اسلامی تعلیمات تجارت میں بلا امتیازاورمنصفانہ مسابقت کا درس دیتی ہیں اور نجی کاروبار پر کوئی پابندی نہیں لگاتیں۔ تاہم، ان تعلیمات میں مفاد عامہ کو فوقیت حاصل ہے اور ہر وہ تجارتی ہدف اور لین دین جو ان تعلیمات سے متصادم ہو گا اور چند افراد یا کسی مخصوص گروہ کے لیے تو فائدہ مند ہو لیکن اس سے عوام کی بڑی اکثریت کے حقوق مجروح ہوتے ہوں، قابلِ گرفت ہے۔ ان متعین شدہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع کے مطابق پہلے پاکستان کے صنعتی سفر پر بات کریں گے اور ان کمزوریوں کا جائزہ لیں گے جو اس میدان میں ہمیں درپیش رہیں۔ بعد ازاں ماضی کے تجربات کی روشنی میں تجاویز پیش کی جائیں گی جن میں بالخصوص نجکاری کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔
ریاستی اداروں کی نجکاری کو دنیا کےکئی ممالک معیشت کو تقویت دینے اور معیار کو بہتر بنانے کے لیے نسخۂ کیمیا سمجھ کر اپناتے رہے ہیں۔ یہ رجحان بلا استثناء مغربی اور مشرقی بلاک کے ممالک، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک، غرض ہر طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے لیے اس ضمن میں ان ممالک کے تجربوں کی طرف دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا جو ہمارے ملک سے اپنی ترقی، اپنی معیشت کے حجم اور اپنے نظام اور اندازِ حکومت کے اعتبار سے زیادہ قریب ہوں۔ اس میں ارجنٹائن، یونان اور نائجیریا شاید ہمارے لیے موزوں مثالیں ہوں گی، بجائے اس کے کہ ہم امریکا، برطانیہ اور چین جیسے ممالک سے اپنا موازنہ کریں۔ ارجنٹائن چند سال قبل اپنے اقتصادی بحران کے سبب دیوالیہ ہو گیا تھا، جب کہ یونان یورپین یونین کے بیل آوٹ پیکج کی بنا پر دیوالیہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ ان دونوں ممالک میں بڑے پیمانے پر نجکاری کے تجربات ناکام ثابت ہوئے۔ نائجیریا اپنے تیل کے ذخائر اور پیداوار کی بناء پر نسبتاً محفوظ رہا، تاہم نجکاری کے نتیجے میں ایک عام آدمی کے حالاتِ زندگی بہتر نہ ہو سکے۔ نائجیریا اپنی ضروریات کی اکثر اشیاء درآمد کرتا ہے، اس کے اہم شہر اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں اور تیل اور گیس کا شعبہ کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ بڑے پیمانے پر پیش رفت کے باوجود اس خواب کی تعبیران تینوں ممالک نے نہیں دیکھی۔
۱۹۴۷ء میں بر صغیر کا وہ حصہ جو دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریۂ پاکستان بن کر نمودار ہوا، وہ بنیادی صنعتی ڈھانچے سے تقریباً محروم تھا۔ ۱۹۵۰ء کی دہائی میں صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں سرکاری شعبے کے ساتھ ساتھ نجی صنعت کاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ سرکاری شعبے میں نئی اور جدید صنعتوں کا قیام زیادہ تر پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کے ذریعے عمل میں آیا۔ اس وقت زیادہ تر نجی کاروباری ادارے بڑے پیمانے پر مادی اور مالی وسائل فراہم کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، جب کہ نوزائیدہ ملک میں بنیادی صنعتوں کے فقدان کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش، تجارتی سرمائے اور سروسز کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری نہیں ہو رہی تھی۔ اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے ملک کی ابتدائی قیادت نے مالیاتی اور صنعتی ادارے قائم کیے۔
ملک نے صنعتی ڈھانچے کی تعمیر میں نمایاں تیزی دکھائی، PIDC نے ۱۹۵۲ء سے شروع ہونے والے دور میں معیشت کے اہم شعبوں جیسے کھاد، سیمنٹ، کیمیکلز، چینی، دوا سازی، ٹیکسٹائل، کاغذ، اُون اور جوٹ میں ۹۴ صنعتی یونٹ قائم کیے۔ مغربی پاکستان میں ۷۳ اور مشرقی پاکستان میں ۲۱ یونٹ قائم کیے گئے۔ مغربی پاکستان کے ۷۳ یونٹوں میں سے ۲۹ پنجاب، ۱۹سندھ، ۱۷شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبرپختونخوا) اور ۸ بلوچستان کے علاقوں میں واقع تھے۔ نجی شعبے نے زیادہ تر کراچی میں صنعتیں قائم کیں، یہ بندرگاہی شہر انفراسٹرکچر کی دستیابی اور ایک نمایاں صنعتی افرادی قوت کی موجودگی کے باعث نجی سرمایہ کاروں کے لیے زیادہ پُرکشش تھا۔ کراچی پاکستان کا صنعتی اور اقتصادی مرکز ہونے کا درجہ رکھتا ہے۔ تاہم ۲۰۱۹ء کے Global Livability Index کے مطابق، کراچی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے معیار میں اب تنزلی پا کرآخری دس شہروں میں شامل ہو گیا ہے۔
ابتدائی دور میں صنعتی یونٹوں کا قیام زیادہ تر مقامی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا، تاکہ غیر ملکی زرِ مبادلہ کی قلت اور برآمدات کی کمی کے پیش نظر بیرونِ ملک سے اشیاء کی درآمد میں کمی لائی جائے۔ کیونکہ مقامی مسابقت کم تھی اور درآمد شدہ اشیاء مہنگی تھیں، اس دور میں نجی کاروباری ادارو ں کے لیے سرمایہ کاری کے اچھے مواقع موجود رہے۔ نجی اور سرکاری دونوں ہی شعبوں نے نئے ملک کے لیے ضروری صنعتی بنیاد کے قیام میں اپنا حصہ ڈالا۔
بعدازاں، سرد جنگ کے ابتدائی دور میں، جب پاکستان نے مغرب کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دی، تو وہاں سے مالی امداد کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دور میں زیادہ تر دیہی اور زرعی ترقی پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔ شاید صنعتوں کےفروغ نہ پانے میں یہ خوف بھی کارفرما رہا ہو کہ سرد جنگ کے اس دور میں بائیں بازو کی تحاریک عام طور پر صنعتی اداروں سے متعلقہ مزدور طبقے سے منسلک سمجھی جاتی تھیں۔ مزید یہ کہ دیہی علاقوں سے فوج کے لیے بھرتیوں کو یقینی بنانا بھی پیش نظر رہا ہوگا۔ وہ علاقے جو تقسیمِ ہند کے بعد مغربی پاکستان بنے تھے، سپاہ کی فراہمی کے لیے ایک روا یتی مرکز (مارشل بیلٹ) کے طور پر جانے جاتے تھے اور دونوں عظیم عالمی جنگوں میں اس اعتبار سے اہم کردار ادا کرچکے تھے۔
صنعت کاری کے فروغ کے لیے ریاستی منصوبوں کے ساتھ نجی شعبہ بھی اہم ہوتا ہے، اور حکومت اس سرگرمی کو فروغ دینے کے لیے پالیسیاں بناتی ہے اور سرکاری اداروں کے ذریعے سہولیات فراہم کرتی ہے۔ نجی صنعت کاروں کو حکومتی قرضے فراہم کرنے کی غرض سے پاکستان میں کئی سرکاری ادارے قائم کیے گئے، تاہم ساری ہی کوششیں کرپشن، اقربا پروری، قرضوں کی عدم ادائیگی اور حکومتی و سیاسی مداخلت کے باعث ناکام ہوئیں، خصوصاً چھوٹے صنعت کاروں کے لیے قرضے فراہم کرنے کا کوئی مؤثر نظام قائم نہ ہو سکا۔ ان ناکامیوں کے سبب پاکستان میں نجی صنعتی سرمایہ کاری یہاں موجود روشن امکانات کے مطابق فروغ نہ پا سکی۔ یہ خلا آج بھی نجی شعبے کے کل حجم اور مصنوعات و سروسز کے معیارکے اعتبار سے موجود ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نئے پروگرام ترتیب دیے جائیں ورنہ آج کے نیشنل انکیوبیشن سینٹرز NICs ہوں یا بزنس انکیوبیشن سینٹرز (BICs) یا ان جیسے دیگر پروگرام، وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوں گے جن سے ماضی کے سہولتی پروگرام دوچار ہوئے۔
ایک عرصے تک پاکستان میں بھاری صنعت کے حوالے سے کسی قابلِ ذکر ترقی کا آغاز نہیں ہوا۔ ایک اہم پیش رفت ۱۹۶۰ء کے دوسرے عشرے کے دوسرے نصف میں ہوئی، جب کراچی اسٹیل ملز (پاکستان اسٹیل) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ منصوبہ اشتراکی روس کی مدد سے قائم کیا گیا تھا۔بھاری صنعت کی جانب اگلا بڑا قدم ۱۹۷۰ء کی دہائی میں چین کی مدد سے اٹھا یا گیا، جب ٹیکسلا اور کامرہ میں بھاری صنعتی کمپلیکس قائم کیے گئے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ زیادہ تر صنعتی ترقی دفاعی پیداوار کے میدان میں رہی۔ پاکستان نے آزادی کے فوراً بعد واہ آرڈیننس فیکٹری جیسی دفاعی پیداوار کی اہم صنعت قائم کر لی تھی۔
کئی اہم شعبوں میں فوج کے ذیلی اداروں نے قدم جمائے۔ مثلاً توانائی کے شعبے میں ماری انرجی میں فوجی فاؤنڈیشن ۴۰ فی صد کے ساتھ سب سے بڑا حصے دار ہونے کے ساتھ انتظامی اُمور پر قادر ہے۔ ایف ڈبلیو او (FWO)جو ملٹری اور سویلین انفرا اسٹکچر کے شعبے میں ایک اہم فوجی ادارہ ہے اور اب یہ ادارہ معدنیات کے شعبے میں بھی قدم رکھ چکا ہے۔ این ایل سی (NLC)ایک قومی ادارہ ہے جو ملک میں اشیاء کے نقل و حمل، لاجسٹک سروسز کے علاوہ انفرا اسٹرکچر کی تعمیرات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ ادارہ بھی بنیادی طور پر فوج کے زیر انتظام ہے۔ حال ہی میں ایس آئی ایف سی کی کوششوں سے این ایل سی نے ڈی پی ورلڈ لاجسٹک ایف زیڈ ای کے ۶۰ فی صد حصص حاصل کرنے کے لیے ’کمپیٹیشن کمیشن پاکستان‘ (CCP)کی منظوری حاصل کر لی ہے۔ یوں اس ادارے کی توسیع کا عمل جاری ہے۔ ۲۰۱۰ء میں این ایل سی کا ایک کرپشن سکینڈل منظرعام پر آیا جس میں فوج کے اعلیٰ افسران ملوث پائے گئے تھے۔ یہ کہانی نہ نئی ہے نہ انوکھی، دنیا کے کئی ممالک اپنے بجٹ پر دفاعی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی غرض سے عسکری اداروں کے صنعتی اور دیگر شعبوں میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں لگاتے۔ تاہم، ان اداروں میں پروفیشنلزم کو یقینی بنائے بغیر بہتر نتائج کی توقع کرنا بے سود ہے۔ مزید یہ کہ ایک مستعد مانیٹرنگ سسٹم ہی کسی ادارے کو کرپشن سے دور رکھنے میں کارگر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ ان اداروں کو اپنے اثر ورسوخ کی بنیاد پر اجارہ داری قائم کرنے کی کسی طور آزادی نہ ہو، ایک بلا امتیاز مسابقت کا ماحول سب ہی کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔
’آرمی ویلفیئرٹرسٹ‘، ’فوجی فاؤنڈیشن‘، ’بحریہ فاؤنڈیشن‘ اور ’شاہین فاؤنڈیشن‘ جیسے فوج کے ذیلی اداروں کے تحت متعدد صنعتی ادارے اور منصوبے چلتے ہیں۔ ۲۰۱۵ء میں سینیٹ کی ایک کمیٹی میں ایسے ۵۰ تجارتی اداروں کی تفصیل پیش کی گئی تھی جو ایسے اداروں کے تحت چلتے ہیں (جن میں اب یقیناً خاصہ اضافہ ہو چکا ہے)، اس میں ہاؤسنگ اسکیمیں سر فہرست ہیں۔ تفصیل کے لیے روزنامہ ڈان کی اس رپورٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر عسکری سرپرستی میں چلنے والے اداروں کو چند مخصوص متعلقہ شعبہ جات میں کام کرنے کی آزادی ہو تو یہ ہماری رائے میں بہتر ماڈل ثابت ہوگا۔ دفاعی پیداواراور بعض دیگر حسّاس ادارے اس کی مثال ہیں، تاہم ان میں بھی اجارہ داری کے رجحان کو روکا جانا اور نجی شعبے کو مسابقت کے مواقع دینا قومی مفاد میں ہوگا۔ چند ایسے شعبے بھی ہیں جو سول اور عسکری دونوں میدانوں کے لیے یکساں ضروری ہیں اور ایسے شعبوں میں چین کے ملٹری سویلین فیوژن (MCF) پروگرام کی طرز کا ماڈل دونوں میدانوں میں ترقی کو تیز تر کرسکتا ہے۔ اس میں آئی ٹی، جہاز سازی، ایرو اسپیس وغیرہ کے شعبہ جات شامل ہو سکتے ہیں۔
بھاری صنعتوں میں کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ بھی ایک قابلِ ذکر صنعتی ادارہ ہے جو وزارت دفاع کے تحت ہے، جسے آزادی کے فوراً بعد قائم کیا گیا تھا۔ اسی طرح آزادی کے بعد پاکستان کو ملنے والی لاہور کی مغلپورہ ورکشاپ بھی اہم ہے۔ پاکستان مشین ٹول فیکٹری ۱۹۶۸ء میں سویٹزرلینڈ کی ایک پرائیویٹ کمپنی کے تکنیکی تعاون سے قائم ہوئی جو پاکستان کی صنعتی بنیاد کے لیے اہم تھی۔ ۱۹۷۵ء میں اسے کمپنیز ایکٹ کے تحت پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کا درجہ دے دیا گیا۔ بعد ازاں دیگر کئی اہم صنعتی اداروں کی طرح جن میں ہیوی مکینیکل کمپلیکس، پیپلز اسٹیل ملز (اپنے اسی نام کے ساتھ) شامل ہیں، ایس پی ڈی کے تحت فوج کی تحویل میں چلے گئے۔ پی آئی اے کے تحت قائم ہونے والا ادارہ پریسیشن انجینئرنگ ۲۰۲۴ء میں پاک فضائیہ کے تحت ہوگیا۔ ان اداروں کے علاوہ کئی اور سرکاری ادارے فوج کے ریٹائرڈ افسران کی زیرِ نگرانی چل رہے ہیں۔ فوجی اپنی تربیت کے اعتبار سے اچھے ایڈمنسٹریٹر تو ہو سکتے ہیں، تاہم منیجمنٹ دراصل ایڈمنسٹریشن سے مختلف میدان ہے۔ ہمارا اندازہ ہے کے بہتر تکنیکی اور اقتصادی ماہرین کی قیادت اور نگرانی میں ان اداروں کو حکومتی، عسکری اور سیاسی عدم مداخلت کی شرط کے ساتھ بہت فعال اور منافع بخش ادارے بنایا جاسکتا ہے۔ غالباً فوجی قیادت نے اسی سوچ کے پیش نظر اپنے زیرانتظام چلنے والے کئی اداروں کا نظم و نسق اب پروفیشنل سویلین قیادت کو سونپ دیا ہے۔
جن بھاری صنعتی شعبوں میں خاص طور پر پاکستان پیچھے رہا، ان میں آٹوموبائل، الیکٹرونکس، مائننگ اور زرعی مشینری سے متعلقہ صنعتیں شامل ہیں۔ یہ ایک ناقابلِ فہم بات ہے کہ ارضیاتی اعتبار سے بعض اہم معدنیات کے لیے موافق خطے میں موجود ہونے کے باوجود اس جانب خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلے چند برسوں میں ریکوڈک اور تھر کول کے منصوبوں میں سرکار کی جانب سے فاش غلطیوں کے سبب جب یہ منصوبے عوامی بحث کا موضوع بنے، اس کے بعد ہی معدنیات کی جانب توجہ ہوئی۔ تاہم، اب تک اس شعبے کو ایک انڈسٹری کا درجہ نہیں دیا جا سکا ہے اور اس سے متعلقہ صنعتیں بہت کم اور فرسودہ ہیں۔ اس بنا پر ہم اپنی بیش قیمت معدنیات کم قیمت پر خام شکل میں برآمد کر دیتے ہیں۔ ۲۰۲۵ء کی منرل پالیسی حال ہی میں پیش کی گئی ہے اور ابھی اس کے خدوخال واضح ہونا باقی ہیں۔ اس سلسلے میں صوبوں اور مرکز کے رول کو اس شعبے میں واضح ترقیاتی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے متعلقہ فورمز یعنی پارلیمنٹ اور سی سی آئی میں زیرِ بحث لانا چاہیے۔
اس کے باوجود کہ ہمارے لیے زراعت اہم ترین میدان رہا ہے، زرعی مشینری کی پیداوار کے شعبے میں حال کوئی اچھا نہیں رہا ۔ لائیو اسٹاک اور فشریز کے شعبوں میں فوڈ پراسسنگ اور پریزرویشن کے شعبوں میں ہم کوئی خاص پیش رفت نہیں کرسکے۔ تعمیراتی اور زرعی شعبوں میں پاکستان جدید کاری کی طرف پیش قدمی میں ناکام رہا ہے۔ ہم ایک زرعی ملک ہونے پر فخر کرتے ہیں، تاہم زرعی شعبہ جی ڈی پی میں اپنے حصے میں تنزلی کے بعد اب ۲۴ فی صد پر آ گیا ہے، جس میں سے ۵۸ فی صد حصہ لائیو اسٹاک کے ذیلی شعبے کا ہے۔ تعمیراتی شعبہ جو کسی ملک کی ترقی کے لیے اہم ترین شعبوں میں سے ہوتا ہے، جس سے کئی متعلقہ شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں، فرسودہ طریقوں پرچل رہا ہے۔ ریئل اسٹیٹ جو تعمیرات سے متعلق ایک شعبہ ہے، کرپشن کی آماجگاہ ہے۔ آئے دن زرعی زمین کا رہائشی منصوبوں میں تبدیل ہو جانا اس کرپشن کا ایک شاخسانہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں ۲ء۸ ملین ایکڑ زرعی اراضی جو کہ کل قابلِ کاشت اراضی کا ۱۵ سے ۲۰ فی صد ہے رہائشی اسکیموں کی نذر ہو چکا ہے (Punjab Land Use Report 2023 اور Pakistan Bureau of Statics 2023)۔
دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ ہے جہاں ۱ء۲ ملین ایکڑ زرعی زمین رہائشی اسکیموں کی نظر ہوئی ہے۔ ہمیں مزید رہائشی منصوبوں کے لیے عمودی تعمیر پر توجہ دینا ہوگی۔ مزید یہ کہ زرعی اور تعمیراتی شعبوں کی اہمیت کے پیش نظرایک طرف تو فرسودہ طور طریقوں کو تبدیل کرنا ہو گا جس میں چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کی کارکردگی کو جدید طرز پر استوار کرنا شامل ہے، اور دوسری طرف ایسی نئی صنعتوں کے قیام کی طرف توجہ دینا ہوگی جو دور جدید کے تقاضوں کو پورا کر سکیں۔
۱۹۷۰ء کی دہائی میں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کی جانب سے ا یک بڑی تعداد میں نجی صنعتی اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی کے تحت کئی قومی ادارے معرضِ وجود میں آئے۔ یہ اقدامات زیادہ تر نظریاتی اور سیاسی محرّکات کے تحت کیے گئے تھے، جس میں اقتصاد ی اور سماجی پہلوؤں پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔ دوسری اور نسبتاً کمزور رائے یہ ہے کہ یہ قومیانے کا عمل نظریاتی مقاصد کے ساتھ ساتھ اس وقت کی مالی ضروریات کے پیش نظر کیا گیا تھا۔ قومیائے جانے والی صنعتوں میں لوہا ، بنیادی دھاتیں، بھاری انجینئرنگ، بھاری برقی آلات، موٹرگاڑیاں، ٹریکٹر، پیٹروکیمیکل، سیمنٹ، بجلی اور گیس کی یوٹیلٹی کمپنیاں اورآئل ریفائنریاں بھی شامل تھیں۔ دنیا کے کئی ممالک نے نیشنلائزیشن کے تجربے کیے، تاہم کامیاب تجربات ان ممالک کے رہے جہاں حکومتیں مستحکم اور ادارے مضبوط تھے۔ کئی ممالک نے اس ماڈل میں ناکامی کے بعد ڈی نیشنلائزیشن کی طرف پیش رفت کی، جن میں پاکستان بھی شامل ہے، یہ کوششیں تا حال جاری ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صنعتوں کے قومیانے کا عمل جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا دور میں چند کاروباری گھرانوں پر کی جانے والی سختیوں کے فوراً بعد شروع ہوا، جس میں ۲۲ صنعتی گروپوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ کاروباری گھرانے وہ تھے جو آزادی کے فوراً بعد قائداعظم محمد علی جناحؒ کی درخواست پر بھارتی گجرات کے علاقے اور بمبئی سے پاکستان آئے اور انھوں نے پاکستان کی ابتدائی صنعتی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اُس وقت بھی اور آج بھی، بڑے صنعتی گروپوں کو ان کی سماجی ذمہ داریوں، مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین اور ٹیکس وغیرہ کے حوالے سے ایک حد میں رکھنا ضروری تھا اور ہے۔ تاہم، کاروباری گروپو ں کو منصوبہ بندی اور ممکنہ نتائج کے اندازوں کے بغیر یوں نشانہ بنانے سے مارکیٹ میں غلط پیغامات جاتے ہیں، جس سے خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تاجر و صنعت کار منفی رجحانات کی طرف جا سکتے ہیں۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں دباؤ کے جواب میں اور اپنے کاروبار کے تحفّظ کے پیش نظر پاکستانی نجی کاروباری حلقوں میں دو اہم رجحانات واضح نظر آتے ہیں:
پہلا، یہ کہ وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو گئے اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے لگے اور انھوں نے ملک میں سیاسی، سماجی و اقتصادی پیش رفت کو تشکیل دینے میں اسٹیبلشمنٹ کے منصوبوں کے زیرِاثر اپنا کردار ادا کیا۔ یہ گٹھ جوڑ عام طور پر ملک کے لیے صحت مند نہیں رہا۔ یہ مضر گٹھ جوڑ آج تک جاری ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح ہمارے ہاں عسکری اداروں کے لیے بوجوہ استعمال کی جاتی ہے، جب کہ دراصل اس میں سول بیوروکریسی بھی شامل ہے، جن میں سےکئی اپنے مفادات کے حصول اور کمزوریوں کی پردہ پوشی کی جستجو میں حسبِ ضرورت فوج اور سیاسی قیادت کے آلہء کاربن جاتے ہیں۔
دوسرا رجحان پاکستانی نجی کاروباری حلقوں میں یہ پیدا ہوا کہ انھوں نے اپنی سرمایہ کاری کو مقامی سے غیر ملکی منصوبوں کی طرف منتقل کیا اور زیادہ تر سرمایہ کاری بیرون ملک کی۔ یہاں تک کہ مقامی سرمایہ کاری کے لیے بھی انھوں نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں کو محفوظ راستہ جان کر اسےاختیار کیا۔ اس رجحان کے سبب، صنعتی شعبے میں پاکستان کا انحصارغیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹکنالوجی کی فراہمی پر بڑھتا چلا گیا اور اندرون ملک تحقیق، ایجاد و اختراع میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ دنیا میں وہی ممالک صنعتی ترقی میں آگے ہیں جہاں تحقیق و ترقی (R&D) پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے، جس کی ایک بہترین مثال جنوبی کوریا کی ترقی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
صنعتوں کے قومیائے جانے کے بعد کاروبار کے لیے گھٹن کے ماحول میں، صنعتوں میں جدّت، تنوع اور طرزِ جدید کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ نجی کاروباری اداروں نے محفوظ کھیل کھیلا اور دوسری جانب قومیائی گئی صنعتیں حکومت کی مداخلت کا شکار ہو کر مزید مسائل کا شکار ہوتی گئیں۔ یہ بھی کہ معیار کی جانچ پڑتال کے فعال نظام کی عدم موجودگی اور سرکاری بدانتظامی نے صورتِ حال کو مزید دگرگوں کر دیا۔ مزید یہ کہ سرکاری شعبے میں بھی صنعتی ترقی کے لیے درکار سائنسی اورتکنیکی تحقیق و ترقی (R&D) کی واضح کمی رہی۔ غرض ان دو بنیادی اسباب کی بنا پر ہم بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقت نہ کر سکے۔ دفاعی صنعت کے بعض شعبوں میں اچھی پیش رفت دیکھنے کو ملی۔ شاید اس کی وجہ ۱۹۷۱ء کی جنگ میں شکست کے بعد پیدا ہونے والی ایک قومی نفسیات، دفاع وطن کا جذبہ اورعدم تحفظ کا احساس رہا ہو۔ پاکستان کا ایٹمی قوت بن جانا بھی اسی احساس کا نتیجہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قومی سطح پر کسی جذبے اور احساس کا موجود ہونا ترقی کے لیے کتنا اہم ہوتا ہے اورقوموں کے مستقبل کی تشکیل میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔
گویا اندرونی جوہری ترقی وہ دوسرا مظہر ہے جو عوام کے فطری رجحانات پر منحصر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، موجودہ دور میں IT سیکٹر پاکستانی نوجوان ورک فورس کی توجہ کا مرکز ہے، لہٰذا اس شعبے میں ترقی اور یہاں تک کہ اس سے متعلقہ دیگرشعبوں میں صنعتوں کا قیام آج ہمارے قومی ایجنڈے کا ایک اہم جز ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے جو کہ خوش آئند ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ جماعت اسلامی نے اسی صورتحال کے پیش نظر IT میں پیشہ ورانہ ورک فورس میں اضافے کے لیے ’بنو قابل‘ جیسے پروگرام شروع کیے ہیں۔ تاہم، اس ضمن میں حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر کام کی ضرورت ہے۔
اگرچہ ریاستی ملکیت والے ادارے(SOEs) اپنے قیام کے وقت موجود اہم معاشی اور سماجی ضروریات کے تحت قائم کیے گئے تھے، لیکن اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ طویل مدّت گزر جانے کے بعد ان میں سے اکثرادارے اپنے جیسے نجی اداروں کے مقابلے میں کارکردگی میں پیچھے رہ گئے۔ پاکستان میں ان سرکاری اداروں کی ناکامی کی بڑی وجوہ میں اعلیٰ انتظامیہ میں سول سرونٹس کا غلبہ اور وزارتوں کی جانب سے غیر پیشہ ورانہ نگرانی شامل ہیں۔ وقت کے ساتھ، قوم کو ان اداروں کی نااہلی کی قیمت کھربوں نہیں تو سیکڑوں ارب روپے کے نقصان کی صورت میں اٹھانی پڑی ہے۔
نااہلی کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سرکاری اداروں کے ملازمین کو نجی شعبے کے مساوی ملازمت کے مقابلے میں نرم شرائط پرملازمت فراہم کی جاتی ہے۔ دوسری طرف اوقات کار کی کمی، چھٹیوں کی زیادتی، اور اس کے ساتھ ساتھ میرٹ پر ترقی پانے کے لیے کارکردگی کی مناسب جانچ کے نظام کا فقدان وہ مسائل ہیں جو سرکاری کمپنیوں اور اداروں کو درپیش ہیں، اورانھیں حل کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ ’بدانتظامی‘ ہے جس کو ترجیحی بنیادوں پر دور کیا جانا چاہیے، ورنہ مزید سرکاری ادارے بھی ماضی کی طرح کے انجام سے دوچار ہوں گے، اور ہم ایسے تمام اداروں کے لیے نجکاری کی تدابیر ڈھونڈتے پھریں گے۔ ہمیں اس مقصد کے لیے تکنیکی،مینجمنٹ، اقتصادی اور قانونی امور کے ماہرین کو اپنے اداروں میں ترجیحی بنیاد پر لیڈنگ رول ادا کرنا ہو گا، جہاں وہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کے احکام پر چلنے کے بجائے پروفیشنل بنیادوں پر فیصلے کر سکیں۔ ہمارے ہاں وزارتوں میں ایسے کئی تجربہ کار افراد موجود ہیں اور جہاں ان کی کمی محسوس ہو ایسے ہنرمند افراد کی کمی نہیں اور اس سلسلے میں بیرون ملک سے بھی پروفیشنلز کو لانا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
توانائی اور مالیات کے شعبوں میں چند مستثنیات کو چھوڑ کر، مختلف شعبوں میں اکثر سرکاری ادارے خسارے میں چلتے رہے ہیں۔ ان اداروں کو ٹیکس دہندگان کی محنت کی کمائی سے اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ڈالتے ہوئے بیل آؤٹ فراہم کر کے زندہ رکھا جاتا رہا ہے۔ مجموعی طور پر، قومیائے گئے سرکاری ادارے اپنی پیداوار اور کارکردگی میں اپنے قومیائے جانے سے قبل کے دور کے مقابلے میں مسلسل تنزلی کا شکار رہے ہیں۔ وہ سرکاری ادارے جو حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے تھے، ان کی حالت بھی مختلف نہیں، کیونک وقت کے ساتھ ساتھ ان میں متعلقہ وزارتوں اور سیاستدانوں کی مداخلت میں اضافہ ہوتا گیا، جس نے ان اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا۔
مارشل لا کے اَدوار میں بالخصوص اور سول حکومتوں کے ادوار میں بھی عسکری اداروں کی بے جا مداخلت کے اثرات کم تباہ کن نہیں رہے۔ عسکری اداروں نے اپنے طور پر بھی صنعت کاری میں بھرپور حصہ لینا شروع کر دیا، جو ایک جانب ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں خلل کا سبب بنتا رہا، تو دوسری جانب ایسے اداروں کو حاصل امتیازی مراعات عوام میں بے چینی اور احساس محرومی پیدا کرتی رہیں۔ نیز نجی اور سرکاری صتعتی ادارے منصفانہ مقابلے کی فضا سے محروم رہے۔ چین کی ترقی کے ماڈل میں یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ وہاں مختلف سرکاری صنعتی اداروں کو سب کے لیے ہموار میدان میں مسابقت کرنا پڑتی ہے۔
اس دلیل کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت کا صنعتی اور کاروباری اداروں میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اس کی ذمہ داری صرف نگرانی اور ضابطہ سازی تک محدود ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ عوامی خدمت اور اسٹرے ٹیجک اہمیت کے شعبوں میں کام کرنے والے سرکاری اداروں پر مناسب حکومتی کنٹرول رکھا جانا چاہیے۔ تاکہ عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے اور اجارہ داروں اور منافع خوروں کے استحصال سے عوام الناس کو محفوظ رکھا جا سکے، ساتھ ہی ساتھ ان کی حسّاسیت کو بھی ملحوظ رکھا جا سکے۔
نجکاری کے بعد مالیاتی شعبے نے کچھ پہلوؤں میں اپنی کارکردگی کے اعداد و شمار میں بہتری دکھائی ہے اور اپنی سروسز کی کارکردگی کو بھی بہتر بنایا ہے۔ تاہم، عمومی فلاح و بہبود کے حوالےسے ان کی افادیت مشکوک ہے۔ توانائی کےشعبے میں او جی ڈی سی ایل(OGDCL) اور پی پی ایل (PPL) دو مختلف منظرنامے پیش کرتےہیں۔
پاور سیکٹر میں بڑے پیمانے پر نجکاری کا پلان بنایا جا رہا ہے اور اس کے لیے کراچی الیکٹرک (KE) کی نجکاری کو ایک مثبت پیش رفت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اوّل تو یہ امرخود بحث طلب ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ DISCOS جن کی نجکاری زیرغور ہے KE سے قدرے مختلف قسم کے ادارے ہیں، جو نہ توKE کی طرح بجلی کی پیداوار، اس کی ترسیل اور تقسیم کے تمام کاموں میں اپنی موجودگی کےسبب ایک مربوط حیثیت رکھتے ہیں اور نہ ان کے اثاثے انھیں نجکاری کے لیے موزوں میدان فراہم کرتے ہیں۔ KE دراصل اپنی تقسیم سے پہلے کے WAPDA کے ادارے کی طرح کا ایک مربوط ادارہ ہے اور اس کا موازنہ محض تقسیم و فراہمی (distribution) پر مامور DISCOS سے کرنا مناسب نہیں۔
پاکستان میں ریاستی اداروں(SOEs) کو ملک کی صنعتی اور سماجی ترقی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ بنانے میں ناکامی اور ان کے قومی خزانے پر بوجھ بن جانے کے تناظر میں ۱۹۸۰ء کی دہائی سے مختلف حکومتوں نے نجکاری کو اقتصادی اصلاحات کے لیے ایک راستے کے طور پر اپنایا۔ نجکاری کے لیے منطق یہ رہی ہے کہ اس سےغیر فعالSOEs کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔ انھیں ملک کی اقتصادی ترقی میں شراکت دار بنایا جائے اور حکومت پر غیر ضروری مالیاتی بوجھ کو کم کیا جائے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ کسی صنعتی یونٹ، مالیاتی ادارے وغیرہ کی حیثیت کو تبدیل کرنا صرف ایک انتظامی فیصلہ یا مالیاتی ماہرین کے کچھ حساب کتاب کا معاملہ نہیں ہوتا۔ یہ اثاثے صرف زمین، مشینری اور آلات پر مشتمل نہیں ہوتے، بلکہ انسانی وسائل ان اثاثوں کا سب سے اہم اور قیمتی حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کا انتخاب درست طریقے سے کیا جائے، تربیت کی مناسب سہولیات فراہم کی جائیں، تو ایسے اقدامات ان اثاثوں کی قدر میں نمایاں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بنیادی مسئلہ انسانی وسائل (HR) سے متعلق ہے۔ جس پر توجہ ضروری ہے۔ بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے صرف قلیل مدتی اہداف یا سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لیے نجکاری یا قومیانے کے فیصلے کرنا درست حکمت عملی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان کے وسائل میں اہم ترین اس کی جواں سال ورک فورس ہو سکتی ہے، اگر اس کی تربیت اور اس کے مفاد کو خاطرخواہ اہمیت دی جائے۔ اگر نجکاری کرنا اشد ضروری ہو جائے اور نجکاری کے نتیجے میں کسی ادارے میں ملازمتوں میں کمی کا خدشہ ہو، تو ہر سطح کے کارکنان کو اسی نوع کی کسی دوسری صنعت کے لیے Retraining کے ذریعے تیار کیا جائے اور ان کے لیے روزگار کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔
پچھلے دور میں قومیائے گئے ریاستی اداروں کو واپس نجی ملکیت میں دینے کا عمل جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران شروع ہوا اور ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آخر میں نجکاری کے اگلے مرحلے کی صورت تک جاری رہا۔ اس دوران زیادہ تر چھوٹے پیمانے کے فوڈ، جینگ اور رائس ہسکنگ یونٹس کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا، جو زیادہ تر سابقہ نجی مالکان کو واپس دے دیے گئے۔ تاہم، قومیانے کے بعد پیدا ہونے والے نقصانات، مشینری کے بگاڑ اور فرسودہ ہونے کی وجہ سے ان یونٹس میں سے بیش تر کو دوبارہ بحال نہیں کیا جا سکا۔
۱۹۹۰ءکی دہائی کے اوائل میں وزیراعظم نواز شریف کے دور میں نجکاری کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے، جب کہ حکومت نے ایک جامع نجکاری پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد صنعتوں اور دیگر سرکاری اداروں میں سرکاری حصہ کم کرنا اور اقتصادی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ اس عمل کی نگرانی کے لیے ۱۹۹۱ء میں نجکاری کمیشن قائم کیا گیا۔ ۱۹۹۰ءکی دہائی کے اوائل کی نجکاری کی لہر کے دوران، اگرچہ نجکاری مبینہ طور پر شفاف اور نیلام کے ذریعے کی گئی تھی، تاکہ ممکنہ طور پر بدعنوانی اوراقربا پروری کو روکا جا سکے، لیکن نجکاری کا کوئی جامع منصوبہ موجود نہ تھا جو قومی معیشت میں ان یونٹس کی شمولیت اور بہتر کارکردگی کو یقینی بنا سکے۔
مزید یہ کہ اس میں عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے خاطرخواہ اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔ لہٰذا، نصف سے زیادہ نجی ملکیت میں جانے والے اداروں کے مالکان نے ان کے ریئل اسٹیٹ اور دیگر کارپوریٹ اثاثے فروخت کردیے، کاروبار بند کر دیے یا پھر حاصل کیے گئے اثاثوں کو نئے کاروباری منصوبوں میں استعمال کیا۔ ہماری رائے کسی بھی ایسی نجکاری کے خلاف ہے جو ’جلدبازی‘ میں کی جائے۔ یہ بھی کہ مستقبل میں نجکاری کی کوئی بھی کوشش مکمل غور و فکر، ایوان میں مفصل بحث، تحقیق اور عوامی اثاثوں کے لیے نجکاری کے واضح اور طے شدہ راستوں کو متعین کرنے کے بعد ہی ہونی چاہیے، جن میں عوامی مفاد مقدّم ہو۔
۱۹۹۰ءکی دہائی کے وسط اور اس کے بعد ۲۰۰۰ء کےاوائل کی نجکاری کی لہروں میں مزید منظم کوششیں کی گئیں، جن میں سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ بعض ماہرین کے مطابق، بینکنگ کے انڈر پرفارمنگ اداروں اور سست رفتار سیکٹر میں نجکاری سے نئی جان ڈالی گئی۔ اس دوران میں، متعدد مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں نے نجی اداروں میں سرمایہ کاری کی۔ اگرچہ بینکنگ سیکٹر نے زبردست ترقی کی، لیکن اس میں کچھ بنیادی نوعیت کی خامیاں موجود رہیں۔ اگرچہ نجکاری کے بعد بینکوں کے منافعے میں اضافہ ہوا، تاہم اسی دور میں اقتصادی ترقی کی شرح جمود کا شکار رہی۔ بینکوں نے پیداواری شعبوں کو قرض دینے کے بجائے حکومتی قرضوں میں زیادہ منافع بخش سرمایہ کاری کی۔ اس دوران پرائیویٹ سیکٹر میں، بشمول زراعت SMEs کو دیا جانے والا قرضہ ۲۰۰۰ء میں جی ڈی پی کا ۲۵ فی صد تھا جو ۲۰۱۵ء میں کم ہوکر ۱۶ فی صد ہو گیا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ سہولتوں پر عام آدمی کے مساوی حق کو نظر انداز کرکے صرف منظور نظر سرمایہ کاروں اور دیگر سرکاری اداروں کو فیضیاب کرنے والی نجکاری کو ایک اچھی پیش رفت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نجکاری وہی کامیاب سمجھی جائے گی جس کے نتیجے میں عوامی سطح کی فلاح و بہبود سامنے آئے۔
ٹیلی کام سیکٹر کا جائزہ لیں تو مرکزی ادارہ پی ٹی سی ایل پہلے جزوی نجکاری کے عمل سے گزرا، تاہم اس تبدیلی کے باوجود مختلف طرح کی حکومتی مداخلت نے کارکردگی میں بہتری کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں پی ٹی سی ایل نے اربوں روپے کی آمدنی حاصل کی اور تقریباً ۶۴ ہزار افراد کو روزگار فراہم کیا۔ ۲۰۰۶ء میں پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے تحت اس کے ۲۶فی صد حصص فروخت کر دیے گئے، جس کے ساتھ ہی انتظامی اُمور بھی اتصالات کے پاس چلے گئے، جو خود کوئی نجی کمپنی نہیں بلکہ ایک عرب ملک کی قومی کمپنی تھی۔ اس فروخت میں سے اتصالات کی طرف سے ۸۰۰ ملین ڈالر کی ادائیگی ابھی باقی ہے۔ کمپنی کے بہت سے اثاثوں کی ملکیت کے معاملات میں ابھی بھی اختلافات موجود ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر میں بیرو ن ملک سے آنے والی سرمایہ کاری جو جنرل مشرف کی حکومت کے دور میں آئی ایک اچھی پیش رفت تھی، اس کے ذریعے پی ٹی سی ایل کے لیے ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوئی۔
۲۰۱۰ءکی دہائی میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے تحت نجکاری کے ایجنڈے کو دوبارہ زندہ کیا گیا، جس میں پاکستان اسٹیل ملز اور بجلی کی ترسیل کی کمپنیوں جیسے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا ہدف رکھا گیا، لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر یہ عمل مکمل نہ ہو سکا۔ اس دوران نجکاری کمیشن نے کچھ چھوٹے یونٹس فروخت کیے اور بینکنگ و انرجی سیکٹرز میں اپنے حصص کے کچھ حصے کو فروخت کیا۔
ہماری نظر میں نجکاری کے کامیاب اور ناکام تجربات سے سیکھنا بہت اہم ہوگا۔ اس ضمن میں مثبت اور منفی اثرات مندرجہ ذیل ہیں:
ہمارا موقف ہے کہ آئندہ کسی بھی نجکاری کے عمل کو جامع تحقیق اور ایک مضبوط قانونی فریم ورک کے تحت ہی ہونا چاہیے، تاکہ بدعنوانی اور اقربا پروری سے بچا جائے اورعوام کے مفاد کو یقینی بنایا جاسکے۔
تاریخی طور پرجماعت اسلامی کا موقف نجکاری کے حق میں نہیں رہا۔ جماعتِ اسلامی کی بنیادی تشویش عوامی فلاح و بہبود اور سرکاری اداروں میں بڑی تعداد میں ملازم افراد کے مفادات کے تحفظ سے متعلق رہی ہے۔ مزید یہ کہ جماعت اسلامی نجکاری کے بعد اجارہ داری قائم ہو جانے اور بے قابو منافع خوری جیسے مسائل کے خدشات کو پیش نظر رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں چینی، سیمنٹ، کھاد اور دیگر شعبوں میں چند سرمایہ کاروں کی اجارہ داری اور کارٹیل کی تشکیل سے عوامی مفادات کو نقصان پہنچتا رہا ہے۔ بہرطور بدلتے ہوئے اقتصادی حقائق اور بیش تر سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کی بنا پر قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کے پیش نظر، نجکاری کو مکمل طور پر شجر ممنوعہ تو نہیں سمجھا جا سکتا، تاہم، جماعتِ اسلامی کی بنیادی تشویش بدستور ’وسیع ترعوامی مفاد کا تحفظ‘ ہی ہے۔
حال ہی (۲۰۲۴ء) میں حکومت پاکستان نے سرکاری اداروں کی نجکاری کا ایک نیا پروگرام ترتیب دیا ہے اور پہلے مرحلے میں ۲۴ سرکاری ادارے نجکاری کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، جن میں مزید ادارے شامل کیے جا سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی ہدایت کے مطابق، حکومت کو سرکاری اداروں کو چار زمروں میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے:
۱- اسٹرے ٹیجک یعنی حسّاس اور کلیدی نوعیت کےادارے ۲- وہ ادارے جنھیں نجکاری کی ضرورت ہے، ۳- وہ ادارے جنھیں تنظیم نو کے بعد درمیانی مدّت میں سرکاری اداروں کے طور پر برقرار رکھا جائے گا، اور ۴- وہ ادارے جن کی نجکاری تنظیم نو کے بعد عمل میں لا ئی جائے گی۔
پیش رفت یہ ہے کہ اب تک پی آئی اے کی نجکاری کی پہلی کوشش صرف اس عمل کو مزید مشکوک بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ کم سے کم، اس سے حکومت کی جانب سے تیاری کا فقدان تو ظاہر ہوتا ہی ہے، جو آئندہ نجکاری کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دے گا۔
مختلف حکومتوں نے نجکاری کے اقدامات کا اعلان کیا اور کچھ پیش رفت بھی ہوئی۔ موجودہ حکومت نے بھی اپنی پالیسی کا اعلان کیا ہے جو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ نجکاری سے متعلق فیصلے عوامی اثاثوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حقیقت کو سرکاری اداروں کے ایکٹ ۲۰۲۳ء کے تحت قانونی طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نجکاری کی پالیسی کے مقاصد کو عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے واضح کرے اور نجکاری کے کسی بھی اقدام کے لیے پارلیمانی منظوری کو یقینی بنائے۔
مئی ۲۰۲۴ء میں وزیراعظم شہباز شریف نے بیان دیا کہ حکومتِ پاکستان سوائے اسٹرے ٹیجک اداروں کے تمام سرکاری اداروں کی نجکاری کرے گی ۔ اوّل تو اس اصطلاح ’اسٹرے ٹیجک‘ کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ اس کے تحت صرف دفاعی ادارے نہیں آتے، گو کہ ہمارے ہاں اس کام کو صرف فوج ہی کا فرض سمجھا جاتا رہا ہے اور سول حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں کی ہے۔ اس بنا پر فوج میں تو اسٹرے ٹیجک پلانگ ڈویژن موجود ہے لیکن سول انتظامیہ محض پلا ننگ ڈویژن پراکتفا کرتی ہے ۔ دراصل کسی ادارے یا عمل کے اسٹرے ٹیجک ہونے یا نہ ہونے کا تعین اسٹرے ٹیجی کے وضع کیے جانے کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے، جوطویل مدّت کے لیے ہوتی ہے۔ سرکاری اداروں کے بارے میں بھی اسٹرے ٹیجی طویل مدّت کے لیے قومی اتّفاق رائے سے بنائی جانی چاہیے اورحکومتوں کی تبدیلی کے باوجود کم و بیش برقرار رہنی چاہیے۔
نجکاری کمیشن کے قوانین کو صوبائی مفادات کے تناظر میں ان کےآئینی حقوق کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کچھ اثاثے وفاقی حکومت اور صوبوں کی مشترکہ ملکیت میں ہیں۔ اس معاملے میں مفادات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل (CCI) ایک مناسب پلیٹ فارم ہے۔
ایسے ادارے جن سے عوام کی ایک بڑی تعداد کا مفاد وابسطہ ہے، ان کی نجکاری سے گریز کرنا بہتر ہوگا۔ مثال کے طور پر ٹرانسپورٹ سیکٹر میں موجود ریلوے کے قومی ادارے کی نجکاری کے بجائے اس کی تنظیمِ نو کی طرف توجہ دی جائے، جب کہ اسی سیکٹر میں ہوائی سفر کے لیے موجود قومی ہوائی کمپنی جو کہ ایک محدود طبقے کے لیے خدمات انجام دیتی ہے، اس میں ایک اچھے پی پی پی معاہدے کے تحت نجی شعبے کو شریک کیا جا سکتا ہے۔ روڈ ٹرانسپورٹ اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے نظام میں حکومت اور نجی شعبے کی مسابقت ایک اچھا ماڈل ہو سکتا ہے۔
تجویز ہے، کہ اس کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلائی جائے، جس کے نتیجے میں ملک کو درج ذیل فوائد حاصل ہوں گے:
۱- بیرون ملک مقیم پاکستانی کمیونٹی اور ان کے آبائی وطن کے درمیان تعلق مزید مضبوط ہوگا۔
۲- بیرون ملک پاکستانی، جو پہلے ہی ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں، اس اسکیم سے پاکستانی معیشت میں ان کا کردار اور بڑھ جائے گا۔
۳- چونکہ وہ نئی ٹکنالوجی اور جدید کاروباری ماڈلز سے زیادہ روشناس ہیں، اس بنا پر وہ نجکاری کے لیے پیش کردہ سرکاری اداروں کو دوبارہ فعال بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیےاداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بھی ان کے حصص کے تناسب سے ان کا حصہ رکھا جائے۔ پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو ان ممالک اور علاقوں میں حصص کی فروخت کے عمل کا انتظام کرنے اور سہولیات فراہم کرنے کا ہدف دیا جائے اور جن ممالک میں وہ موجود ہیں انھیں وہاں کے قوانین کے مطابق مالیاتی لین دین کو آسان بنانے اور دیگر انتظامی سہولیات فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
۴- سرکاری اداروں کی نجکاری کی صورت میں پیش کردہ کل حصص کا جو حصہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مختص کیا جائے، اس کے حجم کا تعین نجکاری کمیشن کے ذریعے مخصوص سرکاری ادارے کی نجکاری کے وقت بحث اور ضروریات کے جائزے کے بعد کیا جائے۔
نجکاری کے لیے ایک ایسا ماڈل تشکیل دینا ضروری ہے، جس میں مارکیٹ کی قیمت سے کم پر نجکاری اورغیر شفاف لین دین سے بچا جائے۔ ملازمین کو نجکاری پروگرام سے با خبر رکھا جائے اور نجکاری کے بعد کارکردگی کی نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔
مختلف شعبو ں کے معاملات مختلف اقسام کے ہیں۔ اس لیے ان کا الگ الگ گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مثلاً پاور سیکٹر میں ’کراچی الیکٹرک‘ (KE )کی نجکاری کا جائزہ جو برقی تقسیم کاری و ترسیل کرنے والی کمپنی ہے، جب کہKAPCO بجلی کی پیداوار سے متعلق ہے۔ ان کمپنیوں کا جائزہ عوامی مفاد پر ان کی نجکاری کے بعد پڑنے والے اثرات کے اعتبار سے اور ان اداروں کی کارکردگی کی نگرا نی کے لیے ریگولیٹری اداروں کی کارکردگی کی جانچ کی غرض سے لینا ضروری ہے۔ اور اسی طرح دیگر شعبہ جات جیسے کہ تیل اور گیس، ٹرانسپورٹ، آٹو موبائل وغیرہ کے لیے بھی یہی حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور نجکاری کے عمل کو ’ایک ہی چھڑی سے سب کو ہانکنے‘ کے مترادف نہ بنایا جائے، ہرادارے کےمخصوص حالات کو مد نظر رکھنا بہت اہم ہوگا۔
نجکاری کسی ایک حکومت کا کام نہیں، پوری قوم کو اسے قبول کرنا ہوگا۔ اس لیے پارلیمانی کمیٹی برائے نجکاری کو فعال بنانا ضروری ہے اور اس میں حسب ضرورت اچھی شہرت رکھنے والے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا بھی اہم ہوگا۔ عوام کو اس پیش رفت سے عوامی سطح پر ماہرین کے بحث و مکالمے کے ذریعےآگاہ رکھنا ضروری ہو گا۔ اس سے ایک قومی سوچ وجود پائے گی۔ نجکاری کے بہتر اقتصادی نتائج ترقی پذیراور ترقی یافتہ ممالک میں واضح پالیسیوں کی پیروی اور شفافیت ہی سے حاصل ہوئے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق اوپر بیان کیے گئے مجوزہ زمروں میں سے نمبر (۳) وہ جنھیں تنظیم نو کے بعد درمیانی مدت میں سرکاری ملکیت میں برقرار رکھا جائے گا، اور (۴) وہ جن کی نجکاری تنظیم نو کے بعد کی جائے گی، کے اداروں کو نجکاری سے قبل اور درمیانی مدّت میں فعال رکھنے کے لیے کچھ اقدامات ضروری ہوں گے۔ اس تناظر میں بورڈ آف ڈائریکٹرز پر حکومت کے اثر و رسوخ کو کم کرنا اہم ہوگا۔ اس سلسلے میں ہم ایک ایسی پالیسی وضع کرنے کی تجویز دیتے ہیں جو یہ یقینی بنائے کہ:
__ بورڈ آف ڈائریکٹرز صرف متعلقہ شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ہوں۔
__ بورڈ میں اداروں سے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے قابل ماہرین کی شمولیت ہو تاکہ ادارے کی روایت اورعلم کا تسلسل برقرار رہے۔
__ کسی بھی سرکاری عہدے پر کام کرنے والا شخص بورڈ کا حصہ نہ ہو۔
__ بورڈ کے اراکین کا تقرر مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر ہو، جس میں تکنیکی اور نفسیاتی جانچ شامل ہو۔
__ اصل مقصد مالی نقصانات کو روکنا، اقتصادی استحکام کو بڑھانا، آمدنی کو زیادہ سے زیادہ کرنا اور عوامی فلاح کو یقینی بنانا ہے۔
پاکستان میں نجکاری کے تجربات کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملا جلا مجموعہ رہے ہیں۔ کارکردگی میں بہتری اور سرمایہ کا ری کے حصول میں کچھ کامیابیاں ضرور حاصل ہوئیں، لیکن عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے حصول میں اہم چیلنجز باقی ہیں۔ پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے نجکاری کا ایک شفاف اور قابلِ احتساب فریم ورک تیار کرنا ہو گا۔ ریگولیٹری میکانزم کو مضبوط کرنے، اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنے اور سیا سی عزم ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے ایک بہترین طرزِ عمل کو اپناتے ہوئے پاکستان نجکاری کے ذریعے اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتا ہے اور اپنے شہریوں کے لیے خدمات کی فراہمی کو بہتراور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنا سکتا ہے۔