مئی ۲۰۲۵

فہرست مضامین

’خدا کے وجود‘ پر ایک مکالمہ

ذوالفقار احمد چیمہ | مئی ۲۰۲۵ | ایمان واخلاق

Responsive image Responsive image

خدا کا وجود اور مذہب انسانوں میں صدیوں سے موضوعِ بحث رہا ہے۔ اس ضمن میں کوریا کی ایک معروف یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر اور ان کی ایک طالبہ کا مکالمہ یہاں مطالعے کے لیے پیش کررہا ہوں، جس کی تفصیل ایک پاکستانی طالبہ نے بھیجی ہے۔

پچاس سالہ پروفیسر اینڈریو بینٹ، جنوبی کوریا کی انتہائی معتبر یونی ورسٹی میں فلاسفی کے پروفیسر تھے، جو اپنی ذہانت اور حاضر جوابی میں بہت مشہور تھے اور اپنی زبان دانی، اور دلائل سے مخالف کو بے بس اور قائل بلکہ گھائل کردینے کے ماہر تھے۔ پروفیسر صاحب خدا کے وجود کے منکر تھے، اور اس ضمن میں وقتاً فوقتاً اپنے نظریات کا کلاس میں بھی کھل کر اظہار کیا کرتے تھے، جنھیں سن کر اکثر طلبہ وطالبات خاموش رہتے۔ کوئی بھی ان کے ساتھ بحث میں اُلجھنے کی جرأت نہ کرتا کیونکہ کوئی سٹوڈنٹ یہ نہیں چاہتا تھا کہ بھری کلاس میں اس کی پَت اتر جائے اور کلاس فیلوز کے سامنے اس کی سبکی ہو۔

لیکن آخرکار اس بلاشرکت ِ غیرے گرفت رکھنے کا اقتدار چیلنج ہوگیا۔ پروفیسر اینڈریو کی کلاس میں ایک اٹھارہ سالہ طالبہ عائشہ بھی تھی، جس نے دو سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ عائشہ ایک خاموش طبع لڑکی تھی اور کلاس میں ہونے والے بحث مباحثوں میں کبھی حصّہ نہیں لیتی تھی۔ پروفیسر اینڈریو سے پنجہ آزمائی کرنے سے تو بڑے بڑے باتونی اور تیزطرار سٹوڈنٹ بھی گھبراتے تھے مگر اُس روز کلاس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک ایسا منظر جو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔

پروفیسراینڈریو نے کلاس میں آتے ہی اپنے من پسند موضوع خدا اور مذہب کی مخالفت پر بولنا شروع کردیا کہ ’’خدا کا تصوّر اور تمام مذاہب___  _ یہ سب انسانوں کی اپنی ایجاد ہیں۔ اپنے خوف پر قابو پانے کے لیے انسانوں نے خدا کا تصوّر تخلیق کرلیا ہے‘‘۔ اپنے نظریے کے حق میں بات کرتے ہوئے پروفیسر اینڈریو نے طلبہ و طالبات سے سوالیہ انداز میں پوچھا: ’’اگر خدا موجود ہوتا تو دنیا میں اس قدر برائیاں کیوں ہوتیں اور انسان اس قدر تکلیفوں اور مصائب کا شکار کیوں ہوتے؟‘‘ پروفیسر نے اپنی بات کو دہرایا اور پھر کلاس کی جانب فاتحانہ انداز میں دیکھا۔ کلاس کی خاموشی کو پروفیسر اینڈریو نے اپنی دلیل کی فتح سمجھا مگر اچانک حیرت انگیز طور پر کلاس سے ایک ہاتھ کھڑا ہوا۔ سٹوڈنٹس کو مزید حیرت اس بات پر ہوئی کہ وہ ہاتھ انتہائی خاموش رہنے والی لڑکی عائشہ کا تھا۔

جیسا کہ بتایا گیا ہے کہ عائشہ ایک خاموش طبع لڑکی تھی، جو اسلام قبول کرنے کے بعد اب اپنے کورس کے مطالعے کے بعد صرف قرآن اور اسلامک فلاسفی کو سمجھنے اور ذہن نشین کرنے میں مشغول رہتی تھی۔ پروفیسر نے اپنا سوال دُہرایا کہ ’’اگر کوئی خداموجود ہوتا تو دنیا میں اتنے دُکھ اور مصائب کیوں ہوتے؟ اور اگر خدا اتنا ہی انصاف پسند اور طاقت ور ہوتا تو انسانوں کو مصائب کا شکار نہ ہونے دیتا اور دنیا سے جہالت، جرائم اور برائیوں کا خاتمہ کردیتا‘‘۔ سب کی توقع کے برعکس عائشہ نے ہاتھ کھڑا کیا تو پوری کلاس حیران ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ کلاس کے تمام طلبہ و طالبات حیران تھے کہ یہ بے زبان سی لڑکی آخر کس اعتماد کی بنیاد پر ڈاکٹر اینڈریو جیسے کایاں شخص سے اُلجھنے کی جرأت کررہی ہے؟ ابھی ایک منٹ میں پروفیسر اسے لاجواب ہی نہیں بے عزّت کرکے رکھ دے گا۔ کیونکہ کوئی بڑے سے بڑا تیز طرار سٹوڈنٹ بھی پروفیسر کو شکست تو کیا اس کے ساتھ اختلاف یا بحث کرنے کی کبھی جرأت نہیں کر سکا تھا۔ اس پس منظر میں عائشہ کا ہاتھ کھڑا کرنا واقعی حیران کن تھا۔ پروفیسر نے بھی حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور کہا:’’ہاں، عائشہ بتائو کیا جواب ہے تمھارا؟‘‘

عائشہ نے کہا:’’سر! آپ کی بات کا جواب دینے سے پہلے کیا میں آپ سے ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟‘‘ پروفیسر نے تکبّر اور خوداعتمادی سے گندھی ہوئی آواز میں کچھ زیادہ ہی بلند آواز میں کہا:’’ہاں ہاں، ضرور پوچھو‘‘۔ اس پر عائشہ بولی:’’سر! کیا یہ درست ہے کہ ہم انسانوں کو کوئی بھی فعل اور عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے؟‘‘پروفیسر نے کہا:’’ہاں، بالکل ہمارے پاس reason and freedom (شعور اور آزادی) ہے اور ہم اسی شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی بھی عمل کرنے میں بااختیار ہیں‘‘۔

اس پر عائشہ نے اعتماد کے ساتھ کہا: ’’سر! آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اب یہ بھی بتادیں کہ اگر معاشرے میں پوری سمجھ، شعور اور آزادی کے ساتھ کوئی شخص جرم کرتا ہے، کسی کو قتل کردیتا ہے یا بہت بڑا فراڈ کرکے کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو کیا ہم اس جرم یا برائی کا ذمّہ دار اُس شخص کو قراردیں گے یا وہاں کے لیگل سسٹم پر اس کی ذمّہ داری ڈال دیں گے؟‘‘

پروفیسر نے فوراً جواب دیا:’’سسٹم ذمہ دار نہیں ہوگا، جرم کرنے والا فرد ہی ذمہ دار ہوگا۔ لیگل سسٹم تو ہمیں راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ جرم کا ارتکاب تو ہم اپنی مرضی سے کرتے ہیں‘‘۔ اب عائشہ نے اور زیادہ پُراعتماد لہجے میں کہا:’’سر! اگر معاشرے میں ہونے والے جرائم کی ذمہ داری ہم جرم کا ارتکاب کرنے والے شخص پر ڈالتے ہیں اور سسٹم کو اس کا ذمّہ دار قرار نہیں دیتے تو دنیا میں ہونے والی برائیوں کی ذمّہ داری برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد کے بجائے خدا پر کیوں ڈال دیتے ہیں؟ کیا اس کے ذمہ دار برائیوں کا ارتکاب کرنے والے افراد نہیں ہیں؟ ‘‘

سٹوڈنٹس اس مکالمے کو پوری توجہ سے سننے کے لیے دم بخود ہوگئے اور پروفیسر اینڈریو کی خوداعتمادی پہلی بار تھوڑی سی ڈگمگاگئی، مگر اس نے اپنا اعتماد قائم رکھتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا:’’مگر یہ کیسا خدا ہے جس نے دنیا کو اچھائیوں کے بجائے برائیوں (evils) سے بھر دیا ہے؟‘‘

 عائشہ نے کہا:’’پروفیسر صاحب! ہم برائیوں کو نہ دیکھتے تو اچھائیوں سے لاعلم رہتے، ہمیں اچھائیوں کی اہمیّت کا اندازہ ہی برائیاں دیکھ کر ہوا ہے‘‘۔

یہ سن کر پروفیسر بولا :’’ٹھیک ہے مگر یہ وبائیں، طوفان، زلزلے اور آسمانی آفتیں جن سے ہزاروں انسان ہلاک ہوجاتے ہیں، یہ ہلاکتیں اور تباہ کاریاں تو انسانوں کی لائی ہوئی نہیں ہیں۔ اگر کوئی خدا ہوتا تو انسانوں کو ان ہلاکتوں اور مصائب میں کیوں مبتلا کرتا؟‘‘ اس پر طالبہ نے جواب دیا: ’’سر، آپ جانتے ہوں گے کہ بہت سے ڈاکٹر مریضوں کے لیے ایسی دوائیاں تجویز کرتے ہیں، جو بہت کڑوی ہوتی ہیں اور بعض اوقات ایسے انجکشن دیتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں‘‘۔

پروفیسر نے کہا:’’ہاں، میں خود بہت کڑوی دوائیاں کھاتا رہا ہوں اور بہت ہی تکلیف دہ ٹیکے لگواتا رہا ہوں‘‘۔ عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا:’’پروفیسر صاحب، آپ تسلیم کریں گے کہ ڈاکٹر کڑوی دوائیاں اور تکلیف دہ ٹیکے اپنے مریضوں کو تکلیف پہنچانے کے لیے نہیں دیتے بلکہ ان کے علاج اور صحت یابی کے لیے تجویز کرتے ہیں۔ یہ ابتلائیں، مصائب، اور صدمے ڈاکٹر کے تکلیف دہ ٹیکوں کی طرح انسانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں ہوتے۔ تکلیف انسان کو صبر اور حوصلہ سکھاتی ہے، دکھ انسانی شخصیّت کی نشوونما کرتے ہیں اور مصائب سے انسانوں کی تکمیل ہوتی ہے‘‘۔ کلاس کے طلبہ سے ایک آواز بلند ہوئی: ’’واہ، بہت خوب دلیل ہے‘‘۔ مگر پروفیسر اینڈریو جیسا شخص اپنی ایک طالبہ سے شکست کیوں مان لیتا۔ لہٰذا اس نے کہا:’’اگر خدا ہوتا تو وہ ایک perfect world تخلیق کرتا جو جرائم، مصائب اور تکلیفوں سے پاک ہوتی‘‘۔ عائشہ نے استاد سے پوچھا: ’’پروفیسر صاحب، آپ ادبی کتابیں پڑھتے ہیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا :’’ہاں، میں انسانی زندگی کے بارے میں کہانیاں اور ناول دلچسپی کے ساتھ پڑھتا ہوں‘‘۔ عائشہ نے یہ سن کر سوال کیا: ’’پروفیسر صاحب! کیا آپ کو انسانی زندگی کی ایسی کہانیاں پسند ہیں جن میں کوئی موڑ، کوئی مشکل اور کوئی چیلنج نہ ہو۔ ہیرو صاف اور سپاٹ سڑک پر سفر کرتا ہوا اپنے طے شدہ وقت پر منزل پر پہنچ جائے، یا آپ کو ایسے ناول پسند ہیں جس میں راستہ کٹھن ہو، جرم بھی ہو، تصادم بھی ہو، غیر متوقع چیلنجز بھی ہوں اور کرداروں کو مصائب اور مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے، اور دکھ بھی سہنے پڑیں؟‘‘ پروفیسر نے کہا: ’’کتاب تووہی دلچسپ ہوگی جس میں جرائم بھی ہوں، مشکلات بھی ہوںاور چیلنج بھی ہوں‘‘۔

عائشہ نے جواب میں کہا:’’بس زندگی کے خالق نے بھی اسے سیدھا اور سپاٹ رکھنے کے بجائے اس میں اُونچ نیچ، مشکلات اور چیلنج ڈال کر اسے سبق آموز اور دلچسپ بنادیا ہے۔ مصائب ہمارے اندر صبر اور انسانی ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ صدمات اور چیلنج انسانوں میں مشکل حالات پر قابو پانے کی ہمت (resilience) پیدا کرتے ہیں۔ مشکلات اور آلام نہ ہوں تو انسان میں ان سے نبرد آزما ہونے کی طاقت اور صلاحیت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ان چیلنجوں کے بغیر تو انسان کو زندگی کے صحیح معانی ہی معلوم نہیں ہوسکتے‘‘۔ پروفیسر کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: ’’اچھا تو خدا نے زندگی کی کہانی دلچسپ بنانے کے لیے انسانوں کو ان دکھوں اور مصائب میں مبتلا کیا ہے؟‘‘ نہیں، خدا کے نزدیک زندگی ایک کہانی نہیں ایک ٹیسٹ ہے، ایک امتحان ہے‘‘، عائشہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔’’خالق نے اپنی واضح نشانیاں دکھا دی ہیں جو شعور رکھنے والے انسانوں کو سچائی تک یعنی خدا کے وجود تک پہنچنے میں راہ نمائی کرتی ہیں‘‘۔ اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا۔

پروفیسر نے جھنجلا کر ایک اور سخت وار کیا:’’ٹھیک ہے، اگر خدا واقعی ہے تو لوگ اس کے وجود سے انکار کیوں کرتے ہیں؟ ‘‘۔ طالبہ نے سوال سنا اور معمولی توقف کے بعد کہا:’’پروفیسر صاحب! آپ یہ بتائیے کہ لوگ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سگریٹ نوشی صحت کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہے، اس کے باوجود کروڑوں کی تعداد میں لوگ اس غلط اور نقصان دہ عادت کو اپنائے ہوئے ہیں اور دن رات سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ وہ یہ نقصان دہ عمل کیوں کرتے ہیں؟‘‘فلسفے کے ماہر پروفیسر نے جواب دیا: ’’اس لیے کہ انھیں کوئی بھی عمل کرنے کا اختیار ہے، اور وہ اس اختیار کو وقتی خوشی یا لذّت کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں‘‘۔’’آپ نے بالکل درست کہا پروفیسر صاحب‘‘۔ عائشہ نے آواز قدرے بلند کرتے ہوئے کہا: ’’آپ نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ انسان اپنا اختیار (choice) ہمیشہ درست طور پر استعمال نہیں کرتے، وقتی لذّت، لطف، خوشی یا مفاد کے لیے وہ اس اختیار اور آزادی کا غلط استعمال بھی کرتے ہیں اور ایک غلط اور نقصان دہ راستے پر بھی چل پڑتے ہیں۔ سچائی کو ماننا یا نہ ماننا بھی ہمارے اختیار یا انتخاب کا معاملہ ہے اور ہمارا انتخاب غلط بھی ہوسکتا ہے‘‘۔

 اب کلاس کے طالب علموں کی اکثریت عائشہ کو ستائش کی نظروں سے دیکھنے لگی تھی۔ مگر منطق اور دلیل کا ماہر پروفیسر اپنی ہی ایک سٹوڈنٹ سے شکست کھانے کو تیار نہ تھا، لہٰذا اس نے ایک اور تیرچلایا: ’’اگر خدا ہے تو نظر کیوں نہیں آتا، اس نے اپنے آپ کو مخفی کیوں رکھا ہوا ہے؟‘‘

طالبہ نے نپے تلے الفاظ میں جواب دیا:’’پروفیسر صاحب، جب خدا نے پردہ اٹھادیا اور اپنے آپ کو ظاہر کردیا، تو اُس دن امتحان ختم ہوجائے گا۔ اور امتحان کے ساتھ ہی دنیا کا بھی خاتمہ ہوجائے گا‘‘۔ پھر ایک وقفے کے بعد عائشہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’مگر کیا شعور رکھنے والوں کو اپنے آس پاس خدا کی واضح نشانیاں نظر نہیں آتیں؟ خدا اپنی نازل کی گئی کتاب قرآنِ مجید میں خود بار بار کہتا ہے کہ میری تخلیقات پر غور کرو، عقل اور شعور استعمال کرکے میری نشانیوں کے ذریعے مجھے تلاش کرو۔ تمھیں سچائی نظر آجائے گی۔ پروفیسر صاحب، خدا کے منکروں کا نظریہ کس قدر کھوکھلا ہے۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ ہر چیز مادّے سے پیدا ہوئی ہے مگر مادّے میں جان کس نے پیدا کی، ذرّے کو زندگی کس نے بخشی ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر یہ کہ جب مادّے میں جان پڑگئی اور نباتات اور حیوانات وجود میں آگئے تو ان میں سے ایک جانور کو شعور دے کر انسان کس نے بنایا ہے؟ اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ محض یہ کہہ دینا کہ فطرت (Nature) خود بخود تخلیق کرتی ہے۔ ایک غیر عقلی اور غیر منطقی بات ہے۔ صدیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی فنکشنل چیز اپنے آپ پیدا نہیں ہوئی۔ وہ پوری دنیا میں کوئی ایک عمارت، ایک پُل ایک پرندہ یا کوئی ایک مشین بتادیں جو خود بخود بن گئی ہو۔ Evolution (ارتقا)کے نظرئیے کے حق میں آج تک کوئی ایک معمولی سی شہادت بھی پیش نہیں کی جاسکی‘‘۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’دوسری جانب جب خدا کہتا ہے کہ یہ کائنات اور انسان میں نے تخلیق کیے ہیں اور سورج اور چاند اور ہر چیز کو تمھارے لیے مسخر کردیا ہے تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ دنیا میں ہر وہ سامان بہم پہنچادیا گیا ہے، جو انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کیا کوئی معمولی سی عقل رکھنے والا شخص بھی یہ مان سکتا ہے کہ سورج اور چاند خودبخود پیدا ہوگئے اور خودبخود صدیوں سے اعلیٰ ترین درجے کی precision  [درستی]کے ساتھ اپنے مدار میں چل رہے ہیں اور اپنا دیا گیا ٹاسک پورا کررہے ہیں؟ انسانی جسم کے اندر چلنے والے حیرت انگیز سسٹمز بھی پکار پکار کر کسی عظیم خالق کے ہونے کی شہادت دے رہے ہیں۔ انسان کے اعضاء مثلاً آنکھیں، ناک، کان، دل، جگر، آنتیں، ہر عضو کا مخصوص فریضہ اور ڈیوٹی ہے اور جس عضو کو جہاں ہونا چاہیے تھا اسے وہیں رکھا گیا ہے۔ اسی لیے خدا نے انسان کو اپنی  Best of Creations (تخلیق کا شاہکار) قرار دیا ہے۔ استاد محترم، میرا آپ سے سوال ہے کہ انسانی جسم کا حیرت انگیز سسٹم اور اس کے اندر چلنے والے کارخانے، کیا یہ سب اپنے آپ بن گئے ہیں؟ کیا آپ کا شعور اور عقل یہ بات تسلیم کرتی ہے؟ نہیں، عقل یہ کہتی ہے کہ یہ اپنے آپ نہیں بن سکتا، یہ کسی بہت طاقت ور ہستی کی قوّتِ تخلیق کا شاہکار ہے‘‘۔

کلاس میں مکمل خاموشی طاری تھی۔ مگر یہ واضح تھا کہ طلبہ و طالبات عائشہ کی باتوں کا اثر قبول کررہے ہیں، اور پروفیسر شکست ماننے کے لیے تیّار نہیں تھا، اس کے ترکش میں ابھی چند تیر باقی تھے۔ اس نے ایک اور تیر پھینکا :’’جیسا تم کہہ رہی ہو کہ خدا بڑا عظیم بھی ہے اور وہ انسانوں کا خیرخواہ بھی ہے تو پھر ہمیں دنیا میں unreasonable sufferings (نامناسب خرابیاں اور زیادتیاں)کیوں نظر آتی ہیں؟ اتنی بڑی تعداد میں معذور بچے کیوں پیدا کیے گئے ہیں؟‘‘ عائشہ نے پورے سکون سے جواب میں کہا: ’’پروفیسر صاحب، آپ ایک لیجنڈری ہستی ہیلن کیلر کو تو جانتے ہوں گے‘‘۔ ’’ہاں ہاں، وہی نابینا اور بہری خاتون۔ جو بہت بڑی رائٹر بن گئی تھی‘‘، پروفیسر نے جواب دیا۔ عائشہ نے کہا: ’’جی وہی ہیلن کیلر جس نے اپنی معذوری کو نہ اپنی کمزوری بننے دیا اور نہ کبھی گلہ کیا بلکہ اس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت بنالیا اور کروڑوں معذور انسانوں کو ہمت اور حوصلہ دیا۔ہیلن کیلر کہا کرتی تھیں کہ سُکھ بھرا خوشگوار سفر نہیں___ بلکہ دکھوں سے لبریز کٹھن راستہ ہی انسانی کردار کو مضبوط کرتا اور کندن بناتا ہے‘‘۔ کلاس کے تمام سٹوڈنٹس ہمہ تن گوش تھے اور لیکچر روم اب مکمل طور پر عائشہ کی گرفت میں تھا۔ پروفیسر کا تکبّر ریزہ ریزہ ہوچکا تھا اور ہر طالب علم محسوس کررہا تھا کہ پروفیسر بھی عائشہ کی پُراثر باتوں سے کافی متاثر ہوچکا ہے۔

پروفیسر نے آخری سوال پوچھا:’’اچھا یہ بتائو تمھیں خدا کے وجود پر کیسے اس قدر یقین ہے؟‘‘ عائشہ نے اسی پُرسکون لہجے میں جواب دیا: ’’اس لیے کہ میں اپنے خالق کو محسوس کرتی ہوں۔ دماغ سے ہی نہیں، دل سے بھی خدا کو دیکھتی اور محسوس کرتی ہوں۔ میں جب نماز میں اپنے خالق سے ہمکلام ہوتی ہوں، جب اُس سے کوئی دعا مانگتی ہوں، جب پریشانیوں میں گھِرکر اسے پکارتی ہوں تو مجھے جواب مل جاتا ہے۔ مجھے سکون اور دلی اطمینان نصیب ہوجاتا ہے‘‘۔

پروفیسر نے بظاہر مسکراتے مگر شکست خوردہ لہجے میں کہا: ’’مگر مجھے روشنی کیوں نہیں مل سکی؟ مجھے خدا کیوں نہیں ملا؟‘‘ عائشہ بولی: ’’اس لیے کہ آپ نے اس کی تلاش میں صرف فلسفیانہ اور منطقی راستے اختیار کیے ہیں،جب کہ ایک اور راستہ بھی ہے۔ اور وہ ہے دل کا راستہ۔ اسے اختیار کریں وہ آپ کو سچائی اور حقیقت کی منزل تک ضرور پہنچائے گا‘‘۔

پروفیسر نے اپنے دل کے اردگرد نفرت اور تعصب کی جو مضبوط دیواریں کھڑی کی تھیں، ان میں دراڑ پڑچکی تھی۔ اس کا فلسفہ اور منطق ایک نوعمر لڑکی کی پُراخلاص باتوں کے آگے ڈھیر ہوچکا تھا۔ وہ دل شکستہ ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا اور اس کی تھکی سی آواز اُبھری: ’’آپ جاسکتے ہیں‘‘۔