اے ایس جہان


بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ اور اپوزیشن راہنما خالدہ ضیا نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل حل کرنے میں موجودہ حکومت کی ناکامی کی بنا پر     وسط مدتی (مڈٹرم)انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ اس موقع پر بی این پی کی اتحادی جماعتیں جماعت اسلامی بنگلہ دیش اور بنگلہ دیش جاتیو پارٹی (بی جے پی) بھی موجود تھیں۔ خالدہ ضیا نے اپنے خطاب میں مہنگائی میں ہوش ربا اضافے، امن و امان کی تشویش ناک صورت حال، بجلی کے بحران جیسے مسائل اور عوامی لیگ کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ناکام ہوچکی ہے، لہٰذا وسط مدتی انتخابات کروائے جائیں۔ انھوں نے مشرق وسطیٰ کے بحران کے نتیجے میں بنگلہ دیش کو درپیش مسائل کی طرف بھی توجہ دلائی (دی ڈیلی سٹار، ڈھاکہ، ۱۵مارچ ۲۰۱۱ء)۔ بی این پی اور اپوزیشن جماعتیں گذشتہ برس جون سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیے ہوئے تھیں۔ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ جمہوری عمل کے تسلسل اور ملکی مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

عوامی لیگ کی حکومت کو اڑھائی برس ہونے کو آئے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کی نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی اور فتویٰ دینے پر پابندی کے اقدامات سے علما کی طرف سے ایسی بھرپور مزاحمت سامنے آئی ہے، جو اس سے قبل دیکھنے میں نہیں آئی۔ گویا ان اقدامات سے علماے کرام بھی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں جو کہ بنگلہ دیش میں گہرا اثرورسوخ رکھتے ہیں۔

حکومت نے لادینی اور مغرب نواز حلقوں کی خوشنودی کے لیے خواتین کے حقوق کے نام پر نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت وراثت میں مرد اور عورت کا حصہ برابر قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں علماے کرام پر عدلیہ کے ذریعے پابندی لگائی ہے کہ وہ فتویٰ نہیں دے سکتے۔ اس سے قبل حکومت نے جو تعلیمی پالیسی تشکیل دی ہے، وہ بھی قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ علما نے قانونِ وراثت میں تبدیلی کو غیرشرعی قرار دیا ہے اور فتویٰ دینے پر پابندی کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ ۴؍اپریل ۲۰۱۱ء کو ملک گیر ہڑتال کی گئی۔ یہ ہڑتال کمیٹی براے نفاذِ اسلامی قانون (اسلامک لا ایمپلی مینٹیشن کمیٹی) کے امیر مفتی فضل الحق امینی کی اپیل پر کی گئی۔ اس ہڑتال کے نتیجے میں لاکھوں لوگ حکومت کے غیر شرعی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے جس سے حکومت کو تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ ہڑتال سے قبل مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک تسلسل سے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر جلسے اور مظاہرے کیے گئے جس میں بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ عوامی لیگ نے پکڑدھکڑ اور طاقت کے زور سے عوامی ردعمل کو دبانا چاہا لیکن عوام کے سامنے وہ بے بس نظر آرہی تھی۔ علماے کرام اور عوام کا مطالبہ تھا کہ اگر شیخ حسینہ کو اقتدار عزیز ہے تو قرآن و سنت کے خلاف بنائے گئے تمام قوانین واپس لے۔ اس طرح علما کی قیادت میں ملک گیر سطح پر بڑے پیمانے پر حکومت مخالف ردعمل سامنے آیا جو حکومت کے مسائل میں اضافے کا سبب ہے۔

شیخ حسینہ حکومت کو ایک اور ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں عوامی لیگ اور حکمران اتحاد کے حامیوں کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ الیکشن ۳۰، ۳۱ مارچ ۲۰۱۱ء کو منعقد ہوئے۔ بی این پی کی قیادت میں چار جماعتی اتحاد کے حامی پینل نے ۱۴نشستوں میں سے صدر اور سیکرٹری سمیت ۱۱ نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ الیکشن میں ناکامی کے خدشے کے پیش نظر عوامی لیگ اسٹوڈنٹ ونگ چھاترو لیگ کے غنڈے سپریم کورٹ کی عمارت میں گھس گئے اور ہنگامہ آرائی کی کوشش کی لیکن وکلا برادری نے اس کو ناکام بنا دیا۔ الیکشن میں شان دار کامیابی کے بعد سپریم کورٹ بار کے نومنتخب صدر خوندکر محبوب حسین نے جو خالدہ ضیا کے سیاسی مشیر بھی ہیں، خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فتح درحقیقت ’عوامی جاہلیت‘ کی شکست ہے۔ انھوں نے کہا کہ عوامی لیگ اور اس کے اتحادیوں نے عدالتی نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم ایک بار پھر عدالتی نظام کو عدل و انصاف کے حسن سے آراستہ کریں گے۔ بار ایسوسی ایشن کے انتخاب میں اپوزیشن کی کامیابی حکومت کے لیے ایک اور دھچکا ہے اور اس کی عدم مقبولیت کا پیمانہ بھی۔

عوامی لیگ کی حکومت کو اندرونِ ملک کے ساتھ ساتھ عالمی دبائو کا بھی سامنا ہے اور یہ اس وقت سامنے آیا جب نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کو گرامِن بنک کے مینیجنگ ڈائرکٹر کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ ڈاکٹر محمد یونس نے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جو ۸مارچ ۲۰۱۱ء کو خارج کر دی گئی۔ بعدازاں انھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن چیف جسٹس اے بی ایم خیرالحق کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی فل بنچ نے بھی ۵؍اپریل ۲۰۱۱ء کو ان کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس فیصلے کے بعد عالمی ردعمل سامنے آیا۔ ہیلری کلنٹن، جان کیری اور کانگریس کے ایک گروپ نے اس اقدام کی مذمت کی اور ڈاکٹر محمد یونس کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری وسطی و جنوبی ایشیا راورڈ بلیک نے وزیراعظم شیخ حسینہ سے ملاقات کی جس کا مقصد ڈاکٹر محمد یونس کی بحالی تھا۔ انھوں نے بیگم خالدہ ضیا سے بھی ملاقات کی اور گرامِن بنک کے مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا ۔

ڈاکٹر محمد یونس بنگلہ دیش میں کبھی بھی مقبول شخصیت نہیں رہے۔ اُن کو گرامِن بنک کی بڑھتی ہوئی شرح سود اورسود کی وصولی کے لیے بے رحمی پر ہمیشہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا، البتہ عالمی سطح پر ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شیخ حسینہ کے ٹارگٹ بننے کے بعد بنگلہ دیش میں اُن کی مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے پہلے دورِحکومت (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں ملکی مفاد کے خلاف چٹاگانگ ہل ٹریکٹ کے قبائل کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد نوبل پرائز کا حصول تھا لیکن اس کے حصول میں وہ ناکام رہیں اور ڈاکٹر محمد یونس کو نوبل پرائز کا حق دار ٹھیرایا گیا۔ شاید اسی وجہ سے وہ ان کے شخصی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی دبائو کے باوجود شیخ حسینہ ان کو بحال کرنے پر تیار نہیں۔ اس طرح اندرونِ ملک دبائو کے ساتھ ساتھ حکومت کو عالمی دبائو کا بھی سامنا ہے اور اس کی حمایت میں کمی آرہی ہے۔

عوامی لیگ نے برسرِاقتدار آتے ہی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل قائم کرکے جنگی جرائم کے نام پر مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا۔ اس کی زد میں پہلے جماعت اسلامی کے مرکزی قائدین مطیع الرحمن نظامی، علی احسن محمد مجاہد آئے۔ بی این پی کے مرکزی رہنما صلاح الدین قادر چودھری کو بھی گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ گذشتہ ایک برس سے پابند سلاسل ہیں۔ گذشتہ دنوں بی این پی کے سابق وزیر ۸۰سالہ عبدالعلیم کو ان کے آبائی شہر جے پور ہرٹ سے گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف الزام ہے کہ انھوں نے ۱۹۷۱ء میں ۱۰ہزار افراد کا قتل کیا تھا۔ جب عدالت نے سوال کیا کہ کیا ۱۰ہزار لوگوں کا قتل اکیلے عبدالعلیم نے کیا، تو سرکاری وکیل اس کا    کوئی واضح جواب نہ دے سکا۔ بعدازاں ان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی پر کسان مزدور عوامی پارٹی کے سربراہ عبدالقادر صدیقی نے کہا کہ عبدالعلیم صاحب کو ضمانت پر رہا کردینے کے بعد ٹریبونل کو چاہیے کہ جنگی جرائم کے الزام میں گرفتار باقی لوگوں کو بھی ضمانت پر رہا کردے۔ اب ان کو جیل میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ مزید یہ کہ خود ٹریبونل بھی بین الاقوامی معیار سے فروتر ہے۔ اس عدالتی فیصلے سے اس احساس کو مزید تقویت ملی کہ حکومت جنگی جرائم کے نام پر مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے اور اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت بھی نہیں ہیں۔

عوامی لیگ کی حکومت کے مسائل میں اضافہ اور مخالفت بتدریج بڑھتی جارہی ہے۔ جاپان میں زلزلے اور سونامی کی وجہ سے جاپان کی طرف سے ترقیاتی کاموں میں امداد کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بحران کی وجہ سے ۳۵ہزار سے زائد بنگلہ دیشی ملک واپس آچکے ہیں۔ ورلڈبنک سے قرضوں کے حصول میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔ گرامِن بنک کے مسئلے پر امریکا اور یورپی یونین سے کشیدگی پیدا ہوگئی ہے۔ امن و امان کی ابتر صورت حال، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حکومت کے غیر جمہوری رویوں اور انتقامی پالیسی سے عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ نیشنل ویمن ڈویلپمنٹ پالیسی کے تحت غیرشرعی اقدامات نے علما کو بھی حکومت کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔ ایسے میں بی این پی کی طرف سے وسط مدتی انتخابات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ مبصرین کی راے میں اگر حکومت کی یہی روش رہی تو وہ اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکے گی۔