحب کی تھی۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب سے میری ملاقاتیں پاکستان میں بھی کئی بار اخبار نویس اور کارکن کی حیثیت سے ہو چکی تھیں اور ان سے سب سے زیادہ ملنے کا موقع ۱۹۷۱ء میں اس وقت ملا تھا، جب وہ اور اس وقت کے امیر جماعت مشرقی پاکستان مولانا عبد الرحیم جماعت کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اسی دوران۱۶ دسمبر کو سقوط ڈھاکا ہو گیا۔ وہ کچھ عرصہ لاہور میں رہنے کے بعد کراچی آگئے تھے۔ کراچی میں ان کا قیام جناب ابو محمد مرحوم کے نارتھ ناظم آباد اے بلاک میں نو تعمیر بنگلے میں تھا، جو کراچی جماعت کے مالیاتی امور کے ناظم بھی تھے۔ میرا وہاں اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ اس لیے ان دونوں بزرگوں سے ملاقاتیں بھی ہو تیں بلکہ ان کی وجہ سے میں وہاں زیادہ جاتا اور ان سے استفادہ کرتا۔ اس لیے وہ اچھی طرح متعارف تھے۔

جب میں اور زبیری صاحب مغرب کے بعد ان سے ملنے ان کے جھونپڑی نما گھر کے ایک چھو ٹے سے دفتری ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو وہ مجھے پہلی نظر ہی میں پہچان گئے اور انھوں نے بڑی محبت سے میرے نام ہی سے پکارا۔ زبیری بھائی اس بات پر حیران رہ گئے۔   ابھی ذکر کر چکا ہوں کہ ڈھاکا شہر میں صرف پروفیسر صاحب ہی جماعت کے وہ رہنما تھے،جن کا  اپنا ذاتی گھر تھا۔ جس اسٹریٹ میں ان کا گھر واقع تھا، وہ شہر کا خوش حال علاقہ تھا اور وہاں   پروفیسر صاحب کے بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی درجن بھر بڑی بڑی شان دارکوٹھیاں تھیں۔ لیکن پروفیسرصاحب کے گھر کی حالت کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس لیے کہ میرے اندازے کے مطابق ایک ہزار گز کے رقبے کے اس پلاٹ کے آدھے حصے میں مسجد تھی اور بقیہ پر ان کا گھر۔ اس گھر کی شان بھی ملاحظہ کریں کہ اس کی دیواریں تین تین فٹ سیمنٹ کے بلاکس کی اور بقیہ دیواریں اور چھتیں بانس کے مضبوط ڈنڈوں کے سہارے قائم تھیں۔ اسی لیے اس کو جھونپڑی نما گھر لکھا ہے۔ جس ڈرائنگ روم میں انھوں نے ہمیں خوش آمدید کہا تھا، وہ میرے کراچی میں صحافی سوسائٹی کے نئے گھر کے کچن سے بھی چھوٹا تھا۔جس کی قدرے چھوٹی میز کے سامنے رکھی کرسیاں لکڑی کے تختوں سے بنی ویسی ہی تھیں، جیسے ہمارے یہاں آزاد کشمیر یا پنجاب کے دیہاتی علاقوں کی گزرگاہوں پر بنے چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں آپ نے دیکھی ہوں گی۔

پروفیسر صاحب نے بیٹھتے ہی یہ معذرت بھی کی کہ آپ کو ان چھوٹی چھوٹی کرسیوں پر بیٹھنا پڑ رہا ہے، حالاںکہ آپ کے یہاں تو ایسا نہیں ہے۔ میری شرمندگی کو بھانپتے ہوئے انھوں نے میری اور زبیری بھائی کی معلومات بلکہ حیرت میں مزید اضافہ کر دیا کہ: ’’اسی جگہ اور ان ہی کرسیوں پر رات گئے اکثر سیاسی مشوروں اور تعاون حاصل کرنے کی خاطر جنرل حسین محمد ارشاد، حسینہ واجد، خالدہ ضیا اور دوسرے سیاسی لیڈر آتے ہیں۔ رات کو اس لیے کہ کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہوسکے‘‘۔ اس سے اس زمانے میں پروفیسر صاحب کی قدر و منزلت اور اس وقت کی بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی کی سیاسی سوجھ بوجھ،جدوجہد،حیثیت اور اثرورسوخ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 

ہماری زیادہ تر گفتگو اسی گتھی کو سلجھانے اور اپنی اسی حیرت کو دور کرنے کے بارے میں تھی کہ: ’’آخر یہاں کی جماعت اسلامی کو غداری جیسے سنگین الزام کے دھبے دھونے،عوام میں دوبارہ پذیرائی حاصل کرنے، سیاسی دھارے میں دوسری سیاسی جماعتوں سے برابری کی حیثیت حاصل کرنے کے اقدامات اور اس کے تنظیمی ڈھانچے میں کون سی قابل عمل تبدیلیاں کرنا پڑیں جس کے اتنے اچھے نتائج حاصل ہوئے؟‘‘ ہمارے سارے سوالات اسی صورت حال اور ان کے جوابات حاصل کرنے سے متعلق تھے۔ ہماری بات چیت کا دورانیہ کم و بیش دو گھنٹے پر محیط تھا۔ پروفیسر صاحب نے ان سوالات کو سن کر جو کچھ کہا تھا اس میں سے جس قدر اب مجھے یاد ہے وہ اختصار کے ساتھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب نے تفصیلات بیان کرنا شروع کیں تو ایسے لگا جیسے ایک مفکر اور مدّبر پے در پے حادثوں اور گہرے صدموں کے بعد دریا کی سی روانی کے ساتھ دکھ بھرے انداز میں اپنی آپ بیتی بیان کررہا ہو۔ وہ گویا ہوئے اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے۔

وہ کہہ رہے تھے:’’پاکستان ہمارا وطن تھا جس کو ہم نے بھار ی جانی ومالی نقصان اور معصوم مسلمان عورتوں اور بچیوں کی عصمتوں کی اَن گنت قربانیوں کے بعد پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ کے نعروں کی گونج میں حاصل کیاتھا۔ لیکن ہم نے من حیث القوم اپنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا اور اپنے نئے ملک میں ’قرارداد مقاصد‘ کے متفقہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے بجاے علاقائی، لسانی، فرقہ ورانہ اور مختلف قومیتوں کی سیاست کو فروغ دیا۔ جس کا فائدہ دشمن نے اٹھایا اور اس پاک وطن کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ اس ملک خداداد کو متحد رکھنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچانے کے لیے جتنی قربانیاں آپ نے دیں، اس سے کچھ زیادہ ہم نے بھی دیں۔ جس سے ایک دنیا واقف ہے اور اس کا جتنا دُکھ آپ کو ہے، اس سے زیادہ ہمیں یہاں ہے۔ لیکن ایک بات جو شاید آپ کو بہت بُری لگے، لیکن آپ ہی کے سوالات کے جواب میں مجھے کہنا پڑے گی کہ پاکستان کے دولخت ہونے کا جہاں ہمیں آپ سے زیادہ دُکھ ہے وہیں جماعت اسلامی پاکستان سے ہماری علاحدگی تنظیمی طور پر ایک طرح سے Blessing  in disguise، یعنی خرابی میں کچھ بہتری کا مفہوم لیے ہوئے تھی۔ مطلب یہ ہے کہ حالات کے مطابق نیا تنظیمی، تربیتی اور سیاسی ڈھانچا تشکیل دینے کا چیلنج سامنے آ گیا تھا‘‘۔

انھوں نے بتایا: ’’اب ہمارے سامنے نہ بڑے دفاتر تھے اور نہ مالی وسائل کی فکر اور نہ سہولیات کی فراہمی کی سردردی کہ جن کی وجہ سے بعض اوقات تحریکی ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ تحریکی مناصب کی طلب کو نا اہلی سمجھنے کا تصور ختم ہوجاتا ہے۔ اور بعض مقامات پر ایسے گروہ وجود میں آجاتے ہیں جو عہدوں کے لیے نہ صرف امیدوار ہوتے ہیں، بلکہ  باقاعدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ جس کے بارے میں جماعت اسلامی میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا اور نہ دستور ہی کے مطابق ایسا کرنے کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ ہم نہایت انہماک اور حیرت کے ساتھ جماعت اسلامی کے رہنما کی زبان سے خود احتسابی کی تلخ داستان سن رہے تھے۔

غلام اعظم صاحب بیان کر رہے تھے کہ: ’’جب ملک دو لخت ہوگیا تو جہاں دنیا نے بنگلہ دیش کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا، وہیں اب یہ ہمارا وطن بھی تھا اور اسی سے ہمارا مستقبل وابستہ تھا۔ اس لیے کہ ہم اسی سر زمین میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے تھے۔ ہمارے اس بیانیے کو دوسری قوم پرست جماعتوں کو تسلیم کرنے میں مشکل ضرور تھی، لیکن آخر کار انھوں نے اسے تسلیم کر لیا۔ ہماری مخالفت میں بتدریج کمی آتی گئی اور ہم نے قومی سیاسی دھارے میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ نفرتیں باہمی تعلقات میں بدلنے لگیں اور دیگر سیاسی جماعتوں سے باہمی ملاقاتیں شروع ہوگئیں جن کے بارے میں پہلے سوچنا ہی ایک بھیانک خواب تھا۔اب یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ گیا کہ قومی لیڈر مجھ سے ملاقات اور مشوروں کے لیے رات کے وقت اسی جگہ تشریف لاتے ہیں جہاں اب آپ تشریف فرما ہیں۔

’’آپ نے جماعت اسلامی کے بکھرے اجزا کو کیسے ایک جگہ جمع کیا اور انھیں کیسے متحرک اور سرگرم کیا؟‘‘ یہ میرا اگلا سوال تھا۔ اس پر ان کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک اچھی طرح دیکھی جا سکتی تھی۔

پروفیسر صاحب نے بتانا شروع کیا: ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں تو سقوطِ ڈھاکا کے وقت پاکستان میں معلق (stuck up) ہوگیا تھا اور کچھ عرصے بعد عمرے کی ادایگی کی اور دوبئی منتقل ہو گیا تھا۔میرا تو بنگلہ دیش میں براہِ راست جماعت کے کسی فرد سے رابطہ تک نہیں تھا۔ رابطے کا واحد ذریعہ ڈھاکا سے دوبئی آنے والے افراد تھے۔ ان کے توسط سے مطیع الرحمٰن نظامی (اب شہید ) کو ہدایات اور پیغامات کا سلسلہ شروع کیا، جو میری وطن واپسی تک جاری رہا۔ سب سے پہلا کام بچے کھچے کارکنوں سے رابطہ تھا جو جلد ہی کرلیا گیا۔ اسی طرح اسلامی چھاترو شبّر کو از سرِ نو منظم کیا گیا۔ یہ دونوں کام ایک ساتھ شروع کیے گئے اور دونوں کی اجتماعی قیادت کو اللہ تعالیٰ نے ایسے دُور رس فیصلے کرنے کی توفیق بخشی کہ ان کے نتائج اب تک بہت ہی اچھے نکل رہے ہیں‘‘۔

  • ’’پہلا فیصلہ یہ کیا گیا کہ جماعت اور جمعیت کے کارکن بیک وقت دو نوں کے لیے کام کریں گے۔ اس کا نام dual workership،یعنی دہری رکنیت رکھا گیا۔ اگر کوئی جمعیت کا کارکن ہے تو اسی وقت وہ جماعت کا کام بھی کرے گا۔ اس کا طریقۂ کار یہ طے کیا گیا کہ جمعیت کا کارکن جمعیت کے دعوتی کام کے ساتھ ساتھ اپنے گھر میں اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو بھی جماعت کی دعوت دے گا اور ان کو جماعت میں لانے کے لیے مسلسل کام کرتا رہے گا۔ اسی طرح اگر جماعت کے کارکن کے گھرانے کا کوئی طالب علم ہے تو وہ اس کو جمعیت میں کام کرنے کے لیے بھی آمادہ کرے گا اور اس بارے میں باقاعدہ اپنے نظم کو اطلاع دیتا رہے گا۔ اس نئے نظام کے اچھے نتائج نکلے اور سیکڑوں گھرانے تحریک اسلامی سے نہ صرف متعارف ہوئے بلکہ جماعت کی اصل طاقت بھی بنے۔
  • ’’ایک فیصلہ یہ کیا گیا کہ جماعت اور جمعیت کے کارکنوںاور حامیوں کی دینی تربیت کے لیے ادارے بنائے جائیں اور اس ضمن میں کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے۔ متعدد خصوصی تربیتی ادارے قائم کیے گئے اور مستند علما اور اسکالرز مربی مقرر کیے گئے۔ چھوٹے پیمانے پر اسٹڈی سرکلز کا ایک بڑا مربوط اور مؤثر نظام قائم کیا گیا اور وسیع بنیادوں پر تربیت اور تزکیۂ نفس کا اہتمام کیا گیا۔ تحریکی لٹریچر کو سبق کے طور پر پڑھایا گیا اور ان کی قابلیت کو جانچنے کے لیے باقاعدہ امتحانات کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس طرح تحریکی لٹریچر سے لیس کارکنوں اور ارکان کی ایک بڑی تعداد وجود میں آئی، جو استقامت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوئی اور جماعت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی‘‘  (یہ رہنما اور کارکن اس استقامت کا عملی مظاہرہ اس گفتگو کے ۳۲ سال بعد۲۰۱۲ء سے اب تک مسلسل پھانسیوں، شہادتوں، عقوبت خانوں میں تشدد اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے پیش کر رہے ہیں )۔
  • ایک اور مشترکہ فیصلہ یہ کیا گیا کہ چوں کہ جماعت اسلامی کی فکری اور تجربہ کار قیادت اسلامی جمعیت طلبہ ہی سے فراہم ہورہی ہے، اس لیے دونوں میں دُوری کو ختم کیا جائے اور یہ نہ کہا جائے کہ ہمارا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ واضح کیا جائے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جمعیت اسکولوں اور کالجوں میں دین کی سر بلندی کے لیے کام کرتی ہے اور جماعت کا کام عوامی سطح پر ہے۔ اس فیصلے کی رُو سے طے کیا گیا کہ دونوں کی مرکزی اور ضلعی مجلس شوریٰ اور ارکان اور کارکنان کے اجلاس اور اجتماعات وقفے وقفے سے ایک ساتھ بھی منعقد ہوں اور دعوت عام اور تربیت کے لیے مشترکہ منصوبہ بندی بھی کی جائے،تا کہ جمعیت کے کارکنوں کی جماعت میں آنے کے بعد کام کرنے کی تربیت بھی ہوتی رہے اور جب وہ فارغ ہو کر آئیں تو جماعت میں کام کرنا ان کے لیے مشکل نہ ہو۔اسی فیصلے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ جماعت اور جمعیت کی شوریٰ اور عہدےداروں کا انتخاب سالانہ بنیادوں پر کیا جائے اور انتخاب میں کامیابی کا پیمانہ کارکردگی رکھی جائے۔ اس کے نتیجے میں نوجوانوں کو آگے بڑھ کر کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہمیں اس دوران ہر جگہ نوجوان قیادت ہی کام کرتی ہوئی ملی۔یہاں تک کہ جماعت کے بنگلہ روزنامے کے دفتر میں نائب قاصد سے لے کر ایڈیٹر ، نیوز ایڈیٹر، ایڈیٹر اور پریس ورکر سمیت ہرشعبے میں جماعت کا رکن موجود ہے۔ ان کی یہ بات ہمارے لیے بہت ہی اچنبھے کی بات تھی۔
  • تیسرا بڑا فیصلہ جماعت اور جمعیت کی قیادت نے مشترکہ طور پر یہ کیا اور بعد میں جمعیت کے ارکان نے بھی اس کی توثیق کی کہ جمعیت کے کارکنوں کی تعلیم سے فراغت کے بعد عملی زندگی کے لیے career planningیا عملی زندگی کی منصوبہ کاری مشترکہ قیادت کرے۔اس طرح جمعیت نے اپنے تمام کارکنوں اور ارکان کو اجتماعی قیادت کے حوالے کر دیا اور کہا کہ ہر فرد ان کے فیصلے کی پابندی کرے گا اور اگر غلط فیصلہ کیا گیا تو اللہ کے ہاں غلط فیصلہ کرنے والے ہی جواب دہ ہوں گے۔ اس کا ایک نظام وضع کیا گیا جس پر پوری یک سوئی کے ساتھ ہر سال عمل کیا جاتا ہے۔

اس کا طریق کار یہ رکھا گیا کہ پورے بنگلہ دیش کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جمعیت سے وابستہ کارکنوں کی ان کے آخری سال یا امتحان سے چند (تین یا چھے) ماہ قبل فہرستیں بنائی جائیں اور ان کو مرکز میں رہنماؤں کے مقررہ پینل کے پاس بھیج دیا جائے اور وہ مختلف مواقع پر باری باری انٹرویو کرکے فیصلہ کرے کہ ان طلبہ کو تعلیمی نتیجے، صلاحیت، رجحان اور تقریری اور تحریری صلاحیتوں کے اعتبار سے سرکاری یا نجی شعبوں میں سے کس میدان میں بھیجا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کسی میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں تو اس کو اس کے آبائی علاقے یا شہر کی جماعت کے حوالے کیا جائے اور اس کی اسی لحاظ سے تعمیروترقی کا عمل شروع کیا جائے۔ اس کا بھی ایک طریقہ طے کیا گیا کہ اس کے علاقے یا شہر کی جماعت کے ذمہ داروں کو اس کی اطلاع کی جائے اور جب وہ منتخب طالب علم فراغت کے بعد واپس جائے تو اس کا استقبال کیا جائے، مسجد جائے تو امامت کے لیے آگے کیا جائے، عید کی نماز کی امامت اسی سے کرائی جائے اور اگر مقامی سطح پر کوئی تنازع یا دو گروہوں میں جھگڑا ہو جائے تو کہا جائے کہ اس نئے تعلیم یافتہ یا گریجوایٹ سے فیصلہ کرایا جائے، الغرض ہر ایسا کام کرایا جائے، جس سے اس کی شخصیت محلے اور علاقے میں ایک دانا لیڈر کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے اور پھر اس کی ممکنہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے تشہیر بھی کی جائے۔ اسی طرح اگر کوئی طالب علم بہت ذہین اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا ہے تو اس کے رجحان کے مطابق اسے اعلیٰ سروسز یا پیشہ ورانہ شعبے کے مقابلے کے امتحان کے لیے منتخب کیا جائے یا شعبۂ تدریس کے لیے بھی اس کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

  • ایک اور فیصلے کے مطابق  مختلف شعبوں کے لیے منتخب کیے گئے افراد کی کامیابی اور اس سلسلے کے امتحانات کی تیاری کے لیے باقاعدہ ادارے اور انسٹی ٹیوٹ قائم کیے گئے اور ان کو الگ سے رجسٹر بھی کرایا گیا جن کا عملی سطح پر جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے ان اداروں کا معائنہ بھی کیا۔ عجیب بات تھی کہ یہا ں کی جماعت سے وابستہ افراد مالی لحاظ سے خستہ حالی کا شکار تھے اور وسائل کے لیے ترس رہےتھے۔ لیکن وہ نظریاتی طور پر نہایت مطمئن تھے اور ان کے زیرانتظام قائم جماعت کے سارے ادارے کامیابی کے ساتھ چل رہے تھے۔

پروفیسر غلام اعظم صاحب کہہ رہے تھے کہ: ’’ان فیصلوں اور ان پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کا نتیجہ یہ ہے کہ جمعیت کے ۹۹ فی صد افراد اور کارکن نہ صرف تحریک اسلامی ہی میں شامل رہتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے شعبوں میں جا کر اور اچھے عہدوں پر فائز ہو کر بھی اپنے کام کے ساتھ ساتھ تحریک اسلامی کا کام بھی زیادہ بہتر انداز میں انجام دیتے ہیں۔رضاے الٰہی کا حصول ہمیشہ ان کی نگاہ میں رہتا ہے‘‘۔

اس طریق کار پر عمل کے یہ ابتدائی سال تھے اور پروفیسر صاحب نے اس طرح مقابلے کے امتحانات اور دیگر شعبوں میں کامیاب ہونے والوں کے اعداد و شمار بتا کر ہم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اور میں ان نتائج اور جماعت کی خستہ مالی حالت کے باوجود سیاست سمیت ہر شعبے میں شان دار کامیابیاں دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گیا تھا کہ یہ وہی جماعت اسلامی ہے جو ابھی ۱۳سال پہلے تک جماعت اسلامی پاکستان کا دوسرا بازوتھی۔

یہ ہے وہ مختصر رُوداد اس ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کی، جو میں نے برادرم ڈاکٹر نثار زبیری کے ساتھ اب سے کوئی ۳۴سال پہلے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے عظیم فکری رہنما پروفیسر غلام اعظم صاحب سے کی تھی۔

عالم اسلام آج جس انتشار، بدنظمی اور جمود کا شکار ہے، اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ امراض کا علاج قرآن و سنت میں تدبر و تفکر، اجتہاد کی ضرورت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اعتدال پسندی میں مضمر ہے۔ ہر چند کہ ان مقاصد کے حصول میں وسائل، تنظیم، باہمی اتحاد اور سیاسی اقتدار کا فقدان ہے، مگر ان حوصلہ شکن حالات کے باوجود عالم اسلام کی بعض ہستیوں نے نشاتِ ثانیہ کے لیے علم و دانش اور امید و عمل کے چراغ روشن کیے۔ ایسی نابغۂ روزگار ہستیوں اور سحر انگیز شخصیتوں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی شامل ہیں۔ جنھوں نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام، مسلمانوں کی زندگیوں میں عملی تبدیلی، اسلامی تہذیب کی تعبیر، جذبوں کی تنظیم اور عصر حاضر میں اسلامی اجتماعیت اور اقامت دین کے عظیم فریضے کی تفہیم اور نفاذ کی تحریک برپا کی۔

 سید مودودیؒ کا تذکرہ، درحقیقت فکر و عمل کے قافلۂ حق کے سفر کی روداد ہے۔ یہ روداد ہے ان کی انفرادی اور اجتماعی خدمات سے نمو پانے والے شعور کی، جس نے اپنے فکروعمل سے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔ ان سے فکری اکتساب کرنے والوں میں عصر حاضر کی نوجوان نسل کے علاوہ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ بلاشبہہ میری ذہنی تربیت، میرے کردار اور عمل کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنے، سیدھی راہ دکھانے اور اسلام کا ایک ادنیٰ رضاکار بنانے میں مولانا مودودیؒ کی شخصیت کا بڑا دخل ہے۔

آزاد جموںوکشمیر کے ایک دور افتادہ اوراس وقت کے ایک نسبتاً چھوٹے سے شہر کھوئی رٹہ سے کراچی آکر ملازمت اور اس کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب دیکھنے والے نوجوان نے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس میں کن عوامل کو دخل حاصل تھا اور کیا یہ فیصلہ اس نے سوچے سمجھے بغیر ہی کر لیا تھا؟ اور اگر رشوت سے نفرت اس فیصلے کا محرک تھی تو یہ نفرت آخر کیسے پیدا ہوئی؟ سماجی و معاشی سوچ میں یہ انقلاب کیسے آیا؟ ان سارے سوالات کا بڑا ہی مختصر جواب یہ ہے کہ ناخواندہ مگر صوم وصلوٰۃ کے پابند والد صاحب کا عملی نمونہ تو سامنے تھا ہی، اس دینی گھریلو ماحول کے اثرات اپنی جگہ تھے، مگر جس ہستی نے مجھے مکمل طور پر بدل دیا تھا وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی سحر انگیز شخصیت تھی۔

مولانا مودودی کی کتابوں کا مطالعہ اسکول کے زمانے سے ہی کر رہا تھا۔ اصل میں ان کی مشہور کتاب رسالہ دینیاتہمارے میٹرک کے نصاب میں شامل تھی، جسے سبقاً سبقاً پڑھا تھا اور پھر ان کی دیگر کتب کا مطالعہ بھی بعد میں جاری رہا۔ مولانا محترم کی ان کتب نے میرے اندر ایک قسم کا شعوری انقلاب پیدا کردیا ۔مولانا محترم کا اللہ کے فضل سے مجھ پر یہ اتنا بڑا احسان ہے جس کا اجر انھیں اللہ تعالیٰ روز جزا دیں گے۔ بلاشبہہ اس لٹریچر نے پوری دنیا میں کروڑوں افراد کی زندگیاں بدل ڈالی ہیں اور ان کا مختلف زبانوں میں لٹریچر اور مشہور تفسیر تفہیم القرآن اس وقت بھی لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ یہ تھی وہ افراد سازی جو مولانا محترم کی کتب بتدریج کر رہی تھیں، اور اسی کردار نے مجھے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملازمت سے استعفا جیسا اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر نہ صرف آمادہ بلکہ مجبور کر دیا۔ یہ فیصلہ دراصل میرے دل کی آواز تھی۔

  •  مولانا مودودیؒ سے ملاقات: اس موقع پر چاہوں گا کہ مولانا مودودیؒ سے اپنی پہلی ملاقات کا بھی ذکر کروں۔ میں ۱۹۶۳ ء میں کالج کی چھٹیوں میں اپنے وطن آزاد کشمیر گیا ہوا تھا۔ واپسی پر لاہور آنے کا پروگرام بنایا۔ مقصد جہاں لاہور کے تاریخی مقامات اور شہر کی سیر تھی، وہیں ایک اہم مقصد مولانا مودودیؒ سے ملاقات بھی تھا۔ چنانچہ میں لاہور آنے کے دوسرے دن دوپہر کو پوچھتا ہوااچھرہ پہنچا۔ وہاں مولانا کی رہایش گاہ ۵-اے، ذیلدار پارک کا پتا معلوم کیا اور بالآخر منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ وہاں موجود عملے سے اپنا مدعا بیان کیا اور بتایا کہ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور کراچی میں بسلسلۂ ملازمت مقیم ہوں۔ مولانا مودودیؒ کی کتب زمانہ طالب علمی میں پڑھ چکا ہوں۔ اب کراچی میں جماعت کا کارکن ہوں۔ مولانا محترم کے لیے دن کا یہ وقت چونکہ تحقیق اور تصنیف و تالیف کے لیے وقف ہوتا تھا، اس لیے عموماً وہ اس وقت کسی سے بھی ملاقات نہیں کرتے تھے۔ تاہم میرا آزاد کشمیر سے تعلق غالباً وہاں پر موجود کارکنوں کو متاثر کرگیا، اس لیے انھوں نے ملاقات کی اجازت کے لیے چٹ لکھ کر مولانا کو بھیج دی۔تھوڑی ہی دیر بعد ملاقات کا پیغام آگیا اور میں عملے کی رہنمائی میں مولانا مودودیؒ کے کمرے کی طرف چل پڑا۔

میں بہت خوش تھا کہ میری ایک عرصے کی تمنا پوری ہورہی ہے اور ساتھ ہی مولانا محترم کی شخصیت کا رعب و دبدبہ بھی میرے حواس پر حاوی تھا کہ عالم اسلام کی اتنی بڑی شخصیت سے میں بالمشافہ ملاقات کا شرف حاصل کررہا ہوں۔ ان ملے جلے جذبات کے ساتھ میں کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے سفید براق لباس میں ملبوس ایک نورانی شخصیت کو پایا، جو میری طرف متوجہ تھی۔ میں نے بڑی ہمت کرکے ’السلام علیکم‘ کہا۔ جس کا مولانا محترم نے بڑی محبت کے ساتھ ’وعلیکم السلام‘ جواب دیا اور مجھے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ تو گیا لیکن میری زبان گنگ تھی۔ میں خاموش بیٹھا تھا کہ مولانانے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے خود گفتگو کا آغاز کیا اور پوچھا: ’آپ کیا کرتے ہیں اور کہاں سے تعلق ہے؟‘میں نے جب کشمیر کا ذکر کیا تو مولانا نے نہایت شفقت سے وہاں کے حالات دریافت کیے۔ جو کچھ میں بیان کرسکتا تھا وہ عرض کیا۔ جوں ہی مَیں نے بات مکمل کی تو مولانا کہنے لگے کہ: ’کشمیر میں پاکستان کے مقابلے میں شعور اور خواندگی زیادہ ہے، وہاں جماعت اسلامی کا کام ہر سطح پر منظم کرنا چاہیے‘۔ اس وقت تک آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی قائم نہیں ہوئی تھی، مگر جماعت اسلامی اور مولانا محترم کی شخصیت اور ان کے لٹریچر سے آزاد کشمیر کا  تعلیم یافتہ طبقہ اچھی طرح متعارف تھا ۔ میں نے مولانا محترم سے عرض کیا کہ: ’وہاں جماعت اسلامی کا نظم قائم کرنا چاہیے جس کا جواب انھوں نے یہ دیا کہ: ’پہلے کچھ لوگ جماعت اسلامی کی دعوت کو پوری طرح سمجھ لیں اور یہ کام کرنے کو تیار ہوں تو اس پر کچھ سوچا جاسکتا ہے‘۔

پھر انھوں نے میری تعلیم کے بارے میں دریافت کیا۔ جب میں نے انھیں اپنے حالات اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے شوق کا ذکر کیا تو انھوں نے تحسین آمیز الفاظ کے ساتھ کہا: ’اگر آپ کا یہ شوق اور جذبہ اسی طرح جاری رہاتو اللہ کے فضل سے وہ دن ضرور آئے گا جب آپ کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو ضائع نہیں کرے گا‘۔ آج میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے مولانا محترم کے یہ الفاظ الہامی لگتے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ایک صحافی کی حیثیت سے مولانا محترم کو کئی بار دیکھنے اور ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسوں اور تقریروں کی رپورٹنگ کا بھی موقع ملا او ر مختلف اجتماعات میں ان کی تقریریں سننے کا تو متعدد بار شرف حاصل ہوا۔ ان کی پریس کانفرنسیں اور تقریریں، ان کی تحریروں کی طرح بہت ہی  دل نشین اور پر اثراور اردو ے معلّٰی کا اعلیٰ نمونہ ہوتیں۔اگر ان کوبراہ راست لکھ لیا جاتا تو ان میں کہیں ترمیم و اضافے کی قطعاً ضرورت محسوس نہ ہوتی۔وہی روانی، وہی سلاست اور وہی منطقی استدلال تقریر میں بھی موجزن ہوتا جو ان کی تحریر کا خاصہ تھا۔

 مجھے ان کے ہمراہ ناشتے پر ایک ملاقات اچھی طرح یاد ہے۔ یہ ۱۹۶۷ء ہی کی بات ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر تھے اور بعدازاں جماعت اسلامی پاکستان کے مایہ ناز رہنما پروفیسر غفور احمد کے گھر پر قیام پذیر تھے۔ان دنوں پروفیسر صاحب ناظم آباد نمبر۳ میں رہایش پذیر تھے۔ وہیں پر مولانا کے ساتھ ناشتے میں مختلف شخصیات کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ مجھے روزنامہ جنگ کے دفترمیں اس ناشتے کی اطلاع مل گئی تھی۔ حافظ محمد اسلام صاحب جنگ میں چیف رپورٹر تھے اورسیاسی جماعتوں کی رپورٹنگ کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ وہ تمام سیاسی و مذہبی حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ مولانا محترم بھی ان کو اچھی طرح جانتے تھے۔میں اور دیگر صحافی حضرات مقررہ وقت پر پروفیسرصاحب کے گھر پہنچ گئے۔ پروفیسر صاحب نے مولانا سے ناشتہ شروع کرنے کی درخواست کی، مگر مولانا نے یہ ذومعنی جملہ ادا کرکے سب کو حیران کردیا کہ: ’جب تک اسلام نہیں آئے گا میں ناشتہ نہیں کروں گا‘۔ اصل بات یہ تھی کہ حافظ محمد اسلام ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ تھوڑی دیر میں حافظ محمداسلام مسکراتے ہوئے داخل ہوئے اور دیر سے آنے کی معذرت کی، چنانچہ ان کے آتے ہی ناشتہ لگادیا گیا اور سب نے اس عبقری شخصیت کے ساتھ ناشتہ تناول کیا جس کے دوران ہلکی پھلکی خوش گوار بات چیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اس موقعے پر مجھے مولانا محترم سے ایک اور ملاقات بھی یاد آرہی ہے جو اسلامک ریسرچ اکیڈمی (ادارہ معارف اسلامی) کراچی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ہوئی تھی۔ یہ بھی۱۹۶۸ء، ۱۹۶۹ء کی بات ہے۔ اُس وقت ادارہ معارف اسلامی کا دفتر ناظم آباد نمبر۱، کراچی میں عزیزیہ مسجد کے نزدیک تھا۔ مولانا اس اکیڈمی کے سربراہ تھے۔ سالانہ اجلاس صبح سے جاری تھا۔ میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ پڑوس ہی میں قیام پذیر تھا۔ میرے دوسرے ساتھیوں میں ممتاز احمد اس لحاظ سے واقعی ممتاز تھے کہ وہ بھی اکیڈمی کے فیلوز میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ پروفیسر خورشیداحمد،     ممتاز صحافی مصباح الاسلام فاروقی، ڈاکٹر نثار احمد، سید معروف شاہ شیرازی،سید منور حسن اکیڈمی کے ذمہ دار اور ریسرچ اسکالرتھے۔

مسجد عزیزیہ میں نماز ظہر ادا کی گئی، جس کی امامت مولانا نے کی۔ کھانے کا اہتمام اکیڈمی کے اندر تھا۔ پکوان میں مولانا کی پسند کا خیال رکھا گیا تھا، کچھ ہی دیر میں کھانا لگادیا گیا ۔ برنس روڈ کے وحید ہوٹل کے گولا کباب خاص طور پر منگوانے کے لیے ایک صاحب کو بھیجا گیا تھا جو ابھی تک پہنچے نہیں تھے۔ کافی انتظار کیا گیا مگر ان کے آنے میں تاخیر ہوگئی تو مولانا کی اجازت سے کھانا لگادیا گیا۔ جب مولانا کھانا تناول کرچکے تو کباب بھی آگئے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ ان کی پسندکے کباب آچکے ہیں، مگر مولانا نے معذرت کر لی اور کہا: ’میں ایک بار جب کھانا کھالوں تو اس کے بعد اگر سونے کا نوالہ بھی آجائے تو کبھی نہیں کھاتا، میرے کھانے کے یہ اصول ہیں جن کی کبھی خلاف ورزی نہیں کرتا‘۔ وہاں موجود ہر شخص نے مولانا کے ان الفاظ کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ اس اجلاس میں ملک کے ممتاز ڈینٹل سرجن ڈاکٹر الٰہی علوی بھی موجود تھے، جو مولانا محترم کے دہلی کے زمانے سے دوست اور اکیڈمی کی مجلس عاملہ کے رکن بھی تھے۔

  •  مولانا مودودی کا انتقال: سید مودودی کا انتقال ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو امریکا کے شہر بفیلو میں ہوا، جہاں وہ علاج کی غرض سے اپنے بیٹے ڈاکٹر احمد فاروق کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ان کے لاکھوں عقیدت مندوں نے یہ خبر بڑے صدمے کے ساتھ سنی۔ریڈیو اور ٹی وی کی خصوصی نشریات پیش کی گئیں۔جن میں مولانا مرحوم کی زندگی اور ان کی خدمات اور علمی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی۔روزنامہ جنگ میں  ان کے انتقال اور تدفین کی خبر رپورٹ کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔

 سید مودودی کا جسد خاکی ۲۵ ستمبر کی صبح نیویارک سے لندن ہوتا ہوا ، پی آئی اے کی پرواز سے کراچی لایا گیا، جہاں ایئر پورٹ کے سامنے کھلے میدان میں ان کی نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیاتھا۔ بعد ازاں ان کی میت کو طیارے کے ذریعے لاہور لے جایا گیا ۔ میں دوسری پرواز سے لاہور پہنچا۔ لاہور میں قذافی اسٹیڈیم میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔میں نے ائیرپورٹ سے قذافی اسٹیڈیم جاتے ہوئے پورے لاہور کو سوگوار دیکھا،واقعی احساس ہورہا تھا کہ عالِم کی موت عالَم کی موت ہوتی ہے۔ لوگ بسوں ، ویگنوں ، کاروں ، ٹیکسیوں ،موٹر سائیکلوں ، تانگوں کے ذریعے اور پیدل قذافی اسٹیڈیم کی طرف رواں دواں تھے۔جہاں مولانا محترم کی نماز جنازہ ادا ہونا تھی۔ قذافی اسٹیڈیم میں عوام کا جمِ غفیر نماز جنازہ کے لیے امڈا چلا آرہا تھا۔ ایک جانب لوگ میلوں قطار میں بڑے منظم انداز میں عالم اسلام کے اس عظیم مفکر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔ بڑا ہی دل خراش منظر تھا! جنازے کے بعد جسد خاکی کو ان کی رہایش گاہ ، لاہور کے علاقے ۵- اے ذیلدارپارک اچھرہ لایا گیا۔ میں تدفین کے مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ بڑے ہی رقت آمیز مناظر تھے۔وہاں موجود تمام افراد افسردہ تھے اور ان کے چہرے آنسوئوں سے تر تھے۔ میں مولانا کی تدفین کے بعددل شکستہ اسی رات ہی واپس کراچی پہنچا۔ ائیرپورٹ سے سیدھا دفتر آیا اور مولانا کی تدفین کی خبر اور تفصیل لکھی، جو میری افسردگی، شدید ذہنی اضطراب اور   رنج و غم کی عکاس تھی۔

  •  الطاف گوھر اور تفھیم القرآن: صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے دور حکومت (مارچ ۱۹۶۹ء- دسمبر ۱۹۷۱ء) میں بیورو کریسی سے تعلق رکھنے والے ۳۱۳اعلیٰ سرکاری ملازمین کو فارغ کیا گیا، جن میں الطاف گوہر بھی شامل تھے۔ جب سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے توالطاف گوہر کراچی کے ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)کے ایڈیٹر تھے۔     وہ اپنے اداریوں میں بھٹو حکومت کی پالیسیوں پر منفرد انداز میں تنقید کرتے تھے، جس پر بھٹو صاحب تلملاکر رہ جاتے تھے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ انھیں الطاف گوہر سے اور بھی شکوے تھے، جو ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران منظر عام پر آئے ۔ چنانچہ بھٹو صاحب نے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد الطاف گوہر کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ذوالفقار علی بھٹو ویسے تو ایک بڑی سیاسی پارٹی، یعنی پیپلزپارٹی کے چیئرمین، جمہوریت کے علَم بردار اور آج کی اصطلاح میں ایک ’روشن خیال‘  لیڈر تھے، مگر بنیادی طور پر وہ جاگیردارانہ ذہنیت کے نمایندے بھی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دورِحکومت میں ملک میں جمہوریت پنپ نہیں سکی اور ایسے تمام جمہوری عناصر کو چُن چُن کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا جن کے بارے میں بھٹو صاحب سمجھتے تھے کہ وہ ان کے مخالف ہیں۔ چنانچہ الطاف گوہر کی گرفتاری کے لیے بڑا ہی بھونڈا جواز پیدا کیا گیا۔ اس وقت سیکرٹری داخلہ حکومت سندھ نے ان کے ڈیفنس میں واقع بنگلے میں شراب کی بوتلیں رکھواکر اس الزام میں انھیں گرفتار کرلیا ۔ چنانچہ انھیں جیل بھیج دیا گیا، جہاں انھیں ایک تنگ و تاریک کمرے میں تنہا رکھا گیا۔ ان کی اس طرح نظر بندی کو کراچی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اس طرح ان کی ہائی کورٹ میں پیشی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

میں اس وقت ہائی کورٹ میں اہم مقدمات کی رپورٹنگ کرتاتھا۔ میرا معمول تھا کہ صبح۹بجے کورٹ پہنچ جاتا اورجو بھی اہم نظربند رہنما پیشی کے لیے لایا جاتا، اس سے ملاقات بھی کرتا اور جیل میں پیش آنے والے واقعات معلوم کرنے کے ساتھ اہم مقدمات کی رپورٹنگ بھی کرتا۔ الطاف گوہر صاحب کی پیشی شروع ہوئی تو ان سے بھی ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ اس موقع پر ان کے اہل خانہ ، بھائی تجمل حسین اور بیٹے ہمایوں گوہر بھی روزانہ عدالت آتے تھے۔

الطاف گوہر بتایا کرتے کہ جیل میں ان کو کس طرح قید تنہائی میں رکھا گیا۔ کمرہ بہت چھوٹا تھا اورکسی طرح کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی، جو الطاف گوہر جیسی بڑی شخصیت کے لیے بڑی تکلیف دہ بات تھی۔ اسی دوران ایک موقع پر انھوں نے بیان کیا کہ ساتھ والی کوٹھری سے ایک بار انھیں رات کے آخری پہر تلاوت قرآن پاک کی آوازیں آنا شروع ہوئیں۔ کھانا لانے والے مشقتی سے ایک چٹھی کے ذریعے انھوں نے معلوم کرایا تو پتا چلا کہ یہ آواز کراچی کے مشہور تاجراور سماجی شخصیت نقی نواب کی ہے جو روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ ان کو بھی بھٹو حکومت کے حکم پر کال کوٹھری میں رکھا گیا ہے۔ الطاف گوہر نے اسی مشقتی کے ذریعے ان سے قرآن مجید منگوایا، کیونکہ ان کے پاس پڑھنے کے لیے قرآن مجید تو کیا کوئی بھی دوسری کتاب موجود نہیں تھی۔ نقی نواب صاحب نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی قرآن پاک کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد بھجوادی، جسے انھوں نے دو تین دن ہی میں پڑھ لیا۔الطاف گوہر کو اس کے مطالعے میں اتنا مزہ آیا کہ باری باری دوسری تیسری اور پھر پوری پانچ جلدیں مختصر عرصے میں ختم کرلیں (اس وقت تک چھٹی جِلد شائع نہیں ہوئی تھی)۔اس تفسیر کے ذریعے وہ پہلی بار مولانا مودودی کے علمی مرتبے سے آگاہ ہوئے ۔ الطاف صاحب کہتے تھے کہ مولانا محترم نے اس تفسیر میں دینی علوم اور مسائل کو جس طرح عام فہم اورآسان اردو زبان میں بیان کیا ہے، اس کی کسی دوسری تفسیر میں مثال نہیں ملتی۔ وہ خاص طور پر اس کے ’مقدمہ‘ کی بڑی تعریف کرتے اور کہتے تھے کہ: ’میرے نزدیک یہ مولانا محترم کی شاہکار تحریر ہے‘ ۔ ایک موقع پر انھوں نے کہا: ’میں نے اس مقدمے کو بار بار پڑھا مگر پھر بھی سیری نہیں ہوئی۔ یہ اُردو ادب کا شہ پارہ ہے جس کا اگر دنیا کی مختلف زبانوں کے بہترین نثر پاروں سے مقابلہ کیا جائے تو یہ مقدمہ ان میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کر سکتا ہے‘۔ وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں اُردو زبان کی تحریر کو اردو معلیٰ کا نام دیتے تھے۔

میں ان کی باتیں بڑے غور سے سنتا رہا کہ ایک دن اچانک میرے ذہن میں یہ تجویز آئی کہ کیوں نہ میں الطاف گوہر صاحب کوا س بات پر آمادہ کروں کہ وہ تفہیم القرآن کا انگریزی زبان میں ترجمہ کریں۔ ایک پیشی پر جب وہ عدالت آئے تو میں نے ان سے گزارش کی کہ:  ’آپ نے تفہیم القرآن کو ایک نہیں کئی بار پڑھا ہے۔ آپ اس کی تعریف بھی کرتے ہیں کہ یہ تفسیر اپنی تشریحات اور معلومات کے علاوہ اردو نثر نگاری کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ اس لیے آپ جیسا انگریزی کا بڑا ادیب اگر اس کا انگریزی میں ترجمہ کردے تو اس تفسیر سے انگریزی داں طبقہ بھی استفادہ کرسکے گا۔ اور آپ کا یہ کارنامہ نہ صرف یاد رکھا جائے گا بلکہ صدقہ جاریہ بھی ثابت ہوگا‘۔ انھوں نے میری بات خاموشی سے سن لی تاہم کوئی ردعمل ظاہرنہ کیا۔

 میں نے اگلی پیشی پر اپنی اس درخواست کا اصرار جاری رکھا۔ بالآخر ایک موقع پر انھوں نے کہا کہ: ’عارف میاں، میں تو یہ کام کرنے کو تیار ہوں، لیکن مولانا سے اجازت کیسے حاصل ہوگی اور کون لے کر دے گا۔ ہوسکتا ہے کہ مولانا مجھے پسند نہ کرتے ہوں اور اجازت نہ دیں ،کیوں کہ میں حکومت کے اعلیٰ عہدوں اور صدر ایوب خان کا سیکریٹری اطلاعات رہا ہوں، جنھوں نے مولانا کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیے رکھا تھا‘۔میں نے ان کو تجویز پیش کی کہ آپ کچھ پسندیدہ حصوں کا ترجمہ کرکے مجھے دے دیں۔ میں اگرچہ ایک معمولی اخبار نویس اور ان کا قدردان ہوں، مگر ان شاء اللہ مولانا سے اجازت حاصل کرلوں گا۔ اس بات چیت کے بعد ان کو کافی عرصے تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ اور میں اس موضوع پر ان سے مزید بات نہ کر سکا۔ لیکن پھرحکومت نے عدالتی حکم پر یا از خود ان کو اچانک رہا کرنے کا فیصلہ کردیا۔

مجھے الطاف گوہر کے جیل سے رہا ہونے کے وقت کی اطلاع مل گئی تھی، اس لیے میں ان کے استقبال اور رپورٹنگ کے لیے جیل کے گیٹ پر پہنچ گیا۔ جہاں ان کے اہلِ خانہ اور دیگر احباب بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جب وہ رہا ہوئے تو میں نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے میرے کان میں آہستہ سے کہا: ’مبارک ہو، اجازت مل گئی ہے‘۔ میرے پوچھنے پر صرف میجر جنرل (ریٹائرڈ) شیر علی خاں کا نام لیا اور پھر مجھ سے جدا ہوگئے۔ میں ان کے اس ایک جملے سے پوری بات سمجھ گیا کہ وہ تفہیم القرآن کے انگریزی ترجمے کی بات کررہے تھے کہ ان کو مولانا محترم نے ترجمے کی اجازت دے دی تھی۔ بعد میں پتا چلاکہ یہ اجازت والا کام جنرل شیر علی خان کے ذریعے ہوا تھا، جو ان کے ساتھ ہی سنٹرل جیل کراچی میں نظر بند تھے اور رہا ہونے والے تھے۔جنرل شیر علی ریاست پٹودی کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے نستعلیق انسان تھے۔ وہ جنرل یحییٰ خان کی مرکزی کابینہ میں وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہے تھے۔ دین اسلام سے گہری وابستگی کے سبب وہ سیکولر صحافیوں کے نشانے پر رہے۔

الطاف گوہر صاحب نے تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ کرکے جنرل صاحب کو دے دیا کہ وہ رہا ہونے پر لاہور جائیں تومولانا محترم کو پیش کریں اور پھر ان سے باقاعدہ اجازت لے لیں۔ جنرل شیر علی نے رہائی کے بعد لاہور میں مولانا کو وہ ترجمہ دکھایا اور مولانا نے بخوشی اجازت دی اور کہا کہ: ’الطاف گوہر صاحب کو میر اسلام کہیں‘ اور ان کی رہائی کے بعد لاہور آنے کی دعوت دی۔ میں نے دفتر آکر دو خبریں فائل کیں۔ ایک یہ کہ الطاف گوہر کو رہا کردیا گیا اور دوسری یہ کہ الطاف گوہر مولانا مودودی کی تفسیر تفہیم القرآن کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے۔ روزنامہ جنگ میں یہ دونوں خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں اور دوسرے دن الطاف گوہرکے گھر پر جماعت اسلامی کے متعدد کارکن خوشی سے جمع ہوکر ان کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ وہ اپنی اس پذیرائی پر جہاں خوش ہوئے، وہیں پریشان بھی تھے۔ انھوں نے اسی دن شام مجھے فون کر کے کہا کہ: عارف میاں، آپ نے جنگ اخبار میں خبر شائع کرکے میرے ساتھ بڑی زیادتی کی‘۔میں نے کہا کہ آپ درست کہہ رہے ہیںلیکن میں نے بھی خبر لگاکر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں اصل میں یہ چاہتا تھا کہ یہ بات ریکارڈ پر آجائے اور میں آپ کو تفہیم القرآن کے ترجمے کے احسن کام کے وعدے پر مستحکم رکھوں۔ جس پر وہ مطمئن ہوگئے۔رہائی کے بعد انھوں نے پھر سے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور تفہیم القرآن کے منتخب حصوں کا ترجمہ اقساط میں ڈان  میں شائع کرنا شروع کردیا۔

 کچھ عرصے کے بعد الطاف گوہر صاحب کراچی سے لندن چلے گئے اور پھر ان کا وہاں برسوں قیام رہا۔ وہ تفہیم القرآن کا مکمل ترجمہ تونہ کرسکے، البتہ ڈان کی ادارت کے زمانے میں بعض منتخب حصوںکا ترجمہ کیا، جو کتابی شکل میں Translations from The Quranکے عنوان سے موجود ہے۔ایک عرصے کے بعد کراچی میں پیپلز پارٹی کے رہنما نفیس صدیقی نے اپنی قیام گاہ پر ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت ملی۔ میں جب نفیس صاحب کے گھر پہنچا تو الطاف صاحب مجھ سے بڑی محبت سے ملے۔ میں نے انھیں تفہیم القرآن کے ترجمے کی بات یاد دلائی تو ان کا کہنا تھا کہ ’آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ رہائی کے بعد دوسری مصروفیتیں مجھے یہ کام نہیں کرنے دیں گی۔ اس لیے خبر شائع کر کے آپ نے مجھے اپنے فیصلے پر  قائم رہنے کاپابند کیا تھا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس اہم قومی و دینی فریضے کی انجام دہی میں  حسب ِپروگرام کامیابی نہ ہو سکی‘۔ تاہم مولانا سے ان کی محبت و عقیدت ہمیشہ قائم رہی ۔

 عرصے بعد مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا انتقال ہوا اور مرحوم کا جسد خاکی امریکا سے لندن پہنچ رہا تھا جہاں نماز جنازہ ادا کی جانی تھی۔ مولانا مودودی کے عقیدت مند برطانیہ کے مختلف شہروں سے ایئر پورٹ پہنچ رہے تھے۔ الطاف گوہر بھی ایک ٹیکسی میں لندن ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔

 الطاف گوہر نے ۲۴ ستمبر ۱۹۷۹ء کی شب بی بی سی سے مولانا مودودی کے جنازے میں شرکت کے اپنے سفرکا ذکر کیا۔ ان کی گفتگو علم و دانش کا مرقع اور خوب صورت طرز ادایگی کا امتزاج نظر آتی ہے، جس میں پاکستان میں دین اور سیاست کی ہم آہنگی اور اس ضمن میں پیدا ہونے والے باہمی اختلافات اور مولانا سے ان کی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔

الطاف گوہرنے مولانا کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا: ’’مولانا مودودی کے انتقال کی اطلاع ۲۳ ستمبر کی رات کو مل گئی تھی۔۲۴ ستمبر کی صبح ان کی میت نیویارک سے لندن پہنچی۔ میں غم زدگی کی حالت میں ہیتھرو کے ہوائی اڈے پر گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ نماز جنازہ کا اہتمام اس جگہ کیا گیا ہے جہاں جہازوں کی کھیپ رکھی جاتی ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیوروں میں اب بھی کوئی شُستہ مزاج شخص مل جاتا ہے۔ جس ٹیکسی میں میرے بھائی اور میں بیٹھے اس کا ڈرائیور ہماری پریشانی کو بھانپ گیا اور یہ سن کر کہ ہمیں ایک نماز جنازہ میں شرکت کے لیے جانا ہے، وہ بڑی تیزی کے ساتھ منزل کی طرف روانہ ہوا، مگر جب تک ہم پہنچے تو پتا چلا کہ پہلی نماز جنازہ ادا ہوچکی ہے۔ ہم دوسری نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ سامنے لکڑی کا صندوق رکھا تھا، جس پر گلاب کے پھولوں کی چادر تھی۔ پیتل کے کنڈے مضبوطی سے بند تھے اور تابوت کے کنارے پر لکھا تھا:سرہانہ۔ مولانا کا دمکتا ہوا چہرہ میرے سامنے آگیا۔ وہی ملاحت، وہی شفقت، وہی مسکنت، وہی فضیلت۔

’’مولانا سے میری آخری ملاقات اس سال [۱۹۷۹ء] لندن میں ہوئی۔ وہ علاج کے لیے امریکا جارہے تھے۔ قیام گاہ پر معتقدین کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ اس شام مولانا کی طبیعت قدرے بہتر تھی۔ انھوں نے مجھے رات کے کھانے کے لیے روک لیا۔ مولانا کی باتوں سے مجھے یوں لگا جیسے وہ ملک کے حالات سے نامطمئن اور ایک حد تک مایوس ہوچکے ہوں۔ کھانے کے بعد مولانا نے اللہ حافظ کہا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر اپنی خواب گاہ کی طرف چلے گئے۔ مولانا نے زندگی بھر دین کو سیاست سے جدا نہ کیا۔ تحریک خلافت اور تحریک ہجرت میں شامل ہوئے اور عمر بھر نوآبادیاتی نظام اور اشتراکی فکر و نظر کی مخالفت کرتے رہے۔۱۹۴۱ء میں مولانا نے جماعت اسلامی قائم کی اور ۳۰برس تک وہ جماعت کے امیر رہے۔ یہی ۳۰برس ان کی تخلیقی زندگی کی معراج تھے۔ پابند سلاسل رہے، زینت زنداں بنے اور۱۹۵۳ء میں معاملہ دار ورسن تک جاپہنچامگر اللہ کو ان کی زندگی    منظور تھی۔اسی زمانے میں مولانا نے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر مکمل کی جو چھے جلدوں میں تفہیم القرآن کے عنوان سے شائع ہوئی۔

’’پاکستان میں .... بہت سے دوست احباب جو مولانا کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کے معترف تھے، ان کی سیاسی فکر سے متفق نہ تھے.... مولانا سے میری عقیدت اور تعلق علمی سطح تک محدود تھا۔ ان کی جماعت کی سیاست سے میرا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ اس لیے میں مولانا کی زندگی کے اس اختلافی پہلو پر آزادی سے بات کرسکتا ہوں۔ ہرمعاشرے میں دائرہ اثر اور دائرہ اقتدار میں ٹکرائو رہتا ہے۔ خود مولانا نے اپنی کتاب خلافت و ملوکیتمیں اسی ٹکرائو اور ستیزہ کاری کی وضاحت کی ہے۔ ایک عالم کی شخصیت جب تک دائرہ اثر تک محدود رہتی ہے، اس کی تحریر و تقریر کو ایک  معیار پر پرکھا جاتا ہے اور جوں ہی وہ دائرہ اثر سے نکل کر دائرہ اختیار یا اقتدار کی طرف بڑھتا ہے تو اس کے افعال اور کردار کے جانچنے اور پرکھنے کا معیار بدل جاتا ہے۔ سیاستدان مسند اقتدار تک پہنچنے کے لیے بہت سے مراحل سے باآسانی گزر جاتے ہیں۔ یہی مراحل ایک بااصول عالم کے لیے انتہائی ذہنی کش مکش کا باعث بن جاتے ہیں۔وہ اصول پر اڑتا ہے تو اقتدار سے کھسکتا ہے اور اصول سے کھسکتا ہے تو تضاد کا شکار ہوجاتا ہے۔ نظری اور بنیادی اصولوں کی تشریح اور تفسیر ایک بات ہے، اور حالات پر اطلاق الگ بات ہے۔ مفسر عملی سیاست میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اسے حالات سے نبرد آزمائی اور بالآخر مفاہمت کرنا پڑتی ہے۔ یہ سودا اسے ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔

’’مولانا کو یقین تھا کہ لوگ ایک دفعہ قرآن تک پہنچ جائیں تو ان کی زندگی کی اُلجھنیں دور ہوجائیں گی۔ روحِ قرآن کیا ہے؟ خداوند عالم کی فرماںروائی، وہ سارے جہاں کا مالک، معبود اور حاکم ہے۔ انسان کی زندگی ایک امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیابی کے لیے خداوند کریم کی ہدایت پر عمل لازم ہے اور جوں ہی یہ معاشرہ عادلانہ اصولِ اخلاق سے منحرف ہوتا ہے تو یہ زمین ظلم سے بھرجاتی ہے۔ قرآن کا مرکزی موضوع انسان ہے اور اس کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ انسان نے ظاہر بینی قیاس آرائی یا خواہش کی غلامی کے سبب جو نظریات بنالیے ہیں وہ اس کے لیے تباہ کن ہیں۔ قرآن کا مدعا اس ہدایت کی دعوت دینا ہے جسے انسان کھوچکا ہے۔ تفہیم القرآن کی چھے جلدیں قرآن کے اس موضوع ، مضمون اور مدعا کی تشریح ہیں۔

’’قرآن پڑھنے کی سعادت مجھے اس زمانے میں نصیب ہوئی، جب کسی اور کتاب تک میری دسترس نہ تھی۔ میری یہ مجبوری، میرے لیے ایک نعمت بن گئی۔ ہر مسلمان قرآن کی روح تک پہنچنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اس کوشش میں تفہیم القرآن نے میری بڑی رہنمائی کی۔ تفہیم کیاہے، علم کا سرچشمہ ہے۔ مولانا کو احساس تھا کہ قرآن کے لفظی ترجمے کو پڑھتے وقت پہلی چیز جو محسوس ہوتی ہے وہ روانیِ عبارت، زورِ بیان، بلاغت ِزبان اور تاثیرِ کلام کا فقدان ہے۔ قرآن کی سطروں کے نیچے آدمی کو ایک ایسی بے جان عبارت ملتی ہے، جسے پڑھ کر نہ اس کی روح وجد میں آتی ہے، نہ اس کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، نہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور نہ  اس کے جذبات میں کوئی طوفان برپا ہوتا ہے۔ حالانکہ قرآن کی تاثیر میں اس کی پاکیزہ تعلیم اور اس کے عالی قدر مضامین کا جتنا حصہ ہے، اس کے ادب کا حصہ بھی اس سے کچھ کم نہیں ہے۔ یہی تو وہ چیز ہے جو سنگ دل آدمی کا بھی دل پگھلادیتی تھی اور جس نے بجلی کے کڑکے کی طرح عرب کی ساری زمین ہلادی تھی۔

’’مولانا نے تفہیم القرآن میں قرآن کا جو اردو ترجمہ کیا ہے، اس میں سادگی بھی ہے اور گداز بھی۔ ایک ایک لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ ایک ایک آیت جذبے میں ڈوبے ہوئے جملوں میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔ سورۃ الزخرف کی آخری آیات میں ہے: ’’وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے اور وہی حکیم اور علیم ہے۔ بہت برتر اور بالا ہے جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین اور آسمان کے درمیان پائی جاتی ہیںاور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو‘‘۔ قرآن کریم کا مترجم، تفہیم القرآن کا مصنف اپنے رب کی طرف پلٹ گیا۔ اس کا جسد خاکی کاٹھ کے صندوق میں بند سمندروں، صحرائوں، پہاڑوں اور بستیوں پر پرواز کرتا ہوا ساری دنیا کو الوداع کہتا ہوا اپنے وطن کی مٹی کی طرف لوٹ گیا۔

ٹیکسی ڈرائیور ہمیں واپس لندن لے جارہا تھا۔ سڑکوں پر زندگی رواں دواں تھی۔ دھوپ میں ڈوبے ہوئے در و دیوار پر نظر پڑتی تو لاہور کی یاد تمتما اُٹھتی۔ ڈرائیور نے پوچھا:کوئی جواں سال تھا؟ ’نہیں، جواں فکر تھا‘۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور پوچھا: ’آپ کا عزیز تھا؟‘ میں نے کہا: ’عزیزِ جہاں تھا‘‘۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!


مضمون نگار پاکستان کے معروف صحافی ہیں اور امریکا میں مقیم ہیں