مولانا عبد المالک


سوال :  سیاسی لیڈروں کی پالیسی پر جب تنقید کی جاتی ہے تو ان کو بُرا بھلا بھی کہہ دیا جاتا ہے ۔کیا یہ تنقید غیبت شمار ہوتی ہے؟

جواب: سیاسی لیڈروں پر تنقید اسی حد تک رہنی چاہیے جس حد تک تنقید کی ضرورت ہے۔ ان کی بُرائیاں جو واقعی ہوں، ان سے عوام کو بچانے کے لیے، ان بُرائیوں کو پوری تفصیل سے بیان کرنا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ ان بُرائیوں کو ایسے انداز سے بیان کیا جائے کہ عوام سمجھ جائیں اور ایسے لیڈروں کی پیروی اور ساتھ دینے سے اجتناب کریں۔ حقیقت کو واضح کردینا ضروری ہے تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے، ورنہ جہاں ان کے لیڈر مجرم ہوں گے وہاں وہ بھی ان کے جرم میں شریک   شمار ہوں گے۔ دنیا میں اس قسم کے لیڈروں کے پیروکار قیامت میں پچھتائیں گے اور تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ایک مرتبہ واپسی کا موقع ملے تاکہ ہم ان سے اعلانِ براء ت کرسکیں۔ (ملاحظہ ہو البقرہ ۲: ۱۶۶، احزاب ۳۳:۶۷-۶۸، الصّٰفات ۳۷:۲۲ - ۴۰)

مفکرِ اسلام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سورئہ حجرات، آیت ۱۲ کی تفسیر کے ذیل میں فرماتے ہیں:’’ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نظیروں سے استفادہ کرکے فقہا اور محدثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ ’’غیبت صرف اس صورت میں جائز ہے، جب کہ ایک صحیح (یعنی شرعاً صحیح) غرض کے لیے اس کی ضرورت ہو اور وہ ضرورت اس کے بغیر پوری نہ ہوسکتی ہو‘‘۔ پھر اسی قاعدے پر     بنا رکھتے ہوئے علما نے غیبت کی حسب ذیل صورتیں جائز قرار دی ہیں:

۱- ظالم کے خلاف مظلوم کی شکایت ہراس شخص کے سامنے جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہو کہ  وہ ظلم کورفع کرنے کے لیے کچھ کرسکتا ہے۔

۲- اصلاح کی نیت سے کسی شخص یا گروہ کی بُرائیوں کا ذکر ایسے لوگوں کے سامنے جن سے یہ اُمید ہو کہ وہ ان بُرائیوں کو دُور کرنے کے لیے کچھ کرسکیں گے۔

۳- استفتا کی غرض سے کسی مفتی کے سامنے صورتِ واقعہ بیان کرنا جس میں کسی شخص کے کسی غلط فعل کا ذکر آجائے۔

۴- لوگوں کو کسی شخص یا اشخاص کے شر سے خبردار کرنا تاکہ وہ اس کے نقصان سے بچ سکیں، مثلاً راویوں، گواہوں اور مصنفین کی کمزوریاں بیان کرنا بالاتفاق جائز ہی نہیں واجب ہے کیونکہ اس کے بغیر شریعت کو غلط روایتوں کی اشاعت سے، عدالتوں کو بے انصافی سے اور عوام یا طالبانِ علم کو گمراہیوں سے بچانا ممکن نہیں ہے، یا مثلاً کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو یا کسی سے شرکت کا معاملہ کرنا چاہتا ہو یا کسی کو اپنی امانت سونپنا چاہتا ہو اور آپ سے مشورہ لے تو آپ کے لیے واجب ہے کہ اس کا عیب و صواب اسے بتا دیں تاکہ نا واقفیت میں وہ دھوکا نہ کھا جائے۔

۵- ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آوازبلندکرنا اور اُن کی بُرائیوں پر تنقید کرنا جو  فسق و فجور پھیلا رہے ہوں، یا بدعات اور دیگر بُرائیوں کی اشاعت کر رہے ہوں، یا خلقِ خدا کو  بے دینی اور ظلم و جَور کے فتنوں میں مبتلا کررہے ہوں۔

۶- جو لوگ کسی بُرے لقب سے اس قدر مشہور ہوچکے ہوں کہ وہ اس لقب کے سوا کسی  اور لقب سے پہچانے نہ جاسکتے ہوں، ان کے وہ لقب استعمال کرنا بغرض تعریف نہ کہ بغرضِ تنقیص‘‘۔(تفہیم القرآن،ج ۵،ص ۹۲-۹۳)

اس تشریحی نوٹ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ لادین لوگوں اور پارٹیوں کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے ان کے نقائص کو واضح کرنا غیبت نہیں ہے۔ البتہ شریعت لادین لوگوں یا کسی بھی گروہ کے نقائص کو واضح کرنے اور ان پر تنقید کرنے کے لیے ایسی زبان استعمال کرنے کی تلقین کرتی ہے جو اخلاقی حدود کے اندر ہو، سب و شتم اور لعن طعن سے پاک ہو۔(مولانا عبدالمالک)


حقوق العباد کی تلافی

س :  حقوق العباد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حقوق اللہ تو خدا چاہے بخش دے لیکن حقوق العباد اگر ادا نہیں کیے گئے تو ان کو متعلقہ شخص ہی سے بخشوانا ہوگا ورنہ بخشے نہیں جائیں گے۔ میری نند میرے پاس رہتی تھی۔ اس کے انتقال کے بعد احساس ہوتا ہے کہ میں نے اس کی مطلوبہ خدمت نہ کی۔ کھانا کپڑے کا خیال رکھا لیکن اب مجھے لگتا ہے کمی رہی اور پشیمانی ہوتی ہے۔ اس کی بخشش اور درجات کی بلندی کی دعا بھی کرتی ہوں۔ تلافی کے لیے کیا کروں؟

ج: حقوق العباد کے بارے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں معاف نہیں کریں گے جب تک کہ حق دار خود معاف نہ کردے یا حق دار کو اس کا حق ادا نہ کردیا جائے۔ بے شک نند کی خدمت، جب کہ وہ خدمت کی محتاج ہو ،ہر اس قرابت دار پر ہے جو اس کی خدمت کرسکے۔ آپ نے اپنی حد تک جو خدمت کی ہے، کھانا اور لباس کی حد تک خیال رکھا ہے اور باقی حاجات میں حق ادا   نہ کرسکنے کا جو احساس ہے، وہ قابلِ قدر ہے۔ اس کی تلافی کی ایک صورت تو یہی ہے جو آپ کر رہی ہیں، یعنی مرحومہ کے لیے دعا۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ آپ اس کی طرف سے کچھ مال صدقہ کریں۔ نند کے ایسے عزیز جو مدد کے محتاج ہوں ان کی مدد بھی اسی کی مدد شمار ہوگی۔ آپ ایسا کر کے اپنے دل کو مطمئن کرسکتی ہیں۔(مولانا عبدالمالک)


موبائل سے تصویر کی شرعی حیثیت

س :  تصویر کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ یہ تو معلوم ہے کہ جہاں کتا اور شوقیہ تصویر رکھی ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ آج کل موبائل فون سے تصویریں کھینچی جاتی ہیں۔ کمپیوٹر میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اس کی کوئی ضرورت تو نہیں ہوتی سواے یہ کہ انھیں دیکھ کر ان لمحات کو یاد کیا جاتا ہے۔ کیا یہ بھی تصویر کے زمرے میں آتا ہے؟   اس طرح ہم بے معنی کام کر کے رحمت کے فرشتوں کو بھگانے کے مرتکب ہورہے ہوں۔

ج: ’تصویر‘ موبائل اور کمپیوٹر میں اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک موبائل کو اس کے دیکھنے کے لیے آن نہ کیا جائے۔اسی طرح کمپیوٹر میں تصویر مستور ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں تصویر رحمت کے فرشتوں کے گھروں میں داخلے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ موبائل اور کمپیوٹر سے کاغذ پر اُتار کر اسے گھروں کی زیب و زینت بنانا درست نہیں ہے۔کتا گھر کی چوکیداری، شکار اور کھیتوں اور مویشیوں کے لیے رکھنا جائز ہے۔ ان جائز صورتوں میں رحمت کے فرشتے گھر میں داخل ہوسکتے ہیں۔ شوقیہ اور بلاحاجت و ضرورت کتا رکھنا منع ہے اور ایسے کتے رحمت کے فرشتوں کے داخلے میں رکاوٹ ہیں۔(مولانا عبدالمالک)

 

حضرت ازرق بن قیسؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم اہواز میں نہر کے کنارے پر تھے، نہر خشک ہوگئی تھی حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ گھوڑے پر سوار ہوکر پہنچے۔ گھوڑے سے اُترے، نماز پڑھنے لگے اور گھوڑے کو کھلا چھوڑ دیا۔ گھوڑا کھڑا رہنے کے بجاے چل پڑا۔ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے نماز چھوڑ دی اور گھوڑے کے پیچھے چل پڑے۔ گھوڑے کو پکڑ لیا، پھر آئے اور اپنی نماز ادا کی۔ ہمارے اندر ایک آدمی تھا جو خوارج کی راے رکھتا تھا۔ کہنے لگا: اس بزرگ کو دیکھیں کہ اس نے گھوڑے کی خاطر نماز چھوڑ دی! حضرت ابوبرزہؓ نماز سے فارغ ہوکر آئے تو فرمانے لگے: جب سے میں رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہوا ہوں اب تک کسی نے مجھے نہیں جھڑکا۔پھر فرمایا: میرا گھر بہت دُور ہے۔ اگر میں نمازپڑھتا رہتا اور گھوڑے کو پکڑنے کے لیے نہ جاتا تو میں اپنے گھر رات تک نہ پہنچ سکتا۔ پھر فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہوں اور مَیں نے اُمت کے لیے آپ کی آسانیاں دیکھی ہیں۔(بخاری، کتاب الادب)

حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عملی جامہ پہنایا ،آپؐ سے جو سبق سیکھا اس پر عمل کیا اور اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ خوارج ایک متشدد گروہ تھا۔ چند عبادات میں انتہاپسندی ان کا طرزِعمل تھا۔ لمبی لمبی نمازیں، مسلسل روزے، ظاہری وضع قطع اور لباس میں عبادت گزاری اور ریاکاری، لیکن اسلامی آداب سے عاری۔ بزرگوں کا ادب ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کی گستاخی بھی ان کا شیوہ تھا۔ بجاے اس کے کہ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ جو جلیل القدر صحابی تھے ان سے سیکھتے اور انھی کی طرح زندگی گزارتے، اُلٹا ان پر طعن و تشنیع شروع کردی۔

گھوڑے کی خاطر نماز چھوڑ دینا اور گھوڑے کو پکڑ کر نماز ادا کرنا اپنے آپ کو ایک بڑی مصیبت سے بچانا تھا لیکن خارجی نے اس کی حکمت کو نہ سمجھا۔ جولوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی سیرت سے سیکھنے کے بجاے اپنی خواہشات کے مطابق عبادت اور زُہد اختیار کرتے ہیں وہ لاحاصل سعی کرتے ہیں۔انھیں ایسی عبادات اور زہد سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ بلاوجہ اپنے آپ کو تنگی اور مشکل میں ڈالتے ہیں۔ موجودہ دور میں بھی خوارج کی طرح کے فتنے کھڑے ہوئے ہیں جن کے سبب اُمت مشکل میں گرفتار ہے۔ اللہ تعالیٰ ان فتنہ پردازوں کو ہدایت دے۔

m

حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمیوں کو دیکھا جو میرے پاس آئے (اور مجھے مختلف گناہوں کے سبب عذاب میں گرفتار لوگ دکھلائے، ان میں وہ آدمی بھی تھا جس کی باچھیں چیری پھاڑی جارہی تھیں اور ان کو گدی تک چیرا اور پھاڑا جا رہا تھا)۔ ان دونوں آنے والوں (فرشتوں ) نے مجھے بتایا یہ جس کی باچھیں چیری جارہی تھیں، وہ آدمی ہے جو کذّاب ہے، بہت بڑا جھوٹا آدمی ہے۔ لوگ اس سے جھوٹ سنتے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچاتے ہیں۔ اس آدمی کے ساتھ قیامت تک عذاب کا یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ (بخاری،کتاب الادب)

پہلے زمانے میں بھی کذّاب ہوتے تھے اور ان کے ذریعے بھی دنیا کے گوشے گوشے میں جھوٹ پہنچتا تھا لیکن اس وقت جھوٹ کے پہنچنے اور پھیلنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ آج کا دور تو ذرائع ابلاغ کا ایسا دور ہے جس میں بیک وقت دنیا کے گوشے گوشے میں سچ بھی پہنچتا ہے اور جھوٹ بھی۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، انٹرنیٹ اور فیس بُک کے ذریعے دنیا جھوٹ پر کھڑی ہے۔ دن رات جھوٹ کا راج ہے۔ جھوٹ سنایا بھی جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ جھوٹ گھڑ کر بے گناہوں کو اس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ عدل و انصاف کا نام و نشان مٹ رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو فرشتوں نے کذّاب اور اس کی سزا کا جو مشاہدہ کروایا ہے اس کا بڑا مصداق آج کا دور ہے۔ یہ آپؐ کا مشاہدہ بھی ہے اور اس میں پیشنگوئی کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ سچے لوگوں، دین کے علَم برداروں کوچاہیے کہ وہ جھوٹ کا مقابلہ کریں ، دین اور سچ کو بھی دنیا کے کونے کونے تک پہنچائیں تاکہ ظلم کا  قلع قمع ہو اور ظالموں کو پیچھے دھکیلا جاسکے۔

m

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تھے (ایک قلعے کو محاصرہ کیے ہوئے تھے جو فتح نہیں ہورہاتھا)، آپؐ نے فرمایا: ان شاء اللہ ہم کل واپس چلے جائیں گے۔ صحابہؓ نے یہ سنا تو بعض نے کہا: ہم اس وقت کیسے جائیں گے جب تک قلعہ کو فتح نہ کرلیں ( جذبۂ جہاد کے غلبے کے سبب انھوں نے یہ الفاظ کہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منشا کی خلاف ورزی مقصود نہ تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں راحت پہنچانے کے لیے ایسا فرما رہے ہیں)۔ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کا یہ ذوق و شوق دیکھا تو فرمایا: اچھا! صبح واپس جانے کے بجاے لڑائی کے لیے نکلو۔ صحابہؓ اگلے دن لڑائی کے لیے نکلے اور سخت ترین لڑائی لڑی اور انھیں بہت زیادہ زخم لگے۔ اس کے بعد پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل ہم لڑنے کے بجاے واپس جائیں گے ان شاء اللہ۔ اس وقت صحابہ کرامؓ خاموش رہے، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔(بخاری، کتاب الادب)

فتح مکہ اور غزوئہ حنین کے بعد کفار کی قوت ٹوٹ گئی تھی۔ اب مکمل فتح قریب تھی لیکن طائف میں جو لوگ قلعہ بند تھے، اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں جان کی بازی لگانے پر تلے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قلعہ کا محاصرہ کیا لیکن فتح نہ ہوسکا۔ آپؐ نے اس خیال سے کہ یہ قلعہ بند لوگ بالآخر اپنے آپ کو لڑائی کے بغیر اسلام کے حوالے کردیں گے،اس لیے وقتی طور پر لڑائی بند کرانے کا فیصلہ فرمایا اور صحابہؓ سے فرمایا کہ کل ہم واپس چلے جائیں گے۔

صحابہ کرامؓ کی نظر میں اتنی دُوربینی نہ تھی جتنی دُوربینی اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کو عطا ہوئی تھی۔ وہ لڑنا چاہتے تھے اور لڑ کر فتح کرکے جانا چاہتے تھے۔ اگلے دن جو نتیجہ سامنے آیا اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک راے ان کی سمجھ میں آگئی۔ چنانچہ لڑائی ملتوی کرنے پر راضی ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس موقعے پر ہنس پڑے کہ وہ جذبہ جو انتہا کو پہنچا ہوا تھا آج کے زخم اس کو اعتدال پر لے آئے ہیں۔ بعض اوقات انسان زخم کھانے کے بعد ہی سمجھتا ہے۔ لڑائی ملتوی ہوگئی لیکن بعد میں قلعے والے خود ہی مسلمان ہوکر آپؐ کے پاس آگئے اور یوں عرب کی سرزمین کلیتاً اسلام کے لیے مسخر ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست بھی صحابہ کرامؓ کے مشاہدے میں آگئی اور جووہ چاہتے تھے وہ سب اللہ تعالیٰ نے انھیں لڑائی کے بغیر عطافرمادیا۔

m

حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض حلال چیزیں واضح ہیں اور بعض حرام چیزیں واضح ہیں اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہات ہیں۔   پس جس نے اس گناہ کو چھوڑا جس کا گناہ ہونا مشتبہ ہے تو وہ اس گناہ کو زیادہ ترک کرنے والا ہوگا جس کا گناہ ہونا اس پر واضح ہے۔ اور جس نے مشتبہ گناہ کے ارتکاب پر جرأت کی، قریب ہے کہ     وہ واضح گناہ کا ارتکاب کرے۔گناہ اللہ تعالیٰ کی ممنوع کردہ چراگاہیں ہیں اور جو شخص ممنوعہ چراگاہوں کے قریب چرے گا، قریب ہے کہ ان چراگاہوں کے اندر داخل ہوجائے۔(بخاری، کتاب البیوع)

گناہ سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ گناہ کے قریب بھی نہ جائے اور جو چیزیں ممنوع ہیں ان سے     دُور رہے، مثلاً زنا ممنوع اور حرام ہے تو اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ غیرمحرم عورتوں کے قریب بھی نہ جائے، ان کو نہ دیکھے، ان کے گھر میں بلااذن اور پردہ کرائے بغیر داخل نہ ہو۔ عورتوں اور مردوں کا باہمی میل جول اور رُو در رُو گفتگو نہ ہو۔ بے تکلفی اور کسی رکاوٹ کے بغیر آمدورفت اور نشست و برخاست گناہ میں گرفتار کرنے کا ذریعہ ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مرد ایک عورت کے ساتھ تنہائی میں نہیں بیٹھے گا مگر ان کا تیسرا شیطان ہوگا۔ اسی وجہ سے قرآن و سنت میں پردے کے احکام آئے ہیں اور بغیر اجازت گھروں میں داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ عورت کو بن سنور کر بے پردہ کھلے عام پھرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔  آج کل مغربی تہذیب کا دور دورہ ہے، فحاشی اور عریانی عام ہے۔ ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ اور فیس بُک پر عورت بے پردہ سامنے آتی ہے اور لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتی پھرتی ہے۔ یہ معاشرہ اسلام کی   ضد ہے۔ اسلام شرم و حیا اور عفت و عصمت کا دین ہے۔ آج مسلمان ممالک مغرب کو متاثر کرنے اور ان میں اسلام کی عفت و عصمت اور شرم و حیا پر مبنی تہذیب کو فروغ دینے کے بجاے مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوگئے ہیں اور اپنے ملکوں کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنے پر فخر کرتے ہیں۔ اللہ ہدایت عطا فرمائے۔آمین!

سوال : سرکاری اہل کاروں کو جو نذرانے اور ہدیے اور تحفے ان کی طلب اور جبرواِکراہ کے بغیر کاروباری لوگ اپنی خوشی سے دیتے ہیں، انھیں ملازمت پیشہ حضرات بالعموم جائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ رشوت کی تعریف میں نہیں آتا۔ اس لیے یہ حلال ہونا چاہیے۔ اسی طرح سرکاری ملازموں کے تصرف میں جو سرکاری مال ہوتا ہے اسے بھی اپنی ذاتی ضرورتوں میں استعمال کرنا یہ لوگ جائز سمجھتے ہیں۔ میں اپنے حلقۂ ملاقات میں اس گروہ کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں مگر میری باتوں سے ان کا اطمینان نہیں ہوتا۔

جواب:ایک شخص یا اشخاص سے دوسرے شخص یا اشخاص کی طرف مال کی ملکیت منتقل ہونے کی جائز صورتیں صرف چار ہیں۔ ایک یہ کہ ہبہ یا عطیہ ہو برضا و رغبت۔دوسرے یہ کہ خریدوفروخت ہو، آپ کی رضامندی سے۔ تیسرے یہ کہ خدمت کا معاوضہ ہو، باہمی قرارداد سے۔ چوتھے یہ کہ میراث ہو، جو ازروے قانون ایک کو دوسرے سے پہنچے۔ ان کے ماسوا جتنی صورتیں انتقالِ ملکیت کی ہیں، سب حرام ہیں۔ اب دیکھنا چاہیے کہ جو روپیہ ایک افسر یا اہل کار کسی صاحب ِ غرض سے لیتا ہے، یا جو استفادہ وہ اس مال سے کرتا ہے جو دراصل پبلک کا مال ہے اور پبلک کاموں کے لیے اس کے تصرف میں دیا جاتا ہے، اس کی حیثیت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ خریدوفروخت اور میراث کی تعریف میں تو آتا نہیں۔ پھر کیا وہ ہبہ یا عطیہ ہے؟ اس کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک سوال کا جواب کافی ہے۔ کیا یہ ہبہ یا عطیہ ایک اہل کار کو اس صورت میں بھی ملتا،  جب کہ وہ اس منصب پر نہ ہوتا، یا پنشن پر الگ ہوچکا ہوتا۔ اگر نہیں تو یہ عطیہ یا ہبہ نہیں ہے کیونکہ  یہ اس کے منصب کی وجہ سے اس کے پاس آرہا ہے نہ کہ کسی ذاتی تعلق یا محبت یا ہمدردی کی بناپر۔ اب کیا یہ ان خدمات کا معاوضہ ہے جو ایک اہل کار اپنے منصب کے سلسلے میں انجام دیتاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ درحقیقت معاوضہ بھی نہیں ہے۔ معاوضہ تو صرف وہ تنخواہ اور الائونس ہیں جو ملازم ہونے کی حیثیت سے آدمی کو ملتے ہیں۔ ان کے ماسوا جو کچھ اہل کار اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے سلسلے میں حاصل کرتا ہے وہ یا تو خیانت ہے جو پبلک فنڈ میں سے کی جاتی ہے۔ یا ناجائز خدمات کا معاوضہ ہے جو شرائط ملازمت کے خلاف عمل کرنے کے بدلے میں آدمی کو ملتا ہے۔ یا جائز خدمات کا ناجائز معاوضہ ہے کیوںکہ شرائط ملازمت کے حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا معاوضہ تو بشکل تنخواہ آدمی پہلے ہی لے چکا ہے، اس پر بھی مزید معاوضہ حاصل کرنا صریح طور پر حرام خوری ہے۔

یہ تو تھی اصولی بحث۔ اب دیکھیے کہ اس معاملے میں شرعی احکام کیا ہیں:

 ابوحمید الساعدی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرکاری ملازمین جو ہدیے وصول کرتے ہیں یہ خیانت ہے۔(مسند احمد)

ان ہی ابوحمید کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن اللتبیہ نامی ایک شخص کو قبیلہ ازد پر عامل بنا کر بھیجا۔ جب وہ وہاں سے سرکاری مال لے کر پلٹا تو بیت المال میں داخل کرتے وقت اس نے کہا کہ یہ تو ہے سرکاری مال، اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے ۔ اس پر حضوؐر نے ایک خطبہ دیا اور اس میں حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’میں تم میں سے ایک شخص کو اس حکومت کے کام میں جو اللہ نے میرے سپرد کی ہے عامل بناکر بھیجتا ہوں تو وہ آکر مجھ سے کہتاہے کہ یہ تو ہے سرکاری مال اور یہ ہدیہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ لوگ خود ہدیے دیتے ہیں تو کیوں نہ وہ اپنے ابا اور اپنی اماں کے گھر بیٹھا رہا کہ اس کے ہدیے اسے وہیں پہنچتے رہتے؟(بخاری، مسلم ، ابوداؤد)

 بُریدہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو ہم کسی سرکاری خدمت پر مقرر کریں اور اسے اس کام کی تنخواہ دیں، وہ اگر اس تنخواہ کے بعد اور کچھ وصول کرے تو یہ خیانت ہے۔(ابوداؤد)

ردیفع بن ثابت انصاری کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ یہ حرکت نہ کرے کہ مسلمان کے فَے (یعنی پبلک کے مال) میں سے ایک جانور کی سواری لیتا رہے اور جب وہ بیکار ہوجائے تو اسے پھر سرکاری اصطبل میں داخل کردے۔ اور جو شخص اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ کام بھی نہیں ہے کہ مسلمانوں کے فَے میں سے ایک کپڑا برتے اور جب وہ پرانا ہوجائے تو اسے واپس کردے۔

عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے والے اور لینے والے دونوں پر لعنت فرمائی۔(ابوداؤد)

عدی بن عمیرۃ الکندی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! جو شخص ہماری حکومت میں کسی خدمت پر مقرر کیا گیا اور اس نے ایک دھاگہ یا اس سے بھی حقیر تر کوئی چیز چھپاکر استعمال کی، تو یہ خیانت ہے جس کا بوجھ اُٹھائے ہوئے وہ قیامت کے روز حاضر ہوگا۔(ابوداؤد)

یہ ہیں اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اور یہ اپنے مدعا میں اتنے واضح ہیں کہ ان پر کسی تشریح و توضیح کے اضافے کی ضرورت نہیں۔ جو لوگ اپنی حرام خوری کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے پیش کرتے ہیں اور اسے اپنی زبانی چال بازیوں کے ذریعے سے حلال بنانے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ان سے کہیے کہ اگر حرام کھاتے ہو تو کم از کم اسے حرام تو سمجھو، شاید کبھی اللہ اس سے بچنے کی توفیق دے دے۔ لیکن اگر حرام کو حلال بنا کر کھایا تو تمھارے ضمیر مُردہ ہوجائیںگے، پھر کبھی حرام سے بچنے کی خواہش دل میں پیدا ہی نہ ہوسکے گی۔ اور جب خدا کے ہاں حساب دینے کھڑے ہوگے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت تمھارے بدلنے سے نہیں بدل سکتی۔ حرام حرام ہی ہے خواہ تم اسے حلال بنانے کی کتنی ہی کوشش کرو۔

پھر لوگوں سے کہیے کہ خدا اور آخرت اور حساب اور جزا و سزا، یہ سب تمھارے نزدیک محض افسانہ ہی افسانہ ہے، تب تو حلال و حرام کی بحث فضول ہے۔ جانوروں کی طرح جس کھیت میں ہریالی نظر آئے اس میں گھس جائو، اور جائز و ناجائز کی بحث کے بغیر کھائو جتنا کھایا جاسکے۔لیکن اگر تمھیں یقین ہے کہ اُوپر کوئی خدا بھی ہے، اور کبھی اس کے سامنے جاکر حساب بھی دینا ہے، تو ذرا اس بات پر بھی غور کرلو کہ آخر یہ حرام کی کمائی کس کے لیے کرتے ہو؟ کیا اپنے جسم و جان کی پرورش کے لیے؟ مگر یہ جسم و جان تو اس خدمت پر تمھارے احسان مند نہ ہوں گے بلکہ تمھارے خلاف خدا کے ہاں اُلٹا استغاثہ کریں گے کہ تو نے ہمیں اس ظالم کی امانت میں دیا تھا اور اس نے ہمیں حرام کھلاکھلا کر پرورش کیا۔ پھر کیا بیوی بچوں کے لیے کرتے ہو؟ مگر یہ بھی قیامت کے روز تمھارے دشمن ہوںگے، اور تم پر اُلٹا الزام رکھیں گے کہ یہ ظالم خود بھی بگڑا اور ہمیں بھی بگاڑ دیا۔ پھر آخر یہ عذابِ الٰہی کے خطرے میں اپنے آپ کو کس لیے ڈال رہے ہو؟ کون ہے جو اس ناجائز خدمت پر تمھارا احسان مند ہوگا؟ کس سے اس بے جا سعی پر صلے کی توقع رکھتے ہو؟ وہ غیرالٰہی نظامِ حکومت جس کے ایک جز کی حیثیت سے آپ لوگ کام کر رہے ہیں، بجاے خود ناپاک ہے۔ اس کی حیثیت بالکل خنزیر کے نظامِ جسمانی کی سی ہے جس کی بوٹی بوٹی اور رگ رگ میں حرام سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کے کل پرزے بن کر آپ لوگ پہلے ہی گناہِ عظیم میں مبتلا ہیں۔ اب اس پر خیانت اور رشوت اور باطل طریقوں کے ارتکاب کا اضافہ کر کے اپنے آپ کو کیوں مزید خطرے میں ڈالتے ہو؟ کیا کبھی موت آنی ہی نہیں ہے؟ یا مرنے کے بعد کوئی جاے پناہ تجویز کر رکھی ہے جہاں خدا کی پکڑ سے بچ جانے کی اُمید ہے؟ (سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، رسائل و مسائل، اوّل،ص ۷۸-۸۲)


کمپیوٹر پروگرام کا مفت استعمال

س : کمپیوٹر میں جن پروگراموں پر کام کیا جاتا ہے وہ عموماً چوری شدہ ہوتے ہیں اور مفت میں دستیاب ہیں۔ یہ چوری شدہ پروگرام نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام  سی ڈی میں بھی جن کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ جن افراد یا کمپنیوں نے یہ پروگرام بنائے ہوتے ہیں ان کا ان پر بہت وقت اور پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک میں ان کی اچھی خاصی قیمت وصول کی جاتی ہے اور وہاں کے لوگ چوری شدہ پروگراموں کو استعمال کرنے کو غیراخلاقی حرکت تصور کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کے بغیر کسی کمپیوٹر پر کوئی کام نہیں ہوسکتا، لہٰذا ان کا استعمال ضروری ہے مگر ان کی قیمت بہت زیادہ ہے اور سب لوگ اتنی استطاعت نہیں رکھتے کہ ان کو خرید سکیں اور کمپنیوں اور بڑے اداروں کے لیے تو ان کے لائسنس بہت ہی مہنگے ہیں۔کیا یہ چوری میں شمار ہوگا؟

ج:چوری شرعاً اس چیز کی شمار ہوتی ہے جو کسی ایسی جگہ میں محفوظ ہو جس تک دوسرے آدمی کی رسائی نہ ہو۔ کمرے کا تالا یا بکس کا تالا توڑ کر اس میں سے چیز نکالی جائے۔ چونکہ چوری شدہ پروگرام بقول آپ کے نیٹ پر بھی دستیاب ہیں اور کھلے عام ان کی سی ڈیز بھی دستیاب ہیں     اس لیے اس کے روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ چوری شمار نہ ہوگی۔ جن لوگوں نے یہ پروگرام تیار کیے ہیں اور وہ اس کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انھیں اپنے بس میں رکھیں کہ وہ جسے دینا چاہیں دیں اور جس سے روکنا چاہیں روکیں۔ اس کے بعد اگر کوئی شخص ان پروگراموں کو کسی طرح سے بلاقیمت و بلااجازت لے گا تو وہ چور شمار ہوگا۔ اگر کمپیوٹر پروگرام تیار کرنے والے چاہتے ہوں کہ لوگ ان کی اجازت سے یہ پروگرام چلائیں اور اس کی قیمت بھی دیں تو اخلاقاً لوگوں کو ان سے اجازت بھی لینا چاہیے اور قیمت بھی ادا کرنا چاہیے، کیونکہ موجودہ دور میں کاپی رائٹ کے تحت ان کا یہ حق بنتا ہے۔(مولانا عبدالمالک)


اعانت ِجماعت کی، زکوٰۃ سے ادایگی

س : ہمارے کچھ ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اعانت ِ جماعت، زکوٰۃ کی مَد سے ادا کی جاسکتی ہے، جب کہ کچھ کا موقف ہے کہ زکوٰۃ کے آٹھ مخصوص مصارف ہیں جنھیں سورئہ توبہ میں بیان کردیا گیا ہے اور اعانت ِ جماعت ان مصارف میں نہیں آتی۔ لہٰذا زکوٰۃ کی مَد سے اعانت ادا نہیں کی جاسکتی۔ براہِ مہربانی وضاحت فرما دیں۔

ج:جماعت اسلامی دین کی سربلندی کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والی جماعت مجاہد فی سبیل اللہ ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے جو آٹھ مصارف بیان کیے ہیں، ان میں ایک مصرف جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ لہٰذا جماعت کی اعانت میں زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کسی قسم کا  تردّد نہیں کرنا چاہیے۔ واللّٰہ اعلم! (مولانا عبدالمالک)

حضرت انسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین سے جہاد کرو اپنے مالوں، اپنی جانوں اور اپنی زبانوں سے۔ (ابوداؤد، نسائی، دارمی )

جہاد دین کی سربلندی اور کفروشرک کی پسپائی کے لیے پوری قوت صرف کر دینے اور تمام وسائل خرچ کردینے کا نام ہے۔ وسائل میں مال بھی ہے، جانیں اور زبان بھی ہے۔ زبان کے ذریعے کفروشرک کو علمی میدان میں شکست دینا ہے۔ علمی میدان میں شکست دیے بغیر حکومت، عدالت، تجارت، سیاست، معاشرت اور معیشت کسی بھی میدان میں شکست دینا ممکن نہیں ہے۔ زبان کے ذریعے جو علمی جہاد ہے، اس میں قلم و قرطاس اور لٹریچر بھی شامل ہے۔ ہفت روزہ، ماہوار اور روزانہ کی سطح پر رسائل و جرائد اور میڈیا میں کفروشرک کو شکست دینا لازم ہے اور یہ بڑا جہاد ہے کہ ہرقسم کے جہاد کی کامیابی اس جہاد میں کامیابی پر موقوف ہے۔ جو لوگ اس میدان میں جہاد کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہرقسم کا تعاون کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں تعاون کرنا ہے۔ آج کے زمانے میں ہم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ کل گذشتہ میں ہم نے اپنے اسلاف کے ذریعے سوشلزم، کمیونزم اور سیکولرزم کو اس میدان میں شکست دی ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام کی شکست باقی ہے۔ اس کی بھی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ دنیا نے سودی نظام کی ہلاکتیں اور تباہیاں دیکھ لی ہیں۔ اب وہ کسی اور نظام کی متلاشی ہے۔ اسلام کے علَم برداروں کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلامی نظام کی برکات دنیا پر واضح کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ممالک میں انقلابِ اسلامی برپا ہو۔ مسلمانوں کو اس کی برکات ملیں۔ وہ عدل و انصاف اور خوش حالی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں۔

٭

عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو آنکھیں ایسی ہیں کہ ان کو آگ نہیں چھوئے گی۔ ایک وہ آنکھ جس نے اللہ کی خشیت سے روتے ہوئے رات گزاری اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں رات کو پہرہ دیتی رہی۔(ترمذی)

یہ دونوں خوش قسمت اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے  بیدار رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت آدمی کو ہرقسم کے گناہوں سے بچاتی ہے اور اللہ کی راہ میں رات کو پہرہ دینا اسلام کو غالب کردینے کا ذریعہ ہے، اور اسلام کو غالب کر دینا اللہ تعالیٰ کو انتہائی محبوب ہے۔ اس لیے جو آدمی اللہ تعالیٰ کے محبوب نظام کو غالب کر دینے میں راتوں کو جاگے گا، تکالیف برداشت کرے گا تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا۔ جس طرح راتوں کو پہرہ دینا اور تکالیف برداشت کرنا    اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا ذریعہ ہے، اسی طرح کسی بھی شکل میں دن ہو یا رات، سردی ہو یا گرمی جو آدمی اللہ تعالیٰ کے دین کو سربلند کرنے میں مصروفِ عمل ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا۔ دعوت و تبلیغ،    تعلیم و تربیت اور درس و تدریس ہر ایک کام کی بڑی فضیلت اور درجہ ہے اور احادیث میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ آدمی جس میدان میں بھی خدمات سرانجام دے سکے وہ اللہ کے ہاں مقام اور مرتبہ حاصل کرنے میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائے گا بشرطیکہ اخلاص و للہیت کے ساتھ اس کام کو کیا ہو، ریا، نمود ونمایش کی غرض نہ ہو۔

٭

حضرت عبداللہ بن حبشیؓ سے روایت ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: لمبا قیام، یعنی نماز میں زیادہ دیر کھڑے رہنا اور قراء ت کرتے رہنا۔ پھر کہا گیا کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: فقیر آدمی کا مشقت اُٹھا کر صدقہ کرنا۔ کہاگیا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ان چیزوں سے ہجرت کرنا (یعنی ان چیزوں کو چھوڑ دینا) جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ پھر پوچھا گیا: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جس نے مشرکوں سے اپنے مال اور جان سے جہاد کیا ۔ پھر پوچھا گیا: کون سا قتل سب سے افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جس کا خون گرا دیا گیا اور اس کا عمدہ گھوڑا بھی مار دیا گیا۔ (ابوداؤد)

نماز، صدقہ، ہجرت، جہاد اور شہادت تمام عبادات اپنے اپنے دائرے میں افضل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کی فضیلت اور نوعیت بیان فرما دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی راتوں کو اس قدر طویل قیام کیا کہ آپؐ کے قدموں پر وَرم آگیا اور صدقہ کا ایسا نمونہ پیش فرمایا کہ خود پیٹ پر پتھر باندھے اور اپنے صحابہ کرامؓ کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرامؓ نے بھی مہمانوں کو کھانا کھلایا اور خود بھوکے رات گزاری اور اپنے بچوں کو بھی بھوکا رکھا۔ ہجرت اور جہاد میں اپنی جانیں اتنی کھپا دیں کہ اللہ کے دین کو غالب کر دیا۔ ان کا جہاداور شہادتیں تمام جہادوں اور شہادتوں سے بلندتر درجہ پاگئے۔

٭

حضرت ابومالک اشعریؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص اللہ کی راہ میں نکلا اور فوت ہوگیا، یا قتل کردیا گیا، یا اس کے گھوڑے اور اُونٹ نے اُسے گرا دیا اور اس کی گردن کو توڑ دیا، یا اسے سانپ نے کاٹ لیا اور وہ فوت ہوگیا، یا وہ اپنے بستر پر لیٹا ہوا اللہ کی مشیت سے فوت ہوگیا، جیسی موت اللہ تعالیٰ نے دینا چاہی د ے دی تو وہ شہید ہے اور اس کے لیے جنت ہے۔۔(ابوداؤد)

جو لوگ جہاد کے لیے نکلے، دین کی سربلندی کے کام میں لگ گئے، انھیں جس طرح سے بھی موت آئے ان کی موت شہادت کی موت ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے، تحریک کے کام کے لیے، کسی پروگرام کی دعوت کے لیے نکلنے والے، جن کو بھی موت آجائے، کسی طرح سے وہ فوت ہوجائیں وہ تمام شہید ہیں کہ انھوں نے اپنی جان اللہ کی راہ میں دے دی۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ جو دین کی کسی بھی طرح کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں کہ ان کی موت شہادت کی موت شمار ہوگی!

٭

حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہادی مہم پر نکلے تو ایک آدمی ایک غار کے پاس سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا۔ اس نے سوچا کہ یہاں قیام کرلے اور دنیا سے الگ ہوجائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت طلب کی تو رسولؐ اللہ نے فرمایا: مجھے یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ نہیں بھیجا گیا بلکہ آسان دینِ حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدؐ کی جان ہے! صبح کے وقت تھوڑی دیر کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا اور شام کے وقت تھوڑی دیر کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا دنیاومافیہا سے بہتر ہے۔ اور تم میں سے ایک آدمی کا جہاد فی سبیل اللہ کی صف میں کھڑے ہونا ۶۰سال کی نماز سے افضل ہے۔(مسند احمد)

یہود و نصاریٰ نے دین میں تحریف کرکے یہودیت اور نصرانیت ایجاد کی اور نفس کُشی کو دین قرار دیا۔ غاروں میں بیٹھ جانا، اپنے نفس کو اذیت دینا اور کھانے پینے اور لباس، شادی جیسی راحتوں سے    دُور رہنے کو دین بنا دیا، جس کے نتیجے میں تکلیفیں اُٹھانے کے ساتھ ساتھ گناہوں میں مبتلا ہوگئے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام گمراہیوں کا خاتمہ فرمایا اور انھیں آسان دین دے دیا، جس میں انسان    اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرلے اور اسے ایسی مشقت بھی نہ اُٹھانی پڑے جو بشری تقاضوں سے متصادم ہو۔ اس سے آسان نسخہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ صبح و شام تھوڑا سا وقت اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی میں صرف کیا جائے اور ایک رات جہادی صف میں گزاری جائے، لیکن ثواب۶۰سال کی نماز سے بھی بڑھ جائے۔ اسلامی تحریکات، دعوتِ دین کے اس عظیم کام کو پورے جوش اور ولولے سے لے کر آگے بڑھیں، اپنے درجات بڑھائیں۔ یہودیت اور نصرانیت شکست کھاچکی ہیں لیکن ان کے نام لیوا سیکولر حکمران دنیا میں مسلمانوں سے انتقام لے رہے ہیں۔ ان کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے، جہاد فی سبیل اللہ کی صفو ں کو مضبوط اور مستحکم کریں اور منظم جدوجہد کے ذریعے ان کے منصوبوں کو ناکام بنادیں۔

٭

حضرت صہیبؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ ہنس پڑے۔ پھر آپؐ  نے فرمایا: تم لوگ پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنس پڑا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ  کیوں ہنس پڑے؟ آپؐ  نے فرمایا: میں مومن کی خوش قسمتی کا تصور کر کے ہنس پڑا۔ مومن کو خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔ مومن کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔مومن کی ہر حالت اچھی ہے۔ مومن کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے کہ اس کی ہرحالت اچھی ہو۔ (مسند احمد)

ایمان اصل دولت ہے۔ ایمان جس قدر کامل ہوگا اسی قدر آدمی کی خوش قسمتی میں اضافہ ہوگا۔ لوگ   اپنا بنک بیلنس بڑھانے میں لگے رہتے ہیں اور اس کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ جو جتنا زیادہ مال دار ہے اپنے آپ کو اتنا ہی خوش قسمت سمجھتا ہے لیکن اصل خوش قسمتی یہ ہے کہ آدمی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرے، فرائض کو ادا کرے اور منکرات سے بچے۔ اس کے ساتھ اگر حلال دولت بھی کماتا ہے تو اس پر بھی اجر ہے اور اگر حلال دولت کمانے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوتی تب بھی اس کے لیے کوشش پر اجر ہے۔ وہ نیکیاں کما رہا ہے اور اجر پا رہا ہے۔ دن کے ۲۴ گھنٹے اس کی کمائی جاری ہے۔ اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں اطمینان ہو اور آخرت میں جنت الفردوس ٹھکانا ہو۔

حضرت ابوالدرداؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی رات کے وقت اپنے بستر پر لیٹے اس حال میں کہ نیت رکھتا ہو کہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھے گا لیکن اس پر نیند کا غلبہ ہوگیا اور وہ نماز کے لیے نہ اُٹھ سکا۔ اس نے نماز کی جو نیت کی وہ اس کے لیے لکھ دی جاتی ہے اور نیند اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدقہ بن جاتی ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)

رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھنا بڑی فضیلت کا کام ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اسے اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کا حکم دیا،فرمایا: وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo(بنی اسرائیل ۱۷:۷۹) ’’اور اے نبیؐ، رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھیں یہ آپؐ کے لیے انعام ہے۔ اُمید ہے کہ آپؐ کا رب آپؐ  کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ محمود پر اللہ تعالیٰ فائز فرمائیں گے۔ اگر ایک اُمتی آپؐ کی پیروی میں تہجد پڑھے گا تو اسے بھی بڑا مقام ملے گا۔ اس لیے تہجد کو معمول بنانا ہمیشہ سے نیک لوگوںکی عادت رہی ہے۔ ہمیں بھی نیک لوگوں کی صف میں شامل ہونا چاہیے۔ اگر کبھی تہجد رہ گئی نیند کے غلبے یا بیماری یا تھکاوٹ کے سبب نہ اُٹھ سکے تو بھی اللہ تعالیٰ تہجد کا اجر عنایت فرما دیں گے۔ اس حدیث میں تہجد کے لیے بڑی ترغیب ہے۔ تہجدکے بعد جو دعا کی جائے اس دعا کی قبولیت کی بھی زیادہ اُمید ہے۔ اپنی پریشانیوں اور حاجات کے حل کے لیے بھی اس گھڑی کی برکات سے فائدہ اُٹھایا جائے خصوصاً وہ لوگ جو دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہیں اور ماحول کی ناسازگاری سے انھیں طرح طرح کی مشکلات اور مصائب درپیش ہوتے ہیں۔ قیدوبند کی آزمایش سے بھی دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے تہجد کی گھڑی سنہری موقع ہے۔ وہ اپنے رب سے، جس کے ہاتھ میں کائنات کی باگ ڈور ہے اور وہ    اپنی مخلوق کے بارے میں فیصلے فرماتا ہے، اس گھڑی میں رجوع کریں۔ اُس سے لَو لگائیں جس نے فیصلہ فرمانا ہے، اس سے اپنے حق میں فیصلہ کرانے کے لیے آہ و زاری کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا: رب تبارک و تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمانِ دنیا پر اُترتے ہیں اور فرماتے ہیں: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا کو قبول کروں گا۔ کون ہے جو مجھ سے بخشش مانگے کہ میں اس کی مغفرت کروں۔

٭

حضرت ابی کبشہ اعاریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس اُمت کا حال چار آدمیوں کے حال کی طرح ہے۔ ایک وہ آدمی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی دیا ہے اور مال بھی دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں اپنے علم کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ دوسرا وہ آدمی ہے جسے   اللہ تعالیٰ نے علم تو دیا ہے لیکن مال نہیں دیا ۔ وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے اسے مال دیا ہوتا تو وہ بھی اسی بھائی کی طرح اپنے مال میں تصرف کرتا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: یہ دونوں آدمی اجر میں برابر ہیں۔ تیسرا وہ شخص ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے علم نہیں دیا لیکن مال دیا ہے۔ وہ اپنے مال میں ناجائز تصرف کرتا ہے۔ اور چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے علم بھی نہیں دیا اور مال بھی نہیں دیا۔      وہ یہ جذبہ رکھتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس آدمی کی طرح اس مال کو اڑاتا۔    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں آدمی گناہ میں برابر ہیں۔ (ترمذی، احمد، ابن ماجہ )

مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے، اسے جائز طریقے سے کمانا اور جائز کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ مال دے دے تو وہ اسے صرف دنیا بنانے کے لیے استعمال نہ کرے بلکہ اس کے ذریعے اپنی آخرت بھی سنوارے۔ ایسا آدمی خوش قسمت ہے۔ اسی طرح وہ آدمی بھی خوش قسمت ہے جسے مال تو نہیں ملا لیکن اس کی نیت، عزم اور جذبہ یہ ہے کہ اسے مال ملتا تو وہ بھی اسے جائز کاموں میں صرف کر کے آخرت میں بلند مرتبہ حاصل کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ شخص بھی اجرعظیم کا مستحق ہے۔ یہ بھی نیت اور جذبے سے اپنی آخرت بنارہا ہے۔ لیکن جو مال ناجائز کاموں میں خرچ کرتاہے وہ گنہ گار ہے، اور اسی کی طرح ناجائز کاموں میں مال صرف کرنے کا جذبہ رکھنے والا بھی گنہ گار ہے۔ فقرااور مساکین کے لیے اللہ تعالیٰ کا کتنا کرم ہے کہ وہ انھیں ان کے اچھے اور پاک جذبات کی بناپر نیک کاموں میں مال صرف کرنے والے امرا کے برابر ثواب عطا فرماتے ہیں۔ مال کمانے میں ناکامی کے باوجود آخرت کا اجر کمانے سے محروم نہیں ہیں۔ آج بے شمار لوگ ایسے ہیں جو فقیر اور مسکین ہونے کے باوجود اپنی آخرت بنا سکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ نبی ؐ کے اس ارشاد کی روشنی میں اپنے دل و دماغ میں نیک جذبات کو پروان چڑھا کر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنا دامن بھر لیں۔

٭

حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رزقِ حلال کھایا اور سنت پر عمل کیا اور لوگ اس کی طرف سے آفتوں سے محفوظ رہے وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مستدرک حاکم)

تین باتوں پر مشتمل جامع نسخہ ہے۔ سارے دین کا خلاصہ بھی ہے۔ جب لوگ دوسرے کے مال پر حملہ آور ہوتے ہیں تو تصادم ہوتا ہے۔ آج افراد اور حکومتیں اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ اس بیماری کا علاج یہی ہے کہ ہر آدمی اپنے مال پر قناعت کرے اور دوسرے کے مال پر دست درازی نہ کرے۔ اس طرح جن چیزوں کے استعمال کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے بچے، مثلاً شراب، جوا، رشوت اورسود وغیرہ۔ حرام ذرائع بھی انسانوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ پھر دوسری چیز یہ ہے کہ انسان کی عملی زندگی سیدھے راستے پر ہو اور اس کا کوئی عمل بھی راہِ راست سے ہٹا ہوا نہ ہو۔ اس کے لیے سنت ِ رسولؐ کا نسخۂ کیمیا موجود ہے، اور تیسرا یہ کہ لوگوں کو نقصان پہنچانے ، حقوق العبادکو تلف کرنے سے احتراز کیا جائے۔ انسانوں کا تمسخر اُڑانا، انھیںبُرے ناموں سے پکارنا، ان کی غیبت کرنا، ان پر بہتان لگانا، ان پر بے جا بدگمانی کرنا، فتنہ و فساد کا ذریعہ ہے۔ ان بُرائیوں کا انسداد ہو، آدمی ان میں ملوث نہ ہو تو پھر دخولِ جنت کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔

٭

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھے آدمی ایسے ہیں کہ میں نے ان پر لعنت کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا قبول کی جاتی ہے۔ پہلاآدمی وہ ہے جو اللہ کی کتاب میں اضافہ کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی تقدیر کو جھٹلاتا ہے۔ تیسرا وہ جومیری اُمت پر جبر سے مسلط ہوتا ہے، تاکہ ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے اور ان کو عزت دے جن کو اللہ تعالیٰ نے ذلیل کیا ہے۔چوتھا آدمی وہ ہے جو   اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرے، اور پانچواں وہ جو میری عترت (میری آل اور میرے پیروکاروں) کی عزت کو پامال کرے، اور چھٹا وہ جو سنت کا تارک ہو۔ (طبرانی)

اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اضافے اور کمی کی ناپاک کوششیں دشمنانِ اسلام نے ہر دور میں کی ہیں ، حتیٰ کہ آج کے دور میں قرآنِ پاک کا ایک نسخہ بھی شائع کیا، جس میں سے بہت سی سورتیں خارج کی گئیں لیکن یہ دشمنانِ اسلام اللہ اور اس کے رسولؐ کی لعنت کے مستحق ہوکر ناکام و نامراد ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے۔ فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ o (الحجر ۱۵:۹)’’ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم خود ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔ چنانچہ اس میں آج تک زیروزَبر اور نقطے کا بھی فرق نہیں ہے۔ جہاں تک تقدیر کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ایک نقشے کے مطابق بنایا ہے۔ اپنے آغاز سے لے کر انتہا تک ہر چیز طے شدہ ہے۔ اس نقشے میں یہ بھی طے شدہ ہے کہ انسان اپنے ارادے اور اختیار کا مالک ہے اور اپنی مرضی سے نیکی اوربدی کرے گا۔ چنانچہ انسان اپنی مرضی سے اسلام بھی لارہے ہیں اور کفر بھی کر رہے ہیں اور اپنے لیے جنت اور دوزخ خرید رہے ہیں۔ جابر حکمران ہر دور میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں اور جبروظلم کرکے، نیک لوگوں کو ستاکر، اور بُرے لوگوں کو نواز کر اللہ تعالیٰ کی لعنت کو اپنے اُوپر مسلط کر رہے ہیں۔ نیز  اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنے والے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اصحاب اور پیروکاروں کو ذلیل کرنے والے اور سنت رسولؐکے تارک بھی بڑے پیمانے پر سرگرمِ عمل ہیں۔ یہ سب لعنت کے مستحق ہیں اور اس وجہ سے اپنے تمام وسائل و ذرائع کے باوجود اُمت مسلمہ کو مٹانے اور اس کے مستقبل کو تاریک کرنے میں ناکام ہیں۔ اُمت مسلمہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کے علَم بردار، مشکلات کے باوجود میدانِ عمل میں موجود ہیں اور کامیابی سے لادینیت کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

٭

حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے بارے میں اللہ بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں، اسے دین کی سمجھ عطا فرماتے ہیں۔(بخاری)

دین کی سمجھ کی علامت یہ ہے کہ آدمی نیک ہو اور نیک لوگوں کا ساتھی ہو۔ بُرائی سے اجتناب کرے اور بُروں کا ساتھ نہ دے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ نئی نسل کو یہ بات بچپن ہی سے سمجھا دی جائے اور ان کے ذہن میں اسے راسخ کردیا جائے تاکہ وہ دین کے قدردان بن کراپنی دنیا و آخرت کا بہترین سامان کرسکیں۔ نیز اچھی صحبت اپنائیں اور بُرے لوگوں اور بُری صحبت سے اجتناب کریں۔

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے چار چیزیں دے دی گئیں تو اسے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں دے دی گئیں: شکرگزار دل، ذکر کرنے والی زبان اور آزمایش پر صبر کرنے والا بدن، اور ایسی بیوی جو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔(بیہقی، شعب الایمان)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا شکر بہت اہم فریضہ ہے بلکہ پہلا فرض ہے جو انسان پر عائد ہوتا ہے۔ شکرگزاری کا جذبہ بیدار ہو تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی بندگی اور طاعت میں سستی نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جرأت نہیں کرتا۔ ذکر کرنے والی زبان انسان کو اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں اور احکام سے جوڑے رکھتی ہے کہ یہی ذکر ِ حقیقی ہے۔ جو آدمی زبان سے ذکر کرے لیکن اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے نہ بچے تو یہ ذکر اس کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔ پھر تیسری چیز صبر ہے۔ انسان ہرطرح کی تکالیف اور مصائب میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہے، نافرمانی سے بچے اور واویلانہ کرے۔ صبر کی تصویر بن کر وقت گزارے۔ اس معاملے میں اس کی محسنہ اس کی بیوی ہوتی ہے جو عسرویسر کی ساتھی ہو اور اس کی پیٹھ پیچھے اپنے نفس کی حفاظت کرے اور اس کے مال کی بھی حفاظت کرے اور اسے بے فکر کردے۔ جب اسے گھر کی پریشانی نہ ہوگی تو سب تکلیفیں آسان ہوجائیں گی۔

٭

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: کون سا آدمی دوسروں سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ صَدُوْقُ اللِّسَانِ۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! صَدُوْقُ اللِّسَانِ (سچی زبان والا) کو ہم سمجھتے ہیں مَخْمُوْمُ الْقَلْبِ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: صاف دل جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو اور نہ ظلم و زیادتی، کینہ اور حسد کرتا ہو۔(مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ، بیہقی)

ایسا آدمی جس میں یہ صفات ہوں سب سے زیادہ فضیلت کیوں نہ رکھے جس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی کوئی حق تلفی کی ہو نہ ہی مخلوق کی، اور مخلوق کو اس سے پوری طرح امن ہو۔ مسلمان کی صفت ہی یہ ہے کہ دوسرے مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ ہوں۔ یہ ظلم و زیادتی نہیں کرتا، کینہ نہیں رکھتا، حسد نہیں رکھتا۔ اس سے ہرمسلمان محفوظ و مامون ہے۔ اس پر اسلام کی تعریف بھی صادق آتی ہے اور ایمان کی تعریف بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تزکیہ اور اسلام اور ایمان پر پورا اُترنے کے لیے جامع اور آسان نسخہ بتلا دیا۔ انسان اگر کوشش کرے کہ وہ پاک بازوں میں شامل ہوجائے، افضل لوگوں کے اندر اس کا شمار ہو، اور اسے اللہ تعالیٰ کا قرب اور ولایت حاصل ہوجائے، تو اسے چاہیے کہ ان اخلاقی امراض سے اپنے آپ کو بچائے۔ ہمیشہ سچ بولے، گناہ سے بچے اور لوگوں کے ساتھ حسد، بُغض اور کینہ نہ رکھے۔ خصوصاً نیک لوگوں کے لیے اپنے اخلاص اور محبت میں اضافہ کرے۔ نیک لوگوں کی محبت کی بھی احادیث میں بڑی فضیلت آتی ہے۔

٭

حضرت عبداللہ بن معاویہ عامریؓ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین کام ایسے ہیں جس نے کیے وہ ایمان کا مزہ چکھے گا۔ جس نے اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت اس عقیدے کی بنیاد پر کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور خوش دلی سے ہرسال اپنے مال کی زکوٰۃ دی۔ یہ دو باتیں آپؐ نے ارشاد فرمائیں تو ہم نے پوچھا: یارسولؐ اللہ! وہ اپنے نفس کا تزکیہ کس طرح کرے؟ آپؐ نے فرمایا: یہ عقیدہ رکھے کہ جہاں آدمی ہے وہاں اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ (مسند بزار)

حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کا سب سے افضل درجہ یہ ہے کہ تو یہ جانے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔ (طبرانی)

 ایمان، عبادت خصوصاً زکوٰۃ کے ساتھ یہ سوچ کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے ساتھ ہے،انسان کو ہرقسم کے گناہ سے بچاتا اور ہرنیکی پر آمادہ کرتا ہے۔ ایک مومن جو اللہ تعالیٰ کو واحد خالق و مالک اور معبود و حاکم مانے، اور اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر بھی جانے، تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے وہ کیسے بدکاری اور خباثت کرے، رشوت اور سود لے، بے گناہ کو قتل کرے اور ظالم کی مدد کرے۔ یہ بُرائیاں ایک انسان اسی وقت کرسکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے اور آخرت سے غافل ہو۔ نفس کے تزکیے کا یہ ایسا نسخہ ہے کہ صحابہ کرامؓ نے اسے استعمال کیا اور دنیا کے پاک باز ترین انسان قرار پائے۔ راتوں کو اللہ کی عبادت اور دن کو گھوڑوں کی پشت پر سوار ہونا ان کی امتیازی صفت ہے۔ انھوں نے اللہ کے دین کی خاطر جانیں اور مال یوں نچھاور کیے کہ گویا وہ جنت اور دوزخ کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے ہوں۔ انھیں میدانِ جنگ میں جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اس لیے جان دینا ان کے لیے آسان ترین کام تھا۔ آج ہمیں اپنی جانوں کی فکر ہے اور دنیا کی ہوس، جو اللہ تعالیٰ کو حاضروناظر جاننے کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ اگر ہم اپنے تمام مسائل کو حل کرنے کے لیے اس نسخۂ کیمیا کو اپنا لیں تو بے شک ساری مشکلات حل ہوجائیں گی اور آخرت بھی سنور جائے گی۔

٭

حضرت عیاض بن حمار مجاشعیؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تواضع سے پیش آئو! کوئی کسی پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ (مسلم، مشکوٰۃ)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے میںانس و محبت کا دور دورہ ہوجائے۔ جب ہر کوئی دوسرے سے اپنے آپ کو چھوٹا سمجھے اور کسی پر فخر نہ کرے اور کسی کے ساتھ زیادتی سے بھی پیش نہ آئے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ آپس میں متصادم اور برسرِپیکار ہوں۔ اس کے برعکس ہر ایک دوسرے کا ہمدرد و غم گسار ہوگا اور دوسرے کی مصیبت میں اس کے کام آنے والا ہوگا جس کے نتیجے میں باہمی محبت میں اضافہ ہوگا۔ آج معاشرے کو اس ہدایت کی سخت ضرورت ہے۔

٭

حضرت شداد بن الھادؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، ایمان لایا اور پیروی کا عہد کیا اور کہا کہ میں آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنا چاہتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس چاہت کو منظور فرمایا اور اسے اپنے بعض صحابہؓ کے حوالے کیا اور انھیں اس کی خیرخواہی، دیکھ بھال اور تعلیم و تربیت کی وصیت کی۔ جب غزوئہ خیبر پیش آیا تو وہ اس غزوے میں اپنے ساتھیوں سمیت شریک ہوا۔ خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو   مالِ غنیمت ملا۔ آپؐ نے مالِ غنیمت تقسیم کیا تو اس دیہاتی کو جو ایمان لاکر آپؐ کے پاس مدینہ طیبہ میں آگیا تھا اور پھر وہ غزوئہ خیبر میں بھی شریک ہوا تھا، غنیمت میں سے حصہ دیا۔ اس کا حصہ اس کے ساتھیوں نے جن کے ساتھ وہ رہتا تھاحاصل کیا تاکہ اس تک پہنچا دیں۔ وہ اس وقت ان کی سواریوں کو چراگاہ میں لے کر گیا ہوا تھا اور انھیں چرانے کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا۔

جب اسے مالِ غنیمت دیا گیا تو اس نے پوچھا: یہ کیا چیز ہے؟ ساتھیوں نے کہا: یہ مالِ غنیمت میں سے تیرا حصہ ہے۔ وہ رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں نے اس کی خاطر آپؐ کی اتباع نہیں کی تھی۔ میں نے تو آپؐ کی پیروی اس لیے کی ہے تاکہ میرے گلے میں تیر لگے (اپنے گلے کی طرف اشارہ کرکے کہا) اور میں شہید ہوکر جنت میں داخل ہوجائوں۔ آپؐ نے اس کی یہ بات سنی تو فرمایا: اگر تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی تیرے ساتھ سچ کرے گا۔ اس کے بعد پھر جنگ کا معرکہ برپا ہوا۔ مسلمان میدانِ قتال میں نکلے تو وہ بھی چل پڑا، لڑا اور گلے میں تیر کھاکر شہید ہوگیا۔ اسے آپؐ کے پاس اُٹھا کر لایا گیا ۔ اسے دیکھ کر آپؐ نے پوچھا: یہ وہی ہے؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ وہی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس کے ساتھ سچا معاملہ فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے جُبہ میں کفنایا، پھر اس کی میت کو اپنے سامنے رکھا اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ نماز میں اس کے حق میں آپؐ نے جو دُعائیہ کلمات کہے ان میں سے یہ کلمات بلند آواز میں فرمائے: اَللّٰھُمَّ ھَذٰا عَبْدُکَ خَرَجَ مُجَاہِدًا فِیْ سَبِیْلِکَ فَقُتِلَ شَہِیْدًا وَاَنَا عَلَیْہِ شَہِیْدٌ، ’’اے اللہ!یہ تیرا بندہ ہے، تیری راہ میں جہاد کے لیے نکلا تھا، شہید ہوگیا۔ مَیں اس کی گواہی دیتا ہوں‘‘۔(بیہقی)

جسے اللہ تعالیٰ، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے دین کے ساتھ عشق و محبت ہوجائے تو پھر یہ  عشق و محبت اسے اللہ تعالیٰ کی بندگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و پیروی اور جہاد کے لیے کھڑا کردیتے ہیں۔ دیہاتی ایمان لایا اور پھر آپؐ کے ساتھ رہنے اور جہاد میں حصہ لینے کا عزم کرلیا۔  مالِ غنیمت پر اس کی نظر نہیں بلکہ جامِ شہادت نوش کرنے کا ولولہ ہے۔ اس نے اپنی مراد حاصل کرلی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ اعزازبخشا کہ اپنے جُبہ میں کفنایا اور پھر اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اس کے صدق اور شہادت کی اللہ کے ہاں گواہی دی۔ صحابہ کرامؓ کے انھی جذبات نے دنیا کو اسلام کی طرف کھینچا اور اسے دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیا۔ آج بھی اسی قسم کے جذبے سے سرشار     اہلِ ایمان جاں بازی اور جاں نثاری کے نمونے پیش کر رہے ہیں۔ تکالیف اور مصائب سے دوچار ہیں لیکن ان کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آتی۔ یہی لوگ اللہ والے ہیں اور یہی اللہ کو پیارے ہیں اور انھی جیسا بننے کی طلب اور تڑپ پیدا کرنی چاہیے۔

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ ماہِ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپؐ نے فرمایا:لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ مبارک مہینہ، وہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے۔ جس نے اس میں بھلائی کا نفلی کام کیا گویا اس نے ایک فرض ادا کیا اور جس نے ایک فرض ادا کیا گویا اس نے دوسرے مہینے میں ۷۰فرض ادا کیے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور غم خواری کا مہینہ ہے اور وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جس نے اس میں روزے دار کو افطار کرایا، یہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہوگا اور اس کی گردن آگ سے آزاد ہوگی اور اسے روزے دار کے روزے کے مثل اجر بھی ملے گا بغیر اس کے کہ اس کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم میں سے ہر آدمی کے پاس افطار کے لیے سامان نہیں ہوتا جس سے روزے دار کو روزہ افطار کرائے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: یہ ثواب اللہ تعالیٰ اس آدمی کو بھی دیتے ہیں جو دودھ کے گھونٹ پر اور پانی کے گھونٹ پر افطار کرائے، اور جس نے روزے دار کو سیر کیا اسے اللہ تعالیٰ میرے حوض سے پانی پلائے گا جس کے بعد اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور آخری عشرہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔ جس نے اس مہینے میں اپنے مملوک کے کام میں تخفیف کی اللہ تعالیٰ اسے بخش دے گا اور دوزخ کی آگ سے اسے آزاد کردے گا۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بطورِ خاص خطاب فرمانا، اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسے   عبادت گزار گروہ کو رمضان میں عبادت پر اُکسانا اور انھیں ترغیب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ دوسرے مسلمان تو بدرجہ اولیٰ اس بات کے مستحق ہیں کہ انھیں ترغیب دی جائے کہ وہ اس ماہِ مبارک کو اپنے لیے غنیمت جانیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت اور ہدایات کے جتنے پہلو تھے وہ اپنے اس خطاب میں ارشاد فرما دیے۔لیلۃ القدر کا تذکرہ، پھر نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ۷۰ فرضوں کے برابر اجر، صبر کا مہینہ ، غم خواری کا مہینہ، وہ مہینہ جس میں مومن کا رزق زیادہ کیا جاتا ہے۔ خلقِ خدا کے ساتھ احسان اور ان سے بوجھ کی تخفیف کا اجر، افطار کا اجر، رحمت کا مہینہ، مغفرت کا مہینہ، آگ سے آزادی کا مہینہ، یہ سب فضائل آپؐ نے بیان فرما دیے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی آگے بڑھ کر عبادت میں منہمک نہ ہو اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کرے تو وہ بہت بڑا بدنصیب ہوگا۔ اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم الشان وعظ کو حرزِ جاں بنا لینا چاہیے اور قربِ الٰہی کے حصول پر کمرکَس لینی چاہیے۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ ایک روایت میں جنت کے دروازے کی جگہ رحمت کے دروازے کے الفاظ آئے ہیں۔ (بخاری، مسلم)

رمضان المبارک میں قرآن پاک نازل کیا گیا۔ اسی سبب سے رمضان المبارک کے مہینے کو رب تعالیٰ کی بندگی کے لیے تربیت کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے میں اہلِ ایمان قرآن پاک کے نظام کو اپنی زندگیوں کا جزو بنانے کے لیے تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس تربیت کا محور نفسانی خواہشات کو    اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کرنا ہے۔ نفس کھانے پینے اور جنسی خواہش کو پورا کرنے پر اُکساتا ہے تو ایک مومن اپنے نفس کی ان خواہشات کو پورا کرنے کے بجاے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ وہ صبح کے طلوع ہونے کے بعد سے لے کر غروبِ شمس تک اپنی خواہشات کو روکتا ہے اور غروبِ آفتاب کے بعد سے سحری تک ان جائز خواہشات کو پورا کرتا ہے۔ پورا مہینہ ایسا کرکے وہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کے لیے تیار کرتا ہے۔ جو اہلِ ایمان اس نسخے کو اپناتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے لیے ان کاموں کو آسان کردیتا ہے، جو شیطان کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو شیطان کے حوالے کرنے     کے بجاے اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے حوالے کرتے ہیں اور دین کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔   اللہ تعالیٰ انھیں شیطان کے شر سے محفوظ فرماتے ہیں، شیطانوں کو ان کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے وہ نیکیاں کماتے اور بُرائیوں سے بچتے ہیں اور ان کے لیے شیطانوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جنت کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ شیطان کو بیڑیاں ان کی طرف جاتے وقت پہنا دی جاتی ہیں جو  اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف ہیں اور شیطان کے دشمن ہیں۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنی باگ ڈور شیطان کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے، وہ شیطان اور شیطانی نظاموں کے اسیر ہیں، ان کے لیے شیطان رمضان المبارک میں بھی اسی طرح آزاد ہوتے ہیں جس طرح ہرمہینے میں آزاد ہوتے ہیں۔ پھر جو لوگ رمضان المبارک میں دن کو روزے رکھتے ہیں اور رات کو تراویح میں قرآن پاک سنتے ہیں، یہ صرف رمضان المبارک میں نہیں بلکہ بعد میں بھی نیکی کو اپنا معمول بناتے ہیں اور بُرائی سے اجتناب کرتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنے اور معاشرے پر نافذ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے نفس کا تزکیہ اور اصلاح ہوجاتی ہے جو رمضان المبارک کے بعد ۱۱ مہینے انھیں کام دیتی ہے۔ اس طرح وہ پورا سال اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو یاد کرتے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔ تزکیۂ نفس کا    یہ قرآنی نسخہ ہرخاص و عام کے لیے ہے۔ یہ نسخہ صحابہ کرامؓ اور تابعین، تبع تابعین ، ائمہ مجتہدین اور اولیاے کرام نے استعمال کیا اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور تزکیۂ نفس کی اس بلندی پر فائز ہوئے جس پر بعد میں آنے والوں میں سے صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو تزکیۂ نفس اور قرب الٰہی کے اس نسخے کو استعمال کریں۔ آج لوگوں نے ولایت، تزکیۂ نفس اور قربِ الٰہی کے لیے جو نسخے اپنے پاس سے ایجاد کیے ہیں وہ بے کار اور غیرمؤثر بلکہ مضر ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے نسخے کے مقابلے میں وضع کیے گئے ہیں۔ اگر اس طرح کے لوگوں کی سیرتوں کو دیکھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکے ہوئے اور شیطان کی زنجیروں میں جکڑ دیے گئے ہیں۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کے ہرعمل کا ثواب ۱۰گنا سے ۷۰۰ گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مگر روزہ میرے لیے ہے اور  میں خود اس کی جزا دوں گا۔ وہ اپنی چاہت اور کھانے کو میری خاطر چھوڑتا ہے۔ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی روزے کے افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔ روزے دار کے منہ کی ’بو‘ اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے اور روزہ ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو چاہیے کہ وہ بے ہودہ اور فحش باتیں نہ کرے اور شوروشغب سے بھی احتراز کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ اور جھگڑا کرے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، مسلم)

اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ ایک نیکی کا کم از کم بدلہ ۱۰ گنا دیتے ہیں اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ عنایت فرماتے ہیں۔ بعض افراد کو ان کے اخلاص اور خشوع و خضوع کی بدولت ۷۰۰ گنا بلکہ  اس سے زیادہ بھی عطا فرما دیتے ہیں۔ روزے دار اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے اور اس کے منہ کی بو بھی اللہ تعالیٰ کو کستوری اور مشک سے زیادہ پسند ہے۔ روزہ دنیا میں گناہوں سے بچانے اور شیطان کے وار سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہے اور آخرت میں دوزخ سے بچائو کا ذریعہ ہے۔ اس لیے روزے دار کو گناہوں اور لڑائی جھگڑوں سے بچنا چاہیے تاکہ روزے میں کوئی نقص نہ پیدا ہو۔ روزے میں بھوک اور پیاس کے سبب طبیعت میں خشکی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات آدمی کو لوگوں کی باتوں پر غصہ بھی آجاتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ خاص لڑائی جھگڑے سے روکا ہے۔ روزہ داروں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کو بطورِ خاص ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور اس معاملے میں اپنے نفس کو طیش میں آنے سے پوری طرح روکنے پر متوجہ رہنا اور اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔ رمضان المبارک اس لحاظ سے امن و امان کا معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ جو لوگ لڑائی جھگڑوں اور قتل و قتال میں مصروف ہیں اور روزے بھی رکھتے ہیں ان کا روزہ بے معنی ہے اور شیطان کا دھوکا ہے۔ وہ شیطان کی پیروی بھی کر رہے ہوتے ہیں اور روزہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا روزہ بھوک پیاس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو جھوٹی بات کو نہیں چھوڑتا، جھوٹ پر عمل سے باز نہیں آتا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

٭

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے ایمانی جذبے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھے اس کے پچھلے گناہوں کی بخشش کردی گئی، جس نے رمضان کی راتوں میں ایمانی جذبہ اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہوں کی بخشش کردی گئی اور جس نے لیلۃ القدر میں ایمانی جذبے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہوں کی بخشش کردی جائے گی۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے کسی ایسے عمل کی رہنمائی فرمایئے جس پر عمل کر کے ایک بندہ سیدھا جنت میں داخل ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لے آئے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ایمان کے ساتھ کوئی عمل بھی بتلا دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے جو رزق دیا ہے اس میں سے کچھ دوسروں کو بھی دیا کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر وہ فقیر ہو، اس کے پاس کچھ نہ ہو، تو آپؐ  نے فرمایا: اپنی زبان سے بھلی بات کہے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ!اگر وہ زبان کے ذریعے مافی الضمیر ادا کرنے سے عاجز ہو تو پھر کیا کرے؟ آپؐ  نے فرمایا: وہ بے بس آدمی کی اعانت کرے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اگر وہ ضعیف ہو، قدرت نہ رکھتا ہو، تو آپؐ  نے فرمایا: اس کے لیے کام کرے جو کام کو نہیں جانتا۔ میں نے عرض کیا: اگر وہ خود بھی کوئی کام نہ جانتا ہو، تو اس پر آپؐ  نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ تم یہ چاہتے ہو کہ تمھارے دوست کے پاس کسی قسم کی بھلائی نہ ہو، اس کے پاس مذکورہ چیزیں نہ ہوں، تو کم از کم وہ لوگوں کو کوئی تکلیف نہ دے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ سارے کام تو آسان ہیں (یعنی جس آدمی کے پاس ان کاموں کو کرنے کی قدرت ہے اس کے لیے تو یہ کام معمولی ہیں، بالکل آسان ہیں)۔ پھر ان تھوڑے سے کاموں کی بنا پر وہ جنت میں چلاجائے گا؟ اس پر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جو آدمی بھی ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت کو اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرنے کی نیت سے کرے گا، مَیں قیامت کے روز اسے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر سیدھا جنت میں داخل کروں گا۔ (ابن حبان)

ایک مومن کا پہلا کام تو اپنے ایمان کو زندہ اور قوی کرنا ہے۔ ایمان قوی ہوگا تو پھر اس کے لیے سارے کام آسان ہوجائیں گے۔ اگر جسمانی عوارض کی وجہ سے وہ ایسا کام نہ کرسکے جس کے لیے جسمانی قوت کی ضرورت ہے تو کوئی دوسرا کام کرے جس کی قوت رکھتا ہو۔ اگر کوئی مثبت کام اور خدمت کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو تو کم از کم اتنا تو کرسکتا ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہ دے اور اس کام کے ذریعے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ چھوٹا کام بھی چھوٹا نہ رہے گا بڑا شمار ہوگا، جس نے ساری زندگی اس صفت کو اپنائے رکھا وہ نیکیوں کا ایک بڑا ذخیرہ      جمع کرلے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نبیؐ کا وہ محبوب ہوگا کہ اپنے ایمان کو بھی مضبوط کیا اور خلقِ خدا کو کوئی تکلیف بھی نہ دی۔ کمالِ ایمان کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کی نعمت سے بھی سرفراز ہوا اور خلقِ خدا کی خیرخواہی اور اس کو اذیت سے بچانے کے سبب بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا۔ پھر جو آدمی خود خلقِ خدا کو اذیت سے بچاتا ہے وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اسے اس کی اس نیت کا ثواب بھی ملتا ہے۔ تب وہ جنت کا ہرپہلو سے مستحق ہوجاتا ہے۔ یہ حدیث ایک طرف    اللہ تعالیٰ کے بے پناہ فضل و کرم کا نمونہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف بندوں کو بندگی کا حوصلہ اور ہمت بھی دیتی ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوں اللہ تعالیٰ کی بندگی کی کسی نہ کسی صورت کو عملی جامہ پہناکر جنت میں جاسکتے ہیں اور دنیا میں معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔

٭

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے کسی گناہ کا واویلا کرتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ کہہ رہا تھا: ہاے میرا گناہ، ہاے میرا گناہ! دو مرتبہ یا تین مرتبہ یہ کلمات کہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اس طرح سے کہو: اَللّٰھُمَّ مَغْفِرْتُکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِی وَرَحْمَتُکَ اَرْجٰی عِنْدِیْ مِنْ عَمَلِی’’اے اللہ! تیری بخشش میرے گناہوں سے زیادہ کشادہ ہے اور تیری رحمت سے مجھے اپنے عمل کے مقابلے میں زیادہ اُمید ہے‘‘۔ اس نے ایک مرتبہ یہ کلمات کہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ کہو۔ اس نے دوبارہ کہے تو آپؐ  نے فرمایا: پھر کہو تو اس نے تیسری بار بھی یہ کلمات کہے۔ پھر آپؐ  نے فرمایا: کھڑے ہوجائو اور چلے جائو۔ اللہ تعالیٰ نے تجھے معاف کردیا ہے۔ (مستدرک حاکم)

بندہ صدقِ دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔ ایک مومن گناہ کر کے اس پر قائم نہیں رہتا بلکہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ توبہ کرنا مومن کی صفت ہے۔ اس لیے گناہ کے بعد مومن کو پریشانی لاحق ہونی چاہیے۔ وہ ذات جس کی نعمتوں میں انسان گھرا ہوا ہے، اس کی نافرمانی کوئی معمولی جرم نہیں ہے بلکہ ایمان کو ضعف پہنچانے والی بیماری ہے۔ بیماری کو آغاز میں روکنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر غفلت برتی جائے اور بیماری کا علاج نہ کیا گیا تو بڑھتے بڑھتے وہ کینسر کی شکل بھی اختیار کرسکتی ہے اور پھر لاعلاج ہوکر موت سے ہم کنار کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی حال گناہ کا بھی ہے۔ گناہ کا بھی تدارک نہ کیا جائے تو وہ بڑھتے بڑھتے آدمی کے لیے روحانی موت کا باعث بن جاتا ہے۔ دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ آنکھ، کان پر پردے پڑ جاتے ہیں، دماغ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے۔ اس وقت کے آنے سے پہلے گناہ کے وبال سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اپنے کیے پر نادم ہونا اور آیندہ کے لیے گناہ کے ارتکاب سے دامن کو بچانا اور سابقہ گناہوں سے مسلسل استغفار کرتے رہنا گناہ کے اثر کو مٹا دیتا ہے۔

٭

حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَیں اپنی مرضی سے نہ تمھیں دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں۔ میں تو تقسیم کرنے والا ہوں۔ مَیں وہاں دیتا ہوں جہاں مجھے دینے کا حکم دیا گیا ہو۔(بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم ،اللہ کے نبی اور رسولؐ ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ صاحب ِ اختیار حاکم بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے خزانے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیے، لیکن  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان خزانوں کی تقسیم میں اپنی مرضی نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انھیں تقسیم کیا۔ یوں مسلمان حکمرانوں کے لیے ایک عظیم الشان قابلِ تقلید نمونہ پیش فرمایا کہ جب میں   اللہ تعالیٰ کا نبی اور رسول اورمعصوم عن الخطا ہوکر حق داروں کو ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہوں، توکسی دوسرے کے لیے اس بات کی کیا گنجایش رہ جاتی ہے کہ وہ اللہ کے مال میں خیانت کرے،   حق داروں کی حق تلفی کرے اور اپنے خاندانوں کو نوازے۔

٭

حضرت سلمانؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا تمھارا رب شرمانے والی اور کرم کرنے والی ذات ہے۔ وہ اس بات سے شرماتا ہے کہ بندہ اس سے دونوں ہاتھ اُٹھاکر دعا مانگے اور وہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹا دے۔(ترمذی)

اللہ تعالیٰ بے نیاز ذات ہے اسے بندوں سے کسی بھی قسم کی کوئی حاجت نہیں ہے بلکہ وہ بندوں کی حاجات پوری کرنے والا ہے۔اس نے بن مانگے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ پھر وہ مانگنے پر خوش ہوتا ہے اور عطا بھی فرماتا ہے۔ بندہ جب اخلاص سے بیدار دل کے ساتھ اس سے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگے تو وہ ضرور عنایت فرماتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بے غرض ہونے کے باوجود بندوں سے  شرم کرتا ہے تو بندوں کو بدرجۂ اولیٰ اللہ تعالیٰ سے شرم کرنی چاہیے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی سے بچنا چاہیے۔ حدیث میں حیا کو ایمان کے عظیم الشان شعبوں میں سے ایک بڑا شعبہ قرار دیا گیا ہے۔

آج ہم پر فرض ہے کہ اپنے معاشرے کو ’حیا‘ کی زینت سے مزین کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لیے تیار کریں۔ معاشرے سے بے حیائی کی تمام شکلوں کا خاتمہ کردیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ’حیا‘ کرنے کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا جائے، دعوت و تبلیغ کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا جائے۔

٭

حضرت ابی مالک اشعریؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جن کے باہر سے اندر اور اندر سے باہر نظر آتا ہے (موتیوں کے بنے ہوئے شیش محل کے بالاخانے ہیں) ۔ یہ بالاخانے  اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے تیار کیے ہیں جو نرم گفتگو کریں۔ لوگوں کو کھانا کھلائیں اور مسلسل روزے رکھیں اور راتوں کو نمازیں پڑھیں،   جب کہ دوسرے لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

نرم گفتگو آدمی کو اللہ تعالیٰ کے قریب اور خلقِ خدا کے لیے پُرکشش بناتی ہے۔ یہ حُسنِ اخلاق کی وہ صفت ہے جو اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ  نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس شان کا اپنے کلام پاک میں ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا ہے:    فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آلِ عمرٰن۳:۱۵۹) ’’ (اے پیغمبرؐ!) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

اسی طرح مہمان نوازی اور روزے رکھنا اور راتوں کو اُٹھ کر تہجد پڑھنا، اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندوں کے اخلاقِ حسنہ کا حصہ ہیں، خصوصاً انبیاے علیہم السلام۔ چنانچہ انبیاے علیہم السلام کے پیروکار اہلِ ایمان جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں مقام پیدا کیا، انھوں نے ان تمام صفات کو اپنایا۔ بخل اور تقویٰ کا آپس میں تضاد ہے۔

حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وفد یمن کی طرف بھیجنا طے فرمایا اور اس پر انھی لوگوں میں ایک شخص کو امیر مقرر فرمایا، جو ان میں سب سے چھوٹا تھا۔ وہ وفد چند دن تک ٹھیرگیا، اپنی منزل یمن کی طرف روانہ نہ ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفد کے ایک آدمی سے ملاقات ہوگئی تو آپؐ نے اس کا نام لے کر فرمایا: اے فلاں! تمھیں کیا ہوا تم گئے نہیں؟  تو اس نے جواب میں عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہمارے امیر کے پائوں میں تکلیف ہوگئی ہے۔ تب نبی کریمؐ امیر کے پاس آئے اور اس پر بسم اللّٰہ، باللّٰہ وبقدرتہ من شر ما اَجِدُ فِیْھَا  (اللہ کے نام اللہ کی مدد سے اور اس کی قدرت کے وسیلے سے مَیں دعا کرتا ہوں کہ اے اللہ !اس کے پائوں میں جو تکلیف ہے اسے دُور فرما دے) پڑھ کر دم کیا۔ سات مرتبہ پڑھ کر دم کیا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔

ایک بزرگ شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ نے اس نوجوان کو ہمارے لیے امیر بنادیا ہے حالانکہ یہ ہم سب سے چھوٹا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کے پاس قرآن پاک ہے۔ (یعنی قرآن پاک کے علم نے اسے امارت کے قابل بنا دیا ہے)۔ اس شخص نے کہا: یارسولؐ اللہ! اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ میں رات کے وقت سویا رہ جائوں گا اور اُٹھ نہ سکوں گا تو میں بھی قرآن پاک زیادہ سیکھ لیتا اور یاد کرلیتا(اس نے سوچا کہ حافظ قرآن کے لیے ضروری ہے کہ رات کو اُٹھ کر تہجد پڑھے اور اسے رات کو اُٹھنے کی عادت نہ تھی۔ اس لیے اس نے بقدرِ ضرورت قرآن پاک کی سورتیں یاد کی تھیں۔ اس سے زیادہ اس لیے یاد نہ کیا کہ رات کو اُٹھنا پڑے گا جو اس کے لیے مشکل تھا)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن پاک سیکھو۔ قرآن پاک اس مشکیزے کی طرح ہے جس میں خوشبو بھری ہوئی ہو تو اس کی خوشبو پھیل جاتی ہے، جب کہ وہ کھلا ہو۔ اسی طرح قرآن پاک جب تم پڑھو گے اور وہ تمھارے سینے میں محفوظ ہوگا تو اس کی خوشبو پھیل جائے گی۔ (طبرانی)

آپؐ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ قرآن پاک جب بھی پڑھو گے دن کو یا رات کو ، اس کی خوشبو پھیلے گی، لوگوں پر اس کا اچھا اثر ہوگا، اردگرد کے علاقے کو اس کی برکت اور فیض ملے گا۔ رات کو اُٹھ کر پڑھ سکو تو فبہا ورنہ دن کو پڑھ لیا کرو، دن میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ قرآنِ پاک کی برکت سے  آدمی کو جو عظمت اور دینی فہم وفراست ملتی ہے وہ اسے قیادت کے منصب تک پہنچا دیتی ہے۔اسلامی قیادت میں تو اس بات کو لازمی دیکھا جائے گا کہ کون ہے جس کے پاس قرآن پاک کا علم زیادہ ہے اور اس پر عمل میں وہ آگے ہے۔ علمِ قرآن و سنت اور اس پر عمل آدمی کو اسلامی قیادت کے قابل بنادیتا ہے۔ آج قیادت کے اس معیار کو نظرانداز کردیاگیا ہے جس کے نتیجے میں ایسے حکمران مسلمانوں کی قیادت کر رہے ہیں جو قرآن وسنت کے علم اور عمل سے محروم ہیں اور یہی چیز ان مصائب اور مشکلات کا سبب ہے جس سے اُمت مسلمہ دوچار ہے۔ اُمت کو اپنے مقام پر کھڑا کرنے اور اسے مصائب و مشکلات سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ اس اصول کو قیادت کے انتخاب میں معیار بنادیا جائے۔ عوام کو اس اصول کے مطابق قیادت منتخب کرنے کی تعلیم و تربیت دی جائے۔

٭

حضرت خولہ بنت قیسؓ جو حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ کی بیوی ہیں، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے بنی ساعدہ کے آدمی کی ایک وسق (۵ من تقریباً) کھجوریں تھیں۔ وہ وصولی کے لیے آگیا، تو رسولؐ اللہ نے ایک انصاری کو حکم دیا کہ اسے اتنی کھجوریں دے دیں جتنی اس سے لی گئی تھیں۔ اس انصاری نے اسے اسی طرح کی عمدہ کھجوریں دینے کے بجاے اسے گھٹیا قسم کی کھجوریں پیش کیں تو اس نے ان کو رد کردیا۔ انصاری نے کہا: تم رسولؐ اللہ کی کھجوریں واپس کرتے ہو! اس نے جواب دیا: رسولؐ اللہ زیادہ حق دار ہیں کہ عدل فرمائیں۔ رسولؐ اللہ نے سنا تو آپؐ کی آنکھوں میں آنسوآگئے اور فرمایا: اس شخص نے سچ کہا ہے، مجھ سے زیادہ عدل کرنے کا کون حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ اس اُمت کو پاکیزگی کے مرتبے پر فائز نہیں فرماتا جس میں کمزور آدمی طاقت ور سے اپنا حق وصول نہ کرسکے اور طاقت ور کے دبائو میں بھی نہ آئے۔ پھر حضرت خولہؓ سے فرمایا: اس شخص کو گن کر اس کی عمدہ کھجوریں ادا کردو ۔ جو قرض خواہ اپنے مقروض سے اس حال میں واپس جائے کہ اس سے راضی ہو تو اس کے لیے زمین کے جانور اور سمندر کی مچھلیاں دعائیں کرتی ہیں، اور جو آدمی قرض کی ادایگی کرسکتا ہو لیکن ٹال مٹول سے کام لے تو اللہ تعالیٰ ہردن اور رات کو    اس کے کھاتے میں گناہ لکھ دیتا ہے ۔ (طبرانی)

قرض جتنا لیا جائے اور جس نوعیت کا لیا جائے اتنا ہی اور اسی نوعیت کا واپس کرنا ہوتا ہے۔ قرض پر اضافہ سود ہے اور سود لینے اور دینے والے اور اس کے لین دین میں تعاون کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت برستی ہے۔ اس کے مقابلے میں قرضِ حسن کو صدقہ قرار دیا گیا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ  کو بھی قرضِ حسن قرار دیا گیا اور اس پر ۷۰۰ گنا اور اس سے بھی زیادہ ثواب رکھا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل و انصاف میں جو نمونے پیش کیے ہیں آج اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ انھیں عملی جامہ پہنائے۔ بنکاری میں سودی نظام کو ختم کردے ۔ بنک جو قرضے جاری کرے جتنے دے اتنے ہی واپس لے اور اگرمنافع لینا چاہے تو شرکت اور مضاربت کے اصول پر تجارت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔ بیع کے ذریعے کاروبار کرکے اپنے لیے رزقِ حلال کا انتظام کرے اور رزق حرام سے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو بچائے۔

٭

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ سخی اور سب سے بڑھ کر بہادر تھے۔ ایک رات مدینہ کے لوگوں نے ایک طرف سے کوئی آواز سنی اور خوف زدہ ہوگئے کہ کہیں دشمن نے حملہ تو نہیں کر دیا۔ چنانچہ لوگ باہر نکلے جس طرف سے آواز آئی، اس طرف کا رُخ کیا تو سامنے سے رسولؐ اللہ کو حضرت ابوطلحہؓ کے گھوڑے پر سوار آتے ہوئے دیکھا۔ فرمایا: کوئی خطرے کی بات نہیں ہے اور گھوڑے کے متعلق فرمایا: میں نے اسے سمندر کی رفتار والا پایا۔(بخاری، مسلم)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ میں آپؐ کی بہادری کی بے شمار مثالیں ہیں۔ یہ بھی ان مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام آدمی کی سی زندگی بسر کی اور کسی بھی وقت رعیت کی خبرگیری سے غافل نہ رہے۔آج جسے اقتدار مل جاتا ہے رعیت کے حالات سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ نہ عام آدمی کی اس تک رسائی ہوتی ہے۔ خلافت ِ راشدہ کا دورِ حکومت خلافت علیٰ منہاج النبوۃ (نبوت کے طریقے پر حکومت) کہلاتا ہے۔ آج خلافت راشدہ کے دور کو واپس لانے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا اسلام کو عملاً قائم دیکھ کر اسلام سے متاثر ہو اور دائرۂ اسلام میں داخل ہوجائے۔

٭

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں بیمار ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ بھی ساتھ تھے۔ دونوں پیدل چل کر پہنچے تو مجھے بے ہوش پایا۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جو پانی آپؐ کے اعضاے مبارکہ سے گرا وہ مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اپنے مال کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کروں؟ میں اپنے مال کا کیا فیصلہ کروں؟ آپؐ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کے بارے میں آیت نازل ہوگئی۔(بخاری)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیات بے شمار تھیں۔ راتوں کو اُٹھ کر عبادت کرنا، دن کو تعلیم و تربیت اور گھر میں ہوں تو گھروالوں کے ساتھ تعاون کرنا۔ اس کے باوجود اپنے ساتھیوں کے حالات اور ان کی دیکھ بھال سے بھی لاتعلق نہیں رہتے تھے۔ بیماروں کی بیمارپُرسی فرماتے۔ فوت ہونے والوں کے جنازے ادا فرماتے، تنگ دستوں کی ضروریات کا انتظام فرماتے۔ حضرت جابرؓ کی بیمارپُرسی بھی کی اور ان پر اپنے وضو کا مبارک پانی ڈال کر علاج بھی کردیا۔ حضرت جابرؓ نے سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آیت ِ میراث کے ذریعے حکم نازل فرما دیا۔ کیسا مبارک دور تھا! صحابہ کرامؓ سوال فرماتے تو آسمان سے ان کے سوالوں کے جواب اُترتے اور پھر وہ اُن کو ٹھیک طرح سے عملی جامہ پہناتے۔ آج بھی ہم  رب تعالیٰ سے اپنا تعلق استوار کرسکتے ہیں۔ قرآن و سنت پر عمل کریں اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآن و سنت کے جس حکم پر بھی عمل ہو وہ قربِ الٰہی کا ذریعہ اور دعا کی قبولیت کا وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

٭

حضرت عمرو بن میمون اودیؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اپنے بیٹوں کو یہ دعا ایسے اہتمام سے سکھاتے تھے جیسے استاد بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے، اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کو ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔ وہ دعا یہ ہے:  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ ’’اے اللہ! میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں دنیا کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور عذابِ قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘۔(بخاری، کتاب الجہاد)

اس دعا کو ہم خود بھی یاد کرکے پڑھیں، اور اپنی اولاد کو بھی سکھائیں، اس طرح کی حدیثوں کے ساتھ ہمارا رویہ یہ نہ ہونا چاہیے کہ سن کر رہ جائیں بلکہ اس پر اِسی وقت سے عمل شروع کردیں۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو زیادہ پریشانیاں اور غم پیش آئیں وہ یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میں تیرے قبضے میں ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں تیرا حکم نافذ ہے، میرے معاملے میں تیرا فیصلہ سراسر عدل ہے، میں تجھ سے تیرے ہراس نام کے وسیلے سے جو تو نے اپنی ذات کے لیے مقرر کیا ہے یا اسے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اپنی مخلوق میں کسی کو سکھلایا ہے، مثلاً فرشتوں کو یا اپنے بندوں کو وہ نام الہام کیا ہے، یا اسے اپنے علمِ غیب میں اپنے پاس مستور رکھا ہے، سوال کرتا ہوں کہ قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری فکرمندی، پریشانی اور غموں کا مداوا بنادے۔ جب بھی کوئی بندہ یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دُور کردے گا اور غم کے بدلے میں اسے خوشی عطا فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ)

انسان آفات اور حوادث سے دوچار ہوتا رہتا ہے، غم اور پریشانیوں سے اسے واسطہ رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے ایک طرف تو ان اسباب کو اختیار کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ان تکالیف کے لیے مقرر کیے ہیں۔ فقروفاقہ کی پریشانی میں رزقِ حلال کے لیے دوڑدھوپ، بیماری میں دوا اور طبیب کی طرف رجوع لیکن مسبب الاسباب اللہ رب العالمین کی طرف رجوع زیادہ ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دُعا کی شکل میں ہوتا ہے، اور دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جاتی ہے، کائنات پر اس کی حکمرانی اور اپنی ذات کے بارے میں اس کی تقدیر کے عقیدے کو تازہ کرکے اس کے ہرفیصلے خصوصاً اپنے بارے میں اس کے فیصلے کے عادلانہ ہونے کا حوالہ دے کر اس کے ناموں کا واسطہ دے کر اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ تب ایسی دُعا جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے اسما کے واسطے سے اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کرکے کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔    یہاں جو دُعا سکھلائی گئی ہے وہ بہت مختصر ہے، اسے آدمی یاد بھی کرسکتا ہے۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُرٰان رَبِیْع قَلْبِیْ وَجَلَائَ ھَمِّیْ وَحُزْنِی، ’’اے اللہ! قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری پریشانی، فکرمندی اور غموں کا مداوا بنادے‘‘۔ دُعا سے پہلے اپنی عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور اس کے اسما و صفات اور اس کی حکمرانی کا واسطہ آدمی اپنی زبان میں بھی پیش کرسکتا ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم نے جنگ ِ خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! دل گلے تک پہنچ گئے ہیں یعنی خوف اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے تو کوئی خاص دُعا ہے جسے ہم وردِ زبان بنائیں، تاکہ بے چینی اور خوف کا خاتمہ ہو تو آپؐ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو:  اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، ’’اے اللہ! ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے امن عطا فرما‘‘۔ ہم نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے چہروں پر آندھی کے تھپیڑے مارے اور آندھی کے ذریعے انھیں شکست دے دی۔(مشکوٰۃ بحوالہ مسنداحمد)

آج کل پوری دنیا میں بدامنی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ یہ دعا موجودہ حالات میں نسخۂ کیمیا ہے۔ جب بھی کفار اور شرپسند اہلِ ایمان پر حملہ آور ہوئے اس دعا کو بچائو کا ذریعہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کس طرح اس دعا کے نتیجے میں امداد فرماتے ہیں، غزوئہ خندق اس کی نمایاں مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہوا کے ذریعے دشمن کو مدینہ سے بھگادیا اور اہلِ ایمان کو عظیم اور حیرت انگیز فتح نصیب ہوئی۔  آج بھی اسی طرح کے کرشموں کا ظہور ہوسکتا ہے۔ ضرورت ایمان کو تازہ کرکے دل کے اخلاص سے ظاہری اسباب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے۔ آج بھی دشمن کو بھگانے کا بہترین وسیلہ یہی ہے۔


حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد حصین سے کہا (جب کہ حصین مسلمان نہیں ہوئے تھے) آج کل کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟ میرے والد حصین نے کہا: سات کی ، چھے زمین میں ہیں اور ایک آسمان پر ہے۔ آپؐ نے پوچھا: سخت پریشانی اور خوف میں کس کو پکارتے ہو؟ کہا کہ اسے جو آسمان میں ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: حصین! اگر تم اسلام لے آئو تو میں تمھیں دو کلمے بتلائوں گا جو تجھے نفع دیں گے۔ عمران کہتے ہیں کہ: جب حصین اسلام لے آئے تو عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے وہ دو کلمے بتلا دیجیے جن کا آپؐ  نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ آپؐ  نے فرمایا: کہو! اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ، ’’اے اللہ! میرے دل میں میرے لیے ہدایت ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچادے‘‘۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)

مشرک کئی دروازوں کا سوالی ہوتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ صرف اللہ کے دَر پر آجاتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس مصیبت میں جس سے وہ دوچار ہے وہ طوفان بادوباران جس سے وہ سمندر کی طوفانی موجوں میں دوچار ہوچکا ہے، صرف اللہ کی ذات بچاسکتی ہے۔ حصین مشرک تھے تو چھے معبودوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا تھا۔ اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں  اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے اور تمام بھلائیاں سمیٹنے کا طریقہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرو اور اپنے نفس کے شر سے اس کی پناہ میں آجائو۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آدمی کے دل میں بھلائی القا کرتے ہیں اور تمام بھلائیوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے دیتے ہیں، اور نفس کے شر سے جو شیطان کا آلۂ کار ہوتا ہے، بھی حفاطت فرماتے ہیں۔ تب آدمی اطمینان کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے اور منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔


حضر ت جابرؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر کاشت کے لیے دے دے۔اگر   یہ دو کام نہ کرسکے تو اُجرت پر دینے کے بجاے اپنے پاس رکھے۔(متفق علیہ)

اسلام ہمدردی اور غم گساری کادین ہے، وہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراس پر آخرت میں اجر کی طلب رکھو۔ اسلام نے زکوٰۃ و صدقات اور عطیات کو رواج دیا ۔ اسی سلسلے میں عطیے کے طور پر زمین دینا بھی ہے۔ جائز ملکیت ہو اور بہت بڑی مقدار میں ہو تو ضرورت سے زائد زمین دوسرے بھائی کو مکمل طور پر عطیہ دے دے اور اسے اس کا مالک بنا دے۔ یہ سب سے اُونچادرجہ ہے دوسری صورت یہ ہے کہ ملکیت تو اپنے پاس رکھے لیکن بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اُجرت کے لیے کاشت پر دے دے اور اُجرت منصفانہ ہو تو یہ بھی جائز ہے لیکن اولیٰ پہلی صورت ہے کہ بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ اس کا اس حدیث میں ذکر ہے۔

پاکستان میں جو ظالمانہ جاگیردارانہ نظام ہے جس سے مزارعین اور ہاری دوچار ہیں، اس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اتنی بڑی بڑی جاگیریں جو انگریز نے اپنے دورِ حکمرانی میں اپنے آلۂ کاروں اور کارندوں کو دوسرے مسلمانوں سے غصب کر کے ان کی چاکری کے عوض میں دی ہیں، وہ ان کے جائز مالک نہیں ہیں۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ان جاگیروں کو ضبط کرے اور جاگیرداروں کے پاس اتنی زمین چھوڑ دے جو ان کے گزارے کے لیے ضروری ہے۔ باقی تمام زمین ان ہاریوں کی ملکیت میں دے جو ان زمینوں پر کاشت کاری کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں جاگیرداری نظام ختم کردیا گیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری نظام قائم ہے۔ حالانکہ اسلام نے جاگیرداری نظام پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں فیصلہ فرما دیا کہ مفتوحہ زمینیں مقامی مالکوں کے پاس رہیں اور ان سے خراج لیا جائے۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاریتاً لی ہوئی چیز کا واپس کرنا ضروری ہے اور عطیے کے طور پر جو گائے، بھینس، اُونٹنی، بکری، دودھ کے لیے لی ہو اسے بھی لوٹایا جائے گا۔ اور قرض ادا کیا جائے گا اور ضامن تاوان دے گا۔ (مشکوۃ، ترمذی)

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اخلاقی ہدایات ہیں جہاں آپؐ  نے یہ ہدایت کی ہے کہ اپنی چیزیں اپنے بھائیوں کو مالکانہ نہ دے سکو تو عاریتاًدے دو، وہیں یہ بھی تاکید کی ہے کہ ضرورت پورا کرنے کے بعد جس وقت مالک طلب کرے چیز اسے واپس لوٹائو۔ حفاظت پوری طرح نہ کی جائے اور چیز ضائع کی جائے تو تاوان دینا پڑے گا، قرض بھی لوٹانا پڑے گا اور جس کی ضمانت پر قرض دیا ہے یا چیز دی ہے اگر مقروض تاوان نہ دے سکتا ہو تو پھر ضامن کو تاوان دینا ہوگا، جب کہ اس نے تاوان دینے کا ذمہ لیا ہو۔ اگر صرف مقروض کو حاضر کرنے کا ذمہ لیا ہو کہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا، میں حاضر کروں گا، تو ایسی صورت میں مقروض کو حاضر کرنا ہوگا۔

آج کل لوگ قرض لے کر واپس نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ قرضِ حسن کا سلسلہ کمزور پڑگیا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کی مہم چلائی جائے کہ لوگ قرضِ حسن لے کر اسے واپس کریں اور اگر واپس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو قرض نہ لیں۔ عسرت کی زندگی بسر کرنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لوگوں سے قرض مانگے اور پھر واپس نہ کرسکے۔ اس طرح ذلت اُٹھائے اور احسان کرنے والے کو بھی مشکل سے دوچار کرے۔ قرضِ حسن کو رواج دینے میں سودی بنکاری بھی مانع ہے۔ اس سودی بنکاری کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے سودی قرض کی وصولی اور اس پر سودی منافع دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملک ۱۰۰؍ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔

 

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ قریش اور وہ لوگ جو ان کے طریقے پر چلتے تھے، حج کے موقع پر مکہ اور منیٰ سے مزدلفہ تک جاتے، پھر وہاں ٹھیرنے کے بعد منیٰ واپس آجاتے تھے۔ وہ  اپنے آپ کو ’حمس‘ کہتے تھے، یعنی کعبہ کے متولی ہونے کے سبب اپنے آپ کو بڑی حیثیت کے مالک سمجھتے تھے۔ عربوں کے ہاں بھی ان کی بڑی حیثیت اور مقام تھا۔ اور باقی عرب میدانِ عرفات تک جاتے اور وہاں ٹھیرتے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے۔ جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ عرفات تک جائیں ، وہاں وقوف کریں، پھر وہاں سے واپس لوٹیں۔   اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قول نازل ہوا: ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ۲:۱۹۹) ’’پھر وہاں سے واپس لوٹو جہاں سے سارے لوگ واپس لوٹتے ہیں‘‘۔(متفق علیہ)

حج قدیم اسلامی عبادت ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت ابراہیم ؑ و اسماعیل اور دیگر تمام انبیا ؑنے حج کیے ہیں۔ عربوں میں اسلام سے پہلے یہ عبادت جاری تھی اور کافی حد تک اسلام کے مطابق تھی۔  اس میں چند تبدیلیاں کردی گئی تھیں، ایک یہ کہ حج کے مہینے کو آگے پیچھے کرلیتے تھے۔ دوسری یہ کہ صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ کے بت رکھ دیے تھے۔ کعبہ کا طواف تو اللہ تعالیٰ کے لیے کرتے لیکن صفا اور مروہ کا طواف بتوں کے لیے کرتے تھے۔ ایک رسم یہ تھی کہ عام عرب بے لباس ہوکر طواف کرتے تھے، سواے ان لوگوں کے جن کا تعلق قریش سے ہوتا یا جن کو قریش کپڑے دے دیتے۔ ان کے علاوہ باقی لوگ بے لباس طواف کرتے تھے۔ ایک تبدیلی یہ تھی کہ قریش اپنی بڑائی کے سبب میدانِ عرفات تک نہیں جاتے تھے۔ ان ساری تبدیلیوں کا اسلام نے خاتمہ کردیا۔ ۹ہجری میں جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حج کرایا، اس سال ان تبدیلیوں کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، اور ۱۰ہجری کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس وقت ان تمام تبدیلیوں کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حج کرایا جو خالص اسلامی تھا۔ اس کے بعد سے آج تک اسلام کے مطابق حج ہو رہا ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک یہ دنیا قائم ہے۔ کعبۃ اللہ انسانوں کی زندگی اور اسلامی زندگی کا ذریعہ ہے۔ عبادات میں مسلمان کا رُخ کعبۃ اللہ کی طرف ہوتا ہے اور مسلمان ہرسال ایک ہی لباس میں کعبۃ اللہ کے  گرد طواف اور میدانِ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔ منیٰ میں شیطان کو کنکرمارتے اور حج کے شکرانے کے طور پر قربانیاں دیتے ہیں اور اس طرح شیطان اور شیطانی نظام کو مٹانے کا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔ مناسک ِ حج کا اگر حجاج کرام کو شعور ہوجائے تو دنیا میں اسلامی نظام اور اسلامی حکومت قائم ہونے میں طاغوتی قوتیں رکاوٹ نہ ڈال سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مناسک ِ حج کی حقیقت اور مقصد کا شعور عطا فرمائے، آمین!


عباس بن مرداس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام میں اپنی اُمت کے لیے دعاے مغفرت کی (حاجیوں کے لیے جو میدانِ عرفات میں وقوف کی حالت میں اپنے لیے دعائیں کر رہے تھے)۔ آپؐ نے بھی ان کے لیے دعائیں فرمائیں تو آپؐ کو جواب ملا کہ ان حاجیوں کے علاوہ جن کے ذمے حقوق العباد ہیں، تمام حاجیوں کے بارے میں آپؐکی دعا قبول کرلی گئی ہے۔ آپؐنے دوبارہ دعا فرمائی: اے اللہ! اگر آپ چاہیں تو مظلوم کو جنت عطا فرماکر ظالم کی مغفرت فرما دیں (یعنی وہ ظالم جس کے پاس مظلوم کا حق ادا کردینے کی استطاعت نہیں ہے، اگرچہ وہ دل سے توبہ کر رہا ہے اور مظلوم کا حق لوٹانا چاہتا ہے) تو عرفہ کی شام تک آپؐکو جواب نہ ملا۔ پھر مزدلفہ میں صبح کے بعد آپؐنے وقوف کیا اور اپنی اُمت کے ان ناداروں کے لیے جن سے ظلم ہوگیا، دوبارہ دعا کی تو آپؐکی دعا قبول کرلی گئی۔ دعا کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ، یا مسکرائے۔ اس پر ابوبکرؓ اور عمرؓ نے فرمایا: یارسولؐ اللہ! اس وقت تو آپؐ  نہیں ہنستے تھے، اللہ آپؐ  کو ہنساتا رہے ،کس وجہ سے آپؐہنس پڑے؟ آپؐنے فرمایا: جب اللہ کے دشمن ابلیس کو پتا چلا کہ  اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی ہے اور میری اُمت کی مغفرت فرما دی ہے تو اس نے اپنے سر پر مٹی ڈالنا شروع کردی اور واویلا کیا اور ہلاک ہوگیا، کہنا شروع کر دیا، تو میں نے جو اس کی پریشانی اور بے چینی اور رنج و غم کو دیکھا، اس پر مجھے ہنسی آگئی۔ (ابن ماجہ، بیہقی، کتاب البیعت والنشور)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت کے حجاج سے کتنی محبت ہے، اس کا اندازہ آپؐ کی اس دعا سے جو میدانِ عرفات اور مزدلفہ میں آہ و زاری کے ساتھ کی گئی ہے، واضح ہوجاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں اخلاص کا ثبوت دیتا ہے ، توبہ کرتا ہے، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کردینے کا عہد کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کا سامان فرما دیتے ہیں۔ اگر وہ حق داروں کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو، تو اللہ تعالیٰ اپنے پاس سے    حق داروں کے حقوق ادا کردیتے ہیں اور اپنے مخلص بندوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

حجاج کس قدر خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی محبت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعائیں فرمائیں اور اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی دعائیں قبول فرمائیں۔ آج دنیا بھر سے حجاج سرزمین حرم میں جمع ہوتے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں حج اور مدینہ طیبہ میں مسجد نبویؐ اور روضۂ رسولؐ پر  حاضری دیتے ہیں ، اور ریاض الجنۃ میں نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے ہیں۔ کاش! حجاج کرام اپنے حجاج بھائیوں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں سے اسی طرح سے محبت کریں، اسی طرح سے نیک تمنائیں اور ہمدردی و غم گساری کریں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ کی تو اُمت مسلمہ دنیا کی مضبوط اور طاقت و ر اُمت کی حیثیت سے تسلیم کی جائے، اور طاغوتی طاقتیں انھیں گاجرمولی کی طرح کاٹنے ، ان کا خون بہانے اور ذلیل و خوار کرنے سے باز آجائیں۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اللہ کے لیے اس طرح حج کیا کہ بیوی سے نفسانی خواہش کی کوئی بات نہ کی، کسی فسق کا ارتکاب نہ کیا، وہ اس دن کی طرح گناہوں سے پاک ہوکر واپس آئے گا جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔(متفق علیہ)

اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہوگئی کہ حج صرف اس صورت میں گناہوں سے پاک کرنے کا موجب ہے جب آدمی حج کے تمام آداب کی پابندی کرے اور گناہوں سے حج کے دوران بھی اجتناب کرے اور بعد میں بھی باز رہنے کا عزم کرے۔ قرآنِ پاک میں اس بات کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ حج کے دوران ساتھیوں سے جھگڑا نہ کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حج میں مسلسل سفر اور ہجوم اور طبیعت پر دبائو کی وجہ سے جھگڑے کا ماحول بن جاتا ہے ، اس لیے بطور خاص جھگڑے سے روکا گیا۔ حج سیروسیاحت کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کے لیے سفر کرنے کا نام ہے۔ یہ سفر عظیم عبادت ہے، اس میں ایک انسان احرام کی حالت میں لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے عشق و محبت کے جذبے کے ساتھ رواں دواں ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں اخلاص شرط ہے۔ اخلاص ہوگا تو یہ سفر عبادت بن جائے گا ورنہ محض آنا جانا ہوگا۔ اس لیے ہرحاجی کو اپنے اخلاص پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔


حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا: تمھارا جہاد حج ہے۔ (متفق علیہ)

اسلام نے خواتین کو مردوں سے لڑنے، ان سے ٹکرانے اور جسمانی تکلیف اور عصمت و عفت کو   داغ دارہونے سے بچانے کی خاطر انھیں جہاد کے بجاے حج کی نعمت سے نوازا جس میں ثواب تو جہاد کا ہے لیکن وہ تکالیف اور مصائب جو جہاد میں پیش آسکتے ہیں ان سے محفوظ رکھا۔ مردوں کا کام قتال ہے اور خواتین کا کام گھروں کی حفاظت اور بچوں کی تربیت اور حجِ مبرور ہے۔ کیسا عمدہ نظام ہے! مردوعورت ثواب میں تو برابر ہوگئے لیکن دائرۂ کار میں مختلف۔ آج کی دنیا میں عورت کو جس مشقت میں ڈال دیا گیا، خواتین پولیس اور فوج میں بھرتی ہوکر دُور دراز علاقوں اور ملکوں کا سفر کرتی ہیں، اپنے شوہروں سے دُور رہتی اور بچوں کو پیار دینے سے محروم رہتی ہیں۔ کیا یہ عورتوں کے ساتھ ظلم نہیں ؟ اسلام نے دنیا فتح کی ، مردوں نے سفر کیے۔ اگر کہیں خواتین گئیں بھی تو لڑنے کے لیے نہیں بلکہ شوہروں کی مدد اور مجاہدین کی مرہم پٹی کے لیے لیکن تنہا نہیں بلکہ اپنے شوہروں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ ازواجِ مطہراتؓ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریکِ جہاد رہیں اور مناسب خدمات سرانجام دیں۔ بعض خواتین نے ہنگامی حالات میں قتال میں بھی حصہ لیا لیکن عام حالات میں وہ قتال سے الگ رہیں۔


حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ خثعم قبیلے کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے والد پر اللہ تعالیٰ کا فریضہ حج عائد ہوا ہے، اس حال میں کہ بہت بوڑھے ہیں۔ وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ یہ سوال و جواب حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آئے۔ (متفق علیہ)

ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میری بہن نے حج کی نذر مانی تھی اور وہ فوت ہوگئی ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتا ہوں؟ آپؐ نے فرمایا:    اگر اس پر کسی کا قرض دینا ہوتا تو تم وہ ادا کرتے؟ اس نے کہا: ہاں، ادا کرتا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔ (متفق علیہ)

حج فرض ہو یا اس کی نذر مانی ہو، دونوں صورتوں میں فرض ہوجاتا ہے۔ فرض حج آدمی خود نہ کرسکتا ہو تو دوسرا اس کی طرف سے حج کرسکتا ہے۔ اسے حج بدل کہا جاتا ہے۔ اس کی شرط یہ ہے کہ جس پر حج فرض ہے وہ کسی دوسرے کو اپنی جگہ حج کرنے کے لیے کہے۔ ایسی صورت میں دوسرا شخص اس کی طرف سے احرام باندھے گا۔ حج کے سارے اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے جو حج کرائے۔ قربانی کی رقم بھی وہی دے گا جس کی طرف سے حج ہوگا، چاہے والد ہو یا کوئی اور۔ جس نے حج کی نذر مانی ہے اور فوت ہوگیا ہے تو وہ دوسرے کو وصیت کرے۔ دوسرا اس کی طرف سے حج کرے گا تو اس کی نذر پوری ہوجائے گی۔ ایسی صورت میں اخراجات اس کے ترکے میں سے ہوں گے اور وصیت نہ کی ہو تو مستحب ہے کہ ورثا میں سے کوئی اس کی طرف سے حج کرے۔ ایسی صورت میں اخراجات وارث کے    اپنے ہوں گے، البتہ ثواب حج کرنے والے اور کرانے والے، دونوں کو پہنچے گا۔


حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم حاجی سے ملو تو اس کے ساتھ سلام کرو، مصافحہ کرو اور اس سے درخواست کرو کہ وہ تیرے لیے اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے دعاے مغفرت کرے۔ وہ جس کے لیے دعا کرے گا اس کی بخشش ہوجائے گی۔(مسند احمد)

اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر آدمی خود حج پر نہ جاسکے وہاں جاکر اپنے لیے دعائیں نہ کرسکے تو حاجی جو حجِ مبرور کر کے واپس آیا ہے، اس سے دعائیں کرائے۔ اس طرح سے اس کمی کو پورا کرے جو حج پر نہ جانے سے ہوگئی ہے۔


حضرت عبداللہ بن سائب سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجراسود اور رکنِ یمانی کے درمیان یہ دعا پڑھتے سنا: رَبَّنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (ابوداؤد)

یہ جامع دعا ہے، یعنی دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی اور دوزخ کی آگ سے نجات۔ جسے مراد مل گئی وہ کامیاب ہوگیا۔ حج کا مقصد بھی پورا ہوگیا۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے کہ ۷۰فرشتوں کی ڈیوٹی ہے کہ طواف کرنے والے اور طواف میں مذکورہ دعا پڑھنے پر آمین کہتے رہیں۔ جس دعا پر  اتنے فرشتے آمین کہیں، وہ کیوں کر قبول نہ ہوگی، جب کہ فرشتے بھی اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہوں کہ آمین کہیں تاکہ میں دعا کو قبول کروں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنھیں روزے سے سواے پیاسا رہنے کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے قیام کرنے والے    وہ ہیں جنھیں اپنے قیام سے سواے بیدار رہنے کے کچھ نہیں ملتا۔ (دارمی)

رمضان المبارک اور اس کے روزوں اور اس میں قیام کا مقصد تقویٰ ہے۔ روزہ تو ایک ذریعہ ہے، مقصد تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا، فرائض ادا کرنا اور منکرات سے پرہیز کرنا ہے۔ روزے دار صحیح معنی میں اسی وقت روزے دار شمار ہوتا ہے جب رمضان المبارک کے مہینے میں بھی متقی ہو اور بعد میں بھی متقی رہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں روزے نہیں رکھتے اور نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ ایسے وہ لوگ تو رمضان المبارک کی رحمتوں سے مکمل طور پر محروم رہتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو صرف رسمی روزہ رکھتے اور رسمی نمازیں پڑھتے ہیں، مقصد کو پیش نظر نہیں رکھتے اور دوسرے حرام کام بھی بلادھڑک کرتے ہیں۔ فرائض کی بھی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بھی روزہ رکھنے کے باوجود روزے کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ ان کا روزہ سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں اور راتوں کو ان کی تراویح اور نفلی نمازیں بھی بے کار اور بے اثر ہیں۔ رمضان کے روزے تقاضا کرتے ہیں کہ آدمی رمضان المبارک اور رمضان المبارک کے بعد اسلام کے تمام احکام پر عمل کرے، زندگی کو کھیل کود نہ سمجھے بلکہ آخرت کے لیے کمائی کا ذریعہ سمجھے اور آخرت کی کمائی میں دن رات مصروفِ عمل رہے اور سستی کو قریب نہ آنے دے۔ اپنی کمر کو شیطان سے مقابلے کے لیے کَس لے۔ رمضان المبارک اپنی رحمتیں نچھاور کرتا ہوا آیا اور رخصت ہوگیا۔ نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرض کے برابر، اور لیلۃ القدر جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ جس نے دامن بھرنا ہو بھرلے۔ خوش قسمت ہیں جنھوں نے اپنی جھولیاں رحمتوں سے بھرلیںاور بدنصیب ہیں وہ جنھیں رحمتوں کی موسلادھار بارش میں بھی صرف پانی کی چند بوندیں ملیں اور ان سے بھی بڑھ کر بدنصیب وہ ہیں جنھیں اس بارانِ رحمت سے ایک بوند بھی نہ مل سکی۔ آیئے اپنا جائزہ لیں کہ ہم کن لوگوں میں شامل ہیں؟ ہم تقویٰ کی راہ اختیار کرکے متقی لوگوں کی معیت اختیارکرکے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے والوں میں شامل ہوکر سعادت مندوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔


حضرت عمربن الخطابؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو اُونچا کرتا ہے اور کچھ کو اِس کتاب کے ذریعے پست کرتا ہے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک اعلیٰ درجے کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ کے افضل نبی ؐ پر نازل ہوئی۔ اس کتاب پر ایمان، اس پر عمل، اس کی طرف دعوت، اس کے نظام کو قائم اور نافذ کرنے کے لیے جدوجہد بہت عظیم اور  اعلیٰ درجے کا کام ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ کام کریںگے، اللہ تعالیٰ ان کو رفعت اور عظمت عطا فرمائیں گے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جو اس کتاب اور اس کے نظام کی مخالفت کریںگے اللہ انھیں نیچا کرے گا، انھیں ذلت اور پستی سے دوچار کرے گا۔ آج مسلمان اس کتاب اور اس کے نظام سے محرومی کے سبب ذلت و پستی سے دوچار ہیں۔ وہ قرآن کے راستے پر چل کر دنیا میں عزت اور آخرت میں اجر پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کتاب سے وابستگی اور اس کی سربلندی کے لیے جہاد کی سعادت بخشے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورئہ بقرہ پڑھی جائے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک کی تلاوت سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے، ایمان تازہ اور عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گھر برائیوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ ایسے گھر والوں کے خلاف شیطان میں چالیں چلنے کی سکت نہیں رہتی۔ وہ اس گھر کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں پاتا بلکہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اس لیے ہدایت ہے کہ مسجد میں نمازیں پڑھو تو کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھ لیا کرو تاکہ گھرآباد رہیں۔ گھروں کا آباد رہنا اور شیطان کے شر سے حفاظت کتنا بڑا فائدہ ہے۔


حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے افضل عبادت مصیبت سے چھٹکارے کا انتظار ہے۔ (ترمذی)

مصیبت انسانوں پر آتی رہتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، وہ راحت دے کر بھی آزماتا ہے اور تکلیف سے دوچار کرکے بھی آزماتا ہے۔ مصیبت آجائے تو انسان اللہ سے لو لگائے، اس کے در کا سوالی بن جائے، اس کی یاد میں لگ جائے، اس سے دعائیں کرے، صبروشکر کا پیکر بن جائے، شکووں اور شکایتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے اور دعائوں کی قبولیت کا انتظار کرے۔ انبیاے علیہم السلام پر آزمایشیں سب سے زیادہ آئیں اور انھوں نے سب لوگوں سے بڑھ کر صبر کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے صبر کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے دنیا کے مختلف خطوں میں ہولناک مظالم سے دوچار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسے لوگوں کو حوصلہ اور درس دیتا ہے، اُمید دلاتا ہے کہ مصیبت اور آزمایش کی گھڑیاں سدا نہیں رہتیں، ختم ہوجایا کرتی ہیں۔ جب مصیبتیں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور اہلِ ایمان مسلسل اذیتوں سے بے قرار ہوکر تڑپ اُٹھتے ہیں تو پھر اللہ کی مدد آجاتی ہے، تکلیفیں دُور ہوجاتی ہیں اور اہلِ ایمان ہشاش بشاش اور سرخرو ہوجاتے ہیں۔ آزمایشوں اور ابتلا کا یہ دور بھی ختم ہوجائے گا۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کو پیش نظر رکھیں اور اس میں دی گئی ہدایت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ اور دل کا سرور بنائیں۔ استقامت سے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں، اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتے رہیں کہ یہ اسے پسند ہے۔ ان شاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔


حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس دن آپؐ کے صاحبزادے ابراہیم فوت ہوئے اس دن سورج گرہن ہوا تو آپؐ  نے صلوٰۃ الکسوف پڑھی۔ دورکعت میں آپؐ  نے ہر رکعت میں اتنا طویل قیام کیا کہ ہر رکعت میں تین رکوع کیے (دو مرتبہ رکوع کی شکل میں قیام تھا اور ایک رکوع تھا جیسے ہرنماز میں ایک رکعت میں ایک رکوع ہوتا ہے۔ خشوع اور خضوع کا ایسا غلبہ ہواکہ آپ قرأت کرتے کرتے جھک گئے اور ایسا دو مرتبہ ہوا)۔ دورکعتوں میں ہررکعت میں دو سجدے کیے۔ اسی طرح دونوں رکعتوں میں چارسجدے ہوگئے۔

آپؐ  نے اس وقت فرمایا: آخرت کی جن چیزوں سے تمھیں ڈرایا گیا ہے میں نے انھیں اس نماز میں دیکھا۔ آگ بھی اُس وقت سامنے لائی گئی جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹ گیا، اس وجہ سے کہ کہیں آگ کی لپٹ مجھ تک نہ پہنچ جائے۔ میں نے دوزخ میں کنڈے والے کو بھی دیکھا، وہ اپنی آنتیں دوزخ میں کھینچتے ہوئے جارہا تھا۔ یہ اپنے کنڈے سے حاجیوں کا سامان چوری کرتا تھا۔ اگر حاجی کو پتا لگ جاتا کہ میرا سامان چوری کر رہا ہے تو کہہ دیتا کہ میرے کنڈے کے ساتھ اتفاقاً اٹک گیا تھا۔ میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اسے لے جائوں۔ اور اگر حاجی کو پتا نہ چلتا تو اسے لے جاتا۔ میں نے بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نہ اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہے، یہاں تک کہ بلی مرگئی۔پھر جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا ہوں تو یہ اس وقت ہوا جب میرے سامنے جنت کو لایا گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا کہ اس کا پھل توڑوں تاکہ تم بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر میرا ارادہ بدل گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسا نہ کروں۔(مسلم)

سورج گرہن آج کل بھی ہوتا ہے لیکن صلوٰۃ الکسوف کی سنت معطل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی نشان دیکھتے تھے تو نماز کی پناہ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے نماز کے ذریعے سربسجود ہوتے اوراللہ تعالیٰ کی ہر شان سے متاثر ہوکر خشوع و خضوع کرتے۔ صلوٰۃ الکسوف تو آپؐ نے سورج گرہن کی وجہ سے شروع کی تھی لیکن نماز میں مزید آیات (نشانیاں) پردئہ غیب سے ظاہر ہوئیں۔ ان کو آپؐ نے تو دیکھا لیکن آپؐ  کی اقتدا میں نماز پڑھنے والوں نے نہ دیکھا۔ اس وجہ سے آپؐ پر خشوع و خضوع کی مزید کیفیات بھی طاری ہوئیں اور آپؐ سے قیام میں جھکائو اور نماز میں پیچھے ہٹنے اور آگے بڑھنے کی کیفیات کا بھی ظہور ہوا ۔ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع کی بہت زیادہ کمی آگئی ہے اور شب و روز میں اور خاص مواقع کی سنتوں میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔ دعوت و تبلیغ کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان سنتوں کو خود بھی ان کے حق کے ساتھ ادا کریں اور مسلمانوں میں بھی ان کو رواج دیں۔ لہوولعب اور گانے بجانے اور لغو کاموں کو نئی شکلوں میں رواج دیا جا رہا ہے۔ عید کے دنوں میں لوگ رمضان المبارک اور اس کی عبادات کو یک سر بھول جاتے ہیں اور بیہودہ پروگراموں اور مجالس میں وقت گزارتے ہیں۔ بدعات کو رواج دینے والے بیدار اور فعال ہیں لیکن سنتوں کو قائم کرنے والے غفلت کی نیند سورہے ہیں۔


حضرت عبداللہ بن ابی ربیعۃؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ۴۰ہزار کا قرض لیا ۔ اس کے بعد جب آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے قرض کی ادایگی فرما دی اور ساتھ ہی دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے مال اور اہل و عیال میں برکت دے۔ قرض کا بدلہ شکرگزاری اور ادایگی ہے۔(النسائی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرض اپنے ذاتی اخراجات کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کی ضروریات کے لیے لیا، اس کی ادایگی مسلمانوں کے مال سے کی۔ اسلامی حکومت عوام کی ضروریات کے لیے قرض لے سکتی ہے لیکن یہ قرض بلاسود ہونا چاہیے۔ جتنا قرض لے اتنا ہی واپس کرے۔ حکومتی اخراجات اتنے نہ ہوں کہ ان کے لیے قرض لیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری خدمت گاروں کے لیے قرض لے کر ادایگیاں نہیں کیں۔ آج مسلمان حکومتوں کے اخراجات مسرفانہ ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے سودی قرضے لیتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ جب بجٹ بنائیں تو وہ غیرسودی ہو اور بجٹ کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے سودی قرضے نہ لیں۔ اپنے آپ کو خود ہی ظلم کے حوالے نہ کریں۔ آج کل کی حکومتیں ان اداروں سے سودی قرض بھی لیتی ہیں۔ پھر ان کی ہدایات پر بجٹ بناتی ہیں۔ یہ ادارے سودی قرضوں کے سود کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگواتے ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور پبلک ظلم کی چکی تلے پستی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک شکرگزاری کے مستحق نہیں۔ شکرگزاری کے مستحق تو وہ ادارے ہوسکتے ہیں جو غیرسودی قرضے دیں۔ آج کی حکومتوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔ وہ اس نمونے کی پیروی کر کے اپنی معیشت کو بہتر اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچاسکتی ہیں۔


 

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو روکا اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے کو روکا اللہ اس سے اپنے عذاب کو روکے گا اور جس نے اللہ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائیں گے۔ (بیہقی شعب الایمان)

دنیا میں عزت ہر انسان کو مطلوب ہے، زبان کو روکنا، اس کا بلاضرورت استعمال نہ کرنا عزت کا سامان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلی بات کہو یا خاموش رہو۔ بے جا غصے کو روکنا دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ خلقِ خدا کو اپنے شر سے بچانے اور اس کے شر سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال دن رات کا وظیفہ ہونا چاہیے۔