جولائی 2025

فہرست مضامین

شہید المحراب عمر بن الخطابؓ

عمر تلمسانی | جولائی 2025 | سیرت صحابہ

Responsive image Responsive image

سیّدنا عمر ؓ بن الخطاب (شہادت:یکم محرم ۲۳ھ)پر اللہ کا یہ خصوصی فضل تھا کہ آپؓ خلافت کی ذمہ داریوں اور نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس کا حق ادا کرنے میں حددرجہ محتاج اور باریک بین تھے۔ اس معاملے میں وہ سمجھتے تھے کہ ان کا مقام عمر بن خطابؓ کی حیثیت سے نہیں بلکہ خلیفۂ رسولؐ ہونے کی حیثیت سے ہے ۔ آپؓ کے نزدیک اپنی ذات کا کوئی مقام اور وزن نہیں تھا بلکہ اس منصب ِ خلافت کا وزن تھا جس کے لیے اُمت نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔  

منصبِ خلافت کی اہمیت 

 خلیفہ اللہ کی زمین میں اس کا نائب اور اس کا سایہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سلطانِ عادل کے ذریعے سے وہ کام کروا دیتا ہے جو سلطانِ عادل کی غیرموجودگی میں قرآن بھی سرانجام نہیں دے سکتا۔ اللہ کی نیابت کے لیے فکروعمل کی پاکیزگی، حکمت اور وقار ضروری صفات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک حکمران ظلم نہ کرے اللہ کی نصرت اسے حاصل رہتی ہے اور جوں ہی وہ ظلم کی روش اختیار کرے، اللہ تعالیٰ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے‘‘۔  

عمر ؓ بن الخطاب اس قول سے بھی باخبر تھے کہ ’ایک دن کا عدل و انصاف چالیس برس کی عبادت کے برابر ہے‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بھی حضرت عمرؓ کے سامنے رہتا تھا: ’’جو حکمران اپنی رعایا پر ظلم و زیادتی کرے،وہ کبھی انصاف نہیں کرسکتا‘‘(الحاکم)۔فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال حضرت عمرؓ کے سامنے رہتے تھے۔ انھیں آپؐ کا یہ فرمان بھی یاد تھا: ’’سلطان اللہ کی زمین میں اس کا سایہ ہے، اللہ کے بندوں میں سے ہرمظلوم سلطان کی طرف رجوع کرتا ہے۔ پھر اگر سلطان عدل کرے تو اس کے لیے اجر ہے اور رعایا پر شکر واجب اور اگر وہ ظلم و ناانصافی کرے تو اس کے لیے عذاب ہے اور ایسی حالت میں رعیت کو صبر کرنا چاہیے‘‘۔ 

عمر ؓ بن الخطاب بخوبی جانتے تھے کہ مسلمان حکمران کے فرائض کیا ہیں اور انھیں کیسے ادا کیا جاسکتا ہے؟ وہ ان اصولوں کی خاطر زندہ رہے، جو اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے انسانیت کو دیئے ہیں۔ آپؓ اپنی شخصیت کوچنداں اہمیت نہ دیتے تھے بلکہ اصولوں کی بالادستی آپ کا مطمح نظر تھا۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے عظیم خدمت کے لیے چُن لیا تھا اور آپؓ نے اس کا حق بھی ادا کیا۔ آپؓ نے اُمت کے معاملات کو ایسی پختہ اور ناقابلِ شکست بنیادوں پر استوار کر دیا کہ اس کے بعد اصلاح و خیر کا دور دورہ ہو اور فسادوشر کا مکمل خاتمہ ہوجائے۔ جب تک یہ بنیادیں موجود ہیں، انسانیت کبھی گمراہ نہیں ہوسکتی اور بنی نوع آدم کی بھلائی کا کوئی راستہ ان اصولوں کی پیروی کے سوا ممکن نہیں ہے۔ 

عمر بن الخطابؓ کا پہلا خطاب 

خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد پہلے ہی دن آپ نے لوگوں کے سامنے اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ لوگوں سے حکومت کس طرح معاملہ کرے گی؟ آپ نے کہا: ’’لوگو! وحی کا سلسلہ تو منقطع ہوچکا ہے۔ اب ہم تمھارے ساتھ جو بھی معاملہ کریں گے وہ تمھارے ظاہری حالات اور اعمال کے مطابق ہوگا۔ ظاہراً جس نے خیروبھلائی کا رویہ اپنایا، ہماری طرف سے اسے امن و امان کی ضمانت ہے۔ باطنی حالت اور چھپے ہوئے راز کی ٹوہ ہم نہیں لگائیں گے۔ یہ معاملہ بندے اور اللہ کے درمیان ہے اور اللہ باطن کے مطابق اور نیتوں کے لحاظ سے بندوں سے حساب لے لے گا۔ اسی طرح جس شخص سے شر اورفساد ظاہر ہوا، ہم اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ اگر وہ کہتا بھی رہے کہ دل اور نیت سے اس کا ارادہ فتنہ و فتور کا نہ تھا تو ہم اس کے ظاہری عمل کے مقابلے میں اس کے اس دعویٰ کو قبول نہ کریں گے‘‘۔ 

اس بنیادی اصول کے مطابق سیّدنا عمرؓ نے خلافت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 

لا اکراہ فی الدین  

عمر بن الخطابؓ خلیفۂ راشد تھے اور سلطنت میں احکامِ الٰہی کی تنفیذ میں کوئی تساہل گوارا نہ کرتے تھے۔ عام حالات میں بہرحال وہ کسی کو اس کی طبیعت اور مرضی کے خلاف حکم نہ دیا کرتے تھے۔ آپ جبر کی بجائے نصیحت اور ترغیب سے کام لیتے تھے۔ آپ غلاموں پر بھی کوئی چیز بزور ٹھونس دینے کو ناپسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور ملوکیت کے باوجود لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ وہ کہتا ہے: ’’دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے‘‘ (البقرہ ۲:۲۵۶)۔اس طرح اپنے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: ’’کیا آپؐ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ لازماً ایمان لے آئیں؟‘‘(یونس ۱۰:۹۹) 

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت اور اطاعت کا حکم دیا ہے اور حق اور باطل کی ان کے سامنے پوری وضاحت کردی ہے مگر انھیں آزادیٔ انتخاب اور آزادیٔ عمل عطا کی ہے۔ ارشادباری ہے: ’’اور کہہ دیجیے کہ حق تمھارے ربّ کی طرف سے ہے۔ پس تم میں سے جو (اپنی آزادمرضی سے)ایمان لانا چاہے وہ ایمان لے آئے اور جو کفر پر قائم رہنا چاہیے وہ کفر پر رہے‘‘۔(الکہف ۱۸:۲۹) 

اللہ تعالیٰ مالک ِ حقیقی ، خالق کائنات اور ربّ العالمین ہونے کے باوجود اپنے دین کے معاملے میں لوگوں پر زبردستی حکم ٹھونسنے کی بجائے انھیں دعوتِ فکر دیتا ہے اور خود فیصلہ کرنے کی حُریت بخشتاہے، تو مخلوق کو یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مرضی دوسروں پر ٹھونس دیں؟ حضرت عمرؓ کے پاس ایک نصرانی غلام تھا جس کا نام اسق تھا۔ اسق نے خود بیان کیا کہ حضرت عمرؓ مجھ سے کہا کرتے تھے: ’’اے اسق! تم مسلمان ہوجائو تو ہم مسلمانوں کے بعض معاملات میں تمھاری مہارت اور فن سے استفادہ کریں گے‘‘۔ (یعنی اسے کوئی منصب عطا کردیتے) مگر میں انکار کر دیتا تھا۔ اس انکار پر آپ نے کبھی ناراض ہونے یا سرزنش کرنے کا راستہ اختیار نہ کیا‘‘۔ 

یہ اسلام کی وسیع الظرفی ہے جس میں قول و عمل میں حُریت ِ فکر کا نمونہ نظر آتا ہے۔ حضرت عمرؓ اپنے دور کے سب سے طاقت ور حکمران تھے۔ وہ جو چاہتے کرسکتے تھے مگر اسلام کے سامنے وہ دَم نہ مار سکتے تھے۔اسلام نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے تھے۔ وہ کسی بے کس انسان کو مجبور نہ کرسکتے تھے کہ وہ اپنی مرضی چھوڑ کر ان کی مرضی کا پابند ہوجائے۔ ایک غلام بھی اپنی مرضی اور حُریت کا یہ مظاہرہ کرتا تھا کہ امیرالمومنینؓ کی بات ماننے سے انکار کردیتا۔ یہ ہے حقیقی آزادی اور مکمل عدل و انصاف۔ 

تقویٰ  

عمر بن الخطابؓ تقویٰ میں بھی نمایاں اور ممتاز تھے مگر آپؓ کی شان دیکھیے کہ مسلمانوں کی تربیت کا اہتمام یوں فرمایا کہ حضرت ابی بن کعبؓ سے پوچھا: ’’تقویٰ کیا ہے؟‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’امیرالمومنینؓ کبھی آپ ایسے جنگل میں سے گزرے ہیں جہاں گھنی کانٹے دار جھاڑیاں ہوں اور ان کے بیچوں بیچ تنگ پگڈنڈی ہو؟‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا: ’’ہاں، ایسے راستوں سے گزرا ہوں‘‘۔ انھوں نے پوچھا: ’’پھر ایسے راستے سے گزرتے ہوئے آپؓ کیا کرتے ہیں؟‘‘ کہا: ’’دامن سمیٹ لیتا ہوں اور بہت محتاط ہوکر قدم اُٹھاتا ہوں کہ دامن کسی کانٹے سے نہ اُلجھ جائے‘‘۔ حضرت ابیؓ نے کہا: ’’تقویٰ یہی ہے‘‘۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمرؓ خود تقویٰ کا معنی خوب جانتے تھے بلکہ حضرت ابیؓ سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے، وہ علم کا مینار تھے اور تقویٰ کا معیار۔ مگر لوگوں کی تربیت کے لیے انھوں نے یہ سوال پوچھا تاکہ وہ تقویٰ کے بارے میں حقیقت سے باخبر ہوجائیں اور یہ بھی جان جائیں کہ سوال پوچھنے سے عزّت نہیں گھٹتی۔ 

فراستِ مومنانہ 

 اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو خشیت کی بدولت ایسی مومنانہ فراست عطا کی تھی جو کبھی انھیں ناکام نہ ہونے دیتی تھی۔ وہ انسانوں کے چہرے اور پیشانیاں دیکھ کر ان کی صفات کا پتہ چلا لیتے تھے۔ ایک مرتبہ ابوصفرہ حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت ان کے دس فرزند بھی ان کے ساتھ تھے۔ حضرت عمرؓ نے ابوصفرہ کے لڑکوں کو غور سے دیکھا اور ان میں سے سب سے چھوٹے لڑکے مہلب کے بارے میں کہا: ’’ابوصفرہ تمھارا یہ لڑکا سردار ہوگا۔ یہ اپنے اندر جوہرِ قابل رکھتا ہے‘‘۔ مہلب اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ وقت گزرتا گیا یہاں تک کہ لوگوں نے دیکھا مہلب کیسی قابل شخصیت بن کر اُبھرا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مشاہیر اسلام میں مہلب بن ابی صفرہ کا مرتبہ کتنا عظیم ہے۔ 

اس فراست کی بدولت حضرت عمرؓ انسانوں کی مشکلات و مسائل کے حل کرنے میں ہردم سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن یزید نے اپنے باپ کی زبانی روایت بیان کی ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس یہ مسئلہ پوچھنے کے لیے گئے کہ کیا موزوں پر مسح جائز ہے؟ آپ نے ہماری بات سنی تو کوئی جواب نہ دیا بلکہ اُٹھے اور پیشاب کرنے چلے گئے۔ واپس آئے تو وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کرلیا۔ ہم نے کہا کہ آپ سے ہم نے سوال پوچھا تھا۔ آپ نے جواب دیا: ’’میں نے تمھارے سوال کا عملی جواب دے دیا ہے اور اس وقت میں تمھاری خاطر ہی اُٹھ کر گیا تھا‘‘۔ 

بعض لوگ کسی چیز کے متعلق جانتے نہیں مگر سوال پوچھنے سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔ سوال پوچھنے سے انسان کی شان نہیں گھٹتی۔ وہ لوگ کتنے عظیم اور خوش بخت ہیں جو لوگوں کے سوال کرنے سے قبل ہی ان کی حاجات پوری کردیتے ہیں۔ 

عمر ؓ بن الخطاب کی فراست ِ مومنانہ انھیں اُمورِ مملکت چلانے میں بھی مدددیا کرتی تھی۔ اپنے عمال کے بارے میں صدقِ نظر اور ژرف نگاہی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے پوچھا: ’’کیا میرے عمال میں کوئی منافق ہے؟‘‘ حضرت حذیفہؓ کو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے بارے میں بتا دیا تھا، لہٰذا وہ جانتے تھے۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ہاں ایک ہے‘‘۔ پوچھا:’’کون ہے؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا:’’میں اس کا نام ہرگز نہ لوں گا‘‘ (چونکہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لینے سے منع کیا ہوا تھا، اس لیے حضرت حذیفہؓ کسی منافق کو نامزد نہ کیا کرتے تھے)۔ حضرت حذیفہؓ کہتے تھے کہ حضرت عمرؓ نے اس عامل کو معزول کر دیا۔ گویا کہ انھیں علم ہوگیا تھا‘‘۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا: ’’مومن کی فراست سے بچا کرو۔ بے شک وہ اللہ کی دی ہوئی روشنی سے دیکھتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادِ ربانی بھی ہے: ’’بے شک ان واقعات میں صاحب ِ فراست لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔(الحجر۱۵: ۷۵) 

حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو لوگوں کی حقیقت کو اپنی فراست سے پاجاتے ہیں‘‘۔ 

عمر ؓ بن الخطاب ان بچوں کے بارے میں جنھیں پیدائش کے بعد نظرانداز کردیا جاتا تھا اور جن کے بارے میں کوئی پتہ نہ چلتا تھا کہ ان کے والدین کون ہیں یا جن کے والدین فوت ہوجاتے اور ان کا کوئی رشتہ دار نہ ہوتا تھا، بڑے فکرمند رہتے تھے۔ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان پر سرکاری خزانے سے اخراجات اُٹھتے تھے اور ان کا وظیفہ مقرر کیا جاتا تھا۔ آپ ان کے بارے میں اچھے سلوک اور ان کی دیکھ بھال کی ہمیشہ نصیحت کیا کرتے تھے۔ 

الدین یسر 

عمر بن الخطابؓ ، اہل ایمان کے لیے دینی و دُنیوی ہرمعاملے میں آسانی تلاش کرتے تھے اور تنگی سے انھیں بچانے کی فکر کیا کرتے تھے۔ لوگ اگر اپنے لیے مشکل راستہ ڈھونڈتے تو بھی آپ ؓ انھیں آسانی اور فراخی کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ بشر بن فخیف سے مروی ہے کہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا: ’’میں آپ کی بیعت کرتا ہوں کہ ہرمعاملے میں جسے مَیں پسند کرتا ہوں اور جسے ناپسند کرتا ہوں، آپ کی اطاعت کروں گا‘‘۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ایسا نہ کہو بلکہ یہ کہو کہ میں حسب ِ استطاعت آپ کی اطاعت کروں گا‘‘۔ 

عمر ؓ بن الخطاب خود سخت کوش اور جفاکش تھے، مگر لوگوں کے لیے آسانی چاہتے تھے۔ اپنی سخت کوشی کا ڈھنڈورا کبھی نہ پیٹتے تھے۔ جو لوگ سستی شہرت کی خاطر بلندبانگ دعوے کرتے ہیں، وہ ڈھول کا پول ثابت ہوتے ہیں اور وقت آنے پر ان کا راز کھل جاتا ہے کہ وہ کتنے بودے اور ناکارہ ہیں۔ 

مثالی نظامِ حکومت 

عمر بن الخطابؓکی خلافت ہر پہلو سے مثالی تھی۔ ہرمعاملے میں خلیفۂ راشد اپنے آپ کو جواب دہ اور ذمہ دار گردانتے تھے اور رعایا کی ہرضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ نظمِ حکومت مضبوط بنیادوں پر قائم تھا، ادارے منظم تھے۔مواصلات کا نظام بہترین تھا اورراستے محفوظ اور بہترین انداز میں بنائے گئے تھے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں سڑکیں بنتی ہیں تو اگلے دن ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں، جب کہ اس دور میں سڑکیں بنتی تھیں تو مدتوں ان میں خرابی پیدا ہونے کا خطرہ نہ ہوتا تھا۔ مصر اور مدینہ کا فاصلہ بے پناہ تھا، مگر حضرت عمرؓ کے ذہن رسا نے یہ فاصلہ پاٹ دیا۔ ان کے دورِ حکومت میں مصر سے غلہ لانے کے لیے بحری جہاز استعمال کیے گئے۔ جہازوں کے ذریعے غلہ جار کی بندرگاہ تک لایا جاتا تھا۔ وہاں سے پھر اُونٹوں پر لاد کر محفوظ سڑک کے ذریعے ایک دن اور ایک رات میں کاررواں مدینہ پہنچ جاتا تھا۔ جاربحراحمر پر بندرگاہ تھی۔ حضرت عمرؓسے قبل مصر سے حجاز تک سارا سفر صحرا اور خشکی کے ذریعے طے ہوتا تھا جو بڑا پُرصعوبت تھا اور اس میں کافی مدت بھی لگتی تھی۔ 

عمر ؓ بن الخطاب کے دور میں آپؓ کا گھر ہرشخص کے لیے جائے قرار تھا۔ حاجت مندوں کے لیے آپ کا دروازہ ہروقت کھلا رہتا تھا۔ جو شخص آتا اس کا استقبال ہوتا تھا اور اس کی دادرسی کی جاتی تھی۔ کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہ تھی۔ ایک اصول تھا جس سے ہرخاص و عام واقف تھا کہ جو زیادہ نیک اور متقی تھا، وہ زیادہ معزز و محترم سمجھا جاتا تھا۔ جس نے اعمالِ خیر اور جہادِ اسلامی میں زیادہ خدمات سرانجام دی تھیں، وہ دوسروں پر فوقیت رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا معیار نہ تھا جس سے لوگوں کا مرتبہ متعین کیا جاتا۔ 

جب حق داروں کو ان کا حق نہ ملے اور صاحب ِ استحقاق کے مقابلے میں بااثر لوگوں کو ترجیح دی جانے لگے تو فساد پھیل جانا فطری امر ہے۔ حکمران اگر یہ اصول پیش نظر رکھیں کہ جس شخص نے اُمت کے لیے زیادہ قابلِ قدر خدمات سرانجام دی ہیں، اس کی عزّت افزائی اور قدر کی جائے، تو اس سے بہت صحت مند رجحان پروان چڑھتا ہے۔ لوگ نیکی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیاں بُرائیوں پر غالب آجاتی ہیں۔ 

جرید بن حازم بن حسن سے مروی ہے: ’’کچھ لوگ امیرالمومنین عمرؓ بن خطاب کے دروازے پر آئے۔ ان میں اصحابِ بدر بھی تھے اور شیوخِ قریش بھی۔ ان لوگوں نے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اصحابِ بدر میں سے صہیبؓ، خبابؓ، عمارؓ اور بلالؓ کو اندر آنے کی اجازت مل گئی، جب کہ ابوسفیانؓ، حارثؓ بن ہشام اور سہیلؓ بن عمرو کو باہر انتظار کرنا پڑا۔ یہ سب بزرگ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔  

اس صورتِ حال کو دیکھ کر ابوسفیان ؓ نے کہا: ’’آج کے دن سے زیادہ میں نے اپنی بے قدری کبھی نہ دیکھی تھی۔ رؤسائے قریش باہر بیٹھے ہیں اور غلاموں کو اندر بلا لیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر سہیلؓ بن عمرو نے کہا اور سہیلؓ بہت عقل مند اور متقی تھے: ’’اے سردارانِ قریش! میں نے تمھارے چہروں پرنا راضی کے آثار دیکھ لیے ہیں۔ اگر غصہ کرنا ہے تو اپنے آپ پر کرو۔ سب لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی گئی تھی اور تمھیں بھی مخاطب کیا گیا تھا۔ وہ لوگ جلدی سے آگے بڑھے اور تم پیچھے رہ گئے۔ تمھیں اس دروازے سے ان کا پہلے داخل ہونا ناگوار گزر رہا ہے۔ خدا کی قسم! یہ تو کوئی بات نہیں۔ وہ تو اپنے درجات کی بلندی میں تم سے اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر تم اس کا احساس کرو تو اپنی محرومی پر کف ِ افسوس ملتے رہ جائو: ’’اے لوگو! یہ راہِ خدا میں جہاد اور سبقت ِ اسلام کی وجہ سے تم سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ اب تمھارے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ تلافی ٔ مافات کرسکو اور وہ جہاد کا راستہ ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ تمھیں شہادت کا رُتبہ عطا کرکے تمھارے درجات بلندفرما دے‘‘۔ 

حضرت سہیلؓ اس کے بعد اسلامی لشکر کے ساتھ شام میں جاشامل ہوئے اور میدانِ جہاد میں شہادت پائی۔ حسن ان کے بارے میں مندرجہ بالا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے تھے: ’’خدا کی قسم! سہیلؓ نے سچ کہا جو بندہ اللہ کی طرف تیزی سے آگے بڑھ جائے، اس کے برابر دعوت کو ٹھکرا دینے والا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ 

ادائیگیٔ فرض کا لطف 

عمر بن الخطابؓ بطورِ حاکم اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرمِ عمل رہتے تھے۔ بہت سے نیک نفس حکمران اور بھی ہیں جو اپنے واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے اور آج بھی اگر کوئی حکمران سنجیدگی سے کمرہت باندھ لے تو یہ کام کرسکتا ہے، مگر حضرت عمرؓ کا اس معاملے میں کمال یہ ہے کہ وہ ان فرائض کی ادائیگی میں لطف محسوس کرتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ عبادت کا حصہ تھا۔ رعایا کے لیے جذبات، محبت اور نیکی کے کاموں کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہنا ان کی شان تھی۔ انھوں نے خلافت کا بھاری بوجھ جس کے اُٹھانے سے پہاڑ عاجز تھے، اُٹھایا اور اس کا حق ادا کر دیا۔ اس بوجھ کے باوجود وہ دوسروں کا بوجھ کم کرنے اور اپنے اُوپر زیادہ بوجھ لادنے کی فکر میں رہتے تھے۔ حق داروں کو ان کے پاس پہنچ کر حق ادا کیا کرتے تھے۔ وہ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم پھر کر لوگوں کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے کندھوں پر بوجھ اُٹھایا کرتے تھے۔ 

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ خود رجسٹر اُٹھائے بنوخزاعہ کے پاس قدید پہنچے اور ان کے وظیفے انھیں دیتے ہوئے فرمایا: ’’یہ تمھارا حق ہے۔ تمھیں اپنا یہ حق وصول کرکے اتنی خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی خوشی مجھے ادا کرکے ہورہی ہے۔ تم لوگ میری تعریف نہ کرو۔ میں نے کیا تیر مارا ہے، بس اپنا فرض ادا کیا ہے‘‘۔ 

یہ عظمت ِ کردار کہاں مل سکتی ہے؟ سربراہِ مملکت اپنی پیٹھ پر سامان لادے لوگوں تک پہنچتا ہے اور نہ کوئی اعلان ہوتا ہے نہ تشہیر، نہ سپاسنامہ، نہ قصیدہ خوانی! وہ اللہ کے سامنے حاضری اور جواب دہی کے احساس سے مالا مال تھے۔ انھیں معلوم تھا کہ بندوں کے معاملے میں اللہ نے ان پر کیا کچھ واجب کر رکھا ہے۔ 

آج صورتِ حال یہ ہے کہ حق دار بے چارے جوتیاں چٹخاتے رہتے ہیں اور پوری زندگی اپنے جائز حقوق کے حصول اور دادرسی کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی کوئی حق مل جاتا ہے ورنہ اکثر ان لوگوں کے حصے میں حرماں نصیبی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حکومتی اداروں کو چلانے والوں کے دلوں میں اگر خوفِ خدا پیدا ہوجائے تو ہر حق دار کو اس کا حق مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا۔  

سختی و نرمی کا حسین امتزاج 

عمر بن الخطابؓسخت گیر بھی تھے مگر اس کے ساتھ نرم دل بھی تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی تھی وہاں آپ سے زیادہ سخت کوئی نہ تھا اور جہاں نرمی کا موقع محل ہوتا وہاں آپؓ کی رقت ِ قلب بے مثال ہوا کرتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان جوڑا زنامیں پکڑا گیا۔ دونوں غیرشادی شدہ تھے۔ آپ نے لڑکے اور لڑکی دونوں پر حد ِ تازیانہ جاری کی اور اس میں بالکل نرمی نہ دکھائی۔ حدجاری ہوچکی تو آپؓ نے ان دونوں سے کہا: ’’آپس میں شادی کرلیں مگر لڑکے نے انکار کر دیا۔ آپؓ نے اس کے انکار پر نہ بُرا مانا اور نہ اسے کوئی دھمکی دی۔ حدود اللہ کا قیام اللہ کا حق ہے،جس میں کوئی کمی بیشی قابلِ قبول نہیں اور افراد کی شخصی آزادی ان کا بنیادی حق ہے جس پر قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ 

آج بُرائی پھیل چکی ہے اور اس پر کوئی پکڑنے والا نہیں۔ ان حالات میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی عزت و عفت کی حفاظت کے لیے خود بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے اور اس کے حملے ہروقت جاری رہتے ہیں۔ شیاطین الجن اور شیاطین الانس کے غول کے غول پھرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کسی کی عزّ ت اور شرف کا کوئی تقدس اور حُرمت نہیں ہے۔ انھیں یہ بات یاد ہی نہ رہی کہ ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ‘کا اصول اٹل ہے۔ وہ ذاتِ بابرکات جو ہرشخص کے ہرعمل سے باخبر ہے، اس کے سامنے حاضری کے دن سب کو اپنے اپنے اعمال کا پورا بدلہ مل جائے گا۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور حی و قیوم ہے۔ 

وقت قیمتی اثاثہ 

عمر بن الخطابؓاپنی رعایا کے ہرمعاملے میں دلچسپی لیتے تھے، جس طرح والدین اپنی اولاد کے جملہ اُمور کی نگرانی کرتے ہیں۔ آپؓ اس بات کا بھی خیال رکھتے تھے کہ لوگ اپنے وقت کا استعمال کس طرح کرتے تھے؟ کبھی آپؓ انھیں پیار محبت سے سمجھاتے اور کبھی درہ لہرا کر انھیں تاکید کرتے تھے۔ رات کو دیر تک جاگتے رہنا آپؓ کو ناپسند تھا۔ آپؓ لوگوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جلدسونے کی عادت ڈالیں تاکہ جلد اُٹھ سکیں اور اگر توفیق مل جائے تو تہجد کی سعادت حاصل کرسکیں۔ آپؓ کی خلافت میں فضول کاموں اور عبث باتوں کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ آپؓ جانتے تھے کہ وقت بہت قیمتی متاع ہے اور کام بے شمار ہیں جن کی تکمیل کے لیے وقت کا ایک ایک لمحہ احتیاط سے استعمال میں لانا چاہیے۔ اگر لوگ عشاء کی نماز کے بعد قصے کہانی سننے سنانے کے لیے بیٹھ جاتے تو حضرت عمرؓ کو سخت ناگوار گزرتا۔ آپؓ انھیں سرزنش فرماتے۔ 

اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات میں بڑی حکمت اور اپنے بندوں کے مفاد کو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ بندوں کے نفع و نقصان کو خوب جانتا ہے۔ اس نے دن کو کام کاج اور تلاشِ معاش کے لیے اور رات کو آرام و راحت کے لیے پیدا کیا ہے۔ رات کو جلد ہی سوجانے والا شخص اگلے دن اپنے کاموں میں پوری چستی اور نشاط کے ساتھ علی الصبح مشغول ہوجاتا ہے۔ نہ اس پر سُستی اور کاہلی کا غلبہ ہوتا ہے اور نہ وہ اُ ونگھتا ہے۔ راتوں کو لمبی محفلیں جما کر بیٹھے رہنا انسان کے لیے ہرلحاظ سے نقصان دہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپؐ عشاء کی نماز سے قبل سونے اور عشاء کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند فرمایا کرتے تھے۔ 

عمر ؓ بن الخطاب نے جب لوگوں کو یہ حکم دیا کہ رات کو جلد سو جایا کریں تو ان کے پیش نظر یہی حدیث ِ رسولؐ اور حکمِ ربانی جو سورئہ مزمل کی آیت ۶ میں دیا گیا ہے، رہا ہوگا۔ اس آیت میں اللہ کا ارشاد ہے: ’’بے شک (پچھلی) رات کو اُٹھنا (اور عبادت میں مصروف ہو جانا) نفس امّارہ کو کچلنے اور صحیح اور سچّی بات کہنے کی عادت ڈالنے کے لیے بہت مفید ہے‘‘۔ 

رات کی خاموشی اور تنہائی میں اللہ کی اطاعت وعبادت کا جو لطف آتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے۔ سکونِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ خاموش فضا میں دل و دماغ، آنکھیں اور کان، سوچ اور دھڑکن، ہرچیز اللہ کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ رات کی سیاہ زُلفیں خشوع و خضوع سے دل کو بھر دیتی ہیں اور رکوع و سجود، قیام و قعود، دُعا و مناجات، ہرمرحلہ کیف و سُرور سے مالا مال کردیتا ہے۔ 

عمر ؓ بن الخطاب نوجوانوں کے اندر قوت و صحت اور زندگی و مردانگی کے آثار دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلم نوجوان ظاہر و باطن ہر لحاظ سے اسلام کی شوکت و قوت کا مظہر بن جائیں۔ ایک نوجوان کو مریل چال چلتے ہوئے دیکھا تو پوچھا: ’’کیا تم بیمار ہو؟‘‘۔ اس نے کہا: نہیں امیرالمومنینؓ، میں بالکل تندرست ہوں‘‘۔ اس پر آپؓ نے درہ لہرایا اور فرمایا: ’’پھر یہ مردنی تم پر کیوں چھائی ہوئی ہے، جواں مردوں کی طرح چلو‘‘۔ 

عمر ؓ بن الخطاب اپنی رعایا کے ہرخاص و عام کو تذکیر و نصیحت کرتے رہتے تھے۔ اُمہات المومنینؓ کا مقام و مرتبہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ حضرت عمرؓ نے نماز پڑھاتے ہوئے سورئہ اَحزاب کی تلاوت کی اوران آیات پر پہنچے جن میں ربّ العزت نے اَزواجِ مطہراتؓ کو یاالنساء النبی کہہ کر خطاب کیا ہے تو آواز بلند ہوگئی۔ نماز کے بعد لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ اُمہات المومنینؓ کو وہ عہد یاد دلانا مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے خصوصی طور پر نازل فرمایا تھا۔ سچّی بات یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں تذکیر اور یاد دہانی سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ تذکیر کا اہلِ ایمان کو فائدہ ہوتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’نصیحت کیا کرو، بے شک نصیحت سے اہل ایمان کو نفع پہنچتا ہے‘‘۔(الذاریات ۵۱:۵۵) 

آج مسلمانوں ، خصوصاً مسلمان حکمرانوں اور اسلام میں بدقسمتی سے بہت بُعد پیدا ہوگیا ہے۔ ان حالات میں عمر بن الخطابؓ کے طرزِ خلافت کے ان پہلوئوں کا تذکرہ مسلم معاشرے کی اصلاح و ترقی کے لیے بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ فَہَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝۴۰  (القمر۵۴:۴۰) ’’پس ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا‘‘۔