خدا کا وجود اور مذہب انسانوں میں صدیوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔ اس ضمن میں کوریا کی ایک معروف یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر اور ان کی ایک طالبہ کا مکالمہ یہاں مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں، جس کی تفصیل ایک پاکستانی طالبہ نے بھیجی ہے۔
پچاس سالہ پروفیسر اینڈریو بینٹ، جنوبی کوریا کی انتہائی معتبر یونی ورسٹی میں فلاسفی کے پروفیسر تھے، جو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی میں بہت مشہور تھے اور اپنی زبان دانی، اور دلائل سے مخالف کو بے بس اور قائل بلکہ گھائل کردینے کے ماہر تھے۔ پروفیسر صاحب خدا کے وجود کے منکر تھے، اور اس ضمن میں وقتاً فوقتاً اپنے نظریات کا کلاس میں بھی کھل کر اظہار کیا کرتے تھے، جنھیں سن کر اکثر طلبہ وطالبات خاموش رہتے۔ کوئی بھی ان کے ساتھ بحث میں اُلجھنے کی جرأت نہ کرتا کیونکہ کوئی سٹوڈنٹ یہ نہیں چاہتا تھا کہ بھری کلاس میں اس کی پَت اتر جائے اور کلاس فیلوز کے سامنے اس کی سبکی ہو۔
لیکن آخرکار اس بلاشرکت ِ غیرے گرفت رکھنے کا اقتدار چیلنج ہوگیا۔ پروفیسر اینڈریو کی کلاس میں ایک اٹھارہ سالہ طالبہ عائشہ بھی تھی، جس نے دو سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ عائشہ ایک خاموش طبع لڑکی تھی اور کلاس میں ہونے والے بحث مباحثوں میں کبھی حصّہ نہیں لیتی تھی۔ پروفیسر اینڈریو سے پنجہ آزمائی کرنے سے تو بڑے بڑے باتونی اور تیزطرار سٹوڈنٹ بھی گھبراتے تھے مگر اُس روز کلاس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک ایسا منظر جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔
پروفیسراینڈریو نے کلاس میں آتے ہی اپنے من پسند موضوع خدا اور مذہب کی مخالفت پر بولنا شروع کردیا کہ ’’خدا کا تصوّر اور تمام مذاہب___ _ یہ سب انسانوں کی اپنی ایجاد ہیں۔ اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے انسانوں نے خدا کا تصوّر تخلیق کرلیا ہے‘‘۔ اپنے نظریے کے حق میں بات کرتے ہوئے پروفیسر اینڈریو نے طلبہ و طالبات سے سوالیہ انداز میں پوچھا: ’’اگر خدا موجود ہوتا تو دنیا میں اس قدر برائیاں کیوں ہوتیں اور انسان اس قدر تکلیفوں اور مصائب کا شکار کیوں ہوتے؟‘‘ پروفیسر نے اپنی بات کو دہرایا اور پھر کلاس کی جانب فاتحانہ انداز میں دیکھا۔ کلاس کی خاموشی کو پروفیسر اینڈریو نے اپنی دلیل کی فتح سمجھا مگر اچانک حیرت انگیز طور پر کلاس سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا۔ سٹوڈنٹس کو مزید حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ ہاتھ انتہائی خاموش رہنے والی لڑکی عائشہ کا تھا۔
جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ عائشہ ایک خاموش طبع لڑکی تھی، جو اسلام قبول کرنے کے بعد اب اپنے کورس کے مطالعے کے بعد صرف قرآن اور اسلامک فلاسفی کو سمجھنے اور ذہن نشین کرنے میں مشغول رہتی تھی۔ پروفیسر نے اپنا سوال دُہرایا کہ ’’اگر کوئی خداموجود ہوتا تو دنیا میں اتنے دُکھ اور مصائب کیوں ہوتے؟ اور اگر خدا اتنا ہی انصاف پسند اور طاقت ور ہوتا تو انسانوں کو مصائب کا شکار نہ ہونے دیتا اور دنیا سے جہالت، جرائم اور برائیوں کا خاتمہ کردیتا‘‘۔ سب کی توقع کے برعکس عائشہ نے ہاتھ کھڑا کیا تو پوری کلاس حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ کلاس کے تمام طلبہ و طالبات حیران تھے کہ یہ بے زبان سی لڑکی آخر کس اعتماد کی بنیاد پر ڈاکٹر اینڈریو جیسے کایاں شخص سے اُلجھنے کی جرأت کررہی ہے؟ ابھی ایک منٹ میں پروفیسر اسے لاجواب ہی نہیں بے عزّت کرکے رکھ دے گا۔ کیونکہ کوئی بڑے سے بڑا تیز طرار سٹوڈنٹ بھی پروفیسر کو شکست تو کیا اس کے ساتھ اختلاف یا بحث کرنے کی کبھی جرأت نہیں کر سکا تھا۔ اس پس منظر میں عائشہ کا ہاتھ کھڑا کرنا واقعی حیران کن تھا۔ پروفیسر نے بھی حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا:’’ہاں، عائشہ بتائو کیا جواب ہے تمھارا؟‘‘
عائشہ نے کہا:’’سر! آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟‘‘ پروفیسر نے تکبّر اور خوداعتمادی سے گندھی ہوئی آواز میں کچھ زیادہ ہی بلند آواز میں کہا:’’ہاں ہاں، ضرور پوچھو‘‘۔ اس پر عائشہ بولی:’’سر! کیا یہ درست ہے کہ ہم انسانوں کو کوئی بھی فعل اور عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے؟‘‘پروفیسر نے کہا:’’ہاں، بالکل ہمارے پاس reason and freedom (شعور اور آزادی) ہے اور ہم اسی شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی بھی عمل کرنے میں بااختیار ہیں‘‘۔
اس پر عائشہ نے اعتماد کے ساتھ کہا: ’’سر! آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اب یہ بھی بتادیں کہ اگر معاشرے میں پوری سمجھ، شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی شخص جرم کرتا ہے، کسی کو قتل کردیتا ہے یا بہت بڑا فراڈ کرکے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو کیا ہم اس جرم یا برائی کا ذمّہ دار اُس شخص کو قراردیں گے یا وہاں کے لیگل سسٹم پر اس کی ذمّہ داری ڈال دیں گے؟‘‘
پروفیسر نے فوراً جواب دیا:’’سسٹم ذمہ دار نہیں ہوگا، جرم کرنے والا فرد ہی ذمہ دار ہوگا۔ لیگل سسٹم تو ہمیں راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ جرم کا ارتکاب تو ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں‘‘۔ اب عائشہ نے اور زیادہ پُراعتماد لہجے میں کہا:’’سر! اگر معاشرے میں ہونے والے جرائم کی ذمہ داری ہم جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص پر ڈالتے ہیں اور سسٹم کو اس کا ذمّہ دار قرار نہیں دیتے تو دنیا میں ہونے والی برائیوں کی ذمّہ داری برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد کے بجائے خدا پر کیوں ڈال دیتے ہیں؟ کیا اس کے ذمہ دار برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد نہیں ہیں؟ ‘‘
سٹوڈنٹس اس مکالمے کو پوری توجہ سے سننے کے لیے دم بخود ہوگئے اور پروفیسر اینڈریو کی خوداعتمادی پہلی بار تھوڑی سی ڈگمگاگئی، مگر اس نے اپنا اعتماد قائم رکھتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا:’’مگر یہ کیسا خدا ہے جس نے دنیا کو اچھائیوں کے بجائے برائیوں (evils) سے بھر دیا ہے؟‘‘
عائشہ نے کہا:’’پروفیسر صاحب! ہم برائیوں کو نہ دیکھتے تو اچھائیوں سے لاعلم رہتے، ہمیں اچھائیوں کی اہمیّت کا اندازہ ہی برائیاں دیکھ کر ہوا ہے‘‘۔
یہ سن کر پروفیسر بولا :’’ٹھیک ہے مگر یہ وبائیں، طوفان، زلزلے اور آسمانی آفتیں جن سے ہزاروں انسان ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ ہلاکتیں اور تباہ کاریاں تو انسانوں کی لائی ہوئی نہیں ہیں۔ اگر کوئی خدا ہوتا تو انسانوں کو ان ہلاکتوں اور مصائب میں کیوں مبتلا کرتا؟‘‘ اس پر طالبہ نے جواب دیا: ’’سر، آپ جانتے ہوں گے کہ بہت سے ڈاکٹر مریضوں کے لیے ایسی دوائیاں تجویز کرتے ہیں، جو بہت کڑوی ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایسے انجکشن دیتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں‘‘۔
پروفیسر نے کہا:’’ہاں، میں خود بہت کڑوی دوائیاں کھاتا رہا ہوں اور بہت ہی تکلیف دہ ٹیکے لگواتا رہا ہوں‘‘۔ عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا:’’پروفیسر صاحب، آپ تسلیم کریں گے کہ ڈاکٹر کڑوی دوائیاں اور تکلیف دہ ٹیکے اپنے مریضوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے نہیں دیتے بلکہ ان کے علاج اور صحت یابی کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ یہ ابتلائیں، مصائب، اور صدمے ڈاکٹر کے تکلیف دہ ٹیکوں کی طرح انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہوتے۔ تکلیف انسان کو صبر اور حوصلہ سکھاتی ہے، دکھ انسانی شخصیّت کی نشوونما کرتے ہیں اور مصائب سے انسانوں کی تکمیل ہوتی ہے‘‘۔ کلاس کے طلبہ سے ایک آواز بلند ہوئی: ’’واہ، بہت خوب دلیل ہے‘‘۔ مگر پروفیسر اینڈریو جیسا شخص اپنی ایک طالبہ سے شکست کیوں مان لیتا۔ لہٰذا اس نے کہا:’’اگر خدا ہوتا تو وہ ایک perfect world تخلیق کرتا جو جرائم، مصائب اور تکلیفوں سے پاک ہوتی‘‘۔ عائشہ نے استاد سے پوچھا: ’’پروفیسر صاحب، آپ ادبی کتابیں پڑھتے ہیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا :’’ہاں، میں انسانی زندگی کے بارے میں کہانیاں اور ناول دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں‘‘۔ عائشہ نے یہ سن کر سوال کیا: ’’پروفیسر صاحب! کیا آپ کو انسانی زندگی کی ایسی کہانیاں پسند ہیں جن میں کوئی موڑ، کوئی مشکل اور کوئی چیلنج نہ ہو۔ ہیرو صاف اور سپاٹ سڑک پر سفر کرتا ہوا اپنے طے شدہ وقت پر منزل پر پہنچ جائے، یا آپ کو ایسے ناول پسند ہیں جس میں راستہ کٹھن ہو، جرم بھی ہو، تصادم بھی ہو، غیر متوقع چیلنجز بھی ہوں اور کرداروں کو مصائب اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے، اور دکھ بھی سہنے پڑیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا: ’’کتاب تووہی دلچسپ ہوگی جس میں جرائم بھی ہوں، مشکلات بھی ہوںاور چیلنج بھی ہوں‘‘۔
عائشہ نے جواب میں کہا:’’بس زندگی کے خالق نے بھی اسے سیدھا اور سپاٹ رکھنے کے بجائے اس میں اُونچ نیچ، مشکلات اور چیلنج ڈال کر اسے سبق آموز اور دلچسپ بنادیا ہے۔ مصائب ہمارے اندر صبر اور انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ صدمات اور چیلنج انسانوں میں مشکل حالات پر قابو پانے کی ہمت (resilience) پیدا کرتے ہیں۔ مشکلات اور آلام نہ ہوں تو انسان میں ان سے نبرد آزما ہونے کی طاقت اور صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ان چیلنجوں کے بغیر تو انسان کو زندگی کے صحیح معانی ہی معلوم نہیں ہوسکتے‘‘۔ پروفیسر کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: ’’اچھا تو خدا نے زندگی کی کہانی دلچسپ بنانے کے لیے انسانوں کو ان دکھوں اور مصائب میں مبتلا کیا ہے؟‘‘ نہیں، خدا کے نزدیک زندگی ایک کہانی نہیں ایک ٹیسٹ ہے، ایک امتحان ہے‘‘، عائشہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔’’خالق نے اپنی واضح نشانیاں دکھا دی ہیں جو شعور رکھنے والے انسانوں کو سچائی تک یعنی خدا کے وجود تک پہنچنے میں راہ نمائی کرتی ہیں‘‘۔ اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔
پروفیسر نے جھنجلا کر ایک اور سخت وار کیا:’’ٹھیک ہے، اگر خدا واقعی ہے تو لوگ اس کے وجود سے انکار کیوں کرتے ہیں؟ ‘‘۔ طالبہ نے سوال سنا اور معمولی توقف کے بعد کہا:’’پروفیسر صاحب! آپ یہ بتائیے کہ لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے، اس کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں لوگ اس غلط اور نقصان دہ عادت کو اپنائے ہوئے ہیں اور دن رات سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ وہ یہ نقصان دہ عمل کیوں کرتے ہیں؟‘‘فلسفے کے ماہر پروفیسر نے جواب دیا: ’’اس لیے کہ انھیں کوئی بھی عمل کرنے کا اختیار ہے، اور وہ اس اختیار کو وقتی خوشی یا لذّت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔’’آپ نے بالکل درست کہا پروفیسر صاحب‘‘۔ عائشہ نے آواز قدرے بلند کرتے ہوئے کہا: ’’آپ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انسان اپنا اختیار (choice) ہمیشہ درست طور پر استعمال نہیں کرتے، وقتی لذّت، لطف، خوشی یا مفاد کے لیے وہ اس اختیار اور آزادی کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں اور ایک غلط اور نقصان دہ راستے پر بھی چل پڑتے ہیں۔ سچائی کو ماننا یا نہ ماننا بھی ہمارے اختیار یا انتخاب کا معاملہ ہے اور ہمارا انتخاب غلط بھی ہوسکتا ہے‘‘۔
اب کلاس کے طالب علموں کی اکثریت عائشہ کو ستائش کی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مگر منطق اور دلیل کا ماہر پروفیسر اپنی ہی ایک سٹوڈنٹ سے شکست کھانے کو تیار نہ تھا، لہٰذا اس نے ایک اور تیرچلایا: ’’اگر خدا ہے تو نظر کیوں نہیں آتا، اس نے اپنے آپ کو مخفی کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘
طالبہ نے نپے تلے الفاظ میں جواب دیا:’’پروفیسر صاحب، جب خدا نے پردہ اٹھادیا اور اپنے آپ کو ظاہر کردیا، تو اُس دن امتحان ختم ہوجائے گا۔ اور امتحان کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ پھر ایک وقفے کے بعد عائشہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’مگر کیا شعور رکھنے والوں کو اپنے آس پاس خدا کی واضح نشانیاں نظر نہیں آتیں؟ خدا اپنی نازل کی گئی کتاب قرآنِ مجید میں خود بار بار کہتا ہے کہ میری تخلیقات پر غور کرو، عقل اور شعور استعمال کرکے میری نشانیوں کے ذریعے مجھے تلاش کرو۔ تمھیں سچائی نظر آجائے گی۔ پروفیسر صاحب، خدا کے منکروں کا نظریہ کس قدر کھوکھلا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہر چیز مادّے سے پیدا ہوئی ہے مگر مادّے میں جان کس نے پیدا کی، ذرّے کو زندگی کس نے بخشی ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر یہ کہ جب مادّے میں جان پڑگئی اور نباتات اور حیوانات وجود میں آگئے تو ان میں سے ایک جانور کو شعور دے کر انسان کس نے بنایا ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ محض یہ کہہ دینا کہ فطرت (Nature) خود بخود تخلیق کرتی ہے۔ ایک غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہے۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی فنکشنل چیز اپنے آپ پیدا نہیں ہوئی۔ وہ پوری دنیا میں کوئی ایک عمارت، ایک پُل ایک پرندہ یا کوئی ایک مشین بتادیں جو خود بخود بن گئی ہو۔ Evolution (ارتقا)کے نظرئیے کے حق میں آج تک کوئی ایک معمولی سی شہادت بھی پیش نہیں کی جاسکی‘‘۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’دوسری جانب جب خدا کہتا ہے کہ یہ کائنات اور انسان میں نے تخلیق کیے ہیں اور سورج اور چاند اور ہر چیز کو تمھارے لیے مسخر کردیا ہے تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ دنیا میں ہر وہ سامان بہم پہنچادیا گیا ہے، جو انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کیا کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ مان سکتا ہے کہ سورج اور چاند خودبخود پیدا ہوگئے اور خودبخود صدیوں سے اعلیٰ ترین درجے کی precision [درستی]کے ساتھ اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اپنا دیا گیا ٹاسک پورا کررہے ہیں؟ انسانی جسم کے اندر چلنے والے حیرت انگیز سسٹمز بھی پکار پکار کر کسی عظیم خالق کے ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔ انسان کے اعضاء مثلاً آنکھیں، ناک، کان، دل، جگر، آنتیں، ہر عضو کا مخصوص فریضہ اور ڈیوٹی ہے اور جس عضو کو جہاں ہونا چاہیے تھا اسے وہیں رکھا گیا ہے۔ اسی لیے خدا نے انسان کو اپنی Best of Creations (تخلیق کا شاہکار) قرار دیا ہے۔ استاد محترم، میرا آپ سے سوال ہے کہ انسانی جسم کا حیرت انگیز سسٹم اور اس کے اندر چلنے والے کارخانے، کیا یہ سب اپنے آپ بن گئے ہیں؟ کیا آپ کا شعور اور عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے؟ نہیں، عقل یہ کہتی ہے کہ یہ اپنے آپ نہیں بن سکتا، یہ کسی بہت طاقت ور ہستی کی قوّتِ تخلیق کا شاہکار ہے‘‘۔
کلاس میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ مگر یہ واضح تھا کہ طلبہ و طالبات عائشہ کی باتوں کا اثر قبول کررہے ہیں، اور پروفیسر شکست ماننے کے لیے تیّار نہیں تھا، اس کے ترکش میں ابھی چند تیر باقی تھے۔ اس نے ایک اور تیر پھینکا :’’جیسا تم کہہ رہی ہو کہ خدا بڑا عظیم بھی ہے اور وہ انسانوں کا خیرخواہ بھی ہے تو پھر ہمیں دنیا میں unreasonable sufferings (نامناسب خرابیاں اور زیادتیاں)کیوں نظر آتی ہیں؟ اتنی بڑی تعداد میں معذور بچے کیوں پیدا کیے گئے ہیں؟‘‘ عائشہ نے پورے سکون سے جواب میں کہا: ’’پروفیسر صاحب، آپ ایک لیجنڈری ہستی ہیلن کیلر کو تو جانتے ہوں گے‘‘۔ ’’ہاں ہاں، وہی نابینا اور بہری خاتون۔ جو بہت بڑی رائٹر بن گئی تھی‘‘، پروفیسر نے جواب دیا۔ عائشہ نے کہا: ’’جی وہی ہیلن کیلر جس نے اپنی معذوری کو نہ اپنی کمزوری بننے دیا اور نہ کبھی گلہ کیا بلکہ اس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنالیا اور کروڑوں معذور انسانوں کو ہمت اور حوصلہ دیا۔ہیلن کیلر کہا کرتی تھیں کہ سُکھ بھرا خوشگوار سفر نہیں___ بلکہ دکھوں سے لبریز کٹھن راستہ ہی انسانی کردار کو مضبوط کرتا اور کندن بناتا ہے‘‘۔ کلاس کے تمام سٹوڈنٹس ہمہ تن گوش تھے اور لیکچر روم اب مکمل طور پر عائشہ کی گرفت میں تھا۔ پروفیسر کا تکبّر ریزہ ریزہ ہوچکا تھا اور ہر طالب علم محسوس کررہا تھا کہ پروفیسر بھی عائشہ کی پُراثر باتوں سے کافی متاثر ہوچکا ہے۔
پروفیسر نے آخری سوال پوچھا:’’اچھا یہ بتائو تمھیں خدا کے وجود پر کیسے اس قدر یقین ہے؟‘‘ عائشہ نے اسی پُرسکون لہجے میں جواب دیا: ’’اس لیے کہ میں اپنے خالق کو محسوس کرتی ہوں۔ دماغ سے ہی نہیں، دل سے بھی خدا کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں۔ میں جب نماز میں اپنے خالق سے ہمکلام ہوتی ہوں، جب اُس سے کوئی دعا مانگتی ہوں، جب پریشانیوں میں گھِرکر اسے پکارتی ہوں تو مجھے جواب مل جاتا ہے۔ مجھے سکون اور دلی اطمینان نصیب ہوجاتا ہے‘‘۔
پروفیسر نے بظاہر مسکراتے مگر شکست خوردہ لہجے میں کہا: ’’مگر مجھے روشنی کیوں نہیں مل سکی؟ مجھے خدا کیوں نہیں ملا؟‘‘ عائشہ بولی: ’’اس لیے کہ آپ نے اس کی تلاش میں صرف فلسفیانہ اور منطقی راستے اختیار کیے ہیں،جب کہ ایک اور راستہ بھی ہے۔ اور وہ ہے دل کا راستہ۔ اسے اختیار کریں وہ آپ کو سچائی اور حقیقت کی منزل تک ضرور پہنچائے گا‘‘۔
پروفیسر نے اپنے دل کے اردگرد نفرت اور تعصب کی جو مضبوط دیواریں کھڑی کی تھیں، ان میں دراڑ پڑچکی تھی۔ اس کا فلسفہ اور منطق ایک نوعمر لڑکی کی پُراخلاص باتوں کے آگے ڈھیر ہوچکا تھا۔ وہ دل شکستہ ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کی تھکی سی آواز اُبھری: ’’آپ جاسکتے ہیں‘‘۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے جس کی ۶۵ فی صد آبادی کی گزربسر زراعت پر ہے۔ اگر ایسے زرعی ملک کے کسان بلبلا اُٹھیں اور کاشت کار چیخ رہے ہوں کہ حکومت کو ان کے مسائل کا اِدراک نہیں اور اربابِ بست و کشاد کو ان کے دُکھ درد کا احساس نہیں تو یہ ایک الم ناک صورتِ حال ہے۔
اس وقت وطن عزیز کی پانچوں بڑی فصلیں: چاول، کپاس، گندم، گنا اور آلو بدترین بحران کا شکار ہیں۔ پچھلے دو برسوں سے چاول برآمد نہیں ہوسکا، پرانے اسٹاک گوداموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے کاشت کار کو پچھلے سال کی نسبت چاول کی آدھی قیمت بھی نہیں مل سکی۔ پچھلے سال باسمتی مونجی ۲۵۰۰ روپے من بکتی رہی، جب کہ اس سال کسان کے لیے وہی مونجی ۱۲،۱۳ سو روپے فی من بیچنا بھی مشکل تھا۔ کپاس کی کاشت پر فی ایکڑ تقریباً ۴۴ہزار روپے اخراجات آتے ہیں، جب کہ کاشت کار کو ۲۰ سے ۲۲ ہزار روپے فی ایکڑ قیمت وصول ہوئی، جو اخراجات سے کہیں کم ہے۔ گندم کی سرکاری قیمت خرید ۱۳۰۰ روپے فی من مقرر ہے مگر کھیت میں کاشت کار کو دو سے تین سو روپے فی من کم ملتی رہی ہے۔ گنے کی فصل اچھی تھی مگر شوگر ملوں کے مالکان نے کاشت کاروں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا، لہٰذا انھیں گنے کے بہت کم نرخ مل سکے۔ آلو کے کاشت کارنے جب اندازہ لگایا کہ فروخت کے بعد وصول ہونے والی رقم اس پر اُٹھنے والے اخراجات سے کہیں کم ملے گی تو اس نے آلو کی فصل کو منڈی تک پہنچانے کی زحمت ہی نہیں کی اور پکی ہوئی تیار فصل کو ہل چلا کر زمین کے اندر ہی دفن کر دیا۔ یہ ہے اس ملک کے اس کاشت کار کی کہانی جو برفانی راتوں، جان لیوا حبس اور چلچلاتی دھوپ میں ہل چلا کر ملک کے کروڑوں باشندوں کا پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیا کر رہا ہے۔
کچھ عرصے سے اجناس کی برآمد رُک گئی ہے جس کے باعث سفیدپوش کسان عرش سے فرش پر آگرا ہے۔ غربا و مساکین کو خیرات و صدقہ دینے والے کنبے خود صدقہ و خیرات کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ایسے ہی ایک سفیدپوش گھرانے کے ایک بزرگ پچھلے دنوں بتا رہے تھے: ’’چند سال پہلے تک اللہ کے فضل سے فصل اچھی ہوتی تھی اور نرخ بہت اچھے مل رہے تھے‘‘۔ پھر یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ’’مگر اب کاشت کاروں کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ہم دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے ہیں‘‘۔
بلاشبہہ اس ملک کو قدرت کی طرف سے بے پناہ نعمتیں اور وسائل میسر ہیں۔ یہاں کے موسم اور مٹی قدرت کا اَنمول تحفہ ہیں۔ رواں دواں دریا اور رواں نہریں موجود ہیں۔ مگر بے نیاز حکومتوں، قومی جذبے سے عاری نوکر شاہی، فاترالعقل منصوبہ سازوں اور ذاتی مفادات کے غلام عوامی نمایندوں نے مل کر اس کی زراعت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
زرعی شعبے کی ترقی کے لیے جدید طرز کی ریسرچ اور تحقیقی ادارے بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں زرعی تحقیق کے ادارے کبھی بہت فعال ہوتے تھے، حکومت کا رویہ ہمدردانہ اور سرپرستانہ تھا۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا تھا، اس لیے ان کی کاوشوں کے ثمرات کسانوں تک پہنچتے تھے۔ اب یہی ادارے حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سنٹر میڈیا کا موضوع بنارہا ہے۔ زراعت جیسے اہم ترین شعبے کی تحقیق کے لیے مختص جگہ پر کسی بیوروکریٹ کی ہوس ناک نظریں پڑگئیں اور اس نے کچھ مقامی سیاست دانوں کو ساتھ ملا کر زراعت کے لیے مختص زمین پر بھی اپنے لیے پلاٹ لینے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے۔ یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ زرعی تحقیق کے لیے مخصوص جگہ ہتھیاکر اُس پر ہائوسنگ کالونی بنانے کی سازش کی گئی۔ ہوس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آتے ہی زرعی تحقیق کے لیے وفاقی سطح پر چند قومی ادارے قائم کیے گئے۔ ۱۹۷۵ء میں نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سنٹر کی بنیاد رکھی گئی۔یوایس ایڈ کے تعاون سے اس ادارے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیا اور ۱۰سال کی شبانہ روز محنت کے بعد اس سنٹر نے عالمی معیار کی حامل جدید ترین لیبارٹریز، تجرباتی پلانٹس، گرین ہائوسز، گلاس ہائوسز اور اینمل شیڈز پر مشتمل ایک متحرک نظام قائم کرلیا۔ یہ ادارہ ملک کا ایک قومی اثاثہ ہے جو دنیا کے ۱۷۰۰؍ اداروں میں اٹھارھویں نمبر پر شمار کیا جاتا ہے۔
یہ ادارہ زرعی تحقیق، فوڈ سیکورٹی، پیداوار میں اضافے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس میں ۴۰۰ سے زائد اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنس دان اور ۸۰۰سے زائد دیگر ملازمین کام کر رہے ہیں۔ نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ کونسل کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس تحقیقی ادارے نے ملک کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا ہے اور کئی فصلوں کی بیماریوں کا تدارک کیا ہے۔ متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ جاپان کے تعاون سے یہاں منفرد ’جین بنک‘ قائم کیا گیا جو ملکی غذائی تحفظ کا اہم ترین ستون ہے اس میں ۳۵ہزار سے زائد جرم پلازمز (germplasms) محفوظ ہیں۔
اس ادارے نے ۱۹۹۵ء سے اب تک ملکی پولٹری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ویکسین تیار کی۔ ۲۰۰۸ء میں قائم شدہ ’قومی ادارہ براے پولٹری امراض‘ نے پاکستان کو برڈفلو سے پاک ملک ہونے کا اعزاز بخشا ہے۔ اس کے بعد پاکستان سے شرق اوسط کے ممالک میں پولٹری مصنوعات برآمد کرنے پر پابندی اُٹھا لی گئی۔
پاکستان ہر سال تقریباً ۱۲؍ ارب روپے کا ٹماٹر بھارت سے درآمد کرتا ہے۔ ’ریسرچ سنٹر‘ کسان بھائیوں سے مل کر زیادہ پیداواری صلاحیت رکھنے والے ٹماٹر کی اقسام اور پیداواری ٹکنالوجی کو متعارف کروا رہا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۴۰ مقامات پر ۸۰ کسان خاندانوں کو تربیت دی جارہی ہے جس سے نہ صرف خطیر زرمبادلہ بچانے میں مدد ملے گی بلکہ کسان بھی خوش حال ہوگا۔ اسی ریسرچ سنٹر نے کینولا، سرسوں، اسٹرابری (توتِ فرنگی)، انگور اور زیتون کی کاشت متعارف کروائی ہے جس سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا۔ اس ادارے نے اطالوی حکومت کے تعاون سے زیتون کی ترویج و ترقی کے لیے ایک منصوبہ مکمل کیا ہے جس کی بنیاد پر حکومت پاکستان نے قومی سطح پر ایک جامع منصوبہ منظور کیا ہے جس کے تحت ملک بھر میں موزوں مقامات پر ۵۰؍ایکڑ پر زیتون کی کاشت کی جائے گی۔پاکستان سویابین اور سویامیل کی درآمد پر ہرسال ۶۵؍ارب روپے خرچ کرتا ہے۔ NARC نے ملکی سطح پر سویابین کی ترویج و ترقی کے لیے جامع منصوبہ ترتیب دیا ہے جس کے تحت ابتدائی طور پر ۲۰۰ ٹن بیج پیدا کرلیا گیا ہے جس کے بے پناہ فوائد سے اس فصل کو وسیع رقبے پر کاشت کرنا ممکن ہوگا۔
اس ادارے نے گندے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کی ٹکنالوجی متعارف کروائی ہے۔ اس کے تیار کردہ ’ہاٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ‘ کی بدولت وطن عزیز آم برآمد کرنے والا بڑا ملک بن گیا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۹۱ملین ٹن ریکارڈ برآمد کی گئی، جب کہ پڑوسی ملک پر بدستور پابندی عائد ہے۔
اس ادارے کا مزید دعویٰ ہے کہ اس نے نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سسٹم کے تحت گندم، چاول، مکئی، کپاس، کماد، دالیں، چارہ جات، تیل والی فصلیں، سبزیوں اور پھلوں کی ۶۰۰ سے زائد نئی اقسام اور ہائبرڈ تیار کرنے میں مدد کی ہے۔ جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ادارہ ٹشوکلچر ٹکنالوجی سے وائرس سے پاک کیلے کے لاکھوں پودے تیار کر رہا ہے کی بنیاد پر کیلے کی فصل کو صوبہ سندھ میں جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔ یہ قومی ادارہ ہر سال ملک بھر سے سیکڑوں کسانوں اور سائنس دانوں کو جدید تکنیکی تربیت بھی فراہم کر تا ہے۔
زراعت قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں ۲۲ فی صد ہے اور جو ۶۵ فی صد لوگوں کو روزگار مہیا کرتی ہے۔ اس کی اہمیت کسی طرح بھی ایٹم بم سے کم نہیں۔ یاد کیجیے سوویت یونین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا، جس نے سیکڑوں ایٹم بم بنا لیے، چاند ستاروں پر کمندیں ڈال لیں، لیکن خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے سوویت یونین کے طور پر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا۔
زراعت کی بہتری کے بغیر معیشت میں کبھی بہتری نہیں آسکتی اور زراعت میں بہتری اعلیٰ معیار کی ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ۲۰۰۱ء تک پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھارت سے زیادہ تھی۔ بھارت سالانہ ۱۲ہزار ملین گانٹھیں، جب کہ پاکستان ۱۳ہزار گانٹھیں پیدا کرتا تھا مگر بھارت نے بہتر بیج پیدا کرلیا جس کی مدد سے اب اُس کی سالانہ پیداوار ۳۵ہزار تک پہنچ گئی ہے۔اسی طرح مستند اور بہتر بیج کے باعث بھارت میں گندم اور چاول کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے زرعی تحقیق کے اداروں پر توجہ دی جائے۔ انھیں فنڈز مہیا کر کے ہدف دیے جائیں اور کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے نگرانی کا موثر نظام وضع کیا جائے۔
یہ ایک بڑا قومی المیہ ہے کہ وزارتِ تجارت بیرونی منڈیاں تلاش کرنے میں ناکام ہے، جس کے باعث چاول برآمد نہیں ہوسکا اور پچھلے دو سال سے گوداموں میں پڑا خراب ہو رہا ہے۔ اس کے تین طریقے ہیں: اوّل یہ کہ مونجی کی اگلی فصل کی سرکاری قیمت (سپرباسمتی مونجی کی قیمت ۲۲۰۰ روپے فی من اور باسمتی ۸۶ کی ۱۴۰۰ روپے فی من) مقرر کردی جائے اور حکومت پاسکو کے ذریعے خود مونجی خریدے۔ دوسرا یہ کہ ڈیلرز کے پاس پڑا ہوا چاول حکومت خرید کر خود برآمد کرے ورنہ پھر سبسڈی یا چھوٹ کے ذریعے ڈیلروں کی مدد سے یہ کام کیا جائے۔ چند ارب روپے کی حکومتی امداد سے چاول کا سنگین بحران حل ہوسکتا ہے۔ حکومت اور قوم کو یہ بات ہر وقت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وطن عزیز کو خوراک کی خود کفالتی حیثیت سے محروم کرنا عالمی ساہوکاروں کا پرانا ایجنڈا ہے اور اپنے اس ہدف کے حصول کے لیے وہ براہِ راست یا بالواسطہ ہماری قومی پالیسیوں پراثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔
اس وقت بھی ایسے لگتا ہے کہ زرعی شعبے کے پالیسی ساز اداروں میں کچھ ملک دشمن عناصر موجود ہیں جن کی بے جا مداخلت سے اس اہم سیکٹر کو کئی طرح سے نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف ہماری زرعی آمدنی اخراجات کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ ۲۴ فی صد سے کم ہوکر ۲۱ فی صد رہ گیا ہے۔ شعبۂ زراعت کی افرادی قوت جو کوئی دوسرا کام نہیں جانتی بے روزگاری کا شکار ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک کو خوراک کی فراہمی کم ہورہی ہے۔ بلاروک ٹوک انتہائی زرخیز زرعی زمینوں پر ہائوسنگ کالونیاں بنائی جارہی ہیں جس سے زیرکاشت رقبہ سمٹ رہا ہے اور خوراک کی فراہمی مزید کم ہورہی ہے۔ زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر حکومتوں کا زراعت کے شعبے کے ساتھ اسی طرح بے نیازانہ رویہ رہا اور ہماری پالیسیاں زمینی حقائق کے برعکس بنتی رہیں تو آیندہ چند برسوں میں ہماری فوڈ سیکورٹی کے حالات انتہائی خطرناک ہوجائیں گے۔
تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ کاشت کاروں کو وہ تمام سہولیات فراہم کریں جن سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس ضمن میں معیاری بیج کی فراہمی، مناسب نرخوں پر کھاد کی دستیابی، کم نرخوں (subsidised rates) پر ٹریکٹر، تیل اور بجلی کی فراہمی اور کسانوں کو ان کی محنت کے معقول معاوضے کی فوری ادایگی، کسانوں اور کاشت کاروں کا حق ہے، جو انھیں ہرصورت ملنا چاہیے۔ حکومت زراعت کی اہمیت سمجھتے ہوئے اسے اپنی ذمہ داری سمجھے۔
بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق نئے بیج تیار کرنے اور بیماریوں سے مدافعت کے لیے مؤثر دوا اور سپرے کی ضرورت اور اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ آزادی کے ۶۸سال بعد بھی کاشت کاروں کو کسی بھی فصل کے لیے ۱۰۰ فی صد سرٹیفائیڈ سیڈ (مصدقہ بیج) میسر نہیں۔ ابھی تک صرف ۲۰ فی صد کاشت کار مصدقہ بیج استعمال کر رہے ہیں۔ اس بیج کے استعمال سے فصل کی نمو اور فی ایکڑ پیداوار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کاشت کار کو مارکیٹ سے جو بیج اور ادویات ملتی ہیں وہ زیادہ تر غیرمعیاری یا جعلی ہیں۔ اس کے علاوہ بیج اتنا مہنگا ہوگیا ہے کہ اسے خریدنے کے لیے کاشت کار کو قرض درکار ہوتاہے۔ کاشت کاروں کو آسان اقساط پر قرضے دینا بے حد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ تمام زرعی بنکوں کو پابند کرے کہ وہ بیج کے لیے دیے جانے والے قرضے کو نقد رقم کے بجاے سیڈکارپوریشن کے نام ووچر دے تاکہ کاشت کار بیجائی کے لیے لازماً مستند بیج استعمال کریں۔ نیز کاشت کار کو میڈیا کے ذریعے مستند بیج اور قابلِ اعتماد دوائیوں کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کیا جائے۔ کپاس، گندم اور گنے کے ماہرین جدید بیج کے نام پر ہرسال سیڈمافیا سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ وہ تنخواہ اور مراعات حکومت سے لے رہے ہیں، مگر اچھا بیج بناکر پرائیویٹ کمپنیوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ ایسے کرپٹ عناصر کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ کمپنیاں اعلیٰ معیاری بیج تیار کرنے والے سائنس دان سے ملی بھگت کرکے اپنی ناقص اور دو نمبر دوائیاں (جن پر یورپ میں پابندی لگ چکی ہے) یہاں کھلے عام بیچ رہی ہیں۔ اس کا فوری تدارک بہت ضروری ہے۔
فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کے لیے کھاد بنیادی ضرورت بن چکی ہے مگر اس کے نرخ کسان کی پہنچ سے باہر ہو رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ برسوں میں یوریا کے نرخ میں ۲۹۳ فی صد اور فاسفیٹ کھاد میں ۲۸۹ فی صد اضافہ ہوا ہے، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کھاد کے استعمال میں ۲۰ فی صد کمی ہوگئی ہے جس سے فی ایکڑ پیداوار متاثر ہوئی ہے۔ ہمسایہ ملک میں بیج، کھاد اور بجلی کی فراہمی میں کاشت کاروں کو دل کھول کر سبسڈی دی جارہی ہے جس سے ان کی فی ایکڑ پیداوار ہم سے دگنی ہے۔
بھارت کے صوبہ پنجاب میں زراعت کے لیے بجلی بالکل مفت ہے، جب کہ گجرات میں ایک روپیہ فی یونٹ اور راجستھان میں ڈیڑھ روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جارہی ہے، جب کہ ہمارے ہاں زرعی مقاصد کے لیے کاشت کاروں کو ۱۰ روپے ۳۵ پیسے فی یونٹ کے حساب سے بجلی مل رہی ہے۔ غریب کاشت کاروں کے لیے بجلی کے نرخ ناقابلِ برداشت ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ تر کاشت کاروں نے بجلی کے کنکشن کٹوا دیے ہیں اور وہ بیچارے دوبارہ ڈیزل انجن کی طرف لوٹ آئے ہیں۔ اگر اسے ہمسایہ ملک جیسی امداد اور سہولتیں میسر آجائیں تو یہاں یقینی طور پر سبز انقلاب آجائے گا اور ہماری معاشی ترقی کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا۔
پانی کے بغیر زراعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی صورتِ حال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں صوبہ پنجاب کو ۵۴ فی صد نہری پانی مل رہا تھا جو ۱۹۹۱ء میں صوبوں کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد ۹ئ۴۸ فی صد رہ گیا ہے۔ اب ناکافی پانی کی وجہ سے کاشت کار کو ٹیوب ویلوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے کُل کاشتہ رقبے کا ۷۰ فی صد سب سے بڑے صوبے میں ہے۔ نہری اور ٹیوب ویل کے پانی کی کوالٹی کا کوئی مقابلہ نہیں۔ ۷۰ فی صد ٹیوب ویلوں کا پانی آب پاشی کے لیے غیرموزوں ہے۔ نیز یہ نہری پانی سے ۱۸ سے ۲۵ فی صد زیادہ مہنگا ہے، جس کی وجہ سے کاشت کار کا خالص منافع کم ہوجاتا ہے۔ اس وقت ہمیں پانی کی کمی کے بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ ہمارا ملک ۹ملین مکعب فٹ سے زائد پانی کی کمی کا شکار ہے۔ دونوں بڑے ڈیموں میں مٹی جمع ہونے سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجایش کم ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ ۳۸سال سے کوئی نیا ڈیم نہیں بنا۔
دنیا بھر میں کسانوں کو رعایتی قیمت اور اجناس کی مددگار قیمت ملتی ہے۔ کاشت کار کی سبسڈی کی مخالفت کرنے والے نام نہاد معیشت دانوں کے علم میں شاید یہ بات نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ سبسڈی زرعی شعبے میں دی جاتی ہے۔
زراعت سے متعلق تحقیقی اداروں کا بجٹ بڑھایا جائے اور ان کی ضروریات کے مطابق انھیں فنڈز فراہم کیے جائیں، مگر ساتھ ہی ان کی کارکردگی کی سختی سے نگرانی کی جائے۔ چاول کے پاکستان کے تحقیقاتی اداروں پر لازم قرار دیا جائے کہ وہ ایک سال میں چاول، کپاس اور گندم کے ہائبرڈ بیج (جس سے فی ایکڑ پیداوار میں کم از کم ۳۰ فی صد اضافہ ہو) تیار کرکے کاشت کاروں کو فراہم کریں۔ ہدف حاصل کرنے والے ماہرین کو انعامات اور ترقیاں دی جائیں اور نااہلوں اور کام چوروں کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔
زرعی ترقیاتی بنک کو اس طرح فعال اور کارآمد بنایا جائے کہ کاشت کار صحیح معنوں میں اس کی خدمات سے مستفید ہوسکیں۔ تمام صوبوں میں زراعت کے محکمے کو متحرک کیا جائے اور زراعت کے اہل کاروں کا کسان کے ساتھ دوبارہ تعلق استوار ہو۔ کسان، محکمہ زراعت اور زرعی بنک کے درمیان رابطے کے فقدان کو ختم کر کے ان کے درمیان قریبی، مفید اور مستقل رابطہ استوار کیا جائے۔ چھوٹے کاشتکار کو آڑھتی کے استحصال سے بچایا جائے اور آڑھتی کا مناسب کمیشن حکومت مقرر کرے۔
سیم اور تھور کے خاتمے کے لیے کبھی بڑے زور شور سے مہم چلا کرتی تھی۔ ہر دو لعنتوں کے خلاف بڑی مؤثر کارروائی ہونی چاہیے۔ کسی زمانے میں نہروں اور راجباہوں کی بھل صفائی بھی باقاعدگی سے ہوا کرتی تھی، اب وہ بھی قصۂ پارینہ بن گئی ہے۔ صوبائی حکومتیں اس طرف توجہ دیں اور نہروں کو پختہ کرنے کے طویل مدتی منصوبوں پر بھی عمل درآمد کریں۔ نیز سیلاب کی روک تھام کے لیے طویل مدتی منصوبے بنائیں۔
سندھ میں بُری گورننس کی وجہ سے نہری پانی کی چوری بڑے دھڑلے سے ہورہی ہے۔ اس لیے ٹیل پر پانی دستیاب نہیں ہوتا، خاص طور پر بدین، تھرپارکر اور میرپور خاص میں پانی کی عدم دستیابی بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ صوبائی حکومت اس کا تدارک کرے۔
آئین کی اٹھارھویں ترمیم کے محرک اور حامی غالباً اُس وقت اس کے مضر اثرات کا اندازہ نہ کرسکے۔ صوبوں کی خودمختاری بجا مگر خودمختاری کے نام پر ریاست اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے دست بردار ہی ہوجائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں توانائی کے وسائل پر صوبوں کا نہیں مرکزی حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے۔ مگر اٹھارھویں ترمیم میں توانائی پر بھی صوبوں کا کنٹرول تسلیم کرلیا گیا ہے، جس سے آئے روز مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
دنیا بھر میں تعلیم کا شعبہ وفاقی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے اور نوجوان نسل میں قومی سوچ پیدا کرنے اور یکساں سمت متعین کرنے کے لیے تعلیمی نصاب مرکزی حکومت تیار کرتی ہے۔ اسی طرح فوڈ سیکورٹی اور قومی زرعی پالیسیاں تشکیل دینے کے حوالے سے زراعت ایک قومی شعبہ ہے مگر اٹھارھویں ترمیم کے حامیوں نے اس کے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر یہ اہم ترین شعبے صوبوں کے حوالے کر دیے۔ اسٹاف کالج میں اس ترمیم کے سب سے بڑے وکیل رضا ربانی صاحب سے کورس کے شرکا نے پوچھا کہ فوڈ سیکورٹی مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے اور تعلیمی نظام ایک قوم بنانے کا بنیادی ذریعہ ہے۔ آپ نے پاکستان کو اس سے کیوں محروم کردیا ہے؟ ربانی صاحب نے دلیل سے جواب دینے کے بجاے ایک جذباتی تقریر کرڈالی، جس پر ایک دوست نے کہہ دیا: ’’آپ جذباتی خطبے سے ہمیں مرعوب کرسکتے ہیں مگر قائل نہیں کرسکتے‘‘۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ تعلیم، زراعت اور توانائی کے شعبوں کو اٹھارھویں ترمیم کے شکنجے سے آزاد کرایا جائے اور ان اہم شعبوں پر مرکز کی نگرانی بحال کی جائے۔
مضمون نگار سابق انسپکٹر جنرل پولیس نیشنل ہائی ویز اور موٹرویز ہیں