سیّد فراست شاہ


اسلامی تعلیمات تجارت میں بلا امتیازاورمنصفانہ مسابقت کا درس دیتی ہیں اور نجی کاروبار پر کوئی پابندی نہیں لگاتیں۔ تاہم، ان تعلیمات میں مفاد عامہ کو فوقیت حاصل ہے اور ہر وہ تجارتی ہدف اور لین دین جو ان تعلیمات سے متصادم ہو گا اور چند افراد یا کسی مخصوص گروہ کے لیے تو فائدہ مند ہو لیکن اس سے عوام کی بڑی اکثریت کے حقوق مجروح ہوتے ہوں، قابلِ گرفت ہے۔ ان متعین شدہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع کے مطابق پہلے پاکستان کے صنعتی سفر پر بات کریں گے اور ان کمزوریوں کا جائزہ لیں گے جو اس میدان میں ہمیں درپیش رہیں۔ بعد ازاں ماضی کے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کی جائیں گی جن میں بالخصوص نجکاری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

ریاستی اداروں کی نجکاری کو دنیا کےکئی ممالک معیشت کو تقویت دینے اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے نسخۂ کیمیا سمجھ کر اپناتے رہے ہیں۔ یہ رجحان بلا استثناء مغربی اور مشرقی بلاک کے ممالک، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، غرض ہر طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے اس ضمن میں ان ممالک کے تجربوں کی طرف دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا جو ہمارے ملک سے اپنی ترقی، اپنی معیشت کے حجم اور اپنے نظام اور اندازِ حکومت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہوں۔ اس میں ارجنٹائن، یونان اور نائجیریا شاید ہمارے لیے موزوں مثالیں ہوں گی، بجائے اس کے کہ ہم امریکا، برطانیہ اور چین جیسے ممالک سے اپنا موازنہ کریں۔ ارجنٹائن چند سال قبل اپنے اقتصادی بحران کے سبب دیوالیہ ہو گیا تھا، جب کہ یونان یورپین یونین کے بیل آوٹ پیکج کی بنا پر دیوالیہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر نجکاری کے تجربات ناکام ثابت ہوئے۔ نائجیریا اپنے تیل کے ذخائر اور پیداوار کی بناء پر نسبتاً محفوظ رہا، تاہم نجکاری کے نتیجے میں ایک عام آدمی کے حالاتِ زندگی بہتر نہ ہو سکے۔ نائجیریا اپنی ضروریات کی اکثر اشیاء درآمد کرتا ہے، اس کے اہم شہر اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور تیل اور گیس کا شعبہ کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ بڑے پیمانے پر پیش رفت کے باوجود اس خواب کی تعبیران تینوں ممالک نے نہیں دیکھی۔

تاریخی پس منظر

۱۹۴۷ء میں بر صغیر کا وہ حصہ جو دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریۂ پاکستان بن کر نمودار ہوا، وہ بنیادی صنعتی ڈھانچے سے تقریباً محروم تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں سرکاری شعبے کے ساتھ ساتھ نجی صنعت کاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سرکاری شعبے میں نئی اور جدید صنعتوں کا قیام زیادہ تر پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کے ذریعے عمل میں آیا۔ اس وقت زیادہ تر نجی کاروباری ادارے بڑے پیمانے پر مادی اور مالی وسائل فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، جب کہ نوزائیدہ ملک میں بنیادی صنعتوں کے فقدان کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش، تجارتی سرمائے اور سروسز کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے ملک کی ابتدائی قیادت نے مالیاتی اور صنعتی ادارے قائم کیے۔

ملک نے صنعتی ڈھانچے کی تعمیر میں نمایاں تیزی دکھائی، PIDC نے ۱۹۵۲ء سے شروع ہونے والے دور میں معیشت کے اہم شعبوں جیسے کھاد، سیمنٹ، کیمیکلز، چینی، دوا سازی، ٹیکسٹائل، کاغذ، اُون اور جوٹ میں ۹۴ صنعتی یونٹ قائم کیے۔ مغربی پاکستان میں ۷۳ اور مشرقی پاکستان میں ۲۱ یونٹ قائم کیے گئے۔ مغربی پاکستان کے ۷۳ یونٹوں میں سے ۲۹ پنجاب، ۱۹سندھ، ۱۷شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) اور ۸ بلوچستان کے علاقوں میں واقع تھے۔ نجی شعبے نے زیادہ تر کراچی میں صنعتیں قائم کیں، یہ بندرگاہی شہر انفراسٹرکچر کی دستیابی اور ایک نمایاں صنعتی افرادی قوت کی موجودگی کے باعث نجی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پُرکشش تھا۔ کراچی پاکستان کا صنعتی اور اقتصادی مرکز ہونے کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم ۲۰۱۹ء کے Global Livability Index کے مطابق، کراچی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے معیار میں اب تنزلی پا کرآخری دس شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔

ابتدائی دور میں صنعتی یونٹوں کا قیام زیادہ تر مقامی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا، تاکہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کی قلت اور برآمدات کی کمی کے پیش نظر بیرونِ ملک سے اشیاء کی درآمد میں کمی لائی جائے۔ کیونکہ مقامی مسابقت کم تھی اور درآمد شدہ اشیاء مہنگی تھیں، اس دور میں نجی کاروباری ادارو ں کے لیے سرمایہ کاری کے اچھے مواقع موجود رہے۔ نجی اور سرکاری دونوں ہی شعبوں نے نئے ملک کے لیے ضروری صنعتی بنیاد کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا۔

 بعدازاں، سرد جنگ کے ابتدائی دور میں، جب پاکستان نے مغرب کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی، تو وہاں سے مالی امداد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں زیادہ تر دیہی اور زرعی ترقی پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ شاید صنعتوں کےفروغ نہ پانے میں یہ خوف بھی کارفرما رہا ہو کہ سرد جنگ کے اس دور میں بائیں بازو کی تحاریک عام طور پر صنعتی اداروں سے متعلقہ مزدور طبقے سے منسلک سمجھی جاتی تھیں۔ مزید یہ کہ دیہی علاقوں سے فوج کے لیے بھرتیوں کو یقینی بنانا بھی پیش نظر رہا ہوگا۔ وہ علاقے جو تقسیمِ ہند کے بعد مغربی پاکستان بنے تھے، سپاہ کی فراہمی کے لیے ایک روا یتی مرکز (مارشل بیلٹ) کے طور پر جانے جاتے تھے اور دونوں عظیم عالمی جنگوں میں اس اعتبار سے اہم کردار ادا کرچکے تھے۔

صنعت کاری کے فروغ کے لیے ریاستی منصوبوں کے ساتھ نجی شعبہ بھی اہم ہوتا ہے، اور حکومت اس سرگرمی کو فروغ دینے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے اور سرکاری اداروں کے ذریعے سہولیات فراہم کرتی ہے۔ نجی صنعت کاروں کو حکومتی قرضے فراہم کرنے کی غرض سے پاکستان میں کئی سرکاری ادارے قائم کیے گئے، تاہم ساری ہی کوششیں کرپشن، اقربا پروری، قرضوں کی عدم ادائیگی اور حکومتی و سیاسی مداخلت کے باعث ناکام ہوئیں، خصوصاً چھوٹے صنعت کاروں کے لیے قرضے فراہم کرنے کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ ہو سکا۔ ان ناکامیوں کے سبب پاکستان میں نجی صنعتی سرمایہ کاری یہاں موجود روشن امکانات کے مطابق فروغ نہ پا سکی۔ یہ خلا آج بھی نجی شعبے کے کل حجم اور مصنوعات و سروسز کے معیارکے اعتبار سے موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نئے پروگرام ترتیب دیے جائیں ورنہ آج کے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز NICs ہوں یا بزنس انکیوبیشن سینٹرز (BICs) یا ان جیسے دیگر پروگرام، وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے جن سے ماضی کے سہولتی پروگرام دوچار ہوئے۔

ایک عرصے تک پاکستان میں بھاری صنعت کے حوالے سے کسی قابلِ ذکر ترقی کا آغاز نہیں ہوا۔ ایک اہم پیش رفت ۱۹۶۰ء کے دوسرے عشرے کے دوسرے نصف میں ہوئی، جب کراچی اسٹیل ملز (پاکستان اسٹیل) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ منصوبہ اشتراکی روس کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔بھاری صنعت کی جانب اگلا بڑا قدم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں چین کی مدد سے اٹھا یا گیا، جب ٹیکسلا اور کامرہ میں بھاری صنعتی کمپلیکس قائم کیے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر صنعتی ترقی دفاعی پیداوار کے میدان میں رہی۔ پاکستان نے آزادی کے فوراً بعد واہ آرڈیننس فیکٹری جیسی دفاعی پیداوار کی اہم صنعت قائم کر لی تھی۔

کئی اہم شعبوں میں فوج کے ذیلی اداروں نے قدم جمائے۔ مثلاً توانائی کے شعبے میں ماری انرجی میں فوجی فاؤنڈیشن ۴۰ فی صد کے ساتھ سب سے بڑا حصے دار ہونے کے ساتھ انتظامی اُمور پر قادر ہے۔ ایف ڈبلیو او (FWO)جو ملٹری اور سویلین انفرا اسٹکچر کے شعبے میں ایک اہم فوجی ادارہ ہے اور اب یہ ادارہ معدنیات کے شعبے میں بھی قدم رکھ چکا ہے۔ این ایل سی (NLC)ایک قومی ادارہ ہے جو ملک میں اشیاء کے نقل و حمل، لاجسٹک سروسز کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیرات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ ادارہ بھی بنیادی طور پر فوج کے زیر انتظام ہے۔ حال ہی میں ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے این ایل سی نے ڈی پی ورلڈ لاجسٹک ایف زیڈ ای کے ۶۰  فی صد حصص حاصل کرنے کے لیے ’کمپیٹیشن کمیشن پاکستان‘ (CCP)کی منظوری حاصل کر لی ہے۔ یوں اس ادارے کی توسیع کا عمل جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں این ایل سی کا ایک کرپشن سکینڈل منظرعام پر آیا جس میں فوج کے اعلیٰ افسران ملوث پائے گئے تھے۔ یہ کہانی نہ نئی ہے نہ انوکھی، دنیا کے کئی ممالک اپنے بجٹ پر دفاعی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی غرض سے عسکری اداروں کے صنعتی اور دیگر شعبوں میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں لگاتے۔ تاہم، ان اداروں میں پروفیشنلزم کو یقینی بنائے بغیر بہتر نتائج کی توقع کرنا بے سود ہے۔ مزید یہ کہ ایک مستعد مانیٹرنگ سسٹم ہی کسی ادارے کو کرپشن سے دور رکھنے میں کارگر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ ان اداروں کو اپنے اثر ورسوخ کی بنیاد پر اجارہ داری قائم کرنے کی کسی طور آزادی نہ ہو، ایک بلا امتیاز مسابقت کا ماحول سب ہی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔

’آرمی ویلفیئرٹرسٹ‘، ’فوجی فاؤنڈیشن‘، ’بحریہ فاؤنڈیشن‘ اور ’شاہین فاؤنڈیشن‘ جیسے فوج کے ذیلی اداروں کے تحت متعدد صنعتی ادارے اور منصوبے چلتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں سینیٹ کی ایک کمیٹی میں ایسے ۵۰ تجارتی اداروں کی تفصیل پیش کی گئی تھی جو ایسے اداروں کے تحت چلتے ہیں (جن میں اب یقیناً خاصہ اضافہ ہو چکا ہے)، اس میں ہاؤسنگ اسکیمیں سر فہرست ہیں۔ تفصیل کے لیے روزنامہ ڈان کی اس رپورٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر عسکری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کو چند مخصوص متعلقہ شعبہ جات میں کام کرنے کی آزادی ہو تو یہ ہماری رائے میں بہتر ماڈل ثابت ہوگا۔ دفاعی پیداواراور بعض دیگر حسّاس ادارے اس کی مثال ہیں، تاہم ان میں بھی اجارہ داری کے رجحان کو روکا جانا اور نجی شعبے کو مسابقت کے مواقع دینا قومی مفاد میں ہوگا۔ چند ایسے شعبے بھی ہیں جو سول اور عسکری دونوں میدانوں کے لیے یکساں ضروری ہیں اور ایسے شعبوں میں چین کے ملٹری سویلین فیوژن (MCF) پروگرام کی طرز کا ماڈل دونوں میدانوں میں ترقی کو تیز تر کرسکتا ہے۔ اس میں آئی ٹی، جہاز سازی، ایرو اسپیس وغیرہ کے شعبہ جات شامل ہو سکتے ہیں۔

بھاری صنعتوں میں کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ بھی ایک قابلِ ذکر صنعتی ادارہ ہے جو وزارت دفاع کے تحت ہے، جسے آزادی کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح آزادی کے بعد پاکستان کو ملنے والی لاہور کی مغلپورہ ورکشاپ بھی اہم ہے۔ پاکستان مشین ٹول فیکٹری ۱۹۶۸ء میں سویٹزرلینڈ کی ایک پرائیویٹ کمپنی کے تکنیکی تعاون سے قائم ہوئی جو پاکستان کی صنعتی بنیاد کے لیے اہم تھی۔ ۱۹۷۵ء میں اسے کمپنیز ایکٹ کے تحت پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا۔ بعد ازاں دیگر کئی اہم صنعتی اداروں کی طرح جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، پیپلز اسٹیل ملز (اپنے اسی نام کے ساتھ) شامل ہیں، ایس پی ڈی کے تحت فوج کی تحویل میں چلے گئے۔ پی آئی اے کے تحت قائم ہونے والا ادارہ پریسیشن انجینئرنگ ۲۰۲۴ء میں پاک فضائیہ کے تحت ہوگیا۔ ان اداروں کے علاوہ کئی اور سرکاری ادارے فوج کے ریٹائرڈ افسران کی زیرِ نگرانی چل رہے ہیں۔ فوجی اپنی تربیت کے اعتبار سے اچھے ایڈمنسٹریٹر تو ہو سکتے ہیں، تاہم منیجمنٹ دراصل ایڈمنسٹریشن سے مختلف میدان ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کے بہتر تکنیکی اور اقتصادی ماہرین کی قیادت اور نگرانی میں ان اداروں کو حکومتی، عسکری اور سیاسی عدم مداخلت کی شرط کے ساتھ بہت فعال اور منافع بخش ادارے بنایا جاسکتا ہے۔ غالباً فوجی قیادت نے اسی سوچ کے پیش نظر اپنے زیرانتظام چلنے والے کئی اداروں کا نظم و نسق اب پروفیشنل سویلین قیادت کو سونپ دیا ہے۔

جن بھاری صنعتی شعبوں میں خاص طور پر پاکستان پیچھے رہا، ان میں آٹوموبائل، الیکٹرونکس، مائننگ اور زرعی مشینری سے متعلقہ صنعتیں شامل ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ فہم بات ہے کہ ارضیاتی اعتبار سے بعض اہم معدنیات کے لیے موافق خطے میں موجود ہونے کے باوجود اس جانب خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلے چند برسوں میں ریکوڈک اور تھر کول کے منصوبوں میں سرکار کی جانب سے فاش غلطیوں کے سبب جب یہ منصوبے عوامی بحث کا موضوع بنے، اس کے بعد ہی معدنیات کی جانب توجہ ہوئی۔ تاہم، اب تک اس شعبے کو ایک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا جا سکا ہے اور اس سے متعلقہ صنعتیں بہت کم اور فرسودہ ہیں۔ اس بنا پر ہم اپنی بیش قیمت معدنیات کم قیمت پر خام شکل میں برآمد کر دیتے ہیں۔ ۲۰۲۵ء کی منرل پالیسی حال ہی میں پیش کی گئی ہے اور ابھی اس کے خدوخال واضح ہونا باقی ہیں۔ اس سلسلے میں صوبوں اور مرکز کے رول کو اس شعبے میں واضح ترقیاتی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے متعلقہ فورمز یعنی پارلیمنٹ اور سی سی آئی میں زیرِ بحث لانا چاہیے۔

 اس کے باوجود کہ ہمارے لیے زراعت اہم ترین میدان رہا ہے، زرعی مشینری کی پیداوار کے شعبے میں حال کوئی اچھا نہیں رہا ۔ لائیو اسٹاک اور فشریز کے شعبوں میں فوڈ پراسسنگ اور پریزرویشن کے شعبوں میں ہم کوئی خاص پیش رفت نہیں کرسکے۔ تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں پاکستان جدید کاری کی طرف پیش قدمی میں ناکام رہا ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہونے پر فخر کرتے ہیں، تاہم زرعی شعبہ جی ڈی پی میں اپنے حصے میں تنزلی کے بعد اب ۲۴ فی صد پر آ گیا ہے، جس میں سے ۵۸ فی صد حصہ لائیو اسٹاک کے ذیلی شعبے کا ہے۔ تعمیراتی شعبہ جو کسی ملک کی ترقی کے لیے اہم ترین شعبوں میں سے ہوتا ہے، جس سے کئی متعلقہ شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، فرسودہ طریقوں پرچل رہا ہے۔ ریئل اسٹیٹ جو تعمیرات سے متعلق ایک شعبہ ہے، کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ آئے دن زرعی زمین کا رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہو جانا اس کرپشن کا ایک شاخسانہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں ۲ء۸  ملین ایکڑ زرعی اراضی جو کہ کل قابلِ کاشت اراضی کا ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے رہائشی اسکیموں کی نذر ہو چکا ہے (Punjab Land Use Report 2023 اور Pakistan Bureau of Statics 2023)۔

دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ ہے جہاں ۱ء۲ ملین ایکڑ زرعی زمین رہائشی اسکیموں کی نظر ہوئی ہے۔ ہمیں مزید رہائشی منصوبوں کے لیے عمودی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی۔ مزید یہ کہ زرعی اور تعمیراتی شعبوں کی اہمیت کے پیش نظرایک طرف تو فرسودہ طور طریقوں کو تبدیل کرنا ہو گا جس میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کی کارکردگی کو جدید طرز پر استوار کرنا شامل ہے، اور دوسری طرف ایسی نئی صنعتوں کے قیام کی طرف توجہ دینا ہوگی جو دور جدید کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔

نجی صنعتی اداروں کو قومیائے کا عمل

۱۹۷۰ء کی دہائی میں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کی جانب سے ا یک بڑی تعداد میں نجی صنعتی اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے تحت کئی قومی ادارے معرضِ وجود میں آئے۔ یہ اقدامات زیادہ تر نظریاتی اور سیاسی محرّکات کے تحت کیے گئے تھے، جس میں اقتصاد ی اور سماجی پہلوؤں پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ دوسری اور نسبتاً کمزور رائے یہ ہے کہ یہ قومیانے کا عمل نظریاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ اس وقت کی مالی ضروریات کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ قومیائے جانے والی صنعتوں میں لوہا ، بنیادی دھاتیں، بھاری انجینئرنگ، بھاری برقی آلات، موٹرگاڑیاں، ٹریکٹر، پیٹروکیمیکل، سیمنٹ، بجلی اور گیس کی یوٹیلٹی کمپنیاں اورآئل ریفائنریاں بھی شامل تھیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے نیشنلائزیشن کے تجربے کیے، تاہم کامیاب تجربات ان ممالک کے رہے جہاں حکومتیں مستحکم اور ادارے مضبوط تھے۔ کئی ممالک نے اس ماڈل میں ناکامی کے بعد ڈی نیشنلائزیشن کی طرف پیش رفت کی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، یہ کوششیں تا حال جاری ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صنعتوں کے قومیانے کا عمل جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا دور میں چند کاروباری گھرانوں پر کی جانے والی سختیوں کے فوراً بعد شروع ہوا، جس میں ۲۲ صنعتی گروپوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ کاروباری گھرانے وہ تھے جو آزادی کے فوراً بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کی درخواست پر بھارتی گجرات کے علاقے اور بمبئی سے پاکستان آئے اور انھوں نے پاکستان کی ابتدائی صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 

اُس وقت بھی اور آج بھی، بڑے صنعتی گروپوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں، مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین اور ٹیکس وغیرہ کے حوالے سے ایک حد میں رکھنا ضروری تھا اور ہے۔ تاہم، کاروباری گروپو ں کو منصوبہ بندی اور ممکنہ نتائج کے اندازوں کے بغیر یوں نشانہ بنانے سے مارکیٹ میں غلط پیغامات جاتے ہیں، جس سے خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تاجر و صنعت کار منفی رجحانات کی طرف جا سکتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں دباؤ کے جواب میں اور اپنے کاروبار کے تحفّظ کے پیش نظر پاکستانی نجی کاروباری حلقوں میں دو اہم رجحانات واضح نظر آتے ہیں:

پہلا، یہ کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو گئے اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے لگے اور انھوں نے ملک میں سیاسی، سماجی و اقتصادی پیش رفت کو تشکیل دینے میں اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کے زیرِاثر اپنا کردار ادا کیا۔ یہ گٹھ جوڑ عام طور پر ملک کے لیے صحت مند نہیں رہا۔ یہ مضر گٹھ جوڑ آج تک جاری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح ہمارے ہاں عسکری اداروں کے لیے بوجوہ استعمال کی جاتی ہے، جب کہ دراصل اس میں سول بیوروکریسی بھی شامل ہے، جن میں سےکئی اپنے مفادات کے حصول اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کی جستجو میں حسبِ ضرورت فوج اور سیاسی قیادت کے آلہء کاربن جاتے ہیں۔

دوسرا رجحان پاکستانی نجی کاروباری حلقوں میں یہ پیدا ہوا کہ انھوں نے اپنی سرمایہ کاری کو مقامی سے غیر ملکی منصوبوں کی طرف منتقل کیا اور زیادہ تر سرمایہ کاری بیرون ملک کی۔ یہاں تک کہ مقامی سرمایہ کاری کے لیے بھی انھوں نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کو محفوظ راستہ جان کر اسےاختیار کیا۔ اس رجحان کے سبب، صنعتی شعبے میں پاکستان کا انحصارغیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی فراہمی پر بڑھتا چلا گیا اور اندرون ملک تحقیق، ایجاد و اختراع میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ دنیا میں وہی ممالک صنعتی ترقی میں آگے ہیں جہاں تحقیق و ترقی (R&D) پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جس کی ایک بہترین مثال جنوبی کوریا کی ترقی میں دیکھی جا سکتی ہے۔

صنعتوں کے قومیائے جانے کے بعد کاروبار کے لیے گھٹن کے ماحول میں، صنعتوں میں جدّت، تنوع اور طرزِ جدید کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ نجی کاروباری اداروں نے محفوظ کھیل کھیلا اور دوسری جانب قومیائی گئی صنعتیں حکومت کی مداخلت کا شکار ہو کر مزید مسائل کا شکار ہوتی گئیں۔ یہ بھی کہ معیار کی جانچ پڑتال کے فعال نظام کی عدم موجودگی اور سرکاری بدانتظامی نے صورتِ حال کو مزید دگرگوں کر دیا۔ مزید یہ کہ سرکاری شعبے میں بھی صنعتی ترقی کے لیے درکار سائنسی اورتکنیکی تحقیق و ترقی (R&D) کی واضح کمی رہی۔ غرض ان دو بنیادی اسباب کی بنا پر ہم بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت نہ کر سکے۔ دفاعی صنعت کے بعض شعبوں میں اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملی۔ شاید اس کی وجہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں شکست کے بعد پیدا ہونے والی ایک قومی نفسیات، دفاع وطن کا جذبہ اورعدم تحفظ کا احساس رہا ہو۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا بھی اسی احساس کا نتیجہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی سطح پر کسی جذبے اور احساس کا موجود ہونا ترقی کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے اورقوموں کے مستقبل کی تشکیل میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ 

گویا اندرونی جوہری ترقی وہ دوسرا مظہر ہے جو عوام کے فطری رجحانات پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، موجودہ دور میں IT سیکٹر پاکستانی نوجوان ورک فورس کی توجہ کا مرکز ہے، لہٰذا اس شعبے میں ترقی اور یہاں تک کہ اس سے متعلقہ دیگرشعبوں میں صنعتوں کا قیام آج ہمارے قومی ایجنڈے کا ایک اہم جز ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ جماعت اسلامی نے اسی صورتحال کے پیش نظر IT میں پیشہ ورانہ ورک فورس میں اضافے کے لیے ’بنو قابل‘ جیسے پروگرام شروع کیے ہیں۔ تاہم، اس ضمن میں حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر کام کی ضرورت ہے۔

قومی اداروں کی ناقص کارکردگی

اگرچہ ریاستی ملکیت والے ادارے(SOEs) اپنے قیام کے وقت موجود اہم معاشی اور سماجی ضروریات کے تحت قائم کیے گئے تھے، لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ طویل مدّت گزر جانے کے بعد ان میں سے اکثرادارے اپنے جیسے نجی اداروں کے مقابلے میں کارکردگی میں پیچھے رہ گئے۔ پاکستان میں ان سرکاری اداروں کی ناکامی کی بڑی وجوہ میں اعلیٰ انتظامیہ میں سول سرونٹس کا غلبہ اور وزارتوں کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ نگرانی شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ، قوم کو ان اداروں کی نااہلی کی قیمت کھربوں نہیں تو سیکڑوں ارب روپے کے نقصان کی صورت میں اٹھانی پڑی ہے۔

نااہلی کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں کے ملازمین کو نجی شعبے کے مساوی ملازمت کے مقابلے میں نرم شرائط پرملازمت فراہم کی جاتی ہے۔ دوسری طرف اوقات کار کی کمی، چھٹیوں کی زیادتی، اور اس کے ساتھ ساتھ میرٹ پر ترقی پانے کے لیے کارکردگی کی مناسب جانچ کے نظام کا فقدان وہ مسائل ہیں جو سرکاری کمپنیوں اور اداروں کو درپیش ہیں، اورانھیں حل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ ’بدانتظامی‘ ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جانا چاہیے، ورنہ مزید سرکاری ادارے بھی ماضی کی طرح کے انجام سے دوچار ہوں گے، اور ہم ایسے تمام اداروں کے لیے نجکاری کی تدابیر ڈھونڈتے پھریں گے۔ ہمیں اس مقصد کے لیے تکنیکی،مینجمنٹ، اقتصادی اور قانونی امور کے ماہرین کو اپنے اداروں میں ترجیحی بنیاد پر لیڈنگ رول ادا کرنا ہو گا، جہاں وہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے احکام پر چلنے کے بجائے پروفیشنل بنیادوں پر فیصلے کر سکیں۔ ہمارے ہاں وزارتوں میں ایسے کئی تجربہ کار افراد موجود ہیں اور جہاں ان کی کمی محسوس ہو ایسے ہنرمند افراد کی کمی نہیں اور اس سلسلے میں بیرون ملک سے بھی پروفیشنلز کو لانا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔

توانائی اور مالیات کے شعبوں میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر، مختلف شعبوں میں اکثر سرکاری ادارے خسارے میں چلتے رہے ہیں۔ ان اداروں کو ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی سے اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ڈالتے ہوئے بیل آؤٹ فراہم کر کے زندہ رکھا جاتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر، قومیائے گئے سرکاری ادارے اپنی پیداوار اور کارکردگی میں اپنے قومیائے جانے سے قبل کے دور کے مقابلے میں مسلسل تنزلی کا شکار رہے ہیں۔ وہ سرکاری ادارے جو حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے تھے، ان کی حالت بھی مختلف نہیں، کیونک وقت کے ساتھ ساتھ ان میں متعلقہ وزارتوں اور سیاستدانوں کی مداخلت میں اضافہ ہوتا گیا، جس نے ان اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا۔

مارشل لا کے اَدوار میں بالخصوص اور سول حکومتوں کے ادوار میں بھی عسکری اداروں کی بے جا مداخلت کے اثرات کم تباہ کن نہیں رہے۔ عسکری اداروں نے اپنے طور پر بھی صنعت کاری میں بھرپور حصہ لینا شروع کر دیا، جو ایک جانب ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں خلل کا سبب بنتا رہا، تو دوسری جانب ایسے اداروں کو حاصل امتیازی مراعات عوام میں بے چینی اور احساس محرومی پیدا کرتی رہیں۔ نیز نجی اور سرکاری صتعتی ادارے منصفانہ مقابلے کی فضا سے محروم رہے۔ چین کی ترقی کے ماڈل میں یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ وہاں مختلف سرکاری صنعتی اداروں کو سب کے لیے ہموار میدان میں مسابقت کرنا پڑتی ہے۔ 

اس دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کا صنعتی اور کاروباری اداروں میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس کی ذمہ داری صرف نگرانی اور ضابطہ سازی تک محدود ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ عوامی خدمت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے شعبوں میں کام کرنے والے سرکاری اداروں پر مناسب حکومتی کنٹرول رکھا جانا چاہیے۔ تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے اور اجارہ داروں اور منافع خوروں کے استحصال سے عوام الناس کو محفوظ رکھا جا سکے، ساتھ ہی ساتھ ان کی حسّاسیت کو بھی ملحوظ رکھا جا سکے۔

نجکاری: چند شعبوں سے مثالیں

نجکاری کے بعد مالیاتی شعبے نے کچھ پہلوؤں میں اپنی کارکردگی کے اعداد و شمار میں بہتری دکھائی ہے اور اپنی سروسز کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا ہے۔ تاہم، عمومی فلاح و بہبود کے حوالےسے ان کی افادیت مشکوک ہے۔ توانائی کےشعبے میں او جی ڈی سی ایل(OGDCL) اور پی پی ایل (PPL) دو مختلف منظرنامے پیش کرتےہیں۔

پاور سیکٹر میں بڑے پیمانے پر نجکاری کا پلان بنایا جا رہا ہے اور اس کے لیے کراچی الیکٹرک (KE) کی نجکاری کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اوّل تو یہ امرخود بحث طلب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ DISCOS جن کی نجکاری زیرغور ہے KE سے قدرے مختلف قسم کے ادارے ہیں، جو نہ توKE کی طرح بجلی کی پیداوار، اس کی ترسیل اور تقسیم کے تمام کاموں میں اپنی موجودگی کےسبب ایک مربوط حیثیت رکھتے ہیں اور نہ ان کے اثاثے انھیں نجکاری کے لیے موزوں میدان فراہم کرتے ہیں۔ KE دراصل اپنی تقسیم سے پہلے کے WAPDA کے ادارے کی طرح کا ایک مربوط ادارہ ہے اور اس کا موازنہ محض تقسیم و فراہمی (distribution) پر مامور DISCOS سے کرنا مناسب نہیں۔

قومی اداروں کی نجکاری کی حکمت عملی

پاکستان میں ریاستی اداروں(SOEs) کو ملک کی صنعتی اور سماجی ترقی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بنانے میں ناکامی اور ان کے قومی خزانے پر بوجھ بن جانے کے تناظر میں ۱۹۸۰ء کی دہائی سے مختلف حکومتوں نے نجکاری کو اقتصادی اصلاحات کے لیے ایک راستے کے طور پر اپنایا۔ نجکاری کے لیے منطق یہ رہی ہے کہ اس سےغیر فعالSOEs کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔ انھیں ملک کی اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنایا جائے اور حکومت پر غیر ضروری مالیاتی بوجھ کو کم کیا جائے۔ 

یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کسی صنعتی یونٹ، مالیاتی ادارے وغیرہ کی حیثیت کو تبدیل کرنا صرف ایک انتظامی فیصلہ یا مالیاتی ماہرین کے کچھ حساب کتاب کا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ اثاثے صرف زمین، مشینری اور آلات پر مشتمل نہیں ہوتے، بلکہ انسانی وسائل ان اثاثوں کا سب سے اہم اور قیمتی حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کا انتخاب درست طریقے سے کیا جائے، تربیت کی مناسب سہولیات فراہم کی جائیں، تو ایسے اقدامات ان اثاثوں کی قدر میں نمایاں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بنیادی مسئلہ انسانی وسائل (HR) سے متعلق ہے۔ جس پر توجہ ضروری ہے۔ بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے صرف قلیل مدتی اہداف یا سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے نجکاری یا قومیانے کے فیصلے کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے وسائل میں اہم ترین اس کی جواں سال ورک فورس ہو سکتی ہے، اگر اس کی تربیت اور اس کے مفاد کو خاطرخواہ اہمیت دی جائے۔ اگر نجکاری کرنا اشد ضروری ہو جائے اور نجکاری کے نتیجے میں کسی ادارے میں ملازمتوں میں کمی کا خدشہ ہو، تو ہر سطح کے کارکنان کو اسی نوع کی کسی دوسری صنعت کے لیے Retraining کے ذریعے تیار کیا جائے اور ان کے لیے روزگار کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔  

پچھلے دور میں قومیائے گئے ریاستی اداروں کو واپس نجی ملکیت میں دینے کا عمل جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران شروع ہوا اور ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر میں نجکاری کے اگلے مرحلے کی صورت تک جاری رہا۔ اس دوران زیادہ تر چھوٹے پیمانے کے فوڈ، جینگ اور رائس ہسکنگ یونٹس کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا، جو زیادہ تر سابقہ نجی مالکان کو واپس دے دیے گئے۔ تاہم، قومیانے کے بعد پیدا ہونے والے نقصانات، مشینری کے بگاڑ اور فرسودہ ہونے کی وجہ سے ان یونٹس میں سے بیش تر کو دوبارہ بحال نہیں کیا جا سکا۔

۱۹۹۰ءکی دہائی کے اوائل میں وزیراعظم نواز شریف کے دور میں نجکاری کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے، جب کہ حکومت نے ایک جامع نجکاری پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد صنعتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں سرکاری حصہ کم کرنا اور اقتصادی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ اس عمل کی نگرانی کے لیے ۱۹۹۱ء میں نجکاری کمیشن قائم کیا گیا۔ ۱۹۹۰ءکی دہائی کے اوائل کی نجکاری کی لہر کے دوران، اگرچہ نجکاری مبینہ طور پر شفاف اور نیلام کے ذریعے کی گئی تھی، تاکہ ممکنہ طور پر بدعنوانی اوراقربا پروری کو روکا جا سکے، لیکن نجکاری کا کوئی جامع منصوبہ موجود نہ تھا جو قومی معیشت میں ان یونٹس کی شمولیت اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنا سکے۔

مزید یہ کہ اس میں عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ لہٰذا، نصف سے زیادہ نجی ملکیت میں جانے والے اداروں کے مالکان نے ان کے ریئل اسٹیٹ اور دیگر کارپوریٹ اثاثے فروخت کردیے، کاروبار بند کر دیے یا پھر حاصل کیے گئے اثاثوں کو نئے کاروباری منصوبوں میں استعمال کیا۔ ہماری رائے کسی بھی ایسی نجکاری کے خلاف ہے جو ’جلدبازی‘ میں کی جائے۔ یہ بھی کہ مستقبل میں نجکاری کی کوئی بھی کوشش مکمل غور و فکر، ایوان میں مفصل بحث، تحقیق اور عوامی اثاثوں کے لیے نجکاری کے واضح اور طے شدہ راستوں کو متعین کرنے کے بعد ہی ہونی چاہیے، جن میں عوامی مفاد مقدّم ہو۔

۱۹۹۰ءکی دہائی کے وسط اور اس کے بعد ۲۰۰۰ء کےاوائل کی نجکاری کی لہروں میں مزید منظم کوششیں کی گئیں، جن میں سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ بعض ماہرین کے مطابق، بینکنگ کے انڈر پرفارمنگ اداروں اور سست رفتار سیکٹر میں نجکاری سے نئی جان ڈالی گئی۔ اس دوران میں، متعدد مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے نجی اداروں میں سرمایہ کاری کی۔ اگرچہ  بینکنگ سیکٹر نے زبردست ترقی کی، لیکن اس میں کچھ بنیادی نوعیت کی خامیاں موجود رہیں۔ اگرچہ نجکاری کے بعد بینکوں کے منافعے میں اضافہ ہوا، تاہم اسی دور میں اقتصادی ترقی کی شرح جمود کا شکار رہی۔ بینکوں نے پیداواری شعبوں کو قرض دینے کے بجائے حکومتی قرضوں میں زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری کی۔ اس دوران پرائیویٹ سیکٹر میں، بشمول زراعت SMEs کو دیا جانے والا قرضہ ۲۰۰۰ء میں جی ڈی پی کا ۲۵ فی صد تھا جو ۲۰۱۵ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد ہو گیا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ سہولتوں پر عام آدمی کے مساوی حق کو نظر انداز کرکے صرف منظور نظر سرمایہ کاروں اور دیگر سرکاری اداروں کو فیضیاب کرنے والی نجکاری کو ایک اچھی پیش رفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نجکاری وہی کامیاب سمجھی جائے گی جس کے نتیجے میں عوامی سطح کی فلاح و بہبود سامنے آئے۔

ٹیلی کام سیکٹر کا جائزہ لیں تو مرکزی ادارہ پی ٹی سی ایل پہلے جزوی نجکاری کے عمل سے گزرا، تاہم اس تبدیلی کے باوجود مختلف طرح کی حکومتی مداخلت نے کارکردگی میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں پی ٹی سی ایل نے اربوں روپے کی آمدنی حاصل کی اور تقریباً ۶۴ ہزار افراد کو روزگار فراہم کیا۔ ۲۰۰۶ء میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے تحت اس کے ۲۶فی صد حصص فروخت کر دیے گئے، جس کے ساتھ ہی انتظامی اُمور بھی اتصالات کے پاس چلے گئے، جو خود کوئی نجی کمپنی نہیں بلکہ ایک عرب ملک کی قومی کمپنی تھی۔ اس فروخت میں سے اتصالات کی طرف سے ۸۰۰ ملین ڈالر کی ادائیگی ابھی باقی ہے۔ کمپنی کے بہت سے اثاثوں کی ملکیت کے معاملات میں ابھی بھی اختلافات موجود ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر میں بیرو ن ملک سے آنے والی سرمایہ کاری جو جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں آئی ایک اچھی پیش رفت تھی، اس کے ذریعے پی ٹی سی ایل کے لیے ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوئی۔

۲۰۱۰ءکی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تحت نجکاری کے ایجنڈے کو دوبارہ زندہ کیا گیا، جس میں پاکستان اسٹیل ملز اور بجلی کی ترسیل کی کمپنیوں جیسے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا ہدف رکھا گیا، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ عمل مکمل نہ ہو سکا۔ اس دوران نجکاری کمیشن نے کچھ چھوٹے یونٹس فروخت کیے اور بینکنگ و انرجی سیکٹرز میں اپنے حصص کے کچھ حصے کو فروخت کیا۔

نجکاری کے نتائج اور چیلنجز

ہماری نظر میں نجکاری کے کامیاب اور ناکام تجربات سے سیکھنا بہت اہم ہوگا۔ اس ضمن میں مثبت اور منفی اثرات مندرجہ ذیل ہیں:

  • اقتصادی کارکردگی میں بہتری: نجکاری سے کئی شعبوں کی اقتصادی کارکردگی میں بہتری آئی۔
  • سروسز کی فراہمی میں بہتری: خدمات کی فراہمی کے معیار اور صارفین کے اطمینان میں اضافہ ہوا۔
  • غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ترغیب: نجکاری نے مختلف شعبوں میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔
  • مالی بوجھ میں کمی: خسارے میں چلنے والے ریاستی اداروں کی نجکاری نے حکومت پر مالی بوجھ کو کم کرنے میں مدد فراہم کی۔
  •  روزگار کے مواقع: نجکاری سے بعض صورتوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے، تاہم بعض اداروں میں ملازمتوں میں کمی بھی آئی، جس کے نتیجے میں بالخصوص مزدور طبقے میں بے چینی پیدا ہوئی۔
  • بدعنوانی کے الزامات اور شفافیت کا فقدان: نجکاری کے عمل پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں جس سے نجکاری پرعوام کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔
  • سیاسی مداخلت: نجکاری کے عمل میں سیاسی مداخلت اکثر اثر انداز ہوئی۔
  • قانونی فریم ورک کا فقدان: نجکاری کی مؤثر حکمت عملی کے فقدان نے عوامی مفاد کو خطرے میں ڈالا۔

ہمارا موقف ہے کہ آئندہ کسی بھی نجکاری کے عمل کو جامع تحقیق اور ایک مضبوط قانونی فریم ورک کے تحت ہی ہونا چاہیے، تاکہ بدعنوانی اور اقربا پروری سے بچا جائے اورعوام کے مفاد کو یقینی بنایا جاسکے۔

نیا منظرنامہ اور آئندہ کے امکانات 

تاریخی طور پرجماعت اسلامی کا موقف نجکاری کے حق میں نہیں رہا۔ جماعتِ اسلامی کی بنیادی تشویش عوامی فلاح و بہبود اور سرکاری اداروں میں بڑی تعداد میں ملازم افراد کے مفادات کے تحفظ سے متعلق رہی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت اسلامی نجکاری کے بعد اجارہ داری قائم ہو جانے اور بے قابو منافع خوری جیسے مسائل کے خدشات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں چینی، سیمنٹ، کھاد اور دیگر شعبوں میں چند سرمایہ کاروں کی اجارہ داری اور کارٹیل کی تشکیل سے عوامی مفادات کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔ بہرطور بدلتے ہوئے اقتصادی حقائق اور بیش تر سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کی بنا پر قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کے پیش نظر، نجکاری کو مکمل طور پر شجر ممنوعہ تو نہیں سمجھا جا سکتا، تاہم، جماعتِ اسلامی کی بنیادی تشویش بدستور ’وسیع ترعوامی مفاد کا تحفظ‘ ہی ہے۔

حال ہی (۲۰۲۴ء) میں حکومت پاکستان نے سرکاری اداروں کی نجکاری کا ایک نیا پروگرام ترتیب دیا ہے اور پہلے مرحلے میں ۲۴ سرکاری ادارے نجکاری کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، جن میں مزید ادارے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق، حکومت کو سرکاری اداروں کو چار زمروں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے:

۱- اسٹرے ٹیجک یعنی حسّاس اور کلیدی نوعیت کےادارے ۲- وہ ادارے جنھیں نجکاری کی ضرورت ہے، ۳- وہ ادارے جنھیں تنظیم نو کے بعد درمیانی مدّت میں سرکاری اداروں کے طور پر برقرار رکھا جائے گا، اور ۴-  وہ ادارے جن کی نجکاری تنظیم نو کے بعد عمل میں لا ئی جائے گی۔ 

پیش رفت یہ ہے کہ اب تک پی آئی اے کی نجکاری کی پہلی کوشش صرف اس عمل کو مزید مشکوک بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کم سے کم، اس سے حکومت کی جانب سے تیاری کا فقدان تو ظاہر ہوتا ہی ہے، جو آئندہ نجکاری کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔

نجکاری کے عمل کے لیے چند تجاویز

مختلف حکومتوں نے نجکاری کے اقدامات کا اعلان کیا اور کچھ پیش رفت بھی ہوئی۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنی پالیسی کا اعلان کیا ہے جو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ نجکاری سے متعلق فیصلے عوامی اثاثوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کو سرکاری اداروں کے ایکٹ ۲۰۲۳ء کے تحت قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجکاری کی پالیسی کے مقاصد کو عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے واضح کرے اور نجکاری کے کسی بھی اقدام کے لیے پارلیمانی منظوری کو یقینی بنائے۔

مئی ۲۰۲۴ء میں وزیراعظم شہباز شریف نے بیان دیا کہ حکومتِ پاکستان سوائے اسٹرے ٹیجک اداروں کے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کرے گی ۔ اوّل تو اس اصطلاح ’اسٹرے ٹیجک‘ کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ اس کے تحت صرف دفاعی ادارے نہیں آتے، گو کہ ہمارے ہاں اس کام کو صرف فوج ہی کا فرض سمجھا جاتا رہا ہے اور سول حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں کی ہے۔ اس بنا پر فوج میں تو اسٹرے ٹیجک پلانگ ڈویژن موجود ہے لیکن سول انتظامیہ محض پلا ننگ ڈویژن پراکتفا کرتی ہے ۔ دراصل کسی ادارے یا عمل کے اسٹرے ٹیجک ہونے یا نہ ہونے کا تعین اسٹرے ٹیجی کے وضع کیے جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے، جوطویل مدّت کے لیے ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں کے بارے میں بھی اسٹرے ٹیجی طویل مدّت کے لیے قومی اتّفاق رائے سے بنائی جانی چاہیے اورحکومتوں کی تبدیلی کے باوجود کم و بیش برقرار رہنی چاہیے۔

نجکاری کمیشن کے قوانین کو صوبائی مفادات کے تناظر میں ان کےآئینی حقوق کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کچھ اثاثے وفاقی حکومت اور صوبوں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں۔ اس معاملے میں مفادات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (CCI) ایک مناسب پلیٹ فارم ہے۔

ایسے ادارے جن سے عوام کی ایک بڑی تعداد کا مفاد وابسطہ ہے، ان کی نجکاری سے گریز کرنا بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر ٹرانسپورٹ سیکٹر میں موجود ریلوے کے قومی ادارے کی نجکاری کے بجائے اس کی تنظیمِ نو کی طرف توجہ دی جائے، جب کہ اسی سیکٹر میں ہوائی سفر کے لیے موجود قومی ہوائی کمپنی جو کہ ایک محدود طبقے کے لیے خدمات انجام دیتی ہے، اس میں ایک اچھے پی پی پی معاہدے کے تحت نجی شعبے کو شریک کیا جا سکتا ہے۔ روڈ ٹرانسپورٹ اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے نظام میں حکومت اور نجی شعبے کی مسابقت ایک اچھا ماڈل ہو سکتا ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے مخصوص حصص

تجویز ہے، کہ اس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلائی جائے، جس کے نتیجے میں ملک کو درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے:

            ۱-         بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی اور ان کے آبائی وطن کے درمیان تعلق مزید مضبوط ہوگا۔

            ۲-         بیرون ملک پاکستانی، جو پہلے ہی ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، اس اسکیم سے پاکستانی معیشت میں ان کا کردار اور بڑھ جائے گا۔

            ۳-         چونکہ وہ نئی ٹکنالوجی اور جدید کاروباری ماڈلز سے زیادہ روشناس ہیں، اس بنا پر وہ نجکاری کے لیے پیش کردہ سرکاری اداروں کو دوبارہ فعال بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیےاداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی ان کے حصص کے تناسب سے ان کا حصہ رکھا جائے۔ پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو ان ممالک اور علاقوں میں حصص کی فروخت کے عمل کا انتظام کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کا ہدف دیا جائے اور جن ممالک میں وہ موجود ہیں انھیں وہاں کے قوانین کے مطابق مالیاتی لین دین کو آسان بنانے اور دیگر انتظامی سہولیات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔

            ۴-         سرکاری اداروں کی نجکاری کی صورت میں پیش کردہ کل حصص کا جو حصہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مختص کیا جائے، اس کے حجم کا تعین نجکاری کمیشن کے ذریعے مخصوص سرکاری ادارے کی نجکاری کے وقت بحث اور ضروریات کے جائزے کے بعد کیا جائے۔

نجکاری کے لیے ایک ایسا ماڈل تشکیل دینا ضروری ہے، جس میں مارکیٹ کی قیمت سے کم پر نجکاری اورغیر شفاف لین دین سے بچا جائے۔ ملازمین کو نجکاری پروگرام سے با خبر رکھا جائے اور نجکاری کے بعد کارکردگی کی نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔

مختلف شعبو ں کے معاملات مختلف اقسام کے ہیں۔ اس لیے ان کا الگ الگ گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مثلاً پاور سیکٹر میں ’کراچی الیکٹرک‘ (KE )کی نجکاری کا جائزہ جو برقی تقسیم کاری و ترسیل کرنے والی کمپنی ہے، جب کہKAPCO بجلی کی پیداوار سے متعلق ہے۔ ان کمپنیوں کا جائزہ عوامی مفاد پر ان کی نجکاری کے بعد پڑنے والے اثرات کے اعتبار سے اور ان اداروں کی کارکردگی کی نگرا نی کے لیے ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی کی جانچ کی غرض سے لینا ضروری ہے۔ اور اسی طرح دیگر شعبہ جات جیسے کہ تیل اور گیس، ٹرانسپورٹ، آٹو موبائل وغیرہ کے لیے بھی یہی حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور نجکاری کے عمل کو ’ایک ہی چھڑی سے سب کو ہانکنے‘ کے مترادف نہ بنایا جائے، ہرادارے کےمخصوص حالات کو مد نظر رکھنا بہت اہم ہوگا۔

نجکاری کسی ایک حکومت کا کام نہیں، پوری قوم کو اسے قبول کرنا ہوگا۔ اس لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نجکاری کو فعال بنانا ضروری ہے اور اس میں حسب ضرورت اچھی شہرت رکھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا بھی اہم ہوگا۔ عوام کو اس پیش رفت سے عوامی سطح پر ماہرین کے بحث و مکالمے کے ذریعےآگاہ رکھنا ضروری ہو گا۔ اس سے ایک قومی سوچ وجود پائے گی۔ نجکاری کے بہتر اقتصادی نتائج ترقی پذیراور ترقی یافتہ ممالک میں واضح پالیسیوں کی پیروی اور شفافیت ہی سے حاصل ہوئے ہیں۔ 

آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق اوپر بیان کیے گئے مجوزہ زمروں میں سے نمبر (۳) وہ جنھیں تنظیم نو کے بعد درمیانی مدت میں سرکاری ملکیت میں برقرار رکھا جائے گا، اور (۴) وہ جن کی نجکاری تنظیم نو کے بعد کی جائے گی، کے اداروں کو نجکاری سے قبل اور درمیانی مدّت میں فعال رکھنے کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہوں گے۔ اس تناظر میں بورڈ آف ڈائریکٹرز پر حکومت کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اہم ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم ایک ایسی پالیسی وضع کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو یہ یقینی بنائے کہ:

            __        بورڈ آف ڈائریکٹرز صرف متعلقہ شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہوں۔

            __        بورڈ میں اداروں سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے قابل ماہرین کی شمولیت ہو تاکہ ادارے کی روایت اورعلم کا تسلسل برقرار رہے۔

            __        کسی بھی سرکاری عہدے پر کام کرنے والا شخص بورڈ کا حصہ نہ ہو۔

            __        بورڈ کے اراکین کا تقرر مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہو، جس میں تکنیکی اور نفسیاتی جانچ شامل ہو۔

            __        اصل مقصد مالی نقصانات کو روکنا، اقتصادی استحکام کو بڑھانا، آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرنا اور عوامی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔

حاصل بحث

پاکستان میں نجکاری کے تجربات کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا مجموعہ رہے ہیں۔ کارکردگی میں بہتری اور سرمایہ کا ری کے حصول میں کچھ کامیابیاں ضرور حاصل ہوئیں، لیکن عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے حصول میں اہم چیلنجز باقی ہیں۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے نجکاری کا ایک شفاف اور قابلِ احتساب فریم ورک تیار کرنا ہو گا۔ ریگولیٹری میکانزم کو مضبوط کرنے، اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے اور سیا سی عزم ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے ایک بہترین طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے پاکستان نجکاری کے ذریعے اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے خدمات کی فراہمی کو بہتراور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنا سکتا ہے۔

پاکستان پانی کی فراوانی و دستیابی والے ملک کے مقام سے گر کر اب پانی کی قلت والا ملک بننے کے قریب ہے اور بعض تخمینوں کے مطابق بن چکا ہے۔ دیگر ماہرین کے مطابق اگر اس سلسلے کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ۲۰۳۵ء تک یقینی طور پر پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ اس صورت حال تک پہنچنے میں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں اور آبادی میں اضافے کا حصہ ہے، وہاں اس میں ایک بہت بڑا حصہ پانی کے غیرمحتاط استعمال، اس کی ترسیل کے ناقص انتظام اور اسے ذخیرہ کرنے میں کوتاہی کا بھی ہے۔ یہی وہ پہلو ہیں جن پر اس تحریر میں ہماری توجہ مرکوز ہے۔ اس مقصد کے لیے ماضی میں تیار کی گئی متعدد رپورٹوں سے مدد لی گئی ہے، جن میں سے اکثر کی تیاری کے لیے حکومتِ پاکستان کا کوئی نہ کوئی محکمہ شامل رہا ہے۔

ہمارے تجزیے کے مطابق قابلِ عمل منصوبہ بندی اور ترجیحات کے درست تعیّن کے ذریعے صورت حال کو اب بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ملک کے تمام صوبوں کی مشاورت اور شمولیت سے اور ان کے تحفظات کو دُور کرتے ہوئے ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ ہمارے پاس ایسی دستاویزات، معاہدے، ایکٹ اور پالیسیاں موجود ہیں، جن کی بنیاد پر تعمیری پیش قدمی ممکن ہے۔ اسی طرح ہمیں ایسے فورم بھی میسر ہیں جہاں گفتگو اور تبادلۂ خیال کے ذریعے مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکتا ہے۔

تاریخی پس منظر

تاریخی طور پر وہ تہذیبیں اور شہر جو پانی کی عدم دستیابی سے اُجڑ گئے، ان کی ایک طویل فہرست ہے۔ شواہد بتاتے ہیں کہ پانی کی قلت سے جو خشک سالی پیدا ہوئی تو اس نے ان علاقوں میں زراعت کو شدید نقصان پہنچایا۔ زراعت ہی ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی زندگی اور غذائی ضروریات کے حصول کا اہم ترین ذریعہ تھی۔ اس میں خلل پڑا تو یہ بستیاں اُجڑ گئیں۔

پاکستان بننے کے بعد بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں شدید خشک سالی اور قحط جیسی صورت حال پیدا ہوتی رہی ہے، جس کی کثرت موجودہ صدی میں بڑھ گئی ہے۔ مثلاً، پاکستان کی تاریخ کی شدید ترین خشک سالی صوبہ بلوچستان میں ۲۰۰۰ء اور ۲۰۰۲ء کے دوران ہوئی اور یہی صورت حال ۲۰۱۳ء-۲۰۱۴ء میں صوبہ سندھ کے علاقے تھرپارکر میں رہی، جب کہ ۲۰۱۸ء، ۲۰۱۹ء اور ۲۰۲۰ء میں سندھ اور بلوچستان کے کئی اضلاع خشک سالی کا شکار ہوئے۔ اس دوران، پاکستان کے موسمیاتی ادارے کے مطابق ان علاقوں میں ۲۰ سے ۳۰ فی صد بارش کی کمی رہی، جو ان علاقوں کے لیے پانی کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہے۔

دوسری جانب ہم حالیہ برسوں میں سیلابوں سے ہونے والی تباہی دیکھ چکے ہیں۔ جن میں ۲۰۲۲ء کے سیلاب میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صوبوں میں دو ہزار کے قریب اموات ہوئیں۔ مویشیوں، فصلوں اور رہائشی علاقوں کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کی تباہی کا تخمینہ ۴۰ بلین ڈالر کے لگ بھگ لگایا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۵۰ء، ۱۹۷۳ء،۱۹۹۲ء اور موجودہ صدی میں ۲۰۰۳ء، ۲۰۱۰ء، ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۲ء میں بھی سیلاب نے ملک میں تباہی مچائی۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ حالیہ برسوں میں سیلابوں کی کثرت میں اضافہ ہوا ہے، جس کا زیادہ تعلق موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے، جو ایک قابلِ تشویش اور توجہ طلب صورت حال ہے۔

پانی کی تقسیم کے اعتبار سے بین الااقوامی اور بین الصوبائی معاہدوں کی تاریخ یہ ہے کہ انڈیا کے ساتھ بہت اہم سندھ طاس معاہدہ مغربی اور مشرقی دریاؤں کی تقسیم کے سلسلے میں ۱۹۶۰ء میں ہوا، جو اب تک برقرار ہے۔ تاہم، انڈیا نے اس معاہدے پر نظرثانی کے لیے حال ہی میں دو نوٹس پاکستان کو بھیجے ہیں، جب کہ جموں و کشمیر میں پاکستان کے لیے مختص پانی پر روک لگانے کے انڈین منصوبوں کے خلاف پاکستان نےعالمی عدالت میں مقدمات دائر کر رکھے ہیں، جنھیں عدالت نے شنوائی کے لیے منظور بھی کر لیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر تبدیل یا ختم نہیں کر سکتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انڈیا اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے بین الاقوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے لابنگ کررہا ہے۔

اگرچہ انڈیا ایک کمزور پوزیشن میں ہے، کیونکہ وہ خود بھی دریائے برہماپتر کے پانی کی نسبت سے ایسی صورت حال سے دوچار ہے جیسا کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی صورت حال ہے۔ حال ہی میں چین نے دریائے برہماپتر پر ایک بڑا ڈیم بنانے کے منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ پاکستان کے بین الصوبائی معاہدوں میں اہم اور نافذ العمل معاہدہ ۱۹۹۱ء کا پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے، جس میں چاروں صوبوں کا حصہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ صوبوں کے درمیان اس معاہدے کے نفاذ سے متعلق بعض اوقات اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں، تاہم ان اختلافات کو ٹکنالوجی، جدید مانیٹرنگ سسٹم اور واٹر آڈٹ کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان نے جب ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا تو مغربی پاکستان کی آبادی ۳ کروڑ ۳۰ لاکھ تھی، جو بڑھ کر ۲۰۲۵ء میں ۲۵کروڑ ۴۰ لاکھ ہوجائے گی۔ یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ فی کس پانی کی دستیابی میں وقت کے ساتھ ساتھ بڑی کمی آئی ہے۔ ۹۵ فی صد تک پانی زراعت پر صرف ہوتا ہے۔ زرعی شعبہ ۱۹۵۰ء کے عشرے میں جی ڈی پی میں اپنے حصے کے حساب سے ۵۳  فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچا، اور اس کے بعد تنزلی کا سفر طے کر کے اب ۲۴-۲۳ فی صد کے درمیان پہنچ گیا ہے (اکنامک سروے آف پاکستان ۲۰۲۴ء) ۔ اسی طرح زرعی اجناس کی برآمد ابتداء میں کل برآمد کا تقریباً ۹۹  فی صد تھی، جو ۹۰  فی صد زرِ مبادلہ کمانے کا ذریعہ تھی۔ تاہم، اب بھی پاکستان کی ۷۰ فی صد برآمدات بالواسطہ یا براہِ راست زراعت سے منسلک ہیں۔ اس طرح یہ شعبہ یقیناً ملک کے لیے بہت اہم ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرسودہ طریقوں سے جاری کاشت کاری کے باعث ایک جانب تو ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہے، ساتھ ہی پانی کے غیرمؤثر اور بلا ضرورت استعمال اور فراہمی آب کے ناقص نظام کے سبب پانی کی ایک بڑی مقدار ضائع ہوتی رہی ہے۔ فصلوں کے لیے پانی کے استعمال میں جدید سائنسی معلومات اور طریقوں کو اختیار کر کے جو کمی لائی جا سکتی تھی وہ ہم نہیں لاسکے۔ اگرچہ ہم اپنے نہری نظام کی وسعت پر تو فخر کرتے ہیں، جو صدیوں پرانا ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا گیا ہے، لیکن ان نہروں کو پختہ کرنے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ کچی نہروں کے کناروں اور تہوں سے رس کر پانی کی ایک بہت بڑی مقدار ضائع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس طرح پانی کا ایک حصہ زیرزمین آبی ذخیروں کو قائم رکھنے میں بھی صرف ہوتا ہے۔ اسی طرح نہروں اور آبی ذخیروں سے سورج کی شعاعوں سے بخارات بن کر بھی پانی کا ایک حصہ اُڑ جاتا ہے۔ کئی علاقوں میں اس طرح پانی ضائع ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے جن میں بلوچستان سرِ فہرست ہے، جہاں تاریخی طور پر کاریزوں کے زیرِ زمین نظام کے ذریعے اس پر قابو پایا جاتا تھا۔ آج کے دور میں یہ ہدف آبی ذخیروں پر فلوٹنگ شمسی پینل لگا کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پیدا ہونے والی بجلی کو مین گرڈ سے دُور علاقوں میں استعمال کے لیے مہیّا بھی کیا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی پانی کے ضیاع میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ایک نسبتاً کم خرچ حل ان ذخائر پر فلوٹنگ پلاسٹک گیندوں کو پھیلاکر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

یہاں اس چیلنج کو حل کرنے کی تجاویز پیش کی جاتی ہیں:

پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش

پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں کی کل تعداد ۱۵۰ ہے۔ ایک تقابلی جائزے کے لیے، انڈیا میں ایسے ڈیموں کے تعداد ۵۳۰۰ ہے، جب کہ سیکڑوں ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ چین میں ڈیموں کی تعداد ۲۸ہزار ۹سو ہے۔ پاکستان میں ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ۳۰ دن، جب کہ انڈیا میں ۱۲۰ دن کی ہے۔ پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش زیر تعمیر ڈیم منصوبوں کے مکمل ہونے کے بعد تقریباً ۱۳ ملین ایکڑ فٹ سے بڑھ کر تقریباً ۲۴ ملین ایکڑ فٹ ہوجائے گی۔ ان منصوبوں میں دیامر- بھاشا ڈیم سب سے بڑا ہے، جس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ۸ء۲ملین مکعب فٹ ہوگی اور ۴۵۰۰ میگاواٹ بجلی بھی یہاں سے پیدا کی جا سکے گی۔ پاکستان میں اکثر ڈیم کثیرالمقاصد ہیں،  جن کی افادیت میں پانی ذخیرہ کرنے کے علاوہ، بجلی پیدا کرنا، سیلاب سے بچاؤ وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مستقبل میں بننے والے ڈیموں میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو شامل کرنا موجودہ حالات اور مستقبلِ قریب کے تناظر میں بحث طلب ہے۔

پچھلے چند عشروں میں ہماری حکومت کی ناقص منصوبہ سازیوں کے سبب ہم کبھی ’آئی پی پیز‘ (IPPs)کے جال میں پھنس گئے اور کبھی ایل این جی (LNG) جیسے قیمتی سرمائے (ایندھن) کو بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمد (Import) کرنے کے لیے ناقابلِ تصور شرائط سے بُنے معاہدوں میں جکڑے گئے۔ پھر یہ بھی کہ ہم اس مہنگی بجلی کے استعمال کے وسیلے سے صنعتی ترقی بھی نہ کرسکے۔ اب ان معاہدوں سے نکلنے کی کوششوں میں مختلف وجوہ کے سبب خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوپارہی۔ چنانچہ ہم اس صورتِ حال سے دوچار ہیں کہ ہم آج بھی اپنی ضرورت سے تقریباً دوگنی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور زیرِ تعمیر منصوبے، جن میں دیامیر- بھاشا ڈیم اہم ہے، اس صلاحیت کو دُگنا کر دیں گے۔ بجلی کی پیداوار کو مؤخر کر کے اگر ان ڈیموں کی تعمیر کے کل اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہو تو ایسا کرنا مناسب ہو گا۔ کم از کم مستقبل قریب کے لیے تجویز کردہ منصوبوں کے لیے اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ ہمیں فی الحال بجلی پیدا کرنے کے مزید منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے، اس کے باوجود کہ پن بجلی ایک سستی اور ماحولیاتی اعتبار سے محفوظ ذریعۂ توانائی ہے۔

پانی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت میں اضافے، پانی کی قلت کی رواں صورت حال اور اس کے مستقبل کے اندازوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کو مزید آبی ذخیروں کی ضرورت ہے۔ تاہم، یہ سوال اہم ہے کہ کیا ہم بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے متحمل بھی ہیں؟ دیامر- بھاشا ڈیم جو کہ پانی کا ایک بڑا ذخیرہ تخلیق کرے گا، پاکستان اس منصوبے کے لیے منظوری دے چکا اور اس کا پابند ہے۔ مزید آبی ذخائر کے لیے چھوٹے ڈیموں پر توجہ دینا ایک بہتر راستہ ہوگا، جن کے لیے صوبہ جات میں متعدد مقامات کی نشاندہی کی جا چکی ہے۔ چھوٹے ڈیم اور آبی ذخائر نسبتاً کم قیمت پر اور قلیل مدّت میں تعمیر کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہماری تجویز ہے کہ تمام صوبے ۱۹۹۱ء کے بین الصوبائی معاہدے کے تحت اپنے متعین شدہ فی صد حجم کی مناسبت سے پانی ذخیرہ کرنے کے انتظامات کریں، تاکہ موسمیاتی تغیرات وغیرہ سے پیدا ہونے والی کمی اور آبادی میں اضافے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اضافی ضروریات کو ان ذخائر سے حسب ضرورت پورا کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت اس مقصد کے لیے کل اضافی مقدار کا تعین کرے، صوبے اپنے اپنے حصے کا پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت میں اضافے کے لیے کم از کم اپنے مجوزہ حصے کے ہدف کو حاصل کرنے کے پابند ہوں۔

 ڈیموں کے جہاں کچھ نقصانات ہیں اور ان سے بچاؤ کی تدابیر ضروری ہیں، وہاں ان کی افادیت کی فہرست طویل ہے، جس میں مچھلیوں کی افزائش، سیاحت کا فروغ اور ان کے آبی ذخائر کی تہہ میں معدنیات کے ذخائر (placer deposits) سے لے کر اس مٹی کی زرخیزی سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس بناء پر بڑی تعداد میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کی طرف توجہ دی جانی چاہیے۔ یہاں تک کہ دریائوں اور ندی نالوں کے ساتھ ساتھ موجود آبادی کے اشتراک سے  حکومتی سرپرستی میں چھوٹے چھوٹے آبی ذخائر بنانے کے رجحان کو بھی فروغ دیا جائے۔ ہماری نظر میں، ہر وہ منصوبہ جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد شامل ہو، وہ انفرادی اور قومی سطح کے فوائد حاصل کرنے کے لیے زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ ایسے منصوبوں کی طرف خصوصی توجہ دینا ہمارے لیے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل درآمد سے زیادہ بہتر نتائج کا ذریعہ ثابت ہو گا۔

مزید یہ کہ زیرزمین پانی کے ذخائر کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر ’الیکٹرک ری سسٹیویٹی سروے‘  (Electric Resistivity Survey) اور اس قسم کے دیگر طریقوں کا بھرپور استعمال کیا جائے۔ خاص طور پر بارانی اور ریگستانی علاقوں میں اس قسم کے سروے اور ’ہائیڈرلوجک ماڈلنگ‘ سے مدد لے کر زیرزمین پانی کے ذخائر کے مناسب استعمال کی منصوبہ سازی کی جائے۔ ایسا کرنے سے دریائی پانی کی قلّت کے پیش نظر اس پر انحصار کو کم کیا جاسکے گا۔ چولستان جیسے علاقوں میں دریا کی پرانی گزرگاہیں زیرزمین پانی کی تلاش کے لیے موزوں علاقے ہوسکتے ہیں۔

مجوزہ اقدامات

اس مسئلے سے جڑے ایک اہم سوال پر غور و خوض ضروری ہے، اور وہ یہ کہ شعبۂ زراعت کے لیے مستقبل میں پانی کی کتنی ضرورت ہوگی؟ یہ بھی کہ اس ضمن میں ایسی کون سی نئی راہیں ہیں جنھیں اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ پانی کی متوقع ضرورت کو پورا کیا جا سکے؟ مختلف تخمینے بتاتے ہیں کہ زراعت کے لیے کل پانی کا ۹۰ سے ۹۵  فی صد کاشت کاری کے لیے نہری نظام کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے، مگر اس میں سے ۵۰ سے ۶۰  فی صد ضائع ہو جاتا ہے، جس کی بعض وجوہ اُوپر بیان کی گئی ہیں۔ مقدار کے حساب سے یہ ضائع ہونے والا پانی ۶۰ سے ۷۰ ملین ایکڑ فٹ بنتا ہے۔ اس ضیاع کو جس قدر مؤثر انداز میں کم کیا جا سکے اتنا ہی قومی خزانے پر نئے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے کم بوجھ پڑے گا۔ کیونکہ یہ اقدامات نسبتاٌ کم خرچ اور بآسانی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرکے کیے جا سکتے ہیں۔ انھیں ہنگامی بنیادوں پر، بڑے پیمانے پراور بلا کسی تاخیر کے شروع کرنا ناگزیر ہے۔ ان اقدامات کی ایک فہرست درج ذیل ہے:

  • کسانوں کی آگہی اور تربیت کے لیے انتظامات، جن میں میڈیا کا بھرپور استعمال ہو، اور موبائل فون سروس کو اس مقصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کیا جائے۔ اس میں پانی کے مناسب استعمال کی طرف ترغیب دی جائے۔ یہ بھی کہ اس سلسلے میں ایسی فصلوں کا انتخاب کیا جائے، جن سے کسانوں کی آمدنی کم نہ ہو اور جو زمین کی زرخیزی کے لیے بھی بہتر ہوں، جب کہ ان کے لیے پانی کی ضروریات کم ہوں۔
  • جدید ٹکنالوجی جس سے پانی کے استعمال کو ضرورت تک محدود رکھا جا سکے، جیسا کے ڈرپ فارمنگ وغیرہ کے لیے آسان اقساط پر قرضوں کی فراہمی۔
  • پانی کی ترسیل کے نہری نظام کو ٹکنالوجی کی مدد سے بہتر بنانا، جس سے صرف ضرورت کا پانی ہی نہروں میں ڈالا جائے اوراس کا ڈیٹا ہمہ وقت ایک ڈیش بورڈ پر معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند افراد اور اداروں کے لیے میسّر ہو۔
  • ٹوٹ پھوٹ کا شکار ترسیلِ آب کا نظام بڑے پیمانے پر مرمّت اور تجدید کا متقاضی ہے، جس میں بیراجوں سے لے کر پائپ لائنوں تک، فلٹریشن پلانٹ سے لے کر ٹریٹمنٹ پلانٹ وغیرہ تک شامل ہیں۔ موجودہ ناقص نظام پانی کے ضائع ہو جانے کی بہت اہم وجہ ہے۔
  • پانی کے ضیاع کو کم کرنے کے لیے، ان علاقوں کی نشاندہی کے بعد جہاں زیادہ ضرورت ہو، وہاں ترجیحی بنیاد پر جھیلوں پہ فلوٹنگ شمسی پینلوں کی تنصیب ایک بہتر طریقہ ہے، جس کے ذریعے بخارات بن کر اُڑ جانے والے پانی کی مقدار میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ جھیلوں اور کہیں کہیں نہروں کے بعض حصوں پر شمسی پینلوں کی تنصیب سے پیدا ہونے والی بجلی کو کسانوں کے گھروں اور بجلی سے چلنے والے ٹریکٹروں اور دیگر زرعی مشینری کے لیےاستعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • اُوپر بیان کردہ طریقہ نہروں کے مقابلے میں جھیلوں کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ جھیلوں پر نسبتاً کم قیمت ڈھانچا زیادہ بڑے رقبے کے لیے کافی ہوتا ہے،جب کہ نہروں پر ایسے انتظام میں زیادہ لاگت آتی ہے۔ اس بنا پر نہروں کے لیے پانی کو بخارات بن کر ضائع ہونے سے بچانے کے لیے صرف ایچ ڈی پی ای فلوٹنگ شیٹ یا فلوٹنگ گیندوں کی تنصیب جیسا کہ دنیا میں کئی مقامات پر کیا جا رہا ہے، جو ایک نسبتاً کم لاگت والا طریقہ ہے، جسے منتخب مقامات پر استعمال کرکے پانی کے ضیاع میں خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔
  • جہاں پر پانی زیرِ زمین ذخیروں تک نہیں پہنچتا اور رس کر ضائع ہو جاتا ہے، وہاں نہروں کے پختہ کرنے کا کام ترجیحی طور پر کیا جائے، جب کہ بعض صورتوں میں پانی چوسنے والے کنوئیں کھودے جائیں۔ ایسے کنوئیں نہ صرف دیہی علاقوں میں نہروں کے کناروں پر بلکہ شہروں کے لیے بھی زیرِ زمین پانی کے ذخیروں کو ریچارج کرنے کے لیے مؤثر ہو سکتے ہیں۔
  • دریائے سندھ کے ڈیلٹا تک پانی کی بقدرِ ضرورت ترسیل کو مرکز اور صوبوں کے تعاون سے یقینی بنایا جائے۔ تاکہ سمندری حیات اور ماحول کا تحفظ کیا جا سکے اورڈیلٹا سے متصل علاقوں میں سمندری پانی کے زمین کی طرف آنے کو روکا جا سکے، جو قابلِ کاشت زمین کے تباہ ہونے کا سبب بنتا ہے۔
  • شہری آبادی اگرچہ دریائی پانی کا بہت کم حصہ استعمال کرتی ہے، تاہم اس میں بھی ری سائیکلنگ اور واٹر کنزرویشن کے دیگر طریقوں سے جن میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اور اسے  زیرِ زمین پانی کے ذخائر کو قائم رکھنے اور اس کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کرنا شامل ہے۔ ان طریقوں کو شہری میونسپل کارپوریشنوں کے لیے ہدف مقرر کرکے پانی کے ضیاع میں کمی لائی جائے۔ نیز یہ کہ کراچی سمیت صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ نصب کیے جائیں۔ اس طرح کے انتظامات پر آنے والے اخراجات میں حالیہ برسوں میں خاصی کمی آئی ہے اور ٹکنالوجی بہتر ہونے کے ساتھ سستی بھی ہوگئی ہے۔

اس مضمون میں ایسی بہت سی تفصیلات شامل نہیں کی گئیں، جنھیں انٹرنیٹ پر موجود رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں مختلف مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ یہاں پر صرف پاکستان کے مخصوص اقتصادی حالات سر فہرست ہیں، اور منصوبوں کے قابلِ عمل ہونے کے اعتبار سے ترجیحات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں اور ان کے حساب سے نئی ترجیحات مرتب کرنی پڑتی ہیں۔ جیسے کہ آئی پی پیز وغیرہ کے مسائل سے چھٹکارا پانے کی صورت میں اور ملک کی اقتصادی صورتِ حال بہتر ہوجانے پر دوبارہ پن بجلی کے منصوبوں کی طرف توجہ کرنا، وغیرہ۔ اس بنا پر تمام مسائل اور ان سے نبردآزما ہونے کے ممکنہ طریقوں کونظر میں رکھنا ضروری ہے۔ ہماری ٹیم کی تیار کردہ جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، اس مجموعی صورت حال کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔

یہ بات امید افزا ہے کہ پاکستان میں پانی کی قلت سے متعلق خطرات کو حکومتی سطح پر، ماہرین سائنس و ٹکنالوجی نے اور سماجی مسائل پر نظر رکھنے والے اہلِ علم و دانش نے شدّت سے محسوس کیا ہے اور پچھلے چند برسوں میں اس ضمن میں تحقیق کے نتیجے میں متعدد معیاری مقالے شائع ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی ماہرین اور اداروں کا بھی اس کام میں بڑا حصہ ہے۔ مگر جو بات تشویشناک ہے وہ یہ کہ ایسی آگہی عوامی سطح پر موجود نہیں۔ اسی کمی کو پورا کرنے کے ہدف کو ہم نے مقدّم رکھا ہے۔

دو اہم سوالات

  1. کیا آج پاکستان کے لیے اپنی قابلِ کاشت زمین میں اضافہ کر کے زرعی پیداوار کو بڑھانا ایک اچھا راستہ ہے؟
  2. کیا پانی کی قلت پر قابو پانا آج ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہماری غذائی اور دیگر ضروریات بھی بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی ہماری بین الاقوامی زرعی تجارت کا میزانیہ درآمد کی جانب کئی بلین ڈالر بڑھ گیا ہے ( External Trade, Pakistan Bureau of Statistics 2023)۔

۲۰۲۳ء میں یہ خسارہ۵۵ء۲۷ بلین ڈالر تھا (Agricultural Performance Finance Division 2022-2023 )۔ یہ صورت حال اس کے باوجود رہی کہ اس سال پاکستان نے گندم اور چینی کی ریکارڈ مقدار برآمد کی۔ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زرعی پیداوارمیں اضافہ اپنی موجودہ صورت میں زرعی تجارت کے خسارے کو کم کرنے میں مؤثر ثابت نہیں ہو رہا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے، کہ پاکستان کی کل برآمدات میں ۷۰  فی صد حصہ براہِ راست زرعی پیداوار اور اس سے وابستہ اشیاء کا ہے۔ یہ صورت حال درج ذیل اقدامات کا تقاضاکرتی ہے:

  • زرعی پیداوار اوراس سے وابستہ برآمدات اپنی موجودہ صورت میں غالباً ایسا ذریعہ نہیں جس سے بین الاقوامی تجارتی خسارہ مؤثر طور پر کم کیا جاسکے۔ اس بنا پرہمیں برآمدات کے لیے اپنی ترجیحات کو درست کرنا ہوگا۔
  • زراعت میں ایسی فصلوں کا انتخاب کرنا ہوگا جن کی دنیا میں مانگ زیادہ ہو، اور یہ ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ اس بنا پر دنیا کے حالات پر نظر رکھتے ہوئےایک جامع حکمتِ عملی کے تحت ہر سال کے اہداف مقرر کرنے ہوں گے اور ان کی طرف مؤثرانداز میں کسانوں کو اپنی ترجیحات متعین کرنے پر ترغیب دلانا ہوگی۔ اس سلسلے میں دیگر ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ موبائل فون کسانوں سے مسلسل رابطے اور ان کے لیے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ ہوسکتا ہے۔
  • فی ایکڑ پیداوار میں خاطرخواہ اضافہ کرنا ہوگا۔ آج ہم اس میدان میں اپنے قریبی ممالک چین اور انڈیا سے پیچھے ہیں۔ اس ضمن میں چین کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین کی یہ برتری، جدید زرعی ٹکنالوجی کے استعمال، پانی کے مؤثر استعمال اور حکومتی مراعات کی بنا پر ہے۔ تاہم، ہمارے لیے جی ایم پراڈکٹس سے دُور رہ کر پیش رفت کرنا مناسب ہوگا، کیونکہ اس معاملے میں پاکستان چین، انڈیا اور دیگر کئی ممالک سے بہتر مقام پر ہے۔ اسی بنا پر یورپی ممالک میں پاکستانی زرعی اجناس کی مانگ بڑھتی رہی ہے۔ یہ بھی کہ فی ایکڑ پیداوار اور مجموعی پیداوار میں اضافے کے لیے بیرونی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے ’کارپوریٹ فارمنگ‘ کے مقابلے میں ملکی اداروں اور نجی کمپنیوں کے تعاون سے ’کوآپریٹو فارمنگ‘ کے ماڈل کو آگے بڑھایا جائے، تاکہ شعبہ زراعت میں بین الاقوامی انحصار کم رہے اور ثمرات چھوٹے کسانوں تک منتقل ہو سکیں۔ ترقی پذیری میں ہماری سطح کے ممالک مثلاً، کینیا، مراکش اور جنوبی افریقہ اس میدان میں کامیابیاں حاصل کرچکے ہیں۔

اُوپر بیان کیے گئے نکات کی روشنی میں قابلِ کاشت زمین میں اضافے سے پہلے ہمارے لیے موجودہ قابل کاشت زمین کی زرعی پیداوار میں اضافے اور فصلوں کے انتخاب میں بہتری لانے کے مواقع پر توجہ کرنا اہم ہو گا، جن سے زرعی تجارت کے خسارے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ مزید یہ کہ زراعت سے وابستہ مصنوعات جن میں کپاس سب سے اہم ہے۔ ان کی پیداوار، ان کی قدر بڑھانے اور زیادہ قیمتی اور قابلِ قدراشیاء کی تیاری وغیرہ پر توجہ دینا بہت فائدہ مند ہوگا۔  اس سلسلے میں ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو جدید نہج پر اٹھانے کی سعی کرنا ہوگی، تاکہ ہم محض کپاس کی بیلز اور دھاگے سے آگے بڑھ کر زیادہ قدرو قیمت والی اشیا برآمد کرسکیں۔ اس سلسلے میں حکومتی سرپرستی میں توانائی کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنانا ہماری مصنوعات کے لیے بین الاقوامی مسابقت میں اہم کردار ادا کرے گا۔

زرعی اجناس کی برآمدات کو متنوع بنانے پر توجہ دینا ہو گی تاکہ زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اُٹھایا جاسکے۔ اس سلسلے میں بتدریج زراعت پر انحصار والی معیشت سے ایک کثیرالجہت معیشت کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔ ایسا کرنا مستقبل میں پانی کی قلت کے دباؤ کو کم کرنے میں بھی معاون ہو گا۔

دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ’’کیا پانی کی قلت پر قابو پانا آج ہمارے لیے اہم ترین مسئلہ ہے؟‘‘ اگرچہ اس تحریر کے ابتدائی حصے میں اس مسئلے کی اہمیت اور شدت پر گفتگو ہو چکی ہے اور اس سے نبردآزما ہونے کے لیے چند تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔ تاہم، یہاں ہم اپنے پہلے سوال سے وابستہ گزارشات کی روشنی میں چند مزید معروضات پیش کرتے ہیں۔

اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ مستقبل قریب میں پانی کی قلت پاکستان کے لیے اہم ترین مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ بن کراُبھر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں، ایک جانب تو عوام الناس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، قومی ترقی متاثر ہو گی، اوردوسری جانب اس سے بین الاقوامی اور اندرونی تنازعات بھی سر اٹھا سکتے ہیں۔ انڈیا سے سندھ طاس معاہدے سے جڑے مسائل کا ذکر اوپر ہو چکا، جن سے نمٹنے کی تدابیر ضروری ہیں۔ پانی کی اندرونِ ملک تقسیم کے سلسلے میں ۸۰ کے عشرے میں ہم ’کالا باغ ڈیم‘ کے معاملے میں صوبوں کے درمیان کشیدگی کے شاہد ہیں۔ بعدازاں بھی اس قسم کے چھوٹے بڑے تنازعات سر اٹھاتے رہے ہیں۔ اگرچہ ان تنازعات کو ۱۹۹۱ء کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کے مطابق اور سی سی آئی جیسے فورمز پر حل کیا جانا چاہیے۔ تاہم، ہم دیکھتے ہیں کہ ان راستوں کے موجودگی کے باوجود پانی سے تعلق رکھنے والے منصوبے عوام اور میڈیا میں موضوعِ بحث بن جاتے ہیں۔ ان بحثوں کے شرکاء میں مکمل معلومات کے فقدان کے سبب بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جو عوامی سطح پر پھیل جاتی ہیں۔

اس سلسلے میں حالیہ دنوں کی مثال چولستان کا نہری منصوبہ ہے:

ہم اس منصوبے کے بارے میں چند حقائق پیش کرتے ہیں، جسے ’چولستان کنال پروجیکٹ‘ کہا جا رہا ہے، جو ’گرین پاکستان انیشیٹیو‘ کا ایک جزو ہے۔ اس کے ذریعے پہلے مرحلے میں چولستان کی ۴۵۲ ہزارایکڑصحرائی زمین کو قابلِ کاشت بنایا جائے گا اور اس منصوبے کی اہم شریان یعنی نہرچولستان ۱۷۶ کلو میٹر طویل ہو گی، جب کہ اس سے مشرق کی طرف نکلنے والی مروٹ نہر ۱۲۰ کلومیٹر طویل ہوگی، جس سے آگے چھوٹی نہروں کا ایک جال بچھایا جائے گا جو مجموعی طور پر ۴۵۲ کلومیٹرطویل ہوگا ۔ منصوبے کے اس پہلے حصے پر ۲۱۱ بلین روپے خرچ ہوں گے۔ IRSA  (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے فروری ۲۰۲۵ء میں اس منصوبے کے لیے پنجاب حکومت کو پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ دے دیا ہے، جس کی صوبہ سندھ نے مخالفت کی ہے۔ اس کے باوجود کہ موجودہ صدرِ مملکت مبینہ طور پر اس سے پہلے جولائی ۲۰۲۴ء میں اس منصوبے کی توثیق کرچکے ہیں۔ چولستان کی سیرابی کے دوسرے مرحلے میں نہری نظام کو مزید توسیع دے کر اس سے ۷۴۴ ہزار ایکٹر اضافی رقبے کو سیراب کرنے کا منصوبہ ہے۔

۲۰۲۳ءمیں ۱۰ اور ۱۴؍اگست کے درمیان سیلابی صورت حال کے باعث انڈیا نے ۸۰سے ۱۰۰ ہزار کیوسک کا ریلا ستلج اور بیاس کے مشرقی دریاؤں کے ذریعے پاکستان کی طرف چھوڑا، جس سے پاکستان کے کئی شہروں میں سیلاب سے تباہی آئی۔ تاہم، ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایسی سیلابی صورت ۳۵ برسوں میں ایک بار ہی پیدا ہوئی، جب کہ اس سے برعکس یعنی خشک سالی کی کیفیت متعدد بار سامنے آئی ہے۔ مزید یہ کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی ۲۰۱۰ء کی رپورٹ جو گلیشیروں کے پگھلنے کے بارے میں ہے، آنے والے برسوں میں پانی کی شدید قلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایسی صورت حال میں پانی کے استعمال کے بڑے منصوبوں سے اس وقت تک اجتناب بہتر ہوگا، جب تک ہم واٹر مینجمنٹ کے دیرینہ مسائل کو حل نہیں کر لیتے۔

اُوپر بیان کردہ تفصیلات کی روشنی میں مستقبل میں پانی کی دستیابی میں کمی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ایسے حالات میں قابلِ کاشت رقبے کو بڑھانے کے ایسے منصوبوں پر عمل درآمد، جن میں اضافی پانی درکار ہو گا، تشویش پیدا کرتے ہیں۔ چولستان کی سیرابی جیسے منصوبوں کو محض سیلابی پانی پر تکیہ کر کے نہیں بنایا جا سکتا۔ غرض یہ کہ چولستان میں بنائے جانے والے نہری نظام کے لیے پانی کی ضروریات کو موجودہ زرخیز زمینوں کے پانی میں کٹوتی کر کے ہی پورا کیا جا سکے گا، جہاں پہلے ہی پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ اس اضافی کٹوتی سے جنوبی پنجاب ہی نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کی تمام نہری زمینیں متاثر ہوسکتی ہیں، کیونکہ پنجاب حکومت کو اپنے طے شدہ حصے ہی میں سے یہ پانی چولستان کی سیرابی کے لیے مہیّا کرنا ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر کسی انداز میں بھی دریائے سندھ کے زیریں بہاؤ کے لیے مقرّرہ پانی کے حصے کو کم کیا جاتا ہے تو جنوبی پنجاب سے لے کر دریا کی انتہا پر موجود ڈیلٹا سے متصل اراضی تک بلکہ ڈیلٹا کی آبی حیات اور ماحولیات بھی متاثر ہوں گے۔ 

اس بحث کو سمیٹتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ، زرعی پیداوار اپنی موجودہ صورت میں زرِ مبادلہ حاصل کرنے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اس کے لیے قابلِ کاشت رقبے کو بڑھانے کے نتیجے میں ہم پانی کے استعمال میں اضافہ کریں گے اور اس اعتبار سے مزید دباؤ کی کیفیت میں آ جائیں گے۔ اس بنا پر چولستان کی سیرابی جیسے منصوبوں کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے یہ بہتر ہوگا کہ ہم اپنے پانی کے ترسیلی نظام کی مرمت اور اس کے استعمال کو جدید ٹکنالوجی کی مدد سے درست کرکے پانی کی بچت کا سامان کرنے پر توجہ دیں، اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنائیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہمیں جو اضافی پانی دستیاب ہوگا، وہ وقت قابلِ کاشت زمین میں اضافے کے لیے موزوں ہوگا۔ کیونکہ چولستان کی سیرابی جیسے منصوبے کی تکمیل میں کئی سال لگ جائیں گے، لہٰذا اس طرف سوچا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کو دو بڑے حصوں کے بجائے، چھوٹے چھوٹے کئی مراحل میں مکمل کیا جائے، اور جیسے جیسے دیگر اقدامات کے نتیجے میں پانی کی اضافی مقدار دستیاب ہوتی جائے، اسی رفتار سے یہ منصوبہ اپنی تکمیل کی طرف گامزن رہے۔ کیونکہ اس منصوبے کے بعض پہلو ہماری دفاعی ضروریات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اس پہلو کے پیشِ نظر منصوبے کی ترجیحات کو ترتیب دینا مناسب ہوگا۔

اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہوگی کہ پانی کا وہ حصہ جو ریگستان کی طرف ارسال کیا جانا ہے اور بالخصوص سیلابی پانی کو مجوزہ نہروں میں ایک عرصے تک محفوظ رکھنے کے لیے تدابیر کی جائیں، تاکہ بعدازاں وقت ِضرورت استعمال کیا جا سکے۔ اس میں پانی کو بخارات بن کر ضائع ہونے سے روکنے کی تدابیراہم ہیں۔

پاکستان کی نا قابلِ کاشت زمین کے مفید استعمال کے موضوعات پر سوچنا اور ایسے قابلِ عمل منصوبوں پر آگے بڑھنا قابلِ تحسین عمل ہوگا کہ جس سے چولستان، تھرپارکر یا تھل وغیرہ کی زمینوں کو ملک کے لیے اور ان علاقوں میں بسنے والوں کے لیے منفعت بخش بنایا جاسکے۔ ایسی کسی بھی پیش رفت کے لیے ملک کی تمام اکائیوں اور بالخصوص منصوبوں کے لیے زیرِ غور علاقوں اور منصوبوں سے متاثر ہونے والے علاقوں میں بسنے والوں کو منصوبہ بندی کے لیے مشورے میں شامل رکھا جائے اور تمام اقدامات ایک مشترکہ اور قابلِ قبول لائحہ عمل کے تحت ہی کیے جائیں۔