عمر تلمسانی


حضرت عمربن الخطاب؄ [شہادت: ۲۶ ذوالحجہ، ۲۳ہجری ، ۶نومبر ۶۴۴ء] کی خلافت ہرپہلو سے مثالی تھی۔ہرمعاملے میں خلیفۂ راشد اپنے آپ کو جواب دہ اور ذمہ دار گردانتے تھے اور رعایا کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نظمِ حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا۔ ادارے منظم تھے۔ مواصلات کا نظام بہترین تھا، راستے محفوظ اور بہترین انداز میں بنائے گئے تھے۔

 مصر اور مدینہ کا فاصلہ خاصا طویل تھا مگر حضرت عمرؓ کے دُور اندیش ذہن نے یہ فاصلہ پاٹ دیا۔ وہ اس طرح کہ مصر سے غلہ لانے کے لیے بحری جہاز استعمال کیے۔ جہازوں کے ذریعے غلہ جار کی بندرگاہ تک لایا جاتا تھا۔ وہاں سے پھر اُونٹوں پر لاد کر محفوظ راستے کے ذریعے ایک دن اور ایک رات میں کارواں مدینہ پہنچ جاتا تھا۔ جار، بحراحمر پر بندرگاہ تھی۔ حضرت عمرؓ سے قبل مصر سے حجاز تک سارا سفر صحرا اور خشکی کے ذریعے ہوتا تھا جو بڑا تکلیف دہ اور خطرات سے گھرا رہتا اور اس میں کافی مدت بھی لگتی تھی۔

  • عزّت افزائی اور قدر کا معیار:حاجت مندوں کے لیے حضرت عمرؓ کا دروازہ ہروقت کھلا رہتا تھا۔ جو شخص آتا اس کی دادرسی کی جاتی تھی۔ کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ تھی۔ ایک اصول تھاکہ جس سے ہرخاص و عام واقف تھا۔ وہ یہ کہ جو زیادہ نیک اور متقی تھا، وہی زیادہ معزز و محترم تھا۔ جس نے اعمالِ خیر اور جہادِ اسلامی میں زیادہ خدمات سرانجام دی تھیں، وہی دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معیار نہ تھا، جس سے لوگوں کا مرتبہ متعین کیا جاتا۔

جب حق داروں کو ان کا حق نہ ملے اور صاحب ِ استحقاق کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگے تو فساد پھیل جانا فطری امر ہے۔ حکمران اگر یہ اصولِ پیش نظررکھیں کہ جس شخص نے اُمت کے لیے زیادہ قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں،اسی کی عزّت افزائی اور قدر کی جائے تو اس سے بہت صحت مند رجحان پروان چڑھتا ہے۔ لوگ بھلائی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں بُرائیوں پر غالب آجاتی ہیں۔

جرید بن حازم بن حسن سے مروی ہے: ’’کچھ لوگ امیرالمومنین عمرؓبن الخطاب کے دروازے پر آئے۔ ان میں اصحابِ بدر بھی تھے اور شیوخ قریش بھی۔ ان لوگوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اصحابِ بدر میں سے صہیبؓ،خبابؓ، عمارؓ اور بلالؓ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی جب کہ ابوسفیانؓ، حارثؓبن ہشام اور سہیلؓ بن عمرو کو باہر انتظار کرنا پڑا۔یہ سبھی بزرگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔

اس صورتِ حال کو دیکھ کر ابوسفیانؓ نے کہا: ’’آج کے دن سے زیادہ مَیں نے اپنی بے قدری کبھی نہ دیکھی تھی۔ رؤسائے قریش باہر بیٹھے ہیں اور غلاموں کو اندر بلا لیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر سہیلؓ بن عمرو نے کہا: ’’اے سردارانِ قریش، میں نے آپ کے چہروں پر ناراضی کے آثار دیکھ لیے ہیں۔ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے آپ پر کریں۔ سارے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی اور آپ کو بھی مخاطب کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جلدی سے آگے بڑھے اور آپ پیچھے رہ گئے۔ آپ کو اس دروازے سے ان کا پہلے داخل ہونا ناگوار گزر رہا ہے۔ خدا کی قسم! یہ تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنے درجات کی بلندی میں آپ سے اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر آپ اس کا احساس کریں تو اپنی محرومی پر کفِ افسوس ملتے رہ جائیں‘‘۔

پھر مزید کہا: ’’اے لوگو! یہ سب اللہ کی راہ میں جہاد اورسبقت ِ اسلام کی وجہ سے آپ سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب آپ کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ تلافی ٔ مافات کرسکیں اور وہ جہاد کا راستہ ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو شہادت کا رُتبہ عطا کرکے آپ کے درجات بلند فرما دے‘‘۔

حضرت سہیلؓ اس کے بعد اسلامی لشکروں کے ساتھ شام میں جاشامل ہوئے اور میدانِ جہاد میں شہادت پائی۔ جرید بن حازم بن حسن ان کے بارے میں مندرجہ بالا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے: ’’اللہ کی قسم! سہیلؓ نے سچ کہا۔ جو بندہ اللہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ جائے، بھلا اس کے برابر دعوت کو ٹھکرا دینے والا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘

کسی شخص کے قرب اور دُوری اور تقدیم و تاخیر کے لیے یہ معیار قائم ہوجائے تو سمجھیے کہ معاشرہ ٹھیک سمت میں جارہا ہے۔ اگر کسی کا ذاتی جاہ ومال، مادّی قوت اور گروہ بندی ہی امتیاز کی وجہ بن جائے تو یہ کھلے بگاڑ کا راستہ ہے۔ اصل چیز کردار اور اعمالِ صالح ہیں نہ کہ حسب نسب اور ٹھاٹھ باٹ۔ قرآن میں فرمایا گیاہے:

فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَيْرًا يَّرَہٗ۝۷ۭ وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا يَّرَہٗ۝۸ۧ (الزلزال۹۹: ۷-۸) جس کسی نے ذرّہ برابر نیکی کی، وہ اسے دیکھ لےگا اور جس کسی نے ذرہ برابر بُرائی کی، وہ بھی اسے دیکھ لےگا۔

  • فرض کی ادائیگی کا لطف: حضرت عمرؓ بطورِ حاکم اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ بہت سے نیک نفس حکمران اور بھی ہیں، جو اپنی جملہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے۔ آج بھی اگر کوئی حکمران سنجیدگی سےکمرہمت باندھ لے تو یہ کام کرسکتا ہے۔ مگر حضرت عمرؓکا اس معاملے میں کمال یہ ہے کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی میں لطف محسوس کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ تھا۔ رعایا کے لیے جذباتِ محبت اور نیکی کے کاموں کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہناان کی شان تھی۔ انھوں نے خلافت کا بھاری بوجھ اُٹھایا اور اس کا حق اداکردیا۔ اس بوجھ کے باوجود وہ دوسروں کابوجھ کم کرنے اور اپنے اُوپر زیادہ بوجھ لادنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حق داروں کوان کے پاس پہنچ کر حق ادا کیا کرتےتھے۔ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے اوران کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اُٹھایا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ خود رجسٹر اُٹھائے بنوخزاعہ کے پاس قدید پہنچے اور ان کے وظیفے انھیں دیتے ہوئےفرمایا: ’’یہ ان کا حق ہے۔ انھیں اپنا یہ حق وصول کرکے اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی مجھے اداکرکے ہورہی ہے۔ تم لوگ میری تعریف نہ کرو۔ میں نے کیا تیر مارا ہے، بس اپنا فرض ادا کیا ہے۔

یہ عظمت ِ کردار کہاں مل سکتی ہے؟ سربراہِ مملکت اپنی پشت پر سامان لادے لوگوںتک پہنچتا ہے، مگر نہ کوئی اعلان ہوتاہے، نہ تشہیر، نہ سپاس نامہ اور نہ قصیدہ خوانی۔ وہ اللہ کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے احساس سے مالا مال تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ بندوں کے معاملے میں اللہ نے ان پرکیا کچھ واجب کررکھا ہے۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ بے چارے حق دار پوری زندگی اپنے جائز حقوق کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اکثر لوگوں کے حصے میں محرومی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ حکومتی اداروں کو چلانےوالوں کے دلوں میں اگر خوفِ خدا پیدا ہوجائے تو ہر حق دار کو اس کا حق مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ اس کاجواب آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ حقیقت واضح ہے کہ خدا کا خوف دلوں میں نہیں ہے،مگر اس کا اظہار کوئی نہیں کرسکتا۔

  • سختی و نرمی کا امتزاج :حضرت عمرؓ سخت گیر بھی تھے، مگر ساتھ ہی نرم دل بھی تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی تھی، وہاں سختی کرتے، اور جہاں نرمی کا موقع محل ہوتا، وہاں آپ کی نرم دلی بے مثال ہوا کرتی۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان غیرشادی شدہ جوڑا زنا میں پکڑا گیا۔ آپ نے لڑکے اور لڑکی دونوں پر حد ِ تازیانہ جاری کی اوراس میں بالکل نرمی نہ دکھائی۔ حدجاری ہوچکی تو آپ نے ان سے کہا: آپس میں شادی کرلو‘‘۔ مگر لڑکے نے انکارکر دیا۔ آپ نے اس کے انکار پر  بُرا نہ مانا۔ حدود اللہ کا قیام اللہ کا حق ہے جس میں کوئی کمی بیشی قابلِ قبول نہیں اور افراد کی شخصی آزادی ان کا بنیادی حق ہے جس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔

آج بُرائی پھیل چکی ہے۔ ان حالات میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی عزّت و عفت کی حفاظت کے لیے خود بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ شیطان، انسان کے لیے ہرلمحہ ایک حملہ آور وحشی بھیڑیئے کی مانند ہے۔ شیاطین، جنوں اور انسانوں کے غول پھرتے اور یلغار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی عزّت اور شرف کا کوئی تقدس اور حرمت نہیں ہے۔ افسوس کہ انسانوں کو یہ بات یاد ہی نہیں رہتی۔ وہ ذاتِ بابرکات، جو ہرشخص کے ہرعمل سے باخبر ہے، اس کے سامنے حاضری کے دن سب کو اپنے اپنے اعمال کا پورا بدلہ مل جائےگا۔

وقت قیمتی اثاثہ : حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے ہرمعاملے میں دل چسپی لیتے تھے، جس طرح والدین اپنی اولاد کے جملہ اُمور کی نگرانی کرتے ہیں۔ آپ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ لوگ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے ہیں۔ کبھی آپ انھیں پیار سے سمجھاتے اور کبھی سختی سے انھیں تاکید کرتے تھے۔ رات کو دیر تک جاگنا آپ کو ناپسند تھا۔ آپ لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جلد سونے کی عادت ڈالیں تاکہ جلد اُٹھ سکیں اور اگر توفیق ملے تو تہجد کی سعادت حاصل کریں۔

آپ کی خلافت میں فضول کاموں کی کوئی گنجایش نہ تھی۔ آپ جانتے تھے کہ وقت بہت قیمتی متاع ہے اور کام بے شمار ہیں جن کی تکمیل کے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ احتیاط سے استعمال میں لانا چاہیے۔ اگر لوگ عشاء کی نماز کے بعد قصے کہانی سننے سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تو حضرت عمرؓ انھیں سرزنش فرماتے اور کہتے: ’’پہلی رات کہانی قصوں کی نذر کر دیتے ہو اور پچھلی رات لمبی تان کر سو جاتے ہو، عشاء کے بعد کراماًکاتبین کو بھی ذرا آرام کرنے دیا کرو‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات میں بڑی حکمت ملحوظ رکھی ہے۔ وہ بندوں کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے۔ اس نےدن کو کام کاج اور تلاش معاش کے لیے اور رات کو آرام و راحت کے لیے پیدا کیا ہے۔ رات کوجلدی سو جانے والا شخص اگلے دن اپنے کاموں میں پوری چستی اور نشاط کے ساتھ صبح سویرے مشغول ہوجاتا ہے۔ راتوں کو لمبی محفلین جماکر بیٹھے رہنا، انسان کے لیے ہرلحاظ سے نقصان دہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ عشاء کی نماز سے قبل سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ نے جب لوگوں کو یہ حکم دیا کہ ’’رات کو جلد سو جایا کریں‘‘ تو آپؓ کے پیش نظر یہی حدیث ِ رسولؐ اور حکمِ ربانی ہوگا:

اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۝۶ۭ (المزمل۷۳:۶) بے شک (پچھلی) رات کو اُٹھنا اور (عبادت میں مصروف ہو جانا) نفسِ امارہ کو کچلنے اور صحیح اور سچی بات کہنے کی عادت ڈالنے کے لیے مفید ہے۔

رات کی خاموشی اور تنہائی میں اللہ کی اطاعت و عبادت کا جو لطف آتا ہےوہ ناقابلِ بیان ہے۔ سکونِ قلب حاصل ہوتاہے۔ خاموش فضا میں دل و دماغ، آنکھیں اور کان، سوچ اور دھڑکن ہرچیز اللہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ رات کی سیاہ زُلفیں خشوع و خضوع سے دل کی دُنیا بھر دیتی ہیں اوررکوع و سجود، قیام وقعود، دُعاو مناجات ہرمرحلہ کیف و سُرور سےمالامال کردیتا ہے۔

حضرت عمرؓ نوجوانوں کے اندر قوت، صحت اور مردانگی کے آثار دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان نوجوان ظاہر و باطن ہرلحاظ سے اسلام کی شوکت و قوت کا مظہر بن جائیں۔ ایک نوجوان کو مریل چال چلتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا تم بیمار ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں امیرالمومنین، میں بالکل تندرست ہوں‘‘۔ اس پر آپ نے درہ لہرایا اور فرمایا: ’’پھر یہ مردنی تم پر کیوں چھائی ہوئی ہے؟ جواںمردوں کی طرح چلو‘‘۔

حضرت عمر ؓ اپنی رعایا کے ہرخاص و عام کو تذکیر ونصیحت کرتے رہتے تھے۔ اُمہات المومنینؓ کا مقام و مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حضرت عمرؓ نے نماز پڑھاتے ہوئے سورئہ احزاب کی تلاوت کی اور ان آیات پر پہنچے، جن میں ربّ العزت نے اَزواجِ مطہراتؓ کو یا النساء النبی کہہ کر خطاب کیا ہے تو آواز بلندہوگئی۔ نماز کے بعد لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا: ’’اُمہات المومنینؓ کو وہ عہد یاد دلانا مقصود تھا، جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خصوصی طور پر نازل فرمایا تھا‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں تذکیر اور یاد دہانی سےبے نیاز نہیں ہوسکتے۔ ارشاد ربانی ہے:

وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۝۵۵ (الذاریات ۵۱:۵۵) نصیحت کیا کرو، بے شک نصیحت سے اہلِ ایمان کو نفع پہنچتا ہے۔

  • میاں بیوی کا جھگڑا:ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک اَزدواجی جھگڑا پیش کیا گیا۔ ایک عورت نے اپنے خاوند سے سرکشی کا معاملہ کیا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ جانے کے لیے آمادہ نہ تھی اور علیحدگی کا مطالبہ کررہی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ عورت کو کسی ویران گھر میں بند کر دیا جائے۔ اگلی صبح آپ نے اسے بلا بھیجا اور پوچھا: ’’تم نے رات کیسے گزاری؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’جب سے میں اس شخص کے گھر گئی ہوں، آج پہلی رات ہے جو میں نے راحت اور سکون سے بسر کی ہے‘‘۔ یہ سن کر آپ نے مرد کو حکم دیا کہ اس عورت کو طلاق دے دے اگرچہ اس کے بدلے میں عورت کان کی ایک بالی ہی پیش کرے (خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر واپس کرنا ہوتا ہے)۔

حضرت عمرؓ نے معمولی سی تفتیش اور سوال و جواب سے حقیقت پالی تھی۔ آپ نے محسوس کیا کہ اتنی شدید نفرت کے ساتھ میاں بیوی کا اکٹھےرہنا اخلاقی، دینی، سماجی، معاشرتی کسی بھی لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ دین اسلام نے طلاق کو ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے، مگر جہاں میاں بیوی کا نباہ کسی صورت نہ ہوسکے، وہاں آخری چارئہ کار کے طور پر علیحدگی کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔

آپؓ مسجد میں آتے تھے تو ہرجانب نظر ڈالتے تھے۔ نمازیوں کو بھی دیکھتے اور مسجد کی صفائی پربھی توجہ فرماتے تھے۔ مسجد میں نماز ادا کرتے اور لوگوں کی تربیت کا اہتمام کرتے تھے۔ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ حجاج بن ایمنؓ آئے۔ حضرت عمرؓ نے حجاج کو نماز پڑھتے دیکھا اور نماز کےبعد فرمایا: ’’اپنی نماز لوٹائو‘‘۔پھر انھیں نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ سمجھایا۔ نماز دین کا ستون ہے۔ اگر اسے درست نہ کیا جائے تودین کی عمارت کیسے ٹھیک اور مضبوط ہوگی؟

  • رعایا کی خبرگیری: حضرت عمر فاروقؓ دن بھر کی مصروفیات اور ذمہ داریوں سے تھک جاتے۔ رات کے پہلے حصے میں ذرا سا آرام کرتے اور پھر لوگوں کے احوال معلوم کرنے اور مصیبت زدگان کی دادرسی کے لیے مدینہ کی گلیوں اور مدینہ سے باہر کی آبادیوں کا چکّر لگایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ تاجروں کا ایک قافلہ مسجد نبویؐ کے باہر آکررُکا۔ رات کو امیرالمومنین نے عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ساتھ لیا اور فرمایا: ’’آئو، ان تاجروں کے مالِ تجارت کی حفاظت کےلیے آج رات پہرہ دیں‘‘۔ چنانچہ دونوں جلیل القدر صحابی، تاجروں کے مال کے پاس رات بھر نوافل پڑھنے اور ذکروتلاوت میں مشغول رہے۔ حضرت عمرؓ چاہتے تو پولیس کے پہرے داروں کو بھی حکم دے سکتے تھے، مگر آپؓ نے دُنیا کےحکمرانوں کے لیے یہ اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ تاجروں کو علم بھی نہیں تھا کہ امیرالمومنینؓ خود ان کے مالِ تجارت کا پہرہ دے رہے ہیں۔
  • اللہ  اور رسولؐ کے احکام کی پابندی :حضرت عمرؓ لوگوں کے حقوق، آرام اور راحت کا خیال رکھتے مگرحدود اللہ کی خلاف ورزی پر کبھی نرم رویہ نہ برتتے۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے جاہلیت کے طرز پر نوحہ شروع کیا اورمنع کرنے پربھی نہ رُکی تو حضرت عمرؓ نے سختی کی۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے ایک بیٹے کی وفات پر حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیٹی نے بین شروع کر دیا۔    عمربن خطابؓ، حضرت ابوبکرؓ اور ان کے خاندان کی بہت تکریم کرتے تھے ،مگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کیے ہوئے کام کی کسی صورت میں، کسی شخص کو اجازت دینے کے روادار نہ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کی اس بیٹی کو فوراً حکم دیا کہ نوحہ بند کردو ورنہ تمھیں باہر نکال دیا جائے گا۔

حضرت عمرؓ کی ترجیحات میں سرفہرست قرآنی احکامات اور نبوی ارشادات کا احترام و اِتباع تھا۔ اس معاملے میں وہ کبھی سُستی یا مداہنت نہ برتتے تھے۔ ایک شخص غیلان بن ابی سلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے کر اپنا سارا مال اپنے بیٹوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ حضرت عمرؓ کو یہ اطلاع ملی تو فوراً غیلان کے پاس پہنچے اور فرمایا: ’’خدا کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمھاری اجل قریب آگئی ہے اور شیطان مُردود نے تیرے دل میں یہ بات ڈالی ہے۔ یہ کام جو تُو نے کیا ہے، شیطانی کام ہے۔ خدا کی قسم! تمھیں یہ فیصلہ بدلنا ہوگا۔ مال کی غیراسلامی تقسیم کا فیصلہ منسوخ کرو۔ اوراگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمھارا مال اسلامی قانونِ وراثت کے مطابق حق داروں میں تقسیم کروں گا اور ابورغال کی طرح تمھاری قبر پر پتھر برسائوں گا‘‘___ یاد رہے ابورغال وہ شخص تھاجسے بنوثقیف نے اَبرہہ کے لشکر کے ساتھ راستہ بتانے کے لیے مکہ بھیجا تھا۔ عرب اس کی قبر پر مدتوں سنگ باری کرتے رہے۔

  • نمازِ تراویح کا باجماعت اہتمام: حضرت عمرؓ ، اُمت مسلمہ کی وحدت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ دین اسلام اتحادِ ملّت کا پیغام ہے۔ جو قومیں اپنی صفوں میں اتحاد برقرار نہ رکھ سکیں ان کا وجود بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ نوفل بن ایاس ہذلی سےمروی ہے: ’’حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ہم لوگ رات کو مسجد نبویؐ میں مختلف گروپوں کی صورت میں عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ جس قاری کی آواز زیادہ دل کش ہوتی تھی، اس کے گرد زیادہ لوگوں کا حلقہ بن جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو کہا: ’’ان لوگوں نے قرآنِ مجید کو بھی راگنی کا ذریعہ بنارکھا ہے۔ بخدامیں اس صورتِ حال کو بدل کے رہوں گا‘‘۔

اس کے بعد تین راتیں گزریں تو آپ نےحضرت ابیؓ بن کعب کو حکم دیا کہ وہ نمازِ تراویح کی امامت کرائیں۔ حضرت ابیؓ کی اقتدا میں صفیں بن گئیں اور حضرت عمرؓ سب سے آخری صف میں کھڑے ہوئے۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔ابیؓ خوش الحانی اورترتیل سے قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اس موقعے پر فرمایا :’’اگرچہ یہ ایک نئی چیز ہے مگر یہ نئی چیز بہت اچھی ہے‘‘۔

فضلا صحابہ کرامؓ اُمت کی وحدت کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔حضرت عمرؓ کی طرح وہ سب اس بات کے حریص تھے کہ اُمت میں انتشار نہ پیدا ہو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ،منیٰ میں نمازِ قصر کے حق میں تھے،مگر ا نھوں نے وہاں نمازِ ظہر پڑھائی تو چار رکعت پوری کیں۔ ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: ’’اختلاف بُری چیز ہے۔ حضرت عثمانؓ، منیٰ میں قصر نہیں پڑھتے، اس لیے مَیں نے پوری نماز پڑھائی ہے۔ ویسے میرا خیال یہی ہے کہ یہاں پر قصر افضل ہےمگر اتحادِ اُمت اس سے اولیٰ ہے‘‘۔

  • فوری اصلاح: حضرت عمرؓ اپنی رعایا کے جملہ اُمور سے دل چسپی رکھتے تھے اور ان کی رفاہ اور بھلائی کا خاص خیال فرماتے تھے۔ لوگوں کی تکالیف کا ازالہ کرنا، ان کے نزدیک خلیفۂ راشد کا بنیادی فرض تھا۔ کہیں کوئی نازیبا حرکت دیکھتے تو فوراً اس کی اصلاح کی فکرکرتے کہ وہ ناسور نہ بن جائے۔ یقینا بیماری کا فوراً نوٹس لیا جائے اور اس کا علاج کیا جائے تو خرابی سے بچاجاسکتا ہے۔

ایک غلام نے ایک مرتبہ کچھ اشعار کہے، جن میں اس بات کا احتمال موجود تھا کہ اس نے کسی کنیز پر تہمت لگائی ہے اور اس پرقذف کی حد جاری ہوسکتی تھی۔ آپ نے معاملے کی تحقیق کی اور صاحب ِنظر حضرات کی رائے پوچھی۔ تحقیق سے پتا چلا کہ قذف کا ارتکاب نہیں ہوا، تو آپ نے حد جاری کرنے سے منع فرما دیا، مگر اس غلام کو آیندہ محتاط رہنے کی تلقین کی۔

  • شعروشاعری کی حدود: شعروشاعری فنون لطیفہ میں اعلیٰ درجے کا فن ہے۔ حضرت عمرؓ نے شعروشاعری کو ممنوع قرار نہیں دیا، مگر اسے پاکیزہ اور صاف ستھرا رکھنے کے لیے حدودمقرر فرمائے۔ اگر اس صنف ِ ادب کو کھلی چھٹی دے دی جائے تو بسااوقات بندگانِ حرص و ہوس اس کاایسا غلط استعمال کرتے ہیں کہ شعر حکمت اور جذبۂ ایمان پیدا کرنے کے بجائے فحاشی، عریانی اور اخلاق باختگی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ کسی قوم کاادب اور شعر اس قوم کی اخلاقی حالت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ایک ذمہ دار حکمران اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہمارے شعرا و ادبا اورفنکار و ہدایت کار، کم و بیش سبھی لہوولعب اور عریانی و بے حیائی کے سوا کوئی فن پیش ہی نہیں کرتے۔ انھی لوگوں کا صحافت اور ابلاغِ عامہ پر قبضہ ہے۔ ریڈیو،ٹیلی ویژن،سنیما اور تھیٹر ہرجگہ انھی کا طوطی بولتا ہے۔ تہذیب کے نام پر بدتہذیبی کرتے اور ثقافت کے نام پر اخلاق سوز حرکات کو سند ِ جواز پیش کرتے ہیں۔ ہمارے ممالک کے ذمہ داران کو کیا ہوگیا ہے؟ بُرائی اور سیہ کاری کا دور دورہ ہے۔ جہاں نیکیوں کی فصلِ بہار پروان چڑھ سکتی ہے وہاں بُرائیوں کے جھاڑ جھنکاڑ کا ایک جنگل اُگ رہا ہے۔ جو وسائل تقویٰ کا پیغام عام کرسکتے ہیں، وہ بُرائی کے علَم بردار بن چکے ہیں۔

  • ہمہ صفت خلیفہ: حضرت عمرؓ کا اپنی رعایا کے ساتھ محض حاکم ومحکوم کا معاملہ نہ تھا۔ آپ نے محض اپنے جسم کو لوگوں کی خدمت کا خوگر نہ بنا رکھا تھا بلکہ آپ کے قلبی جذبات اور ہمدردی و محبت کے احساسات ہرلمحے آپ کو رعایا کی خدمت اور بھلائی کے لیے سرگرم رکھتے تھے۔ ان کے دُکھ بانٹتے اور مصائب پر انھیں تسلی دے کر صبر کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بیماروں کی عیادت اور مصیبت زدوں کی اعانت کے لیے ان کے گھروں میں حاضری دیا کرتے تھے۔ کسی فرد کو کوئی حادثہ پیش آجاتا تو سب سے پہلے اس سے اظہارِ ہمدردی کے لیے آنے والا خود خلیفۂ وقت ہوا کرتا تھا۔

 سعیدؓ بن یربوع کی بینائی ختم ہوگئی تو حضرت عمرؓ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ اظہارِ ہمدردی بھی کیا اور محبت کے ساتھ نصیحت فرمائی: ’’نمازِ جمعہ اور پانچ وقت کی باجماعت نماز مسجدنبویؐ میں ادا کرنے کی کوشش کرنا‘‘۔انھوں نے عرض کیا:’’امیرالمومنین، میری بھی یہی خواہش ہے، مگر مجھے مسجد تک لےجانے والا کوئی نہیں ہے‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس خدمت کے لیے ایک غلام مقرر کر دیا۔

راستہ چلتے ہوئے بھی آپ ہر چیز پر نظر رکھتے اور ہرآواز پر کان دھرتے تھے۔ کہیں کوئی فساد دیکھا یا ٹیڑھ پن پایا، تو فوراً اس کی اصلاح فرما دی۔ اپنے آرام کے لیے بھی وقت مقرر تھا مگر وہ بڑا محدود اور مختصر تھا۔ دن رات کا زیادہ حصہ فرائض کی ادائیگی میں صرف ہوجاتا تھا۔ فارغ بیٹھنا ان کے نزدیک وقت کا ضیاع تھا۔ ایک مرتبہ کسی راستے سے گزرےوہاں کچھ نوجوان تیراندازی کی مشق کررہے تھے۔ ان میں سے ایک کا نشانہ خطا ہوا تو اس نے کہا: ’’اسیت‘‘۔دراصل وہ کہنا چاہتا تھا: ’’اسات‘‘۔ حضرت عمرؓ نے اس کا لفظ سن کر فوراً ٹوکا اور فرمایا: ’’تیراندازی میں چوک ہوجانے سے زبان کی چوک زیادہ بُری اور خطرناک ہے‘‘۔ پھر اس کے لفظ کی تصحیح فرمائی۔

اخوان کے مرشد عام اوّل امام حسن البنا شہید [۱۴؍اکتوبر ۱۹۰۶ء- ۱۲فرورری ۱۹۴۹ء] اور مرشدعام دوم حسن الہضیبی [دسمبر ۱۸۹۱ء-۱۱نومبر ۱۹۷۳ء] دونوں بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ استاذ الہضیبی نے نہایت کٹھن حالات میں ہماری رہنمائی کی اور اخوان کی قیادت کا حق ادا کیا۔   اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے، امانت کا حق ادا کرنے، قربانی پیش کرنے، وفا، صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مشکلات کو اجر کی اُمید پر ہمت سے برداشت کرنے کا بہترین نمونہ مرشدعام حسن الہضیبی مرحوم کی زندگی میں ہم نے بارہا دیکھا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے برگزیدہ بندوں میں شامل کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبۂ حجۃ الوداع میں مومن کی حُرمت کو بڑے مؤثر انداز میں یوں بیان فرمایا کہ بندئہ مومن کی حُرمت اللہ کے نزدیک کعبہ شریف اور مسجدحرام سے بڑھ کر ہے___ اخوان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر پابندی سے کاربند ہیں۔ اخوان کے نزدیک کسی مسلمان مردو زن کی حُرمت کو بے حُرمت کرنا یا اسے کوئی ایذا پہنچانا بہت بڑا جرم ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہرقسم کے تشدد کا مظاہرہ کرنے سے محفوظ رکھا ہے، کیوںکہ ہم حقیقی طور پر سلف صالحین کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں اور سلف صالحین نے کسی مسلمان کا خون مباح نہیں ٹھیرایا، اگرچہ اس نے چوری کی ہو یا شراب پی ہو۔ اخوان کا دین اسلام کے معاملے میں نقطۂ نظر بڑا واضح ہے اور وہ یہ کہ اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔ ہمارے اس نقطۂ نظر نے دشمنانِ دین کو ہمارے خلاف بے چین اور مشتعل کررکھا ہے۔ وہ ہم پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں، جو کسی شریف انسان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتے۔پھر اس سے بڑھ کر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے اختیار میں دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے وسائل ہیں۔ یہ سب وسائل، بے پناہ مالی و انتظامی اختیار کے ساتھ ہمارے خلاف مسلسل استعمال ہوتے رہتے ہیں۔

اخوان کی قیادت:مرشد عام حسن الہضیبی کی قیادت کے دوران جماعت اخوان قانونی طورپر کالعدم تھی۔ اخوان قانون کی پابندی بھی کرتے ہیں اور اپنے بنیادی عقیدے پر کاربند بھی رہتے ہیں۔ اس موقعے پر اخوان نے مل کر نئے مرشدعام کے بارے میں غوروخوض کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ: ’’مکتب ارشاد کے ارکان میں سے جو رکن عمر میں سب سے بڑا ہو، اسے مرشدعام بنالیا جائے‘‘۔

اتفاق سے اس وقت مکتب ارشاد کے جملہ ارکان میں سے مَیں عمر میں بڑا تھا۔ پس، یہ ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی۔ اگرچہ حکومت ہمارا وجود قانوناً تسلیم نہیں کرتی مگرعملاً حکومت بھی ہمارے وجود سے انکار نہیں کرسکتی۔ اہل حل و عقد مجھے اخوان المسلمون کا رہنما تسلیم کرتے ہوئے، اور اسی حیثیت میں مجھ سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور مختلف موضوعات پر مذاکرات کے دوران بھی ہم نے انھیں کبھی موقع نہیں دیا کہ وہ ہم پر ہاتھ ڈالنے کا قانونی جواز نکال سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی انھیں کوئی بہانہ مل جائے تو وہ ہمیں مقدمات میں پھنسا لیں۔

 کس کا اعتبار کیجیے:اس صورتِ حال کو ہم نے بھی قبول کیا ہوا ہے اور بہت سارے مواقع پر میں نے قوم اور وطن کی خاطر حکومت سے کئی معاملات میں تعاون کیا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ قانونی پابندی کے باوجود مخلص اور یکسو انسانی نفوس کی وابستگی سے اخوان کی تنظیم موجود ہے۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے وزارتِ داخلہ کے ذمہ داران کو جب بھی مجھ سے کوئی رابطہ قائم کرنا مقصود ہو تو مَیں ملاقات سے کبھی انکار نہیں کرتا۔ پھر کبھی یہ اصرار بھی نہیں کرتا کہ وہ میرے پاس آئیں۔ میں نے ان سے کہہ رکھا ہے کہ جہاں قوم و وطن کی بھلائی کا معاملہ ہوگا، مجھے بس ٹیلی فون پر اطلاع دے دیں، مَیں وزارت کے دفتر میں پہنچ جاؤں گا۔ ہاں، کبھی کبھار میری صحت کی کمزوری کی وجہ سے، یا کسی خاص موقعے کی مناسبت سے بعض افسران میرے ہاں بھی آجاتے ہیں ۔ ان کی اس آمد کا مَیں ہمیشہ شکرگزار ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر یہ  بڑا احسان ہے کہ مَیں کبھی ہنگامہ آرائی کے مقام پرنہیں گیا، اِلا یہ کہ میں نے کسی سے وعدہ کر رکھا ہو اور اسے ایفا کرنے کے لیے جانا ضروری ہو۔ میری کوشش ہمیشہ امن و امان قائم رکھنے پر صرف ہوتی ہے اور وزارتِ داخلہ کے موجودہ اہل کار اس پرشکرگزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وزیرداخلہ حسن ابوپاشا نے خصوصی طور پر تصریحات فرمائیں کہ اخوان المسلمون کا دہشت اور تخریب کاری سے کوئی تعلق نہیں، نیز یہ کہ دہشت پسند تنظیمیں اخوان المسلمون کی سرپرستی میں کبھی نہیں پنپ سکتیں۔ وزیرداخلہ داخلی امن و امان کے حوالے سے جواب دہ ہوتا ہے، اس کی زبان سے یہ اعتراف سچائی کا مظہر ہے، حالانکہ اخوان کے دشمنوں کے ہاتھوں ان کی تصویر ذرائع ابلاغ سے بڑے بھیانک انداز میں پیش کی جاتی رہی ہے۔ اب اہلِ وطن وزیرداخلہ کا اعتبار کریں یا ذرائع ابلاغ کا؟

 جوش پر ہوش کا غلبہ: میں نے عہد کررکھا تھا کہ جب بھی الدعوہ  کا اداریہ لکھوں گا تو کسی شخص پر ذاتی حملہ ہرگز نہ کروں گا اور اپنی تحریروں میں معروضیت کا اہتمام کروں گا۔ اشتعال انگیز حوادث کے موقعے پر لوگوں سے درخواست کیا کرتا ہوں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔  ستمبر ۱۹۸۱ء میں جب مختلف جماعتوں کے کارکنان کو گرفتار کرکے جیل میں بند کیا گیا تو وہاں ہماری آپس میں ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک جماعت کے رکن نے مجھ سے کہا: ’’آپ نے تو نوجوانوں کے اعصاب منجمد کردیے ہیں اور ان کے جوش و جذبے کو ریفریجرٹر میں ڈال کر برف بنادیا ہے‘‘۔

میں نہیں جانتا کہ ان الفاظ سے موصوف میری تعریف کر رہے تھے یا مذمت۔ بہرحال ان کا شکریہ ادا کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: ’’اس کا مطلب یہ ہوا کہ اپنےرفقا کے ہاں میری باتوں میں کچھ تاثیر ہے‘‘۔ اس سب کچھ کے باوجود اس دور میں بھی صحافیوں اور ادیبوں کے حملوں سے مَیں محفوظ نہ رہا۔ وہی دہشت گردی کے الزامات۔ اگرچہ اس دور میں یہ حملے ذرا نرم اور وقفے وقفے سے جاری بھی رہے تھے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ صدر انورالسادات کی زیادتیوں کے باوجود یہ بیان کر دیا جائے کہ سادات نے اخوان کو کسی حد تک آزادی کی فضا مہیا کی۔ ہمارا  مجلہ الدعوہ  بھی اس دور میں نئے سرے سے شائع ہونے لگا تھا اوردینی مناسبت سے ہم ملک بھر میں بعض اجتماعات منعقد کرنے کے قابل بھی ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر رحم کرے اور سادات پر بھی رحم کرے۔

فضیلۃ الاستاذ حسن الہضیبی کی زندگی میں اور آپ کی وفات کے بعد بعض اسلامی تنظیمیں، اخوان پر شدید حملے کرتی تھیں، بلکہ یوں معلوم ہوتا ہےکہ ان کا مقصد صرف اخوان ہی سے  لڑنا ہے۔ وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ’’اخوان نے جہاد کو ترک کردیا اورصرف مصحف لے کر  بیٹھ گئے ہیں‘‘۔ جب ایک مرتبہ بعض اخوان نے میرے سامنے ان سنگ دلانہ حملوں کی شکایت کی تو میں نے نہایت سکون سے جواب دیا: ’’اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ان بھائیوں نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے صرف قرآن کو اختیار کرلیا ہے۔ اچھی بات ہے، قرآن کے اندر دین بھی ہے اور دولت بھی، امن بھی ہے اور جہاد بھی۔ انھوں نے تو ممکن ہے ، تہمت لگانے کے لیے یہ کہا ہے ،لیکن اگر وہ اپنے الفاظ کے معنی جانتے ہیں تو یہ ہمارے لیے ایک سرٹیفکیٹ ہے۔ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ ہم نے قرآن کو مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے اور الحمدللہ، فضیلت یہی ہوتی ہے کہ ناقدین نے تسلیم کرلیاہے کہ ہم نے قرآن کو پکڑ رکھا ہے‘‘۔

آپ کی دل چسپی کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ ہمارے یہ پُرجوش بھائی جو ہم پر ’کفر‘ کے فتوے عائد کرتے، بے سروپا الزام لگاتے اور جہاد سے منہ موڑنے کی تہمت باندھتے ہیں، ان خیرخواہوں کے مقدمات بھی اخوانی وکلا ہی نے عدالتوں میں لڑے اور بلامعاوضہ یہ خدمت انجام دی۔ ہمیں کسی سے نہ صلے کی اُمید ہے نہ داد کی تمنا۔ ہم ان شاء اللہ اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔

ہمارا ایک واضح نصب العین ہے، جس کی جانب ہم رواں دواںرہتے ہیں ۔ راستے میں اگر کوئی کانٹا ہمارے دامن سے اُلجھ جائے یا کوئی چٹان راستہ روک لے تو ہم رُک نہیں جاتے۔ ہم کوئی نہ کوئی راستہ نکال کراپنی منزل کی جانب مسلسل چلتے رہتے ہیں۔ جن جماعتوں کا اُوپر ذکر کیا ہے ان کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ جماعتیں اس مقصد کے لیے قائم کی گئی تھیں کہ اخوان پر محاذ اور انداز بدل بدل کر حملے کیے جائیں۔

وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ  اللہِ :غیرمسلموں کے ذریعے اور غیراسلامی طریقوں سے اخوان پر حملے کرانے کے بعد اب یہی ایک طریقہ باقی رہ گیا تھا کہ اسلامی ناموں سے اخوان کی مخالفت کی جائے۔  مسلمانوں پر مسلمان حملے کر رہے تھے اور دشمن خوش تھا کہ دونوں میں سے جو بھی مار کھاجائے، اچھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ بجاے جوابی حملہ کرنے کے، ہم نے خاموشی اختیار کرلی، اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کرہم پر حملہ کرنے والی یہ جماعتیں خود ہی زوال کا شکار ہوگئیں۔

صہیونیت، عیسائیت ، اشتراکیت اور اباحیت پسند وغیرہ، جس قدر حسن البنا [شہادت: ۱۲فروری ۱۹۴۹ء] اور اخوان المسلمون سے دشمنی رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ حسن البنا اور اخوان اس علاقے میں اشتراکیت کی یلغار کو روکنے کی صلاحیت رکھتے، عیسائی اور صہیونی سامراجیت کے لیے بھی خطرہ تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ دینی تعلیمات کو محض علم کی حد تک نہیں پڑھتے بلکہ ان پر عمل کرنے کا بھی درس دیتے ہیں۔ وہ ہرفوجی اور فکری حملے کے زہریلے اثرات و نتائج سے قوم کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ان کی حد درجہ کوشش ہے کہ اُمت مسلمہ کے افراد ایمان اور عمل سے سرشار ہوں، حُریت و آزادی سے مستفید ہوں اور انسانیت بحیثیت مجموعی اپنے بنیادی حقوق حاصل کرسکے۔ اخوان اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتے کہ مسلمان صدقات و خیرات کے سہارے اور بیرونی امداد کی آس پر زندہ رہیں، حالاں کہ مسلم ممالک میں ہرچیز اتنی وافر مقدار میں میسر ہے کہ اگر منصفانہ تقسیم کی جائے تو سب لوگوں کی ضروریات بطریق احسن پوری ہوسکتی ہیں۔ اخوان کی یہ خواہش ہے کہ ان کے اور ان کے حکمرانوں کے درمیان تعلقات باہمی محبت، عدل و انصاف اور احترام کی بنیادوں پر استوار ہوں۔
امام حسن البنا شہیدؒ نے ہمیں یہ تعلیم دی تھی کہ حکمرانوں کے رعایا پر حقوق ہیں، مثلاً ان کی بات سننا اور اگر وہ اللہ کی معصیت پر مبنی نہ ہو، تو اطاعت کرنا۔ اسی طرح اُنھوں نے ہمیں یہ بھی سکھایا تھا کہ حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ عدل وا نصاف سے حکومت کریں اور ظلم و تشدد کی پالیسی اختیار نہ کریں۔
سیّدنا عمرؓ بن خطاب کو اپنے بھائی زید بن خطاب کا قاتل دیکھ کر دُکھ ہوتا تھا۔ قاتل جب مسلمان ہوگیا، تو اس نے حضرت عمرؓ سے پوچھا: ’’امیرالمومنین! میرے بارے میں آپ کی قلبی کیفیت اور احساسات مجھے میرے کسی حق سے محروم تو نہ کردیں گے؟‘‘
آپ نے جواب دیا: ’’ہرگز نہیں‘‘۔
اسی واقعے کی روشنی میں مُرشد عام نے ہمیں بتایا تھا کہ حکمرانوں کے جذبات، محبت و کراہت، کسی شخص کو اس کے شرعی حقوق سے کسی صورت میں بھی محروم نہیں کرسکتے۔ میری نظر سے ایک حدیث گزری ہے ،جس کی ثقاہت کی تحقیق تو میں نہیں کرسکا، مگر اس کا مفہوم یہ ہے: ’’جس شخص نے سلطانِ عادل کی تذلیل کی اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی‘‘۔
اس طرح حسن البنا ؒنہ تو دہشت پسند تھے اور نہ نام نہاد انقلابی، بلکہ وہ بنیادی طور پر داعیِ حق اور مصلح تھے۔ وہ جہاں کہیں جاتے اور جس کسی سے بھی ملتے، محبت اور امن و آشتی کی تلقین کرتے، مگر مصیبت یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بعض ذمہ داران اس حقیقت سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور اخوان المسلمون سے لڑائی اور دشمنی پر اُتر آتے ہیں۔ ان کو یہ بدظنی لاحق ہے کہ حکومت و سلطنت میں اخوان ان کے مدمقابل ہیں اور ان کا تختہ اُلٹ کر ان سے زمامِ اقتدار چھین لیںگے۔ حالاں کہ امرواقعہ یہ ہے کہ اخوان کا مطمح نظر اصلاح اور حالات کی بہتری ہے:

اَیُّھَا الْمُنْکِحُ الثُّـرَیَّـا سُھَیْلًا
حَسْبُکَ اللہُ کَیْفَ یَلْتَقِیَانِ
ھِیَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّتْ شَامِیَۃْ
وَھُوَ اِذَا مَا اسْتَھَلَّ یَمَانِ

[اے ثریا ستارے اور سہیل ستارے کے درمیان ملاپ کرانے والے، تجھے اللہ عقل دے، یہ کیسے ممکن ہے؟ ثریا کے طلوع کو لوگ نحوست کی علامت قرار دیتے ہیں اور سہیل کا طلوع ہونابرکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔]

کیمپ ڈیوڈ

کیمپ ڈیوڈ کا سمجھوتہ [۱۷؍ستمبر ۱۹۷۸ء] اگرچہ امام البناؒ کی شہادت کے تقریباً ۳۰سال بعد عمل میں آیا، مگر امام کے تذکرے کے دوران مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سمجھوتے کے بارے میں کچھ کہا جائے۔ اس سمجھوتے کے بارے میں اخوان کا مؤقف اور اسے رد کرنے کی پالیسی اس سیاسی تربیت کی وجہ سے ہے، جو اسلامی عقیدے کی بنیاد پر امام نے ہمیں دی کہ: اسلام دین بھی ہے اور حکومت بھی۔
ارضِ فلسطین پر ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام [۱۴مئی ۱۹۴۸ء]کی منازل سے جو شخص باخبر ہے، اُسے یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہونی چاہیے کہ اس ریاست کا قیام فی الحقیقت عالمِ اسلام کی محکومی کے لیے عمل میں لایا گیا۔ جو شخص اسرائیلی ریاست کے بارے میں اس سے کچھ بھی مختلف گمان رکھتاہے، گویا وہ اس فرد کی مانند ہے، جو آگ کو اس وقت تک محسوس نہیں کرسکتا جب تک کہ یہ اس کے لباس کو جلاکر اس کے جسم تک نہ آپہنچے۔ اگر محض یہودیوں کے لیے ریاست قائم کرنا ہی مقصود ہوتاتو افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا میں کئی وسیع علاقے موجود تھے،جہاں اس غیرفطری ریاست کی پیدایش کے لیے مناسب ماحول میسر آسکتا تھا۔ تاہم جس سازش اور گہری منصوبہ بندی سے اس ریاست کی تخلیق کے لیے یہ خطہ چُنا گیا، اس کا ایک خاص مقصد ہے۔ چنانچہ اس علاقے میں جہاں اسلام کا وجود بہت قدیم ہے۔ اس ریاست کے ذریعے گھنائونے اور اسلام سے دشمنی پر مبنی مقاصد پورے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ انگلستان نے اپنے سامراجی قبضے کے دوران میں یہودیوں کو مختلف ممالک سے فلسطین منتقل کرنا شروع کیا، اور ان کو مسلح کر کے یہاں مقیم بنا دیا۔ دوسری طرف سخت قوانین جاری کرکے فلسطینی آبادی کو اسلحے سے بالکل محروم کر دیا گیا، یہاں تک کہ سبزی کاٹنے کی چھری رکھنا بھی فلسطینیوں کے لیے جرم قرار پایا۔
یہودیوں نے ایک بڑی سامراجی سلطنت انگلستان کی سرپرستی میں پر پُرزے نکالنے شروع کیے اور فلسطینیوں کی دفاعی تحریک کے مقابلے میں سلطنت برطانیہ کی حمایت کا سہارالیا۔ فلسطینی تحریک آزادی بھی اخوان مجاہدین کی مدد اور تعاون سے اپنے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل رہی۔ اے کاش! کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ سکیں اور اے کاش! کہ مسلم اور عرب ممالک کے اربابِ حل و عقد آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں ،کہ عیسائی، کمیونسٹ اور صہیونی طاقتوں نے ان کے قدموں کے نیچے اپنی سازشوں کے جال پھیلائے ہوئے ہیں اور مہلک گڑھے کھود رکھے ہیں۔ اے کاش! کہ وہ ان گہرے گڑھوں کو دیکھ سکیں، جو خود ان کے لیے اور ان کی اقوام کے لیے دشمنوں نے تیار کیے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمران طبقے اپنی سادہ لوحی بلکہ حماقت سے انھیں اپنا دوست سمجھتے ہیں، حالاں کہ وہ حقیقت میں بدترین دشمن ہیں۔
مجھے اس بات میں ذرّہ برابر شک نہیں ہے کہ عالمِ اسلام اور عرب دنیا کے تمام حکمران اُوپر بیان کردہ تلخ اور خطرناک حقائق سے باخبر ہیں، بلکہ شاید وہ ہم سے بھی زیادہ ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں۔ لیکن ان کا عمل دیکھ کر مَیں حیرت اور تلخی میں ڈوب جاتا ہوں کہ ان حقائق سے اُنھوں نے کیوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں؟
صہیونی طریق کار یہ ہے کہ ہم سب کو قائل کرلیںکہ: ’’اب ریاست اسرائیل تو اس خطے میں قائم ہوچکی ہے اور اس کا خاتمہ نہیں ہوسکتا‘‘۔ پھر جوں ہی ہم مسلمان اس جال میں پھنس کر اسرائیل کا وجود بطورِ حقیقت تسلیم کرلیں گے تو انجامِ کار کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب اور دائمی تباہی ہمارا مقدر ہوگا۔
بذاتِ خود یہود سے تعلقات قائم کرنا ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں خصوصاً مسلمانوں کے لیے کامیابی ممکن ہی نہیں، کیوںکہ انسانی طبیعت اور تجربہ اس کی نفی کرتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ یہودی قوم کسی غیریہودی سے نارمل تعلقات قائم کرلے گی؟ اللہ کی سنت ِتخلیق کو کون تبدیل کرسکتا ہے؟ اس بنا پر یہودیوں سے تعلقات اور دوستی قائم کرنا ایک ایسی سعیِ لاحاصل ہے جس کاانجام سواے اس کے کچھ نہیں ہوسکتا کہ تمام مسلم ممالک اور اُمت مسلمہ تباہی و بربادی کا شکار ہوجائیں۔ ہم مسلمان ہیں اور جس وحدہٗ لاشریک اللہ پر ہمارا ایمان ہے، اس نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے:

لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ (المائدہ ۵:۸۲) بے شک انسانوں میں سے اہلِ ایمان سے بدترین دشمنی رکھنے والے لوگ آپ یہودیوں ہی کو پائیں گے۔

یہ اللہ کا فیصلہ ہے، اس میں کوئی لاگ لپیٹ اور راز کی بات نہیں ہے۔ دشمنی ان کی جانب سے ہے، ہماری طرف سے نہیں، جیساکہ آیت ِ مذکورہ واضح نص ہے۔ پھر کیا ہم یہودیوں کی حقیقت اور اہلِ اسلام سے ان کی دشمنی کی بنیادوں کو اللہ سے زیادہ جانتے ہیں؟
اخوان المسلمون جن کے دل اسلام کی رحمت اور آشتی سے سرشار ہیں، کبھی یہ نہیں کہتے کہ: ’’اسرائیل کو سمندر میں غرق کر دیا جائے‘‘ اور نہ وہ یہ نعرہ ہی لگاتے ہیں کہ: ’’آخری یہودی تک کو پھانسی پر لٹکایا جائے‘‘۔ خوں ریزی اسلام کے مزاج کے منافی ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ یہودی، ارض فلسطین پر عام شہریوں کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ رہا یہ معاملہ کہ ہم انھیں علاقے پر حکمرانی اور خوف و ہراس کے ذریعے تسلط کی اجازت دے دیں، تو یہ کبھی نہیں ہوگا۔
اقلیت دنیا بھر میں اکثریت کے ساتھ اطمینان و سکون سے زندگی گزارتی ہے، مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ اہلِ ایمان کے بدترین اور کھلے دشمن، مسلم رعایا پر عدل و انصاف سے حکومت کریں گے؟ اور پھر  اقلیت میں ہوتے ہوئے انھیں حکمرانی کا کیا حق حاصل ہے؟ ان سے انصاف کی توقع رکھنا غیرممکن ہے:

وَمُکَلِّفُ الْاَیَّامِ ضِدَّ طِبَاعِھَا
مُتَطَلِّبٌ فِی الْمَاءِ جَذْوَۃَ نَـارٍ

[جو شخص قوانین طبعی کو ان کے نظام کے خلاف چلانا چاہتا ہے، وہ گویا پانی کے اندر آگ کا انگارا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔]

پس، لازم ہے کہ خطے کے عوام اور حکمران مل کر اس زہریلے تیندوے سے نجات حاصل کریں۔ یہ تیندوا آہستہ آہستہ ان کا خون چُوس رہا ہے اور ایک دن انھیں بالکل مُردہ بناڈالے گا۔ اس سرطان سے خلاصی پانا انتہائی ضروری ہے کہ جس نے پورے ماحول کو خوف زدہ کررکھا ہے۔ غیرت مند آزاد انسان عزت کی زندگی جیتا ہے اور یا پھر عزت کی موت مرجاتا ہے۔ ایک انسان جو عزت کی موت مرتا ہے، اسے آنے والی نسلیں عزت و احترام کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ اس میں اور ذلّت و رُسوائی کے ساتھ زندہ رہنے والے انسان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک نے رُسوائی کو ٹھکرا دیا اور دوسرا اس ذلت پر راضی ہوگیا۔ کیا امن کا قیام یوں عمل میں آتا ہے کہ غاصب نے جو مال زبردستی چھین لیا ہے،وہ اسی کے تصرف اور ملکیت میں رہے اور مظلوم اس کے ساتھ    صلح کرلے؟ آخر، یہ امن کا کون سا نمونہ ہے؟ ایسی صلح سے تو مہلک خطرات کا سامنا کرنا زیادہ بہتر اور آسان ہے۔ ہمارے حالات جیسے بھی ہوں، ہمیں ایسا ظلم پر مبنی امن اور ایسی صلح منظور نہیں۔
ہمارے نوجوانوں میں یہ صلاحیت ہے کہ اگر ان کی تربیت کی جائے، تو وہ مردانگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور زندۂ جاوید کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ تاہم، نشرواشاعت کا موجودہ نظام اور شاید بوجہ صہیونی تسلط کے، ایسی نسل ہرگز پیدا نہیں کرسکتا، جو اپنے عقیدے پر غیرت کا مظاہرہ کرنے والی ہو اور اپنے ملک اور اس کی حُریت پر فخر کرسکے یا اپنے کھوئے ہوئے حقوق کی واپسی کے بارے میں سوچ سکے۔ یہ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اپنی ذاتی عزت و حمیت کی بناپر جب کبھی مسلم نوجوانوں نے اسرائیل کے خلاف اپنے آپ کو تیار کیا ہے، تو پورے شرق اوسط میں ہرجگہ ایسے نوجوانوں کو اپنے ہی حکمرانوں کے ہاتھوں بدترین آزمایش اور جیل کی پُراذیت زندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ معاملہ صرف شرق اوسط تک ہی محدود نہیں بلکہ انڈونیشیا اور دُور دراز ممالک میں بھی یہی صورتِ حال دیکھنے میں آتی ہے۔
نام نہاد اسرائیل سے تعلقات کی استواری ایک بڑا مہنگا سودا ہے۔ اس سے یہ صلح نامے کی منظور شدہ شرائط ، دراصل اسرائیل ہی کو نہایت اطمینان اور آرام سے اپنے مکروہ عزائم پورے کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوں گی۔
آج دُنیا بھر میں جو دعوتِ دین کے حوالے سے اسلامی کانفرنسیں منعقد ہورہی ہیں، یہ اتحاد اسلامی کے لیے امام حسن البنا شہیدؒ کی کوششوں کے ثمرات میں سے ہیں۔ اگرچہ ان کے انعقاد میں ابھی کئی کمیاں موجود ہیں، مگر ان کے نتائج ایک دن ضرور نکلیں گے۔ ان میں خیرکا پہلو یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے کارکن آپس میں وقتاً فوقتاً مل بیٹھتے، اور ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں، اور ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ بڑا ہی نیک شگون ہے کہ بارش شروع تو ایک قطرے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر موسلادھار بارانِ رحمت کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جب بندہ، اللہ کی راہ میں جدوجہد شروع کر دے، تو اللہ اس بندے کی مدد ضرور کرتاہے۔ یہاں تک کہ جب بندہ اپنے تمام مادی وسائل اور کوششیں صرف کردیتا ہے، اور اللہ اس کا خلوص اور صدق دیکھ لیتا ہے، تو وہ اپنی مدد بھیج دیتا ہے۔ کون ہے جو مضطرب کی پکار سنتا ہے اور دُکھ دُور کرتا ہے اور تمھیں زمین کی خلافت عطا کرتا ہے؟ کوئی نہیں سواے قادرمطلق اور حاکمِ حقیقی کے۔ ہم اس کے وعدے کی صداقت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے فیصلے اس عجلت کے ساتھ صادر نہیں کرتا، جس عجلت کی بندہ خواہش رکھتا ہے۔
عصرحاضر میں مصر کی تاریخ کا ہر طالب علم اس دردناک حقیقت سے واقف ہے کہ ۱۹۴۸ء میں اخوان المسلمون کے جن قائدین نے فلسطین کے محاذ پر اسرائیلیوں کے دانت کھٹے کیے، وہ سب اپنی حکومتوں کی نظروں میں گردن زدنی قرار پائے۔ امام حسن البنا کو ابراہیم عبدالہادی کی حکومت نے شہید کردیا، جسٹس عبدالقادر عودہ، شیخ محمد فرغلی، ابراہیم الطیب، یوسف طلعت کو جمال عبدالناصر کی حکومت نے تختۂ دار پر لٹکا دیا۔ کیا یہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا؟ حالات و واقعات جاننے والے خوب باخبر ہیں کہ یہ سوچی سمجھی سازشیں تھیں، نہ کہ کوئی اتفاقی حادثہ تھا۔
جون ۱۹۶۷ء کی جنگ جمال عبدالناصر نے شروع کی، جو پوری اُمت مسلمہ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن گئی۔ اس جنگ کے بارے میں بہت سارے اُمور توجہ طلب ہیں۔ مستقبل کا مؤرخ جنگ کی بہت سی کڑیوں کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے گا کہ اس جنگ میں کس نے کیا کردار ادا کیا؟ بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن میں قطعی دلیل کے بغیر کوئی بیان دینے کا عادی نہیں ہوں۔ تاہم، ایک بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو جو اسلحہ دیا گیا تھا، وہ ناکارہ اور ناقابلِ استعمال تھا۔    اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہمارے نوجوانوں کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جھونک دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر بھی یہ ثابت ہوگیاہے کہ اس جنگ سے قبل ناصر اور بعض یہودی ذمہ داران کے درمیان شرم الشیخ اور دیگر مقامات پر خفیہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ وہ لوگ جو کبریٰ اور صغریٰ کا استنباط کرکے نتائج نکالنے میں ماہر ہیں، ان واقعات کا تجزیہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا مندرجہ بالا واقعات اور اخوان المسلمون کے رہنمائوں کے قتل میں کوئی ربط نہیں ڈھونڈا جاسکتا؟اخوان کے وہ رہنما جنھوں نے یہودیوں کے چھکے چھڑا دیے تھے کس کے اشارے پر ان حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے؟
میں اس بات کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ نقراشی پاشا نے اخوان کے رہنمائوں کو عین معرکۂ کارزار کے اندر گرفتار کرایا۔ فلسطین کے محاذ سے ان مجاہدین کو سیدھا مصر کے جیل خانوں میں بھیج دیا گیا۔ تواریخ کا تجزیہ کرنے والے اس واقعے کی کیا توجیہہ پیش کریں گے؟ میں اگر اخوان المسلمون میں سے نہ ہوتا تو اس موضوع پر بہت کچھ کہتا۔ اب میں کچھ کہوں گا تو ممکن ہے اسے جانب داری کا طعنہ دیا جائے۔ میں ایسے حقائق بیان کرسکتا ہوں جو عمالقہ کے بڑے بڑے مضبوط قلعوں کو زمین بوس کر دیں اور سچ یہ ہے کہ ان عمالقہ کا مصنوعی قدکاٹھ سب کو معلوم ہے۔ ہم اللہ پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ 
برطانوی آلۂ کار شاہ فاروق کے خلاف ۱۹۵۲ء کا انقلاب بدقسمتی سے کرنل جمال ناصر۱ کے ہاتھوں اس راستے سے بالکل منحرف ہوگیا، جو قوم کی نجات کا ضامن ہوسکتا تھا۔ تاریخ کا کام حقائق کو بے کم و کاست پیش کرنا ہے، مگر تاریخ کبھی کبھار اپنے اس فرضِ منصبی سے عاجز ہے۔ اخبارات میں اب آئے دن مضامین چھپ رہے ہیں کہ ان حکمرانوں کے ہاتھوں قارون کے خزانوں کے تذکرے تازہ ہوگئے ؟ لُوٹ مار کی دوڑ میں کروڑوں پاؤنڈ کی دولت اور جایدادوں کے تذکرے پڑھ پڑھ کر گھن آنے لگتی ہے، کہاں سے یہ دولت نازل ہوئی؟ پھر یہ دولت کیسے مصر سے باہر منتقل ہوگئی؟ یورپ میں بڑے بڑے محلات اور اخبارات و رسائل ان لوگوں نے کیسے خرید لیے؟ یہ لوگ اسلحے کے عالمی تاجر کیسے بن گئے؟ کہاں چلی گئی ان کی شرم و حیا؟ 


 ۱-  ’’مصر میں ۱۹۵۲ءکا فوجی انقلاب امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اکسانے اور اس کے عملی تعاون سے برپا ہوا تھا۔مصری بادشاہت کو ختم کرکے فوج کو مصر کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے جمال عبدالناصر(فوج میں لیفٹیننٹ کرنل) اور ان کے ساتھی فوجی افسروں کو سی آئی اے کی آشیرباداور پوری مدد حاصل تھی۔ فوجی انقلاب کے ترجمان ریڈیواسٹیشن ’وائس آف عرب‘ ' کا قیام بھی سی آئی اے ہی کی مدد سے ممکن ہوا تھا‘‘۔ سی آئی اے اور کرنل جمال ناصر کے ساتھیوں کی ملی بھگت کا انکشاف برطانوی مصنف جیمز بار (James Barr) کی تازہ ترین کتاب Lords of the Desert میں کیا گیا ہے۔اگرچہ اس فوجی انقلاب کے سربراہ جنرل نجیب تھے، لیکن ملٹری کی طرف سے نظم و نسق سنبھالنے کی ساری پلاننگ لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے کی تھی جو سی آئی اے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ مصنف کے مطابق: ’’مصر میں اس فوجی انقلاب کی وجہ امریکا اور برطانیہ کے درمیان مشرق وسطیٰ میں اپنا اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کش مکش تھی۔ برطانیہ مصری بادشاہ ، فاروق کی حمایت کررہا تھا، جسے امریکی ناپسند کرتے تھے۔ –مصری فوج کے اندر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے ہاتھوں غیر متوقع شکست کی وجہ سے بہت بے چینی تھی۔ کرنل جمال عبدالناصر اور ان کے ساتھی فوجی افسروں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سی آئی اے کی مدد سے بادشاہت کو ختم کرکے جنرل نجیب کی سر براہی میں فوجی حکومت قائم کردی‘‘۔
برطانوی مصنف نے برطانوی فارن آفس کی دستاویزات اور دیگر تاریخی ریکارڈ کی مدد سے اپنی کتاب میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں برطانیہ اور امریکا کے درمیان مسابقت اور تعاون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ جیمز بار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ: ’’انقلاب سے دو دن قبل کرنل ناصر نے برطانیہ اور امریکا کو فوج کی طرف سے ٹیک اور کرنے کے پلان کے بارے میں اعتماد میں لیا تھا ۔اگرچہ انقلاب کی تمام تر منصوبہ بندی لیفٹیننٹ کرنل جمال عبدالناصر نے کی تھی، لیکن فوج میں جونیئر رینک آفیسر ہونےکے باعث انھیں مجبوراً جنرل نجیب کو انقلاب کا سربراہ بنانا پڑا۔ تاہم، کچھ ہی عرصے بعد ناصر نے جنرل نجیب کو ہٹا کر خود سارا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور ۱۹۵۶ء میں باقاعدہ مصر کے صدر کا عہدہ سنبھال لیا۔
’’ اسی سال[۱۹۵۶ء ] جب جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کے ساتھ مل کر نہر پر قبضہ کرنے کےلیے مصر کے خلاف جنگ شروع کردی۔ اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاورنے فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔ اس پسپائی پربرطانیہ کو فوجی، سیاسی اور سفارتی محاذ پر انتہائی خفت کا سامنا کرنا پڑا اور اس واقعے کے بعد مشرقی وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ کم ہوتا چلا گیا اور پورا خطہ امریکی حلقۂ اثر میں آ گیا ۔امریکا کے پیش نظر مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی بنیادی وجہ اس علاقے میں اسرائیل کی حفاظت اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک رسائی اور اجارہ داری تھی۔
’’امریکی مدد سے اسرائیل کو فوجی لحاظ سے تمام عربوں کے مقابلے میں اتنا طاقت ور بنا دیا گیاکہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں مصر ، شام اور اردن تین ممالک کی مشترکہ افواج کو چھے روز کے اندراسرائیلی فوج نےشکست دے کر بیت المقدس ،غزہ ، باقی ماندہ فلسطین ، اردن کے مغربی کنارے ،گولان کی پہاڑیوں اورمصر کے جزیرہ نما سینائی پر قبضہ کرلیا ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اسرائیل کا ان علاقوں پر[سواے مصر کے جزیرہ نما سینائی]قبضہ برقرار ہے۔
’’ فوج کے ذریعے حکومتوں کو گرانے اور تبدیل کرنے کی سی آئی اے کی یہ سرگرمیاں صرف مصر تک محدود نہیں رہیں۔ مصر میں فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کا جو سلسلہ۱۹۵۲ء میں شروع ہوا تھا، وہ ۱۹۵۳ء میں ایران میں محمد مصدق کی حکومت کو ختم کر کےآگے بڑھایا گیا، اور اس کے دس سال بعد عراقی بادشاہت کو بعث پارٹی کے ذریعے فوجی انقلاب برپا کرکے ختم کردیا گیا،جس کے نتیجے میں آخرکار صدام حسین اقتدار میں آئے۔ ۲۰۰۳ء میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا اور برطانیہ نے عراق پر براہِ راست حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ اس طرح حکومتوں کو گرانے اور تختہ اُلٹنے کا جو سلسلہ ۱۹۵۲ء میں مصر سے شروع ہوا تھا، وہ آج بھی مسلم ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔ سب سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جن طالع آزمائوں نے اقتدار میں آنے کے لیے سی آئی اے کے پلان پر عمل کیا، اسی سی آئی اے نے ان کو شکست سے دو چار اور ان کے ممالک کو تباہ کرکے انھیں اقتدار سے الگ کیا۔ جمال عبدالناصر، معمر قذافی اور صدام حسین اس کی عبرت ناک مثال ہیں‘‘۔[مرسلہ: جاوید اقبال خواجہ مرحوم]