مولانا عبد المالک


حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں:

میں منیٰ میں مسجد میں رسولؐ اللہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ آپؐ کے پاس ایک انصاری اور ایک ثقفی حاضر ہوئے۔ سلام کیا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم آپؐ کی خدمت میں کچھ پوچھنے کے لیے آئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم چاہو تو میں تمھیں خود ہی بتلا دیتا ہوں کہ تم کیا پوچھنے آئے ہو اور چاہو تو سوال کرو‘ میں تمھارے سوال کا جواب دے دوں گا۔ اس پر انھوں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ خود ہی ہمیں بتلا دیجیے۔ پھر ثقفی نے انصاری سے کہا: آپ پوچھ لیں۔ انصاری نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے (میرا سوال و جواب) بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: تم میرے پاس آئے ہوتا کہ اپنے گھر سے بیت اللہ شریف کے ارادے سے نکلنے اور اس میں جو ثواب تمھیں ملے گا‘ اور طواف کے بعد دو رکعتوں اور اس میں تمھارے لیے جو ثواب ہے‘ اور صفا و مروہ کے درمیان دوڑنے اور چلنے اور اس میں تمھارے لیے جو ثواب ہے‘ اور عرفہ کے دن میں پچھلے پہر میدان عرفات میں وقوف کرنے اور اس میں جو ثواب ہے‘ جمروں (شیطان) پر کنکر پھینکنے اور اس میں جو ثواب ہے‘ اور قربانی کرنے اور طواف زیارت کے ساتھ اس کا جو ثواب ہے‘ اس کے بارے میں سوال کرو۔ انصاری نے یہ سن کر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق دے کر بھیجا ہے‘ میں انھی باتوں کے بارے میں سوال کرنے آیا ہوں۔

اس کے بعد آپؐ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

جب تم اپنے گھر سے مسجد حرام کے ارادے سے نکلے تھے اس وقت سے تیری اونٹنی نے جوکُھرْرکھا اور جو کُھرْ اُٹھایا‘ ان میں سے ہر ایک قدم کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک نیکی لکھ دی اور ایک غلطی مٹا دی‘ اور طواف کے بعد کی تیری دو رکعتیں بنی اسماعیل میں سے ایک گردن کے آزاد کرنے کے مثل ہے‘ اور صفا و مروہ کے درمیان چکر ۷۰ گردنوں کو آزاد کرنے کے برابر ہے‘ اور عرفہ میں دوپہر کے بعد وقوف پر تو اللہ تعالیٰ تم پر فرشتوں کے مقابلے میں فخر کرتے اور فرماتے ہیں کہ میرے بندے دُور دراز علاقوں سے میری جنت کی اُمید میں اس حال میں میرے پاس آئے ہیں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور جسم غبار آلود ہیں۔ پس اگر ان کے گناہ ریت کے ذرّوں یا بارش کے قطروں یا سمندر کی جھاگ کے برابر بھی ہوں تو میں پھر بھی انھیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! واپس جائو اس حال میں کہ تم اورجن کے لیے تم نے شفاعت کی وہ بخش دیے جائیں گے۔ تم نے جمروں (شیطانوں) کو جو کنکر مارے ہیں‘ ہر ایک کنکر جو تم نے پھینکا‘ اس کے عوض میں ایک ہلاک کر دینے والے گناہ کبیرہ کا کفارہ ہو گیا‘ اور تمھاری قربانی تمھارے لیے تمھارے رب کے ہاں ذخیرہ ہو گئی‘ اور سر کے حلق کرنے میں ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ہے اور ایک خطا مٹا دی گئی ہے‘ اور بیت اللہ شریف کا طواف اس حال میں کرو گے کہ تم پر کوئی گناہ باقی نہ ہوگا (طواف سے پہلے ہی تمام گناہ ختم ہو جائیں گے)۔ ایک فرشتہ آئے گا اور تیرے شانوں کے درمیان اپنا ہاتھ رکھ کر کہے گا کہ اب آیندہ کے لیے نیکیوں کی فکر کرو‘ ماضی میں جو گناہ تھے وہ تمام معاف کر دیے گئے ہیں۔ (طبرانی)

سبحان اللہ! رسولؐ اللہ کی کیا شان ہے! سائل آتے ہیں تو قبل اس کے کہ وہ اپنے سوال پیش کریں‘ اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ  کو ان کے دل کی بات وحی کر دیتے ہیں۔ سائلین کی بھی کیا شان ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے بجائے ان کے سوال اپنے نبی کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آپؐ کی صداقت اور عظمت اس حدیث پاک میں جلوہ گر ہے۔ پھر آپؐ کی شفقت اور رحمت سائلین پر سایہ فگن ہے۔ انھیں اختیار مل گیا‘ چاہیں تو سوال کریں اور جواب لیں اور چاہیں تو بغیر سوال کے سوا ل اور جواب دونوں سے سرفراز ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بھی کیا عالم ہے کہ جو اس کی طرف چل کر آیا‘ اسے اس طرح سے نواز دیا گیا کہ پاک و صاف ہو کر نیکیوں کا انبار لیے قابل فخر و مباہات بن کر واپس ہوتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ حاجی جو یہ مقام پا لیں! ظاہر ہے یہ مقام انھی کے لیے ہے جو آیندہ کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العبادادا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ماضی کے گناہوں سے تائب ہو گئے ہوں‘ جیسا کہ حدیث کے آخر میں تلقین کی گئی ہے کہ اب آیندہ کے لیے نیکیوں کی فکر کرو۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو لوگوں کے مال (بطور قرض یا اُدھار) اس نیت سے لے کہ ان کی ادایگی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اس مال کی ادایگی کرد ے گا۔ اور جو لوگوں کے مال اس نیت سے لے کہ ان کے مال کو ضائع کرے گا‘ تو اللہ اس مال کو ضائع کر دے گا۔ (بخاری‘ ابن ماجہ)

اپنی نیت صحیح کر لیجیے‘ کام ہو جائے گا۔ نیت کام کی اصل ہوتی ہے۔ نیت ہی سے کام ہوتے ہیں۔ نیت ہی پر اجر ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی نیت کا لحاظ رکھتے ہیں۔ قرضوں کی واپسی میں تنگ دستی مانع نہیں ہے‘ بدنیتی مانع ہے۔ انسان حق دار کا حق ادا کرنا چاہتا ہو تو تنگ دستی کے باوجود اس قابل ہو جاتا ہے کہ ادا کر دے‘ لیکن نیت میں فتور ہو تو مال ہونے سے فرق نہیں پڑتا‘ بڑے سے بڑا مال دار بھی حق داروں کا حق ہڑپ کر لیتا ہے۔ اس مال سے اسے فائدہ نہیں پہنچتا اور اللہ تعالیٰ اسے اس قابل نہیں بناتا کہ وہ قرض کی ادایگی کر کے عزت پائے۔


حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

پہلاکام جسے ہم اس دن کرتے ہیں‘ نماز ہے۔ نماز کے بعد ہم واپس آتے ہیں اور قربانی کرتے ہیں۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا اور جس نے (نماز سے پہلے) ذبح کر لیا تو وہ گوشت ہے‘ جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے پہلے تیار کر لیا ہے‘ اس کا قربانی سے کوئی تعلّق نہیں ہے۔

حضرت ابوبردہ بن تیارؓ نے نماز سے پہلے ذبح کیا تھا۔ جب انھوں نے آپؐ کا یہ فرمان سنا تو عرض کیا: میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے جو سال والے سے بہتر ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تم اسے ذبح کر لو‘ تیرے بعد کسی کی طرف سے اس کی قربانی نہ ہو سکے گی۔ (مسلم شریف)

قربانی کا مقصد گوشت کا حصول نہیں ہے۔ اگر گوشت مقصود ہوتا تو پھر قربانی میں اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا کہ نماز عید سے پہلے ہوئی ہے یا بعد میں۔ اصل مقصد اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے۔ جس کی نیت  یہ ہوگی اس کی قربانی ہوگی‘ اور جس نے گوشت کھانے کی خاطر ذبح کیا اس کی قربانی نہ ہوگی۔ جو لوگ قربانی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ قربانی اور گوشت کے بجائے رقم فقرا اور مساکین میں تقسیم کر دی جائے۔قربانی کے ذریعے فقرا اور مساکین کو گوشت کھلانا مقصد ہوتا تو پھر گوشت کی جگہ رقم دی جا سکتی تھی لیکن گوشت کھلانا مقصود نہیں بلکہ سنت ابراہیمی کو زندہ کرنا اور اللہ کے نام پر ذبح کرنا مقصود ہے جو قربانی کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو گنجایش پائے اور قربانی نہ کرے‘ تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ (مسند احمد)

عیدگاہ میں آنا‘ نماز پڑھنا‘ خطبہ سننا‘ دعائوں میں شرکت کرنا اور اُمّت مسلمہ کی شان و شوکت کے مظاہرے میں حصہ لینا‘ اس شخص کو زیب دیتا ہے جو واجبات اور سنن کو ادا کرنے والا ہو۔ اہل ایمان کو ایسے شخص کی قدر کرنا چاہیے اور اسی سے دوستی کا تعلّق رکھنا چاہیے۔ ایسے شخص سے میل ملاپ رکھنا چاہیے۔ کسی شخص کا داخلہ بند کر دینا اس سے ناراضی کی انتہا ہے۔ قربانی کی استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرنے والوں کا عیدگاہ میں داخلہ بند کر دیا گیا‘ گویا یہ کہا گیا کہ اس سے میل ملاپ ہی مناسب نہیں ہے۔


حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو‘ اس لیے کہ تمھیں رزق دیا جاتا ہے اور مدد کی جاتی ہے تمھارے کمزوروں کی بدولت۔ (ترمذی)

ضعیفوں‘ بوڑھوں‘ بچوں‘ بیوائوں‘ یتیموں‘ مسکینوں‘ مریضوں اور محتاجوں کی تعظیم و تکریم کی تاکید کا اس سے زیادہ تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ضعفا کی ملاقات سے نبیؐ سے ملاقات ہو گی‘ رزق ملے گا اور اللہ کی نصرت آئے گی۔ کون ہے جس کے دل میں نبیؐ سے ملاقات اور آپؐ کی خوشنودی کی طلب اور تڑپ نہ ہو اور وہ رزق کی فراخی اور نصرت الٰہی کا طلب گار نہ ہو؟ کیا اس ارشاد کے بعد اسلامی معاشرے میں کمزور لوگ --- مستضعفین--- کس مپرسی اور بے قدری کا شکار ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اپنے معاشرے کے بارے میں غور کرنا ہوگا۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مجھ پر وہ لوگ پیش کیے گئے جو سب سے پہلے دوزخ میں ہوں گے: وہ حکمران جو مسلّط کیا گیا ہو (شریعت کے مطابق عامتہ المسلمین کا منتخب کردہ نہ ہو)‘ مال دار آدمی جو اللہ کا حق نہ ادا کرتا ہو‘ اور فقیر جو

کبر و غرور میں مبتلا ہو۔ (ابن خزیمہ)

کیوں؟ یہ بندگانِ خدا پر ظلم کرنے والے ہیں‘ اس لیے دوزخیوں کے امام ہوں گے۔

 


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:

عادل حکمران کا ایک دن ۶۰ سال کی عبادت سے افضل ہے‘ اور ایک حد جو زمین میںقائم کی جائے زمین والوں کے لیے صبح میں ہونے والی ۴۰ دن کی بارانِ رحمت سے زیادہ نفع بخش ہے۔ (طبرانی)

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے ‘ایک دن کا عدل ۶۰ سال کی عبادت--- راتوں کے قیام اور دن کے روزوں ---سے بہتر ہے۔ (رواہ الاصبہانی) اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ اے ابوہریرہؓ! کسی مقدمے میں ایک گھڑی کا ظلم‘ اللہ کے نزدیک ۶۰ سال کی معصیت کے مقابلے میںزیادہ سخت اور زیادہ بڑا ہے۔ (بحوالہ مختصر ترغیب و ترہیب)

انفرادی عبادت اور انفرادی زندگی میں معصیت سے بچنے کی فکر فرض ہے لیکن زیادہ اہمیّت کس کی ہے اور زیادہ توجہ کس چیز پر دینی چاہیے‘ اس کا جواب کسی مجتہد سے لینے کی ضرورت نہیں‘ یہ بحث و مباحثہ کی چیز بھی نہیں‘ اس کے جواب کے لیے یہ فرمان رسولؐ کافی ہے۔

 

ا