ڈاکٹر انجم رحمانی


مختلف آثار کے مطالعے سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ مولانامودودیؒ، حافظ محمدیوسف سدیدیؒ (۱۹۲۶ء-۱۳ستمبر ۱۹۸۶ء) کو اُن کی خوش نویسی کی وجہ سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور وہ مختلف مواقع پر اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار بھی مختلف حضرات سے کرتے رہے۔

حافظ صاحب کو جب کبھی یہ معلوم ہوتا کہ مولانا محترم ،بالخصوص عرب ممالک سے واپس آئے ہیں اور اپنے ساتھ بہت سی عربی کتب اور رسائل بھی لائے ہیں، تو وہ بلاتوقف مولانا کے پاس چلے جاتے ۔جیسا کہ ماہنا مہ ضیائے حرم کے مدیر عابد نظامی نے لکھا کہ’’ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مولانا مودودی مشرقِ وسطیٰ کے سفر سے واپس پاکستان آئے، تو وہ اپنے ساتھ بہت سی عربی کتب اور رسائل بھی لائے تھے، جن میں سے بعض کی خطاطی نہایت نفیس اور بہت عمدہ تھی ۔ حافظ صاحب کو جب یہ خبر ملی تو وہ فوراً ان کو دیکھنے کے لیے مولانا کی رہایش گاہ پر پہنچ گئے۔ مولانا چونکہ حافظ صاحب کی شان دار خطاطی اور فنی مہارت کے معترف تھے اور انھیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا خطاط مانتے تھے۔ لہٰذا، وہ حافظ صاحب کی تشریف آوری پر نہایت محبت اور تواضع سے پیش آتے۔ اس بار مولانا کو جب حافظ صاحب کی آمد کی وجہ معلوم ہوئی تو انھوں نے اپنے ساتھ لائی ہوئی تمام کتب اور رسائل اُن کے سامنے ڈھیر کروا دیے۔حافظ صاحب تا دیر اُن کتب اور رسائل کو دیکھتے رہے۔ پھر جن کے سرورق یا خطاطی انھیں پسند آئے انھوں نے وہ علیحدہ کر لیے۔مولانا نے نہ صرف ان کے منتخب کردہ رسائل وکتب انھیں پیش کردیے بلکہ ان کے علاوہ بھی کچھ اور رسائل بااصرار ان کو دے دیے‘‘۔

’’یہ ۱۹۷۰ء کےاوائل کی بات ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا پرچم تیار کیا ۔ اس موقعے پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس پر چم پہ کلمہ طیبہ لکھوایا جائے ۔تب مولانا مودودی نے فرمایا کہ ’’یہ کلمہ طیبہ حافظ محمد یوسف سدید ی صاحب ہی سے لکھوایا جائے‘‘۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے عابدنظامی صاحب کو حافظ صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا ۔ نظامی صاحب نے حافظ صاحب سے مولانا کی خواہش کا اظہار کیا تو حافظ صاحب نے ایک بڑے سائزکا ایک قطعہ کاغذ لیا اور اس پر  کلمہ طیبہ لکھ کر اسے عابدنظامی صاحب کے حوالے کیا۔ نظامی صاحب حافظ صاحب کی کتابت میں تحریر کردہ کلمہ طیبہ لے کر مولانا مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مولانا اس کلمے کی خطاطی پر نظریں جمائے تادیر دیکھتے رہے اور آخر میں فرمایا: ’’یہ حُسن اور دل کشی صرف حافظ صاحب ہی کی خطاطی میں ممکن تھی۔‘‘

اسی طرح مولانا کی تفسیر تفہیم القرآن کی پہلی جلد تیار ہوئی تو اس کی اشاعت مکتبہ تعمیرانسانیت،شاہ عالم مارکیٹ،لاہور کی طرف سے کی گئی۔اس کتاب کا سرورق شیخ قمر الدین صاحب نے حافظ صاحب سے بخط کوفی لکھوایا۔ روایت ہے کہ چھپنے کے بعد جب یہ کتاب مولانا نے دیکھی تو سرورق کی خوب صورت لکھائی کو دیکھ کر مسرت کا اظہار فرمایا ۔ مزید برآں اس ادارے نے مولانا مودودی کی تفسیر سورۂ الفاتحہ ، سورۂ البقرہ کو الگ کتابی شکل میں شائع کراتے وقت بھی سرورق حافظ صاحب سے لکھوائے۔ اسی طرح ادارے نے مولانا کی بعض تصانیف کے سرورق حافظ صاحب سے لکھوائے تھے۔ حافظ صاحب کے دوست اور مولانا مودودی کے معتقد، جناب ملک نواز احمد اعوان نے راقم کو بتایا کہ ’’ایک روز میں روزنامہ امروز کے دفتر میں حافظ صاحب کے پاس موجود تھا کہ اسی دوران مولانا کے بیٹے سیّد حسین فاروق، حافظ صاحب کے پاس آئے اور اُن سے ترجمان القرآن  کا خوب صورت سرورق لکھوایا‘‘۔حافظ صاحب نے مولانا کی متعدد کتب کے سرورق کتابت کیے۔ چودھری بشیراحمد خاں کتابت کے لیے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔

منصورہ، لاہور جب تعمیر ہو کر آباد ہوا، تو اس میں ایک بڑی جامع مسجد بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چنانچہ جلد ہی اس مسجد کی تعمیر کا آغاز کر دیاگیا۔اس موقعے پر مولانا مودودیؒ نے فیصلہ کیا کہ مسجد کے ایوان کی بیرونی ، اندرونی اور محراب کی پیشانیاں پیغام سے بھرپور آیات کی خوب صورت خطاطی سے آراستہ کی جائیں۔ اس موقعے پر بھی مولانا نے حافظ صاحب کو یاد کیا اور اس کام کو پایۂ تکمیل کو پہچانے کی دعوت دی۔چنانچہ مولانا مودودیؒ نے مسجد کی بیرونی پیشانی کے لیے سورۂ توبہ کی اٹھارھویں ، اُنیسویں اور بیسویں آیات، اندرونی دیواروں کی پیشانیوں پر آراستہ کرنے کے لیے سورۂ صف کی آیات نمبر۷تا ۱۳ ، اور محراب کی پیشانی کے لیے سورۂ حشر کی آخری تین آیات ۲۲ تا ۲۴ کی عبارات منتخب کرکے حافظ صاحب کے حوالے کیں۔

حافظ صاحب نے ایوان کی بیرونی چاروں پیشانیوں کو مجوزہ آیا ت کی کتابت بخط ’ثلث جلی‘ میں کی، جن کی اُونچائی پانچ فٹ اور قلم کی چوڑائی پانچ انچ تھی ۔ اسی طرح حافظ صاحب نے اندرونی دیوار کی پیشانیوں کو خط کوفی سے آراستہ کیا ۔ اگرچہ بنیادی طور پر حافظ صاحب نے خط ’کوفی مقفل‘ لکھ کر مولانا کو نمونہ دکھایا تو انھوں نے فرمایا کہ ’’اس خط میں اس لکھائی کو عام آدمی کو پڑھنے میں دِقّت ہوگی، لہٰذا آپ سادہ ’کوفی مرصع ‘ میں کتابت کریں‘‘۔ چنانچہ حافظ صاحب نے ان کی حسب خواہش کتابت کردی۔

آخر میں محراب کی باری آئی تو حافظ صاحب نے اسے مولانا کی تجویز کے مطابق بخط ’ثلث جلی‘ کتابت کیا۔ حافظ صاحب کی کتابت میں محراب پر ’خط ثلث‘ میں تحریر کا نمونہ ان کی ’ثلث نویسی‘ کا بہترین نمونہ ہے۔نیز یہ بھی یاد رہے کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی کتابت نیز منصورہ کے بیرونی داخلی درواز ے کی پیشانی بھی حافظ محمد یوسف سدیدی کے خط میں مزین ہوئیں۔

حافظ صاحب کے بارے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ مسجد کے لیے کی گئی خطاطی میں بطور کاتب اپنا نام نہ لکھتے تھے ۔حسب عادت جب انھوں نے جامع مسجد منصورہ کی کتابت مکمل کی تو اس پر اپنا نام نہ لکھا۔ اس موقعے پر ان سے یہ نام بااصرار لکھوایاگیا۔جس کے لیے دلیل یہ دی گئی کہ ’’حافظ صاحب یہ ایک یاد گار کام ہے جو ہماری آیندہ نسلوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملے گا۔  نئی نسل کے کسی شخص نے یہ پوچھا کہ یہ تحریر کس کی ہے اور اس کی تاریخ کتابت کیا ہے تو پھر بتانے والا کوئی نہیں ہو گا۔لہٰذا، مہربانی فرماکر عبارت کے آخر میں اپنا نام اور تاریخ کتابت لکھ دیں‘‘۔ جس پر انھوں نے بادل نخواستہ ’السدیدی مع ۱۴۰۰ ھ ‘کی تاریخ بطور تکمیل تحریرلکھ دی۔

سلطان الخطاطین حافظ محمد یوسف سدیدیؒ (۱۹۲۶ء- ۸محرم ۱۴۰۷ھ/۱۳ستمبر ۱۹۸۶ء) بیسویں صدی کے نام وَر خوش نویسوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یوں تو اُن کی خطاطی کے شہ کار بہت سے مقامات پر فنی کمال کے گواہ ہیں، تاہم یہاں پر ایک مثال پیش ہے۔ حافظ صاحب نے اپنی عمر کے آخری حصے میں لاہور میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کی جامع مسجد منصورہ کے ہال کی چاروں بیرونی پیشانیوں کی آرایش کے لیے پانچ انچ قط کے قلم سے پانچ فٹ بلند حروف میں سورئہ توبہ کی آیات ’بخط ِ ثلث‘ ۲۶۰فٹ طویل رقبے پر پھیلاکر بیسویں صدی کی جلی نویسی کی ایک شان دار مثال قائم کی۔ انھوں نے اس مسجد کے ایوان کی چاروں دیواروں کی اندرونی پیشانیوں پر سورۃ الصف کی آیات جلی خط ِ کوفی میں ۲۶۰فٹ کے لگ بھگ طویل اور پانچ فٹ سے زیادہ اُونچائی کی عبارتیں لکھیں۔ علاوہ ازیں مسجد کے ایوان کی محراب کو سورئہ حشر کی آخری تین آیات بخط ِ کوفی جلی لکھ کر آراستہ کیا۔ اس ضمن میں ذیل میں حافظ محمد یوسف سدیدی مرحوم کا ایک خودنوشت طویل اقتباس درج ہے:
_______________
’’ یہ جامع مسجد جماعت اسلامی [پاکستان] کے مرکزی دفتر منصورہ، ملتان روڈ،لاہور میں واقع ہے۔اس مسجد کی بنیاد مولانا مودودیؒ نے۲۸رمضان المبارک ۱۳۹۳ھ بمطابق ۲۶؍اکتوبر ۱۹۷۳ء میں رکھی، جس کا ایوان ۶۰x۸۰ فٹ، ۱۹۷۴ء میں تیار ہوگیا ۔مسجد کے باقی حصوں کی تعمیر کا کام ابھی جاری تھا کہ مسجد کے ایوان کو خطاطی سے مزین کرنے کے لیے جماعت کے نمایندوں نے مجھ سے رجوع کیا۔چنانچہ میں نے ’خط کوفی مقفل‘ کا ایک نمونہ لکھ کر مولانا مودودیؒ کو دکھایا تو انھوں نے تجویز کیا کہ ’’یہ رسم الخط پڑھنے میں سہل نہیں، لہٰذا آپ ’آسان کوفی خط‘ میں لکھیں جو پڑھا جا سکے‘‘۔ نیز انھوں نے یہ بھی تجویز کیاکہ مسجد کی بیرونی چاروں پیشانیوں کو مسجد سے متعلق قرآنی آیات کی خطاطی سے ’بخط ثلث‘ مزین کیاجائے اور اسی طرح ایوان کی اندرونی پیشانیوںکو قرآنی آیت سے بخط ِ کوفی آراستہ کیا جائے‘‘۔چنانچہ بیرونی پیشانیوںکے لیے قرآن مجید کی   سورۂ توبہ کی آیت نمبر۱۸،۱۹ اور ۲۰ کا کچھ حصہ انتخاب کیا گیا ۔ کتابت کا کا م میں نے اپنے گھر میں کیا۔ اس کے لیے جماعت نے مجھے ایک بڑا سا لکڑی کا بورڈ تیار کروا کے دیا، جو میرے گھر کے برآمدے کی لمبائی اور اونچائی کے برابر تھا۔انھوں نے مجھے کھڑے ہو کر لکھنے کے لیے لکڑی کی ایک چوکی بھی بنوا دی۔ چنانچہ جب مجھے لکھنا ہوتا تو میں مطلوبہ سائز کا کاغذ بورڈ پر پنوں [Pins]سے کس لیتا اور پھرچوکی پر کھڑا ہو کر لکھائی نیچے سے شروع کرکے اوپر تک لکھتا چلا جاتا۔ ’بخطِ ثلث‘ عبارتوں کی اُونچائیپانچ فٹ کے لگ بھگ اور قلم کی چوڑائیپانچ انچ تھی ۔ بیرونی چار پیشانیوں پر مذکورہ آیات کی عبارتوں کی تقسیم حسب ذیل تھی:
- ایوان کی مشرقی پیشانی کے ماتھے پر ایوان کی لمبائی کے برابر سیمنٹ سے ایک ابھروی پٹی بنائی گئی، جس کے آغاز میں عمودی مستطیل پٹی میں اللہ جل جلالہ  اور آخر میں جنوبی جانب اسی طرح کی عمودی مستطیل پٹی میں محمدؐ رسول اللہ  اوران دونوں کے درمیان طویل اُفقی پٹی میں بسم اللہ شریف سے آغاز کرکے سورۂ توبہ کی ۱۸،۱۹ اور ۲۰ویں آیت کی عبارت:
اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ وَلَمْ يَخْشَ  اِلَّا اللہَ  
lایوان کی جنوبی پیشانی: حسب سابق ڈیزائن میں دائیں بائیں اللہ جل جلالہ اور محمدؐ رسول اللہ کے درمیان بقیہ آیت کی عبارت:
 فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُہْتَدِيْنَo اَجَعَلْتُمْ سِقَايَۃَ الْحَاۗجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
- ایوان کی مغربی پیشانی: عبارت دو حصوں میں درمیانی محراب کی عقبی ابھار کی وجہ سے تقسیم ہے۔ دائیں طرف سے پہلے حصے میں حسب سابق اللہ جل جلالہ اور بائیں جانب محمدؐرسول اللہ کے درمیان آیت کی بقیہ عبارت:
كَمَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَجٰہَدَ
- محراب سے اگلے شمالی حصے میں اللہ جل جلالہ اور محمدؐرسول اللہ  کے درمیان میں آیت کی بقیہ عبارت:
فِيْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ لَا يَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ
o
- ایوان کی شمالی پیشانی: حسب سابق ڈیزائن میں دائیں بائیں اللہ جل جلالہ اور محمدؐرسول اللہ  کے درمیان بقیہ آیت کی عبارت:
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ
اور آخر میںاوپر خفی قلم میں اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝۲۰  اور یوسف السدیدی ، ۱۴۰۰ھ ۔اس طرح چاروں بیرونی پیشانیوں کی عبارت کی کل لمبائی۲۶۰ فٹ بنتی ہے۔
- ایوان کی اندرونی پیشانیاں: دیواروں کی چاروں اندرونی پیشانیوں کے ماتھے پر آرایشی ’خط کوفی‘ میں قرآنی سورۃ الصف کی آیات تحریر ہیں۔ کتابت کی اُونچائی پانچ فٹ اور قلم کی موٹائی چاراِنچ کے قریب ہے اور عبارت کی کل لمبائی تقریباً ۲۶۰ فٹ ہے۔
- مغربی دیوار پر جنوبی رخ  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کے بعد عبارت درج ہے:
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَي اللہِ الْكَذِبَ وَہُوَ يُدْعٰٓى   
- جنوبی دیوار کی پیشانی پر سورۂ صف کی یہ عبارت درج ہے:
اِلَى الْاِسْلَامِ   ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo  يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَo ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ
- مشرقی دیوارکی اندرونی پیشانی پر سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت ہے:
رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَo يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَۃٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍo  تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہ
- شمالی دیوار کی اندرونی پیشانی پر سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت تحریر ہے:
بِاَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ وَيُدْخِلْكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ وَمَسٰكِنَ طَيِّبَۃً فِيْ جَنّٰتِ عَدْنٍ۝۰ۭ ذٰلِكَ الْفَوْزُ
- محراب سے شمالی جانب مغربی دیوار کی سورۂ صف کی درجہ ذیل عبارت تحریر ہے :
الْعَظِيْمُo وَاُخْرٰى تُحِبُّوْنَہَا۝۰ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ۝۰ۭ وَبَشِّـرِ الْمُؤْمِنِيْنَo
_______________
 مسجد کی اندرونی اور بیرونی پیشانیوں کی کتابت گویا حافظ محمد یوسف صاحب نے ۱۴۰۰ ہجری بمطابق ۱۹۸۰ء میں مکمل کر دی تھی، جسے ایوان کی دیواروں کی اندرونی اور بیرونی سطح پر لکھائی کو سیمنٹ کے ذریعے تیار کیا گیا۔یہ ساری لکھائی جماعت اسلامی کے رکن مولانا فیض الرحمان ہمدانی (م:۱۶جون۱۹۹۹ء) نے مکمل کرائی۔
تاہم، مسجد کی محراب کی لکھائی ابھی باقی تھی کہ حافظ صاحب سعودی عرب چلے گئے۔ جب وہ رخصت پر ۱۹۸۴ء میں پاکستان آئے تو مولانا ہمدانی نے ان سے دوبارہ رابطہ کیا۔ اس دوران حافظ صاحب کراچی گئے اور سعودی عرب روانگی سے پہلے وہاں اپنی بیٹی کے گھر میںبیٹھ کر    سورۃ الحشر (آیات:۲۲-۲۴) کی کاغذ پر کتابت کرکے اپنے بھائی محمد اقبال کے حوالے کی، جنھوں نے واپس لاہور آکر عزیزم بہارِ مصطفےٰ کے ذریعے اسے فیض الرحمان ہمدانی صاحب کے حوالے کردیا۔ چنانچہ یہ عبارت محراب کی دائیں اور بائیں جانب ایک چوڑی عمودی پٹی میں دیوار کی سطح پر ایک اُبھرے ہوئے فریم کے اندر ’بخطِ ثلث‘ اُبھار دی گئی۔عبارت کا متن یہ ہے:
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ۝۰ۚ ہُوَالرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُo ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَo   ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo     
عبارت کو بھی محراب کے گرد ایک چوڑی پٹی میں سیمنٹ کے ذریعے ابھارویں شکل میں نمایاں کر دیا گیا۔اس طرح مسجد پر حافظ صاحب کی لکھائی کی دوسری قسط ۱۹۸۴ء میں پایۂ تکمیل کو پہنچی۔