ڈاکٹر حسیب احمد


کیا یہ بیان حقیقت ہے یا بے جا مغالطہ انگیزی؟___ ’’اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے‘‘۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

  • دینی پہلو: یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اُردو میں ہے، لیکن خطرناک حد تک اُردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور غیراستعماری سازش کے تحت یا پھر ہماری نادانی کے سبب اُردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ذرا سوچیے، ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اُردو کا وجود بس ۲۰، ۲۵ سال کی کہانی ہے (یعنی اُردو یا نیم قسم کی اُردو بس بول چال کا ذریعہ رہ جائے گی، لکھنے پڑھنے اور برتنے کی چیز نہیں ہو گی)۔

ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ مگر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے آنے والی نسلیں اُردو ادب سے کٹتی  جا رہی ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی، تہذیبی اور تاریخی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کریں تو واقعی ہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔

کہا جا سکتا ہے کہ ’’قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں: ایک تو سورۂ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہٗ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔

پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے، اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو، جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے جڑے رہ سکیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے، تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے، یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)، اور جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘ مگر اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔

  • سیاسی پہلو: اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کسی ایک ملک کی بھی مثال نہیں دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی ہو؟ جاپان کے بارے میں تو یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد فاتح امریکا نے شہنشاۂ جاپان سے پوچھا: ’مانگو کیا مانگتے ہو؟‘ تو دانا اور محبِّ وطن شہنشاہ نے جواب دیا: ’اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘۔ اس لین دین کا نتیجہ  آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً ۵۰ فی صد توانائی (بعض اوقات تو ۷۰ اور۸۰ فی صد )دوسری زبان سمجھنے پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ ۲۰ تا ۳۰ فی صد نفسِ مضمون پر۔

دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح صورت میں سامنے آتا ہے کہ ’انگریزی میں‘۔ پنجاب میں پچھلے ۲۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۷۰ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے، جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔

  • معاشی پہلو: پاکستان میں اُردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ’گندمی انگریزوں‘ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان لوگوں کا اقتدار اور برتری قائم ہے۔ اگر اُردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے، تو ان ’گندمی انگریزوں‘ اور ان کی آیندہ نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اُردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی، تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے وہ کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی عہدے اور منصب بھی اسی مقتدر طبقے کے بچوں کا مقدر بنیں گے۔ سی ایس ایس کے امتحان اُردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو)میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل ولیم ہنری سلیمین کے اپنی کتاب Rambles and Recollections of an Indian Official  (۱۸۴۴ء) میں یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانانِ ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پائے کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بوعلی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یورپی بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور پست محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔

اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں نہ کسی کو بھکاری دیکھا ہے اور نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے لوگ دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی اور روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو   تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے ثقافتی نظام کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت ماضی کی داستان بن کر رہ جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنھیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح سے مغلوب قوم....‘‘۔

 چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے پہلے علمِ دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزائے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، آخرکار طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے، تابع فرمان ملازم!

  • معاشرتی پہلو: اُردو اپنے حق کے مطابق اگر رواج نہیں پاسکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوتِ کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اُوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساسِ برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رُعب جھاڑنا ان کی پختہ عادت بن جاتی ہے، اور وہ اپنی زبان بھی بگاڑ لیتے ہیں۔

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ جن دنوں نام نہاد اسرائیل والے اپنی مُردہ عبرانی زبان کو زندہ کر رہے تھے، ان دنوں ہمارے ہاں تمام تر اعلیٰ سائنسی مضامین بہ شمول ایم بی بی ایس، بی ای (انجینیرنگ)، طبیعیات، کیمیا وغیرہ، الغرض ایک مضمون انگریزی کے سوا تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جارہے تھے۔یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا اور پھر وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔

دوسری طرف آزادی کے بعد پڑوسی مشرک ملک میں جب اسمبلی میں سرکاری زبان کے لیے رائے شماری ہوئی تو اُردو اور ہندی کے ووٹ بالکل برابر ہوگئے۔ اس کے بعد اسپیکر کے فیصلہ کن ووٹ سے ہندی سرکاری زبان بن گئی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ ہرسال اپنی مُردہ زبان سنسکرت کے کچھ الفاظ منتخب کر لیتے ہیں اور پھر میڈیا اور دوسرے ذرائع ان مُردہ الفاظ کو عام کرتے ہیں۔

آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، مگر افسوس کہ ہمارے ہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہوچکا ہے۔ نئی نسل تو ایک طرف خود بڑے بھی، اُردو اعداد (۱،۲،۳،۴) لکھنے کے بجائے رومن یا انگریزی اعداد (4,3,2,1) لکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ یہاں پر تین واقعات ملاحظہ کیجیے:

  • ایک معالجِ امراضِ ذہنی ڈاکٹر سیّد مبین اخترکہتے ہیں: انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے، اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو وہاں تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصص کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔ ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور وہ گورے امریکیوں کے شانہ بشانہ ہیں، جب کہ میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں نے اپنے آپ کو اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کاٹ لیا تھا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہارِ خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو میری اپنی زبان ہے۔
  • دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیر تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے ’گندمی انگریزوں‘ نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ گورے صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے، لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا، تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں بُری طرح کچلی جاتی ہیں۔
  • اسی طرح فرض کریں، آپ اپنے دوست کے ساتھ جارہے ہیں، آپ کی جیب میں ۲۳۰ روپے ہیں۔ راستے میں آپ کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں جس کی قیمت ۲۴۰ روپے ہے۔  اب اگر آپ دوست سے دس روپے قرض لیتے ہیں تو کیا یہ مناسب ہوگا؟ آپ کہیں گے کہ اس میں کوئی بُرائی نہیں، اور فی الواقع اس میں کوئی بُرائی نہیں ہے۔ اب ذرا معاملے کو دوسری طرح دیکھیے کہ آپ کو جو چیز خریدنی ہے اس کی قیمت صرف دس روپے ہے۔ جیب میں ۲۳۰روپے رکھتے ہوئے بھی اگر آپ دوست سے دس روپے مانگیں تو کیا یہ کوئی معقول بات ہوگی؟ یقینا نہیں۔   زبان کے مسئلے کو بھی اسی طرح دیکھیے۔ جو الفاظ ہماری اپنی زبان میں ہیں، ان کی جگہ ہمیں دوسری زبان کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہییں۔ غلط اور بلاضرورت ’لسانی قرض‘ بھی کچھ ایسے ہی منفی اثرڈالتے ہیں، جیساکہ مالیاتی قرضے کمرتوڑتے ہیں۔ بلکہ سچ بات یہ ہے کہ مالی قرض تو واپس ہوسکتا ہے، لیکن لسانی اور تہذیبی قرض کا بوجھ واپس نہیں کیا جاسکتا۔
  • آئینی پہلو: پاکستان میں اُردو کا نفاذسیاسی ہی نہیں ایک اہم دستوری اور آئینی پہلو سے بھی ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں یہ الفاظ اُردو کے نفاذ کی ضمانت دیتے ہیں:

پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے [یعنی اگست ۱۹۷۳ء] ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج خلفشار کے اس دور میں بھی یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا باوقار قومی ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے گذشتہ کئی عشروں سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو، جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔  اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ ’سافٹ ویئر‘ ما ہرین نے اب اِن پیج  ایپلی کیشن کو ’مائکرو سافٹ ورڈ‘ اور ’ایکسل‘ کے ساتھ جوڑ کر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ’اِن پیج‘ کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جاسکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔

  • صوبائی زبانوں کے لیے اہمیت: پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان کا دستور بھی دفعہ ۲۵۱ (۳) کے تحت انھیں ان الفاظ میں تحفظ دیتا ہے:’’قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی‘‘۔

ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔

  • انگریزی کا مقام: ہم نے انگریزی (بمقابلہ اُردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہم  انگریزی سے قطع تعلق کر لیں۔ فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان ہے، لہٰذا ترقی کے لیے ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی۔ لیکن ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور انگریزی ہی سرکاری زبان ہو۔ ہم انگریزی کے بطور مضمون پڑھائے جانے کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اُردو تراجم ہونے چاہییں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے۔ یاد رکھیے! ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک، ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت  نکل جائے گا، جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچیے ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوںگی لیکن زبان اپنی نہیں ہوگی۔

اگر آپ کو پاکستان سے محبت ہے تو آپ پاکستان کی قومی زبان اُردو کے تحفظ اور ترقی کے لیے کام کریں۔ آپ کا یہ قدم قوم کی ترقی اور استحکام کا بنیادی قدم ہوگا۔ اس اقدام سے استحصالی نظام کی گرفت بھی کمزور ہوگی، اور ان شاء اللہ اپنے ربّ کے ہاں آپ کو اجر بھی ملے گا۔

یہ ضروری نہیں کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، بلکہ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔

نفاذِ اُردو:کرنے کے کام

  • اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ دعا کی جائے کہ نفاذِ اُردو کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
  • اُردو کے نفاذ کی تنظیمیں متحد اور منظم ہوکر اور اشتراکِ عمل سے کام کریں۔
  •  دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں، ہمیں اپنے دستخط اُردو میں کرنے چاہییں۔
  •  اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ)اُردو میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے چیک اُردو ہندسوں میں لکھیں۔ بنک ایسے چیک قبول کریںگے۔
  •  ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے موبائل فون کی ترتیب اُردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اُمور اُردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
  • اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈ اُردو (یا انگریزی کے ساتھ اُردو) میں لکھوانے چاہییں۔
  • حسب ِاستطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِاُردو کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
  • اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں اور دفتر کے ساتھیوں کو اُردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان اُمور پر عمل کرنے سے ہمارا قدم آگے بڑھے گا۔

 ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا، وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی، تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟

عدالت عظمیٰ کی حالیہ ہدایات کے تحت دستور کی دفعہ ۲۵۱(۱) کے مطابق قومی زبان کو اختیار کرنے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ نہایت خوش آیند ہے ۔ لیکن یہ کام مختصر اور آسان نہیں۔ اس حوالے سے یہ تحریر پیش ہے۔ ادارہ

اُردو کے نفاذ کا مسئلہ کسی قومی، ملکی، یا نسلی عصبیت کا مسئلہ نہیں ہے کہ ایک زبان کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری زبان نافذ کر دی جائے، بلکہ یہ دینی، قومی، ملکی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ یہ بیان حقیقت پر مبنی ہے یا مبالغے پر، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

  •  دینی پھلو: یہ دینی مسئلہ اس طرح ہے کہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر اُردو میں ہے۔ اُردو فہمی آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر استعماری اور غیر استعماری سازش کے تحت اُردو زبان ختم ہو جاتی ہے تو ہماری آنے والی نسلوں کا کیا بنے گا؟ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اگر ہماری یہی روش رہی تو اُردو کا وجود بس ۲۰، ۲۵ سال کی کہانی ہے (یعنی اُردو بس بول چال کا ذریعہ رہ جائے گی، لکھنے پڑھنے اور برتنے کی چیز نہیں ہو گی)۔

ادب انسان کو اچھا انسان بنانے میں مددگار ہوتا ہے۔ آنے والی نسلیں اُردو ادب سے تو کٹتی  جا رہی ہیں، وہ اُردو میں لکھے گئے نہایت قیمتی دینی لٹریچر سے بھی کٹ جائیں گی۔ یہ اندازہ لگانے کے لیے آدمی کا دانش ور ہونا ضروری نہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی ایسی صورت حال نہیں ہے، لیکن غور کیا جائے توہم اسی طرف تیزی سے جا رہے ہیں۔ کیوں نا مسئلے کے سنگین ہونے سے پہلے اس پر قابو پانے کی کوشش کی جائے؟

کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اور احادیثِ نبویؐ میں تو کسی خاص زبان کی ترویج کا حکم نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ قرآن و حدیث نبویؐ میں ایسی کوئی صریح ہدایت نہیں ہے۔ البتہ، قرآن میں دو جگہ اس کی طرف اشارے ضرور ملتے ہیں۔ ایک تو سورہ حٰم السجدہ کی آیت ۴۴ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (مشرکین کے اعتراض کے جواب میں)’’اگرہم اس قرآن کو عجمی (زبان میں) بھیجتے تو یہ لوگ کہتے، کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عرب ہیں‘‘۔ دوسری جگہ سورۂ ابراہیم کی آیت ۴ میں فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے، تاکہ وہ انھیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے‘‘۔ گویا کسی چیز یا موضوع کا ابلاغ متعلقہ لوگوں کی اپنی زبان میں ہی کماحقہ ممکن ہے۔ اجنبی زبان میں لوگوں کو صحیح طور پر نہیں سمجھایا جاسکتا۔

پاکستان میں اُردو کا نفاذ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے اور بدیسی زبان کا نفاذ اسلام کی روح کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کا منشا یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور رسولؐ کی تعلیمات سے قریب ہوں اور دنیاوی طور پر تمام مروجہ علوم و فنون کے ماہر۔ اب سوچ لیجیے کہ اگر قوم کے اوپر غیر ملکی زبان مسلط ہو جس پر عبور رکھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں تو کیا اس قوم کے نوجوان مروجہ علوم و فنون پر بآسانی صحیح طور پر عبور حاصل کر سکیں گے؟ اپنی زبان کے خاتمے یا کم فہمی کی وجہ سے کیا یہ نوجوان اپنے تہذیبی ورثے سے کٹ نہیں جائیں گے؟ اپنی زبان اور ادب سے بے بہرہ یہ نوجوان جب تعلیم و تدریس کے شعبے میں آئیں گے تو کیا اپنے شاگردوں کو آسان زبان میں موضوع کو سمجھا سکیں گے یا کسی مذاکرے میں اپنا ما فی الضمیر سہل انداز میں پیش کر سکیں گے؟ کسی موضوع پر کوئی مضمون یا کتاب آسان اور عام فہم زبان میں لکھ سکیں گے؟ ایک حدیث نبویؐکا مفہوم ہے کہ ’’آسانیاں پیدا کرو، مشکلات پیدا نہ کرو‘‘ (یَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا، بخاری، حدیث۶۱۹۲، کتاب الآداب)۔خود سوچ لیجیے کہ جہاں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہ ہوں، وہاں دفتری امور نمٹانا اور تعلیم حاصل کرنا انگریزی میں آسان ہو گا یا اُردو میں؟

اسی طرح مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا۱۹۳۹ء کا یہ فتویٰ بھی موجود ہے کہ: ’’اس وقت اُردو زبان کی حفاظت حسبِ استطاعت واجب ہو گی اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سُستی کرنا معصیت اور موجبِ مواخذۂ آخرت ہو گا‘‘۔ اب تو اُردو کے لیے حالات اور بھی بدتر ہو گئے ہیں۔

  •  سیاسی پھلو: اگر قومی، ملکی اور سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا سوچیے کہ دنیا میں آپ کسی ایک ملک کی بھی مثال دے سکتے ہیں، جس نے اپنی زبان چھوڑ کر کسی غیر ملکی زبان کو استعمال کر کے ترقی حاصل کی ہو؟ کرۂ ارض پر ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ جاپان کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ جب دوسری عالمگیر جنگ میں شکست کے بعد فاتح امریکا نے شہنشاہ جاپان سے پوچھا: مانگو کیا مانگتے ہو؟ تو دانا اور محبِّ وطن شہنشاہ نے جواب دیا: اپنے ملک میں اپنی زبان میں تعلیم‘‘۔ اس لین دین کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ غرض جاپان، جرمنی، فرانس وغیرہ بلکہ دنیا کے جس ملک نے بھی ترقی کی ہے، اپنی زبان میں تعلیم دے کر ہی کی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ  اگر غیر ملکی زبان میں تعلیم دی جائے تو طالب علم کی تقریباً ۵۰ فی صد توانائی (بعض اوقات تو ۷۰ اور۸۰ فی صد )دوسری زبان سمجھنے پر خرچ ہوتی ہے اور بقیہ ۲۰ تا ۳۰ فی صد نفسِ مضمون پر۔

دوسری طرف یہ دیکھیے کہ میٹرک اور انٹر میں ہمارے طلبہ و طالبات کی اکثریت کس مضمون میں ناکام (فیل) ہوتی ہے؟ جواب واضح ہے کہ انگریزی میں۔ پنجاب میں پچھلے ۱۰ سال کے نتائج کے مطابق میٹرک کے اوسطاً ۶۴ فی صد طلبہ انگریزی میں فیل ہوئے اور انٹر کے ۸۷ فی صد۔ ان طلبہ میں کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہو سکتی ہے جو انگریزی کے علاوہ دوسرے مضامین یا شعبوں میں اچھے ہوں اور آگے چل کر دوسرے شعبوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس طرح ہماری قوم ہر سال معتد بہ تعداد میں اچھے اذہان سے محروم ہو جاتی ہے۔

  •  معاشی پھلو: پاکستان میں اُردو کے نفاذ کا ایک معاشی پہلو یوں بھی ہے کہ ملک میں انگریزی سمجھنے والے دو چار فی صد سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ زبان (انگریزی) دراصل ہماری اشرافیہ یا ’کالے انگریزوں‘ جرنیلوں اور نوکر شاہی کی زبان ہے۔ انگریزی ہی کی بدولت ان لوگوں کا اقتدار اور برتری قائم ہے۔ اگر اُردو پاکستان کی سرکاری زبان بن جاتی ہے تو ان کالے انگریزوں اور ان کی آنے والی نسلوں کا اقتدار اور برتری ختم ہو جائے گی۔ اگر اُردو ہماری سرکاری زبان نہیں بنتی تو غریب اور متوسط طبقے کے بچے کلرک، مزدور اور چپراسی ہی بنیں گے، چاہے کتنے ہی ذہین کیوں نہ ہوں، اور کلیدی اسامیاں مقتدر طبقے ہی کے بچوں کا مقدر بنیں گی۔ سی ایس ایس کے امتحان اُردو میں نہ کروانے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ آج بھی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ امتحانی مراحل اور مصاحبوں (انٹرویو)میں وہی امیدوار کامیاب ہوتے ہیں جن کی انگریزی اچھی ہوتی ہے، چاہے نفسِ مضمون میں وہ کتنے ہی کم زور کیوں نہ ہوں۔

انگریزوں کی آمد سے قبل ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی حالت کیا تھی؟ اس بارے میں ایک برطانوی اعلیٰ افسر جنرل سلیمین کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں:’’دنیا میں صرف چند قومیں ایسی ہوں گی جیسی کہ مسلمانان ہند ہیں اور جن میں تعلیم اعلیٰ پایہ کی ہے اور سیر حاصل ہے۔ جس (بھی)آدمی کی تنخواہ -/۲۰روپے ماہانہ ہے، وہ اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے، جیسی انگلستان کے وزیراعظم کی ہوتی ہے۔ یہ افراد عربی، فارسی کے ذریعے، اس طرح کا علم حاصل کرتے ہیں جیسا ہمارے نوجوان یونانی اور لاطینی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان کا علم اسی پایہ کا ہوتا ہے، جس پایہ کا اوکسفرڈ کے فارغ التحصیل کا۔ یہ عالم بغیر کسی جھجک کے سقراط، ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بو علی سینا کی تعلیمات پر گفتگو کرتا ہے۔ ہم میں سے بہترین یوروپین بھی اعلیٰ خاندان کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے سامنے علمی لحاظ سے خود کو کم تر اور گھٹیا محسوس کرتے ہیں، بالخصوص جب کوئی سنجیدہ علمی گفتگو ہو‘‘۔

ہم کیا تھے اور ہمارے انگریز آقا ہمیں کیا بنانا چاہتے تھے۔ اسی طرح لارڈ میکالے، رکن قانون ساز گورنر جنرل کونسل کے ۲ فروری۱۸۳۵ء کو برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کا درج ذیل اقتباس دیکھیے: ’’میں نے ہندستان کا مکمل دورہ کیا ہے۔ میں نے یہاں کسی کو بھکاری دیکھا ہے نہ چور۔ میں نے اس ملک میں اس قدر فارغ البالی، ثروت، اخلاقی اقدار اور نہایت اعلیٰ ظرف کے افراد دیکھے ہیں کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ہم اس ملک کو اس وقت تک فتح کرسکتے ہیں جب تک اس قوم کی کمرِ ہمت کو شکستہ نہیں کر دیں، جو دراصل اس کا ثقافتی و روحانی ورثہ ہے۔ چنانچہ میری تجویز ہے کہ ہم ان کے قدیم نظامِ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کر دیں تاکہ ہندستانیوں کو یہ یقین ہو جائے کہ جو کچھ باہر سے آرہا ہے اور انگلستانی ہے وہ مستحسن و عظیم ہے بہ نسبت ان کے اپنے نظامِ ثقافت کے۔ اس طرح ان کی عزتِ نفس ختم ہوجائے گی، ان کی ثقافت داستانِ ماضی ہو جائے گی، اور وہ وہی ہوجائیں گے جو ہم اُنہیں بنانا چاہتے ہیں، ایک صحیح طرح مغلوب قوم....‘‘۔

 چنانچہ انگریزوں کی آمد کے بعد، اس طرزِ تعلیم میں قطع و برید کی گئی۔ سب سے اوّل   علم دین کو خارج کیا گیا۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ دیگر اجزاے علم اور عربی و فارسی کو عام تعلیم سے خارج کیا گیا، بالآخر طالب علم، علم کے لحاظ سے ناقص، اور صرف سرکاری ملازمت اور اہل کار ہونے کے قابل رہ گئے۔

  •  معاشرتی پھلو: اُردو اپنے حق کے مطابق اگر مروج نہیں ہو سکی ہے تو اس کا ایک معاشرتی نقصان یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کی انگریزی اچھی نہ ہو وہ انگریزی جاننے والوں سے عموماً خود کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں اور نتیجتاً اپنی قوتِ کار کو گھٹا لیتے ہیں۔ دوسری طرف انگریزی جاننے اور اس کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے والے خواہ مخواہ احساس برتری کا شکار ہو کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور اپنی علمیت کا رعب جھاڑنا ان کی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے، نیز وہ اپنی زبان کو بگاڑ لیتے ہیں۔

جملۂ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن میں ۳۰سال تک تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے رہے۔ یہ سلسلہ سقوطِ حیدرآباد تک جاری رہا جس کے بعد وہاں اُردو ذریعۂ تعلیم کو ختم کر دیا گیا۔ بعد میں ایک غیر ملکی وفد نے وہاں کا دورہ کرنے کے بعد اُردو ذریعۂ تعلیم ختم کرنے کی وجہ پوچھی تو منتظمین کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہمارے ہاں جو واقعی بڑے لوگ گزرے ہیں، ان کی بہت بڑی اکثریت اُردو میڈیم کی پڑھی ہوئی ہے۔ انگریزی میڈیم نے کوئی بڑی شخصیت پیدا نہیں کی، الا ماشاء اللہ۔ جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کی اپنے مضمون پر گرفت اتنی مضبوط تھی کہ برطانیہ میں ایف آر سی ایس وغیرہ کے داخلہ ٹیسٹ سے ان کو مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ دراصل تخلیقی قوت اپنی ہی زبان سے آتی ہے۔

آپ نے کسی انگریز یا امریکی کو انگلستان یا امریکا میں نمبر (اعداد) اُردو میں بتاتے ہوئے یا اپنی گفتگو میں جابجا اُردو الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ یقیناً نہیںسُنا ہوگا، تو ان کے مقابلے میں تھوڑی بہت حمیت کا مظاہرہ تو ہمیں بھی کرنا چاہیے۔ یہاں پر دو واقعات ملاحظہ کیجیے جوآنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔

ایک معالجِ امراضِ ذہنی کہتے ہیں کہ انھوں نے ایسے انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم حاصل کی جہاں پڑھانے والے بھی انگریز تھے۔ اگر غلطی سے کوئی اُردو کا لفظ زبان سے نکل جاتا تو بہت شرمندگی اٹھانی پڑتی تھی۔ پھر انٹر میں بھی ذریعۂ تعلیم انگریزی ہی تھی۔ ایم بی بی ایس تو تھا ہی انگریزی میں۔ اس کے بعد وہ تخصیص (اسپیشلائزیشن) کے لیے امریکا چلے گئے۔ وہاں پڑوسی ملک میکسیکو (جو کہ امریکا کے بالکل ساتھ واقع ہے)سے بھی ڈاکٹر اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا آئے ہوئے تھے۔  ان ڈاکٹروں کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی انگریزی دانی پر بہت خوش تھے کہ انھیں انگریزی آتی ہے اور میکسیکو کے ڈاکٹروں کو انگریزی نہیں آتی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چھے ماہ کے اندر میکسیکو کے ڈاکٹروں نے انگریزی میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ اپنا کام بخوبی چلانے لگے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ پھر مجھے بڑا افسوس ہوا کہ جو کام میں چھے مہینے کی محنت سے کر سکتا تھا، اس کے لیے میں اپنے تہذیبی ورثے، اقبالؔ، غالبؔ، میرؔ، اکبرؔ ا لٰہ آبادی وغیرہ سے کٹ گیا کہ اتنی انگریزی پڑھنے کے باوجود انگریزی کی نسبت اُردو میں اظہار خیال کرنا زیادہ آسان ہے کیونکہ اُردو اپنی زبان ہے۔

دوسرا واقعہ انگلستان کے ایک وزیرِ تعلیم کے دورئہ پاکستان کا ہے۔ ہمارے کالے انگریزوں نے انھیں اپنے انگریزی میڈیم اسکولوں کا دورہ کرایا۔ دورے کے بعد ان سے پاکستانی بچوں کو انگریزی میں تعلیم دیے جانے پر ان کے تاثرات پوچھے گئے۔ ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ صاحب اس بات سے بہت خوش ہوں گے لیکن انھوں نے جو جواب دیا وہ سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ انھوں نے کہا کہ: ’’اگر میں اپنے ملک میں ایسا کرتا کہ کسی غیر ملکی زبان میں طلبہکو تعلیم دلواتا تو دو جگہوں میں سے ایک جگہ مجھے ضرور جانا پڑتا: پھانسی گھاٹ یا پھر پاگل خانے‘‘۔ بقول ان کے دوسری زبان میں تعلیم دینے سے بچے کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں۔

  •  آئینی پھلو: پاکستان میں اُردو کا نفاذسیاسی ہی نہیں آئینی پہلو سے بھی اہم ہے۔ پاکستان کے ہر آئین میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین کسی قوم اور ملک کی نہایت اہم اور مقدس دستاویز ہوتی ہے جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان کے ۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعہ ۲۵۱ (۱) میں ان الفاظ میں اُردو کے نفاذ کی ضمانت دی گئی ہے:

پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور یومِ آغاز سے ۱۵برس کے اندر اندر اس کو سرکاری   و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

تحریکِ پاکستان کی بنیاد میں دو چیزیں تھیں: ایک اسلام اور دوسری اُردو زبان، کیوں کہ ہندو اکثریت ان دونوں کے در پے تھی۔ آج بھی خلفشار کے اس دور میں یہی دو چیزیں پاکستان کو متحد رکھ سکتی ہیں۔ اُردو کے مخالف جب اُردو پر یہ غلط اور بے بنیاد اعتراض کرتے ہیں کہ اُردو میں سائنسی مضامین نہیں پڑھائے جا سکتے حالانکہ لگ بھگ ۳۰برس تک جامعہ عثمانیہ اور انجینیرنگ کالج رڑکی اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین سائنسی مضامین بشمول ایم بی بی ایس، بی ای، اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ اُردو سرکاری یا دفتری زبان نہیں بن سکتی، تو حیدرآباد دکن کا ذکر تو چھوڑیے جہاں سرکاری دفاتر میں تمام کام اُردو میں ہو تا تھا، موجودہ دور میں مقتدرہ قومی زبان جیسا ادارہ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لیے پچھلی صدی سے تیار بیٹھا ہے۔ یہ ادارہ کہتا ہے کہ بس حکم کی دیر ہے، اُردو زبان نافذ ہونے کے لیے بالکل تیار ہے۔ اُردو جدید اطلاعاتی دور کے شانہ بشانہ چلنے کی بھی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کمپیوٹر پر اُردو رسم الخط میں کام کے حوالے سے یہ تا ثر پایا جاتا ہے کہ اِن پیج کے سوا کام نہیں ہو سکتا جس کی وجہ سے اُردو معلومات کو ترسیم(گراف)، چارٹ، جدول میں اُس طرح پیش کرنا ممکن نہیں جیسے انگریزی میں ممکن ہے۔ مگر اُردو کے بہی خواہوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ سافٹ ویئر ما ہرین نے اب ان پیج  ایپلی کیشن کو مائکرو سافٹ ورڈ اور ایکسل کے ساتھ جوڑ کر ان سافٹ ویئرز پر اُردو میں کام کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، نیز ان پیج کا مواد یونی کوڈ میں تبدیل کرنا ممکن ہے جس کے بعد اُردو مواد کو انٹرنیٹ کے ذریعے برق رفتاری سے ارسال کیا جا سکتا ہے (اس سلسلے میں ایک ویب سائٹ www.urdu.ca  سے کلیدی مدد لی جا سکتی ہے)۔

  •  صوبائی زبانوں کے لیے اھمیت: پاکستان میں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو وغیرہ سب زبانیں ہماری اپنی زبانیں ہیں۔ ہمارا آئین بھی دفعہ ۲۵۱- (۳) کے تحت انھیں ان الفاظ میں تحفظ دیتا ہے:’’قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکے گی‘‘۔

ملک میں اس وقت اہمیت کے لحاظ سے انگریزی پہلے درجے پر ہے، اُردو دوسرے اور صوبائی زبانیں تیسرے درجے پر۔ جب اُردو سرکاری زبان بن جائے گی تو اہمیت کے لحاظ سے اُردو پہلے درجے پر آ جائے گی، صوبائی زبانیں بہ لحاظ اہمیت تیسرے سے دوسرے درجے پر آجائیں گی، یعنی اُردو کا نفاذ ہماری علاقائی زبانوں کے تحفظ اور ترقی میں بھی ممدومعاون ہو گا۔

 ہمارے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے یا پھر المیہ کہ ہماری قومی زبان الگ ہے اور سرکاری زبان الگ، لیکن ہم اس تضاد کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم نے اس کو زندگی کا لازمہ سمجھ لیا ہے۔ دراصل اُردو کے نفاذ سے اقتدار، عوام کو منتقل ہو جائے گا۔ شاید یہی امر اُردو کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔

  • انگریزی کا مقام: ہم نے انگریزی (بمقابلہ اُردو) کے لیے جو کچھ کہا ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انگریزی کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور ہم  انگریزی سے قطع تعلق کر لیں۔   فی زمانہ انگریزی سائنس اور ٹکنالوجی کی زبان ہے۔ اگر ہمیں سائنس اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ہمیں انگریزی سیکھنی ہوگی۔ ہم جس چیز کے مخالف ہیں وہ صرف یہ ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم ہو اور سرکاری زبان ہو۔ ہم انگریزی کے بطور مضمون پڑھائے جانے کے مخالف نہیں۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم کے لیے اصل کتب کے اُردو تراجم ہونے چاہییں۔ لیکن یہ کام سرکاری سرپرستی چاہتا ہے جس کے لیے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی۔ یاد رکھیے!ہمارے بعد جو لوگ آ رہے ہیں وہ اس مسئلے کی اہمیت کو بالکل نہیں جانتے۔ یعنی یہ کام اگر ہم نے کر لیا یا کرانے کی کوشش کرتے رہے تو ٹھیک ورنہ بعد میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہو جائے گا اور وقت نکل جائے گا جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ ذرا سوچیے ہمارا ملک ایک ایسے ملک کے طور پر شناخت کیا جائے گا جس کی زمین، فصلیں، ثقافت، لباس، غذائیں تو اپنی ہوںگی لیکن زبان اپنی نہیں ہوگی۔

کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا ۱۰۰ فی صد وقت اُردو کے نفاذ کے لیے وقف کر دیں۔ نہیں، ہرگز یہ ہمارا مقصد نہیں کہ اپنی نوکری، اہل خانہ اور سماجی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر بس، اُردو کی ترویج میں لگ جائیں۔ ہمیں اُردو کے نفاذ کی کوششوں کے لیے اپنا ۵۰ فی صد یا ۲۵فی صد بلکہ ۱۰فی صد وقت بھی خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ایک فی صد وقت تو اس کام کا حق بنتا ہے۔ یہ بھی دین اور ملک کی اہم خدمت ہے، بلکہ ایسی خدمت جو اہم ہونے کے باوجود توجہ سے محروم ہے۔

نفاذِ اُردو:کرنے کے کام

  • کسی بھی کام کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ خدا کی نصرت درکار ہے۔اس لیے اللہ تعالیٰ سے باقاعدہ دعا کی جائے کہ نفاذِ اُردو کا کام پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
  • جو لوگ اُردو کو نافذ کروانا چاہتے ہیں وہ آپس میں مل کر تنظیمیں بنا لیں۔ منظم ہونے سے کام آسان ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی تمام تنظیموں کے درمیان اشتراکِ عمل ہو۔
  • دستخط انسان کی پہچان ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے دستخط اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • اپنے اور اپنے اداروں کے تعارفی کارڈ (وزیٹنگ کارڈ)اُردو میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے چیک ہمیں اُردو ہندسوں میں لکھنے چاہییں۔ ایک عدالتی فیصلے کے تحت بنک ایسے چیک قبول کرنے کے پابند ہیں۔
  • ہمارے یہاں دعوت نامے اس زبان میں چھاپے جاتے ہیں، جو نہ بلانے والے کی زبان ہے اور نہ بلائے جانے والوں ہی کی۔ ہمیں دعوت نامے مادری یا قومی زبان میں چھپوانے چاہییں۔
  • اپنے موبائل فون کی ترتیب ہمیں اُردو میں رکھنی چاہیے اور مختصر پیغام بھی اُردو میں کرنے چاہییں۔
  • ہمارے دفاتر اور کاروباری اداروں کو اپنے دفتری اور جملہ اُمور اُردو ہی میں نمٹانے چاہییں۔
  • اپنی دکانوں اور دفاتر کے سائن بورڈ ہمیں اُردو (یا انگریزی کے ساتھ اُردو) میں لکھوانے چاہییں۔
  • ہمیں حسب استطاعت اپنے مال کا ایک حصہ نفاذِاُردو کے لیے وقف کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے اس پر اَجر کی توقع رکھنی چاہیے۔ ہم نفاذِاُردو کے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو ملک کی تقدیر بدلنے میں ہمارے مال کا حصہ بھی گنا جائے گا۔
  •  ہمارے ایک دن کے وقت کا ایک فی صد تقریباً ۱۴منٹ بنتا ہے اور مہینے کا ایک فی صد تقریباً سات گھنٹے۔ اس وقت میں اپنے اہل خانہ، دوستوں، پڑوسیوں کے ساتھ اور دفتر کے ساتھیوں سے اس موضوع پر بات کریں اور انھیں اُردو کے نفاذ کی اہمیت سے آگاہ کریں۔

ان امور پر عمل کرنے میں شروع میں ہمیں تکلیف تو ہو گی لیکن ان شاء اللہ یہ مشکل جلد رفع ہو جائے گی۔ یاد رکھیے!ہر بڑا کام محنت اور مستقل مزاجی چاہتا ہے۔

 ایک حدیثِ نبویؐکا مفہوم ہے کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہا وہ ہم میں سے نہیں۔ یاد رکھیے، اُردو کے نفاذ کا مسئلہ محض ایک زبان کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک دینی، قومی، ملکی، معاشی اور معاشرتی مسئلہ ہے۔ خدانخواستہ ایک دو نسلوں بعد اُردو (بطور زبان) مٹ گئی تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ بھی ہوں گے جو نہ جاننے یا جاننے کے باوجود اپنی مصروفیات میں سے وقت نہ نکال سکے۔ کیا ہم اس اہم مسئلے کے لیے اپنے وقت کا ایک فی صد بھی نہیں نکال سکتے؟

 

مقالہ نگار میڈیکل آفیسر، اسٹیٹ بنک آف پاکستان، کراچی ہیں