ناظم الدین فاروقی


بھارت میں روز بروز حالات اس قدر خراب ہو رہے ہیں، جس سے بھارت میں بسنے والا ہرمسلمان مضطرب اور ذہنی تنائو کا شکار ہے۔ آئے دن ایسے خطرناک مسائل کا سامنا ہوتا ہے کہ ایک افسوس ناک واقعے پر کچھ لکھتے ہوئے، سیاہی خشک نہیں ہوتی، کہ دوسرا اُس سے بھی بڑھ کر الم ناک واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ ایسے صبح و شام میں کسی تبصرہ نگار کے لیے جم کر بات کرنے کی ہمت ہی ٹوٹ جاتی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ سب ایک ترتیب اور متعین مذموم مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل آف انڈیا کے سربراہ ارکار پٹیل نے مدھیہ پردیش کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں کی املاک کو کھرگون انتظامیہ نےغیر قانونی طور پر منہدم کیا ہے‘‘۔

پتھر بازی کو ایک ہتھیار کے طور پر برتنے کی ہندستان میں پرانی روایت ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء کے بعد بھارت میں ہونے والے ۱۴ ہزار بڑے مسلم کش فسادات میں اکثر یہی پتھرائو والا ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مذہبی جلوس اور یاتراؤں کو پہلے پولیس و انتظامیہ مسلم علاقوں سے گزرنے کی اجازت دیتی ہیں، پھر چند بدمعاشوں کو مسلمانوں کےسادہ لباس میں ملبوس کرا کے ان جلوسوں پر کچھ پتھر پھینکوائے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا جاتا ہے ۔ نعرے بازی ، آتش زنی، قتل و خون ریزی، لُوٹ مار، مسلم عورتوں کی بے حُرمتی___  فساد شروع ہوجاتا ہے ۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں اس طرح مسلط کردہ فسادات کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان ہلاک کیے جاچکے ہیں۔

یوں پتھراؤ یا پتھر بازی کا بہانہ کرکےفساد بھڑکائے جاتے ہیں ۔ فسادی غنڈے پولیس کی مدد، سرپرستی اور تائید سےمسلمانوں کے قتل، ریپ اور انھی کی املاک کو نذرِ آتش کرنے میں معاون بن کر یک طرفہ کارروائی کرتے ہیں، اور پھر انھی متاثرہ مسلمانوں کے نوجوان طبقے کو فسادی قرار دے کر گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ بظاہر ’توازن‘ رکھنے کے لیے ہندو آبادی سے پکڑے چند لوگ بہت جلد باعزّت بری ہوجاتے ہیں، مگر مسلمان نوجوان جیلوں میں گلتے سڑتے رہتے ہیں۔

آنجہانی جنرل بپن راؤت ۲۰۱۷ء سے کشمیری مائوں کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ ’’اپنے بچوں کو روکے رکھو ورنہ جو پتھر اُٹھائے گا وہ کچل دیا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد پتھرائو کے الزام میں گرفتار کم عمر بچوں کی بڑی تعداد کشمیر میں ہے۔ ان بچوں پر جیل میں کیا گزرتی ہے، اس باب میں کوئی نہیں لکھتا۔

مذہبی جلوسوں میں ہزاروں غنڈے تلوار،خنجر،لاٹھیاں، سلاخیں، آتشیں اسلحہ و کیمیکل بھری بوتلوں کے ساتھ مسلم بستیوں اور گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ’مرتا کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اپنی اور اپنے گھر کی عورتوں، بزرگوںکی مدافعت میں بے ساختہ پتھراؤ کے ذریعے حملہ آوروں سے محفوظ رہنے کی آخری کوششیں کی جاتی ہیں، جو ایک انسان کی بقا کاآخری حق ہے۔ اب اسے بھی چھینا جارہا ہے۔

مظفر نگر۲۰۱۳ء اور پھر ۲۰۲۰ء کے دہلی کے فسادات کے دوران ہزاروں حملہ آوروں کی یلغار سے بچنے اور چھتوں سے مدافعت کے لیے جب مسلمانوں نے اپنی چھتوں پر کچھ پتھر اکٹھے کیے تو ان جمع شدہ پتھروں کی ویڈیو فوٹیج لے کرUAPA ایکٹ کے تحت ’ملک سے غداری‘ جیسے خطرناک قوانین میں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کر دیئے گئے اور جن کے گھر والے فسادات میں ہلاک ہوئے، ان پر بھی سخت ترین مقدمات درج کیے گئے۔۲۰۲۰ء کے دہلی فساد میں ہندوئوں کے بالمقابل ۴۳ مسلم شہید ہوئے۔ پھرمسلمانوں کی بڑی تعدادبھی دو،دو سال سے جیلوں میں پتھراؤ کے گھناؤنے الزام کے تحت سڑ رہی ہے، نہ سماعت اور نہ رہائی!

  • ۱۰؍اپریل ۲۰۲۲ء کو راجستھان کے شہر قرولی میں مذہبی ریالی شوبھا یاترا کے نام پر نہایت ذلت آمیز نعرے بازی کے ذریعے حالات کو خراب کیا گیا، اور ساتھ ہی پتھراؤ کے نام پر  چُن چُن کر نشاندہی کے ساتھ بڑی تعداد میں مسلمانوں کی دکانوں، پھل اور سبزی فروشوں کے ٹھیلوں کو لوٹ کر جلا دیا گیا ۔ انتظامیہ کی موجودگی میں پٹرول چھڑک کر آگ لگائی گئی اور پولیس گھروں میں گھس گھس کر بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کرکے انتہائی بے دردی سے زد وکوب کرتے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلتی رہی، اور یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔
  • جھاڑکھنڈ میں مساجد کے سامنے مسلمانوں کے نام لے لے کر ڈی جے موسیقی کے شور میں مسلمانوں کو فحش گالیاں دی جاتی رہیں۔ گجرات میں ٹوپی، داڑھی والوں پر فحش طنزیہ، دھمکی آمیز گانے بنائے گئے۔ شرپسند شراب کے نشے میں دھت بدمست ہاتھیوں کی طرح مسلم گھروں پر حملہ آور ہورہے تھے۔ جلوس میں مسلم خواتین پر جنسی حملے کرنے کی ترغیب پر مبنی کھلے عام نعرے لگائے جارہے تھے۔ اس طرح گجرات کے چار شہروںمیںمسلمانوںپرحملےکرکےگھرجلادیئے گئے۔
  • مسلم محلوں کی مساجد کے سامنے یہ فسادی ننگی تلواروں، بھالوں کے ساتھ گھنٹوںخوب ہنگامہ آرائی کرتے رہے تا کہ مسلمانوں میں خوف اوراشتعال پیدا ہو۔ دھمکیاں دی گئیں اور جلوس ’مہابھارت‘ کے جنگ و جدال کا منظر پیش کر رہا تھا۔مسلمانوں پر حملے، گرفتاریاں، املاک پر تسلط یا مسمار کرنے پھر ان کا قتل عام کرنے کی سازش منصوبہ بندی سے کی جارہی ہے ۔

فسادیوں کے مسلم مخالف نعروں اور ہنگامہ آرائی میں ہوسکتا ہے کہیں مسلمانوں نے اپنی مزاحمت میں پتھر پھینکے ہوں۔ اتنی بڑی کھلے عام اور منظم یلغار کے جواب میں بے ساختہ چندپتھر پھینکنا کیا اتنا بڑا جرم ہوگیا کہ کھر گون میں ریاست کی پوری مشنری حرکت میں آگئی اور پولیس بندوبست کے ساتھ مقامی انتظامیہ نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی سربراہی میں مسلمانوں کے ۱۷مکانات اور ۲۹ دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعے مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا کہ یہ مسلمان پتھرائو کر رہے تھے۔ بے شرمی کا عالم دیکھیے کہ مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان اوروزیر داخلہ نروتم مشرا برملا کہہ رہے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے پتھر بازی کی ہے ہم ایک ایک کوسخت سزا دیں گے اور ان کی جائیدادوں کو بلڈوزر سے ڈھیر کرکے بطور جرمانہ بلڈوزوروں کا کرایہ بھی لیں گے، وغیرہ۔ NDTV کے اینکر نے وزیر داخلہ نروتم مشرا سے انٹرویو میں اصرار کرکے پوچھا کہ ’’یہ انتقامی کارروائی آپ کس قانون کے تحت کررہے ہیں؟‘‘ جواب میں بار بار نروتم مشرا دُہراتے رہے کہ ’’ہم سب کچھ قانون کےمطابق کررہے ہیں‘‘وغیرہ۔

سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا قانون میں اس طرح کے انتقام لینے کی کوئی گنجائش ہے؟‘‘ انھوں نے برملا کہا کہ یہ سراسر منصوبہ بند پیمانے پر سرکاری غنڈا گردی اور قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جب تک کسی مقدمے میں کارروائی سے عدالت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں ملزم نے پتھراؤ کیا تھا، اس وقت تک کوئی بھی کارروائی  کرنے کا حکومت یا پولیس اور انتظامیہ کو اختیار حاصل نہیں ‘‘۔

کسی غیرقانونی گھر بار کو منہدم کرنے سے پہلے انتظامیہ پر لازم ہے کہ نوٹس دے کر پہلے مقدمہ دائر کرے۔ یہ عدالت کا کام ہے کہ مقدمے کی نوعیت کے اعتبار سے فیصلہ دے اور پھر جس کے خلاف فیصلہ دیا جائے گا، اس کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں عرضی داخل کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔مگر یہاں تو بستیوں کی بستیاں ڈھائے جارہی ہیں اور مسلمانوں کے گھر بار مسمار کرنے کے لیے مفروضے گھڑے جاتے ہیں۔ اپریل کے دوسرے ہفتے میں ہماچل پردیش میں مسلمانوںکی ایک پوری بستی اس الزام کے تحت زمین کے ساتھ برابر کر دی گئی کہ وہ ریلوے کی زمین پر قابض تھے۔ اس طرح ہزاروں خاندانوں کے گھرزمین بوس کردیئے گئے۔

بھارت میں پتھراؤ سے جائیدادوں کو زمین بوس کرنے کا ایک نیا وحشیانہ طریق کار دنیا کے سامنے ہے۔گذشتہ چند برسوں سےتجرباتی طور پر پہلے یہ عمل کشمیر میں اورپھر آسام میں بڑے پیمانے پر کیا گیاتھا۔ ہندو بریگیڈ نے دیکھ لیا کہ مسلمان بے بس اور کمزورہیں اور ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتا ۔ حقوق کو پامال کرنے والے وہ خودساختہ منصف درندے جو راتوں رات بدترین یلغار کرتے ہوئے مسلمانوں کی بستیوں کو ڈھیر بناتے ہیں، وہ کون سی مہذب سوسائٹی کا حصہ ہیں اور اس طریق کار کی کون اجازت دے سکتا ہے؟ یہ کون سی جمہوریت ہے؟

چیف منسٹر مدھیہ پردیش چوہان سنگھ نے کہا کہ ’’نہ صرف ہم ان کی جائیدادیں مسمار کرکے قرق کریں گےبلکہ مسلمان بستیوں پر اجتماعی بھاری جرمانے بھی عائد کریں گے‘‘۔فلسطین میں اسرائیلی پولیس کا فلسطینیوں کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ بات بات پر قتل، گرفتاری اور غریب معصوم فلسطینی باشندوں کےگھروںکوبلڈوزکردیاجاتاہے۔ ایسالگتا ہے کہ بی جے پی نے اسرائیلی حکومت سے انتقامی کارروائی کے درس حاصل کیے ہیں ۔

چند مٹھی بھر مسلمانوں کی مزاحمت پر بی جے پی ؍ آر ایس ایس غصے میں آپے سے باہر ہورہی ہے ۔ انتقام اور بدلے کے جنون اور پاگل پن میں مبتلاہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست کرنے کے لیے یک طرفہ معاندانہ انتقامی کارروائیاں حکومت کی نگرانی میں ہورہی ہیں۔ زندگی کو بچانے کے لیے مزاحمت کا جو بنیادی حق قانون دیتا ہے، اسے بھی اس لیے چھین لینا چاہتے ہیں کہ ظلم و درندگی اور نسل کشی کا نشانہ بننے اور موقعے پر مارے جانے والے بے قصور مسلمان آہ تک نہ کریں ۔ خود یہ جلتے، کٹتے، مرتے مسلمان اپنی مسلم قیادت سے سوال کر رہے ہیں کہ کس دن کے انتظارمیں آپ حضرات سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں؟

بھارت میں مسلم ملّی، مذہبی، سیاسی قیادت کمزور اور غیر مؤثر ہوچکی ہے۔ گذشتہ برس بابری مسجد کے مایوس کن فیصلے، قانون طلاق ثلاثہ، کشمیر کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اےکی برخواستگی کے بعد سے نرسمہا آنند سرسوتی کی مسلمانوں کی نسل کشی ’ بولی بائی ڈیل ‘، پھر ۱۱ مارچ ۲۰۲۲ء کو انتہائی اشتعال انگیز فلم ’کشمیر فائلز‘ کے ریلیز سے لے کر ۱۱؍اپریل ۲۰۲۲ء کو شوبھایاترا تک مسلمانوں کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، اس پر مسلم قائدین، علما کو اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ متحدہوکر ایک بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کریں، اور مظالم کے خلاف آواز بلند کریں، تاکہ دُنیا کے تمام انسانی حقوق کے فورم اورحکومتوں تک مظلوموں کی آواز پہنچ سکے۔اس دوران میں ایک جماعتی وفد نے راجستھان کے حالیہ فساد زدہ گائوں قرولی کا دورہ کیا۔

مسلمانوں میں اپنے وجود و بقا کا شعور بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ دعوتی اور رفاہی کاموں میں مصروف حضرات کے سامنے تو اب اُمت کے تحفظ و بقا کا مسئلہ آن کھڑا ہوا ہے۔ یک طرفہ مسلط کردہ لڑائی کا ہرسطح پر آغازہوچکا ہے ۔ دین دار، سیکولر اورعام مسلمان طبقے کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنی جماعتوں ، گروہی، مسلکی اختلافات سے اُونچا اُٹھ کر دستور کے دائرے میں اُمت کے تحفظ و بقا کی جدوجہد میں شامل ہوں۔ دستوری و آئینی حقوق کو پامال ہونے سے بچائیں۔

مسلم دنیا کے حوالے سے فرانس کا ایک نہایت گہرا سامراجی کردار رہا ہے، مگر عام طور پر لوگ اس سے واقف نہیں ہیں۔ لیکن جن مسلم علاقوں میں فرانسیسی استعماریت نے اپنی نوآبادیات قائم کر رکھی تھیں، وہ اس خون آشامی سے بخوبی آگاہ ہیں۔ گذشتہ دنوں فرانس کے صدر میکرون نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا۔

میکرون نے ستمبر ۲۰۲۱ءمیں کہا تھا کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ کوئی الجزائر نامی عرب ملک بھی ہے۔ یہ توہماراملک ہے، جہاں آج بھی فرانسیسی بولی جاتی ہے، جس کے تعلیمی اداروں میں ہمارا نصاب پڑھایا جاتا ہے اور یہ ممالک عرب کم، فرانسیسی زیادہ ہیں۔ ہمارے علاقے ہم کو چاہییں‘‘۔ اس پر الجزائر اور اس کے ہمسایہ دوسرے افریقی عرب ممالک میں سخت ردعمل ہوا۔ انھوں نے اپنے ہاں متعین فرانسیسی سفیروں کو طلب کرکے فرانسیسی صدر کے غیرذمہ دارانہ الفاظ اور رکیک حملوں پر شدید احتجاج کیا۔ اسی دوران اسرائیل کی دو آبدوزیں، الجزائر کے ساحل پر نمودار ہوئیں۔  فرانس کے ایک وزیر نے یہ اشتعال انگیز بیان دیا: ’’ہم الجزائر سے ابھی نہیں گئے ہیں، ہمارا وجود عرب اقوام کو بھولنا نہیں چاہیے‘‘۔

اس تنازعے کی بنیاد پر مراکش، الجزائر، تیونس میں ہنگامے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ الجزائر اور دوسرے ممالک نے اعلان کیا کہ ’’فرانسیسی زبان میں،اپنے ہاں رائج فرانسیسی تعلیمی نصاب کو ہم مستردکرتے ہیں‘‘۔ ساتھ ہی انتظامیہ اور عدلیہ سے بھی فرانسیسی زبان کے خاتمے کے لیے کوششیں شروع ہوگئیں۔ اسی دوران صدر میکرون نے پیرس میں چند الجزائری نژاد فرانسیسی نوجوانوں کا اجلاس طلب کیا اور ان کے سامنے اپنی اس شرانگیز خواہش کا اظہار کیا کہ ’’اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لیے آزادی کی نئی تحریک کا آغاز کریں۔ وہاں پر ایک نئے مغربی ملک کی ضرورت ہے، جو بین الاقوامی معیارات کے مطابق اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ چل سکے،وغیرہ‘‘۔

اسی طرح فرانس، دومسلم ممالک تیونس اور لیبیا کی سیاست کو زیروزَبر کرنے اور شفاف جمہوریت کے قیام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

فرانس کا سامراجی کردار

فرانس، یورپ کی ایک بڑی سامراجی طاقت رہا ہے۔ کئی مسلم عرب اور افریقی عرب ممالک پر کم و بیش ڈیڑھ دو صدی تک قابض رہا۔ ان اقوام کے تہذیب و تمدن اور زبان پرفرانسیسی تہذیب کے بڑے پیمانے پر اثرات آج بھی نمایاں ہیں۔ فرانس اپنے پرانے نوآبادیاتی ممالک (مغرب) تیونس، الجزائر، مراکش، موریطانیہ، لیبیا اوران کے ساحلوں پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے ان ممالک کی داخلی سیاست، معیشت، انتظامیہ،تعلیم،عدلیہ اور فوج میں براہِ راست مداخلت کرتا چلا آیا ہے، اور وہ اس مداخلت کو اپنا بین الاقوامی حق سمجھتا ہے۔

ان ممالک میں فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد،یہاں پر فرانس ہی کے زیراثر کاسہ لیس اور ذہنی غلام حکمرانوں کی بدترین ڈکٹیٹرشپ چلتی رہی۔الجزائر اسلامک سالویشن فرنٹ، نیشنل لبریشن فرنٹ اور اسلامک سالویشن آرمی نے ۱۹۹۱ء تا ۲۰۰۲ء تک محمد بوضیاف اور پھر علی کافی اور الیمین زروال کی فوجی ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کے لیے ہرسطح پر جدوجہدکی، جس میں ۱۰لاکھ لوگوں کی جانیں کام آئیں۔ الجزائری انتخابات میں اسلام پسند پارٹی (FIS) نے ۸۰ فی صد نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی، تو فرانس نے الجزائری فوج کو بھڑکا کر ان انتخابات کو کالعدم قرار دلایا اور ایک ایسی ڈکٹیٹرشپ مسلط کردی، جس کے تسلسل میں عبدالعزیز بوتفلیقہ ۲۷؍اپریل ۱۹۹۹ء سے ۲؍اپریل ۲۰۱۹ء تک الجزائر کا ڈکٹیٹر رہا۔ لیبیا میں جب جنگجو حفتر کی ملیشیا کے خلاف ترکی نے معمولی سی طاقت استعمال کی توفرانس نے شدید اعتراض کیا اور اس پر ترکی و مراکش کے اختلافات عروج پر پہنچ گئے۔ کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال مراکش، تیونس اورلیبیا کی ہے کہ ان کے پیچھے فرانس کا مضبوط ہاتھ ہے۔

مراکش، الجزائر،تیونس، لیبیا، موریطانیہ کی حکومتوں کے بارے میں یوں لگتا ہے کہ یہ بڑی کمزور اور اداراتی سطح پر فیصلہ سازی میں سُست روی کا شکار ہیں۔ فرانس سے آزاد ہوئے ۵۰سال گزرنے کے باوجود بھی یہ ممالک اپنا قومی تعلیمی نظام،عدلیہ اور انتظامیہ کا خودکارنظام قائم نہیں کرسکے۔ ہرسطح پر فرانسیسی طاقت وَر گماشتوں اور مخبروں کی مضبوط گرفت آج بھی نظر آتی ہے۔

فرانسیسی معاشرہ

اگرفرانس کو ایک اخلاق باختہ ملک کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، جہاں ۶۰ فی صد بچے بے نکاح جوڑوں کے ہاں پیدا ہوتے ہیں۔ عورت کی شادی کی اوسط عمر ۳۴سال ہے۔ اوسطاً ایک فرانسیسی کے ہاں ۱ء۳ فی صد بچے پیدا ہوتے ہیں، جب کہ مسلمان عورتیں ۳سے ۴ بچوں کا تولیدی رجحان رکھتی ہیں۔ یہ رجحان دیکھتے ہوئے فرانسیسی ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ ’’اگر اسی رفتار سے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا تو ۲۰۵۷ء تک مسلمانوں کی فرانس میں آبادی اکثریت میں آجائے گی، جو سارے یورپی خطے کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘‘۔

فرانسیسی معاشرے کے لیے سب سے بڑا چیلنج خاندانی نظام کو مسترد کرتے ہوئے ہم جنس زدہ کلچر کو فروغ دینا ہے، اور اس کے خوفناک سماجی اثرات کا سامنا کرنا ہے۔ شادی کے بندھن کو اب فرانسیسی سماج میں سخت معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔جو شادی شدہ جوڑے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کے ہاں بچے پیدا ہوں،یا جو آزادانہ جنسی اختلاط کے تولد ہونے والےبچے کے ماں باپ بنیں۔

چند سال قبل پیرس میں مکمل طور پر برہنہ عورتوں نے ایک جلوس نکالا تھا اور پلے کارڈوں پر لکھا تھا: ’’مجھ سے شادی کرلو‘‘۔ دُنیا کی تہذیب یافتہ قوم کی جنسی حیوانیت، بے شرمی اور بے حیائی کے اس مظاہرے نے اخلاق باختگی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے کہ پیشہ ور طوائفیں بھی اس طرح نہیں کرتیں۔ ہم جنس زدہ مردوں اور ہم جنس زدہ عورتوں کی شادیوں کا آخرکار انجام یہی ہونا تھا۔ فرانسیسی معاشرے میں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جس معاشرے میں انفرادی، اجتماعی اورعائلی زوجین کے سرے سے کوئی اصولِ زندگی اور کوئی ضابطۂ حیات نہ ہو تو اس معاشرے کو کوئی دوسرا انسانی معاشرہ اپنے لیے رول ماڈل نہیں بنا سکتا۔

فرانسیسی مسلمان : حکومت اور معاشرے کے جبر کا شکار

فرانس میں کئی برسوں سے اسلاموفوبیا کے بخار میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف بار بار نفرت بھرے جرائم اور بے عزّتی میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔یاد رہے جنوری ۲۰۱۵ء کو اخبار چارلی ہیڈو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنانے کے بعد مذکورہ اخبار کے دفتر پر ایک ’جعلی حملے‘ میں ۱۲؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اضافہ ہوا۔ جرائم کی پرکھ رکھنے والے ماہرین اس حملے کو آج بھی ایک ’جعلی دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہیں۔ اسکولوں، گورنمنٹ کے اداروں، کاروباری مراکز، فیکٹریوں، تجارتی و شاپنگ مالوں اور دکانوں میں وقفے وقفے سے مسلمانوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

پیرس میں ایک الجزائری عرب کی بہت مشہور بیکری تھی، جہاں رات دن گاہکوں کی قطاریں لگا کرتی تھیں۔ انتہاپسند فرانسیسی عیسائیوں کو یہ بہت کھٹک رہا تھا۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اس کے بارے ایک من گھڑت خبر اُڑا دی کہ ’’یہ انتہا پسند عرب، اپنی بیکری کی آمدنی دہشت گردوں کو بطور عطیہ دیتا ہے‘‘۔ پھر یہ خبر لندن، نیویارک اور دُنیا کے بڑے مشہور میڈیا مراکز پر نشر کر دی گئی۔ اب اس بیکری کے مالکان کا کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا ہے، یہ ہے اسلاموفوبیا کا ایک نمونہ۔

فرانسیسی استعماری نوآبادیاتی نظام کا دورِ استبداد بڑا طویل رہا۔ فرانس نے مراکش پر ۴۴سال ، تیونس پر ۷۵سال اور الجیریاپر ۱۳۲سال تک اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا تھا۔ ۶۰ کے عشرے میں جب فرانس کے خلاف زبردست آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں، تو اس وقت فوج و انتظامیہ میں موجود عرب ملازمین نے عرب عوام کے غصّے سے بچنے کے لیے فرانس میں پناہ لی تھی اور انھیں مسلمانوں سے غداری کے عوض بڑے پیمانے پر فرانسسی شہریت بھی دے دی گئی تھی۔

صدر میکرون کی حکومت نے فرانس میں اسلام کے خلاف جاری شدید نفرت و اہانت کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے برعکس کبھی حجاب پر پابندی، کبھی مساجد پر گرفت، کبھی خطباتِ جمعہ پر تادیبی حکم نامے یا مسلم انتظامیہ کے اسکولوں اور قرآن کی تعلیم پر پابندی کے لیے سخت تر قوانین مرتب اور نافذ کیے۔ گورے فرانسیسی ہمیشہ ترکی، الجزائر، تیونس، مراکش، موریطانیہ اور لیبیا کے عرب مسلمانوں کو ایک ناکارہ گندہ بوجھ سمجھتے آئے ہیں۔ فرانس میں گذشتہ ۵۰برسوں کے دوران مسلم آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور اب ان عربی نژاد شہریوں کی چوتھی نسل ہے۔

فرانس کی کُل آبادی ۶کروڑ ۷۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۶ لاکھ یعنی ۸ء۹ فی صد مسلمان فرانسیسی شہریت کے حامل ہیں۔ پھران میں ۸۲ فی صد افریقی عرب نژاد اور باقی ترکی النسل ہیں۔ تیونس کے ۱۱ء۴ فی صد، الجیریا کے ۴۳ فی صد، مراکش کے ۲۷ فی صد، ماریطانیہ کے ۴فی صد، ترکی ۸ء۶ فی صد، ساحل ۹ء۶ فی صد مسلمان شامل ہیں۔

فرانس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو بار بار گستاخی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، جس پر عالمِ اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر اُٹھتی ہے۔ غیرعرب ممالک پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائشیا، ترکی میں شدید احتجاج اس کے خلاف کئی مرتبہ ہوچکے ہیں۔

۲۷، ۲۸؍اگست ۲۰۲۱ء کو عرب حکمرانوں کی بغداد میں کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں بطورِ مہمانِ خصوصی میکرون نے شرکت کی۔ اس دوران میزبان اورمہمان عرب ممالک کی غیرت جاگنی چاہیے تھی کہ میکرون جیسے ملعون کو عرب ممالک کے حکمران، ایک قائد کے طور پر سرجھکائے سن رہے تھے، اور اس کی پذیرائی کر رہے تھے، حالانکہ اس کا مقاطعہ کیا جانا ضروری تھا۔

نیٹو افواج کی درندگی کے شکار عراق میں، جنگ سے تباہ حال علاقے کا جب میکرون نے دورہ کیا، تو بمباری سے تباہ شدہ عمارتوں اور کھنڈروں کو جوں کا توں دیکھا۔ مساجد، مدارس، ہسپتال بُری طرح تباہ و برباد نظر آرہے تھے۔ لیکن جب میکرون نے تکریت میں ایک تباہ شدہ چرچ کو دیکھا تو اس کے پادری نے کہا کہ ’’داعش نے یہ سب کچھ تباہ کر دیا‘‘۔ قریب کھڑے ایک دوسرے عرب پادری نے میکرون سے پوچھا: ’’داعش جس نے بنائی ہے، آپ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ آپ لوگ اگر چاہتے تو یہ تباہی چند مہینوں میں ختم ہوسکتی تھی۔ بتائیں اس کے کون ذمہ دار ہیں؟‘‘ پھر اسی عرب پادری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ کی فضول باتوں سے ہم مطمئن ہونے والے نہیں ہیں‘‘۔

فرانس میں داخلی طور پر مسلم آبادی پر مظالم کی جو لہر روزافزوں ہے ، میکرون اور اس کی حکومت اس کی بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ مگر اس کا ذکر نہ بغداد علاقائی کانفرنس میں کسی عرب حکمران نے کیا، اور نہ کسی میں اتنی جرأت اور ہمت تھی کہ وہ اپنی سخت احتجاجی قرار داد فرانسیسی صدر کے حوالے کرتا۔ غالباً میکرون کو مسلمانوں کے بارے بھارت کی دوغلی پالیسی بہت کامیاب نظر آتی ہے، جہاںعرب مہاراجوں سے گہری دوستی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور داخلی طور پر فرانس کی طرح اسلام اورمسلمانوں کے لیے سخت ظالمانہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔

۳۰ ستمبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں، مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی صدر کا حکمرانوں نے پُرتپاک استقبال کیا ،مگر عوامی سطح پر ان کے خلاف سارے عالمِ اسلام میں شدید جذبات اور احساسات پائے جاتے ہیں۔ افسوس کہ عرب حکمرانوں نے اتنی جرأت، حوصلے اور ہمت نہیں برتی کہ وہ کہہ سکتے: ’’اسلاموفوبیا اور نبی کریمؐ کے خلاف گستاخیاں، مسلمانوں پر جو ظلم و زیادتیاں فرانس میں سرکاری سرپرستی کے ساتھ گذشتہ چند برسوں سے ہورہی ہیں، ان پر وہ پہلے معذرت کرے اور مسلمانانِ فرانس کے ساتھ نرمی و مروّت کا معاملہ کرے‘‘۔ یہ ’گلف کوآپریٹیو کونسل‘ (GCC) کی اوّلین ذمہ داری تھی کہ وہ ایک قرارداد، سفارتی پروٹوکول کو ملحوظ رکھتے ہوئے متفقہ طور پر میکرون کو پیش کرتی۔ بہرحال، دوسری طرف پاکستان اور ترکی نے جہاں بھی موقع ملا، بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اسلاموفوبیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت و گستاخی کا مسئلہ پوری قوت سے اُٹھایا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عرب لیگ کے تمام حکمرانوں نے لبرل ازم اور سیکولرزم کے سامنے جھکنے کی انتہا کردی ہے۔ جس دین اسلام میں، جن رسولِ کریمؐ اور جن پر ایمان باللہ کی وجہ سے دُنیا میں ان کی وقعت، عزّت و احترام ہے، وہی اسلام کے دشمنوں کے دبائو میں آکر لاتعلقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ عرب ممالک میں اسکولوں کے نصاب سے اسلامی مضامین خارج کیے یا غیرمؤثر بنائے جارہے ہیں۔ اسلامیات، اللہ و رسولؐ کی حُرمت و احترام کی جگہ عرب وطنیت اور قومیت کو بڑھا چڑھا کر شامل کیا جارہا ہے۔ عرب اور مسلم ممالک کی اغیار کے ہاتھوں ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے۔

تاریخ ان فاش غلطیوں کی بناپر مسلم دُنیا کے حاکم طبقوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ عالمِ اسلام میں پیدا شدہ مایوسی اسی وقت ختم ہوگی، جب ۵۷ مسلم ممالک اپنے طور پر ایمان، عقل و خرد اور خوداعتمادی کے ساتھ ٹھوس فیصلے کریں گے اور دنیا پر واشگاف کردیں گے کہ ہم کسی بھی صورت اسلام، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن کریم کی اہانت ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ یہ کام ایک دو ممالک نہیں، تمام مسلم ممالک کو یک زبان اور ہم قدم ہوکر کرنا ہوگا۔

بوسنیا اور ہرذی گووینا میں سربیائی اور کروشیائی افواج نے مشترکہ طور پر ۱۹۹۲ء سے لے کر ۱۹۹۵ء کے دوران میں ساڑھے تین سال پر پھیلا مسلمانوں کا طویل قتل عام کیا۔ ۲۱ نومبر ۱۹۹۵ء کو امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں رائٹ پیٹرسن ایئرفورس بیس پر ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے گئے، جو ’ڈیٹن امن معاہدہ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اسی تسلسل میں ایک ماہ بعد ۱۴دسمبر ۱۹۹۵ء کو پیرس میں مزید معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

بوسنیا کی خوں ریزی میں سرب وحشیوں نے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمان مرد، عورتیں، بچّے قتل کیے تھے۔ ۶۰ہزار سے زیادہ خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ یورپی اقوام کی نظروں کے سامنے یہ خونیں کھیل کھیلا گیا اور عالمی طاقتیں دانستہ تماشائی بنی رہیں۔ اس یک طرفہ قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ نے امن فوج بھیجنے میں تین سال لگا دیئے تھے۔ اس کھیل کو بڑی طاقتوں کی ’حیوانی صلیبی جنگ‘ کہنا درست ہے، کیوں کہ اس قتل عام میں سربیائی افواج کے علاوہ ویٹی کن اور مغربی مافیا، بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی (Genocide) میں شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل کورٹ آف کریمنل جسٹس نے سرب فوج کے جنرل راتکو ملادیچ کو بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا مجرم قرار دے کر عمرقید کی سزا سنائی تھی۔

۲۰۲۱ء کی مردم شماری کے مطابق بوسنیا ہرذی گووینا کی جملہ آبادی ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جس میں قدامت پسند عیسائیوں کی آبادی ۳۱ فی صد ہے اور رومن کیتھولک ’روٹس‘ عیسائیوں کی آبادی ۱۵ فی صد نفوس پر مشتمل ہے۔ سرب اور کروٹس عیسائیوں کی مجموعی آبادی تقریباً ۴۶ فی صد ہے، جب کہ مسلمانوں کی آبادی ۲۰لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، جو ملک کی کُل آبادی کا ۵۱ فی صد ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو آبادی میں عیسائیوں پر ۶ فی صد کی برتری حاصل ہے۔

نومبر ۱۹۹۵ء میں خون ریزی سے متاثرہ بوسنیا کی زندہ بچ جانے والی قیادت کو ہلاکت خیز دبائو ڈال کر ’ڈیٹن معاہدے‘ پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت دُنیا کا پیچیدہ سیاسی نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا۔ امریکی صدر کلنٹن نے ’امن معاہدے‘ کے نام پر ایک مرتبہ پھر بوسنیائی مسلمانوں کو وحشی سرب و کروٹس عیسائی جنگجوئوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، اور ایسا حکومتی نظام تشکیل دیا، جس میں کبھی بوسنیائی مسلمانوں کو آزادی و خودمختاری حاصل نہیں ہوسکتی۔

یورپ میں درجن بھر ایسے ممالک ہیں، جن کی آبادی ۱۰لاکھ سے کم ہے، مگر انھیں مکمل آزادی و خودمختاری حاصل ہے۔ امریکا اور اس کے حواری اگر چاہتے تو بوسنیا کو خودمختار مملکت تسلیم کیا جاسکتا تھا، مگر فرقہ پرست عیسائی، خصوصاً پوپ آف ویٹی کن کے لیے یہ بات ناقابلِ قبول تھی کہ یورپ میں کوئی مسلم ملک دوبارہ وجود میں آئے۔ اس حقیقت کا پتہ ’ڈیٹن معاہدے‘ کے وقت ہی چل گیا تھاکہ مقتدر عالمی عیسائی طاقتوں کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ بوسنیا ہرذ ی گووینا میں مجلس نمایندگان کے لیے ۴۲ اور ’مختارِ کُل مجلس سیاسی‘ کے لیے پانچ نشستیں طے کی گئیں۔ ملک میں ہردو،دوسال کی میعاد کے ساتھ تین صدور ہوں گے، یعنی دو سال مسلمان، دو سال سرب، دو سال کروٹس کا صدرمملکت ہوگا۔ ۱۵فی صد کروٹس اور ۳۱ فی صد سرب عیسائیوں کو ۵۱ فی صد بوسنیائی مسلمانوں کے مساوی دستوری اختیارات دیئے گئے، جس میں اکثریتی آبادی کا واجبی حق تسلیم کیا گیا۔ پھر حکومت کی باگ ڈور پانچ افراد پر مشتمل مجلس قائدین کے ہاتھوں میں دے دی گئی۔

ہولناک مظالم کے خوں ریز مناظر،مسلم عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کی دردناک داستانیں،سننے اور پڑھنے والوں کو لہو کے آنسو رُلا دیتی ہیں۔ جان بچانے کے لیے پہاڑوں اور جنگلوں میں پناہ لینے والے ہزاروں مسلمانوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ابھی تک پہاڑوں سے اپنے جگر گوشوں کی ہڈیاں تلاش کرکرکے تدفین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ جب میدانوں اور پہاڑوں پہ بکھرے ہوئے معصوم مسلمانوں کے ڈھانچے اور ہڈیاں دیکھتے ہیں تو غم کے مارے سینہ کوبی پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

سربوں اور کروٹس کو عیسائی دُنیا سے زبردست مالی امداد ملتی رہتی ہے۔ لیکن ۲۶سال پر پھیلے اس طویل عرصے میں ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) اور مسلم ممالک نے بوسنیا کے مظلوم مسلمانوں کی بقا اور بہتری کے لیے کوئی خاطرخواہ مدد نہیں دی۔ مسجدوں کی مرمت اور قبرستان اور دینی مدارس کے لیے کچھ مخیر عربوں کی نجی سطح پر تو امداد ملتی رہی، مگر ان کی معاشی لحاظ سے تباہی و بربادی کا کوئی حل نہیں نکالا گیا۔ بے روزگاری عام ہے، تجارت اور انڈسٹری نہیں ہے۔ بوسنیا ایک زرعی ملک ہے، مگر صرف کھیتوں پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔

۲۰۱۸ء میں ’بوسنیا پریذیڈنسی‘ کے تین ارکان کے انتخابات ہوئے۔ مسلم نمایندہ سیفک ڈظفرک (Safik Dzafarric)، کروٹس نمایندہ زجکوکسک (Zejkokosic) اور سرب نمایندہ ملارڈ ڈوڈک (Milorad Dodik) منتخب ہوئے۔ ایک چھوٹے سے ملک میں، جہاں کی آبادی صرف ۳۳لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ۴۶ فی صد کی عیسائی اقلیت کے سرب اور کروٹس کو ایک ایک صدر اور اکثریتی مسلمانوں کی آبادی کو صرف ایک صدر دیا گیا ہے۔ اس طرح یہ دونوں مل کر گذشتہ ۲۶برسوں سے ہرمسلمان صدر کو ناکارہ بناتے آئے ہیں اور حکومت کی باگ ڈور عملی طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھے ہوئے مسلمان صدر کو کبھی سُکھ چین سے حکومت چلانے نہیں دیتے۔

ملارڈ ڈوڈک (سرب) نے ۲۰۱۸ء میں صدارتی رکنیت کے لیے منتخب ہونے کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف سخت نفرت آمیز مہمات منظم کی ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کیا ہے: ’’۱۹۹۵ء سے پہلے سربوں نے نہ کوئی نسل کشی کی تھی اور نہ قتل عام کیا تھا۔ مسلمان یہ سب جھوٹ بول کر حکومت میں آچکے ہیں‘‘۔ اس نے یہ بھی کہا ہے: ’’۲۶ سال پہلے جو ہوا، ہم اس کی تاریخ دوبارہ مرتب کریں گے اور آیندہ اگر ۱۹۹۲ء کے قتل عام کا کوئی الزام ہم پر لگائے گا تو پھر اس کا انجام وہی ہوگا، جو ۲۶سال پہلے ان لوگوں کا کیا گیا تھا‘‘۔ وہ بہت ڈھٹائی اور جھوٹ کی بنیاد پر ایک نیا خونیں قلعہ تیار کر رہا ہے۔ ملارڈ نے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں قصاب جنرل ملادیچ کو قومی ہیرو قرار دے کر اس کے خلاف شائع ہونے والے مواد اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی پوسٹوں پر سخت قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔

ملارڈ نے ایک پریس کانفرنس میں مظلوم متاثرہ مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سبھی لوگوں سے انصاف کے پابند ہیں، اور یقین دلاتے ہیں کہ ۱۹۹۵ء سے پہلے ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو قبرستانوں میں حاضری دینے کے لیے پاسپورٹ ساتھ رکھنے کی پابندی عائد نہیں کریں گے‘‘۔

انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس خطرناک صورتِ حال پر اقوام متحدہ اور نیٹو کو متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری احتیاطی تدابیر کے ساتھ متحدہ عالمی فوج، بوسنیا ہرذی گووینا میں تعینات نہ کی گئی، تو ایک مرتبہ پھر بوسنیا کے مسلمان طویل اور بدترین قتل عام کا شکار ہوں گے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق کروٹس اور سرب، گھرگھر کلاشنکوف کی تقسیم عمل میں لارہے ہیں، جب کہ مسلمانوں کے پاس ایک یورو اورایک ڈالر بھی نہیں ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے کوئی معمولی سا پستول بھی خرید سکیں۔

۲۰۲۰ء میں سربوں نے اپنی علیحدہ فوج بنالی ہے۔ بوسنیا میں جولائی ۲۰۲۱ء سے مسلسل خطرناک سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سرب صدارتی رکن ملارڈ ڈوڈک نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم ملک کی عدلیہ،انتظامیہ اور فوج کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ ان کی جانب سے حکومت کے تمام محکموں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ وہ کام روک دیں۔ نومبر۲۰۲۱ء کے پہلے ہفتے میں اس نے یہ اعلان بھی کیا کہ ’’۱۹۹۵ء کے ڈیٹن معاہدے کو ہم مسترد کرچکے ہیں، اب ہم ہرگز اسے تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غیرمتوقع طور پر روسی فیڈریشن اور جرمنی کے قدامت پسند عیسائی، سربوں کی تائید کر رہے ہیں۔

حالات نہایت خطرناک ہوچکے ہیں، مگر عالمی برادری خاص کر اقوام متحدہ ابھی تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہی اور بڑی طاقتیں ظلم، قتل و خوں ریزی کے گہرے بادل اُمڈتے دیکھنے کے باوجود ٹس سے مَس نہیں ہو رہی ہیں۔

مسلم دُنیا کی بے حسی، بے بسی اور مجرمانہ غفلت کی اس کیفیت میں کون ہے، جو ان مظلوموں کی ڈھارس بندھائے اور ان کو حفاظت اور امن کی طمانیت دے؟ بوسنیا کے تعلق سے اگر انسانی حقوق کے اداروں اور ہمارے مسلم ملکوں کی ایسی ہی ظالمانہ خاموشی رہی تو بوسنیا کے مسلمان یورپ کے ’روہنگیا کے تباہ حال مسلمان‘ بنا دیئے جائیں گے کہ جو زمین پر قتل کیے جارہے ہیں، بھوک و بیماری سے مارے جارہے ہیں اور کھلے سمندر کی لہروں پر دھکیلے جانے کے بعد خونیں موجوں میں ڈوب رہے ہیں۔ ۱۸ لاکھ مسلمانوں کو بکھیر دینا اور لاکھوں کو موت کے گھاٹ اُتار دینا  ان وحشی طاقتوں کے لیے ایک معمولی کام ہے۔

سربیا افواج نے بوسنیا کے اہم شہروں سرائیوو،بنجالوکا،زینکا، تزلا، زاڈر وغیرہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ بوسنیا کی آبادی تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ روزانہ اموات ۱۰۱ ،اور مقامی شہریوں کی ہجرت اوسطاً ۲۵ افراد کی ہورہی ہے۔ بچوں کی پیدایش ۷۰ سے بھی کم ہے۔ معاشی تنگی اور خوف کی وجہ سے بوسنیائی مسلمان، یورپ کے دوسرے ممالک کو ہجرت کررہے ہیں، جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے، جس سے آیندہ چند برسوں میں مسلمان اقلیت بن جائیں گے۔

۲۰۰۱ء سے پہلے مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکا میں مسلمانوں کے معروف رفاہی ادارے مصیبت زدہ مسلمانوں کی آبادکاری اور تعمیرنو کے لیے بڑے فنڈز رکھتے اور صرف کرتے تھے۔ نائن الیون کے پردے میں امریکی صدر بش نے مشرق وسطیٰ اور یورپ و امریکا میں ایسے تمام اداروں کو ’دہشت گردوں کی امداد‘ کا الزام عائد کرکے خطرناک مقدمات دائر کرکے بند کردیا ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کا سب سے بڑا خودمختار، آزاد ادارہ گلوبل فائونڈیشن بھی امریکی سپریم کورٹ کے ہاتھوں کوئی خدمت انجام دینے سے قاصر بنادیا گیا ہے۔ ان رفاہی اداروں سے ان مظلومین کے نان و نفقہ کا انتظام ہوجایا کرتا تھا۔ ۱۹۹۵ء کی تباہ کن صورتِ حال میں ان اداروں نے بڑی زبردست خدمات انجام دی تھیں، جو عیسائی دنیا کو کھٹکنے لگی تھیں کہ یورپ کی سرزمین پر مسلمانوں کی امداد ناقابلِ برداشت ہے۔ بعد میں امریکا کی نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ نے ان کی توقعات پوری کرکے بڑی تباہی مچائی اور امداد کا سب نظام بند کر دیا گیا۔

بوسنیا ہرذی گووینا چاروں طرف سے کٹر عیسائی مملکتوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ بوسنیائی مسلمان جائیں تو جائیں کہاں؟ ہجرت کریں یا بھاگیں بھی تو کہاں بھاگیں؟ بہرحال، مایوس کن حالات کے باوجود ہمیں بہتری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ اگر آج بھی امریکا اور طاقت ور مسلم ممالک اس جانب توجہ کریں تو حالات میں سدھار آسکتا ہے، پختہ اور دیرپا امن قائم ہوسکتا ہے۔