مضامین کی فہرست


جنوری ۲۰۱۱

پہلے افغانستان کے بارے میں امریکی خفیہ دستاویزات سے پردہ اٹھایا گیا، پھر عراق کے بارے میں پنڈورا باکس کھولا گیا، اور طوفان کے تیسرے تھپیڑے نے تو پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی امریکی سفارت خانے ہیں، وہاں ایک بھونچال آگیا۔ نیویارک کی جڑواں عمارتوں پر حملے اور عالمی اقتصادی بحران کے بعد یہ نئی صدی کا تیسرا بڑا واقعہ ہے جس کے ، مستقبل کی سیاست و معیشت اور مجموعی عالمی صورتِ حال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگرچہ ان دستاویزات میں بیان کیے گئے لاکھوں انکشافات میں سے اکثر باتیں وہی ہیں جنھیں کھلا راز  کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے بجا طور پر سفارتی نائن الیون قرار دیا جارہا ہے۔ اعتماد و اعتبار کسی بھی سفارت کار کا اصل ہتھیار ہوا کرتا ہے، لیکن اب دنیا میں ہر امریکی سفارت کار بے اعتبار ہو کر رہ گیا ہے۔ اب امریکا کے غلام، ایجنٹ اور زر خرید ’دوست‘ بھی اس سے کوئی بات کرتے ہوئے مستقبل کے وکی لیکس کو ضرور ذہن میں رکھا کریں گے۔ ان ’لِیکس‘ نے امریکی سفارت کاری کی زنبیل میں ایسا چھید کردیا ہے کہ طویل عرصے تک اسے رفو نہیں کیا جاسکتا۔ انکشافات نما دستاویزات کے مندرجات پر دنیا بھر میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور مزید بہت کچھ لکھا جاتا رہے گا، ہم یہاں اختصار کے ساتھ بعض اصولی نکات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں:

ہر انسان کے لیے سب سے بنیادی سبق یہ ہے کہ اس کا ہرقول، ہرعمل کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہورہا ہے۔ بعض انتہائی اہم افراد نے اپنے تئیں یہ سمجھ کر کچھ باتیں یا اقدامات کیے یا انھیں تحریر میں لے آئے کہ جو کچھ وہ خفیہ طور پر کررہے ہیں وہ خفیہ ہی رہے گا۔ پھر شاید وہ خود بھی بھول گئے کہ انھوں نے کبھی ایسی کوئی بات کہی تھی، لیکن کئی سال کے بعد اپنے ہی الفاظ اچانک ان کے سامنے آکر، انھیں آئینہ دکھانے لگے ہیں، اور وہ اس پر شرم سار ہورہے ہیں:  ع آئینہ ان کو دکھایا تو بُرا مان گئے۔

کوئی انکار کررہا ہے اور کوئی اپنی بات کو ’’سیاق و سباق سے کٹی ہوئی ادھوری بات‘‘ قرار دے رہا ہے۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو، بہت ممکن ہے کہ کہے گئے الفاظ کو امریکی ’کاتبین‘ نے اپنی خواہشات کا تڑکا بھی لگا دیا ہو، لیکن کیا ہمیں اس موقع پر اپنے رب کی منادی سنائی دی:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ o اِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌ o مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ط ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ o (قٓ ۵۰:۱۶-۱۹) ہم نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو ہم جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔ (اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کررہے ہیں۔ کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا، جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔ پھر دیکھو وہ موت کی جان کنی حق لے کر آپہنچی۔ یہ وہی چیز ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

یہ دستاویزات تو انسانوں کا تیار کردہ ریکارڈ ہیں۔ انسانی وسائل ہی اس کا ثبوت ہیں، کہیں کوئی کمپیوٹر ڈسک، کوئی خفیہ کیمرہ، ٹیپ یا کاغذ کا کوئی ٹکڑا، لیکن جو ریکارڈ خالق تیار کررہا ہے اس میں تو دل میں بسے احساسات اور ذہنوں میں چھپے خیالات تک بلا کم و کاست محفوظ ہورہے ہیں۔ راز افشا ہوجانے پر دنیا میں ہونے والی جگ ہنسائی اور بدنامی تو دنیا ہی کی طرح عارضی اور وقتی ہے۔ کوئی تدبیر یا کوئی دھوکا و دجل شاید اس کا مداوا بھی کردے، لیکن اگر روز محشر بھی بدنامی و پردہ کشائی ہی حاصل ہوئی تو ہمیشہ ہمیشہ کی اس روسیاہی کا پھر کہیں کوئی علاج نہ ہوگا۔ ہاں، انسان اگر کاتب تقدیر ہی کو اپنا وکیل بنا لے تو دنیا و آخرت کی ہر عدالت میں ہمیشہ سرخ رو قرار پائے گا۔

مسلم حکمرانوں کا شرم ناک کردار

ان انکشافات میں سب سے قابلِ رحم طبقہ عالم اسلام کے حکمرانوں کا سامنے آیا ہے، یا پھر ان سیاست دانوں کا جو صرف اقتدار کو اپنا اول و آخر اور اصل ایمان سمجھتا ہے۔ اپنے عوام کے لیے خوں خوار بھیڑیوں سے بھی زیادہ سفاک، تمام تر ملکی مفادات کو اپنے اقتدار کی بھینٹ چڑھا دینے کے لیے ہر دم مستعد حکمران اور سیاست دان، اصل ایمان یہ رکھتے ہیں کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ امریکی خوشنودی ہے۔ امریکا جسے چاہتا ہے اقتدار عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اقتدار چھین لیتا ہے۔ اپنے عوام اور اپنے کارکنان کے سامنے، فرعون کی طرح اکڑے یہ سب طرم خان، جب امریکی دربار میں حاضری دیتے یا کسی سفیر کبیر کے سامنے آتے ہیںتو آدابِ غلامی بجا لاتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر مطیع فرمان و فرماں بردار ہونے کا یقین دلاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔   بے گناہ اور معصوم شہریوں پر امریکی آقا کے ڈرون حملوں سے لے کر، براہ راست فوجی مداخلت اور عسکری آپریشن تک ہر ظلم کو عین انصاف اور حق قرار دیتے ہیں۔ پاکستان، یمن اور مصر کے حکمرانوں کے اس طرح کے بہت سے جملے ان دستاویزات میں ثبت ہیں کہ ’’آپ حملے کرتے رہیے، ہم کہیں گے یہ امریکا کی نہیں، دہشت گردوں کے خلاف ہماری اپنی کارروائی ہے‘‘۔ ’’آپ حملے کرتے رہیں، ہم مخالفانہ مذمتی بیان دے دیں گے، لیکن یقین رکھیں یہ صرف اپنے عوام کو بہلانے کے لیے ہوگا‘‘، ’’ہم اپنی اسمبلی سے آپ کے حملوں کے خلاف قرار داد منظور کروارہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، آپ کی کسی کارروائی میں کوئی خلل نہ آنے دیں گے‘‘۔ ہوسکتا ہے کہ یہ الفاظ اور جملے کہنے والے حکمران، اپنے ملک اور شہریوں کے دشمن نہ بھی ہوں لیکن سمجھتے یہی ہیں کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ امریکی خوشنودی کے بغیر کرسی نہیں ملتی اور اپنے لوگ مروائے بغیر امریکا راضی نہیں ہوتا۔

پاکستان کی موجودہ قیادت کی جو تصویر ان انکشافات میں سامنے آئی ہے وہ قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ زرداری صاحب کھلے الفاظ میں کہتے ہیں کہ وہ امریکا کی وجہ سے اقتدار میں آئے اور امریکا کے مشورے سے ساری پالیسیاں بنانے کا اطمینان دلاتے ہیں۔ موساد نے کہا: مشرف کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔ زرداری نے جوبائیڈن سے کہا: فوج مجھے اقتدار سے محروم کرسکتی ہے۔ زرداری صاحب امریکی سفیرہ کو دہائی دیتے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور وہ اپنا جانشین اپنی بہن فریال تالپور کو مقرر فرماتے ہیں۔ جنرل کیانی نواز شریف کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے    باب میں امریکی سفیرہ سے راز و نیاز فرماتے ہیں اور اسفندیار کو صدر بنانے کا عندیہ دیتے ہیں۔  نواز شریف صاحب جنرل کیانی کو آرمی چیف بنوانے پر امریکا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

اس طرح پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کی جو جو شکلیں سامنے آئی ہیں وہ پاکستان کے ایک آزاد، خودمختار اور باوقار ملک ہونے کی نفی کرتی ہیں اور اس کی سرتاسر   ذمہ داری پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت پر آتی ہے۔ مسئلہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کا ہو یا بھارت سے تعلقات کا یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان اور اس کی فوج کے کردار کا___ پرویز مشرف سے لے کر موجودہ قائدین تک ہرجگہ اس ملک کی قیادت امریکا کے اشارئہ چشم و ابرو پر ناچتے نظر آتے ہیں۔ باربار یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امریکی اسپیشل دستے پاکستان میں موجود ہیں۔ ڈرون حملے پاکستان کی سرزمین سے اور پاکستان کی قیادت کی ملی بھگت سے کیے جارہے ہیں۔ کم از کم ۱۶ امریکی فوجی قبائلی علاقوں میں پاک فوج کے ساتھ کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ امریکا چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے خلاف تھا، ڈاکٹر قدیر پر پابندیاں اس کے دبائو میں لگائی گئیں، سوات آپریشن امریکا کے ایما پر کیا گیا اور اس آپریشن میں فوج کی ماوراے قانون کارروائیوں پر پورے علم کے ساتھ امریکا پردہ ڈالتا رہا۔

کیا محکومی اور ذلت کی یہ شرم ناک داستان قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں؟

قرآن کریم کے الفاظ و آیات ہی نہیں ان کی ترتیب اور حرکات و سکنات بھی اپنے اندر ایک معنی و پیغام رکھتی ہے۔ ذرا ایک عجیب ترتیب ملاحظہ فرمائیے۔ سورہ آل عمران کی دو آیات میں انتہائی وضاحت و صراحت کے ساتھ اقتدار عطا ہونے اور چھین لیے جانے کے الٰہی اختیار و قدرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَ تُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ  طبِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ تُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ وَ تُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ تُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَآئُ بَغَیْرِ حِسَابٍ o (اٰل عمران ۳:۲۶-۲۷ ) کہو خدایا! ملک کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان میں سے جان دار کو نکالتا ہے اور جان دار میں سے بے جان کو، اور جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

پھر ان آیات کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے:

لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً طوَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ o قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ ط وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِط وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا وَّ مَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓئٍ  تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَ بَیْنَہٗٓ اَمَدًا م بَعِیْدًا ط وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ طوَ اللّٰہُ رَئُ وْفٌم بِالْعِبَادِ o  (اٰل عمرٰن ۳:۲۸-۲۹) مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یار و مددگار ہرگز نہ بنائیں۔ جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں، یہ معاف ہے کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرز عمل اختیار کرجاؤ، مگر اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور تمھیں اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ اے نبی لوگوں کو خبردار کردو کہ تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ بہرحال اسے جانتا ہے۔ زمین و آسمان کی کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے اور اس کا اقتدار ہر چیز پر حاوی ہے۔

اقتدار کی حرص میں گرفتار لوگوں کے لیے اس سے بہتر کوئی نصیحت اور اس سے سخت وعید کوئی اور ہوسکتی ہے؟ رب ذو الجلال کو علم تھا کہ اقتدار کے لالچ کا شکار ہوکر اہل ایمان بھی کفار سے خفیہ دوستیاں گانٹھیں گے، اس لیے واضح حکم بھی دے دیا اور خبردار بھی کردیا کہ انھیں رفیق و مددگار نہ بناؤ، وگرنہ اللہ سے تمھارا کوئی تعلق واسطہ نہ رہے گا‘‘ اور دیکھو اللہ تمھارے کھلے چھپے ہرحال سے آگاہ ہے، کسی سے چھپ چھپا کر بھی راز و نیاز، وعدہ، وعید اور عہدوپیمان کروگے تو اللہ ان سے باخبر ہوجائے گا۔ صاحب تفہیم القرآن ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’کہیں انسانوں کا خوف تم پر اتنا نہ چھا جائے کہ خدا کا خوف دل سے نکل جائے، انسان حد سے حد تمھاری دنیا بگاڑ سکتے ہیں مگر خدا تمھیں ہمیشگی کا عذاب دے سکتا ہے… خبردار کفر اور کفار کی کوئی ایسی خدمت تمھارے ہاتھوں انجام نہ ہونے پائے، جس سے اسلام کے مقابلے میں کفر کو فروغ حاصل ہونے اور مسلمانوں پر کفار کے غالب آجانے کا امکان ہو۔ خوب سمجھ لو کہ اگر اپنے آپ کو بچانے کے لیے تم نے اللہ کے دین کو، یا اہل ایمان کی جماعت کو، یا کسی ایک فرد مومن کو بھی نقصان پہنچایا، یا خدا کے باغیوں کی کوئی حقیقی خدمت انجام دی، تو اللہ کے محاسبے سے ہرگز نہ بچ سکو گے۔ جاناتم کو بہرحال اسی کے پاس ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران حاشیہ ۲۶)

اس مضمون کو خالق کائنات نے قرآن کریم میں جا بجا بیان فرمایا ہے۔ کہیں کہا :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا طوَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآئُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُھُمْ اَکْبَرُ ط قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۱۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ۔ وہ تمھاری خرابی کے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں نہیں چوکتے۔ تمھیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے۔ ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں، وہ اس سے بھی شدید تر ہے۔ ہم نے تمھیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں۔ اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے)۔

سورئہ مائدہ میں فرمایا:

وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمط فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْھِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ o (المائدہ ۵:۵۱-۵۲) ’’اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھیں میں ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ انھی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں ہم کسی مصیبت کے چکر میں نہ پھنس جائیں‘‘۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’مسلمانوں میں جو لوگ منافق تھے وہ اسلامی جماعت میں رہتے ہوئے، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی ربط ضبط رکھنا چاہتے تھے۔ تاکہ کش مکش اگر اسلام کی شکست پر ختم ہو تو ان کے لیے کوئی نہ کوئی جاے پناہ محفوظ رہے۔ معاشی اسباب کی بنا پر بھی یہ منافق لوگ ان کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے۔ ان کا گمان تھا کہ اگر اسلام و کفر کی اس کش مکش میں ہمہ تن ہو کر ہم نے ان سب قوموں سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے جن کے ساتھ اسلام اس وقت برسرپیکار ہے، تو یہ فعل سیاسی اور معاشی دونوں حیثیتوں سے ہمارے لیے خطرناک ہوگا۔ (تفہیم القرآن، ج۱، ص ۴۸۰)

اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی رکھنے والوں کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں انھیں اپنی وفاداریوں کا یقین دلانے والے سورۃ الممتحنۃ کا مطالعہ بھی ضرور کرلیں۔ وہاں دیگرارشادات کے علاوہ یہ ارشاد ربانی بھی خصوصی توجہ چاہتا ہے:

تُسِرُّوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَاَنَا اَعْلَمُ بِمَآ اَخْفَیْتُمْ وَمَآ اَعْلَنتُمْ طوَمَنْ یَّفْعَلْہُ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ (الممتحنہ ۶۰:۱) تم چھپا کر ان کو دوستانہ پیغام دیتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو، ہر چیز کو میں خوب جانتا ہوں، جو شخص بھی تم میں سے ایسا کرے یقینا راہِ راست سے بھٹک گیا۔

کسی دنیاوی لالچ یا خوف کے باعث دشمن سے گٹھ جوڑ کرنا، اسے اپنی وفاداریوں کا یقین دلانا اور ذاتی مفاد کی خاطر ملک و ملت سے غداری کرنا اتنا سنگین جرم ہے کہ قرآن کریم میں مزید کئی مقامات پر اس سلسلے میں تفصیلی احکام و تنبیہات ملتی ہیں، لیکن یہاں مذکورہ بالا آیات و اقتباسات ہی پر اکتفا کرتے ہیں۔

مسلم ممالک خصوصی ھدف

ان سفارتی دستاویزات میں جہاں مسلمان حکمرانوں ، سیاست دانوں، فوجی جرنیلوں، حکومتی کار پردازوں، اور دانشوروں کے ’اقوال زریں‘ درج کیے گئے ہیں، وہیں اپنے ان زرخرید دوستوں کے بارے میں امریکی آقاؤں کے ارشادات عالیہ بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی تمام تر وفاداریوں کا صلہ انھیں مکار، گھامڑ، بڈھا کھوسٹ، ازکار رفتہ، کرسی کا بھوکا، خرانٹ اور بعض ایسے ایسے القابات کی صورت میں دیا گیا ہے، کہ ایک مہذب انسان کے لیے انھیں زبان پر بھی لانا ممکن نہ ہو۔ امریکی ذمہ داران نے اپنے یہ سارے ادبی خزانے طشت ازبام ہوجانے پر بھی، کوئی ندامت یا شرمندگی محسوس نہ کی، نہ ہی ان پر کوئی معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ البتہ امریکی وزیر خارجہ یہ بیان دے کر اپنے تئیں فارغ ہوگئیں کہ سفارتی راز سامنے آنے سے ہمارے دوستوں کو جو شرمندگی ہوئی ہے، ہمیں اس پر افسوس ہے۔ پوری کوشش کریں گے کہ آیندہ ایسا نہ ہو۔ گویا صدمہ اگر ہے بھی تو اس بات پر کہ ’غلام اپنے غلاموں‘ کے سامنے بے نقاب ہوگئے وگرنہ، نہ تو ان کے بارے میں کہے گئے الفاظ و القاب غلط ہیں اور نہ خود ان کے اپنے بیانات میں کسی شک کی گنجایش ہے۔

اگرچہ دنیا کے صرف چند ممالک ہی ان لیکس کی زہرناکی سے محفوظ رہے یا رکھے گئے ہیں، لیکن ان کا غالب ترین حصہ مسلمان ممالک کے بارے میں ہے۔ اہل پاکستان کو لگتا ہے کہ وطن فروشی اور ضمیر کشی کی اس برہنہ دوڑ میں ان کے بڑے سب سے آگے ہیں، لیکن مجموعی طور پر دیکھیں تو  الاماشاء اللہ ہر ملک کا عالم یہی ہے۔ اکثر مسلم ممالک کے بارے میں جاری کی گئی دستاویزات، امریکی خواہشات اور منصوبوں کی حقیقی عکاسی کرتی ہیں۔ مثلاً ایران پر حملہ کرنے کی بات ہی لے لیجیے، کون نہیں جانتا کہ امریکا اور اسرائیل ایک عرصے سے اسی آرزو میں گھلے جارہے ہیں۔ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں WMD's کے بعد ایرانی ایٹمی پروگرام کو اسی عالمی جوڑے نے ہو .ّا بنا کر پیش کیا ہے، لیکن اپنے سفارتی مراسلوں میں اپنے اس پورے خواب اور منصوبے کا ملبہ عرب حکمرانوں پر ڈال دیا۔ شیعہ سنی اختلاف اور خوں ریزی کی ساری آگ پر تیل تو خود چھڑک رہا ہے، لیکن کندھا عرب حکمرانوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ صرف عرب، عجم یا شیعہ و سنی ہی نہیں تقریباً تمام پڑوسی مسلمان ملکوں کو اسی طرح ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا ہے۔ الجزائری صدر بوتفلیقہ پڑوسی ملک مراکش کے بادشاہ کے بارے میں بیان دیتے ہوئے اسے استعمار کا چہیتا قرار دے رہا ہے اور خلیجی حکمران حزب اللہ اور شام کے حکمرانوں سے شاکی ہیں۔  امریکی سفارت کار اگر ان سارے لڑائی جھگڑوں کو اپنی وزارت خارجہ کے سامنے بغلیں بجاتے ہوئے پیش کررہے ہیں، تو خود امریکی ارادوں کو بھانپنے اور اُن کا مطلب و مفہوم سمجھنے کے لیے کسی کا عبقری ہونا ضروری نہیں۔ ہاں اس پورے شر میں سے اگر خیر کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو وہ یہی ہے کہ امریکی آرزوؤں کی بلی تھیلے سے باہر آجانے کے بعد، مسلمان حکمرانوں کے سامنے سنبھل جانے کا ایک اور موقع موجود ہے۔ کم از کم یہ ثابت کرنے کے لیے ہی وہ باہمی اختلافات کے الاؤ میں کودنے سے باز رہ سکتے ہیں کہ یہ دستاویزات ہماری نہیں امریکی خواہشات کا پرتو ہیں اور ہم ان سے اپنی برأت کا اظہار قولاً ہی نہیں عملاً بھی کرتے ہیں۔

مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کو یہاں یہ حقیقت بھی دوبارہ اور اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ وہ امریکی خوشنودی کے لیے اپنا سارا ملک بھی کھنڈرات میں بدل دیں اور اپنی ساری قوم کو بھی موت کے گھاٹ اتار ڈالیں، یہ حرافہ راضی ہونے والی نہیں ہے۔ اس کے مطالبات جہنم کے پیٹ کی طرح ہیں، انسانوں اور پتھروں کا جتنا بھی ایندھن ڈال دیں، اس میں سے یہی صدا آئے گی: ھَلْ مِنْ مَزِیْد۔ امریکی زبان میں اس کا ترجمہ یہی ہے Do More ۔ قرآن کریم نے واضح طور پر خبردار کردیا کہ ان یہود و نصاریٰ کی خوشنودی صرف ایک صورت میں حاصل ہوسکتی ہے کہ اپنے رب کا دین چھوڑ کر ان کے دین میں داخل ہوجاؤ۔’ڈو مور‘ کی تابع داری کرتے حکمران، اقتدار کی کرسی بچاتے بچاتے اسی ھَلْ مِنْ مَزِیْد کے کنویں میں تو جاگریں گے، ’ڈومور‘ کا ڈھول بند نہیں ہوگا۔ جنوبی کے بعد شمالی وزیرستان، کوئٹہ اور پھر جنوبی پنجاب، کراچی اور پھر مریدکے… امریکا کہاں کہاں خون کی ہولی نہیں کھیلنا چاہتا۔

جواباً ہمارے ہاتھ میں کیا آتا ہے؟ لیکس کے مطابق ہالبروک اور دیگر امریکی ذمہ داران کی بھارت کو یہ یقین دہانیاں کہ وہ افغانستان میں مکمل آزادی سے کُھل کھیلے، ہم اس بارے میں کسی پاکستانی احتجاج یا مفاد کو خاطر میں نہیں لائیں گے۔ آج افغانستان سے لگاتار یہ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بچے بچے کے دل میں پاکستان سے نفرت بٹھائی جارہی ہے، بھارت وہاں ہر شعبہ زندگی میں پاؤں جما رہا ہے، خود افغانستان میں افغانیوں کی تربیت کے علاوہ چار ہزار سے زائد افغان فوجیوں کو بھارت لے جا کر انھیں عسکری و فکری تربیت دے چکا ہے اور یہ سلسلہ مزید جاری ہے۔ ساتھ ہی پختون اور بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی مسلسل اکسایا اور مضبوط کیا جارہا ہے، اگر اب بھی ’ڈومور‘ کے مطالبے کو مسترد نہ کیا گیا تو ہم مشرق و مغرب سے ایسے شکنجے میں کَس دیے جائیں گے کہ ان سے نکلنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے گا۔

امریکی سفارت کار اپنی دستاویزات میں یہ اعتراف و اظہار کرتے ہیں کہ بھارت مظلوم کشمیریوں پر ناقابل بیان ظلم ڈھارہا ہے۔ کشمیری عوام کو زندگی کے ہر عنوان سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان دستاویزات میں بھارتی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ایچ ایس پاناگ کو بدنامِ زمانہ سرب درندے، میلوسووچ سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ ان تمام حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود، امریکی غلامی کے گذشتہ ۱۰برسوں میں کبھی بھی امریکا نے بھارت کو اپنی دہشت گردی سے باز آنے کا نہیں کہا۔ وکی لیکس کے مطابق، امریکی اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ ہندو انتہا پسند طاقتیں بھارتی فوج اور ایجنسیوں سے مضبوط رشتہ رکھتی ہیں۔ اور یہ ہندو تنظیمیں عالمی امن کے لیے ان تمام تنظیموں سے بڑا خطرہ ہیں  جن کا نام پاکستان کے حوالے سے لیا جاتا ہے۔ بھارتی ایٹمی اثاثوں کا ۸۰ فی صد بھی بھارت کے منہ زور باغیوں کے علاقے میں اور ان کی ممکنہ دسترس میں ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود، دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ۱۰ برسوں میں کسی نے اس بارے میں بات نہیں کی۔  ان ۰ابرسوں میں امریکی صدور سمیت جو امریکی ذمہ دار بھی بھارت گیا، اس نے دلی میں حکمرانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر، پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کی ٹیپ چلانا اپنا فرض منصبی سمجھا۔ بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے بھارتی ڈراموں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے بند کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن کشمیر، بھارتی مظالم، انسانی حقوق، کشمیر کے بارے میں بین الاقوامی قراردادوں جیسے کسی بے کار لفظ کو قابل التفات نہیں سمجھا۔ لیکس نے واضح کیا کہ امریکا اور عالمی برادری کور چشمی کے مریض نہیں۔ کشمیر ی عوام کی خوں ریزی انھیں بھی دکھائی دیتی ہے لیکن مسلمان حکمرانوں کی طرح امریکی بھی مجبور ہیں۔ ان کی مجبوری یہ ہے کہ کشمیری عوام نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ پاکستان سے محبت کا جرم بھی کرتے ہیں۔

یھودیوں سے خفیہ معاھدہ

وکی لیکس نے دنیا کے تقریباً ہر ملک کی خفیہ کہانیاں سرعام بیان کر دی ہیں، لیکن ان انکشافات کا ایک نہایت اہم پہلو، جس کی طرف مبصرین اور تجزیہ نگاروں کی بہت کم توجہ گئی ہے،   یہ ہے کہ فی الوقت دنیا پر اصل قبضہ یہودیوں کا ہے لیکن وکی لیکس میں کہیں بھی صہیونی حکمرانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جن برسوں کی یہ یادداشتیں ہیں، انھی برسوں میں اسرائیلی درندوں نے سفاکیت کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ لبنان کی تباہ کن جنگ کے علاوہ، غزہ میں قیامت خیز تباہی برپا کی ہے۔ یاسر عرفات سے کام نکل جانے کے بعد انھیں زہر دے کر موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ لیکن ان تمام صہیونی کارناموں کو قابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اب ہوسکتا ہے کہ اپنی ساکھ قائم کرنے کے لیے صہیونی ریاست کے راز و نیاز سے بھی کچھ پردہ سرکا دیا جائے لیکن یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ لاکھوں دستاویزات میں اب تک کیوں اسے کوئی جگہ نہ مل سکی؟ اس طرح کے دیگر کئی اہم سوالیہ نشانات کی روشنی میں بعض تجزیہ نگاروں کی راے میں ان لیکس میں ایک ڈرامے اور سازش کے سارے رنگ موجود ہیں۔ اس بارے میں دو آرا ہوسکتی ہیں لیکن اتنی بات بہرحال اظہر من الشمس ہے کہ تمام دستاویزات میں سے صہیونی ریاست سے متعلق تمام منفی چیزیں حذف کردی گئیں یا انھیں پردۂ اخفا میں رکھا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر۔

اس چابک دستی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان انکشافات کا وہ حصہ باقی رکھا گیا ہے جو ہے تو صہیونی جرائم کے بارے میں، لیکن اس میں کچھ کردار عرب حکمرانوں کا بھی ہے۔ عرب حکمرانوں کا پردہ چاک والی یہ دستاویزات باقی رہنے دی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے لیے پڑوسی عرب حکمرانوں بالخصوص مصری اور الفتح کے ذمہ داران نے نہ صرف اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی تھی، بلکہ انھوں نے اس آرزو اور خواہش کا اظہار بھی کیا تھا، کہ غزہ سے حماس کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرکے وہاں محمود عباس کے سیکورٹی مشیر محمد دحلان کا اقتدار قائم کیا جائے۔ یہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ مصری حکومت نے نہ صرف اسرائیلی احکام کی پیروی کرتے ہوئے غزہ کا محاصرہ کیا بلکہ غزہ کا ہر راستہ بند ہوجانے کے بعد، اہل غزہ کی طرف سے مصری بارڈر پر کھودی جانے والی سرنگوں کی نشان دہی بھی کی، جنھیں اسرائیلی حملوںکے ذریعے تباہ کردیا گیا۔ ان لیکس میں ان کئی حکمرانوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات ہیں، یہ سب کچھ بتانے کا ایک مقصد یقینا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دیگر مسلمان حکمرانوں کو بھی اس طرح کے روابط کے لیے حجت فراہم کی جائے۔ اس صورت حال کے تناظر میں بعض اسرائیلی صحافتی ذرائع نے اب باقاعدہ دعویٰ کردیا ہے کہ ولی لیکس انتظامیہ نے صہیونی ذمہ داران سے معاہدہ کیا تھا، کہ ان کے بارے میں تمام مراسلات پردئہ اخفا میں رکھے جائیں گے۔

کثرت اور تنوع کے ساتھ ساتھ ان دستاویزات سے یہ امر بھی پوری طرح مترشح ہوتا ہے کہ امریکی سفارت کار دنیا کے ہر ملک میں اور اس کے تمام اُمور میں مداخلت کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی ملک کے نچلے سے نچلے طبقے تک براہ راست رسائی رکھتے ہیں۔ سیاست دان، صحافتی، تعلیمی اور عسکری حلقے ان کی سرگرمیوں اور توجہ کا خصوصی مرکز ہیں۔ معاشرتی دائروں میںبھی وہ تمام طبقوں بالخصوص خواتین اور نوجوانوں میں گہری رسائی حاصل کررہے ہیں۔ وہ ہر طبقے کے افراد کو ڈالروں، عیاشیوں، بیرونی دوروں یا دیگر مفادات کے گرداب میں پھانسنے اور پھر انھیں بلیک میل کرتے رہنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ معروف اور طے شدہ سفارتی اصول و ضوابط کے مطابق، غیر ملکوں میں موجود سفارت کار، ان ممالک کے محدود علاقوں اور محدود افراد و اداروں تک ہی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ دیگر افراد اور علاقوں تک پہنچنے کے لیے اس ملک کی وزارتِ خارجہ کے ذریعے، متعین ضوابط کی پابندی کرنا لازمی ہے لیکن امریکا بہادر خود کو کسی ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا۔

اب تو سفارتی حلقوں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) بھی بہت بڑی تعداد میں میدان میں اُتار دی گئی ہیں، جو ہر جگہ اپنی پوری کی پوری سلطنتیں قائم کررہی ہیں۔ بالخصوص مسلم دنیا میں این جی اوز اور استعماری کارندوں کے ہراول دستے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ اس کی نمایاں ترین مثال بنگلہ دیش کی نام نہاد این جی او براک (BRAC) ہے جس کا آغاز ۱۹۷۲ء میں ہوا مگر اس نے ۱۵برس کے اندر اندر بنگلہ دیش کے سیاسی، سماجی اور معاشی میدان میں اپنی گرفت  مضبوط تر کرلی۔ ۱۹۹۲ء میں خالدہ ضیا کی حکومت نے اس کے معاملات اور مداخلت کاری کا جائزہ لینے کے لیے ایک باقاعدہ کمیشن بنایا۔ کمیشن نے یہ بات متعین اور واضح طور پر کہہ دی کہ یہ نام نہاد این جی او عملاً ایک مداخلت کار اور ریاست کے اندر ریاست ہے۔ لیکن پھر جونہی اس پر قدغن لگانے کی بات کی گئی تو اصل راز کھل گیا۔ یورپی یونین نے دھمکی دے دی کہ اگر براک پر بنگلہ دیشی حکومت نے ہاتھ ڈالا تو ہم اس سے سفارتی تعلقات توڑ لیں گے۔ آج اس تنظیم کے ۳۸ ہزار سے زائد غیر رسمی تعلیم کے اسکول اور ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے زیادہ تنخواہ دار کارندے، بنگلہ دیش کی تعلیمی ہی نہیں سیاسی، سماجی، معاشی حتیٰ کہ داخلہ پالیسی تک کے معاملات پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اب اسی تجربے کو دیگر ممالک میں پھیلاتے ہوئے خاص طور پر افغانستان اور پاکستان کو ہدف بنایاجارہا ہے۔ افغانستان میں تو ۲۰۰۲ء سے اس کو تقویت دینے کے لیے ۳۴ میں سے ۲۳ صوبوں میں کسی نہ کسی رنگ میں کام کرنے کے مواقع دیے گئے ہیں، جب کہ پاکستان میں اس نے ۲۰۰۷ء سے کام کا آغاز کیا ہے اور ۸ اضلاع میں اپنے نیٹ ورک کو مضبوط بنالیا ہے۔ کمپنی کی سابقہ مشہوری کے سبب یورپی اور امریکی پشت پناہی کے دروازے چوپٹ کھلے رہیں گے، لیکن اگر معاملہ یہی رہا تو آیندہ دو سال کے بعد خود پاکستان کے وہ حکمران جو اس کے لیے مدد کے دروازے کھول رہے ہیں اپنے کیے پر یقینا پچھتائیں گے۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

اسلامی تحریکوں کا امتیاز

امریکی دستاویزات سامنے آنے کا ایک مفید پہلو یہ ہے کہ اس سے دنیا کے سامنے اسلامی تحریکوں کی شفافیت اور اصول پسندی مزید واضح اور اجاگر ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان سمیت دنیا کی کوئی ایک بھی اسلامی تحریک نہیں کہ جس کی قیادت نے امریکا کے ساتھ اپنے ایمان و ضمیر کا سودا کیا ہو۔ سفارتی روابط ان کے بھی ہیں اور کئی ممالک میں کئی دیگر جماعتوں اور پارٹیوں سے زیادہ مستحکم و مربوط بھی، لیکن یہ ان پر اللہ کا خصوصی کرم ہے کہ ان کی قیادت براے فروخت نہیں ہے۔ وہ بند کمروں میں بھی امریکیوں سے وہی کہتے ہیں جو لاکھوں کے مجمعے میں۔ یقینا اللہ کی حفاظت نہ ہوتی، تو یہ کمزور انسان بھی امریکا کی پھیلائی آلایشوں سے محفوظ نہ رہتے۔

مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے بارے میں امریکی رپورٹوں اور تبصروں کے جواب میں اب تک صرف دو حکمران ایسے سامنے آئے ہیں جنھوں نے خود پر لگائے گئے الزامات کا پوری شدومد اور مضبوطی سے جواب دیا ہے۔ ایک تو ترک وزیر اعظم رجب طیب اردوگان جن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے مالی بدعنوانی کی ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں ان کے آٹھ اکاؤنٹس ہیں اور ان میں بھاری رقوم پڑی ہیں۔ طیب اردوگان نے فوراً پریس کانفرنس بلائی اور چیلنج کیا کہ سوئس بنکوں میں میرا ایک بھی اکاؤنٹ اور ایک بھی پیسہ ثابت کردو تو مَیں حکومت و سیاست سے ابھی استعفا دینے کو تیار ہوں۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان امریکی سفارت کاروں کے خلاف عالمی اور امریکی عدالت میں مقدمہ درج کروائیں گے جنھوں نے الزامات پر مبنی یہ رپورٹس بھیجی ہیں۔ فوراً امریکی وزیرخارجہ نے رابطہ کیا اور ترک حکومت سے باضابطہ معذرت کی گئی۔ لیکن ترک حکومت پر اصل الزامات وہ ہیں جو دیگر سیکڑوں دستاویزات کے ذریعے پیش کیے گئے ہیں اور جن میں ترک حکومت کو اسرائیل کا کھلا مخالف قرار دیتے ہوئے، ترکی اسرائیل تعلقات میں روز افزوں ابتری اور تناؤ پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

دوسرے حکمران سوڈان کے صدر عمر حسن البشیر ہیں ان پر بھی مالی بدعنوانی اور ۱۰ ارب ڈالر برطانیہ لے جانے کا الزام لگایا گیا۔ انھوں نے بھی اس کی شدید مذمت و تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ثابت کردو کہ میں نے یہ رقم اڑائی اور برطانیہ میں رکھی ہے، تو مَیں خود یہ ساری رقم الزام ثابت کرنے والے کی نذر کردوں گا۔ لیکن سوڈان چونکہ خود مشکلات میں گھرا ہوا ہے، اس کے  جنوبی حصے کی علیحدگی کا سورج سوا نیزے پر آگیا ہے، اس لیے ایسی مشکل میں گھرے ہوئے پریشان حال سوڈان سے معذرت کا تکلف نہیں کیا گیا۔

دنیا پر حکمرانی کا خبط

امریکی دستاویزات نے پوری دنیا میں پھیلے امریکی سفارت کاروں کو ان ممالک کے اصل حکمران ہونے کے زعم و خبط کا شکار دکھایا ہے۔ خود امریکی اعلیٰ عہدے دار بھی اسی خدائی دعوے کی پھنکاریں مارتے نظر آتے ہیں، لیکن خود امریکا ہی میں لاتعداد امریکی دانش ور اور تجزیہ نگار، دہائیاں دے رہے ہیں کہ خدارا اس پاگل پن سے نجات حاصل کرلو۔ عالمی امپیریل پاور بننے کے جنون میں ہم نے خود کو تباہی کے مہیب دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر ہمارے پاگل پن کا دورہ اسی شدت پر رہا، تو کوئی دن جاتا ہے کہ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ دیگ کے ایک دانے کے طور پر چند روز قبل انتقال پاجانے والے امریکی دانش ور چیلمرز جانسن Chalmers Jonson کا مفصل مقالہ بعنوان Blowback: The Costs and Consequences of American Empire ملاحظہ کرلیجیے۔ جانسن اپنی کئی تحریروں میں سابقہ استعماری اور عالمی طاقتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ انھوں نے بھی دیگر اقوام و ممالک پر قبضے کو قدرت کا فیصلہ اور انتخاب قراردیا۔ اپنے اپنے زمانے کی یہ سوپر طاقتیں بھی باقی تمام اقوام کو کمزور، وحشی اور جاہل قراردیتے ہوئے، دنیا کو ترقی اور حقیقی امن و آزادی دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے، ان پر قابض ہوتی چلی گئیں لیکن اپنے گھر سے باہر پھلتے پھولتے اور پھیلتے، وہ بالآخر اپنے گھر میں بھی تباہ حالی کا شکار ہوگئیں اور باہر بھی شکست و نامرادی سے دوچار ہوگئیں۔

جانسن امریکی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کی روشنی میں بتاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں امریکا کے ۷۳۷ فوجی اڈے ہیں۔ دنیا کے ۱۳۰ ممالک میں اس کے تقریباً ۵ لاکھ فوجی، جاسوس یا ایجنٹ پھیلے ہوئے ہیں۔ افغانستان اور عراق میں بیٹھے لاکھوں فوجی جاسوس اور ایجنٹ اس کے علاوہ ہیں۔ لیکن اتنی بڑی عسکری قوت کے باوجود اس کی بیرونی فوجی ایمپائر بھی تیزی سے زوال اور ہلاکت کی دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہے اور اندرونی جمہوری نظام کی بنیادیں بھی بتدریج بوسیدہ اور کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ اپنے ملک کے ساتھ مخلص ایک دانش ور اپنی تحریروں میں بار بار امریکی ایمپائر کو اختتام (End) سے خبردار کرتے اور ’’تمھارے دن گنے جاچکے‘‘ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ کیا وقت نہیں آیا کہ وکی لیکس کے لاکھوں صفحات میں بکھری داستانوں کو پڑھ کر،  ان سے کچھ سیکھ کر، اور خدا توفیق دے تو کچھ عبرت پکڑ کر مسلمان حکمران (اور عوام بھی) ایک ڈوبتے ہوئے آقا کے در سے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنے رب کے حضور جھک جائیں___؟

وہ یقین کریں کہ رب کے در پر سر جھکانے سے وہ اتنے سربلند ہوں گے کہ انھیں ساری دنیا اپنے سامنے جھکی ہوئی اور پست نظر آئے گی۔

 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا ط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o (التغابن ۶۴:۷) منکرین نے بڑے دعوے سے کہا کہ وہ مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے۔ ان سے کہو: ’’نہیں، میرے رب کی قسم! تم ضرور اُٹھائے جائو گے، پھر تمھیں ضرور بتایا جائے گا کہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے، اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے‘‘۔

یہ بات پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کی جاچکی ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں وہ اس بنا پر کرتے ہیں کہ ان کی خواہشاتِ نفس یہ چاہتی ہیں کہ ان کو دنیا میں برائیاں کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل رہے۔ ان کے لیے کوئی مستقل اخلاقی قانون نہ ہو، نہ کوئی ایسی مستقل قدریں ہوں جن سے انحراف نہ کیا جاسکتا ہو، کیونکہ جو نیکی ہے وہ تو ہرحال میں نیکی ہی رہے گی، اسی طرح جو بدی ہے وہ بھی لازماً اور ہرحال میں بدی ہی رہے گی۔ انسان اس طرح کی قدریں ماننے سے اس لیے انکار کرنا چاہتا ہے کہ وہ اس کی خواہشاتِ نفس پر پابندیاں لگاتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مرنے کے بعد کسی کو دوبارہ زندہ نہیں ہونا ہے۔ یہ بات وہ کسی عقلی دلیل کے ساتھ نہیں کہتا، کیونکہ اگر وہ عقل کی بنیاد پر یہ بات کہتا ہے تو اس سے سوال کیا جائے گا کہ آپ جب پہلے نہیں تھے تو وجود میں کیسے آگئے؟ جب نہ ہونے کے بعد آپ پیدا ہوگئے تو پھر دوبارہ نہ ہونے کے بعد نہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہے؟ اگر ناممکن ہوتا تو آپ کا پہلی مرتبہ پیدا ہونا ناممکن ہوتا۔ جب پہلی مرتبہ پیدا ہونا ممکن ہوگیا تو پھر دوبارہ پیدا ہونا کیسے ناممکن ہے۔ چنانچہ اگر آدمی محض عقل پر بھی مدار رکھے تو وہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ناممکن ہے۔ لیکن چونکہ خواہش نفس یہ کہہ رہی ہے کہ اس بات کو ہرگز نہ مانو، کیونکہ اس کے ماننے سے یہ اور یہ پابندیاں تمھارے اُوپر عائد ہوجائیں گی، اس وجہ سے اپنے طور پر وہ جان چھڑانے کے لیے یہ کہتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ پیدا ہونا ناممکن ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کافروں نے اپنی جگہ یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ دوبارہ نہیں اُٹھائے جائیں گے تو ان کا یہ گمان سراسر باطل ہے۔

منکرین کے دعویٰ کی حقیقت

زعم کا مطلب ہے اپنی جگہ کسی بات کو سچ سمجھ لینا، جب کہ واقعہ نہ ہو۔ اُردو زبان میں بھی آپ کہتے ہیں تم اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو لیکن اس سے حقیقت تو نہیں بدل جائے گی۔ چنانچہ فرمایا: قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ، ان سے کہو کہ تم کیوں نہیں اُٹھائے جائو گے۔ ان سے کہو میرے رب کی قسم! تم ضرور اُٹھائے جائو گے۔ پھر فرمایا: ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ، پھر ضرور تمھیں بتایا جائے گاکہ تم نے (دنیا میں) کیا کچھ کیا ہے اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔

گویا جس چیز سے بچنے کے لیے تم اس کا انکار کر رہے ہو، وہی چیز پیش آکر رہنی ہے۔  تم اس بات سے بچنا چاہتے ہو کہ کوئی تم سے یہ پوچھے کہ تم دنیا میں کیا کرکے آئے ہو، جو مال تم کو دیا گیا تھا اس کو کس طرح استعمال کیا، جو جسم تم کو دیا گیا تھا اس کی طاقتوں کو تم نے کس طرح  استعمال کیا، جو قابلیتیں تم کو دی گئی تھیں ان کو کہاں استعمال کیا۔ غرض، ایک ایک چیز کے متعلق تم سے سوال ہونا ہے۔ تم کو یہ بتایا جائے گا کہ تم یہ یہ کچھ کر کے آئے ہو۔ تمھارا پورا نامۂ اعمال تمھارے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ یہ تمھاری زندگی کا کارنامہ ہے___ اور ایسا کرنا خدا کے لیے بالکل آسان ہے۔

تم اپنی جگہ سمجھتے ہو کہ تمھارا دوبارہ زندہ کر کے اُٹھا دینا بڑا مشکل کام ہے، حالانکہ اللہ کے لیے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر مشکل ہوتا تو تمھیں پہلی بار پیدا کرنا مشکل ہوتا۔ جب ایک دفعہ وہ پیدا کرچکا تو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے کیسے مشکل ہوگا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو اپنے سامنے بیک وقت جمع کرلینا بھی کچھ مشکل نہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔ تمھارے سب کے نامہ ہاے اعمال کو لاکر سامنے رکھ دینا، جن میں تمھاری پوری زندگی کا کارنامہ بلاکم و کاست درج ہو، اور جو چیزیں تم بھول بھی گئے ہو گے وہ بھی اس کے اندر موجود ہوں گی۔ یہ سب کچھ تمھارے نزدیک مشکل ہوسکتا ہے مگر اللہ کے لیے نہیں۔ تم اپنی جگہ یہ سمجھ سکتے ہو کہ قیامت تک نہ جانے کتنے ارب کتنے کھرب انسان پیدا ہوچکے ہوں گے، ان سب کے کارنامے کو کون مرتب کرے گا اور کون اسے سامنے لاکر رکھے گا لیکن اللہ کے لیے یہ بالکل آسان ہوگا۔ جو خدا بیک وقت ساری کائنات کو دیکھ رہا ہے اور اس کی تدبیر کر رہا ہے، جو خدا ساری مخلوق کی باتیں ہروقت سُن رہا ہے اور ان کا جواب دے رہا ہے اس کے لیے کیا مشکل ہے کہ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے ان کے کارنامے کو بیک وقت ان کے سامنے لاکر رکھ دے۔

اللّٰہ کا نور

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنزَلْنَاط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo (۸) پس ایمان لائو اللہ پر، اور اس کے رسولؐ پر، اور اُس روشنی پر جو ہم نے نازل کی ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

اُوپر کے تمام دلائل پیش کرنے کے بعد یہ کہنا کہ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ، اللہ پر ایمان لائو، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جب حقائق یہ ہیں تو اس کے بعد تمھارے لیے سیدھا راستہ یہ ہے کہ اللہ کو اور   اس کے رسولؐ کو مان لو اور اس نور پر ایمان لے آئو جو ہم نے نازل کیا ہے۔ یہاں نور سے مراد وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انسان کو دی ہے۔ سمجھانا یہ مقصود ہے کہ صرف قرآنِ مجید ہی نور نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک اور آپؐ کی سنت بھی نور ہے۔ اس طرح زندگی کے تمام معاملات میں آپؐ کی چھوڑی ہوئی ہدایات بھی نور ہیں۔ ان سب چیزوں کے مجموعے کو لفظ نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ہدایت کی وہ روشنی ہے جو کھول کھول کر بتا رہی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اس نور کی پیروی کرو___ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

کفار کی غلط فھمی

اس مقام پر یہ مضمون اس جملے پر ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمام دلائل فراہم کردیے ہیں۔ اپنا رسول بھیج کر اپنی تعلیمات پہنچا دی ہیں اور اس کے ساتھ تمھیں دعوت دے دی ہے کہ ہمارے رسولؐ کو مانو اور اس کی تعلیمات کو مانو۔ اب اس کے بعد اگر کوئی نہیں مانتا تو اللہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں سے اچھی طرح واقف ہے۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو وہ صرف یہ کہنے پر نہیں چھوٹ جائے گا کہ صاحب یہ دلائل تو میری عقل میں اُترے ہی نہیں تھے، اس لیے میں نے دین کو نہیں مانا تھا لیکن یہ باتیں وہ صرف انسانوں سے کہہ سکتا ہے، اللہ سے نہیں کہہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ اس کو کھول کر بتا دے گا کہ تو نے کیوں نہیں مانا تھا۔ آپ لوگوں کے سامنے تو یہ باتیں بنا سکتے ہیں کہ دین حق کی باتیں میرے دماغ میں نہیں اُترتی تھیں لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ آپ کے قبولِ حق سے فرار کے اسباب کیا تھے۔ آپ کی خواہشاتِ نفس اصل رکاوٹ تھیں اور آپ کے تعصبات دراصل اس کو قبول کرنے میں مانع تھے۔ آپ نے یہ سوچا کہ اگر میں نے اس حقیقت کو مان لیا تو کنبہ اور برادری چھوٹ جائے گی، جایداد چھوٹ جائے گی، وراثت سے محروم ہوجائوں گا، اس دین کو قبول کرکے بہت سی تکلیفیں اور مصائب مجھے پیش آسکتے ہیں، تو اس طرح کی بیسیوں رکاوٹیں آدمی کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔ تب آدمی حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص انکار کرتا ہے تو یہ کہہ کر کرتا ہے کہ یہ دین تو میری سمجھ ہی میں نہیں آتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کے قبولِ حق سے انکار کے اصل وجوہ سے اچھی طرح باخبر ہے۔ وہ اس روز ان سب باتوں کی حقیقت اس پر کھول کر رکھ دے گا، ایسے دلائل اور شواہد کے ساتھ کہ آدمی ان کی تردید میں زبان نہیں کھول سکے گا۔ دنیا میں تو اس کی سخن سازی چل سکتی ہے لیکن قیامت کے روز خود اس کا اپنا نفس اس کو بتادے گا کہ تو جھوٹا ہے، اور اللہ جس بات کی تجھے خبر دے رہا ہے، وہ برحق ہے۔

یوم التغابن

یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o (۹-۱۰) (اس کا پتا تمھیں اُس روز چل جائے گا) جب اجتماع کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا۔ وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ اور جو اللہ پر ایمان لایا ہے اور نیک عمل کرتا ہے، اللہ اُس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ اُن میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے  وہ دوزخ کے باشندے ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔

یہ فرمایا کہ ہم نے اپنی آیات پر ایمان لانے کی جو دعوت تم لوگوں کو دی ہے اس کے جواب میں جو رویہ تم اختیار کرو گے ہم اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ظاہری طور پر باخبر ہیں بلکہ اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ کس نیت سے تم نے کیا رویہ اختیار کیا۔

اب اس کے بعد فرمایا جا رہا ہے کہ: یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ، یعنی جب اللہ تعالیٰ تمھیں اکٹھا کیے جانے کے دن میں اکٹھا کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ دن ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے طے کر رکھا ہے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک جتنے انسان پیدا ہوں گے ان کے تمام اوّلین و آخرین کو بیک وقت اکٹھا کر کے اپنے سامنے حاضر کرے گا۔ اسے یوم التغابن کہا گیا ہے۔ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ، وہ تغابن کا دن ہوگا۔

تغابُن عربی قاعدے کے مطابق تَفَاعُل کا صیغہ ہے غَبَن سے، اور غبن کہتے ہیں چُھپی ہوئی خیانت کو، وہ خیانت جو آدمی نے چھپا کر کی ہو۔ آپ اُردو زبان میں بھی غبن کا لفظ قریب قرب اسی معنی میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ تَغَابُن کا مطلب ہے غبن کا کُھل جانا۔ مراد یہ ہے کہ آدمی نے جو کچھ بھی غبن کیا ہے، جو جو کچھ خفیہ خیانت کی ہے وہ کُھل کر ساری سامنے آجائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو جو قوتیں عطا کی تھیں کہ وہ ان کو اس کی بندگی میں استعمال کرے مگر اس نے ان کے ساتھ غبن کیا۔ اس طرح کہ ان کو اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی میں استعمال کیا۔ شیطان کی خوش نودی کے لیے استعمال کیا، اپنے جیسے انسانوں، حکومتوں، برادریوں اور خاندانوں کی بندگی میں اور ان سے مفادات حاصل کرنے میں استعمال کیا، غرض ایک خدا کی بندگی کو چھوڑ کر ہرایک کی بندگی کرڈالی۔ یہ سارا غبن اس روز کھل جانے والا ہے، اس پر کوئی پردہ پڑا نہیں رہ جائے گا۔ ایک شخص نے اپنے سرمایۂ حیات کو اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو اور اپنے مال کو جن جن چیزوں میں invest کیا، اس کی غلطی اس روز کھل جائے گی۔ سب کچھ معلوم ہوجائے گا کہ اس نے یہ ساری سرمایہ کاری کس کام میں کی ہے اور اس کے اندر اس نے کہاں کہاں غلطی کی ہے، کہاں کہاں دھوکا کھایا ہے اور کہاں دھوکا دیا ہے۔

اس کے بعد آیت کے اگلے حصے میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہرغبن کھل جانے کے بعد انسان  دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ جو شخص اللہ پر ایمان لایا اور اس کے مطابق نیک عمل کیے تو اللہ اس کے ساتھ یہ معاملہ کرے گا کہ:

یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ، اس کی برائیاں اس سے دُور کر دے گا۔ اس کے حساب سے ساقط کر دے گا، اور اس کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔

گناھوں کا کفارہ

’’برائیاں دُور کر دے گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک آدمی سچے دل سے اللہ پر ایمان لایا اور اس ایمان کے ساتھ اپنی پوری کوشش عملِ صالح بجا لانے میں انجام دی، لیکن اس کے بعد بشریت کی کمزوری کی بنا پر اس سے کچھ قصور بھی سرزد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ ان سب کو اس سے دُور کردے گا، یعنی ان کی بازپُرس اس سے نہیں کی جائے گی۔ یہ معاملہ اللہ، مومن اور وفادار بندے کے ساتھ کرے گا۔

احادیث میں اس بات کی تفصیل آتی ہے اور قرآنِ مجید میں بھی اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ بڑی حد تک ایک مومن صالح کی غلطیوں اور خطائوں کا کفارہ اسی دنیا میں وہ تکلیفیں بن جاتی ہیں جو اس کو پیش آتی ہیں۔ ایک کانٹا بھی اس کو چبھا تو اس کے بدلے میں اس کا ایک گناہ معاف کر دیا گیا۔ کوئی صدمہ یا رنج اس کو پہنچا، کسی نے اس کو تکلیف دی، اس کو گالی دی، لیکن اس نے اس پر صبر کیا اور اس کا بدلہ نہیں لیا، تو اس طرح قسم قسم کی جو تکلیفیں اس دنیا میں آدمی کو پہنچتی ہیں، یہ ساری چیزیں اس کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ آدمی کے وہ گناہ یا قصور اس دنیا میں بھی اس کے نامۂ اعمال سے خارج کردیے جاتے ہیں تاکہ آخرت کی عدالت میں بندے کو لوگوں کے سامنے رسوا بھی نہ کیا جائے اور سزا بھی معاف کر دی جائے۔ اس کے بعد بھی اگر اس کے حساب میں کچھ بچا رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اسے ویسے ہی معاف فرما دے گا۔ لیکن اللہ جل شانہٗ کا یہ سارا معاملہ اس بندے کے حق میں ہے جو خلوص کے ساتھ ایمان لایا اور اس نے اپنی حد تک کوشش کی کہ اس سے کوئی دانستہ کوتاہی سرزد نہ ہو کیونکہ دانستہ کوتاہی معاف نہیں ہوگی۔ اور جو خطائیں بشری کمزوری کی بنا پر اس سے سرزد ہوئیں اور وہ ان کی معافی مانگنے اور توبہ کرنے سے رہ گیا تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو معاف کر دے گا اور اپنی جنت میں داخل کرے گا، وہ جنت جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ’’جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جنت کی زندگی کبھی ختم ہوجائے گی۔ نہیں، بلکہ وہ ابدی زندگی ہوگی۔ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ’’یہی اصل بڑی کامیابی ہے‘‘۔ یعنی دنیا میں کسی کا جایدادیں بنا لینا، ساری دنیا کا حکمران ہو جانا، یہ کوئی کامیابی نہیں ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو، اور ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی اس کو حاصل ہوجائے۔

سرکشی کا انجام

اس کے برعکس جن لوگوں نے کفر کیا، اس کی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا، اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کا رویہ اختیار کیا اور وفادار بندہ بننے سے انکار کیا، ان کے بارے میں فرمایا: وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ط وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ (۱۰) ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا، وہ دوزخ میں جانے والے لوگ ہوں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘۔

یہ سب کچھ یوم التغابن کو ہوگا۔ اس روز لوگوں کی ہارجیت کا فیصلہ ہوگا۔ اس روز یہ فیصلہ ہوگا کہ جو لوگ کھرے اور خالص مومن ہیں اور جنھوں نے اپنی حد تک عملِ صالح کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے ان کا ایک انجام ہوگا___ اور جن لوگوں نے کفر اور تکذیب کا راستہ اختیار کیا اُن کا دوسرا انجام ہوگا۔ پہلے لوگ اللہ کی نعمت بھری جنتوں میں داخل ہوں گے اور کامیابی ان کے حصے میں آئے گی، جب کہ دوسری قسم کے لوگ دوزخ میں ڈالے جائیںگے اور ناکامی ان کا مقدر ہوگی۔ العیاذ باللّٰہ!

ھدایتِ قلب

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ o (۱۱) کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے۔ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو، اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے، اور اللہ کو ہر چیز کا    علم ہے۔

یہاں سے سورئہ تغابن کا دوسرا رکوع شروع ہوتا ہے۔ اس میں اس صورتِ حال کے بارے میں کلام کیاگیا ہے جس سے اس دور میں مسلمان گزر رہے تھے اور اسی کے مطابق اہلِ ایمان کو اہم ہدایات دی گئی ہیں۔

فرمایا گیا کہ دنیا میں جو تکلیف اورمصیبت کسی پر آتی ہے خواہ وہ بیماری کی شکل میں ہو یا دوسرے نقصانات کی صورت میں ہو، وہ اللہ کے اذن کے بغیر نہیں آتی۔ اسی طرح اگر کسی قوم پر کوئی آفت آتی ہے یا بحیثیت ِ مجموعی سارے انسانوں پر کوئی آفت ہوتی ہے تو اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ظہور میں آئے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا مالک و خالق ہے اور سارا اقتدار اسی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کائنات میں کوئی واقعہ بغیر اس کے ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہونے دے، اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک واقعہ جب پیش آجائے تب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو کہ میری سلطنت میں فلاں واقعہ پیش آیا ہے۔ نہیں، بلکہ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور اس کی منظوری سے ہوتا ہے۔

وَمَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ ط ،ا ور جو شخص بھی اللہ پر ایمان لائے اللہ تعالیٰ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے۔

معلوم ہوا کہ اصل رہنمائی انسان کے دل کی رہنمائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ایمان لانے والے کو صبر کی ہدایت دیتا ہے، اس کی توفیق بخشتا ہے۔ اس کو عدل اور حق پر قائم رہنے کی ہدایت دیتا ہے اور اس کے مطابق اس کو عزم اور ہمت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ وہ اس کو سیدھا راستہ بتاتا ہے کہ تیرے لیے دنیا میں کام کرنے کا صحیح راستہ یہ ہے اور پھر اس کو یہ ہدایت بھی دیتا ہے کہ سیدھے راستے کو اختیار کرنے میں اسے خواہ کسی قسم کی مشکلات پیش آئیں اس کو اسی راستے پر قائم رہنا ہے۔ یہ ساری ہدایات اللہ تعالیٰ اس شخص کو دیتا ہے جو اس کے اُوپر ایمان لاتا ہے۔    وہ اس کے قلب میں وہ روشنی پیدا کردیتا ہے جس سے وہ اپنا راستہ ٹھیک ٹھیک دیکھ سکے۔ اس کے بعد اس کو توفیق دیتا ہے کہ اس کے سامنے جو حقیقت واضح ہوکر سامنے آچکی ہے، وہ اس کو اختیار کرے اور مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہے۔ یہ سب ہدایتِ قلب کے معنی ہیں۔

اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ایک شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان ہی نہ لائے تو اس کے قلب کو کوئی روشنی نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا نفس اس کو جدھر لے جاتا ہے اُدھر اُدھر وہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی اسی وقت کرے گا، جب کہ وہ  اللہ تعالیٰ پر اعتماد کرے، اس پر ایمان لائے، اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے اور اس کی رہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دیتا ہے۔

پھر فرمایا: وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ، ’’اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ کون اس پر سچے دل سے ایمان لایا ہے، کس نے اس پر اعتماد کرکے اس کی طرف رجوع کیا ہے، اور کون اس کی رہنمائی حاصل کرنے کا طالب ہوتا ہے۔ یہاں بحث اس سے نہیں ہے کہ کون زبان سے کہہ رہا ہے کہ وہ اس پر ایمان لایا، اور اس سے بھی بحث نہیں ہے کہ کس کا   نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہوا ہے کہ وہ مردم شماری میں مسلمان ہے۔ اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ براہِ راست اس بات کا علم رکھتا ہے کہ کون واقعی اس پر ایمان لایا ہے، واقعی اس پر اعتماد رکھتا ہے، واقعی اس کی رہنمائی کا طالب ہے۔ کوئی دوسرے تصورات، خیالات اور خواہشات تو اس کے اُوپر غالب نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ محض ایمان کے دعوے سے دھوکا کھانے والا نہیں ہے، وہ ہرچیز کا علم رکھتا ہے۔

پھر یہ ارشاد کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس معنی میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے کیونکہ وہ علم اسی کے پاس ہے جو رہنمائی کرنے کے لیے درکار ہے۔ دوسرا جو کوئی بھی ہو، اس کا علم جزوی ہے اور ناقص ہے۔ وہ ان تمام حقائق سے واقف ہی نہیں ہے جن کا علم آدمی کی رہنمائی کرتا ہے۔ یہ علم صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ وہی جانتا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، انصاف کیا ہے اور بے انصافی کیا ہے۔ اس لیے انسان کی صحیح رہنمائی صرف وہی کرسکتا ہے۔ دوسرا کوئی یہ کام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔

ایمان کا لازمی تقاضا

وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ o اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ o (۱۲-۱۳) اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ کی اطاعت کرو لیکن اگر تم اطاعت سے منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسولؐ پر صاف صاف حق پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں، لہٰذا ایمان لانے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔

گذشتہ آیت میں فرمایا گیا تھا کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اسی کے دل کی رہنمائی فرماتا ہے۔ اب اس کے بعد یہ فرمانا کہ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَتو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایمان لانے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ آپ نے مان لیا کہ اللہ ہے لیکن یہ کافی نہیں۔ محض زبان سے مان لینے کے اعتبار سے تو آج کفار بھی مانتے ہیں کہ اللہ ہے اور مشرکین بھی اس بات کو مانتے ہیں۔ اللہ کی ہستی کا انکار تو بہت کم ملحدین اور دہریوں نے کیا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کو دنیا کی آبادی کی عظیم ترین اکثریت مانتی ہے۔ کروڑوں میں سے صرف چند آدمی ایسے ہوں گے جو اللہ کی ہستی کا انکار کرتے ہیں۔ لہٰذا محض اللہ کے ہونے کو مان لینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ بات انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے۔ محض یہ مان لینے سے کسی کے قلب کو ہدایت نہیں ملتی۔ ہدایت اُسی شخص کو ملے گی جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کا راستہ اختیار کرے۔

اس سلسلے میں یہ بھی سمجھ لیجیے کہ صرف یہ نہیں فرمایا کہ اَطِیْعُوا اللّٰہَ جیساکہ اُوپر فرمایا تھا: مَنْ یُّؤْمِنْم بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہُ کہ جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کی رہنمائی کرتا ہے، مگر یہاں اللہ کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسولؐ کی اطاعت کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا تقاضا صرف یہی نہیں ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے بلکہ اس کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت بھی لازم ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے جو رہنمائی ملے گی وہ رسولؐ کے واسطے سے ملے گی، براہِ راست نہیں ملے گی۔ اس لیے محض اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے بلکہ اللہ کی اطاعت کے ساتھ اللہ کے رسولؐ کی اطاعت کا بھی مطالبہ ہے، کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے آپ کو معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ کیا چاہتا ہے، اور کیا نہیں چاہتا۔ وہ کس چیز کو پسند کرتا ہے اور کس کو پسند نہیں کرتا۔ یہ چیزیں آپ کو براہِ راست نہیں بتائی جائیں گی بلکہ اللہ کے رسولؐ کے واسطے سے معلوم ہوں گی، اس لیے واضح طور پر حکم دیا گیا اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔

رسولؐ کی ذمہ داری

فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (۱۲) لیکن اگر تم منہ موڑتے ہو تو ہمارے رسولؐ پر صرف صاف صاف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے۔

گویا اس کے بعد ساری ذمہ داری تمھاری ہے۔ اگر اللہ کا رسولؐ کسی بات کو پہنچانے میں نعوذباللہ کوتاہی کرے تو رسولؐ کی ذمہ داری ہے لیکن اگر رسولؐ نے بات پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو اس کے بعد رسولؐ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے کہ تم ہدایت قبول کرتے ہو یا نہیں۔ خدا کی ہدایت کا انکار کر کے اگر اس دنیا میں تم ٹھوکریں کھائو تو اس کے ذمہ دار تم ہو۔ کیوں کہ رسولؐ نے تو تمھیں ٹھیک ٹھیک بتا دیا تھا کہ صحیح راستہ کون سا ہے اور غلط راستہ کون سا ہے، حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ اسی طرح آخرت میں خداوند عالم کے حضور پیشی کے وقت بھی ذمہ داری تمھاری ہوگی کیونکہ آخرت میں رسولؐ بتا دے گا کہ میں نے ان کو ٹھیک ٹھیک تعلیمات پہنچا دی تھیں۔ نہ صرف یہ کہ زبان سے پہنچائی تھیں بلکہ اپنی پوری عملی زندگی کے ذریعے سے بھی پہنچا دی تھیں اور اپنے ایک ایک فعل کے ذریعے سے پہنچا دی تھیں۔ اس کے بعد اپنے اعمال کے ذمہ دار تم خود ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اگر تم منہ موڑتے ہو تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑتے، نہ خدا کا کچھ بگاڑو گے، نہ رسولؐ کا کچھ بگاڑو گے بلکہ اپنا ہی کچھ بگاڑو گے۔ اس وقت تمھارا سمجھنا کسی کام نہیں آئے گا۔

الٰـہ کا تصور

اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ ط (۱۳) اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے۔

الٰہ کا ترجمہ عام طور پر معبود کر دیا جاتا ہے لیکن الٰہ سے مراد دراصل وہ ہستی ہے جو تمام کائنات کی مالک اور حکمران ہے اور اس بنا پر وہی عبادت کی مستحق ہے۔ گویا ایک تو ہے کس شخص کو معبود بنا لیا جانا، اس معنی میں بھی الٰہ کا لفظ بولا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ الٰہ نہیں بن جاتا۔  حقیقت میں الٰہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے کیونکہ ساری کائنات کا کلّی اقتدار اور سارے اختیارات بالکل اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ آپ کسی آدمی کے سامنے   اس وقت تک نہیں جھکیں گے جب تک آپ کو یہ یقین نہ ہو کہ میرا مفاد اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میرا جینا اور مرنا اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ میری تقدیر بنانے والا ہے۔ اگر آپ کو کسی کے متعلق  یہ معلوم ہو کہ اُس کے ہاتھ میں کوئی طاقت اور اختیار نہیں ہے تو پھر آپ اس کے سامنے سر کیسے جھکا سکتے ہیں؟

اس لیے قرآن بار بار یہ بات لوگوں کے ذہن نشین کرتا ہے کہ جن چیزوں کے آگے تم جھکتے ہو، ان کو اپنا معبود بناتے ہو، جن سے دعائیں مانگتے ہو، ان کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہو، جن کی اطاعت اور بندگی بجا لاتے ہو، ان کے ہاتھ میں سرے سے کچھ ہے ہی نہیں۔ وہ تمھاری تقدیر پر ذرّہ برابر اثرانداز نہیں ہوسکتے۔ اُوپر بیان ہوا ہے کہ تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آتی جو اللہ کے اذن کے بغیر آجائے۔ تم بیمار پڑتے ہو تو اس کے اذن سے پڑتے ہو، کوئی دوسرا تمھیں بیمار ڈالنے والا نہیں ہے۔ تم تندرست ہوتے ہو تو اس کے تندرست کرنے سے ہوتے ہو، کوئی دوسرا تمھیں تندرست کرنے والا نہیں ہے۔ تمھیں روزگار ملتا ہے تو اس کے دینے سے ملتا ہے، کوئی دوسرا رزق دینے والا نہیں ہے۔ اسی طرح ان تمام پہلوئوں کو دیکھتے ہوئے جب آدمی یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا واقعتا میرا نفع اور نقصان کرنے کا اختیار رکھتا ہے، تب وہ اس کو الٰہ اور معبود اور آقا اور مالک تسلیم کرتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکاتا ہے۔ اب بعض لوگ اس تصور کے اندر انتشار پیدا کرتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بیماری دینے والا ہے اور کوئی رزق دینے والا اور کوئی اولاد دینے والا ہے۔ کسی علاقے کے فرماں روا کوئی بزرگ ہیں اور کسی دوسرے علاقے کی فرماں روائی کسی اور بزرگ کے سپرد ہے۔ اس وجہ سے وہ ایک ایک آستانے پر جھکتے چلے جاتے ہیں۔ ایک ایک در پر بھیک مانگنے کے لیے پہنچتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ،  اس کے علاوہ کوئی دوسرا الٰہ سرے سے ہے ہی نہیں، یعنی صرف کسی ایک علاقے کے نہیں، ساری کائنات کے پورے اختیارات میرے ہاتھ میں ہیں۔ کسی دوسرے کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے کہ کوئی اس کا مستحق ہو کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ پھر اسی بنا پر آگے فرمایا کہ اللہ ہی کے اُوپر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔

اللّٰہ پر توکلّ

وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۳) اور اللہ ہی کے اُوپر مومنوں کو بھروسا کرنا چاہیے۔

’’بھروسا کرنا چاہیے‘‘ کے الفاظ بہت وسیع معنی رکھتے ہیں۔ اس معنی میں بھی بھروسا کرنا چاہیے کہ ہدایت دے گا تو وہ دے گا، کہیں اور سے رہنمائی نہیں ملے گی۔ اس معنی میں بھی بھروسا کرنا چاہیے کہ اگر کہیں سے مصائب و مشکلات میں مدد ملے گی تو اسی سے ملے گی، کوئی دوسرا مدد دینے والا نہیں ہے۔ تمھیں حفاظت کی ضرورت ہوگی تو وہی حفاظت کرے گا، کوئی دوسرا حفاظت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر آپ دنیا میں کامیاب ہوں گے تو اسی کے کرنے سے ہوں گے۔ دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کی مرضی کے خلاف تمھیں کامیاب کرسکے۔ اسی طرح مومنوں کو ہرلحاظ سے صرف اللہ کے اُوپر اعتماد کرنا چاہیے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پر اعتماد کر کے آدمی ہاتھ پائوں ہلانا اور کوشش کرنا چھوڑ دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی تمام کوششیں جو اس کے کرنے کی ہیں اور جو قانونِ قدرت کے تحت اس پر لازم آتی ہیں، وہ ان کو ضرور بروے کار لائے مگر نتائج کے لیے صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرے۔ مثال کے طور پر آپ بیمار پڑتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس علاج کے لیے جاتے ہیں لیکن آپ کا اعتماد ڈاکٹر پر نہیں اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہیے۔ اگر اللہ تعالیٰ ڈاکٹر کی دی ہوئی دوا کو آپ کے لیے مفید بنائے گا تو وہ مفید ہوگی۔ ڈاکٹر انسان کے جسم کی اندھیری کوٹھڑی کے اندر بغیر دیکھے بھالے علاج و دوا کے جو تیر چلاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو ٹھیک نشانے پر بٹھا دے تو آدمی تندرست ہوجاتا ہے، ورنہ سارے تیر ہدف سے پرے جاکر گرتے ہیں۔ خود ڈاکٹر بیمار ہوتے ہیں اور علاج کی ہر سہولت ہونے کے باوجود نہیں بچتے۔ بڑے بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کے علاج ہوتے ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوتے۔ جب اللہ تعالیٰ علاج کو کارگر اور کامیاب کرے تب کامیابی ہوتی ہے اس لیے صحت و شفا اللہ کے سوا کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہی صورت دوسرے سارے معاملات کی ہے۔

انسان کا کام یہ ہے کہ قانونِ فطرت کی رُو سے جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اس کو وہ کرے اور نتیجے کو اللہ پر چھوڑ دے۔ ایک اور مثال دیکھیے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ایک کاشت کار کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ وہ زمین میں ہل چلائے، بیج بوئے، اس کو پانی دے، اور کھیتی کی دیکھ بھال کرے۔ یہ سارے کام قانونِ فطرت نے اس کے حوالے کیے ہیں۔ وہ یہ کام انجام دے لیکن اس کے بعد اس کا یہ اعتماد اللہ پر ہونا چاہیے کہ اس کھیت سے فصل وہ پیدا کرے گا۔ کوئی دوسری طاقت یہ کام نہیں کرسکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ ہوجائے تو وہ ساری کھیتی برباد ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ پانی نہ برسائے تو کھیتی پھل پھول نہیں سکتی۔ بیسیوں طاقتیں ایسی ہیں کہ جب تک وہ موافقت نہ کریں اس وقت تک آپ کی کھیتی سرسبز نہیں ہوسکتی اور پیداوار نہیں دے سکتی۔ تو اللہ تعالیٰ پر اعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائے اور کہے کہ میں نے اللہ پر بھروسا کرلیا ہے۔ نہیں، بلکہ اللہ پر اعتماد کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو خدمت آپ کے سپرد کی ہے اس کو پوری طرح بجا لائیں۔

اب ایک اور رُخ سے دیکھیے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے سپرد یہ خدمت کی ہے کہ وہ اللہ کے دین کو کامیاب کرنے کے لیے اپنی جان لڑانے کے لیے تیار ہوں اوراس کے لیے جو کچھ تدبیریں ممکن ہیں وہ پوری بروے کار لائیں۔ خدا کی راہ میں لڑنے والی فوج کی پوری تنظیم کریں، اس کو پوری طرح ہتھیار فراہم کریں اور اس کے علاوہ جو جو کام آپ کے کرنے کے ہیں وہ سارے انجام دیں تب فتح دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ وہ آپ کو فتح یاب کرے گا تو آپ فتح مند ہوں گے  ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح نہ آئے تو آدمی خود اپنی کسی تدبیر سے کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ  وہ اپنا کتنا ہی زور لگا لے۔ اس لیے زندگی کے ہر معاملے میں اہلِ ایمان کا توکل اللہ تعالیٰ ہی پر ہونا چاہیے(جاری)۔(جمع وتدوین: حفیظ الرحمٰن احسن)

 

موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ  بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے  قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میںصلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔

لغوی تحقیق

صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیںجوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔

وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)

رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیںجہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میںہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)

لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)

قرآن میںرشتہ داری کامقام

اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میںکسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیںدیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط (النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔

قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:

فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ o فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱-۲۲)

مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟

سورۂ رعد میںارشاد باری ہے :

وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo  (الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میںفساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔

قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوئوں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)

اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰)   اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔

صلۂ رحمی کاحکم احادیث میں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ  پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ  گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ  کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیںہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیںکرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروںکاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)

صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ  کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)

اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔

سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔

قطع رحمی کی مذمت

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔

صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میںہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)

قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیںکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)

صلۂ رحمی کے درجات

ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط (العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔

سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔

اس آیت میںقابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ  نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باب بر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)

صلۂ رحمی میںکوئی تفریق نھیں

دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ   صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)

اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:

وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرنا۔

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)

حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ  نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)

صلۂ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نھیں

شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میںخاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میںایک دوسرے کی مددنہ کرو۔

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے   علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد    خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:

 وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔   صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے  دُکھ درد میںشریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔

صلۂ رحمی کی صورتیں

صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا    دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔

صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔  گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے  اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میںصلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)

صلۂ رحمی کے دینی ودنیوی فوائد

رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میںزیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)

اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میںاضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)

اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میںفراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔

اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے     مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔

مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں  ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے  سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔

اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔

بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیوائوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب      رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔

اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔


ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

ہماری موجودہ حالت ہمارے ماضی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا مستقبل وہ ہوگا جس کے لیے ہم آج کوشش کریں گے۔ماضی جاچکا، مستقبل نامعلوم ہے اور صرف حال ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ناکامی کی کچھ عمومی تاویلیں اس طرح ہیں جنھیں ہم حقیقت جان کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمّہ قرار دیتے ہیں:

  • میں قابل نہیں ہوں
  • میری قسمت خراب ہے۔
  • میں دوسروں کے لیے قربانیاں دیتا گیا مگر بدلے میں کیا ملا؟ lمیں کسی کو ’نہیں‘ نہیں کہہ سکتا
  • میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا چاہتا ہوں مگر محنت کون کرے؟ ان تاویلات کے علی الرغم دیکھیں کہ : میری موجودہ حالت کا ذمّہ دار کون ہے؟ قسمت، حالات، رشتہ دار، خاندان، اساتذہ، معاشی حالات یا میں خود! حقیقت ِ واقعہ یہ ہے کہ: میں آج جو کچھ ہوں، اس کے لیے میں خود ذمّہ دار ہوں۔ لہٰذا اپنی دگرگوں حالت پر تاویلات کا پردہ مت ڈالیے۔ جواں ہمّت بنیے۔ اچھی اور بُری، ہر طرح کی باتوں کے لیے اپنی ذمّہ داری قبول کیجیے۔جب ہم اپنے آپ کو ذمّہ دار قرار دے کر نتائج قبول کرتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمیں ذہنی تحفظات کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا۔ انتخاب آپ کو خود کرنا ہے۔ماضی سے چمٹے رہنا بڑی بھول ہے۔ مستقبل پر نظر رکھ کر حال میں سخت محنت کیجیے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلوئوں پر توجہ کی ضرورت ہے۔
  • خود اعتمادی: خود اعتمادی سے حیران کن کام انجام دیے جاتے ہیں۔خود اعتمادی سے محروم، ناکامیوں کا رونا روتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو چلنے میں مدد کرتے وقت کی مثال پر غور کریں۔ ہم اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تم چل نہیں سکتے بلکہ اس کے گرنے اور چوٹ کھانے کے بعد بھی اس کی ہمت بڑھاکر  اسے چلنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔

غلطی کے خوف سے کام نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ناکامی کے خوف سے ابتدا ہی نہ کرنا، سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ سوچنا کہ سائیکل سے گرجائوں گا یا تیرنے سے ڈوب جائوں گا، اس لیے آپ وہ کام ہی نہ کریں___ یہ سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ کامیابی کا ایک فارمولا یہ بھی ہے: ۲۵ فی صد منصوبہ بندی + ۷۵فی صد سخت محنت =کامیابی۔ کوئی بھی کام ابتدا میں پہلی بار ہی ہوگا۔ اس کے بعد ہی آپ کمال کی جانب بڑھیں گے۔ اگر آپ کام ہی نہ کریں تو وہ لمحہ زندگی میں کبھی نہیں آئے گا جب آپ کوئی کام اچھی طرح انجام دیں گے۔مشق اور تجربے سے ہی کمال کی طرف سفر ہوگا اور منزل ہاتھ آئے گی۔مشق، مہارت میں اضافہ کرتی ہے۔

  •  عمل کا آغاز: حسن البنا شہیدؒ عوامی خطابات سے پہلے اس دعا کا اہتمام کرتے تھے: خدایا! ہمارے منصوبوں اور عمل کے درمیان فاصلہ گھٹا دے۔ گویا منصوبے اور اس پر عمل درآمد کے درمیان وقت کی دیوار حائل نہ ہونے پائے۔ کام کے انجام (ناکامی) سے خوف زدہ ہوکر ہم کام چھوڑ دیتے ہیں۔انجام کا خیال ضروری ہے مگراسے منفی نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلہ کیجیے اور اقدام کیجیے۔ کسی بھی شخص کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
  •  دوسروں کے بجاے خود کو بدلیے: یہ سب سے مشکل کام ہے۔دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں کو نصیحت کرنا ہے۔دوسرے کے بدلنے یااصلاح سے اپنی ترقی کو مت جوڑیئے۔ یہ سوچنا کہ میں دوسروں کے فائدے کے لیے ان میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں___ بجا ہے لیکن کیا یہ آپ کے اختیار میں ہے؟ جو آپ کے اختیار میں ہے، یعنی آپ کی ذات، اسے بدلیے۔

تبدیلی یک لخت نہیں ہوگی۔اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ مایوسی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اگر آپ نے درخت جڑ سمیت دوسری جگہ لگادیا تب بھی کچھ بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوں گی۔ اس حقیقت کا ادراک کریں۔ ابھی، اسی وقت، میرے سامنے میں جیسا چاہتا ہوں ویسا___  اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ سے تبدیلی نہیں آئے گی۔جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر تبدیلی لائیے۔ کچھ باتیں چھوڑ دیجیے جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، مثلاً رنگ، قد، وزن وغیرہ نہیں    بدل سکتا۔ وہاں تبدیلی لائیے جو آپ کے بس میں ہے، مثلاً اندازِ گفتگو، اخلاق، کردار وغیرہ۔   ’ضد‘ اور انتہا پسندی کو حکمت سے دُور کریں۔ آپ اپنے دائرہ اختیار کے اندر باہر کے معاملات کا بے لاگ جائزہ لیجیے۔اپنی ذات اور جذبات اور احساسات و خیالات کی نفی مت کیجیے۔ انھیں بھی احترام اور عزت دیجیے۔ذاتی فیصلوں کے اچھّے بُرے یا مثبت و منفی اثرات کا تعیّن کیجیے۔

صد فی صد کامیابی یا مکمّل کامیابی ناممکن ہے۔ کمال کا حصول کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لہٰذا ترقی کے لیے محنت کیجیے نہ کہ کمال کے حصول کے لیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میںکوئی چیز کامل نہیں ہے۔ہم ترقی کی منزل کے راہی ہوسکتے ہیں مگر منزل ہر بار دور ہوتی جاتی ہے۔اس لیے اس کی فکر میں دبلا ہونا فضول ہے۔ترقی پر نظر رکھیے۔ شاہ راہِ ترقی پر گامزن رہنا ہی کامیابی ہے۔

  • کیا نھیں کرنا ھے: خود کو اور دوسروں کو مطعون نہ کریں۔ اپنے آپ اور دوسروں سے شاکی ہونااور ان پر الزام دھرنا چھوڑ دیں۔ خود کو اور دوسروں کو ’لیبل‘ نہ لگائیں (میں--- ہوں، فلاں--- ایسا ہے)۔ اپنے دائرۂ اختیار سے باہر کے معاملات پر منحصر نہ رہیں۔ دل ہی دل میں کڑھیئے مت۔مسائل کے حل میں نئے مسائل کو جنم مت دیجیے(مثلاً صحت سے متعلق مسائل کے حل میں عدم صحت کے نقصانات کا خوف طاری کرلینا)۔ فیصلوں پر جلد بازی میں نظرثانی کرنا مناسب نہیں ہے۔وقت دیجیے، صبر سے کام لیجیے اور ناگزیر ہو تو تبدیلی کیجیے۔اپنی ذات سے ضرورت سے زیادہ پیار نہ کریں۔حقائق سے منہ مت موڑیئے بلکہ ان کا سامنا کیجیے۔ ’سب چلتا ہے‘ انداز مت اختیار کیجیے۔ وہ افراد جو نا امیدی کا شکار ہیں، ان کے قریب بھی مت جائیے۔ کسی بھی بات کو سہل انداز میں قبول مت کیجیے۔ کسی دوسرے شخص کو اپنے نفس کا قبضہ مت دیجیے۔
  • زبانِ حال (body language): جھکی کمر، مایوس چہرہ، بے نور آنکھیں، سلوٹیں بھری پیشانی، بہکے بہکے قدم، بے دم گفتگو___ اس طرح کے کئی افراد سے آپ کا سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسے افراد مقابلے سے قبل ہی اپنی شکست تسلیم کرلیتے ہیں۔ میدان میں اترنے سے قبل ہی ہار مان لیتے ہیں، اور مقابلے سے دست بردارہوجاتے ہیں___ ہر کام میں ’نہیں‘ احساسِ کمتری کے شکاراور قسمت کے شاکی۔ یاد رکھیے مایوسی متعدی ہوتی ہے۔ اسی طرح عزم و استقلال اور جوش بھی متعدّی ہوتا ہے۔ایسے مایوس افراد سے مایوسی اور کم ہمتی ہی فروغ پائے گی۔ ان سے ہوشیار رہیے۔

ایک دوسری تصویر دیکھیں: پر عزم، روشن آنکھیں، چال میں وقار، گفتگو میں جان اور بحیثیت مجموعی ایک فاتح ہونے کا احساس___ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایسے اشخاص زبانِ حال، یعنی ’اپنے ظاہر‘ سے آدھا مقابلہ پہلے ہی جیت چکے ہوتے ہیں۔ان کے ظاہر سے ان کی قابلیت اور صلاحیت گویا چھلکتی ہے، ہاں میں یہ کرسکتا ہوں، میں یہ ضرور کروں گا، میں جیت سکتا ہوں، میں ضرور فتح پائوں گا،میں قابل ہوں، مزید قابل بن سکتا ہوں___ اللہ بھی ایسے ہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔

تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پائوں نہ ہلائیں اور تقدیر پر تکیہ کیے رہیں، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پوری توانائی اور قابلیت لگادیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ ہتھیلی کی لکیریں آپ کے مستقبل کا تعیّن نہیں کریں گی، بلکہ آپ کی منزل کا تعیّن آپ کے مضبوط بازوئوں سے ہوگا۔تقدیر کو اپنی کم عملی یا بے عملی کے لیے جواز مت بنائیے۔ اللہ بھی ان کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔

  •  غلطی معاف کرنا: غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں؟ جو لوگ کام نہیں کرتے صرف ان سے ہی غلطیاں نہیں ہوتی ہیں۔غلطیاں ہی آدمی کو سدھارتی ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم غلطیوں پر غلطیاں کریں اور اپنے آپ کو معاف کرتے چلے جائیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ہم معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں، اور ہمارا یہ بہتری اور ارتقا کا سفر ہمیں نقطۂ کمال کے قریب لے جاتا ہے۔ غلطیوں کے ذریعے ہی ہم صحیح سمتِ سفر کا تعیّن کرتے ہیں تاکہ خطرات سے بچ کر صحیح سلامت منزل مقصود تک پہنچ سکیں۔ غلطی کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ہم دوبارہ اس غلطی کا اعادہ نہیں کرتے اور معاملات کو زیادہ چوکنّے ہوکر انجام دیتے ہیں۔دوسروں کی غلطیوں پر ناراض ہونا، فطری امر ہے۔ہم اپنی ناکامی کا سہرا بھی دوسروں کے سر سجاکر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔کیا  ہم یہی رویّہ اپنی ذاتی غلطیوں پر بھی اپناتے ہیں؟بسا اوقات ہم دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں مگر اپنی ذاتی غلطیوں کی سزا خود کو مسلسل دیتے رہتے ہیں۔اس سے ہماری کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ خود کو بھی معاف کیجیے۔ غلطیوں سے سبق حاصل کیجیے اور اپنا رویّہ بہتر بنایئے۔
  •  اپنی ذات سے باھر نکل کر دیکہیے: ہم اکثر ’میں‘، ’میرا‘،’مجھے‘ ہی تک محدود ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے باہر کی دنیا میں جھانک کر تو دیکھیے۔ اس کائنات میں بے شمار چھوٹی بڑی خوشیاں آپ کے استقبال کو تیار ہیں۔کچھ لوگ دوسروں کی خوشی میں اپنا غم، دوسروں کی کامیابی میں اپنی ناکامی، اور دوسروں کی ترقی میں اپنی تنزّلی دیکھتے ہیں: اسے یہ سب مل گیا مجھے کیوں نہیں ملا؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟اُس کے بجاے اس سب کا میں زیادہ حق دار تھا، وغیرہ۔ اس طرزِ عمل کے بجاے اگر دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کریں،  ان کی کامیابی میں اپنی کامیابی کو دیکھیں تویہ مثبت اندازِفکر ہے۔ یہ کامیابی کااہم زینہ ہے۔
  •  کامیابی جدوجھد میں ھے! کہا جاتا ہے کہ کم ہمت، فتح نہیں پاتے۔ کیا آپ نے کسی میدان سے راہِ فرار اختیار کرنے والے کھلاڑی کو مقابلہ جیتتے ہوئے دیکھا ؟ ہر گز نہیں۔ جب آپ میدان ہی چھوڑ دیں گے تو ہار کا سوال پیدا ہوگا نہ جیت ہی کا۔ ناکامی کے خوف سے فی الفور نجات پائیے۔ ہمیشہ میدان میں فتح و کامرانی کے عزم کے ساتھ قدم رکھیے۔ ان شاء اللہ جیت آپ ہی کی ہوگی۔ اگر کسی وجہ سے متوقع کامیابی نہ ملے تو جائزہ اور بھرپورتیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ کیجیے    ؎

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے

جو شخص چیلنج کا سامنا کرتا ہے، حالات و واقعات سے دو ، دو ہاتھ کرتا ہے اور تجربات سے گزرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔میدان کار زار میں اترنے سے گریز ہی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔ فاتح یا کامیاب شخص کسی بھی حالت میں میدان سے بھاگتا نہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، کتنی ہی مصیبتیں آئیں وہ میدان عمل میں ڈٹا رہتا ہے۔یہ تاریخ کی بہت بڑی سچائی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب آزمایشیں، حالات اور مشکلات اس مرد آہن سے ٹکراکر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔

آئیے مقابلہ کیجیے! کامیابی نظرنہ بھی آئے تب بھی میدان سے پیٹھ پھیر کر مت بھاگیے۔ ہوسکتا ہے کہ مقابلے میں آپ تھک کر چور ہوجائیں، لہولہان ہوجائیںمگر اسی جدوجہد میں آپ کی کامیابی پوشیدہ ہے۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ عزم راسخ ہو ، ارادہ مضبوط ہو اور ساتھ میں عملی کوششیں ہوں تو اللہ کی رحمت بھی دست گیری کرتی ہے اور بالآخر منزلِ مراد ہاتھ آتی ہے۔


(ڈاکٹر بدر الاسلام، اقرا اُردو بوائز ہائی اسکول، اورنگ آباد، بھارت میں صدر مدرس اور کئی کتب کے مصنف ہیں)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخرالزماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔     اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علَم بردار بنے۔ آپؐ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے، اس کے سانچوں میں ڈھلے، اور دُور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں جو  اسوہ حسنہ چھوڑا ہے ، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے  علَم بردار ہیں، انھیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہیے۔

احساسِ ذمہ داری کی شدت

واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، اپنے منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سنائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قدرے حیران ہوئے، عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! میں قرآن سنائوں؟ یہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ ہی سے ہم نے سنا ہے، آپؐ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، عبداللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حکم تھا، آپؐ اسی طرح منبر پر تشریف فرما رہے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نیچے بیٹھے ہوئے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے: فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا o (النساء ۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریںگے جب ہم ہراُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے  کھڑا کریں گے‘‘، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، حسبک حسبک، عبداللہ ٹھیرجائو، عبداللہ ٹھیرجائو۔ سراُٹھاکر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ آں حضوؐر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس گواہی، شہادت اور ذمہ داری کے احساس سے گویا دبے جا رہے ہیں، اور آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپؐ گزر رہے ہیں۔

گویا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انھیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کش مکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو رُلا رہی ہے۔

یہ اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے اور آپؐ رہتی دنیا تک اُمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اُن پوری بستیوں کے ذمہ دار ہیں جہاں وہ اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں، اور علیٰ ہذا القیاس ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ اور سبب بنے، اور کتنے دریچہ ہاے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!

آپ نے وہ واقعہ بھی پڑھا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ قیام میں ہیں، اور  سورۂ ابراہیم کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ جب اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (ابراہیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو۱ُ درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تو اس آیت کو پڑھتے تھے اور روتے تھے اور بار بار آیت کے اس حصے کو پڑھتے تھے فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ، تاآنکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئیل امین ؑ کو بھیجا۔ جبرئیل ؑامین تشریف لاتے ہیں اور ماجرا پوچھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ انھوں نے تو اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا کہ جو لوگ میرا اتباع کرنے والے ہیں وہ تو میرے ہیں، لیکن جو لوگ معصیت کے راستے پر جانے والے، گمراہ ہوجانے والے ہیں، تو تو۱ُ خود ہی بڑا معاف کرنے والا ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا، لیکن جب میں ان کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی اُمت کا خیال ستاتا ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں جو مسلسل آنسو رواں ہیں، اپنی اُمت کے بارے میں فکر کو اس کا سبب بتا رہے ہیں۔ واقعات میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل امین ؑ واپس جاتے ہیں اور پھر یہ خوش خبری اور مژدہ سناتے ہیں کہ آپؐ کی اُمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کر دے گا۔

اللّٰہ سے مضبوط تعلّق

اگر ہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی کرنی ہے، اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیںہے جب تک اسوئہ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالتِ قیام سے، قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضرعلم سے، اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دُور کی بات ہے، اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات اور اپنے مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے، اور اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہرشخص اپنے بارے میں خود جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کا دوسرا نام تعلق باللہ رکھ دیں، یعنی ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے، لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ ع  جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے۔

گویا جو لوگ ان راہوں پر چلے ہیں اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ  رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کریں۔ جس کا کام کررہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا، تو سوچیے کہ کہاں سے طاقت ملے گی، اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسااوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر پیدا ہوتا ہے، قدموں کے اندر جمائو اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان نظر آتا ہے،اور حالات کی خرابی کے باوجود تحمل کاکوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیسے وہ ان کے پیر بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں، اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں۔

سیرتِ رسولؐ سے رھنمائی

سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لیے نمی، دلوں کے لیے گداز اور قلوب کے لیے خوف و خشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان تمام واقعات کو   زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا، پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھا دیے۔ پھر لوگ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے۔ پھر لوگوں نے حالتِ نماز میں اوجھ رکھ دی، پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہو رہی ہے، اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔

راہِ دعوت کی مشکلات

واقعۂ طائف پر نظر ڈالیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت و تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپؐ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا، اور پھر آپؐ نے طے کیا کہ مکہ کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپا رہے ہیں، چلو طائف کا رُخ کرتے ہیں، اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کہ طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں، اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکّہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل و قال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر وژن ہے، کیسی بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دُوراندیشی اور دُوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہو رہا، لیکن وہ تمکن اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے، اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزیے اور ان امیدوں کے ساتھ، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپؐ نے طائف کا سفر کیا۔

لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اپنی ہے اور یہ خود ایک موضوع ہے، اور لوگوں نے اس پر بہت لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرماں روا ہے، قہار و جبار ہے، طاقت کے ہرسرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جا رہا ہے، اُلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی یورش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہوگا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوئہ حسنہ ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔

اللہ تعالیٰ چاہتے تو ایک لمحے کے اندر کن فیکون کے مصداق اسلامی نظام قائم ہوجاتا ، توحید کی امارت قائم ہوجاتی، دین غالب ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تو صرف کرنے اور کہنے کا معاملہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۲۳ سال لگے ہیں اور ساری مشکلات اور صعوبتوں کو انگیز کیے ہوئے ہیں۔ گویا اس سنت اور اسوہ کو قائم کرنا مطلوب تھا کہ رہتی دنیا تک جو لوگ اس دعوت کے غلبے کے لیے اُٹھیں گے، ان کے سامنے یہ اسوہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندے کو ان راہوں سے گزارا تو ہمیں ایسے ہی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو نہیں ملے گی۔

مایوسی میں اُمیدکا دامن تہامے رکہنا

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا رُخ کیا ہے، اور آپ دیکھیں کہ کس وژن اور بصیرت و بصارت کے ساتھ، اور دعوت کے غلبے کی تمنا اور آرزو کے ساتھ یہ سفر کیا ہے۔ لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ اہلِ طائف نے آپؐ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا، اس کے سامنے لغت بیچاری ہاتھ جوڑ کے کھڑی ہوجاتی ہے کہ مجھ سے نہیں بیان کیا جاتا، کہ کیا سلوک آپؐ کے ساتھ روا رکھا گیا۔ کسی نے کہا کہ اچھا تو اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا نبی بنانے کے لیے، تمھی رہ گئے تھے، ایسے آدمی کو تو میں نبی نہیں مان سکتا، یعنی طنز اور تمسخر کے جوتیر اور نشانے ہوسکتے تھے، وہ سب لگائے گئے۔ اہلِ طائف نے دل کو چھلنی اور دل و دماغ کی دنیا کو ویران کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو انسانی سطح پر کیا جاسکتا ہے۔ ٹولیوں میں لوگ آتے، دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرتے، اور کہتے نبی ہو، گرتے کیوں ہو؟ سیدھے کھڑے رہو نا!___ اب ذرا تصور کیجیے کہ کن اُمیدوں کے ساتھ آپؐ گئے ہیں، کیا توقعات لے کر آپؐ نے یہ سفر کیا ہے اور کیا کچھ پیش آرہا ہے۔ گویا دعوت کے راستے میں آپ بہت کام کریں گے لیکن نتیجہ بالکل مختلف نکلے گا۔ آپ منزل کی طرف چلنے کی   بے شمار شعوری کوششیں کریں گے جن کا نتیجہ دو جمع دو چار کی صورت میں نکلنا چاہیے لیکن وہ صفر نکلتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ اس راستے میں ان مشکلات کو انگیز کیے، صعوبتوں کو اُٹھائے اور ان آزمایشوں کو جھیلے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

صبح سے لے کر شام ہوگئی ہے، ہر دَر پہ آپ دستک دیتے ہیں، ہر دل کی دنیا کو بسانے اور ویرانوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی ایک فرد نہیں ملتا جو بات سننے والا ہو، جو آپؐ کی دعوت پر توجہ دینے والا ہو۔ کس قدر مایوسی ہونی چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آیندہ کے لیے آدمی کو کچھ نہ کرنے کا طے کرلینا چاہیے کہ یہ انسان تو عجیب و غریب ہیں، یہ تو خونخوار بھیڑیے ہیں۔ ان سے کیا بات کرنی، یہ سب جہنمی ہیں۔ لیکن نہیں، داعی کبھی فتوے نہیں دیتا، لوگوں سے مایوس نہیں ہوتا، اپنے حصے کا کام کرنا اور لوگوں سے اچھی اُمیدیں اور توقعات باندھنا اس کے ذمے ہے۔

واقعات میں آتا ہے کہ جب آپؐ بالآخر طائف سے واپس لوٹنے لگے تو اہلِ طائف نے جو کچھ کرچکے تھے، اسی پر بس نہ کیا بلکہ گلی کے بچوں کو، لچے لفنگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ آپؐ چلتے جاتے تھے اور بچے آپؐ پر پتھرائو کر رہے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو آپؐ کے ہمراہ تھے، ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب آپؐ پر سامنے سے پتھرائو ہوتا تھا تو سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے تھے مگر پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تھا۔ جب پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تو آپ ڈھال بننے کے لیے پیچھے کھڑے ہوجاتے تھے۔ لیکن ایک فرد ہے اور چاروں طرف سے پتھروں کی یورش اور بارش ہے۔ کیسے تحفظ دے، کیسے ڈھال بنے؟ وہ اپنا کام کررہے تھے، اپنے درجات بلند کر رہے تھے، اپنے آپ کو رضاے الٰہی کا مستحق بنا رہے تھے۔ آپؐ کے جسمِ اطہر سے اس قدر خون رسا کہ آپؐ کے نعلین مبارک میں خون کھڑا ہوگیا اور آپؐ کے پائوں اس میں جم گئے۔ کتنی آسانی سے میں نے بیان کر دیا ہے اور آپ نے پڑھ لیا ہے۔ ذرا اس کا تصور تو کیجیے کہ کیا ہوا ہوگا اور کیا بیتی ہوگی، کتنا وقت لگا ہوگا کہ خون رستے رستے پیروں کو جوتے کے اندر جما دے!

یہ واقعہ پیش آتا ہے تاآنکہ آپ بستی سے نکل کر ایک درخت کے نیچے سستانے کو بیٹھتے ہیں۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین ؑ تشریف لاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آج اللہ تبارک وتعالیٰ بے حد غضب ناک ہے کہ اس نے اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ ستایا گیا ہے۔ آج اللہ تبارک و تعالیٰ سخت جلال کے عالم میں ہے، یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آپ اشارہ کیجیے کہ اللہ کے حکم سے یہ فرشتہ طائف کی اس بستی کو جو دو پہاڑوں کے درمیان آباد ہے، ان دونوں پہاڑوں کو ملادے، بستی ریزہ ریزہ ہوجائے، خاک و خون اور پوری تاریخ کے اندر عبرت کا نشان ہوجائے۔ انسانی سطح پر ذرا تصور کیجیے کہ کس قدر سنہری پیش کش ہے، کہ جن لوگوں نے ستایا ہے اور اس سلوک سے دوچار کیا ہے،ان سے انتقام لینے کا نادر ترین موقع ہاتھ آگیا کہ ان کو تہس نہس کردیا جائے، فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے اور ان کا کوئی نام لیوا باقی نہ چھوڑا جائے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیسے آدمی صبر سے کام لے، کیسے حوصلے کا عنوان بنے،وسیع الظرفی کسے کہتے ہیں، عالی ظرفی کس چیز کا نام ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے۔ کیسی توقعات ہیں۔ جو توقعات ان سے باندھی تھیں وہ تو پوری ہوئی نہیں، لیکن یہ نہیں تو بعد والے اور آیندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی۔ یہ زندہ رہیں گے تو آیندہ نسلیں مسلمان ہوں گی۔ وژن دیکھیے، بصیرت و بصارت دیکھیے، توقعات اور اُمیدوں کا محل دیکھیے، صبروتحمل کا کوہِ گراں دیکھیے، اور انسانوں کے ساتھ خیرخواہی دیکھیے۔

یہ الفاظ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلتے ہیں اور پھر آپ سجدے میں چلے جاتے ہیں، اپنے رب سے مناجات کرتے ہیں۔ ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں، اور اپنی پوری کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں،اور الفاظ سے لگتا ہے کہ شاید اپنے رب سے گلہ بھی کر رہے ہیں۔ اپنائیت کے الفاظ و انداز میں جو شکوہ ہوسکتا ہے وہ کر رہے ہیں کہ مولا! تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا ہے، جو میری بات کو سمجھتے نہیں ہیں، میرے پیغام کو جانتے نہیں ہیں۔ اس میں ان کے لیے گنجایش رکھ رہے ہیں کہ سمجھ نہیں رہے اس لیے مخالفت کر رہے ہیں۔ ان جملوں کے اندر ان کی خیرخواہی مطلوب ہے، اور اتباع و پیروی اور دعوت و انقلاب کے راستے پر چلنے والوں کے لیے رہنمائی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مولا! جو کچھ ہوگیا ہے اگر تو اسی پر راضی ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوں، یعنی میرا رب راضی ہے تو پھر سارا جگ راضی ہے۔ پھر یہ لوگ پتھر ماریں تو میں راضی ہوں، پھر یہ لوگ مجھے کانٹوں پر چلائیں تو میں راضی ہوں۔ یہ خون میں نہلائیں تو میں راضی ہوں۔ پھر یہ مجھے خالی ہاتھ لوٹائیں تو میں راضی ہوں۔ گویا رب کی رضا ہی اصل چیز ہے۔

تعلق باللہ کی یہ کیفیت ایک داعی دوسروں میں اسی وقت پیدا کرسکتا ہے جب خود اس کے اندر اس تعلق کی آبیاری بدرجہ اولیٰ موجود ہو۔ اللہ کے ساتھ تعلق کی آبیاری ہر روز اور ہر صبح و شام کا کام ہے، اتفاقی یا حادثاتی طور پر کبھی کبھار کرنے کا کام نہیں۔ قرآن و سنت اور سیرت و حدیث کے حوالے سے مسلسل اپنی طبیعتوں کو نکھارنے کا اہتمام کرنا تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ذمہ دار کا فرض بنتا ہے۔ روزانہ کچھ وقت مقرر کریں کہ ان اوقات میں انفرادی دائرے میں اور چل پھر کر اجتماعی دائرے میں اپنے رب کے ساتھ قربت کی منازل کو طے کریں۔

منکر کے خلاف اُٹہنا

حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور میں نے آپؐ کے چہرۂ انور کو دیکھ کر پہچان لیا کہ آپؐ کچھ فرمانے والے ہیں۔ میں متوجہ ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں، لیکن آپؐ گھر کے اندر داخل ہوئے، وضو فرمایا اور خاموشی سے مسجد کی طرف چلے گئے۔ میں مسجد کی دیوار سے کان لگا کر کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اگر تم منکر کے خلاف نہیں اُٹھو گے، منکر کو نہیں روکو گے، اس کی طرف لوگوں کو متوجہ اور تنبیہہ نہیں کرو گے تو تم مجھ سے لمبی لمبی دعائیں مانگو گے، میں ان کو تمھارے منہ پر دے ماروںگا۔ تم مجھ سے التجائیں اور گزارشیں کرو گے میں ان کو نامنظور کردوں گااور تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھوں گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے بس اتنا ہی ارشاد فرمایا اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔

گویا منکر کو دیکھنا اور برداشت کر لینا گوارا نہیں ہوسکتا۔ چاروں طرف معاشرے میں منکرات کے جھاڑ جھنکاڑ بچھے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف دیوہیکل منکرات دندناتے پھرتے ہیں، انھی کی پالیسیاں ہیں، انھی کے حوالے سے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے اور حرام کاری کے کاروبار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری طبیعت پر کتنے گراں گزرتے ہیں؟ کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے کتنی آمادگی پیدا ہوتی ہے؟ کتنے اقدامات اور تدبیریں ہیں جو ہم انفرادی اور اجتماعی دائروں میں اختیار کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بدرجۂ اولیٰ ہم سے پوچھی جانی ہے۔ ہم جو دین کے   دعوے دار بن کر اُٹھے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہؓ اسی طرف رہنمائی فرما رہی ہیں۔

تزکیہ و تربیت کا مقصود

جماعت اسلامی از اوّل تا آخر ایک دینی تحریک ہے اور بجاطور پر اس کے فرائض اور   ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ اپنے جلو میں چلنے والوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق دعوت اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے بار بار آگاہ کرے،تذکیر اور یاد دہانی کا فریضہ انجام دے، اور مسلسل تعمیرسیرت اور کردار سازی کا کام انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دائروں کے اندر بھی جاری رکھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جماعت اسلامی نے دعوت وتربیت کا ایک جال بچھایا ہے تاکہ چاروں طرف کے حالات میں غفلت کے جو عنوان پنہاں اور پوشیدہ ہیں، لوگ ان سے بچ سکیں اور اپنے رب کے ذکر قرآن پاک اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف چلیں اور اس کے ذریعے ان راہوں کو پا سکیں جو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔

اس پورے کام میں جو چیز مطلوب ہے، قرآنِ پاک نے اس کا حوالہ دیا ہے:

وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ o فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o (الحجرات ۴۹:۷-۸) مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنایا اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

یعنی اس تمام تربیت اور تزکیے سے ایک ایسا انسان مطلوب ہے جس کے دل و دماغ میں ایمان کی محبت پیوست ہوجائے،اور ایمان سے ہٹنے اور اس سے دُور جانے کا تصور بھی ذہن اور عمل کے اندر محال ہوجائے۔ قلوب کے اندر یہ محبت اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے نتیجے میں ہرمعصیت، ہر گناہ اور ہر نافرمانی انسان کو جیتے جی ایک عذاب سے دوچار کردے۔ یہ جو چاروں طرف گناہوں کا کاروبار نظر آتا ہے اور انسان کو اپنی طرف بلاتا اور بہلاتا پھسلاتا ہے، معصیت اور نافرمانی کے اَن گنت عنوانات دنیا کو بنانے، حالات کو بہتر کرنے، اور زندگی کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کی شکل دینے کے لیے موجود ہیں، اور پھر انسان کے جسم و جان کو راحت پہنچانے کے وہ تمام مراحل جو نافرمانی کے ذیل میں آتے ہیں، ان کے قریب جانے یا ان کا خیال آنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ یہ منزل مقصود ہے کہ انسان کے اپنے اندر ایک مربی و مزکی اور ایک محتسب موجود ہو، کوئی روکنے ٹوکنے اور اندر سے خبردار کرنے والا ہو جو ہاتھ پکڑ لے اور کہے کہ بھلے آدمی یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے، یہ تم کیا کر رہے ہو۔

ہر شخص خود ہی اپنا جائزہ لے کر اپنے بارے میں حتمی راے دے سکتا اور فتویٰ صادر کرسکتا ہے کہ اس آیت کے اندر جو کیفیت بتائی گئی ہے، اس میں اس کیفیت سے کتنی قربت، اور طبیعت اور مزاج کے اندر کس قدر رچائو موجود ہے۔ اگر یہ کیفیت ہے اور اس کے اندر بڑھوتری ہے تو یہ مطلوب ہے، اور یہ عمل زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا ہے۔ دعوت و تربیت کے مختلف مراحل فی نفسہٖ ہمیں پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے اور اس کے لیے تیار کرتے ہیں کہ  ہم خود اپنے نگران اور مربی، اور ایک مدرس و مقرر کی حیثیت سے مسلسل اپنے اُوپر نگاہ رکھ سکیں، اور اس آیت کا مصداق بننے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے کوشاں ہوں۔

خود احتسابی کی ضرورت

جماعت اسلامی اور اس کے وابستگان معاشرے کے اندر جو کام کر رہے ہیں، حقیقت    یہ ہے کہ حضور نبی کریمؐ کو اسی کے لیے مبعوث کیا گیا تھا اور آپؐ نے اپنی زندگی اسی جدوجہد میں لگا کر اس کا حق ادا کر دیا۔ غلبۂ دین کی جدوجہد میں حصہ لینا، اقامت دین کا فریضہ انجام دینا، بڑے پیمانے پر انسانوں کو ظلم کی طویل رات سے نجات دلانا، جھوٹے خدائوں اور طاغوت کی فرماں روائی سے بچانا اور انھیں اپنے رب کی طرف بلانا، ظاہر ہے کہ یہ کام ثبات و استقامت اور اولوالعزمی، اور ہر طرح کی آزمایش کو خندہ پیشانی سے جھیلنے کا مطالبہ و تقاضا کرتا ہے، اور یہ تمام کیفیات اور ساری خصوصیات اسلامی تحریک کے کارکن کے لیے مطلوب ہیں۔ ان صفات کو پیدا کیے بغیر انسان مایوسی کا شکار ہوتا ہے، حالات کی خرابی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور خود اپنے آپ سے سوال کرکے اور اپنے آپ سے لاجواب ہوکر کسی کونے کھدرے میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔ جماعت کے لٹریچر میں یہ بات جابجا موجود ہے کہ آپ اپنی تربیت گاہ خود بلائیں جس کے ناظم بھی آپ ہوں اور کارکن بھی، خود ہی اپنے آپ کو رپورٹ پیش کریں اور خود ہی اس پر تبصرہ کریں، اور جائزہ لیں کہ انبیاؑ کے وارث کی حیثیت سے غلبۂ دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی زندگی جس ڈگر پر گزر رہی ہے، جن ترجیحات کے مطابق بسر ہورہی ہے، پسند و ناپسند کے پیمانے باربار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر جس سمت میں چل پڑے ہیں___ کیا ان کا دعوت و انقلاب سے کوئی تعلق ہے!

رزمِ خیر و شر کے منظرنامے سے آگھی

غلبۂ دین کی جدوجہد کے حوالے سے یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیکی کو اپنانے اور خیر کی طرف بڑھنے، بھلائی کا شعور پیدا کرنے، حسنات کے حرص و لالچ کو اپنی طبیعت کے اندر پانے کا رجحان تو موجود ہوتا ہے، لیکن خیر کا کوئی علم اپنے نتیجے اور انتہا کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ شر کا علم بھی موجود نہ ہو۔ شر کے جو سرچشمے ہیں، برائی کی جو جڑیں ہیں، اس کا جو پورا نظام ہے، فتنے اور اس کے جو اسباب ہیں، فی زمانہ شر کی جو حکمت عملی اور اس کی یلغار کی جو صورتیں ہیں، اس باطل اور کفر کے اندر جس طرح کی کہہ مکرنیاں ہیں، ان کے بارے میں علم حاصل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح کہ خیر کے بارے میں۔

حضرت حذیفہ بن یمانؓ مشہور صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرامؓ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے تو خیر، بھلائی اور نیکی اور جنت کے بارے میں سوال کرتے تھے، لیکن میں جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا، اور ان کے سدباب اور مقابلے کے حوالے سے سوال کرتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان جو مختلف طبقات ہیں اور بعد میں اُمت نے مختلف حوالوں سے ان سے استفادہ کیا ہے، حضرت حذیفہؓ اس لحاظ سے یکتا اور منفرد اعزاز رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے فتنوں اور مسلمانوں کی ناکامیوں اور ہزیمتوں کے حوالے سے بھی تمام پیشین گوئیوں کو حاصل کیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو اس حوالے سے جب دقت پیش آتی تھی اور معاملہ فہمی کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو وہ حضرت حذیفہؓ سے رجوع کرتے تھے۔

اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر بدی کے جو رجحانات ہیں، بدی کی اُٹھنے والی تحریکوں کی جو بنیادیں اور کلیات ہیں، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور طاغوت کی فرماں روائی کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے جتنے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں ان ہاتھوں کو روکنا، ان چہروں کو پہچاننا، ان رویوں سے آگاہ ہونا اور ان کے طور طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا بالکل مطلوب ہے۔ ورنہ آپ کی تحریک اُدھوری رہے گی، اور کام کے اندر جس زور وشور کا اظہار ہونا چاہیے، جس توجہ اور انہماک کا عنوان ہونا چاہیے، وہ مفقود ہوگا۔ اگر آپ رزم خیروشر کے پورے منظرنامے سے آگاہ نہیں ہوں گے تو اپنی جدوجہد کو صحیح رُخ نہیں دے سکیں گے۔

 

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو تنوع اور اختلاف کی اساس پر پیدا کیا ہے۔ دنیا کی تمام چیزوں میں یہ کیفیت نمایاں ہے۔ نباتات اور درختوں کو دیکھیے! کوئی سبز ہے، تو کوئی زرد اور کوئی سرخ۔ ہرایک کے پتوں کے ڈیزائن الگ الگ ہیں۔ پھلوں کی جسامت اور شکل مختلف ہے۔ رنگ و روپ کے ساتھ ساتھ مزے بھی الگ الگ ہیں اور ان کے اثرات اور خاصیتیں بھی جدا جدا ہیں۔     یہی صورتِ حال جانوروں میں ہے اور یہی طرزِ تخلیق بنی نوع انسان میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کے رنگ و روپ،قدوقامت، جسمانی ساخت اور آواز میں فرق رکھا ہے، اسی طرح ان کے اندازِفکر میں بھی فرق واقع ہوا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کو سفید رنگ پسند ہے اور کسی کو سرخ، کسی کو سیاہ اور کسی کو سبز۔ کسی کی ترجیح سیب ہے اور کسی کی انار۔ کسی کو گرم موسم راس آتا ہے، کسی کو سرد موسم۔ اسی اختلافِ ذوق سے کائنات کی رنگا رنگی قائم ہے، ورنہ یہ پوری دنیا یک رنگ ہوجاتی اور جو نظارہ اس وقت ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے، آنکھیں اس سے محروم رہتیں۔

اسلام، چوں کہ دین فطرت ہے، اس لیے اس نے انسان کو فکرونظر کے اعتبار سے ایسے   بے لچک احکام نہیں دیے کہ اس کے لیے غوروفکر کا کوئی میدان باقی نہ رہ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حق کا راستہ دکھایا اور حق پر چلنے والوں کے لیے جنت،جب کہ باطل کا راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے دوزخ قائم کر دی۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہدایت یافتہ لوگوں کو پابند کرتا کہ وہ گمراہ لوگوں کو بزورِطاقت اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرنے پر مجبور کر دیں، لیکن قرآن میں ایسا حکم نہیں دیا گیا بلکہ فرمایاگیا کہ ہدایت اور گمراہی پوری طرح واضح ہے۔ اب دین کے معاملے میں کوئی جبر روا نہیں، البتہ آخرت میں انسان کے اعمال کے اعتبار سے ثواب و عذاب کا فیصلہ ہوگا:

لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیط لَا انْفِصَامَ لَھَا وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ o (البقرہ ۲:۲۵۶) دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت ضلالت سے ممتاز ہوچکی ہے، اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرتا ہے اور اللہ پر ایمان لاتا ہے تو   وہ مضبوط سہارے کو تھام لیتا ہے، ایک ایسا سہارا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ   خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔

احکامِ دین میں درجہ بندی

انسان کو جو احکام دیے گئے ، ان میں کچھ تو وہ ہیں جن کا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثبوت ہے اور ان کا مفہوم بھی اتنا واضح ہے کہ انسان کا ذہن فوراً ان کے معنی و مقصود کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ ایسے احکام فقہ کی اصطلاح میں قطعی احکام کہلاتے ہیں، یعنی ان کا ثبوت بھی یقینی ہے اور اس کلام کی اپنے معنی و مفہوم پر دلالت بھی واضح ہے۔ ان احکام کی حیثیت دین کی حدودِ اربعہ کی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے ان سے باہر چلے جانا جائز نہیں، بلکہ اس سے باہر نکلنا انسان کو دائرۂ ایمان ہی سے باہر کر دے گا، جیسے اللہ تعالیٰ کا ایک ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلۂ نبوت کا ختم ہوجانا، آپؐ کا معصوم ہونا، پانچ وقت کی نماز کا فرض ہونا، قرآن و حدیث کا دین میں حجت ہونا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایسے انسان کا نہیں آنا جو معصوم ہو اور جس کا قول و فعل حجت ہو، نیکوکاروں کے لیے آخرت میں جنت کا ہونا، نجات کے لیے شریعت محمدی پر ایمان کا ضروری ہونا وغیرہ۔ یہ اوراس طرح کے بہت سے عقائد و اعمال وہ ہیں، جو قرآن و حدیث سے پوری تصریح کے ساتھ ثابت ہیں، ان کا انکار بالواسطہ کتاب و سنت کا انکار کرنا ہے، اس لیے اگر کوئی شخص اس سے اختلاف کرتا ہے، تو وہ ہدایت سے محروم ہے۔

دوسرا درجہ ان احکام کا ہے، جو ایسی حدیثوں سے ثابت ہیں کہ محدثین کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت یقین کے درجے میں نہیں ہے، یا ان کے بارے میں ایک سے زیادہ روایتیں ہیں اور ان کا مضمون ایک دوسرے سے کسی قدر مختلف ہے۔ البتہ یہ بات  ذہن میں رہنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا۔ اس لیے یہ اختلاف نقل کرنے والوں کی غلط فہمی کی وجہ سے واقع ہوا ہے، یا اس لیے کہ آپ کے مختلف ارشادات و معمولات کا موقع و محل الگ الگ ہے۔ راوی اس کی وضاحت نہیں کرسکا، یا اس لیے کہ ایک حکم پہلے کا ہے اور دوسرا بعد کا۔ اسی طرح بعض مسائل ثابت تو ہوتے ہیں یقینی دلیلوں سے، لیکن ان میں ایک سے زیادہ معنوں کا احتمال ہوتا ہے، کیوں کہ ہر زبان کی طرح عربی زبان میں بھی ایسے الفاظ موجود ہیں، جن کے ایک سے زیادہ مفہوم ہوسکتے ہیں، یا ایک حقیقی معنی ہوتا ہے اور تشبیہہ کے طور پر دوسرے معنی میں بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے، نیز بعض احکام ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کا قرآن و حدیث میں صریحاً ذکر نہیںہوتا۔ فقہا ان کے بارے میں رسولؐ اللہ کے رفقا عالی مقام صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ سے روشنی حاصل کرتے ہیں، اور اگر ان میں اختلاف راے ہوتا ہے، تو خود کتاب و سنت سے مستنبط اُصولوں اور نظیروں کو سامنے رکھ کر راے قائم کرتے ہیں۔ یہ احکام جو اپنے ثبوت یا وضاحت کے اعتبار سے یقینی درجے کے حامل نہیں، ان کو ظنی اور اجتہادی مسائل کہا جاتا ہے۔

اختلاف راے اور اجتھاد

گذشتہ اُمتوں میں اللہ کے رسولوں اور پیغمبروں ہی کے ذریعے اللہ کے احکام کی وضاحت ہوتی تھی اور وہی اس مقام پر فائز تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی برکت سے  اس اُمت کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے علما ایسے مسائل میں اجتہاد سے کام لیں، بشرطیکہ وہ   احکامِ شریعت میں اجتہاد کرنے کے اہل بھی ہوں۔ آپؐ نے نہ صرف اجتہاد کی تلقین کی ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی فقیہہ کا اجتہاد درست اور صائب نکلے، تو اس کو تو دہرا اجر ہے، لیکن جس سے اجتہاد میں چوک ہوجائے وہ بھی اجر سے محروم نہیں رہے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ان دو میں ایک اجتہاد کو غلط کہا جائے گا؟ جب کہ ہمارے سامنے یقینی طور پر کسی راے کا صحیح اور کسی کا غلط ہونا واضح نہیں ہے، تو اس سلسلے میں ایک راے یہ ہے کہ دونوں کو صائب ہی سمجھا جائے گا اور اس اختلاف راے کی حیثیت ایسی ہوگی، جیسے بعض غلطیوں کے مختلف کفارات متعین کیے گئے ہیں اور انسان کو اس کی صلاحیت اور استطاعت کے اعتبار سے کفارہ ادا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ راے مختلف علما اور ہندستان کے علما میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس میں ایک ہی راے درست سمجھی جائے گی اور دوسری خطا، لیکن ہر دو نقطۂ نظر میں درستی اور نادرستی کے احتمال کو تسلیم کیا جائے گا۔ یہ زیادہ تر اہلِ علم کی راے ہے، لیکن اجتہاد میں خطا نہ دنیا میں قابلِ گرفت ہے نہ آخرت میں۔ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری کی راے ہے کہ کن آرا میںکس فقیہہ کی راے درست تھی اور کن کی غلط؟ میدانِ حشر میں بھی اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر نہیں فرمائیں گے۔ علامہ کشمیری کی یہ راے سمجھ میں آتی ہے، کیوں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا اعزاز فرمائیںگے اور یہ بات کہ ان کی کمزوریوں کو حشر میں ظاہر کیا جائے،  ان کے اعزاز و توقیر کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کی اجازت دینے اور اجتہادی غلطی کو قابلِ عفو قرار دینے میں یہ بات شامل ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں ایک سے زیادہ راے کی گنجایش ہے اور ان میں فقہاے اُمت کے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے، نیز یہ کوئی مذموم اور ناپسندیدہ بات نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور ہوتی کہ احکامِ شریعت میں کوئی اختلاف نہ ہو، تو جیسے قرآن میں ایمانیات کو واضح کر دیا گیا ہے، اسی طرح تمام عقائد اور اعمالِ صالحہ کو ایسی وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہو تاکہ صحابہ اور بعد کے دور میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا، کیوں کہ یہ بات یقینا خداے علام الغیوب کے علم میں تھی کہ میرے بندوں میں ایسے لوگ پیدا ہوںگے، جن کے درمیان اس کی تشریح و توضیح میں اختلاف ہوگا۔

اختلاف راے اور صحابہؓ کا طرزِعمل

یہ اختلاف راے اُمت کے لیے زحمت نہیں رحمت ہے۔ اُمت کے ایک بڑے فقیہہ علامہ ابن قدامہ حنبلیؒ نے لکھا ہے کہ اس اُمت کا اتفاق حجت ِ قاطعہ ہے اور اس کا اختلاف رحمت واسعہ ہے (مقدمۃ المغنی)۔ یہ بات مختلف علما نے لکھی ہے، جن میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ    بھی شامل ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف پیدا ہوا یا اس کی تشریح و توضیح مختلف حضرات نے الگ الگ طور پر کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا برا نہیں مانا، مثلاً غزوئہ خندق کے بعد آپؐ نے اعلان فرمایا کہ تمام لوگ بنوقریظہ کی طرف کوچ کریں اور وہیں عصر کی نماز پڑھیں۔ اب بعض حضرات نے اس کا مطلب سمجھا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ بلاتاخیر بنوقریظہ کی طرف نکل جائیں، یہ مقصد نہیں ہے کہ لازماً بنوقریظہ ہی میں نمازِ عصر ادا کی جائے، اس لیے وہ مدینہ سے فوراً روانہ ہوگئے، لیکن راستے میں نماز پڑھتے ہوئے بنوقریظہ تشریف لائے۔ بعض نے تعمیل حکمِ نبویؐ کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ بنوقریظہ پہنچ کر ہی نمازِ عصر ادا کی اور ان میں سے کسی گروہ پر بھی نکیر نہیں کی گئی۔ اسی طرح آیت تیمم نازل ہونے کے بعد ایک سفر میں حضرت عمرؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ دونوں کو غسل کی ضرورت پیش آئی اور پانی میسر نہیں تھا۔ اب حضرت عمر نے اجتہاد کیا۔ ان کو خیال ہوا کہ تیمم صرف وضو کی جگہ پر کفایت کرتا ہے۔ اگر غسل واجب ہوجائے تو یہ کافی نہیں، اور حضرت عمار بن یاسرؓ اس نتیجے پر پہنچے کہ جب وضو کا تیمم، چہرہ اور ہاتھ کا مسح ہے تو غسل کا تیمم پورے بدن کا مسح ہے، اس لیے وہ ریت میں لوٹ گئے، تاکہ پورے بدن کا تیمم ہوجائے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ پیش کیا گیا تو آپ نے کسی کی مذمت نہیں فرمائی، بلکہ فرما دیا کہ تیمم غسل کا بھی قائم مقام ہے اور ہر صورت میں تیمم کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اگر اجتہاد کی بناپر پیدا ہونے والا اختلاف مذموم و ناپسندیدہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہوتا۔

یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری اُمت بلکہ پوری انسانیت کے معلم و مربی تھے، لیکن جس مقدس گروہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست استفادے کی سعادت مقرر فرمائی تھی، وہ ہیں صحابہ کرامؓ۔ صحابہ کے درمیان سیکڑوں مسائل میں اختلاف راے پایا جاتا تھا، مگر نہ وہ اسے بُرا سمجھتے تھے اور نہ یہ ان کے درمیان باہمی محبت، تعلق، ایک دوسرے کی اقتدا اور ایک دوسرے کی خوبیوں کے اعتراف میں رکاوٹ بنتا تھا۔ عملی احکام سے زیادہ اہمیت اعتقادی احکام کی ہوتی ہے، لیکن ان میں بھی بعض امور میں صحابہ کے درمیان اختلاف راے پایا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی راے تھی کہ معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا اور اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس سے انکار تھا۔ ان کی راے ہے کہ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل ؑکو اپنی اصل شکل میں دیکھا تھا، حالاں کہ یہ دونوں صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین اہلِ تعلق ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ چچازاد بھائی ہیں اور کم عمر ہونے کی وجہ سے شب و روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے، اور حضرت عائشہؓ نہ صرف ازواجِ مطہرات میں ہیں، بلکہ انھیں ازواج میں بھی خصوصی مقام حاصل تھا۔ اسی طرح بعض صحابہ کا خیال تھا کہ میت کے اہلِ خانہ کے میت پر رونے اور آہ و بکا کرنے کی وجہ سے میت پر عذاب ہوتا ہے، لیکن حضرت عائشہؓ اس کی قائل نہیں تھیں۔ اسی طرح بعض صحابہؓ کی راے تھی کہ مُردے سنتے ہیں اور دوسرا نقطۂ نظر تھا کہ مُردے نہیں سنتے۔ غرض کہ وہ عقائد جن پر  اہلِ سنت والجماعت متفق نہیں ہیں، ان میں صحابہؓ کے دور میں بھی اختلاف رہا ہے۔

عملی مسائل میں تو اختلاف کی کثرت رہی ہے، اب تو صحابہ کے فتاویٰ اور اقوال کو کتابی شکل میں جمع بھی کر دیا گیا ہے۔ اس اختلاف کی وجہ سے کبھی اُمت میں کوئی جدال پیدا نہیں ہوا اور اس نے ان کے دلوں کو نہیں توڑا، بلکہ بعد کے فقہا نے اس اختلاف راے کو تحسین کی نظر سے دیکھا، چنانچہ خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز علیہ الرحمہ سے منقول ہے: ’’مجھے یہ بات پسند نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کوئی اختلاف نہ ہوتا، اس لیے کہ اگر ہر مسئلے میں صحابہ کرامؓ کی ایک ہی راے ہوتی، تو لوگ تنگی میں پڑ جاتے، کیوں کہ صحابہ اُمت کے مقتدیٰ ہیں۔ صحابہ کے اختلاف نے سہولت پیدا کر دی کہ اُمت کے افراد اگر ان میں سے کسی راے کو قبول کرلیں تو ان کے لیے اس کی گنجایش ہے۔

حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہی کے ہم عصر عون بن عبداللہ ہیں۔ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پڑپوتے ہیں اور تابعین کے ممتاز علما میں ہیں۔ الفاظ میں کسی قدر فرق کے ساتھ یہی بات ان سے بھی منقول ہے،وہ فرماتے ہیں: ’’مجھے صحابہ کا اختلاف محبوب ہے، کیوں کہ اگر وہ کسی بات پر متفق ہوں اور اسے چھوڑ دیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے سنت ہی کو چھوڑ دیا، اور ان کے اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ اگر صحابۂ رسولؐ میں سے کسی راے پر عمل کیا جائے تو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت پر عمل کرلیا‘‘۔

الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اسی طرح کی بات امام قاسم بن محمد سے بھی منقول ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پڑپوتے ہیں اور تابعین کے عہد کے اکابر فقہا میں ان کا شمار ہے۔

اختلاف راے : وسعت اور گنجایش کا نام

اختلافی مسائل میں فراخ چشمی، کشادہ قلبی اور اس کو اہمیت نہ دینے کا رویہ ہمیشہ سے علما کا طریقہ رہا ہے۔ مشہور محدث یحییٰ بن سعید انصاری کا قول ہے کہ اہلِ علم کے درمیان حلال و حرام کا بعض مسائل میں بھی اختلاف ہوتا رہا ہے، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جس نے کسی چیز کے حرام ہونے کا فتویٰ دیا، اس نے اپنے مخالف فتویٰ دینے والے کو یہ سمجھا ہو کہ اس نے اپنے لیے ہلاکت کا راستہ اختیار کیا، اور نہ ایسے امور کو حلال ہونے کا فتویٰ دینے والے دوسرے فریق کو گمراہ اور ہلاکت کا راستہ اختیار کرنے والا قرار دیا ہو۔ نہ یہ ان پر کوئی عیب لگاتا اور نہ وہ ان پر کوئی عیب لگاتا۔ اختلاف کے لفظ سے چوں کہ بظاہر ایک دوسرے سے دُور ہونے کی بُو آتی ہے، اس لیے بعض علما تو اختلاف کی تعبیر کو بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ علامہ ابن تیمیہ نے امام احمد کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے فقہا کے اختلاف پر ایک کتاب مرتب کی اور اس کا نام کتاب الاختلاف رکھا۔ امام احمد نے فرمایا کہ اسے کتاب الاختلاف نہ کہو بلکہ یہ ’کتاب السعۃ‘ ہے۔ (مجموع الفتاویٰ، ۳۰؍۷۹)، یعنی فقہا کا اختلاف اُمت کے لیے سہولت اور گنجایش کا نام ہے۔

اختلاف کے معاملے میں وسعت اور گنجایش کی بہترین مثال امام دارالہجرہ حضرت امام مالکؒ کی ہے، جن کی کتاب موطا امام مالک حدیث کی دستیاب کتابوں میں پہلی کتاب ہے۔ ان سے عہدعباسی کے کم سے کم دو خلفا نے یہ خواہش کی کہ جیسے حضرت عثمان غنیؓ نے قرآن کو جمع فرمایا اور تمام مسلمانوں پر اس نسخے کو لازم قرار دیا، اسی طرح ہم آپ کی کتاب کو پوری اُمت پر لازم قرار دینا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی بندۂ نفس ہوتا تو اس کے لیے یہ لوگوں پر اپنی بات کو مسلط کرنے کا سنہرا موقع ہوتا، لیکن امام مالک نے اس راے کو پسند نہیں فرمایا۔ آپ نے فرمایا:

علما کا اختلاف راے اس اُمت کے حق میں اللہ کی طرف سے رحمت ہے۔ جس کے نزدیک جو نقطۂ نظر زیادہ درست ہے، وہ اس کی پیروی کرتا ہے۔ اس لیے یہ سب کے سب ہدایت پر ہیں اور ہر ایک کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے۔ کُلِّ ھُدًی وَکُلِّ یُرِیدُاللّٰہَ (کشف الخفا،۱؍۵۶)

امام مالک کا یہ قول جہاں ان کے اخلاص و للہیت کی دلیل ہے، وہیں اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ فقہا اور محدثین اجتہادی مسائل میں اختلاف راے کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔

قلب و نظر کی اسی وسعت کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے۔ صحابہ،تابعی اور ائمہ مجتہدین کے دور میں کبھی یہ سوال پیدا نہیں ہوا کہ ہم مخالف نقطۂ نظر کے حامل شخص کے پیچھے نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ امام احمد کے یہاں خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور امام مالک کے نزدیک وضو نہیں ٹوٹتا۔ امام احمد سے مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اگر کسی شخص نے پچھنا لگوایا ہو، یعنی جسم کا فاسد خون نکلوایا ہو تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ امام احمد نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا میں امام مالک اور سعید بن مسیب جیسے بزرگوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا؟

خون کے نکلنے سے وضو کے ٹوٹ جانے کا جو نقطۂ نظر امام احمد کا ہے، یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی ہے، جن میں امام ابویوسف شامل ہیں۔ انھوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے پیچھے نماز ادا کی، حالاں کہ خلیفہ نے خون نکلوایا تھا اور امام مالک کے فتویٰ کے مطابق وضو نہیں کیا تھا۔ جب ان سے اس بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیا میں امیرالمومنین کے پیچھے نماز نہ پڑھوں؟‘‘ پھر ایک اصولی بات فرمائی کہ ایسے اختلافات کی وجہ سے ائمہ کے پیچھے نماز نہ پڑھنا اہلِ بدعت کا طریقہ ہے۔

امام ابویوسف کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ انھوں نے غسل کیا اور جمعہ کی نماز پڑھائی۔ بعد میں انھیں بتایا گیا کہ کنویں میں مُردہ چوہا پایا گیا ہے۔ امام ابویوسف کی اصل راے کے مطابق وضو درست نہیں ہوا اور ظاہر ہے کہ جب وضو ہی درست نہیں ہوا، تو اصولی طور پر نماز لوٹانی چاہیے۔ لیکن اس میں دشواری تھی، اس لیے امام ابویوسف نے نماز نہیں لوٹائی اور فرمایا: آج ہم علماے مدینہ کی راے پر عمل کرتے ہیں، جن کے نزدیک دو مٹکے سے زیادہ پانی ہو تو جب تک نجاست کے گرنے سے تبدیلی نہ پیدا ہو، پانی ناپاک نہیں ہوتا۔

فقہاے شوافع کے نزدیک پرندوں کی بیٹ بھی ناپاک ہوتی ہے۔ قاضی ابوالطیب بڑے شافعی عالم تھے۔ جب جمعہ کی نماز شروع ہوئی اور انھوں نے تکبیر کہنے کا ارادہ کیا تو پرندے نے ان پر بیٹ کر دی۔ انھوں نے تحریمہ باندھ لیا اور کہا کہ آج میرا عمل امام احمد کی راے پر ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ بات اس پس منظر میں ہے کہ ان علما کی شرعی دلائل پر نظر تھی، البتہ عوام کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی کہ وہ جس قول پر چاہے عمل کرلیں، کیوں کہ اس سے خواہشاتِ نفس کی اتباع کا راستہ کھل جائے گا۔ لیکن اہلِ علم کو اس سلسلے میں وسیع النظر ہونا چاہیے اور فقہا کے اس اختلاف کو اس نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ حق و باطل کا اختلاف ہے، کیوں کہ سلف اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے مسائل میں مختلف نقطۂ نظر کے حاملین حق پر ہیں اور ان سب کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہے۔ ایسی وسیع القلبی کی مثالیں بعد کے ادوار   میں بھی کثرت سے ملتی ہیں۔ ان دنوں حرمین شریفین میں نمازِ وتر کا جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، فقہاے احناف کے یہاں وہ درست نہیں۔ لیکن امام ابوبکر جصاص رازی، علامہ ابن ہمام ان کے استاذ شیخ سراج الدین، اور ماضی قریب کے علما میں مولانا عبدالحی فرنگی محلی وغیرہ جو اپنے اپنے عہد کے فقہاے احناف کے سرخیل رہے ہیں، کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایسے امام کی اقتدا میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس طرح کے مسائل میں اختلاف راے کو نہ بُرا سمجھیں، نہ اس کو مناظرہ اور مجادلہ کا موضوع بنائیں اور نہ ان آرا کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ بے احترامی کا رویہ اختیار کریں۔

 

انسانی جان کتنی قیمتی ہے اور انسانی حُرمت کیا معنی رکھتی ہے، قرآن حکیم نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کر دی ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا (المائدہ ۵:۳۲) ’’جس نے ایک بے گناہ کو قتل کیا، اس نے گویا ساری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔ مراد یہ کہ بے گناہ انسانوں کا قتل کوئی بھی کرے، یہ ایک ایسا گھنائونا جرم ہے کہ کوئی اور جرم اس کی سنگینی کو نہیں پہنچتا۔ اگر مقتولین کی تعداد دوچار نہیں، دس بیس بھی نہیں،سیکڑوں اور ہزاروں بھی نہیں بلکہ لاکھوں میں ہو تو معاملہ اور بھی نازک اور سنگین ہوجاتا ہے۔ اس معاملے کی وضاحت ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے المیے اور بنگلہ دیش کی تشکیل میں قتل و غارت کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار کے حوالے سے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار دروغ گوئی کی آخری حدود سے بھی متجاوز ہیں اور یہ سلسلہ بڑے دھڑلّے سے گذشتہ ۳۹برسوں سے جاری ہے۔ آیئے حقائق کی روشنی میں اس صورتِ حال کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عمل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) کے ساتھ ہی اُوپر تلے مختلف اعداد و شمار فضا میں گردش کرنے لگے۔ مثال کے طور پر: ’’مشرقی پاکستان سے ایک کروڑ بنگالی، بھارت میں  پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی گزربسر بڑی اذیت ناک ہے، انھیں دنیا بھر سے امداد کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’پاکستانی فوج نے لاکھوں بنگالی مار دیے ہیں‘‘۔۱۰لاکھ، نہیں ۲۰ لاکھ، نہیں ۳۰ لاکھ، یہ بھی نہیں ۳۵لاکھ مار دیے ہیں‘‘ بلکہ ’’۵۰لاکھ سے بھی زیادہ مار دیے ہیں‘‘___ ’’۲لاکھ بنگالی  عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔ ’’۳ لاکھ، نہیں ساڑھے تین لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘___ ۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستان توڑنے کی سازش کے مرکزی کردار شیخ مجیب الرحمن نے پاکستان سے رہائی پاکر لندن پہنچتے ہی دعویٰ کیا: ’’بنگلہ دیش میں ۱۰لاکھ انسان مارے گئے ہیں‘‘۔ (دی ٹائمز، ڈیلی ٹیلی گراف، لندن، ٹائمز آف انڈیا، دہلی، پاکستان ٹائمز، لاہور ۹جنوری ۱۹۷۲ء) لیکن لندن سے براستہ دہلی، ڈھاکا جاتے ہوئے شیخ مجیب کے ’فہم‘ اور ’معلومات‘ میں حیرت انگیز اضافہ ہوا، اور ۱۰جنوری کو ڈھاکا کی سرزمین چھونے کے بعد موصوف نے کہا: ’’۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے ہیں‘‘ (جیوتی سین گپتا، بنگلہ دیش میں تحریکِ آزادی، ۱۹۴۷ء تا ۱۹۷۳ء (انگریزی) کلکتہ، ۱۹۷۴ء، ص ۴۴۵)۔ مگر کچھ ہی عرصے بعد انھوں نے ۳۵ لاکھ کے عدد میں ذرا کمی کرکے: ’’۳۰ لاکھ مارے گئے اور ۳ لاکھ عورتوں سے بالجبر زیادتی (ریپ) کی گئی‘‘ کے عدد پر جم جانا مناسب سمجھا اور پھر یہی موقف نجی، عوامی اور بین الاقوامی سطح پر دہرانا وظیفۂ زندگی بنا لیا۔

معروف صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے جسے ۱۸ جنوری ۱۹۷۲ء کو نیویارک   ٹیلی ویژن نے ٹیلی کاسٹ کیا تھا، اس میں بھی شیخ مجیب نے ۳۰لاکھ افراد کے قتل کا دعویٰ کیا تھا   اس سے ایک روز قبل ٹائم میگزین  کو انٹرویو میں مجیب نے بتایا تھا: ’’آج اگر ہٹلر زندہ ہوتا تو اپنی کارکردگی پر شرم سار ہوتا‘‘ (۱۷ جنوری ۱۹۷۲ء)۔ اور پھر ۳۰ لاکھ کا عدد ایک قومی نغمے یا بنگالی لوک گیتوں کا حصہ بن گیا، جس کا دہرانا ہرکس و ناکس نے اپنے اُوپر لازم کرلیا۔

اس تجزیے کے لیے ہمارا بیش تر انحصار خود بنگلہ دیش کے تحقیق کاروں اور مغربی صحافیوں کی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق کار اگرچہ پاکستان کے حامی نہیں ہیں، مگر اس پروپیگنڈے پر بحث کے دوران میں وہ اپنے نتیجۂ فکر کو ضرور قلم بند کرتے ہیں۔

پہلے اس منظر کو دیکھیے: مشہور اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی (Oriana Fallaci) لکھتی ہے: ’’میں مجیب کے گھر [فروری ۱۹۷۲ء میں] انٹرویوکرنے پہنچی، وہاں برآمدے میں ۵۰افراد کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اندر اطلاع کیجیے۔ میری اس درخواست کے جواب میں وہاں کھڑے ایک آدمی نے نہایت غصیلے بلکہ خوف ناک انداز میں غراتے ہوئے کہا: ’انتظار کرو‘۔ میں انتظار میں بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ، دوگھنٹے، تین گھنٹے، چار گھنٹے گزرے، حتیٰ کہ رات کے آٹھ بج گئے۔ پھر ساڑھے آٹھ بجے یہ کرشمہ رونما ہوا کہ مجھے مجیب کے کمرے میں جانے کی اجازت ملی، جہاں ایک آرام دہ صوفہ اور دوکرسیاں پڑی تھیں۔ مجیب نہایت بے ڈھنگے انداز میں ٹانگیں پسارے صوفے پر قابض تھا اور باقی دونوں کرسیوں پر، دو موٹے موٹے وزیر دھنسے ہوئے تھے۔ میں داخل ہوئی تو نہ کسی نے کوئی سلام کیا اور نہ میری آمد کا کوئی نوٹس لیا۔ میں حیران گم سم کھڑی تھی کہ اچانک مجیب نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’بیٹھ جائو‘۔ میں اسی کے صوفے کے ایک بازو کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی اور تیزی سے اپنے ٹیپ ریکارڈر کو متحرک کرنے لگی، لیکن ابھی میں نے بٹن دبایا بھی نہیں تھا کہ مجیب نے  گرج دار آواز میں مجھ سے کہا: ’’جلدی کرو، جلدی کرو، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ہاں، پاکستانیوں نے ۳۰ لاکھ بنگالیوں کو مارا ہے اور یہی سچ ہے۔ ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ، ۳۰ لاکھ‘‘۔ میں حیران تھی کہ وہ کس طرح ۳۰لاکھ انسانوں کے مارے جانے کے اعداد و شمار تک پہنچا ہے؟ میں نے کہا: ’’جناب وزیرعظم…‘‘ مگر وہ کوئی بات سننے کے بجاے پھر گرج دار آواز میں دھاڑنے لگا: ’’انھوں نے ہماری عورتیں اپنے شوہروں کے سامنے ماری ہیں ۔ شوہر، بیٹوں اور بیویوں کے سامنے مارے ہیں… دادا اور نانا اپنے پوتوں، نواسوں کے سامنے، چچیاں، چچوں کے سامنے…‘‘۔ میں نے فوراً کہا: ’’جناب وزیراعظم… میں چاہوں گی…‘‘ مگر مجیب نے میری بات مکمل ہونے سے قبل اسی بپھرے انداز میں وزیروں کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: ’’اس کو سنو، یہ کیا چاہتی ہے؟ تمھیں کوئی حق نہیں چاہنے کا، سمجھی، جو میں کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے‘‘۔ (آریانا فلاسی، لایورپیا، روم، ۲۴فروری ۱۹۷۲ء بحوالہ ڈاکٹر عبدالمومن چودھری Behind the Myth of Three Million [۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے]، الہلال پبلشرز،لندن، ص۶،۷)

آیئے، دیکھتے ہیں کہ اعداد و شمار کا یہ اُتار چڑھائو کس طرح وجود میں آیا ہے؟: ۷جنوری ۱۹۷۲ء کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI) نے بنگلہ دیش کے نئے وزیراطلاعات و نشریات      شیخ عبدالعزیز کے حوالے سے کلکتے سے اعلان کیا: ’’۱۰لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں‘‘۔ اسدچودھری کی نظم رپورٹ ۱۹۷۱ء ان تمام واقعات و حوادث کی تفصیل پر مبنی قرار دی جانے لگی، جس میں دعویٰ کیا گیا: ’’ہم کو آزادی کے لیے ۱۰ لاکھ شہیدوں کا لہو دینا اور ۴۰ ہزار عورتوں کی عزت قربان کرنا پڑی‘‘۔ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے کے مطابق: سابق بھارتی سپہ سالار جنرل مانک شا کے نزدیک: ’’مجیب کے بقول ۳۰ لاکھ‘‘ اور مشرقی محاذ کے کمانڈر جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے مطابق: ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں پاکستانی فوج نے ۱۰لاکھ افراد کو مارا، لیکن جہاں تک شیخ مجیب کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ ۳۰ لاکھ مارے گئے، ایک ناممکن سی بات ہے۔ مجیب منتظم کے بجاے  ایک شورش پسند (ایجی ٹیٹر) انسان تھا، جس نے ظلم کی داستان کو بڑھاوا دینے کے لیے ۳۰لاکھ کا دعویٰ کیا، حالانکہ مجیب کا یہ دعویٰ ناممکن سی بات ہے، کیونکہ پاکستانی فوج کو بہ یک وقت ملک کے اندر اور ملک کی سرحدوں پر لڑنا پڑ رہا تھا‘‘۔ (لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا، Remimiscences of Bangladesh War، وِڈیو انٹرویو، ماس کمیونی کیشن سنٹر، جامعہ ملّیہ، دہلی، ۱۹۹۴ء)۔ اس سے قبل بنگلہ دیش کی تخلیق کے ایک اہم کردار میجر جنرل ڈی کے پیلٹ نے بھی ۱۰ لاکھ کا عدد دہرایا، حالانکہ اس کے لیے وہ کوئی تائیدی ثبوت تک نہ پیش کرسکا۔ اس جنگ کے حوالے سے ان تینوں جرنیلوں یعنی مانک، اروڑا اور پیلٹ نے صرف دولفظوں کا سہارا لیا ہے: ’’یہ ایک معروف بات ہے‘‘ یا ’’جیساکہ ہم جانتے ہیں‘‘۔ یا ’’مجیب نے کہا‘‘ اتنے اہم معاملے پر ایسی سہل انگاری پر مبنی اسلوب اختیار کرنا بذاتِ خود غیرذمے دارانہ رویہ ہے اور بددیانتی پر مبنی انداز ہے۔

بقول ڈاکٹر عبدالمومن چودھری: دراصل ۳۰ لاکھ کے افسانے کو وضع کرنے کے پیچھے روزنامہ پوربودیش ڈھاکا کے مدیر احتشام حیدر چودھری اور اشتراکی روس کے سرکاری اخبار روزنامہ پراودا ماسکو کا نمایندہ متعینہ دہلی، صاف صاف دکھائی دیتے ہیں۔ پوربودیش میں احتشام حیدر نے ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو اداریہ ’’یحییٰ حکومت کو پھانسی دو‘‘ میں لکھا: ’’پاکستانی فوج نے ۳۰لاکھ بنگالی اور ۲۰۰ دانش ور مارے‘‘، جب کہ اسی اخبار نے صرف ایک روز قبل یعنی ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء کو آٹھ کالم پر مشتمل ایک فیچر، جسے سرخ رنگ کی سرخیوں سے مزین کیا گیا تھا، یہ عنوان جمایا تھا: ’’بنگال کے کتنے لوگ مارے گئے؟‘‘ اور فیچر میں یہ بحث کی گئی: ’’بنگال میں ہر جگہ یہ سوال پوچھا جارہا ہے کتنے لوگ قتل ہوئے: ۱۰، ۲۰، ۳۰، ۴۰ یا ۵۰ لاکھ؟ کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ لوگوں کو اس کا جواب چاہیے اور ہمیں اس سوال کا جواب دینا ہوگا‘‘۔ (پوربودیش، ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر ایک ہی رات گزرنے کے بعد وہ جواب کی ’تلاش و تحقیق‘ مکمل کرلیتا ہے اور اگلے روز یہی اخبار جواب دیتا ہے: ’’۳۰لاکھ سے کم نہیں‘‘ (۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء)۔ پھر اسی خبر کو پراودا کا خصوصی نمایندہ دہلی، اپنے مرکز ماسکو بھیجتا ہے، جہاں خبر اس طرح شائع ہوتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ‘‘۔ اور پھر پراودا کے حوالے سے ۵جنوری ۱۹۷۲ء کو ڈھاکا اور دہلی کے اخباروں پر خبر شائع کی جاتی ہے: ’’۳۰ لاکھ سے زیادہ بنگالیوں اور ۸سو بنگالی دانش وروں کو مارا گیا‘‘۔ یوں پندرہ روز میں،اور افراتفری کے عالم میں دو صحافی ایک افسانہ تراشنے میں پوری طرح کامیاب ہوجاتے ہیں۔ پھر ۱۰جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے ڈھاکا ایئرپورٹ پر اُترتے وقت پورے طمطراق سے یہ اعلان کردیا: ’’پاکستانیوں کے ہاتھوں ۳۵لاکھ بنگالی مارے گئے اور ۳ لاکھ بنگالی عورتوں سے زیادتی کی گئی‘‘۔

اسی دوران میں خود بھارتی حکومت بھی بہ عجلت تمام کہہ دیتی ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کو قتل کیا گیا‘‘ (ماہ نامہ نیشنل جیوگرافک، ستمبر ۱۹۷۲ء)۔ رابرٹ پاینی نے اپنی کتاب Tragedy of Bangladesh (میکملن، ۱۹۷۳ء، نیویارک) میں اسی بات کو تحقیقی رنگ دینے کے لیے یہ افسانہ تراشا: ’’۲۲فروری ۱۹۷۱ء کو جرنیلوں کے ایک اجلاس میں صدر پاکستان جنرل یحییٰ خان نے کہا تھا: ۳۰لاکھ بنگالیوں کو مار دو تو امن ہماری جھولی میں ہوگا‘‘ (ص ۵۰) یعنی ایک سال پہلے ہی جنرل یحییٰ نے قتل کی گنتی مکمل کرلی۔ یہاں سے وہاں تک ۳۰ لاکھ کا عدد کس کس روپ میں گھڑا، دکھایا اور پھیلایا گیا۔

جوہری کا نام بنگلہ دیش کے مشہور صحافی کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔ انھوں نے اپنی بنگلہ کتاب The Riddle of Thirty Lakh [۳۰ لاکھ کا معمّہ] (ڈھاکا، ۱۹۹۴ء) میں لکھا ہے: ’’یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آٹھ ماہ اور بارہ روز کی ایک گوریلا جنگ میں ۳۰ لاکھ انسان مارے جائیں، اور یہ بات بھی وہم و گمان سے کوسوں دُور ہے کہ اس دوران میں دو لاکھ سے زیادہ عورتوں سے بالجبر زیادتی کی گئی ہو۔ میں نے ملک کے مختلف اضلاع کے ۵۰۰ افراد کا انٹرویو کیا، اور ان سے پوچھا ہے: ’’آپ کے خاندان کے دُور و نزدیک میں، یا آپ کے جاننے والوں میں یا پھر آپ کے گائوں محلے میں، کسی پاکستانی فوجی نے جنسی بے حُرمتی کی ہو تو ایسا کوئی واقعہ آپ بتا سکتے ہیں؟‘‘ ان میں سے ہر فرد نے کہا: ’نہیں‘۔ ممکن ہے وہ اپنے خاندان کے بارے میں ایسی بات بتاتے وقت شرماتے ہوں، مگر گائوں، محلے کے بارے میں گواہی دینے میں کسی فرد کے لیے کوئی امرمانع نہیں ہوسکتا تھا۔ البتہ چند بدکرداروں کے ہاتھوں ایسے واقعات ہوئے، مگر ان چند کو پھیلا کر ۲لاکھ بنا دینا کیسے ممکن ہوا ہے؟ پھر ملک بھر سے ان اعداد و شمار کو صرف ایک ہفتے میں فیصلہ کن شکل دینا کیسے ممکن ہوا؟ کس نے یہ سروے کیا؟‘‘ (ایضاً، ص ۱۴)

ولیم ڈرومنڈ (William Drummond)، نمایندہ خصوصی روزنامہ گارڈین لندن  رقم طراز ہے: ’’۳۰ لاکھ افراد کا قتل ایک غیرحقیقی داستان سرائی ہے، جسے دنیا بھر کے اخبارات میں اُچھالا گیا۔ میں نے بنگلہ دیش کے بہت سے دورے کیے۔ اس دوران بے شمار لوگوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے، سیکڑوں دیہات کا سفر کرنے اور اُوپر سے لے کر نچلی سطح تک حکومتی اہل کاروں سے تبادلۂ خیال کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ۳۰لاکھ افراد کے قتل کی بات ایک انتہا درجے کی مبالغہ آمیزی ہے (گارڈین، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ ایک اور صحافی پیٹرگل نمایندہ خصوصی روزنامہ ٹیلی گراف، لندن (۱۶؍اپریل ۱۹۷۳ء) نے لکھا ہے: ’’شیخ مجیب کا یہ دعویٰ کہ ۳۰لاکھ بنگالی افراد مارے گئے ایک ایسی مبالغہ آمیز کہانی ہے، جس میں نقصان کو ۲۰فی صد زیادہ، بلکہ ۵۰،۶۰ فی صد تک بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے‘‘۔

عبدالمہیمن ضلع نواکھالی کے معروف سیاسی رہنما، ۱۹۷۰ء میں قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور شیخ مجیب الرحمن کے طویل عرصے تک قریبی دوست رہے ہیں۔ انھوں نے ۱۹۹۰ء میں یحییٰ مرزا کو انٹرویو میں بتایا: ’’بنگلہ دیش کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے میں یہ بات پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ میں نے ضلع نواکھالی کے طول و عرض میں، پولیس اسٹیشنوں اور یونین کونسلوں میں گھوم پھر کر بڑی باریک بینی سے ۱۹۷۱ء کے مقتولین کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ جن کے مطابق ضلع نواکھالی میں ۷ہزار سے کم افراد مارے گئے اور اگر [متحدہ پاکستان کے حامی] مقتول رضاکاروں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ساڑھے سات ہزار سے ہرگز زائد نہیں بنتی۔  یاد رہے کہ ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کے اضلاع کی تعداد ۱۹ تھی، اور تمام اضلاع اس جنگ سے برابر کی سطح پر متاثر نہیں ہوئے تھے، جب کہ نواکھالی وہ ضلع تھا جو جنگ سے بہت زیادہ متاثر اضلاع میں شمار ہوتا تھا۔ مراد یہ ہے کہ اگر ضلع نواکھالی سے جمع کردہ اعداد و شمار کو پیش نظر رکھیں اور تمام اضلاع میں مقتولین کی تعداد کا اوسط نکالیں تو اس کے باوجود یہ تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار سے ہرگز زیادہ نہیں ہوسکتی‘‘۔ (بحوالہ ۳۰ لاکھ کا معمّہ، از جوہری، ص ۴۸،۴۹)

بنگلہ دیش کے محقق پروفیسر نعیم مہیمن نے اپنے مقالے Accelerated Media and 1971 میں اس پر بحث کی ہے: ’’۳۰ لاکھ کے اس عدد کو بنگلہ دیش کی سرکاری تاریخ میں تقدیس اور ایمان کا درجہ حاصل ہوگیا۔ یوں برسوں سے اس تعداد کو کسی بھی دائرۂ تحقیق میں اعتراض اور تجزیاتی چیلنج سے یک سر آزاد سمجھ لیا گیا۔ البتہ حالیہ زمانے کے تجزیہ کاروں نے دلیل دی ہے کہ پاکستانی فوج کے لیے ان سات مہینوں کے عرصے میں ۳۰لاکھ انسانوں کو قتل کرنا قطعی  طور پر ناممکن ہے۔ اگر یوں انسانوں کو مارنا مقصود ہوتا تو اُس کے لیے باقاعدہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جاتا۔ مثال کے طور پر جرمنی کے آمر فیوہرر ہٹلر نے مبینہ طور پر اپنی پوری قوت سے ۶۰لاکھ یہودیوں کو چھے برسوں میں مارا، اور اس کے لیے باقاعدہ قتل گاہیں بنائی گئیں۔ گیس چیمبرز اور لانے لے جانے کے لیے سڑکوں کے جال سے استفادہ کیا گیا۔ مگر پاکستان کے حوالے سے ہمیں کہیں بھی ایسا پروگرام دکھائی نہیں دیتا اور نہ پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں نسل کشی (ethnic cleansing) کا کوئی منصوبہ تشکیل دیا۔ اس لیے ان چند مہینوں میں، مشینی قتل گاہوں، نسل کشی کے کیمپوں کی عدم موجودگی میں ۳۰لاکھ انسانوں کو مارنا، ناممکن ہے‘‘۔ (ص۱۰، اس مقالے کا ایک حصہ۔Economic & Political Weekly ،ممبئی، ۲۶ جنوری ۲۰۰۸ء میں بھی شائع ہوا)

یاد رہے ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کی آبادی ۶ کروڑ ۹۷ لاکھ ۷۴ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ جہاں ۶۸ہزار ۳ سو ۸۵ دیہات اور ۴ہزار ۴ سو ۷۲ یونین کونسلیں تھیں۔ جیسے ہی ۳۰ لاکھ کا نمبر فضا میں اُچھالا گیا تو متعدد آزاد ذرائع نے اپنی تحقیقی کاوشوں سے ثابت کیا کہ یہ اعداد و شمار سخت مبالغہ آمیز ہیں___ ضلع جیسور، کلکتہ کی جانب، مشرقی پاکستان کا ایک سرحدی ضلع ہے۔ اس کے معروف سماجی رہنما خوندکر ابوالخیر بتاتے ہیں: ’’ہمارے پورے ضلعے سے ۲۰، ۲۵ سے زیادہ افراد، فرار ہوکر بھارت نہیں گئے۔ خود میرے گائوں اور مضافات کے دیہات میں پاکستانی فوج سے کہیں ایک جگہ بھی لڑائی کے واقعے اور کسی قسم کے قتل و غارت کی نوبت نہیں آئی‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۰)

اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ آزاد ذرائع ہی نہیں بلکہ شیخ مجیب کے قریبی ساتھی بھی لاکھوں کے اعداد و شمار کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف خود بنگلہ دیش حکومت نے ۷جنوری ۱۹۷۲ء سے مقتولینِ آزادی کے اعداد و شمار اکٹھا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی۔ ۱۶جنوری ۱۹۷۲ء کو شیخ مجیب نے عوامی لیگ کے کارکنوں اور اسمبلی کے ارکان کو حکم دیا کہ وہ اپنی پہلی فرصت میں ’مقتولینِ آزادی‘ کی تفصیلات اکٹھی کریں، اور دو ہفتے کے اندر اندر عوامی لیگ کے مرکزی دفتر جمع کرائیں (روزنامہ بنگلہ دیش آبزور، ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی، ص ۲۳)۔ پھر شیخ مجیب نے ۲۹ جنوری ۱۹۷۲ء کو سرکاری سطح پر ایک ۱۲ رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی، جس کے سربراہ عبدالرحیم، ڈی آئی جی پولیس تھے، جب کہ ارکان کمیٹی میں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی گروپ) کے لیڈر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تجربہ کار ارکان شامل تھے۔ سرکاری گزٹ میں اس کمیٹی کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ کمیٹی کے ذمے یہ کام تھا کہ: وہ مقتولین اور املاک کے نقصان کا جائزہ لے اور شرپسندوں کی نشان دہی کرے۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا گیا کہ مذکورہ کمیٹی: ’’اپنی رپورٹ ۳۰ اپریل ۱۹۷۲ء تک لازماً پیش کرے، اور اس مقصد کے حصول کے لیے تمام وسائل بروے کار لائے‘‘۔

’’عبدالرحیم انکوائری کمیٹی‘‘ نے بڑی تن دہی سے کام کیا، ایک ایک یونین کونسل اور ایک ایک پولیس اسٹیشن سے رابطہ کرکے کوائف جمع کیے، اور انفرادی گواہیوں کو بھی قلم بند کیا۔ روزنامہ گارڈین لندن کا نمایندہ خصوصی ولیم ڈرومنڈ جو مستقل طور پر ڈھاکا میں مقیم تھا، بیان کرتا ہے: ’’مارچ کے تیسرے ہفتے تک انکوائری کمیٹی کے سامنے صرف ۲ہزار افراد کے قتل کی رپورٹیں پیش ہوسکیں کہ: انھیں پاکستانی افواج نے مارا تھا‘‘ (روزنامہ گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)۔ تاہم جب انکوائری کمیٹی نے رپورٹ مکمل کی تو معلوم ہوا کہ پورے بنگلہ دیش میں اس ساڑھے آٹھ ماہ کی بغاوت، خانہ جنگی، بلوے، لوٹ مار اور گوریلا جنگ میں ۵۶ہزار ۷ سو ۶۳افراد کے قتل کے ثبوت فراہم کیے جاسکے ہیں۔ بقول ولیم ڈرومنڈ: ’’جوں ہی انکوائری کمیٹی کے سربراہ نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی تو جلد مشتعل ہوجانے والا جذباتی مجیب آپے سے باہر ہوگیا، اور اس نے رپورٹ پکڑ کر فرش پہ دے ماری اور غصے میں چلّانے لگا: ’’میں نے ۳۰ لاکھ کہے ہیں ۳۰ لاکھ۔ تم لوگوں نے یہ کیا رپورٹ مرتب کی ہے؟ یہ رپورٹ اپنے پاس رکھو، جو میں نے کہہ دیا ہے، بس وہی سچ ہے‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶ جون ۱۹۷۲ء)

بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں وزارتِ خزانہ کے بیان کے مطابق یہی نمایندہ آگے چل کر رقم طراز ہے کہ: ’’مجیب نے مقتولین کی مدد کے لیے ۲ ہزار ٹکہ فی کس کا جو اعلان کیا تھا، اس کے حصول کے لیے ۷۲ہزار افراد نے درخواستیں جمع کرائیں، جن میں ۵۰ہزار مقتولین کے لیے رقم حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا، اور ان درخواستوں میں متعدد جعلی درخواستیں بھی شامل تھیں‘‘۔ (گارڈین، لندن، ۶جون ۱۹۷۲ء)

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ عوامی لیگ کی پروپیگنڈا مشین کے مطابق: ’’بھارت میں پناہ گزین بنگالیوں میں سے لاکھوں افراد بھوک اور بیماری سے مارے گئے‘‘۔ اس طرح جن لوگوں نے مذکورہ بالا دعوے کے ساتھ رقوم وصول کیں، ان میں بہت سے وہ لوگ بھی شامل تھے جو بھارتی کیمپوںمیں مارے گئے تھے۔ (عبدالغفار چودھری، مضمون: ’ہمیں ہمت سے سچ کا سامنا کرنا چاہیے‘، روزنامہ جنپد، ڈھاکا، ۲۰ مئی ۱۹۷۳ء، بحوالہ ۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۲۹، ۳۰)

شیخ مجیب نے جھوٹ کی جو آلودگی پھیلائی تھی، وہ ذہنوں کو مسموم کرتی رہی۔ پھر ۱۵جون ۱۹۹۳ء کو بنگلہ دیش قومی اسمبلی میں کرنل اکبر حسین (جو جنرل ضیا الرحمن اور خالدہ ضیا کی حکومتوں میں وزیر رہ چکے تھے) نے یہ کہہ کر بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا کہ: ’’عوامی لیگ نے ۳۰لاکھ مقتولینِ آزادی کا افسانہ گھڑا، جب کہ حقیقت اس کے صرف ۱۰ فی صد کے قریب ہے‘‘۔ اس پر عوامی لیگ کے رکن اسمبلی عبدالصمد آزاد نے اسمبلی میں جواب دیا: ’’یہ بات ہم نے اپنے لیڈر شیخ مجیب سے سنی ہے اور اسے ہی ہم درست سمجھتے ہیں‘‘۔ پھر ہندو رکن اسمبلی شدھن گھشو شیکر نے چیلنج کرتے ہوئے سوال اُٹھایا: ’’اکبر حسین اپنے دعوے کا ثبوت پیش کریں‘‘۔ تب وزیر اکبرحسین نے کہا: ’’بنگلہ دیش بننے کے بعد حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جس جس گھرانے کا کوئی فرد بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے یا لاپتا ہوا ہے،و ہ گھرانہ متعلقہ فرد کا نام پتا بتا کر ۲ہزار ٹکے بطور امداد وصول کرے۔ اس اپیل کے جواب میں بنگلہ دیش بھر سے صرف ۳ لاکھ افراد نے نام درج کرائے۔ اگر وہ ۳۰لاکھ ہوتے تو لازماً وہ بھی نام درج کراتے، مگر ایسا نہیں ہوا، باقی ۲۷ لاکھ کہاں گئے؟ جب یہ جواب ملا تو پورے ایوان پہ خاموشی چھا گئی‘‘۔(بنگلہ دیش قومی اسمبلی کی روداد، ۱۵، ۱۶ جون ۱۹۹۳ء بحوالہ ۳۰لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص ۵)

مجیب حکومت سقوطِ مشرقی پاکستان کے فوراً بعد نقصان، اموات اور جرائم کے ذمہ داران کے تعین کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہوگئی۔ یوں ۲۲دسمبر ۱۹۷۱ء کو کلکتہ سے مجیب کی جلاوطن حکومت نے اعلان کر دیا تھا: ’’جن خواتین کے ساتھ پاکستانی فوجیوں نے زیادتی (ریپ) کی ہے وہ ’بنگالی ہیروئنیں‘ ہیں۔ پھر مجیب کی آمد پر جنوری ۱۹۷۲ء میں ڈھاکا میں ایک بہت بڑا ’بنگالی ہیروینز کمپلیکس‘ قائم کر دیا گیا، جس کا سربراہ مجیب کے رشتے دار جہانگیر حیدر کو مقرر کیا گیا۔ اس کمپلیکس کے لیے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کرٹ والڈ ہایم نے ’ہیروینز کمپلیکس‘ کا دورہ بھی کیا، لیکن یہ کمپلیکس ایک روز کے لیے بھی آباد نہ ہوسکا۔ کتنی بنگالی ہیروینیں یہاں رجسٹرڈ ہوئیں؟ آج تک کسی کو یہ عدد معلوم نہ ہوسکا۔ کیونکہ اس باب میں دعوے کے لیے کوئی قابلِ ذکر ثبوت فراہم نہ ہوسکا۔ یوں خجالت میں چند ماہ بعد یہ منصوبہ اور کمپلیکس اچانک ختم کر دیا گیا‘‘۔ (۳۰ لاکھ کی کہانی کے پیچھے، ص۲۵، ۳۰)

ازاں بعد تحریک آزادیِ ہند کے معروف رہنما اور بنگالی نژاد سبھاش چندرابوس کی بھتیجی پروفیسر ڈاکٹر شرمیلا بوس (بھارتی بنگالی اور ہاورڈ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی) نے جون ۲۰۰۵ء میں اپنے تحقیقی مقالے Problem of Using Women as Weapons in Recounting the Bangladesh War [بنگلہ دیش کی جنگ میں عورتوں کا بطور ہتھیار استعمال] میں لکھا ہے: ہمیں سچ بتانا چاہیے اور سچ یہ ہے کہ پاکستانی افواج پر بنگالی عورتوں کی اس پیمانے پر بے حُرمتی کا الزام مبالغہ آمیز حد تک بے بنیاد ہے۔ پاکستانی فوج نے ایک منظم قوت کے طور پر اپنی ڈیوٹی انجام دی جس میں عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا۔ میں نے وسیع پیمانے پر انٹرویو، مکالموں اور تحقیق سے یہی بات دیکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے عورتوں کو یک سر نظرانداز کرکے، صرف مقابلہ کرنے والے جوانوں کو نشانہ بنایا‘‘۔ اس پر روزنامہ ڈیلی ٹائمز لاہور نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ء کو اپنے اداریے New Impartial Evidence [نیا غیر جانب دارانہ ثبوت]میں لکھا: ’’پروفیسر شرمیلا بوس نے چشم دید گواہوں کی گواہی اور گہرے تحقیقی کام کی بنیاد پر برسوں سے لگنے والے اس الزام کی تردید کی ہے کہ پاکستان نے بنگالی عورتوں کو بالجبر زیادتی کا نشانہ بنایا‘‘۔

یہاں ایک مرتبہ پھر اطالوی صحافی خاتون آریانا فلاسی کے مکالمے سے رہنمائی لیتے ہیں،  جس نے اپریل ۱۹۷۲ء میں (تب) صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو لیا، جو اس کی کتاب    Interview With Historyمیں شامل ہے۔ فلاسی کے جواب میں بھٹو نے کہا: ’’مجیب الرحمن ایک پیدایشی جھوٹا شخص ہے۔ یہ اس کے بیمار ذہن پر ہے کہ وہ کب کیا بات کر دے، مثلاً   وہ یہ کہتا ہے کہ اس قتلِ عام میں ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ وہ پاگل ہے___ وہ سب لوگ پاگل ہیں۔ بہ شمول اخبارات کے جو اس کی بات کو دہراتے ہیں کہ ۳۰ لاکھ لوگ مارے گئے، ۳۰ لاکھ قتل ہوگئے۔ بھارتیوں نے کہا تھا کہ ۱۰ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ شیخ مجیب نے پہلے ۱۰کو ۲۰ کیا اور پھر ۳۰ لاکھ بنا دیا۔ وہ تو طوفان سے مرنے والے لوگوں کی تعداد بھی اسی طریقے سے ضرب تقسیم کر کے بڑھاتا رہتا تھا۔ بھارتی صحافیوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد ۶۰ سے ۷۰ ہزار تھی، جب کہ کچھ مشنری لوگوں کے مطابق ۳۰ ہزار لوگ مارے گئے تھے، اور جہاں تک میری اطلاعات ہیں تقریباً ۵۰ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ چاہے اس ملٹری ایکشن کا کوئی بھی جواز پیش کیا جائے، میں حالات کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں محض چیزوں کو حقیقت کی طرف واپس لا رہا ہوں، کیونکہ ۵۰ہزار اور ۳۰ لاکھ لوگوں کے مرنے میں بہت بڑا فرق ہے___ مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے پناہ گزینوں کے بارے میں [بھارتی وزیراعظم] اندرا گاندھی کہتی ہیں کہ یہ ایک کروڑ لوگ تھے۔انھوں نے جان بوجھ کر ایک کروڑ کا نمبر دیا، تاکہ اسے جواز بناکر مشرقی پاکستان پر حملہ کرسکے، لیکن جب ہم نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ [بنگالی] پناہ گزینوں کی تعداد چیک کر کے بتائے تو بھارت نے ہمارے اس مطالبے کی شدید مخالفت کی۔ اگر ایک کروڑ کا عدد ٹھیک تھا تو انھیں اقوام متحدہ سے چیک کرانے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اصل بات ایک کروڑ یا دو کروڑ کی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آرمی آپریشن میں جو لوگ مارے گئے ہیں، ان کی تعداد غلط ہو، لیکن پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں میرے پاس موجود اعداد و شمار غلط نہیں تھے۔ ہمیں اچھی طرح پتا تھا کہ کتنے لوگ مشرقی پاکستان سے بھارت گئے تھے۔ اب یہ بات کہ وہاں کتنی عورتوں کے ساتھ بالجبر زیادتی کی گئی اور کتنی قتل ہوئیں؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ وہاں بہت زیادتیاں ہوئی تھیں۔ اس پورے عرصے میں اس طرح کی زیادتی کے صرف چار کیس رپورٹ ہوئے، اگر ان کو دس سے ضرب دیں تو ان کیسوں کی تعداد ۴۰ ہوجاتی ہے۔ پھر بھی ہم ان اعداد تک نہیں پہنچ سکتے جو مجیب اور اندرا گاندھی پوری دنیا میں پھیلاتے تھے‘‘ (ایک سیاست کئی کہانیاں، میں مذکورہ انٹرویو کا ترجمہ از رؤف کلاسرا، ص ۳۶۲، ۳۶۳)۔ ڈھاکا ہی سے نعیم مہیمن کے مطابق: ’’۱۹۷۱ء میں بھارت جانے والے بنگالیوں کی تعداد ۱۲ لاکھ سے ایک کروڑ ، بلکہ دو کروڑ تک بیان کی جاتی رہی۔ پھر ایک فلم ساز لیرلیون نے اس خودساختہ کہانی پر فلم بناکر انتہائی مبالغہ آمیزی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا‘‘۔(مقالہ مذکورہ، ص ۱۴)

واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سفیر شمشیر ایم چودھری نے کہا کہ:’’۱۹۷۱ء کی جنگ کے حوالے سے ہمارے ہاں جو مبالغہ آمیز اعداد و شمار گردش کر رہے ہیں، ان میں غلطی اور شرارت دونوں چیزوں کا عنصر شامل ہے۔ سچ کی تلاش اور الزام تراشی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی حکومتیں مل کر ایک ایسا کمیشن مقرر کریں، جو اس المیے کے دوران پیدا شدہ حقائق کو ایک رپورٹ کی صورت میں مرتب کرے‘‘۔ (روزنامہ ڈان، کراچی، ۷جولائی ۲۰۰۵ء)

یہاں پر دوبارہ اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ کسی ایک فرد کی جان اور ایک فرد کی آبرو اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ پوری قوم کی جان اور آبرو۔ مسئلہ اعداد و شمار کا نہیں لیکن اعداد و شمار کے بل پر جو طوفان اُٹھا کر اس خطۂ ارضی کے مسلمانوں کے درمیان نفرت اور خلیج پیدا کر کے باہمی دشمنی کو ہوا دینے کی کوشش ہورہی ہے، اسے زیربحث لانا اور ریکارڈ درست کرنا بے حد ضروری ہے۔اس مختصر مضمون میں اسی بڑے مسئلے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

اوّلاً یہ کہ جھوٹ گھڑ کر، کروڑوں انسانوں اور بیسیوں قوموں میں ملکِ پاکستان کے بارے میں نفرت اور حقارت کی آگ سلگائی جارہی ہے، جسے افسانوی پٹرول چھڑک کر بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے، نتیجے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کو اس نفرت کی قیمت دینا پڑتی ہے۔

ثانیاً یہ کہ اس مبالغہ آمیز طرزِ بیان نے بالخصوص ان لوگوں کو جو، ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے لیے سربکف تھے، وہ ’پاکستانی دلّالی‘ کے ’الزام‘ اور اس پروپیگنڈے کی تپش میں خود اور ان کی آیندہ نسلیں جل رہی ہیں۔ اس طرح ان کے لیے اپنے مادرِ وطن میں زندگی بسر کرنا ایک اذیت ناک تجربہ بنا دیا گیا ہے۔

ثالثاً یہ کہ جھوٹ کے بل بوتے پر جس تاریخ کو گھڑا اور پھر ’حقیقت‘ کے طور پر ذہنوں، نصابوں اور کتابوں میں نقش کیا گیا ہے، ان کا نتیجہ ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ آج بنگلہ دیش کی مقتدر حکومت اور پالیسی ساز ادارے اسی خانہ ساز نفرت میں اپنے ’اقدام‘ کا جواز پاتے ہیں۔

ظاہر ہے یہ الفاظ فضا میں تحلیل ہوکر تو نہیں رہ گئے۔ ان الفاظ نے اپنا ایک اثر دکھایا ہے، اور بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہن میں: پاکستان اور مسلمان کی ایک تصویر بھی بنائی۔ ایسی تصویر جسے خود پاکستان کی لسانی قوم پرست تحریکیں پسند کرتی ہیں اور ان کے سایے میں اپنی منزل دیکھتی ہیں۔ اسی تصویر کے خدوخال کو گہرا اور نمایاں کرنے کے لیے بھارتی لابی، ہندو کمیونٹی کی مؤثر قیادت اور وہ اشتراکی لابی سرگرم عمل رہی ہے، جسے پاکستان کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بلکہ اس کے نزدیک سب خرابیوں کا مرکز پاکستان ہی ہے۔

تاریخ کا یہ ایک ایسا بوجھ ہے جسے بحیثیت قوم، اہلِ پاکستان کو اٹھانا ہے، مگر بوجھ اتنا ہونا چاہیے، جتنا ہے۔ ایسا بے حدوحساب بوجھ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسے وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔ گناہ پہ ندامت اور چیز ہے، لیکن ناکردہ گناہوں کے بوجھ تلے کچلا جانا دوسری بات ہے۔ آیئے، دیکھتے ہیں،اعداد و شمار اور پروپیگنڈے کی یہ آگ کس طرح لمحہ بہ لمحہ بھڑکتی ہوئی یہاں تک پہنچی کہ آج عالمی پروپیگنڈے اور تاریخی و ادبی لٹریچر کا حرفِ معتبر بن گئی ہے، مگر جواب اور وضاحت کے لیے کوئی سامنے نہیں آتا۔ اس طرح یک طرفہ پروپیگنڈے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے:

یہاں یہ امر بھی زیربحث نہیں ہے کہ اس قتل و غارت کا کیا جواز تھا اور کیا جواز نہیں تھا۔ اور یہ بھی جائزہ نہیں پیش کیا جا رہا کہ ۲۵ اور ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کی درمیانی شب شروع ہونے والے ’آپریشن سرچ لائٹ‘ کی کیا قانونی حیثیت تھی۔ اسی طرح یہاں یہ جائزہ بھی پیش نہیں کیا جا رہا کہ یکم مارچ سے ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء تک کتنے ہزار غیربنگالی، پنجابی، پٹھان پاکستانیوں، خصوصاً بہار سے ہجرت کر کے آنے والے عام غریب مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں پر کیا بیتی؟ (صرف ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ’’۳ اور ۴ مارچ کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروزشاہ کالونی کو جہاں اُردو بولنے والے رہتے تھے اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر ۷۰۰ گھروں کو آگ لگا دی۔ جو عورتیں اور بچے آگ سے بچنے کے لیے باہر نکلے ان کو گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک جگہ پر لگ بھگ ۲ ہزار افراد کو زندہ جلامارا گیا‘‘) اور آپریشن کے ایک ہفتے کے بعد وہ مسلسل مقامی مسلح افراد اور بھارتی شرپسندوں کے کس کس ظلم کا نشانہ بنائے گئے؟ (ملاحظہ کیجیے: ’’مشرقی پاکستان میں لاکھوں غیر بنگالی بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں اور وہ بنگالیوں کے انتقام کا نشانہ ہیں‘‘۔ (روزنامہ سٹیٹسمین، نئی دہلی، ۴؍اپریل ۱۹۷۱ء)۔ ’’مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ غیربنگالیوں کے گھروں کو جلایا، ان کے مردوں اور عورتوں کو مارا اور ان کی بے حُرمتی کی جارہی ہے۔ میمن سنگھ کی صرف ایک مسجد میں ۱۵۰۰ ایسی غیربنگالی بیوہ عورتوں نے پناہ لی، جن کے شوہروں کو ذبح کر کے مار دیا گیا‘‘۔ (سیلون ڈیلی نیوز، کولمبو، ۱۵ مئی ۱۹۷۱ء)

پھر سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد ان غیربنگالی اور ان کے ساتھ ’متحدہ پاکستان‘ پر یقین رکھنے والے بنگالی شہریوں پر کیا گزری؟ دنیا بھر کے اخبارات ان مظلوموں کی چیخ و پکار اور خون کے آنسوئوں سے لکھی مظلومیت کی گواہی پیش کرتے رہے، مگر ان کی تائید و ہمدردی میں کہیں سے نحیف سی آواز بھی نہیں اُبھری، کہیں کوئی پتّا تک نہیں ہلا۔ یاد رہے آرمی آپریشن کے بعد غیربنگالی پاکستانیوں کو عوامی لیگ اور بھارتی پشت پناہی سے تیار کردہ مکتی باہنی (جس کا مؤثر آپریشنل حصہ بھارتی فوج پر مشتمل تھا)کو پاکستانی فوج اور غیربنگالیوں کے قتلِ عام کے لیے اذنِ عام مل گیا، جس نے ۱۶دسمبر سے پہلے اور پھر بعد میں خون کی ہولی کھیلی۔ اور ساتھ ہی ۱۹۷۲ء کے دستورِ بنگلہ دیش میں یہ تحفظ بھی لے لیا کہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت آزادی کے سپاہیوں نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیںچیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ گویا اُن کے ہرقسم کے قتل و غارت گری کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی___ یوں اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان میں حقیقی معنوں میں قتل عام عوامی لیگ ہی نے کیا تو اسے مبالغہ آمیزی قرار نہیں دینا چاہیے۔ نعیم مہیمن اپنے مقالے Accelerated Media and 1971میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتے ہیں: ’’ایک طرف بھارتی فوج نے اپنی سرزمین پر مکتی باہنی کے لیے مشرقی پاکستان سے عوامی لیگی جوانوں اور چین نواز سوشلسٹوں کو گوریلا تربیت دی، تو دوسری جانب ۱۹۷۱ء کے اسی بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، عوامی لیگ کی تائید اور اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کی تکمیل کے لیے انھی سوشلسٹ گوریلوں کو منظم طریقے سے ذلیل کرنا اور انجام تک پہنچانا شروع کر دیا۔[اضافہ از مضمون نگار: پھر اپنی پروپیگنڈا مشینری سے قتل کے ان واقعات کا سارا الزام پاکستان اور متحدہ پاکستان چاہنے والے بنگالیوں کے کھاتے میں ڈال دیا]۔ اس شاطرانہ چال کو سمجھنے کے لیے عوامی لیگ کے اس رویے کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد جوں ہی عوامی لیگ کو اقتدار پر قبضہ مضبوط کرنے کا موقع ملا تو اس نے ڈیڑھ دو سال کے اندر اندر سوشلسٹ بنگالیوں کو نہ ختم ہونے والی گندی جنگ کی بھینٹ چڑھایا‘‘ (ص ۸)۔ وہ عوامی لیگ جس کے چہرے پر ۱۹۷۱ء اور ۱۹۷۲ء میں بے گناہ غیربنگالیوں کے خون کے دھبے صاف نظر آتے ہیں: ’’اسی عوامی لیگ نے اپنے پہلے دورِاقتدار میں چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے [ہل ٹریک] میں آباد بدھ مت کے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا‘‘ (نعیم مہیمن، ص ۹)۔ مگر امن کے کسی دیوتا نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ ان بے چاروں کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ عوامی لیگ کی طرح برہمن نواز نہیں تھے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یکم مارچ ۱۹۷۱ء کے بعد ہزاروں کی تعداد میں غیربنگالیوں کا قتل عام بھلا دینے والی بات تھی؟ اور کیا اس خون کا جواب لینے والا اس دنیا میں کوئی نہیں؟

کیا پاکستان کے تحقیقی اداروں اور یونی ورسٹیوں کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پاکستان توڑنے، پاکستانیوںکو مارنے اور پاکستان کو بدترین الزامات کا نشانہ بنانے والے اقدامات کا معروضی اور تحقیقی انداز سے جائزہ لیں؟

اگر یہ سمجھ کر چپ سادھ لی جائے کہ الزام فلاں پہ لگ رہا ہے تو وہی بھگتے، ایسا بے رُخی پر مبنی رویہ اختیار کرنا کم از کم تحقیقی اداروں کے شایانِ شان نہیں ہوسکتا۔ آج پاکستان کے حوالے سے انتہا درجے کا منفی پروپیگنڈا پورے بنگلہ دیش کے وجود میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ، پاکستان جمہوری پارٹی اور نظامِ اسلام پارٹی کے وہ لوگ جو متحدہ پاکستان چاہتے تھے اور جائز طور پر ’ایک پاکستان‘ چاہتے تھے، آج وہی لوگ اس نفرت کی آگ میں جلائے جارہے ہیں۔ اگر ریاست اور ریاست کے اداروں کا یہی رویہ رہا تو مستقبل میں خود اس پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے لیے نکلتے وقت لوگ کیا سوچیں گے؟

 

الجزائر: اسیروں سے یک جھتی

قومی ترانہ کیا ہے، پورا اعلانِ بغاوت اور اعلانِ جہاد ہے۔ میرا نہیں خیال کہ دنیا کے کسی اور ملک کے قومی ترانے میں استعماری ملک کا نام لے کر اسے چیلنج کیا ہوگا۔ الجزائر کے قومی ترانے میں دو مرتبہ فرانس کا نام لے کر اس سے نجات حاصل کرنے پر اظہارِ فخروانبساط کیا گیا ہے:

یَافَرنَسْا قَدْ مَضٰی وَقْتُ الْعِتَاب
وَطَوَیْنَاہ کَمَا یُطْوٰی الْکِتَاب

یَافَرنَسْا اِنَّ ذَا یَوْمُ الحِسَاب
فَاسْتَعِدِّی وَخُذِی مِنَّا الْجَوَاب

اِنَّ فِی ثَوْرَتِنَا فَصْلَ الخِطَاب
وَعَقَدْنَا الْعَزْمَ اَنْ تَحْیَا الْجَزَائر

(او فرانس! اب وقت عتاب لد چکا، ہم نے اس دور کو کسی کاغذ کی طرح لپیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اوفرانس! روزِ حساب آن پہنچا۔ اب تیار ہوجائو اور ہمارا جواب سن لو۔ بے شک ہمارے انقلاب میں دوٹوک پیغام ہے۔ ہم نے پختہ عزم کرلیا ہے کہ الجزائر ہمیشہ تابندہ رہے گا۔)

کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ، حتیٰ کہ فرانسیسی ایوان ہاے اقتدار میں بھی اگر کبھی الجزائر کا قومی ترانہ بجے گا تو وہاں بھی یہی لَے اور اس کی یہی شان ہوگی۔ الجزائر سمیت بہت سے افریقی ممالک فرانسیسی استعمار کے قبضے میں رہے ہیں۔ ہرجگہ فرانسیسی زبان اور فرانسیسی تسلط کے اثرات اب بھی واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں، لیکن الجزائری عوام میں فرانسیسی استعمار کے خلاف جذبات اس قدر گہرے اور ہمہ گیر ہوں گے، الجزائر خود جاکر دیکھنے سے پہلے اس کا یوں اندازہ نہ تھا۔

الجزائر جانے کا پروگرام پہلے بھی دو تین بار بنا، لیکن ہربار کسی نہ کسی ناگزیر مصروفیت کے باعث آخری لمحات میں منسوخ کرنا پڑا۔ بالآخر ۵ اور ۶ دسمبر کو الجزائر کے دارالحکومت الجزائر (ملک اور دارالحکومت کا نام ایک ہی ہے) میں استعماری جیلوں میں گرفتار قیدیوں سے یک جہتی کے لیے منعقدہ کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہ کانفرنس حکمران پارٹی ’محاذ آزادی‘ اور فلسطینی تنظیموں کے اشتراک سے منعقد ہوئی تھی۔ دنیا بھر سے ۷۰۰ کے قریب شرکا مدعو تھے۔ میزبانوں کے اعلان کے مطابق نیلسن منڈیلا کی شرکت بھی متوقع تھی، وہ تو اپنی ضعیفی کے سبب نہ آسکے، لیکن کانفرنس میں کئی اور نیلسن منڈیلا شریک تھے۔ ایسے بہت سے افراد تھے جو صہیونی، فرانسیسی، عراقی جیلوں میں طویل قید کاٹ چکے تھے۔ حزب اللہ کے سمیرالقنطار بھی تھے جنھیں اسرائیل نے ۵۴۲ سال کی قید سنائی تھی اور بالآخر ۳۰سال بعد قیدیوں کے تبادلے میں رہا کرنا پڑا۔ ایسی خواتین بھی تھیں جو ۱۰،۱۰سال سے بھی زائد عرصہ صہیونی درندوں کے نرغے میں رہیں۔ ایک ایسی خاتون بھی اپنے شوہر اور اڑھائی سالہ بچے کے ساتھ کانفرنس میں موجود تھیں جو اپنی شادی کے چند ماہ بعد گرفتار ہوگئیں۔ جیل ہی میں بچے کی ولادت ہوئی اور معصوم باغی، دنیا میں آمد کے پہلے ۲۰ماہ اپنی ماں کے ساتھ جیل ہی میں رہا۔ گویا قیدوبند اس کی گُھٹی میں شامل ہے۔ عبداللہ البرغوثی نام کے ایک قیدی کے ۷۰سالہ والد بھی موجود تھے۔ عبداللہ کو اسرائیل نے ۶۷بار عمرقید، یعنی ۱۶۷۵سال کی سزا سنائی ہے۔ ظاہر ہے نہ قیدی نے سیکڑوں سال تک جینا ہے، نہ جلادوں اور جیلروں نے، لیکن اپنی درندگی ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ صدیوں کی قید سنائی جائے۔ سفید ریش والد کی آنکھیں غمِ یعقوب کی جھلک دکھا رہی تھیں، لیکن اپنی گفتگو میں انھوں نے بیٹے سمیت آزادی و جہاد کے ہر اسیر کو یہی پیغام دیا کہ لاتحزن ان اللّٰہ معنا، ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

اسرائیلی جیل میں قید ۳۰ سالہ فلسطینی خاتون احلام التمیمی کے اہلِ خانہ بھی شریکِ کانفرنس تھے۔ احلام کو ۱۶بار عمرقید (۴۰۰ سال) کی سزا سنائی گئی ہے۔ صہیونی ریاست کی تاریخ میں کسی خاتون کو دی جانے والی یہ سب سے لمبی سزا ہے۔ کانفرنس میں ایک فلسطینی قیدی نائل البرغوثی کا خط بھی پڑھ کر سنایا گیا۔ نائل صہیونی جیلوں کا سب سے پرانا قیدی ہے۔ ذرا جگر تھام کر سنیے کہ وہ گذشتہ ۳۳سال سے جیل میں ہے۔ اس نے اپنے خط میں لکھا تھا: ’’ہمیں زنجیروں کی پروا نہیں ہے، لیکن اگر آپ مسئلۂ فلسطین اور قیدیوں سے اظہار یک جہتی میںکمزوری دکھاتے ہیں تو اس کا دکھ شدید ہوتا ہے‘‘۔ نائل اگر آج بیت المقدس پر قابض صہیونی دشمن کو لکھ کر دے دے کہ اسے جہادِ آزادی میں حصہ لینے پر افسوس ہے، اور وہ آیندہ اس جرم کا ارتکاب نہیں کرے گا، تو وہ کل رہائی پاسکتا ہے۔ لیکن وہ جانتا ہے کہ جہاں ۳۳ سال قید گزر گئی، شاید باقی عمر بھی وہیں گزر جائے گی۔ لیکن اگر آج اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلۂ اوّل سے بے وفائی کرتے ہوئے، اس پر یہودی تسلط قبول کرلیا تو پھر جو قید شروع ہوگی وہ موت کے بعد بھی جاری رہے گی… ہمیشہ ہمیشہ کی قید… جہنم کی وادیوں کی قید!

عراق کے ابوغُرَیب جیل میں امریکی سورمائوں کی قید میں رہنے والی ۵۰سالہ خاتون بھی کانفرنس میں شریک تھیں، بتانے لگیں کہ آزادی، جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے علَم بردار امریکی درندوں نے، ہمیں کئی ماہ تک ایک تنگ بیت الخلا میں بند رکھا۔ ابوغریب میں ہونے والے مظالم کی تصویریں باہر آئیں، تذلیلِ انسانیت کی نئی تاریخ دنیا کے سامنے آئی، عالمی احتجاج ہوا، تو امریکا نے دنیا کو دکھانے کے لیے بعض عالمی تنظیموں کو ابوغُرَیب کا دورہ کروایا۔ اسی طرح کے ایک دورے کے موقع پر ہم درجنوں خواتین کو قیدخانے کی اُوپر والی منزل میں بند کر دیا گیا۔ نیچے ان زائرین کا وفد پہنچا، تو امریکی جیلر انھیں صاف ستھرے کمروں میں، نظم و ترتیب سے رکھے گئے قیدیوں کی بیرکیں دکھانے لگے۔ موقع غنیمت جان کر ہم سب خواتین نے شور مچانا شروع کر دیا۔ ٹیم کے کچھ ارکان ہم تک آن پہنچے اور حقیقت ِ حال کھل جانے پر امریکیوں کو ہمیں رہا کرنا پڑا۔ اس ادھیڑعمر خاتون نے کانفرنس ہال کے باہر، دیگر تنظیموں کی طرح عراقی قیدیوں کے بارے میں بھی ایک تصویری نمایش لگا رکھی تھی۔ ناقابلِ بیان مناظر امریکی فوجیوں کے ’مہذب‘ ہونے کی دہائی دے رہے تھے۔

کانفرنس میں معروف برطانوی پارلیمنٹیرین جارج گیلوے بھی شریک تھے۔ وہ اب تک تین قافلے غزہ لے جاچکے ہیں۔ فریڈم فلوٹیلا کے بعد وہ پورے عالمِ عرب میں ہیرو کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ اسٹیج پر آکر انھوں نے انگریزی لہجے میں ’السلامولیکم‘ سے گفتگو کا آغاز کیا تو ہر ایک نے اپنائیت کا ایک انداز محسوس کیا۔ کانفرنس کے اکثر شرکا اسے برادر جورج، جارج بھائی کہہ کر مخاطب ہورہے تھے۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزہ کی کھلی جیل میں ۱۵لاکھ فلسطینی قیدیوں کا ذکر کیا۔  انھوں نے اس پر اظہارِ افسوس کیا کہ وکی لیکس کے ہزاروں مراسلوں میں کسی عرب حکمران نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کی بات نہیں کی۔ اپنی سرگرمیوں کے بارے میں انھوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دوبرسوں میں ۵۵ امریکی شہروں میں جاکر فلسطین کے حق میں تقاریر کی ہیں۔

کانفرنس میں شریک مغربی دانش وروں میں سے ایک بڑا نام سٹینلی کوہن کا تھا۔ یہ معروف یہودی امریکی وکیل، امریکی اور اسرائیلی عدالتوں میں فلسطین کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم تمام یہودی، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے یکساں ذمہ دار ہیں۔ ایک امریکی شہری ہونے کی حیثیت سے ہم شرمندہ ہیں کہ ہمارا ملک صہیونی لابی کے نرغے میں گھرا ہوا ہے‘‘۔ انھوں نے مغربی حکمرانوں سے سوال کیا کہ وہ فلسطین کا دورہ کرتے بھی ہیں تو فلسطینی عوام کی منتخب حکومت سے کیوں نہیں ملتے؟ ہم تو جمہوریت کے چیمپئن ہیں۔ عیسائی جورج اور یہودی سٹینلی نے انصاف کی بات کی، تو پوری کانفرنس نے انھیں دل کھول کر داد دی۔ اس پذیرائی میں یہ اعلان شامل تھا کہ اصل دشمنی پالیسی اور اعمال سے ہے۔ یہودی اور عیسائی رہتے ہوئے بھی اگر کوئی حق کا ساتھ دے تو اس سے ہمارا کوئی جھگڑا نہیں۔ قرآن کریم بھی دعوت دیتا ہے:

اے نبیؐ! کہو، ’’اے اہلِ کتاب، آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے‘‘۔ اِس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیںتو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو، ہم تو مسلم (صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے) ہیں۔(اٰل عمران ۳:۶۴)

کانفرنس صبح ۱۰ بجے شروع ہوئی تھی۔ راقم کو بھی افتتاحی سیشن میں خطاب کی دعوت دی گئی۔ اسٹیج پر پہنچا تو سوا گیارہ ہورہے تھے۔ پاکستان اور الجزائر میں پانچ گھنٹے کا فرق ہے۔ عین اس وقت، یعنی تقریباً سوا چار بجے سہ پہر، اسلام آباد کے ایوانوں کے سامنے جماعت اسلامی کا دھرنا اپنے عروج پر تھا۔ اندازہ لگایا کہ اب شاید محترم امیرجماعت کا خطاب شروع ہونے کو ہوگا۔ اللہ نے توفیق دی اور اسی بات سے گفتگو کا آغاز ہوگیا کہ آج جس لمحے ہم پوری دنیا سے اس کانفرنس ہال میں جمع ہیں، اسلام آباد کی سڑکوں پر آپ کے ہزاروں بھائی اپنے امیر کی قیادت میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ وہ سب میدان میں آکر صرف صہیونی ہی نہیں، تمام استعماری جیلوں سے    بے گناہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں… شرکاے کانفرنس نے تالیوں سے اس اعلان کا استقبال کیا اور وہ سب بھی دھرنے میں شریک ہوگئے۔ پھر چند منٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے لے کر امریکی ڈرون حملوں، پاکستان کے خلاف دشمنوں کی سازشوں، کشمیر میںہندستانی استعمار کی چکّی تلے پسنے والے کشمیریوں کا ذکر کرتے ہوئے اجازت لی۔ متعدد بار شرکا بھی اپنی تالیوں سے شریکِ گفتگو رہے۔

مصر کے عام انتخابات

اسی روز (۵ دسمبر) ہی کو مصر میں انتخابات کے دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہورہی تھی۔ اس لیے وہاں سے زیادہ شرکا نہیں آئے تھے۔ ویسے بھی مصر اور الجزائر کے درمیان ان دنوں تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔ بدقسمتی ملاحظہ فرمایئے کہ دونوں اہم برادر ملکوں کے درمیان جھگڑا ایک فٹ بال میچ کے دوران ہوا۔ لگتا تھا میچ دونوں بھائیوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ کئی ماہ قبل ہونے والے اس حادثے کی گرمی ابھی تک فضا میں موجود تھی۔ اب بھی الجزائر کے اخبارات لکھ رہے تھے: ’’مصر سے تعلقات بحال نہیں ہوسکتے، اس نے ہمارے شہدا کی توہین کی ہے، اسے الجزائری قوم سے معافی مانگنا ہوگی‘‘۔ مصری دوستوں سے ان کے انتخابات کے بارے میں دریافت کیا تو غصے اور بے بسی کا مرقع بن گئے۔ کہنے لگے: کچھ نہ کچھ دھاندلی اور فراڈ تو شاید دنیا کے ہرالیکشن میں ہوتا ہے، لیکن ہر غیرجانب دار منصف، مصر میں انتخابی دھاندلی کو پوری دنیا میں پہلا نمبر دے گا۔

الیکشن سے کئی ماہ پہلے مصر کے تقریباً ہر شہری کو معلوم تھا، کہ اس بار الیکشن میں اپوزیشن کو ایک فی صد نمایندگی بھی نہیں لینے دی جائے گی۔ گذشتہ انتخابات پانچ مراحل میں مکمل ہوئے تھے۔ اگرچہ ان میں بھی دھاندلی اور ریاستی تشدد کی انتہا کر دی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود بھی     الاخوان المسلمون کو ۸۸ نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ مرحلہ وار انتخاب میں اخوان کو جیتنے سے روکنے میں ناکامی پر اس بار پورے ملک میں ایک ہی روز ووٹنگ تھی۔ اخوان کا ایک بھی نمایندہ پارلیمنٹ میں نہیں جانے دیا گیا۔ اپوزیشن وفد پارٹی کو تین سیٹیں دی گئی تھیں، حکومت نے پہلے ہی ہلے میں ۹۵فی صد سیٹیں جیت لیں، جب کہ ۲۰۰ سے زائد حلقوں میں حتمی فیصلہ نہ ہونے کے باعث، ایک ہفتے بعد دوبارہ پولنگ کروانے کا اعلان کیا گیا۔ ان میں اخوان کے بھی ۲۷ اُمیدواروں کے نام شامل کیے گئے۔ وفدپارٹی کے بھی چند اُمیدوار دوسرے مرحلے میں آگئے۔ وفدپارٹی نے اتوار کے روز ہونے والی پولنگ میں دھاندلی کے خلاف، منگل کے روز دوسرے مرحلے کے بائی کاٹ کا اعلان کردیا۔ اخوان کے مرشدعام نے پیر کے روز ایک تفصیلی اور پُرہجوم کانفرنس میں اپنے تفصیلی موقف کا اعلان کیا۔ انھوں نے مصری عوام اور اخوان کے اُمیدواروں اور کارکنان کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ تمام تر حکومتی جبروتشدد کے باوجود، انھوں نے میدان نہیں چھوڑا اور آج وہ ایک بھی سیٹ نہ ملنے کے باوجود دنیا میں کامیاب قرار دیے جارہے ہیں اور اللہ کے دربار میں کامیابی کا تو ادنیٰ شک نہیں ہے۔ انھوں نے کہا: انتخابات میں بے نظیر دھاندلی کی وجہ سے پوری دنیا میں مصر کی بدنامی ہوئی ہے۔ اس عالمی توہین کی پوری ذمہ داری حکومت کے سر ہے۔ واضح رہے کہ مصری انتخابات میں  کھلم کھلا دھاندلی کا اعتراف خود حُسنی مبارک کے سرپرست امریکا و برطانیہ کے تقریباً تمام اخبارات نے بھی کیا۔ سب نے حُسنی ہی کی نہیں خود اس کے مغربی آقائوں کی بھی مذمت کی۔ کئی ایک نے کہا: اگر ہماری جمہوریت کی عملی مثال حُسنی مبارک، حامد کرزئی اور نوری المالکی ہی ہیں، تو اس جمہوریت کی کون تائید و حمایت کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے اداریے کا عنوان رکھا: ’مسٹر حُسنی بمقابلہ مسٹر اوباما‘۔ اس نے لکھا کہ ’’مصری انتخابات نے اوباما انتظامیہ کے ان تمام اعلانات کو   بے بنیاد ثابت کردیا ہے جو وہ خطے میں تبدیلی کے حوالے سے کرتے چلے آرہے تھے‘‘۔

اخوان کے مرشدعام نے انتخابی دھاندلی کی مذمت کے ساتھ ہی ساتھ اس پہلو پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی کہ ’’اس سارے ظلم و تعدی کے باوجود ہم اپنی پُرامن جدوجہد کے راستے کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں کوئی بھی قانون اور دستور سے متصادم راستے کی طرف نہیں دھکیل سکتا۔ ہمارا راستہ طے شدہ، واضح اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ ہے۔ ہم ان شاء اللہ اسی پُرامن، دستوری راستے پر چلتے ہوئے ہی کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے‘‘۔ اخوان کے ایک تجزیہ نگار نے دل چسپ اور جامع بات کی۔ انھوں نے کہا: اگر ہمارے سامنے الیکشن لڑنے کے ۱۲؍ اہداف و مقاصد تھے،تو ہم نے ان میں سے ۱۱ حاصل کرلیے۔ الیکشن میں نشستیں حاصل کرنے کا بارہواں ہدف حاصل نہیں بھی ہوسکا تو کوئی پروا نہیں، اللہ کی رسی کو تھامے رہے تو ان شاء اللہ یہ ہدف بھی جلد اور ضرور حاصل کرلیں گے۔

ووٹنگ کے دوران جھڑپوں میں ۱۱؍افراد موت کی آغوش میں اُتار دیے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے، ۲ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے۔ بیرونی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کو مقید کر دیا گیا۔ کئی ٹی وی رپورٹوں کو درمیان ہی میں روک دیا گیا اور کسی عالمی مبصر کو مصر نہیں آنے دیا گیا۔ دھاندلی کی ایک جھلک ملاحظہ ہو کہ کیا چوری اور سینہ زوری ہے: حلوان نامی شہر کے بوتھ نمبر ۲۳۴ میں پولنگ ریکارڈ کے مطابق، پولنگ بند ہونے کے وقت ۳۷۸ ووٹ ڈالے گئے، کوئی ووٹ کینسل نہیں ہوا۔ جب گنتی مکمل ہوئی تو حکومتی نمایندے سیدمشعل کو ۴۶۰ اور اخوان کے نمایندے کو کوئی بھی ووٹ نہیں ملا، جب کہ دیگر اُمیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کو جمع کریں تو ۳۷۸ کاسٹ ہونے والے بوتھ کے ڈبوں سے ۹۱۰ ووٹ برآمد ہوئے۔ نہ کسی بندے کا ڈر، نہ بندوں کے رب کا خوف۔

اس پورے تناظر میں پہلے وفد پارٹی نے اور پھر اخوان نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کا بائی کاٹ کر دیا۔ بائی کاٹ کے اعلان میں کہا گیا کہ انتخابات کے نتائج کا تو پہلے سے بھی اندازہ تھا، لیکن ہم شرکت کے جو اہداف حاصل کرنا چاہتے تھے، کرلیے۔ اب ان انتخابات کو مزید بے نقاب کرنے کے لیے بائی کاٹ کر رہے ہیں۔ اب یہاں ایک مثال اُلٹی دھاندلی کی ملاحظہ ہو: جب سب نے بائی کاٹ کر دیا تو عالمی اور عرب ذرائع ابلاغ کہنے لگے کہ حکمران پارٹی کا مقابلہ حکمران پارٹی ہی سے ہورہا ہے۔ حکومت نے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ نہیں، اخوان بھی انتخاب میں شریک ہے۔ بائی کاٹ کرنے والے اُمیدواروں میں سے ایک اُمیدوار کو کامیاب قرار دے دیا، یعنی پہلے ہروانے کے لیے دھاندلی اور اب جتوانے کے لیے دھاندلی۔ مصر میں آیندہ برس صدارتی انتخاب ہونا ہے، اس کا نتیجہ بھی ابھی سے معلوم ہے۔ وکی لیکس کی دستاویزات میں خود امریکی سفارت کار بھی کہہ رہے ہیں۔ ۸۲سالہ حُسنی مبارک مرتے دم تک جان نہیں چھوڑے گا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جب دنیا سے کوچ کرنا پڑا، تو اپنے بعد اپنے بیٹے جمال مبارک کے سر پر تاج رکھ کر جائے گا۔ امریکی سفارت کاروں نے اس آدھے سچ کے ساتھ باقی یہ سچ نہیں لکھا، کہ اس سارے عمل کو امریکی سرپرستی حاصل رہے گی اور امریکا اس شان دار عوامی تائید کے حامل مصری صدر کو، سالانہ ایک ارب ڈالر کی امداد پیش کرتا رہے گا۔

جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم

الجزائر کانفرنس میں سوڈانی سفیر کے مشیر قطبی المہدی بھی شریک تھے۔ ان کے ساتھ ساری گفتگو ۹جنوری کو ہونے والے ریفرنڈم کے بارے میں رہی۔ چھے سال قبل ہونے والے معاہدے کے تحت ہونے والے اس ریفرنڈم میں، جنوبی سوڈان کی آبادی کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ سوڈان ہی میں شامل رہیں گے یا وہ الگ ہونا چاہتے ہیں؟ سوڈانی حکومت نے اپنے تئیں ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ کسی نہ کسی صورت جنوب میں امن قائم کرلے۔ پہلے ۱۹۵۵ء سے ۱۹۷۲ء تک کی گیارہ سالہ اور پھر ۱۹۸۳ء سے ۲۰۰۵ء تک کی ۲۲سالہ جنگ میں ۱۹ لاکھ افراد لقمۂ اجل بن چکے تھے۔ ۴۰لاکھ افراد بے گھر ہوچکے تھے، اب سوڈانی صدر مصر تھے کہ جنگ بند کرکے خطے میں امن کا سفر شروع کیا جائے۔ جنوری ۲۰۰۵ء میں صدر عمرالبشیر اور جنوبی باغی لیڈر جون گرنگ کے درمیان معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کی کامیابی کے لیے جنوبی رہنمائوں نے جو مانگا، انھیں دیا گیا۔ انھوں نے معاہدے کے وقت تقاضا کیا کہ ’’اقتدار اور ثروت‘‘ میں برابر حصہ دیا جائے، حکومت نے مان لیا۔ سینیرنائب صدر کا عہدہ بھی دے دیا، وزارتِ خارجہ سمیت اہم وزارتیں بھی ان کے سپرد کر دیں۔ چند سال قبل برآمد ہونے والے تیل کی آمدنی میں سے بھی ایک بڑا حصہ انھیں دے دیا۔ جنوبی آبادی کی اکثریت اس حسنِ سلوک کا اعتراف واظہار بھی کرنے لگی، لیکن براہِ راست امریکی مداخلت، ڈالروں کی بارش اور خود اسرائیلی ذمہ داران کے جنوبی علاقوں میں براجمان ہوجانے سے،   تالیفِ قلب کی یہ تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔

ریفرنڈم ہونے اور باقاعدہ نتائج آنے میں ابھی چند ہفتے باقی ہیں، لیکن تمام تر شواہد اعلان کر رہے ہیں کہ جسدِ ملّی کے دو حصے کیے جارہے ہیں۔ اب کوئی دن جاتا ہے کہ جنوبی سوڈان کا لاکھوں کلومیٹر پر مشتمل رقبہ سوڈان کے جسد سے کاٹ کر، افریقہ میں اسرائیلی اور امریکی مداخلت کا ایک نیا اڈا بنا دیا جائے گا۔ الگ جنوبی ریاست کی تشکیل سے سوڈان ہی نہیں تمام پڑوسی ممالک بھی متاثر ہوں گے۔ بحیرۂ احمر کے مختصر پاٹ کے دوسری جانب سعودی سرحدیں اور جدہ کی بندرگاہ ہے۔ جنوبی ریاست کے اسی علاقے سے دریاے نیل پھوٹتا ہے۔ اسرائیل امریکا اور ان کے غلام جنوبی حکمران، مل کر پورے خطے کا پانی اپنے کنٹرول و اختیار میں کرسکتے ہیں۔ یہاں موجود تیل کے وسیع ذخائر پر بھی پوری مغربی دنیا کی رال ٹپک رہی ہے۔

تاریخ اس موقع پر ایک اور عجیب و تلخ حقیقت یاد دلا رہی ہے۔ صدر عمرالبشیر نے اقتدار سنبھالا تو انھیں سب سے پہلی مزاحمت انھی پڑوسی ممالک کی طرف سے برداشت کرنا پڑی تھی۔ مصر سمیت تمام ممالک نے امریکی پابندیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے سوڈان کا محاصرہ کرڈالا تھا۔ سوڈان سخت جاں نکلا، نہ صرف حصار کی سختی برداشت کرگیا، بلکہ چین کے ساتھ مل کر تیل بھی نکال لیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوڈان کی تقدیر بدلنے لگی۔ بس یہی بات استعمار کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ اس نے سوڈان کے حصے بخرے کرنے کے علاوہ ہر راستہ مسدود کردیا۔

سوڈان کے حصار میں دشمنوں سے بھی زیادہ فعال مصر سوچے کہ آج وہ خود سوڈان سے بھی زیادہ خطرات کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ مصر کو دریاے نیل کا عطیہ و ثمر کہا جاتا ہے۔ چند ہفتے بعد ریفرنڈم اور پھر چند ماہ بعد ہونے والے انتقالِ اقتدار سے، دریاے نیل کا منبع بھی مجہول مستقبل کا شکار ہوجائے گا۔ آج مصر سے آوازیں آرہی ہیں: کاش ہم نے آغاز میں اپنے بھائی کا گلا گھوٹنے کی حماقت نہ کی ہوتی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ دونوں برادر پڑوسی اور مسلمان ملک ہیں۔ دونوں کا نقصان، بالآخر پوری اُمتِ محمدی کا نقصان بھی ہے۔ اب مستقبل کی کوکھ سے خود امریکا و اسرائیل کو اس جرم کی کیا سزا ملتی ہے… یہ ظاہر ہونے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

سوڈانی صدر عمرالبشیر نے اعلان کیا ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے بھائی ہم سے الگ ہوں، لیکن اگر انھوں نے بیرونی سازشوں کا شکار ہوکر علیحدگی ہی اختیار کی، تو ہم بھی اپنے ملک میں وہ تمام اصلاحات کرنے کے لیے آزاد ہوجائیںگے، جو ہم پہلے جنوب میں جنگ اور پھر جنوبی علیحدگی پسندوں کے ساتھ معاہدہ کی وجہ سے نہیں کرسکے۔

صدمے کے لمحات میں بھی سوڈانی صدر امید کے دیے جلا رہے ہیں۔ باغیوں کی خانہ جنگی میں ۱۹ لاکھ جانوں کا نقصان دوسری عالمی جنگ کے بعد شاید سب سے بڑا نقصان ہے۔ وہ اس جنگ کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا کر سوڈان کی تشکیلِ نو کا عزم رکھتے ہیں۔

 

برکت کا مفہوم

سوال:  ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل   عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے افراد ایسے ملیں گے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

جواب:  آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ  اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔

اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا۳۴:۳۹) جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے۔

سوال کرنے والے بھائی کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تندرستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال ودولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض چند سکّوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اِس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔

اسی طرح بربادی کا مفہوم محض مال ودولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔ کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے جو ہزار نعمت کے باوجود مستقل اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور،ص ۵۷-۵۹)

بھلی بات کہو، ورنہ خاموش رہو

س:  حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟

ج:  حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘ (بخاری، مسلم)۔ ایک دوسری حدیث ہے: ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔

بلا شبہہ زیادہ بولنا اور بلاوجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعثِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے اُن گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا، اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ ۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔

جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندۂ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰:۱۸) ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)

 

اُردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، رشید وارثی۔ ناشر: نعت ریسرچ سنٹر، بی-۵۰، سیکٹر ۱۱-اے، نارتھ کراچی۔ تقسیم کار: کتاب سراے، اُردو بازار، لاہور۔ صفحات: ۳۱۲۔ قیمت: ۳۵۰ روپے۔

مدحت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موضوع، اُردو شعرو ادب میں اوائل ہی سے شامل رہا ہے۔ ترقی پسندوں نے اسے ایک مختصر عرصے کے لیے ’دیس نکالا‘ دیے رکھا لیکن جس طرح روس میں انسانی فطرت کو مسخ کرنے یا دبانے کا تجربہ ناکام رہا (اور اس کے نتیجے میں خود اشتراکی نظام روس کی تجربہ گاہ میں ناکام ثابت ہوا)، اسی طرح اُردو شعروادب سے مدحتِ رسولؐ اور نعت کی ’جلاوطنی‘ بھی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔ گذشتہ تین چار دہائیوں سے اُردو شعرا کی کثیرتعداد نعت گوئی کی طرف بڑے والہانہ انداز میں ملتفت ہوئی ہے___ حتیٰ کہ بڑے بڑے نام وَر  ترقی پسند اور لینن اور اسٹالن کی تعریف میں رطب اللسان رہنے والے نظم گو شعرا بھی نعت کہتے  نظر آئے۔ ’صبح کا بھولا، شام کو گھر آجائے‘ کے مصداق، اُردو شعرا خصوصاً ترقی پسندوں کے ہاں یہ بڑی مثبت اور خوش آیند تبدیلی تھی ___ بلاشبہہ اس خوش گوار تبدیلی میں چند خارجی عوامل کا    بھی ہاتھ ہے، مثلاً جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے دور میں مختلف انعامات اور اوارڈوں کے      ذریعے سیرت و نعت نگاری کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ چنانچہ تب سے سیرت پر بکثرت کتابیں  چھپ رہی ہیں اور نعتیہ شاعری کے مجموعے بھی بڑی تعداد میں شائع ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بعض خوش نصیب شعرا نے اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صرف نعت گوئی کے لیے وقف کر دیا، جیسے   محسن کاکوروی مرحوم یا حفیظ تائب مرحوم یا لالہ صحرائی مرحوم، یا صبیح رحمانی۔

اُردو نعت کے روز افزوں ذخیرے کو دیکھ کر اُردو تحقیق کاروں کو ایک نیا موضوعِ تحقیق ہاتھ آگیا۔ چنانچہ جامعات میں اب تک سیرت و نعت نویسی پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تقریباً دودرجن تحقیقی مقالے لکھے جاچکے ہیں۔ اسی طرح کچھ نقادوں نے ’تنقید ِ نعت‘ پر بھی قلم اُٹھایا۔

اُردو نعت کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ نقد وانتقاد کے ایک عمدہ نمونے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ مصنف نے سرورق پر ’شریعت ِ اسلامیہ کے تناظر میں‘ کے الفاظ لکھ کر واضح کیا ہے کہ نعت نگاری کی جانچ پرکھ کا معیار شریعت ِ اسلامیہ کے آفاقی و ابدی اصول ہیں جو ہمیشہ قرآن و سنت کی روشنی میں متعین ہوتے ہیں۔

نعت ایک شعری صنفِ ادب ہے، اس لیے اسے پرکھنے کے لیے نقدِ شعر و ادب کے اصول بھی پیش نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ مصنف تنقیدِ نعت میں ’صداقت کی پابندی‘ کو ادبیات خصوصاً اسلامی ادب کا ’اہم ترین وصف‘ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر ہم مواد یا اسلوب سے ایک چیز کو ترک کرنے پر مجبور ہوں تو اسلوب کا ترک اولیٰ ہے کیوں کہ ایک نعتیہ فن پارہ اگر اسلامی تعلیمات یا شریعتِ اسلامیہ کے مطابق نہیں تو اسلامی ادب میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، خواہ وہ کیسے ہی اعلیٰ درجے کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو‘‘ (ص ۱۹)۔ چنانچہ فاضل مصنف نے تنقیدِ نعت کے اسی پیمانے سے بعض نعت نگاروں کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے۔

یہ مصنف کے ۱۰ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان میں اُردو نعت میں مروّجہ بعض بے اعتدالیوں، بے احتیاطیوں، آنحضوؐر کی تعریف و توصیف میں حدودِ شریعت سے تجاوز اور غُلوّ کے بعض پہلوئوں پر نقد کیا گیا ہے، مثلاً اُردو نعت میں رزم کے پہلو، شانِ الوہیت کا استخفاف، تلمیحات کا غیرمحتاط استعمال، انبیاے سابقین کی رفعتِ شان کا استقصار، نعتوں میں ’یثرب‘ کا استعمال، شاعرانہ تعلّی، ’صلعم‘ کا استعمال اور اس کے مضمرات، ضمائر کا استعمال، وغیرہ۔ مصنف نے ہرپہلو اور نکتے کی وضاحت قرآن و حدیث اور دلائل و براہین کے ساتھ کی ہے، مثلاً بتاتے ہیں کہ ’صلعم‘ گذشتہ صدی کے ایک خوش نویس کی ایجاد و اختراع ہے (ص ۲۶۴)۔ بعض نام وَر ادیبوں اور شعرا نے بھی سوچے سمجھے بغیر ’صلعم‘ کو اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔ مصنف نے بہت سی مثالیں دے کر بتایا ہے کہ نہ صرف علما، بلکہ متعدد غیرعلما (مگر صاحب الراے) ادیبوں اور محققین نے بھی ’صلعم‘ لکھنے، بولنے یا اس مہمل لفظ کو نعت میں باندھنے سے منع کیا ہے۔

ایک اور مضمون میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’تو‘، ’تم‘، ’تیرا‘ اور ’آپ‘ اور ’اُن‘ کے استعمال پر بحث کی ہے۔ ان کا خیال بجاہے کہ حضوؐر کے لیے ’آپ‘ کی ضمیر استعمال کرنا ہی صحیح ہے۔

فاضل مصنف نے اپنے سیرحاصل مقدمے میں، تنقید ِ نعت اور شریعت اسلام کی روشنی میں شعرگوئی کے اصولوں کی بڑی عمدگی سے وضاحت کی ہے۔ مصنف نے بجا کہا ہے کہ’ ’نعت نگاری کا اصل سرچشمہ قرآن کریم ہے اور باقی اس کی تشریحات اور تعبیرات ہیں‘‘ (ص ۱۳)۔ مقدمے میں مصنف نے جناب عزیز احسن اور شمس بدایوانی کی بعض تحریروں کو اپنی تنقید کی زد میں لیا ہے۔    شمس بدایونی کی کتاب اُردو نعت کا شرعی محاسبہ (۱۹۸۰ء) کے حوالے سے لکھا ہے کہ شمس صاحب نے اپنے مخصوص عقائد کی روشنی میں نعتیہ شاعری کا تجزیہ کیا ہے۔ اس طرح یہ کہ انھوں نے اپنی دانست میں اہلِ سنت والجماعت ہی کے بعض اساسی عقائد کو غیرمشروع قرار دیا ہے (ص ۱۵)۔ شمس بدایونی کی مذکورہ کتاب تو فی الوقت ہمارے سامنے نہیں ہے، مگر ہمارا خیال ہے کہ یہی ’اساسی عقائد‘ ہی بسااوقات نعت گوئی میں اُن بے اعتدالیوں اور غیرمتوازن طرزِ اظہار کا سبب بن جاتے ہیں جن پر خود رشید وارثی صاحب نے اس کتاب میں جگہ جگہ تنقید کی ہے۔ ضمناً عرض ہے کہ یہ کہنا کہ شمس بدایونی کے ’’اندازِ تحریر میںخلوص و محبت کا فقدان ہے‘‘، ایک نامناسب ’فتویٰ‘ ہے کیوں کہ ’خلوص و محبت‘ باطنی احساسات ہیں جن کے کھرے یا کھوٹے پن کا صحیح صحیح اندازہ لگانے کا کوئی ظاہری پیمانہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا۔

اُردو نعت گو شعرا کی بے اعتدالیوں (جو بعض اوقات مشرکانہ اظہار تک پہنچ جاتی ہیں) کے خلاف قبل ازیں بھی، بعض حضرات نے تنقیدی احتجاج کیا ہے، مثلاً رئیس نعمانی (علی گڑھ)، یا پروفیسر عبداللہ شاہین (اُردو نعت گوئی اور اس کے آداب، لاہور، ۱۹۹۹ء)۔ زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی ایک تازہ کڑی ہے۔ اس کے دیباچہ نگار سید یحییٰ نشیط کے بعض خیالات اگرچہ محلِ نظر ہیں، مگر رشید وارثی کے مضامین بحیثیت مجموعی معتدل راست فکری کا نمونہ ہیں۔ اُردو نعت گو شعرا بتوفیق الٰہی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اور تنقیدِ نعت پر قلم اُٹھانے والے ناقدین کو بھی، یہاں سے کچھ نہ کچھ تنقیدی بصیرت مل ہی جائے گی۔ معیارِ کتابت و طباعت اطمینان بخش ہے۔ ’پرواہ‘ غلط اور ’پروا‘ صحیح ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


صحیفۂ حیات (انسان کے لیے قرآنی ہدایات)، ڈاکٹر عبدالرشید ارشد۔ ناشر: اشاعت الحکمت، ۱۲-نیوگلشن پارک، چونگی ملتان روڈ، لاہور۱۸۔ صفحات: ۳۰۰۔ قیمت: ۳۸۰ روپے۔

زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے قرآن مجید سے زندگی کے تمام شعبوں کے لیے ہدایات جمع کر دی ہیں، ان آیات کا اُردو اور انگریزی ترجمہ بھی دیا گیا ہے۔ کوشش کی گئی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی معاملات میں نہایت اہم موضوعات کے متعلق قرآنی ہدایات کا گلدستہ پیش کر دیا جائے۔ فاضل مصنف نے نو ابواب میں خالق کائنات اللہ تعالیٰ، انسان کے مقصدِ زندگی، ایمان کی بنیادوں، عبادات، اللہ سے بندے کے تعلق، اخلاقِ حسنہ، خاندانی معاشرت کے اصول، حُسنِ معاشرت، معاشرتی فلاح و بہبود اور اصولِ معاش کے حوالے سے قرآنی ہدایات پیش کی ہیں۔

قرآن مجید کے متعدد اُردو تراجم مشہور ہیں۔ کسی متداول اُردو ترجمے کو اختیار کرکے دیباچے میں اس کا اظہار کردیا جاتا تو مناسب تھا۔ اس طرح ترجمے میں وہ کوتاہیاں راہ نہ پاتیں جو اس وقت پیش نظر ہیں۔ سورئہ مدثر کی آیت ۴۵ (وَکُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الخَائِضِیْنَ) کا اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے: ’’بحث کرنے والوں کے ساتھ ہم بحث کیا کرتے تھے‘‘ (ص ۲۶۲)۔ آج اُردو زبان میں لفظ بحث کا وہ مفہوم ذہن میں نہیں آتا جس کی سنگینی کے سبب بحث کرنے والے کو    جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس کڑی سزا کے لیے ترجمے میں کوئی ایسا لفظ لانا چاہیے جو اس عمل کی شناعت اور مذمت کو واضح کرے۔ سید مودودی نے اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے: ’’حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے‘‘ (ترجمۂ قرآن،ص ۱۴۹۷)۔ شاہ رفیع الدین نے حاشیے میں صراحت کر دی ہے کہ ’’بات میں دھنستے، یعنی ایمان کی باتوں پر انکار کرتے سب کے ساتھ مل کر‘‘(ص ۶۹۸)۔ اور شاہ عبدالقادر نے موضح قرآن میں لکھا ہے: ہم عیب جوئی کرتے تھے اور طعنہ کرتے تھے عیب ڈھونڈنے والوں کے ساتھ (ص ۶۰۵)۔  راغب اصفہانی نے خوض کے معنی لکھے ہیں: پانی میں اُترنا اور اندر تک چلے جانا۔

ایک اور مقام پر فاضل مصنف نے سود کے عنوان سے لکھا ہے: ’’بڑھا کر لینا منع ہے‘‘۔ اور سورئہ مدثر کی آیت ۶ درج کی ہے: وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُہ ’’اور کسی کو اس غرض سے مت دو کہ  اُسے بڑھا کر لے سکو‘‘ (ص ۲۹۴)۔ اکثر مفسرین نے اس آیت کو مال یا سود کے معنوں میں نہیں لیا بلکہ اس سے ہمت اور اولوالعزمی سکھلائی گئی ہے کہ تبلیغِ رسالت کے پیغمبرانہ کام کی انجام دہی کسی پر احسان نہیں۔ سورئہ حجرات کی آیت۶ میں فاسق کا ترجمہ شریر کیا گیا ہے (ص ۲۶۰)۔ اُردو زبان میں شریر ان معنوں میں نہیں بولا جاتا کہ فاسق کا قرآنی مفہوم سامنے آئے۔

مصنف کی کاوش لائقِ تعریف ہے۔ معاشرے میں بگاڑ کی جتنی صورتیں ہیں ان کا    واحد علاج اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے دستورِ حیات پر عمل کرنے میں ہے۔ ایسی کتابیں جو انسانوں کو صراطِ مستقیم کی طرف بلائیں، زیادہ سے زیادہ مطالعے میں رہنا چاہییں تاکہ عملِ صالح کا داعیہ  پیدا ہوتا رہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں قرآن مجید کا عربی متن سعودی عرب میں پڑھے جانے والے قرآنِ مجید کی طرزِ کتابت سے لیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی وہی کتابت دی جائے جو ہمارے ہاں معروف ہے۔ (ظفرحجازی)


مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج (سیاسی، سائنسی، طبی، علمی)، پروفیسر ارشد جاوید۔ ملنے کا پتا:  علم و عرفان پبلشرز، الحمدمارکیٹ، ۴۰- اُردو بازار، لاہور۔ فون: ۳۷۲۳۲۳۳۶- ۰۴۲۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

ہمارے ہاں جدید تعلیم یافتہ طبقہ مغرب سے مرعوب ہے، مغرب کو اہل اور مسلمانوں کو نااہل سمجھتا ہے اور مغرب کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ دوسری طرف سیکولر عناصر ترقی کے لیے مغرب کی طرز پر مذہب سے بغاوت ضروری قرار دیتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک طرف مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو ان کے شان دار ماضی سے روشناس کروایا جائے تاکہ مغرب کے مقابلے میں ان کے احساسِ کمتری کو ختم کیا جاسکے اور عظمتِ رفتہ کے حصول کے لیے وہ ایک نئے جذبے سے سرگرم ہوسکیں، اور دوسری طرف سیکولر عناصر کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کو دُور کرکے مسلمانوں کو ترقی کے لیے صحیح رہنمائی دی جائے۔ زیرتبصرہ کتاب اسی ضرورت کے  پیش نظر لکھی گئی ہے۔

ڈاکٹر ارشد جاوید ماہر نفسیات ہیں اور سماجی و معاشرتی مسائل پر لکھتے ہیں۔ ان کی   متعدد کتابیں سامنے آچکی ہیں۔ مصنف نفسیات کے ایک اہم اصول کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر آپ ایک کام پہلے کرچکے ہوں تو اسے دوبارہ بھی کرسکتے ہیں۔ تیرھویں صدی عیسوی میں منگولوں نے ہمیں تاراج کیا مگر ہم کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک بار پھر عظیم قوم     بن گئے۔ اب پھر ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ ہم پہلے ایسا کرچکے ہیں۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم پہلے کی طرح دل و جان سے اپنے نظریۂ حیات سے وابستہ ہوجائیں، اور ہر قضیۂ زندگی، خصوصاً اخلاقیات میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں تو عظمت ایک بار پھر ہمارے قدم چومے گی، ان شاء اللہ‘‘۔ (ص ۱۶)

سیکولر عناصر مغرب زدہ ہیں اس لیے وہ ترقی کے لیے مذہب سے بغاوت کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت کے عقائد سائنسی ترقی میں رکاوٹ تھے، جب کہ اسلام غوروفکر اور کائنات میں تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآن حکیم کا کم از کم آٹھواں حصہ (۷۵۰ آیات) تفکر اور تسخیر، یعنی سائنسی ٹکنالوجی سے متعلق ہے۔ عظیم یورپی مؤرخ بریفالٹ کے مطابق: ’’نیچرل سائنس اور سائنسی مزاج پیدا کرنے میں، جو نئی دنیا کی سب سے بڑی امتیازی قوت اور اس کی کامیابی کا سب سے بڑا مآخذ ہے،[اسلامی] تہذیب نے مہتم بالشان کردار ادا کیا‘‘۔ (ص ۲۰)

مسلمانوں نے یورپ کو بہت سے نئے علوم سے روشناس کروایا اور بہت سی ایجادات سامنے آئیں۔ اس کا مختصر جائزہ ایک باب: ایجادات، انکشافات اور دریافتیں، میں لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف سائنسی میدانوں مثلاً: کیمسٹری، فزکس، میکانیات، معدنیات، علمِ زراعت، ریاضیات، فلکیات، جغرافیہ، میڈیسن، تاریخ نگاری، فلسفہ، موسیقی، تعمیرات وغیرہ میں مسلمانوں کی خدمات کا الگ الگ مختصر مگر جامع تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔

کتاب بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے شان دار ماضی کے خلاصے پر مبنی ہے جو بہت سی کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کردیتا ہے۔ اہلِ علم و تحقیق اور اساتذہ کرام کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو سائنسی میدان میں ایک نئے جذبے سے آگے بڑھنے کے لیے رہنمائی فراہم کرسکیں۔ اگر ماضی کے تذکرے کے ساتھ ساتھ آج کی مسلم دنیا میں سائنسی ترقی کے لیے مسلمانوں کا کردار بھی زیربحث آجاتا تو کتاب کی جامعیت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ (امجد عباسی)


چراغِ مصطفویؐ، عتیق الرحمن صدیقی۔ ناشر: ادارہ منشورات اسلامی بالمقابل منصورہ، ملتان روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۸۴۰۵۸۴-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۶۔ قیمت: درج نہیں۔

مصنفِ محترم نے فرائضِ منصبی (کارِ معلمی) سے سبک دوشی کے بعد، قلم و قرطاس کو اظہارِ محسوسات و جذبات کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ان کی متعدد تصنیفی و تالیفی کاوشوں کا تعارف ترجمان کے انھی صفحات میں محفوظ ہے۔ ایک سچا ’قلم کار‘ علامہ اقبال کی اس نصیحت ’’برآور ہرچہ اندر سینہ داری‘‘ کے مصداق، کچھ نہ کچھ لکھتے رہنے ہی کو زندگی کی علامت سمجھتا ہے۔ زیرنظر مضامین صدیقی صاحب کے جذباتِ دعوت و تبلیغ اور اقامت ِ دین کے عکاس ہیں۔ ان کے عنوانات یقینا مختلف ہیں: (’اللہ تعالیٰ‘، ’نبی ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم‘، ’قرآنِ حکیم‘، ’دعوت و تزکیہ‘، ’داعیِ حق کی خصوصیات‘، ’قلبِ سلیم‘، ’احسان‘، ’تکبر‘، ’اللہ کی حدیں‘، ’اسلام اور جاہلیت‘ وغیرہ)۔ مگر خود مصنف کے الفاظ میں ان سب میں ’’ایک ہی روح تابندہ، ضوفشاں اور ایک ہی رنگ نمایاں ہے: صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً‘‘۔(ص۸)

مصنف نے اپنی بات کو زیادہ وقیع اور مستند بنانے کے لیے تفہیم القرآن، تدبر قرآن،  تفسیر عثمانی، ترجمان القرآن اور ضیاء القرآن ایسی تفاسیر سے لمبے لمبے اقتباسات شاملِ تحریر کیے ہیں۔ مختصر یہ کہ ہرمضمون میں متعلقہ موضوع کا خلاصہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ وضاحتِ مفہوم میں کہیں کہیں علامہ اقبال کے اشعار سے بھی مدد لی ہے۔

یہ کتاب ہر اُس شخص کے لیے باعثِ استفادہ اور سودمند ہوگی جو ان مضامین کو پڑھنے  کے لیے وقت نکال سکے۔(ر-ہ)


جادو، جنات سے بچائو کی کتاب، حافظ عمران ایوب لاہوری۔ ناشر: فقہ الحدیث پبلشرز،  اُردوبازار، غزنی سٹریٹ، لاہور۔ صفحات: ۱۵۷۔ قیمت: ندارد۔

جادو اور جنات کا موضوع تاریخ کے ہر دور اور ہر معاشرے میں عام رہا ہے۔ خصوصاً معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ معاشروں کے تنگ دست اور ضعیف العقیدہ لوگ جادوگروں، عاملوںاور جعلی پیروں کے ہاتھوں ہمیشہ لٹتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ موضوع قلم کاروں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے اور تمام بڑی زبانوں کے لٹریچر میں اس پر کتابیں موجود ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب میں مؤلف نے جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں جادو اور جنات کے وجود کا اثبات کیا ہے وہاں نام نہاد جادوگروں اور عاملوں کے طریقہ ہاے واردات کا بھی ذکر کیا ہے۔ کتاب میں جادو،جنات اور نظربد سے بچنے کی احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں اور جنات کی آسیب زدگی کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اور رہنمائی دی گئی ہے کہ ان کے اثرات سے بچنے کے لیے کون کون سی قرآنی سورتیں، آیاتِ مبارکہ، مسنون دعائیں اور وظائف ضروری ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)


تعارف کتب

  •  مجلہ تحقیق معاشرتی علوم (۵ جنوری تا جون ۲۰۱۰ء)، مدیر: پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق۔ ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ڈی۳۵، بلاک ۵-ایف بی ایریا، کراچی۔ صفحات، اُردو: ۱۳۷، انگریزی: ۷۵۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔ [اُردو اور انگریزی زبانوں میں علمی مقالات پر مشتمل تحقیقی مجلہ۔ زیرنظر شمارے میں ڈاکٹر فدا حسین کی ادبی خدمات، خطبۂ جمعہ و عیدین کی قومی زبان میں اہمیت و ضرورت، منصفانہ اُجرت کا اسلامی تصور، ملایشیا کی تعمیروترقی میں ڈاکٹرمہاتیرمحمد کی خدمات کا جائزہ، استخارے کی حقیقت اور ایمان بالغیب جیسے عنوانات پر مقالے شامل ہیں۔ ان کے علمی معیار کا اندازہ تو اہلِ نظر لگاسکتے ہیں، البتہ اداریے کا معیار ایک ریسرچ جرنل کے شایانِ شان نہیں۔ اس شعر: لوہے کی مشینوں--- کا اکبر الٰہ آبادی سے انتساب سو فی صد غلط ہے۔ اقبال کے دو اشعار میں متن کی غلطیاں ہیں۔ (ص۸، ۱۵)۔ ایک جگہ پر، اقبال کے دو مختلف اشعار سے ایک ایک مصرع لے کر، ایک نیا شعر ’تصنیف‘ کیا گیا ہے (ص ۱۳)۔ جنوری تا جون ۲۰۱۰ء کے اس شمارے میں یہ جملہ محل نظر ہے: ’’صدرِمملکت جناب جنرل پرویز صاحب سیاہ و سفید کے مالک ہیں (ص ۱۰) وغیرہ۔]
  •  شوقِ عمل، مؤلف: ڈاکٹر حافظ محمد شہباز حسن۔ ملنے کا پتا: مکتبہ اسلامیہ بالمقابل رحمن مارکیٹ، غزنی سٹریٹ، اُردو بازار، لاہور۔فون: ۳۷۴۴۹۷۳-۰۴۲۔ صفحات: ۲۰۰۔ قیمت:درج نہیں۔ [قرآن مجید کی آیات اور احادیث مبارکہ سے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سے متعلق  ۳۱نیکیوں کے حوالے سے مرتب کرکے الگ الگ ابواب، مثلاً نماز پر ۱۶ عنوانات ہیں، جیسے وضو کا شوق، اذان کا شوق، صف بندی وغیرہ۔ ان میں سے ہر ایک کے تحت متعدد عنوانات ہیں جن میں آیات و احادیث درج کی گئی ہیں۔ ضعیف روایات سے اجتناب کرتے ہوئے صرف صحیح احادیث حوالوں کے ساتھ درج کی گئی ہیں۔ نیک عمل پر اُبھارنے کے لیے اچھی کتاب ہے۔]

غلام مرتضٰی جوئیہ ، بہاول نگر

’تحفظ ناموسِ رسالتؐاور ہماری ذمہ داری‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں ڈاکٹر انیس احمد نے موضوع کا حق  ادا کردیا ہے۔ انھوں نے نہ صرف مغربی استعماری ایجنٹوں اور ان کے نام نہاد دعویِٰ انسانی حقوق اور مساوات کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ اقبالؒ اور محمدعلی جناحؒ کے تصورِ اسلام اور پاکستان کو بھی واضح کردیا ہے۔ موجودہ حکومت نے توہینِ رسالتؐ کے قانون میں ترمیم کا بل پیش کر کے لادین عناصر کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے جس جسارت کا ارتکاب کیا ہے وہ یقینا قوم کے ایمان اور غیرت کا امتحان ہے۔

عرفان احمد بھٹی ،لاہور

’معاشی بحران : نئے ٹیکس اور مہنگائی کا طوفان‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں معاشی بحران کے مختلف پہلوئوں بالخصوص نئے تجویز کردہ آر جی ایس ٹی پر مفصل اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک تجویز جاگیرداروں اور زمین داروں پر زرعی ٹیکس عائد کرنے کی بھی دی گئی ہے، جو کہ صریحاً زیادتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ۵۷ فی صد کاشت کار صرف ۵؍ ایکڑ اراضی کے مالک ہیں، جب کہ ساڑھے بارہ فی صد ایکڑ کے مالکان صرف ۲۸ فی صد ہیں اور ۲۵؍ ایکڑ کے مالکان ۸ء۸ فی صد ہیں۔ یہ صوبائی حکومتوں کو ٹیکس بھی ادا کر رہے ہیں اور مالیہ آبیانہ بھی۔ اسی طرح اربوں روپے کی کھاد پر جی ایس ٹی ادا کر رہے ہیں۔ صرف ۹ء۳ فی صد کاشت کار ۵۰؍ایکڑ سے زائد اراضی کے مالک ہیں اور ۲ء۱ فی صد ۱۰۰؍ ایکڑ تک کے مالک ہیں۔ ان چند فی صد لوگوں کی خاطر پورے ۹۳ فی صد لوگوں کی معیشت پر کاری ضرب نہیں لگانی چاہیے۔ یہ لوگ تو پہلے ہی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ زرعی شعبہ وہ واحد شعبہ ہے جس سے متعلقہ صنعتوں نے لُوٹ مار کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ کھاد کی بوری پر قیمت پرنٹ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے کھاد مافیا مروجہ قیمت سے زائد قیمت وصول کرتا ہے اور ساتھ ہی ڈیزل کو پٹرول سے مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ایک ملین سے زائد ڈیزل سے چلنے والے ٹیوب ویل کاشت کاروں پر اضافی بوجھ ہیں۔

عمران ظہور غازی ،لاہور

’سید علی الہجویریؒ، صاحب ِ فکروحکمت‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) میں ڈاکٹر حبیب الرحمن عاصم نے معرفت و شریعت، علم وعمل، صوفی کی پہچان، فقروغنا، توحید کامل، قیامِ شریعت اور تصوف کے عنوانات کے تحت کشف المحجوب کی تعلیمات کا خلاصہ پیش کیا ہے اور ساتھ ہی قرآن و سنت سے دلائل و لوازمہ بھی۔ دین کا یہ وہ تصور ہے جو  عام طور پر اس طرح کی کتب میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

ابونعمان ،جھنگ

’وقت زندگی ہے!‘ (دسمبر ۲۰۱۰ء) ایک اہم تحریر ہے جس میں وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے زندگی گزارنے کے راہنما اصول بیان کیے گئے ہیں۔وقت اس کائنات میں انسان کی عزیز ترین اور بیش قیمت متاع ہے۔ زندگی کیسے گزاری جائے اور وقت کو کیسے بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جائے، اس تحریر سے رہنمائی ملتی ہے۔

عطاء الرحمٰن ،قصور

امریکی سامراج کی اُمت مسلمہ کے خلاف سازشوں کے مختلف حربوں میں سے ایک حربہ فرقہ واریت کو ہوا دینا اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ صوفیاے کرام کے مزاروں پر حملے اسی سازش کا شاخسانہ ہیں۔ امریکا کی اس سازش کو قومی یک جہتی سے ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کی قیادت   چند بنیادی نکات پر اتفاق راے اور ملّی یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔

 

اوّل روز سے ہم نے جماعت کے اندر روحِ تنقید کو بیدار رکھنے کی کوشش کی۔ تنقید ہی وہ چیز ہے جو ہر خرابی کی بروقت نشان دہی کرتی اور اس کی اصلاح کا احساس پیدا کرتی ہے۔ اجتماعی زندگی کے لیے اخلاقی حیثیت سے تنقید کی وہی اہمیت ہے جو مادّی حیثیت سے صفائی کی اہمیت ہے۔ جس طرح نجاست و طہارت کی حِس مٹ جانے اور صفائی کی کوشش بند ہوجانے سے ایک بستی کا سارا ماحول گندا ہو جاتا ہے اور اس کی فضا ہر طرح کے امراض کے لیے سازگار بن جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح تنقیدی نگاہ سے خرابیوں کو دیکھنے والی آنکھیں، بیان کرنے والی زبانیں اور سننے والے کان اگر بند ہوجائیں تو جس قوم، سوسائٹی یا جماعت میں یہ حالت پیدا ہوگی وہ خرابیوں کی آماج گاہ بن کر رہے گی اور پھر اس کی اصلاح کسی طرح نہ ہوسکے گی۔ اس حقیقت سے ہم کبھی غافل نہیں ہوئے۔

ہم نے عالمِ انسانیت کی، اپنے ملک کی اور اپنی ملّت کی خرابیوں پر تنقید کرنے میں جو آزادی برتی، اُسی آزادیِ تنقید کو اپنی جماعت میں بھی برقرار رکھا تاکہ جماعت کے اندر جہاں جو خرابی بھی موجود ہو، اس کی بروقت نشان دہی ہوجائے اور اسے دُور کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ جماعت کے ہرشخص کو محض تنقید کا حق ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فرض ہے کہ کسی خرابی کو محسوس کرکے خاموش نہ رہ جائے۔ یہ بات ہر رکنِ جماعت کے اجتماعی فرائض میں داخل ہے کہ اپنے ساتھی ارکان کی ذات میں، یا ان کے جماعتی کردار میں، یا اپنی جماعت کے نظم میں، یا جماعت کے لیڈروں میں اگر وہ کوئی نقص پائے تو اسے بلاتکلف بیان کرے اور اصلاح کی دعوت دے۔ اسی طرح جن لوگوں پر تنقید کی جائے ان کو بھی اس بات کا عادی بنایاگیا ہے کہ وہ نہ صرف تنقید کو برداشت کریں، بلکہ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کریں اور جس نقص کی نشان دہی کی گئی ہے وہ اگر واقعی موجود ہو تو اسے دُور کرنے کی طرف توجہ کریں ورنہ تنقید کرنے والے کی غلط فہمی رفع کر دیں۔ اس معاملے میں تنقید کے جائز حدود اور معقول طریقے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے بسااوقات غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور ان کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہمیں اُٹھانا پڑا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے کبھی جماعت میں روحِ تنقید کو خوابیدہ ہونے نہ دیا، اور اسی کا یہ فائدہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد پوری جماعت کی تربیت اور تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور اپنی تکمیل و تربیت میں اس سے مدد پا رہا ہے۔(’اشارات‘، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ترجمان القرآن، جلد۳۵، عدد۳،۴، ربیع الاول، ربیع الآخر ۱۳۷۰ھ، جنوری، فروری ۱۹۵۱ء، ص۸،۱۲۳)