ڈاکٹر محمد مختار شنقیطی


اس بات پر مجھے بہت خوشی ہے کہ جماعتِ اسلامی سے وابستہ اپنے بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات کا موقع مل رہا ہے۔ میرے لیے علّامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شہر لاہور میں آنا بھی بے پناہ خوشی کا باعث ہے، کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھیں علّامہ اقبال کے سیکڑوں اشعار کا عربی ترجمہ زبانی یاد ہے۔ اسی دوران مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقد پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی، جن سے مجھے بے حد محبت ہے اور میں نے ان کی کتب اور ملفوظات سے بہت فیض حاصل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سیّدی مودودی کی قبر پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، آمین!

مَیں چونکہ بین الاقوامی تعلقات کی کلاسیں پڑھاتا ہوں، لہٰذا ذرا گہرائی میں جا کر موجودہ عالمی سیاسی منظرنامہ کے اندر اُمتِ مسلمہ کی صورت حال پر عمومی بات کروں گا۔ دورِ حاضر میں ہم دُنیا میں زمینی سطح پر اور سمندروں میں بڑی طاقت ور عالمی قوتوں کے درمیان ایک تاریخی کش مکش کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ موجودہ عالمی سیاست میں بَرّی طاقتوں سے مراد چین، روس اور ہندستان جیسے مشرقی ممالک ہیں،جب کہ بحری طاقتوں سے مراد امریکا اور یورپ ہیں۔

عالمی منظرنامہ

گذشتہ چند عشروں میں کارفرما یک قطبی (Uni-polar)عالمی سیاست میں بین الاقوامی نظام کی باگ ڈور بلاشرکت غیرےامریکا کے ہاتھ میں رہی ہے۔ اب ہم بین الاقوامی نظام میں ایک نئی ٹوٹ پھوٹ کا مشاہدہ کررہے ہیں، اور عالمی طاقت مغرب سے مشرق کی طرف بالخصوص چین کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تزویراتی مفکرین کی اکثریت آج چین کی اُبھرتی ہوئی طاقت کے ظہور کی بات کر رہی ہے۔ ’چین کا طلوع‘ (Rise of China) ایک ایسی اصطلاح ہے، جس کی تکرار مغربی مفکرین،روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم اپنے سامنے عالمی میدان میں ایک مسابقت اور ایک کش مکش کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، جسے سردجنگ (Cold War) کی نئی شکل بھی کہا جا سکتاہے، اوراسے پہلے سے قائم سپر پاورزاور ’نئی اُبھرتی سپرپاورز‘ (Emerging Powers )کے درمیان ہمیشہ رہنے والے ٹکراؤ سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔

آج ایک طرف چین اور روس کی ابھرتی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف امریکا و یورپ روایتی سپرپاورز کے درمیان ٹکراؤ چل رہا ہے ۔اس ٹکراؤ اور کش مکش کو سمجھنا اور اس کا ادراک کرنا مسلم دُنیا کے ایک ایک فرد کےلیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بَرّی طاقتوں اور بحری قوتوں کے درمیان پس رہے ہیں، موجودہ سپرپاورز اور نئی اُبھرتی ہوئی پاورز کے درمیان پس رہےہیں۔

ہم اُمتِ وسط ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے محلِ وقوع اور جغرافیہ کے لحاظ سے بھی اُمتِ وسط ہیں، اور اس لحاظ سے بھی کہ ہم نہ مشرقی بلاک کا حصہ ہیں اور نہ مغربی بلاک کا۔ لاشرقية لاغربية، إسلامية إسلامية کا نعرہ میرے خیال میں اُمت ِ مسلمہ کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن کا درست اظہار ہے۔ اُمتِ مسلمہ نہ شرقی ہے اور نہ غربی، بلکہ یہ اُمتِ وسط ہے۔ یہ نہ محض خشکی پر ہے اور نہ صرف بحرپر متمکن بلکہ یہ بحروبر کی طاقت کا ایک امتزاج ہے۔

اللہ عزّوجل کی حکمت کاکس قدر خوب صورت مظاہرہ ہے، جو اللہ نے اپنا پیغام انسانیت تک پہنچاتے ہوئے دنیا کو دکھایا۔ آپ دیکھیے کہ اسلام کا ظہور مکہ میں ہوا، جو ہے توایشیا کے شمال میں ، مگر ایک جانب وہ برِاعظم افریقہ سے بہت قریب ہے اور دوسری جانب یورپ سے بھی اس کا فاصلہ انتہائی کم ہے ۔ گویا اسلام کا سوتا جہاں پھوٹا وہ سرزمین تین بڑے براعظموں کے سنگم پر واقع ہے۔ اور پھر اسلام جزیرہ نما عرب سے ،پَر پھیلائے ایک ایسے بڑے پرندے کی مانند پھیلتا چلا گیا، جس کا ایک پَر ایشیا کے جنوب میں تھا تو دوسرا افریقہ کے شمال پر محیط۔ آپ جانتے ہیں کہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کے لیے عام طور پر ’شاہین‘ کی تمثیل استعمال کی ہے۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم دنیا کی جغرافیائی ہیئت ایک عظیم الجثہ ’شاہین‘ کی مانند ہے، جس کا دل مکہ و مدینہ ہے اور اس کے پَر ایشیا کا جنوب اور افریقہ کا شمال ہیں۔ یہی وہ جیو پولیٹیکل تناظر ہے، جو طاقت کی بحری و برّی طاقتوں اورحالیہ سپر پاورز اور اُبھرتی ہوئی نئی سپر پاورز کے درمیان درپیش رہا ہے ۔

چین کی اُبھرتی طاقت جسے شکاگو یونی ورسٹی کے پروفیسر جان میرشیمر (Mearsheimer) کی اصطلاح میں ’زور پکڑتا طوفان‘(The Chinese Gathering Storm) کہا جا سکتا ہے۔ گویا چین ایک ایسا طوفان ہے جو تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے قوت پکڑ رہا ہے۔ اسی دوران ہم، بے سمتی کے کچھ برسوں کے بعد روس کوبھی ایک نئی کروٹ لیتا دیکھ رہے ہیں ۔ بے سمتی کا یہ عرصہ گورباچوف اور بورس یلسن کے اقتدار پر محیط رہا، جس کے بعد ولادی میر پیوٹن ایک زخمی بھیڑیئے کی روح سمائے روس کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔ پیوٹن روس کو عظیم بنانا چاہتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے ڈونلڈ ٹرمپ کا نعرہ امریکا کو دوبارہ عظیم تر بنانے کا تھا۔

طاقت کاتیسرا مشرقی کھلاڑی ہے ہندستان۔ یہ عالمی سیاست کا ایک نہایت گنجلک کیس ہے۔ یہ بحری و برّی دونوں طرح کی طاقت رکھنے کے باوجود کئی تضادات کا شکار ہے۔ تاریخی طور پر ہندستان دنیا کی ایک عظیم مسلم سلطنت مغل بادشاہت کی سرزمین رہا ہے، تاہم آج یہ مسلم اکثریتی ملک بھی نہیں ہے۔ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد تیسری بڑی مسلم آبادی رکھتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ مسلم ملک نہیں ہے۔ ہندستان مسلم جغرافیہ کے بیچوں بیچ واقع ہےکہ یہ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ایشیا کے مسلمانوں کو جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں سے جدا کررہاہے۔ مزید یہ کہ ہندستان اپنے جغرافیہ اور اپنی آرزوؤں کے درمیان بٹا ہوا ہے ۔ جغرافیائی طور پر مشرق میں واقع ہے ، لیکن اس کی اُمنگوں کی منزل مغرب ہے۔ گویا گھر تو اس کا ایشیا ہے، مگر دل یورپ میں ہے۔ یقیناً مسلم دُنیا کے لیے ہندستان بہ حیثیت ایک نسل پرست ہندو ریاست کے، ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان کے لیے تو یہ ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے، مگر جب سے مودی اقتدار میں ہے، آج کا ہندستان اپنے ملک میں سیکڑوں برسوں سے آباد مقامی ہندستانی مسلمانوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ فاشزم کے راج اور فاشزم کے خواب نے اسے بڑی خطرناک صورت حال میں لاکھڑا کیا ہے۔

سرد جنگ اور حریفانہ کشاکش کے اس منظرنامہ میں عالم اسلام کی حیثیت، جنگ کے ایک میدان کی سی ہے ۔ برطانوی ماہرسیاسیات جیمز فیرگریو نے ’تباہی کا علاقہ‘ (Crash Zone) کی اصطلاح استعمال کی ہے ۔ہم اس کشاکش میں بطور فریق شریک نہیں ہیں بلکہ اس حریفانہ کش مکش کا شکار ہیں۔ گویا عالمِ اسلام طاقت کے اس کھیل میں بطور ’جنگی اکھاڑہ‘ (Battle field) کے استعمال تو ہورہا ہے، لیکن بطور کھلاڑی شریک نہیں ہے ۔یہ مسئلہ آج کا نہیں ہے بلکہ جب سے مسلم اُمہ، دو عظیم طاقتوں (یعنی) مغلیہ سلطنت اور عثمانی خلافت سے محروم ہوئی ہے، عالم اسلام کی حیثیت اوروں کے لیے ایک میدانِ جنگ ہی کی بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ مسلمان آج عالمی نظام کا فعال حصہ نہیں رہے۔اُمت اس وقت اندرونی خلفشار کا شکار ہے اور اور بیرونی طاقتوں کے سامنے بے آسرا ۔ ایک ایسی امت کا یہ حال بہت افسوس ناک ہے کہ جس نےانسانیت کی رہنمائی اورقیادت کرنی تھی ، اور جسے شهداء على الناس بننا تھا۔ تزویراتی طور پر جب آپ بے آسرا، دفاعی حوالے سے کمزور،اور معاشی و سیاسی انتشار کا شکار ہوں تو کبھی بھی شهداء على الناس نہیں بن سکتے۔ جب آپ عالمی اتار چڑھاوٴ میں کوئی وزن ہی نہیں رکھتے، پوری انسانیت کے لیے حجت اور شہادت کیوں کر بن سکتے ہیں ؟

مسلم دُنیا میں علاقائی وحدت کی ضرورت

بطور امت ہمیں آج جن خوفناک چیلنجوں کا سامنا ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ایمان اور اتحاد کی قوت درکار ہے۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت اور اتحاد، وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور ہمیں اس وحدت کے قیام کی کوشش کرنی ہے۔ وحدت سے میری مراد ایک عالم گیر خلافت کے تحت قائم سیاسی وحدت نہیں ہے، بلکہ میری مراد مسلم دنیا کے مابین اسٹرے ٹیجک ارادے اور عزم (Will)کی وحدت ہے۔آپ جانتے ہیں کہ مغربی دنیا سیاسی طور پر ایک نہیں ہے۔ ۲۴سرکاری زبانوں اور بہت سی نسلی اکائیوں کے حامل ۲۸ ممالک،’یورپی یونین‘ (EU)کہلاتے ہیں۔ یورپ کے باسیوں کے درمیان قدرِ مشترک یا تو ان کا مسیحی پس منظر ہے، یا ان کا یونانی و رومی ورثہ مشترک ہے، جس کی بنیاد پر یہ ممالک اپنا اسٹرے ٹیجک ارادہ ایک بنانے میں کامیاب ہوئے۔ فرانس اورجرمنی، پولینڈ اور برطانیہ اور دیگر یورپی قوموں کا اتحادان مشترکات پر قائم ہے۔حالانکہ ان قوموں کے درمیان بڑی خوں ریز جنگوں کی ایک طویل تاریخ، یہاں کے لوگوں کو اَزبر بھی ہے۔ ان کے مقابلے میں  ہم مسلمانوں کے درمیان اس سے کہیں زیادہ مماثلتیں اورمشترکات موجود ہیں۔ طویل یکساں تاریخ، مشترک عقیدہ، ایک ہی قبلہ اور ایک ہی کتاب ہماری بڑی طاقت ہیں۔

 مسلم دنیا جغرافیائی لحاظ سے بھی مغرب سے کہیں زیادہ باہم مربوط ہے۔بطور مثال اگر ہم آسٹریلیا کو دیکھیں ،آسٹریلیا اور برطانیہ کا درمیانی فاصلہ کتنا زیادہ ہے ؟لگ بھگ ۱۵ہزار کلومیٹر ۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ، امریکا سے کس قدر فاصلہ پر ہیں ؟وہی ۱۵ ہزار کلومیٹر کی مسافت پر ۔ مسلم دنیا میں ہمیں باہم اس قدر فاصلہ کہیں نہیں ملتا ۔ مثال کے طور پر مسلم دنیا کے قلب (خطۂ حجاز) سے بعید ترین ملک کا فاصلہ ، مثلاً یمن کا انڈونیشیا سے فاصلہ اگر لیں تو ۵ہزارکلومیٹر سے زیادہ نہیں ہوگا۔

گویا مسلم دنیا میں اسٹرے ٹیجک اتحاد و یگانگت کی صلاحیت اور امکان کہیں زیادہ ہے۔ اگر یہ اتحاد بروئے کار آجائے تو عالمی منظرنامے پر اس کی موجودگی اور اس کا اثر بہت گہرا ہوگا۔ مسلم دنیا کے روایتی حدود کو بتانے کے لیے مسلم جغرافیہ دان ایک اصطلاح استعمال کرتے آئے ہیں من فرغانا اِلٰى غانا  (فرغانہ سے گھانا تک)۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں فرغانہ، ازبکستان میں ہے ، اور گھانا مغربی افریقہ میں ۔اور آج بھی عالم اسلام کی حد بندی یہی ہے ۔اس دور کے عظیم الجزائری مفکر مالک بن نبی نے مسلم دنیا کی حدود بتانے کے لیے من طنجا اِلٰى جاكرتا   (طنجا سے جکارتا تک) کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مراکش کےشہر طنجا سے لے کر انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ تک مسلم دنیا کے حدودہیں۔یہ کم و بیش وہی جغرافیہ ہے جس کا احاطہ مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اپنےسفرنامے میں کیا تھا۔ ابن بطوطہ چودھویں صدی کے سیاح تھے۔انھوں نے اپنے سفر کا آغاز طنجا سے کیا،اور بہت سے مسلم ممالک ،اوراس وقت کی اصطلاح میں بلاد الهند والسند یعنی برصغیر ہند و پاک میں بھی آئے۔وہ آٹھ برس تک ہندستان میں قیام پذیر رہے اور نہ صرف یہاں قاضی کے فرائض انجام دیئے بلکہ ہندستانی فرماںروا کے سفیر بن کر چینی بادشاہ کے ہاں بھی گئے۔ اس طرح انھوں نے مغربی افریقہ سے جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا تک تمام مسلم دنیا میں سفر بھی کیا اور قیام بھی ۔ لہٰذا، ہمیں مسلم دنیا کے اسی تاریخی اسٹرے ٹیجک اتحاد کی بازیافت کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔

ہمیں مسلمانوں کے اسٹرے ٹیجک ارادے اور خواب کو ایک کرنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایک سیاسی اکائی بن جائیں ۔ہمیں مسلم ممالک کے درمیان اپنی باہمی سرحدیں کھولنے کی ضرورت ہے ۔مسلم ممالک کے درمیان باہمی طور پر معاشی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ہمیں عالم اسلام میں فوجی اتحادوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں، ویسا ہی دفاعی معاہدہ جیسا کہ مغرب میں ’ناٹو‘ ہے ۔ہمیں ایسی چیز کی ضرورت ہے، جسے اقبال نے ’اسلامی دولت مشترکہ‘ کہا تھا ۔ انھوں نے ’مسلم کامن ویلتھ‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے اور ’مسلم لیگ آف نیشنز ‘کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے ۔ دوسرے اسلامی محققین نے بھی اس کے بارے میں بات کی ہے ۔جیسا کہ مالک بن نبی نے اپنی کتاب اسلامک کامن ویلتھ میں اور سنہوری نے اپنی کتاب خلافت میں بات کی ہے، کہ کیسے ایک ’اسلامک لیگ آف نیشنز‘ کو ترقی دی جاسکتی ہے ۔موجودہ زمانے کے محققین بھی اس طرح کی ملتی جلتی فکر پیش کررہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وقت آچکا ہے کہ ہم اپنے محدود تصوراتی خول سے نکلیں اور عالمی تناظر میں اس معاملے کو دیکھیں۔ مسلمانوں کی آج کے عالمی منظرنامے میں کیا پوزیشن ہے یا کیا پوزیشن ہوسکتی ہے؟ اس پر غور کریں۔اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں  ایک حکمت عملی پر مبنی فکر کی ضرورت ہے۔

اسلامی تحریکیں: نئی حکمت عملی کی ضرورت

دنیا بھر کی تحریکات اسلامیہ کو نئی سوچ بچار (thinking) کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمیں اسٹرے ٹیجک تعلیم کی نئی طرح ڈالنی ہوگی۔ ہم سب تحریک اسلامی سے وابستہ لوگ ہیں اور تحریک اسلامی کے تربیتی پروگراموں سے گزرے ہیں، لیکن افسوس اور حسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ مجھے ان سارے تربیتی مرحلوں میںکہیں اسٹرے ٹیجک تھنکنگ اور اسٹرے ٹیجک تعلیم کے بارے میں کوئی سنجیدہ پروگرام یاد نہیں آتا کہ ہواہو۔میری پختہ رائے ہے کہ ہمیں اپنی نئی نسل کے لیے اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا نیا پراگرام متعارف کرانا چاہیے ۔

دراصل اسٹرے ٹیجک تھنکنگ نہ ہوئی تو قربانی و ایثار کا سلسلہ تو بڑھتا چلا جائے گا، لیکن نتیجہ انتہائی محدود برآمد ہوگا۔یہ اسٹرے ٹیجک سینس کی کمیابی کی علامت ہے ۔جب قربانیاں عظیم تر ہوں اور کامیابیاں انتہائی قلیل ہوں تو اس کا سیدھا مطلب اسٹرے ٹیجک تھنکنگ کا قحط ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے ہاں اسی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ہمیں تزویراتی تعلیم (Strategic Education) کی راہ اپنانی چاہیے۔ چنانچہ اس قسم کی سوچ کی افزائش کے لیے ہمیں تحریکِ اسلامی کی نئی نسل کے لیے نئے پروگرامات ترتیب دینا ہوں گے۔ تزویراتی سوچ کے بغیر قربانیوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ بات پھر دُہرائوں گا کہ ان قربانیوں کا ثمر بہت قلیل رہے گا۔ کسی مقصد کی راہ میں بڑی قیمت چکانے کے باوجود قابلِ ذکر نتائج کا حاصل نہ ہونا اس بات کی علامت ہےکہ منصوبہ سازوں کے ہاں تزویراتی بصیرت اور فہم کا فقدان اور افلاس پایا جاتا ہے۔

اپنی یونی ورسٹی میں عسکری تاریخ کا مضمون پڑھاتا ہوں اور اس دوران میں میری کوشش ہوتی ہے کہ طلبہ کو اسٹرے ٹیجک سوچ پر کلاسیکل کتب سے متعارف کرواؤں۔ چنانچہ اس سلسلے میں طلبہ کا تعارف The Art of War کے عنوان سے چار مختلف ماہرینِ حرب کی لکھی کتابوں سے کرواتا ہوں۔ یہ چار ماہرینِ حرب: سن زو (Sun Tzu)، میکیاولی(Machiavelli)، کلازوٹز (Clausewitz) اور جومینی(Jomini) ہیں۔ ان سب نے ایک ہی عنوان The Art of War پہ کتب تصنیف کی ہیں۔ یاد رہے کہ تزویراتی سوچ کا آغاز دراصل عسکری منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی ہوا تھا۔

ہمیں اس تاریخی ذخیرے کی طرف لوٹنے اور اسے نئی نسل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ضروری ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارک اور اسلامی فتوحات کا احوال تزویراتی نقطۂ نظر سے پڑھیں۔ کچھ اہلِ علم نےیہ کام بڑی خوش اسلوبی سے کیا بھی ہے، جیسے بریگیڈئیر محمود خطاب نے الرسول القائد کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کتاب سفراء النبی ؐ کے عنوان سے ہے۔اپنے عسکری پس منظر کی وجہ سے مصنف نے سیرتِ نبویؐ کو کامیاب حربی اور تزویراتی منصوبہ بندی کے تناظر میں ہی دیکھا ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات کو محض معجزات کے ایک سلسلے کے طور پر ہی نہیں دیکھتے بلکہ آپؐ کی کامیاب حربی حکمتِ عملی اور کامیاب ترین جنگی چالوں (Tactics)کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ آج ہمارے مطالعۂ سیرت اور عمومی تعلیم میں یہ عنصر بڑی حد تک ناپید ہے ۔اپنی تعلیم میں موجود اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں بہت محنت کی ضرورت ہے۔

تزویراتی طرزِ فکر ایک خالص تخلیقی، حکیمانہ، ہمہ جہتی طرزِ فکر کا نام ہے۔ تخلیقی اس لیے کہ ہمیں مقصد کے حصول کے لیے درکار ذرائع کو بدلتے رہنا ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زندگی میں ہماری بہت سی ناکامیوں کاسبب عام طور پر ہماری سابقہ کامیابیاں ہوتی ہیں۔ ہم ایک مخصوص صورت حال میں کامیابی کے لیے کچھ ذرائع اختیار کرتے ہیں۔ پھر صورت حال میں تو تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، لیکن ہمارے نقطۂ نظر اوراس کے لیے ہمارے اختیار کردہ ذرائع میں تبدیلی نہیں آئی ہوتی، یوں نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بالکل اسی طرح آج کے دور میں بھی اسلامی تحریکات کے تنظیمی ڈھانچہ میں موجود بہت سی چیزوں میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ تنظیمی ڈھانچے میں، قیادت کی نوعیت اور اسلوب میں ، حکمتِ عملی اور اس کے اسلوب میں ، معاشرے کے ساتھ اپنے ربط و ضبط اور تعامل کے طریقوں میں ،دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملات کرنے کے انداز میں ، نظام عالم اور عالمی طاقتوں کو دیکھنے کے روایتی انداز میں ، اور اپنی سرزمین پر ان کی موجودگی اور ان کے اثر ونفوذکو پرکھنے کے انداز میں بہت سی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ہمیں تجزیہ کرنا ہے کہ ہم ان سب چیزوں کو کس زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں، اور پھر کئی حوالوں سے ان سب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ہمیں تبدیلی کی مختلف حکمتِ عملیوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ تحریکِ اسلامی مثبت تبدیلی لانے والی قوت کا نام ہے، اس لیے ہمیں تبدیلی کی اسٹرے ٹیجی کو بھی سمجھنا چاہیے ۔تبدیلی خاموش انقلاب کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور ایک پُرشور، ہنگامہ خیز انقلاب کی شکل میں بھی۔ یہ تبدیلی سیاسی قوتوں اورطاقت کے مراکز مثلاًفوج کے مزاج، اس کی گرفت اور کردار کو سمجھنے سے بھی ہوسکتی ہے، جیسا کہ بعض جنوبی امریکی ممالک میں ہوا۔تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے اور ہر تبدیلی کا سیاق و سباق بھی الگ ہی ہوتا ہے ۔

امریکی مفکر جوزف نائے(Joseph Nye) جس نے ’سافٹ پاور‘ اور ’سمارٹ پاور‘ کی اصطلاحات متعارف کروائی ہیں، اس کی ایک اور اہم اصطلاح ’Contextual Intelligence‘ بھی ہے، جس کا مطلب ہے ایسی ذہانت کا حامل ہونا، جس کے بل پر ہر چیز کا سیاق و سباق اور موقع محل متعین کیا جاسکے۔ حقیقی قائدین، کامیاب سیاست دان اور کامیاب مصلحین وہی ہوتے ہیں، جو اپنی ذات اور اس کے تناظر کی درست تفہیم رکھتے ہیں۔ چنانچہ تحریکات اسلامیہ کو ایک ہی مقصد اور ایک ہی منزل ہونے کے باوجود ایک ہی انداز میں کام نہیں کرتے رہنا چاہیے ۔ ہر ایک کا اپنا پس منظر اور ماحول (context) ہے، آج ہمیں کامیابی کے لیے کچھ اسی طرح کی Contextual Intelligence درکار ہے ۔


سوال :کیا ہمیں اب محض بات برائے بات اور نرے اصولی مباحث کے بجائے عملی اقدامات کی جانب جانے کی حکمتِ عملی نہیں ترتیب دینی چاہیے؟

ڈاکٹر محمدمختار: میری رائے میں ہمیں گفت و شنید اور عملی اقدامات میں ہم آہنگی اور توازن لانے کی ضرورت ہے۔ نظریاتی مباحث اہم ہیں۔ نظریاتی رہنمائی کے بغیر ہم طویل المدت منصوبہ بندی سے محروم رہ کر ہر چیز کو محدود زاویے سے ہی دیکھ پاتے ہیں۔ اس لیے قلیل المدت ترجیح کے طور پر، سب سے پہلے ہمیں تزویراتی سوچ کا رویہ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہمیں اپنے سابقہ تجربات کا ناقدانہ تجزیہ کرنے، ان کے نتائج و عواقب، فوائد و نقصانات پر غور کرنے اور خواہشات پر مبنی تجزیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے تحریکِ اسلامی کے ماضی کے سفر کا بے لاگ جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ جانتے ہوں گے کہ حکمت عملی کے ماہرین ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں  ’Net assessment‘۔ہر اسٹرے ٹیجک غور و فکر کا آغاز Net assessment سے ہوتا ہے ۔ تحریک اسلامی اور مسلم معاشروں کے تجربات میں مثبت اور طاقت ور پہلو کیا تھے اور ان کے کمزور پہلو کون کون سے ہیں؟ اس مقصد کے لیے ہمیں صرف اسلامی تحریک ہی کو مدنظر رکھ کر نہیں سوچنا چاہیے ، نہ اسلامی تحریک کوکسی فرقے اور جماعت تک محدود رہنا چاہیے، بلکہ ہمیں پوری امت اور سارے مسلمانوں کو مدنظر رکھ کر اپنی سوچ اور حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور تجزیے کے بعد عملی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مسلمان نوجوان کی تعلیم و تربیت میں جو عنصر غائب یا نظرانداز ہے وہ نظریاتی ہے۔ہمیں اس کی فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔

سوال :ایک بہت بڑا خلا ہے، اس میں جو کچھ مسلم حکومتیں کررہی ہیں، اور ان کے عوام کی اُمنگوں اور آرزوؤں کے درمیان ایک بہت بڑا خلاہے؟

جواب:میرے نزدیک اس کا بنیادی سبب حکمرانوں کی قانونی حیثیت کا فقدان ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر حکمران کی قانونی حیثیت جائز (Legitimate )حکمران کی ہوجائے تو اس سے حاکم اور محکوم دونوں کے درمیان مکمل اتفاق اورہم آہنگی وجود میں آجائے گی۔ ایسی حکومت کو ہیکل نے مکمل ہم آہنگ ریاست کا نام دیا ہے۔ مکمل ہم آہنگ ریاست میں حاکم اور محکوم کی خواہش ایک ہی سمت میں ہوتی ہے ۔جہاں تک ہماری صورت حال ہے، مسلم دُنیا کے اندر سیاسی ہیئت حاکمہ یامقتدرہ کے قانونی و دستوری جوازکے فقدان کی بنا پر عوام اور ہیئت مقتدرہ کی آرزوؤں اور اُمنگوں کے درمیان ایک کش مکش اور تصادم جاری رہتا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری قوتیں اور صلاحیتیں کسی تعمیرو ترقی میں نہیں کھپتیں بلکہ باہمی کش مکش کی نذر ہوتی رہتی ہیں۔ مسلم معاشروں میں برپا اسی سیاسی کشاکش کی بنا پر ہی ہم کبھی ترقی نہیں کرپاتے اور پسماندگی ہی ہمارا مقدر رہتی ہے ۔اسی سوال کا جواب دینے کے لیے میں نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کانام اسلامی تمدن میں دستوری بحران ہے ۔اس کتاب کی بنیادی فکر اور بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ مقتدرہ کی قانونی حیثیت اور جواز کا مسئلہ ،اسلامی تہذیب و تمدن کا دیرینہ مسئلہ ہے ۔معروف کتاب الملل والنحل کے مصنف امام شہرستانی، نویں صدی ہجری میں اس مسئلہ پر بات کرتے ہوئے کتاب کے آغاز میں ہی لکھتے ہیں : ’’اُمت میں دَر آنے والا اوّلین اختلاف امامت و خلافت کے باب میں تھا۔ کسی دینی اصول اور قاعدے پر اتنی تلواریں نہیں چلیں جتنی ہر زمانے میں امامت و خلافت کے مسئلے پر چلیں‘‘۔

مقتدرہ کا دستوری و قانونی اور شرعی جواز ہمارے معاشرے کا کمزور ترین پہلو ہے۔ اسی لیے ہر مسلمان قوم پر اس اہم اسٹرکچرل پرابلم کا حل نکالنا واجب ہے ۔میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہمارے ملکوں میں جہاں جہاں فی الحقیقت جائز مقتدرہ ہوگی وہاں قومی اُمنگوں اور حکومتی کارگزاریوں میں تناقض جنم ہی نہیں لے گا ۔علّامہ اقبالؒ کا ایک قول ہے جس کا عربی ترجمہ مجھے یاد ہے:

ان السادۃ يدينون للعبيد بسيادتهم فلو لم يقبلوهم سادۃ لما سادوا، یعنی سرداروں کی سرداری غلاموں کے مرہون منت ہے۔ اگر غلام انھیں سردار نہ تسلیم کرتے تو سردار، سردار نہ ہوتے۔

اس لیے جب تک مسلم دنیا اندرونی آقاوٴں یعنی مطلق العنان آمریتوں سے چھٹکارا نہیں پائے گی،بیرونی غلامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ہنری کسنجر کا عرب سیاست کے بارے میں ایک مشہور نظریہ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’عرب دنیا میں جائو تو سمجھو کہ عوام کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے۔ اس لیے عرب دنیا کو ایک بدو قبیلے کے طور پر لو ،اور سب سے بڑا خیمہ قبیلے کے سردار کا ہوگا، اسی کے ساتھ معاملات طے کرو۔ عوام کی کوئی فکر نہ کرو ۔ سردار اپنے لوگوں کو خود مطمئن کر لے گا‘‘۔افسوس کہ اس مشاہدے میں مبالغہ نہیں ہے۔

مغربی حکمران اور دیگر استعماری طاقتیں جب تک مسلم عوام اور اداروں کو نظرانداز کرکے انفرادی طور پر آمر حکمرانوں سے معاملہ بندی اور سمجھوتہ کرتی رہیں گی ،صورتِ حال میں کوئی تبدیل نہیں آئےگی۔ جارج بش، مصری ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو فون کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حاصل کرلیتا ہے، یا پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو ایک فون کال کرکے اپنے من پسند نتائج حاصل کرلیتا ہے، اور فرانسیسی صدر الجزائر کے صدر کو فون کرکے جو بات چاہتا ہے منوا لیتا ہے، قطع نظر اس کے کہ پاکستانی ،مصری یا الجزائری عوام کی خواہش کیا ہے ۔ یہ ہے ہمارا سب سے بڑا چیلنج ۔یہ چیلنج ہمیں واپس جس جگہ پہنچادیتا ہے وہ ہے ’قانونی و سیاسی قبولیت‘ (Political Legitimacy) کا بحران۔ ہربحران یہیں سے جنم لیتا ہے اور اس کا اختتام بھی اسی نکتے پر ہوتاہے۔ہمیں اپنے اپنے ممالک میں موجود اس اس بڑے ہی بنیادی سقم (structural problem) کو دُور کرنا ہوگا ۔ اس کے بغیر ہم آگے بڑھنے کے قابل کبھی نہیں ہو پائیں گے ۔

’بروکنگز فاؤنڈیشن،امریکا کے ریسرچ اسکالر اور ’عرب بہار‘ کے بعد تحریکات اسلامیہ کے اُمور پر گہری نظر رکھنے والے شادی حمید، راشد الغنوشی کا قول نقل کرتے ہیں: اسلام پسندو ں کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اقتدار میں آنے سے پہلے لوگ ان سے اور ان کی سوچ اور نظریہ سے محبت رکھتے ہیں اور جب وہ اقتدار میں آجاتے ہیں تو ان سے بے زار ہونے لگتے ہیں۔ تحقیق نگار نے انتخابی کارکردگی پر غور کی دعوت دی ہے:

  • کیا عرب دُنیا کی ان اسلامی پارٹیوں کی ساخت میں کوئی ایسا مسئلہ موجود ہے کہ عوام میں ان کی پذیرائی گھٹ جاتی ہے ؟
  • یہ خود غیرمقبول ہوجاتی ہیں یا کچھ نادیدہ قوتیں انھیں غیرمقبول یا ناکام کردیتی ہیں؟
  • موجودہ سیاسی نظام میں کوئی ایسی رکاوٹ ہے جو انھیں کامیاب نہیں ہونے دیتی ؟
  • کیا ناقص انتخابی نتائج کا مطلب ان کے سیاسی مستقبل کا خاتمہ ہے ؟
  • یہ حکمت عملی میں کسی اصلاح وتبدیلی کی ضرورت کی نشاندہی کا تقاضا ہے ؟

 یہ مضمون اسی طرح کے سنجیدہ سوالات کاجواب دیتا ہے جو یقینا آج کی عرب بلکہ ساری مسلم دنیا کے لیے یکساں اہمیت کے حامل ہیں ۔

اسلامی تحریکوں کی عوامی مقبولیت میں کمی کا سبب کوئی ایک نہیں ہے۔کہیں اس کی وجہ ماحول کا جبر ہے ، اور کسی جگہ حکمت عملی اور تجزیہ ناقص ہے۔ عرب ملکوں میں مسلط استبدادی نظام اور اس نظام کی طرف سے خون خرابہ اور جان و مال کے ضیاع کے ذریعے ان تحریکوں کا استیصال کرنا،الیکشن میں سیکولر ،فسطائی اور غیر جمہوری قوتوں کی دھاندلی ، الیکشن قوانین میں رد و بدل جیسے ہتھکنڈے، نیزعالمی برادری کا اسلامی تہذیب، ثقافت اور شناخت سے دشمنی پر مبنی رویہ ہے۔

حکمت عملی اور اندرونی کمزوری کی ایک مثال تحریک کے بنیادی اوراعلان شدہ مسلّمہ اصولوں پرسمجھوتا کر لینا ،اسٹیبلشمنٹ کی چالوں اور تدبیروں کے مقابل سیاسی ناپختگی، صورت حال کا صحیح ادراک نہ کرنا اور اپنی حکمت عملی کو ٹھیک سے ترتیب نہ دینا۔ پھر قیادت کا مواقع اور امکانات کو ضائع کرنا وغیرہ ہیں ۔

  • بات کو آگے بڑھانے سے پہلے چند اہم اور اصولی باتوں کو سمجھ لینا ضروری ہے:
    • پہلی بات یہ جان لیجیے کہ اسلام کی سیاسی تقدیر کسی تحریک اور پارٹی کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں عرب معاشروں میں اندر تک بہت گہری اتری ہوئی ہیں، اور جب تک یہ معاشرے اسلامی ہیں یا رہیں گے ، اسلامی احیا کے مظاہر سامنےآتے رہیں گے۔آج جو لوگ مبارک باد دے رہے ہیں کہ ’اسلامی تحریک احیا‘ کا خاتمہ ہوگیا یا عالم عرب میں ’مابعد الاسلامیہ‘ دورکے آغاز کی خبر سنا رہے ہیں، انھیں اس حوالے سے ہمیشہ ہی مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
    •  دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی احیا، اسلام کی سخت جانی اور زمانے کے غالب نظام کو اس کا چیلنج کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اسلامی سیاسی قوتوں کی کارکردگی بہت زیادہ متاثر کن رہی ہے، بلکہ میرے خیال میں اگر جائزہ لیں تو ان میں سے بہت سی جماعتیں سیاسی حکمت عملی، سیاسی میدان میں ناتجربہ کاری اور سیاسیات عالم سے ناواقف ہیں۔دراصل اسلام کی یہی سخت جان فطرت تبدیلی و تحریف کے خلاف اس کی اصل قوت مزاحمت ہے۔
    •  تیسری بات یہ ہے کہ دینِ حنیف اپنی فطری ساخت میں دنیا بھر کے ادیان سے مختلف واقع ہوا ہے۔بدھ مت کے بانی بدھا اور مسیحیت کے بانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے افعال و اقوال سے دین کی تاسیس کی وہ مثال ہر گز پیش نہیں کرپائے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابدی اسلام کی مثال پیش کی ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ نہ تو اُس طرز کی راہبانہ تھی جیسی کہ بدھا نے گزاری بلکہ اس کے برعکس آپؐ خود بھی رہبانیت سے کنارہ کش رہے اور اسی کا درس صحابہ کرامؓ کو بھی دیا ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام صرف ضمیر کو جگانے اور متحرک رکھنے تک ہی محدود نہ تھا، جیسا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی رسالت میں تھا ۔بلکہ آپؐ ایسی رسالت لائے تھے، جس میں سیاست اور فوج کشی حق و عدل اور راستی کی خدمت گار بلکہ عین نیکی اور عمل صالح کا درجہ رکھتی ہے ۔یہ اسی طرح اللہ کی بندگی ہے جیسے نماز اور روزہ ۔ (ابن تيميہ، مجموع الفتاوىٰ)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندگی کے طوفانی تھپیڑوں کے آگے کبھی نہیں جھکے تھے، جیساکہ بہت سے ترکِ دنیا کے علَم بردار اور زاہد دُنیوی مصالح اور مشکلات کے آگے جھکتے رہے ہیں، بلکہ آپؐ نے امور دنیا کی زمامِ کار سنبھالی اور پوری قوت و شوکت سے اسے حق کی اطاعت پر لگا دیا۔ یوں ایک ایسا اخلاقی ،تشریعی ، سیاسی ،مکمل اور کامل نظام دیا جس میں ضمیر، معاشرے اور ریاست کی سبھی قوتوں کو حق اور عدل پھیلانے کے لیے مجتمع کردیا گیا تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام تزکیہ نفس کرکے صرف ضمیر کو بیدار کرنے تک محدود رہتا ہے اور سوسائٹی اور ریاست کی مؤثر قوت کو یکسر نظر انداز کردیتا ہے بلکہ یہ دین فطرت ہے اور دین حقیقت وواقعیت ۔ یہ جیتے جاگتے، چلتے پھرتے انسانوں کے لیے اتارا گیا ہے، فرشتوں کے لیے نہیں۔فرشتوں کے لیے ہوتا تو انسان نہیں فرشتہ اتارا جاتا۔ قرآن کریم کا ارشاد موجود ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰۗىِٕكَۃٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ لَنَزَّلْنَا  عَلَيْہِمْ  مِّنَ السَّمَاۗءِ مَلَكًا   رَّسُوْلًا۝۹۵ (بنی اسرائیل ۱۷:۹۵) ’’ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور آسمان سے کسی فرشتے ہی کو اُن کے لیے پیغمبربنا کر بھیجتے‘‘۔

  • نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیّبہ جدوجہد سے عبارت ہے ۔ آپ ؐنے مادی زندگی کی چمک دمک اور حیات انسانی پر اس کے گہرے اثرات کا مقابلہ روح اور مادے ،دونوں کی طاقت سے کیا تھا۔ بے لگام طاقت کو حق و عدل اور طاقت و جبروت سے زیر کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم اور فساد کو ، قرآن اور تلوار دونوں کے ذریعے لگام دی تھی ۔اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاست اسلام کے رگ و پے میں شروع دن سے پیوست تھی اور ہے ۔ہجرت کے بعد ریاست کے قیام سے لے کر امراء کے تقرر تک ،قاضیوں کے تعین سے لے کر فوجی مہمات بھجوانے تک، بادشاہوں کو خطوط لکھنے سے لے کر شرعی سزاؤں کے نفاذ تک، عالمی معاہدوں پر دستخط کرنے سے لے کر ملکی خزانے کو عوام کی رفاہِ عام کے لیے استعمال کرنے تک، آپؐ کی مقدس و محترم سنتوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جسے امور سیاست کی انجام دہی کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے ۔

آپؐ کی اس سیاست کی عملی سنت کی نہ بدھ ازم میں کوئی مثال موجود ہے اور نہ مسیحی دنیا ہی اس کی کوئی مثال پیش کرسکی ہے ۔ یہ آپؐ کی طرف سے پیغام وحی کی عملی تفسیر اور تطبیق تھی ۔ یہ اسوۂ حسنہ کا وہ بنیادی پہلو ہے، جس کی پیروی کا اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے۔

  •   ان مباحث کو سمیٹتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام فقط ایک عقیدہ اور زندگی کا ایک نیا مفہوم ہی نہیں ہے اورنہ اسلام صرف روح کی بالیدگی اور اخلاقی حس کی بیداری کانام ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک عملی سیاسی تحریک بھی ہے۔ ایک ایسا دستور سیاسی ہے، جو معاشرے کی ہمہ پہلو سبھی اجتماعیتوں کو منظم کرتا ہے ۔یہ مظلوم کی حمایت میں اور ظالم کے خلاف ایک نعرۂ بلند ہے۔ حاکم و محکوم کے درمیان انصاف قائم کرنے والا ہے ۔

لہٰذا، کسی اسلام پسند پارٹی کی انتخابات میں کامیابی، دین اسلام کی فطرت اور طبیعت کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ کسی حکومت ،پارٹی اور سیاسی قوت کی ناکامی، اسلام کے جامع پیغام پر شمہ برابر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے ۔

  •  جب بھی نوحہ خواں، اسلامی احیا کے علَم برداروں کے سیاسی نتائج پر اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کرتے ہیں کہ ’’اسلام کے سیاسی غلبہ اور اجتماعی امور میں کارفرمائی کا دور لَدگیا‘‘ تو دوسری طرف راکھ میں دفن شرارے سے روشنی لے کر یہ از سرنو اور ایک نئی قوت کے ساتھ اٹھتا ہے۔

آج جو لوگ تاریخ کے نئے مرحلےمابعد اسلامی احیائی دور (Post Islamism )کی نوید سنا رہے ہیں اور مبارک باد دے لے رہے ہیں، میں ان سے کہوں گا کہ ان کی خوشی قبل از وقت ہے۔ہوسکتا ہے انھیں ماضی کی طرح پھر گہرا صدمہ جھیلنا پڑے ۔

مجھے یقین ہے کہ اگر موجودہ اسلامی تحریکیں کسی وجہ سے مطلوبہ تبدیلی نہ لاسکیں تو بھی کچھ اور نئی قوتیں ان کی جگہ ضرور لیں گی، اس لیے کہ جسے ’سیاسی اسلام‘ کہا جارہا ہے وہ دراصل امت کے شعور اوروجدان کی تعبیر ہے۔ یہ اُس تعلق کا ایک اظہار ہے جو دین اسلام کا ملت اسلامیہ کے ساتھ ہے، اور جس سے مسلمان جذبۂ عمل حاصل کرتے ہیں ۔


ان اصولی باتوں کے بعد اسلام پسند پارٹیوں کی بظاہر کم ہوتی مقبولیت پر کچھ کلام کرتے ہیں۔

 ’عرب بہار‘ اسلام پسندوں کے لیے قبل از وقت اور بہت اچانک تھی ۔جب یہ بہار آئی تو اسلام پسندوں کے لیے انتظام مملکت سنبھالنا ابھی قبل از وقت اور نہایت غیر موزوں تھا۔ اس وقت اقتدار میں آنے کا ان کا نہ کوئی ارادہ تھا اور نہ امور جہانبانی سنبھالنے اور حکمرانی کرنے کی ان کی کوئی تیاری تھی بلکہ یہ عوام الناس کی خواہش تھی، جو استبدادی اور بدترین ظالمانہ اور کرپٹ حکومتوں کی سختیاں جھیل جھیل کر تنگ آچکے تھے ۔انھی عوام نے اسلام پسندوں کو سیاست میں رہنما کردار ادا کرنے پر مجبور کیا ۔

اگرچہ ’عرب بہار‘ سے پہلے بھی چند ممالک میں اسلام پسندوں کو شراکتِ اقتدار کا تجربہ ہوا تھا، یعنی یمن اور اردن وغیرہ میں۔ تاہم، ایک ایسے وقت میں جب عرب دنیا میں انقلاب اور مخالف انقلاب کی کش مکش ابھی عروج پر تھی اور دوسری طرف تنگ آئے ہوئے عوام کی توقعات آسمان کو چھورہی تھیں اور خدشات خطرناک ترین سطح پر تھے۔ ان حالات میں اسلامی قوتوں کے لیے بہتر طرزِ عمل یہ تھا کہ اس معاملے کو زیادہ تدبر اور صبر کے ساتھ دیکھتے اور بے خطر اس میں کود نہ پڑتے۔ اسلام پسندوں کو ملنے والے اقتدار کو شادی حمید نے اپنی کتاب میں ’یرغمالی اقتدار‘سے تعبیر کیا ہے۔

دراصل ’عرب بہار‘ کے بعد اسلام پسندوں کو ملنے والا اقتدار حقیقی تھا ہی نہیں۔ انقلاب کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات میں منتخب ہونے والے مصری صدر مرسی شہید، ریاست مصر میں ہرگز فیصلہ کن اختیار و اقتدار کے مالک نہیں تھے بلکہ فیصلہ سازی کا اصل اختیار برسوں سے مسلط فوجی جنتا کے ہاتھ میں تھا یا مقتدر سیکولر اشرافیہ اور ان دونوں کی پشتی بان عالمی مقتدرہ کے ہاتھوں میں یرغمال تھا ۔

اسی طرح اسلام پسندوں کے وزیر اعظم ہوں یا پارلیمان کے اسپیکرز کسی کے پاس بھی حقیقی اختیار و اقتدار نہیں تھا اور نہ انھیں دستور کی دی ہوئی طاقت کو ،جو انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کا استحقاق تھی ، استعمال کرنے پر کبھی قادر رہنے دیا گیا۔

دوسری جانب مراکش میں بھی وزیر اعظم تو اسلامی احیا پسندوں کا تھا،لیکن فیصلہ کن طاقت اوراصل اختیار و اقتدار، مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں رہا۔ پھر تیونس میں سیکولر قوتوں کی ہٹ دھرمی اور اپنی انتخابی شکست کو تسلیم نہ کرنا اور ہارنے کے بعد تیونس کو انتقاماً اہل تیونس ہی پر ڈھادینے کی ان کی کوششوں نے النہضۃ کے قائدین کو کبھی سُکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ انھیں مجبور کیا گیا کہ پارٹی کی انتخابی کامیابی اور انقلاب کے ثمرات میں سے کسی ایک کو چنیں ۔

تیسری بات یہ ہے کہ اسلام پسند کہیں خود بھی صرف نمایشی اختیار و اقتدار پر قانع ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان پر عوامی توقعات کا بوجھ تو پڑگیا، لیکن تبدیلی کا حقیقی اختیار ان کے پاس تھا ہی نہیں کہ کچھ کرپاتے ۔مصر، تیونس ،مراکش ہر جگہ کم و بیش ایک سی صورت حال تھی ۔بعد ازاں واضح بھی ہوگیا کہ یہ حکمت عملی کی فاش غلطی تھی، جس کی بڑی قیمت چکانا پڑی ۔ نہ تو انھوں نے دستور میں لکھے اور قوم کے دئیے ہوئے انتخابی مینڈیٹ اور اختیارات کو اسٹیبلشمنٹ سے زبردستی چھین کرلیا اور نہ ایسے نمایشی اختیار و اقتدار کو ٹھوکر ماری اور استعفا دے کر قوم سے دوبارہ رجوع کیا کہ ان کی اخلاقی برتری قائم رہتی اور حقیقی اختیار سے خالی ان منصبوں کابوجھ نہ اٹھانا پڑتا۔ ان پر مشہور تابعی امام عامر الشعبی رحمۃ اللہ کی وہ بات صادق آتی ہے، جو انھوں نے حجاج بن یوسف کے پھیلائے ہوئے فتنے کے دور میں کہی تھی : تلك فتنة لم نكن فيها بررة أتقياءَ، ولا فجَرة أقوياء ’’ایسا فتنہ تھا جس میں نہ تو ہم مخلص فرماں بردار تھے اور نہ طاقتورباغی و سرکش‘‘ ۔

اگر اسلام پسند سیاست کرنے والوں کے پاس چھٹی حس ہوتی اور ان کی سیاسی تدبیروں میں لچک رہتی، تو وہ قوم کے دئیے ہوئے مینڈیٹ اور اختیار کو غاصبوں سے چھین لیتے ورنہ جونہی انھیں احساس ہوگیا تھا کہ یہ نمایشی اور یرغمالی اقتدار ان پر ایک اخلاقی بوجھ ہے تو ایسے لاحاصل اقتدار کو چھوڑ دیتے ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ کچھ اسلامی تحریکوں خصوصاً مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے صاف ستھری سیاست اور کارکردگی دکھانے کی پالیسی کو ترجیح دی، نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں سے ہی ہاتھ دھونا پڑے۔اسلامی تحریک کے لیے معاشرے میں کچھ جاذبیت اگر ہے تو اس کی اصول پسندی، معاشرے کے معروف اخلاقی قاعدوں پر چلنے ،اپنی اسلامی شناخت پر اصرار، اسلامی اصولوں کے پرچار اور اندرونی استبداد اور بیرونی غلامی کے مقابل اس کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے ۔

بعض تحریکوں کو یہ خوف لاحق رہا کہ سیاسی سطح پر جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے، اسے برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں؟ وہ سیاسی کامیابی کی بقاء کے لالچ میں پڑگئے اور تحریک اسلامی کے بنیادی اصولوں اور موقف کو ہاتھ سے جانے دیا۔ ان کا نقطۂ نظرتھا کہ ہماری معاشی اور اجتماعی کارکردگی ہماری اصول پرستی چھوڑ بیٹھنے کو سہارا دے لے گی۔ وہ یہ بھول گئے کہ ان کے پاس معاشی اور اجتماعی سطح پر کارکردگی دکھا پانے کی صلاحیت موجود ہی نہیں ۔اس طرح وہ ایک ساتھ دونوں محاذوں پر شکست کھاگئے ۔اخلاقی برتری بھی گئی اور کارکردگی بھی صفر رہی ۔ پھر مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ ایسے سیاسی معاملات میں اُلجھی جو اس کے دائرے سے باہر تھے، جیسے اسرائیل کو تسلیم کرنا، فرانسیسی کو ذریعۂ تعلیم بنانا،اور بھنگ کی کاشت وغیرہ۔ ان معاملات کی بڑی سیاسی قیمت چکانا پڑی۔

عبد الالہ بن کیران ( حزب العدالۃ والتنمیۃ کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم اور اس وقت پارٹی کے سیکرٹری جنرل) بادشاہ کے اقتدار اور اثر و نفوذ اور منتخب حکومت کے اقتدار و اختیار کے درمیان توازن رکھنے میں کامیاب رہے تھے ۔ مگر ان کے بعد آنے والے مراکش کے وزیر اعظم (پارٹی کے دوسرے سیکرٹری جنرل) سعد الدین عثمانی کامیاب نہیں ہوپائے ۔یہی وجہ تھی کہ بن کیران کی عوامی پذیرائی اور سیاسی تدبیروں نے، عوامی لب و لہجہ میں ان کی جملہ بازی نے پارٹی کو بہت فائدہ پہنچایا تھا ۔ا سی طرح ان کا دیگر، خصوصا کرپٹ سیاسی رہنماؤں پر مسلسل دبائو، جنھیں وہ مگرمچھوں سے تعبیر کرتے تھے اور ضمناً بادشاہ پر بھی کبھی کبھار کی تنقید نے بن کیران کی رہنمائی میں مراکش کے اسلام پسندوں کی حفاظت کی اور عوام کے ذہنوں میں اس تصور کو راسخ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی غلطیوں میں اسلامی احیا کے علَم برداروں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔

مراد یہ ہے کہ پارٹی کی قسمت پر لیڈر شپ کا تسلسل کتنا گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اگر کرشماتی اور مضبوط قیادت ہو تو وہ پہلے سے موجود سیاسی قیادت اور نئی آنے والی سیاسی قیادت کے درمیان توازن پیدا کرلیتی ہے ۔اور اگر قیادت کمزور ہو تو وہ پہلے کے اثرات کو بھی نقصان پہنچادیتی ہے۔

مراکش کی حزب العدالۃ والتنمیۃ نے جب بن کیران کی کرشماتی قیادت کو کھودیا (بعض حلقوں کے نزدیک بادشاہ ان کی عوامی مقبولیت سے خائف تھا اور اسی کے دباؤ پر پارٹی نے سعدالدین عثمانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا )اور ان کی جگہ ایک اکیڈمک پروفیسر بیوروکریٹک رویے کے حامل ، کمزور، سیاسی وژن سے عاری اور پرانے سیاسی گرووں کے خلاف مضبوط سیاسی اقدامات کی جرأت سے خالی فرد کی نامزدگی تھی، جس کی سیاست کا انحصار معاشرے کے عوام کی دل جوئی کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی رضاجوئی اور بادشاہ کی فرماں برداری پر تھا ۔ جب انھیں آگے لایا گیا تو توازنِ سیاست بگڑ گیا جس کا خمیازہ پارٹی کو اقتدار کے بعد شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا۔

اس طرح مراکشی تجربہ حزب العدالۃ والتنمیۃ  کو اپنے ڈھب پہ لانا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے گھیرا تنگ کرنا اور بالآخر پارٹی کو گہری دلدل میں پھنسا دینے کا منصوبہ مکمل ہوگیا ۔بالکل اُسی انداز میں کہ جس طرح ماضی میں مراکش کی کئی سیاسی قوتیں بے دست و پا بنائی جاچکی تھیں: حزبِ استقلال اور اشتراکی اتحاد وغیرہ ۔

تحریک اسلامی مراکش کا وہ فخر بھی اسے کچھ فائدہ نہ دے سکا اور نہ وہ لمبے چوڑے دعوے کہ ہم اخوان المسلمون سے زیادہ سیاسی شعور کے مالک ا ورمیدانِ سیاست کے پختہ کار کھلاڑی ہیں۔ یہ تفاخر دراصل ایک اور قسم کی غلطی کا ارتکاب تھا۔

’زیادہ سے زیادہ کی حکمت عملی‘ جس پر مصر میں اخوان المسلمون کاربند ہوئی اور صدارتی الیکشن میں قبل از وقت شرکت کی، یہی پالیسی انھیں استبداد کے عادی ظالم مصری نظام کی دیوار سے سر پھوڑنے کی طرف لے گئی۔مگر مراکش میں ’کم سے کم کی حکمت عملی‘ اختیار کی گئی، جوتحریک اسلامی کو مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ڈھب پر ڈھالنے اور انھیں اپنے اخلاقی پیغام سے محروم کرنے پر منتج ہوئی کہ جس پیغام میں عوام کے لیے اصل جاذبیت تھی۔ا نھیں طاقت سے دُور اور کسی عملی کارنامے سے محروم رکھا گیا کہ جو اخلاقی برتری سے محرومی کا عوضانہ بن جاتا ہے۔ ۹۰کی دہائی میں یہی طریقہ الجزائر کے انقلابی فوجیوں نے اخوان کے ساتھ روا رکھا تھا، پھر اسے موریتانیہ، مراکش، تیونس اور لیبیا میں دہرایا اور آزمایا جاتا رہا ۔

تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد اسلامی قوتوں کی اس کمزوری اور کوتاہی کے برعکس عالمِ عرب کی سیکولر قوتوں کی حالت زار اسلام پسندوں سے کہیں زیادہ گئی گزری ہے ۔سیکولرسٹوں کے لیے کئی مسلم ملکوں کے اقتدار کا دروازہ مدتوں کھلا رہا ہے، لیکن یہ قوتیں اپنی قوم کو ترقی دینے کے میدان میں مکمل طور پر ناکام ہوئیں۔دراصل آزادی کا معرکہ اور اپنی شناخت کا معرکہ ان سیکولرسٹوں کی ترجیح اور ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا ہی نہیں ۔

معرکۂ حریت و آزادی اور اسلامی شناخت قائم رکھنے کے معرکہ میں اسلامی تحریکات کو  بڑی بڑی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ۔ معاشرے کی اسلامی شناخت برقرار رکھنے کے اس معرکے میں یہ اسلامی تحریکیں ایک فوجی قلعہ کی مانند مضبوط ثابت ہوئیں ۔

اسی طرح عوامی انقلاب، ’عرب بہار‘ کو کامیاب بنانے میں بھی اصل کردار انھی اسلامی تحریکات کا تھا ۔اسی لیے علاقائی اور عالمی طاقتوں کی استحصالی چکّی میں بھی یہی قوتیں پس رہی ہیں۔   اس لیے کہ لوگ انھی سے توقع باندھے ہوئے ہیں، سیکولر قوتوں سے نہیں۔تاہم، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریکات اسلامیہ جب بھی اقتدار میں آئیں یا شریکِ اقتدار ہوئیں، ترقی کی دوڑ میں وہ بھی ابھی تک کوئی خاص کارنامہ اپنے دامن میں سمیٹ نہیں پائیں۔

شاید سب سے بڑا خطرہ اس وقت جو ان تحریکات کو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے عزائم اور ارادے بہت قلیل ہیں ۔یہ تھوڑے پر قناعت کرجاتی ہیں ۔یہاں تک کہ ان میں سے بعض میدان عمل میں اپنی موجودگی ہی کو اور زندگی ہی کو کامیابی کی دلیل شمار کرنے لگتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کا سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کا پروگرام اسی حد تک تھا، جو کامیاب ہوچکا ہے ۔ بعض تحریکات بلاوجہ اور بے فائدہ اپنے اسلامی رنگ ڈھنگ اور اسلوب وانداز، حتیٰ کہ طریق کار تک سے علیحدگی اختیار کرلیتی ہیں اور یوں ایک ایسے معاشرے میں اپنا اخلاقی جواز ہی گم کربیٹھتی ہیں، جہاں سارے ہی، ریاکاری پر مبنی کھوکھلے نعروں سےا پنے وجود کا جواز حاصل کرتے ہیں۔

دوسرے ان میں سیاسی ناپختگی بھی موجود ہے۔ اس کمزوری کا مطلب انفعال و ارتجال اور محض ردِعمل کی سیاست ہے۔ یہ ساری زندگی ایک دائرے میں گھرے اتار چڑھاؤ کے درمیان جینے کے سفر جیسا ہے، جہاں کچھ بن نہ پارہا ہو، نہ کوئی قابل ذکر کامیابی ہی مل رہی ہو ۔

اصلاح و تجدید کی تحریکوں کے لیے وقتاً فوقتاً مصلح اور مجدد کی ضرورت رہتی ہے، جو ان کی رہنمائی کرے اور ان میں کار تجدید انجام دیتا رہے ۔اور آج تحریکات اسلامیہ کو تبدیلی و تجدید کی شدید ضرورت ہے تاکہ ان میں سیاسی پختہ کاری کی داغ بیل پڑے اور یہ زیادہ واقف اور باشعور ہوں، میدانِ سیاست سے بھی اور دنیا کی سیاست سے بھی۔

یہ دلیل کافی نہیں ہے، جو بعض اسلام پسند آج دے رہے ہیں کہ تحریکات اسلامیہ خود ناکام نہیں ہوئیں بلکہ ان کے داخلی اور خارجی دشمنوں نے انھیں ناکام بنایا ہے ۔یہ دلیل دیتے ہوئے ہم لوگ بھول جاتے ہیں کہ آسانی سے ناکام ہوجانا تو خود اپنی جگہ ناکامی ہے اور محاصرے میں گھرجانا خود ایک بڑی کمزوری ہے۔ سیا ست تو کامیابی اور قوت کے حصول کے لیے مسلسل کش مکش کا نام ہے، سیاست صرف تقریروں اور اچھی نیتوں کا نام نہیں ہے !