مضامین کی فہرست


اکتوبر ۲۰۲۲

مسلمان معاشرہ اور سودی نظام ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ دونوں بیک وقت چل نہیں سکتے۔ ایک کا وجود دوسرے کی نفی ہے، ایک کا غلبہ دوسرے کے لیے موت کا پیغام ہے۔ ان دونوں کے درمیان کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ جن افراد اور جن معاشروں پر سودی نظام کا غلبہ ہو وہ حقیقی خوش حالی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں۔ وہ معاشرے ھل من مزید کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور انسان انسان کا غم خوار اور دم ساز ہونے کے بجائے ایک دوسرے کا خون چُوسنے اور حق مارنے میں مشغول رہتا ہے، جب کہ قرآن ایسے افراد اور معاشرے کی مثال اس شخص سے دیتا ہے جسے شیطان نے چھوکر مخبوط الحواس کردیا ہو:كَـمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُہُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ۝۰ۭ (البقرہ ۲: ۲۷۵)، اور جن کے خلاف خود اللہ نے اپنے اور اپنے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ کیا ہو:  فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ  (البقرہ ۲: ۲۷۹)، وہ فرد اور معاشرہ کیسے چین کی زندگی گزار سکتا ہے جو مسلسل اللہ اور اس کے رسولؐ سے برسرِ جنگ ہو؟

سود کی قباحت اور ہولناکی کے بارے میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے جو اندازِ بیان اختیار فرمایا ہے، اس کے بعد کسی صاحب ِ ایمان کے لیے یہ گنجایش نہیں رہتی کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اس قاتلِ ایمان و ضمیر و اخوت کو گوارا کرسکے:

  • رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی سود کا ایک درہم کھاتا ہے وہ چھتیس مرتبہ بدکاری کرنے سے زیادہ سخت گناہ کماتا ہے اور بعض روایات میں ہے کہ جو گوشت مالِ حرام سے بناہو اس کے لیے آگ ہی زیادہ مستحق ہے (مسنداحمد،  طبرانی)۔
  • حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اس نے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو اپنے اُوپر دعوت دی (مستدرک حاکم)۔
  • اور یہ کہ جب کسی قوم کے باہمی لین دین میں سود کا رواج ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر ضروریات کی گرانی مسلط کر دیتا ہے، اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو ان پر دشمنوں کا رُعب و غلبہ حاوی ہوجاتا ہے (مسنداحمد)۔

اگر آج ہم بصیرت کی نظرخود اپنے اردگرد ڈالیں اور اپنے ملک کی حالت کو دیکھیں تو مخبرصادق کی پیش گوئی ہمیں سو فی صد درست نظر آتی ہے اور اہلِ ایمان کو توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت دیتی ہے کہ صرف یہی نجات کی راہ ہے۔

انسدادِ سود کی کوششوں کا جائزہ

سود کے بارے میں پاکستانی قوم کے جذبات اور اس کی قیادتوں کے رویے میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ قائداعظمؒ نے پاکستان کے اسٹیٹ بنک کے افتتاح (جولائی ۱۹۴۸ء) کے موقع پر جو تقریر کی تھی، اس میں سود سے پاک مالیاتی نظام کو قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ۱۹۵۶ء کے دستور سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور تک ہرایک میں سودی نظام سے نجات کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل ۶۵-۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۹ء نے بار بار اس امر کا اظہار کیا کہ سود کو اس کی ہرشکل میں ختم کیا جائےاور متبادل نظام قائم کیا جائے لیکن برسرِاقتدار طبقوں نے اس طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ۲۹ستمبر ۱۹۷۷ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو سود سے پاک نظام مرتب کرنے کا کام سونپا اور کونسل نے ۱۵ماہرین معاشیات و بنکاری کے تعاون سے نومبر ۱۹۷۸ء میں اپنی عبوری رپورٹ اور جون ۱۹۸۰ء میں مکمل رپورٹ پیش کی۔ انھی رپورٹوں کی روشنی میں جنرل محمد ضیاء الحق نے ۱۰فروری ۱۹۷۹ء (۱۲ ربیع الاوّل) کو تین مالیاتی اداروں کو سود سے پاک کرنے کا پہلا عملی اقدام کیا جس پر یکم جولائی ۱۹۷۹ء کو عمل ہوا۔ ۱۹۸۰ء سے دوسری اصلاحات کا آغاز کیا گیا جو لشتم پشتم ۱۹۸۴ء تک جاری رہیں۔

اس زمانے میں سودی نظام کے علَم بردار (ملکی اور غیرملکی دونوں) اور دوسرے مفاد پرست عناصر ان اصلاحات کا حلیہ بگاڑنے اور گاڑی کو پٹڑی سے اُتارنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے اور بالآخر ۱۹۸۵ء سے عملاً ان تمام اقدامات کو غیرمؤثر کر دیا گیا جن کا آغاز ۱۹۷۹ء سے ہوا تھا۔ اس جوابی تحریک کو ۱۹۹۰ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کے برسرِاقتدار آنے پر چیلنج کیا گیا اور شریعت کی بالادستی کے مطالبے نے زور پکڑا۔ تب وزیراعظم نوازشریف صاحب نے خودانحصاری کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اور اس نے راقم کی سربراہی میں کام کیا تھا۔ اس نے اپریل ۱۹۹۱ء میں ایک رپورٹ پیش کی اور ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی تعلقات کو سود سے پاک کرنے کے لیے ایک واضح حکمت عملی اور نقشۂ عمل پیش کیا۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے دس سال کی بے اختیاری کے بعد اختیارات بحال ہونے پر دسمبر ۱۹۹۱ء میں ایک تاریخی فیصلہ دیا جس کے تحت سود پر مبنی ۲۰قوانین کو کالعدم قرار دیا گیا اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی کہ متبادل قانون سازی کرے، لیکن حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی اور دوسری طرف خودانحصاری رپورٹ کو طاق نسیاں کی نذر کر دیا۔

ہمارے ہاں یہ عجیب منطق ہے کہ پالیسی سازی اور متبادل راستوں کے لیے حکومت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سارے ضابطوں کو معطل کرکے چند گھنٹے میں لائحہ عمل تجویز کرلیتی ہے۔ لیکن سود سے نجات ہی ایک ایسا معاملہ ہے جس میں حکومت یہ بہانے تراشتی ہے کہ اس کی اصل ذمہ داری حکومت کی نہیں بلکہ قوم کی ہے کہ وہ حکومت کو بنا بنایا کوئی متبادل نظام لا کر دے تاکہ وہ حرکت کے لائق ہوسکے!

دراصل بیماری کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ حکومت اور اختیار رکھنے والے سارے ادارے اس اہم معاملے پر اپنی ذمہ داری کو نہ صرف یہ کہ محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ بڑی چابک دستی سے ذمہ داری دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ جس طرح ملک کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں کے بارے میں یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ان کے حل کے لیے پالیسیاں بنائیں، وسائل حاصل کریں اور ضروری عملی اقدامات کریں، اسی طرح سود کے مسئلے کے بارے میں بھی اصل ذمہ داری اربابِ اقتدار ہی کی ہے اور اس بارے میں کسی راہِ فرار کی گنجایش نہیں۔

ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر سخت حیرت ہوئی، جس میں ۲۸؍اپریل ۲۰۲۲ء کو یہ قرار دیا گیا کہ پانچ سال کی مدت میں سود کے خاتمے پر مبنی معیشت کھڑی کی جائے، یعنی فاضل جج یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ کام اس طرح کرنے جارہے ہیں جیسے کسی نئے کام کا آغاز کیا جارہا ہو اور سادہ کاغذ پر کسی نئی تحریر کا مرحلہ درپیش ہو۔ بلاشبہہ یہ کام بہت اہم ہے اور ہمہ پہلو بھی، لیکن یہ تاثر کہ کوئی متبادل موجود نہیں ہے اور اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کا مطالبہ کسی خلا میں کیا جارہا ہے محض کم علمی ہے، یا صریح دھوکا دہی۔

آج بلاسود متبادل محض کوئی خیالی شے نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۷۰برسوں میں اس سلسلے میں اتنا کام ہوا ہے کہ اگر کوئی مخلص اور اہل قیادت نئے نظام کے قیام کا عزم اور ارادہ رکھتی ہو تو ایک دن کی تاخیر کیے بغیر مؤثر اقدام کا آغاز ہوسکتا ہے۔ بلاشبہہ نیا نظام قائم کرنے میں وقت لگے گا اور تبدیلی کا عمل تدریج اور مناسب حکمت عملی ہی سے انجام دیا جائے گا مگر آج اصل رکاوٹ فکری کام کی کمی یا متبادل نقشۂ کار کی عدم موجودگی نہیں، قیادت میں ایمان اور سیاسی عزم و ارادے کی کمی ہے۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے (اللہ تعالیٰ ہمیں ہر تعصب اور جانب داری سے محفوظ رکھے)۔

راقم پچھلے ۶۰برسوں سے ذاتی طور پر ان کوششوں سے وابستہ رہا ہے جو اس سلسلے میں ہوئی ہیں اور اپنے ذاتی علم اور تجربے کی بناپر یہ بات کہہ رہا ہوں، کہ اصل رکاوٹ کسی متبادل ماڈل کی کمی نہیں ہے۔ راستہ صاف ہے اور اب تو دوسروں کے عملی نقوش بھی موجود ہیں۔ اصل ضرورت منزل کے شعور اور چلنے کے ارادے اور ہمت کی ہے اور ہماری قیادتوں کا اصل مرض بھی یہی ہے کہ نہ فکرونظر کے اسلامی اسلوب کو انھوں نے شعوری طور پر اپنایا ہے اور نہ ان میں وہ جرأت اورعزم ہے جس کی بنا پر انسان دُنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر اپنےاصل اہداف کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوجاتا ہے۔ ایک طرف ذہنوں پر مغرب کے افکار کا غلبہ ہے تو دوسری طرف مفاد پرست عناصر اور عالمی ساہوکاری نظام کے کارپردازوں کا گھیرائو ہے جو ذہنوں کو مسموم کرنے اور کمزور ارادہ لوگوں کے قدموں کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے اور ہمارے اربابِ اقتدار کا حال یہ ہے:

ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے، کلیسا مرے آگے

ضرورت اس امر کی ہے کہ دماغ میں جو بُت خانے آباد ہیں ان کو توڑا جائے اور دل و نگاہ کی مسلمانی کا راستہ اختیار کیا جائے۔

سود: ایک مغالطہ

ایک مغالطہ جو مختلف انداز میں بار بار دیا جاتا ہے وہ سود کے تصور کے بارے میں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی سرکاری وکیلوں نے اس مسئلے کو اُٹھایا اور سپریم کورٹ میں جو اپیل دائر کی اس میں بھی اس بات کو شامل کیا گیا، یعنی یہ کہ کیا بنک کا سود ربا کی تعریف میں آتا ہے؟

ہم اس بات کو بالکل دوٹوک انداز میں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں عرب دُنیا، برعظیم اور جنوب مشرقی ایشیا میں دورِ غلامی میں جو بحثیں اُٹھائی گئی تھیں آج وہ قصۂ پارینہ ہیں۔ الحمدللہ گذشتہ ۷۰برسوں میں اس موضوع پر ایسی سیرحاصل بحث ہوئی ہے کہ براہین قاطع کی بنیاد پر یہ بحث ایک اجماع پر منتج ہوچکی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرض کے مالی معاملات پر اصل سرمائے پر جو بھی متعین اضافہ پہلے سے طے ہو اور شرط معاہدے کا حصہ ہو وہ سود ہے، خواہ یہ قرض صرفی ضروریات کے لیے ہو، یا پیداواری مقصد کے لیے، فرد لے رہا ہو یا ادارہ، نجی ہو یا سرکاری، مہاجن ہو یا بنک اورانشورنس کمپنیوں کے ذریعے۔

اس پر پاکستان میں بھی اورعالمِ اسلام میں بھی مکمل اتفاق رائے ہے اورعلما اور ماہرین معاشیات دونوں اس پر متفق ہیں۔ اس لیے اس بحث کو اَزسرنو شروع کرنا علم اور خلوص پر مبنی نہیں بلکہ مسئلے کو اُلجھانے، تعویق میں ڈالنے یا دھوکا دینے کے مترادف ہے اور انسان اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتا ہے لیکن اللہ کو دھوکا نہیں دے سکتا: يُخٰدِعُوْنَ اللہَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۚ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۝۹ۭ  (البقر ہ ۲:۹) ’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کےساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنھیں اِس کا شعور نہیں ہے‘‘۔

’اسلامی مشاورتی کونسل‘ نے اپنے ۳دسمبر ۱۹۶۹ء کے اجلاس میں فیصلہ کیا تھا کہ:

اسلامی مشاورتی کونسل اس امر پر متفق ہے کہ ربا اپنی ہرصورت میں حرام ہے اور شرحِ سود کی بیشی اور کمی سود کی حُرمت پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ افراد اور اداروں کے لین دین کی مندرجہ ذیل صورتوں پر مکمل غوروفکر کرنے کے بعد کونسل اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ:

(الف) موجودہ بنکاری نظام کے تحت افراد، اداروں اور حکومتوں کے درمیان کاروباری لین دین اور قرضہ جات میں اصل رقم پر جو بڑھوتری لی یادی جاتی ہے وہ داخل ربا ہے۔

(ب) خزانے کی طرف سے مقداری مدت کے قرضے پر جو چھوٹ دی جاتی ہے وہ بھی  داخلِ ربا ہے۔

(ج) سیونگ سرٹیفکیٹ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ ربا میں شامل ہے۔

(د) انعامی بانڈ پر جو انعام دیا جاتا ہے ، وہ ربا میں شامل ہے۔

(ھ) پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے وہ بھی ربا میں شامل ہے۔

(و) صوبوں، مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے جانے والے قرضوں پر بڑھوتری ربا میں شامل ہے۔ (Report on Consolidated Recommendations

on the "Islamic Economic System" Council of Islamic Ideology,

1983, pp 9-10)

بالکل یہی وہ پوزیشن ہے، جو اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے ماہرین معاشیات اور بنکاروں نے اپنی آخری رپورٹ میں اختیار کی ہے۔ اسی طرح اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر کی صدارت میں بنکاروں کی جس کمیٹی نےکام کیا اور ۱۹۸۰ء میں اپنی رپورٹ دی اس نے بھی یہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ اس طرح ملک کے علما اور معاشی ماہرین اور بنکار اس پر متفق ہیں۔ نیز وفاقی شرعی عدالت نے اپنے دسمبر ۱۹۹۱ء کے تاریخی فیصلے میں اس پوزیشن پر مہرتصدیق ثبت کی جو حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔

یہی پوزیشن عالمی اداروں کی ہے۔ بھارت کے ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ نے وہاں کے چوٹی کے علما کے سیمی نار میں جس آخری متفقہ رائے کا اظہار کیا، وہ یہ ہے:

سود خواہ ذاتی مصارف کے قرضوں پر لیا جائے یا تجارتی و کاروباری قرضوں پر، شریعت اسلامیہ کی نظر میں بہرحال حرام ہے۔ قرآن و سنت، اجماع و قیاس اور اُمت محمدیہ کا عملِ متوارث سب یہی بتاتے ہیں کہ حُرمت ربا کے بارے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ قرض لینے کا مقصد اور محرک کیا ہے؟ سود کی حُرمت پر اس کا بھی کوئی اثر نہیں پڑتا کہ شرح سود کم ہے یا زیادہ، مناسب حد تک کم ہے یا نامناسب حد تک زیادہ۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا۔ دونوں صورتیں بہرحال حرام ہیں۔ (سہ ماہی بحث و نظر، پھلواری شریف، پٹنہ، شمارہ ۸جنوری تا مارچ ۱۹۹۰ء، ص ۱۳)

سرکاری سطح پر وزرائے خارجہ کی تنظیم کی قائم کردہ ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘ نے بھی اس مسئلے پر دسمبر ۱۹۸۵ء میں غور کیا اور وہ بھی اسی نتیجے پر پہنچی۔ فقہ اکیڈمی کی قرارداد نمبر۳ میں طے کیا گیا کہ بنکوں اور نظام بنکاری میں اسلامی اصولوں کے نفاذ کے بارے میں:

            ۱-         ان تمام قرضوں پر، جنھیں ایک مدت کے بعد ادا کیا جاتاہے، کوئی اضافہ (خواہ اس کا نام نفع ہی کیوں نہ ہو) اگر قرض دار اسے وقت پر ادا نہ کرسکے، یا کسی بھی قرض پر اضافہ یا نفع جسے قرض دینے کے وقت معاہدے کے حصے کے طور پر رکھا گیا ہو، دونوں ربا کی تعریف میں آتے ہیں اور شریعت میں حرام ہیں۔

            ۲-         (سود کے بغیر) متبادل بنیادوں پر بنک قائم ہونے چاہییں، جو اسلامی احکام کے مطابق کام کریں اور معاشی سہولتیں فراہم کریں۔

            ۳-         اکیڈمی تمام مسلم ممالک سے اپیل کرتی ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کے مطابق کام کرنے والے بنک قائم کریں تاکہ مسلمانوں کی تمام ضروریات ان کے ایمان کے مطابق پوری کی جاسکیں اور ان کے عمل اور دین میں عدم مطابقت نہ رہے۔

یہی وجہ ہے کہ خود آئی ایم ایف کے سرکاری کاغذات میں مسلمان اُمت کی جو پوزیشن اس مسئلے کے بارے میں بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے:’’مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی بنکاری نظام کے مطالعے کا آغاز اس کی بنیادی اصطلاحات کی تعریف سے کیا جائے۔ ’ربا‘ ایک شرعی اصطلاح ہے جو زر کے استعمال پر پہلے سے طے شدہ اضافے سے عبارت ہے۔ ماضی میں اس امر پر نزاع ملتا ہے کہ ’ربا‘ سے مراد سود ہے یا یوژوری (Usury)، لیکن اب مسلمان اہلِ علم کے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس اصطلاح کا اطلاق سود کی ہرشکل پر ہوتا ہے اور اس کا مصداق محض مناسب سے زیادہ سود (excessive interest) نہیں۔ پس آگے کے مباحث میں ’ربا‘ اور ’سود‘ بطور مترادف استعمال کیے جائیں گے اور اسلامی نظام بنکاری کے معنی وہ نظام ہوگا جس میں سود کی ادائیگی یا وصولی ممنوع ہوگی، جب کہ ایک سودی یا روایتی بنک سے مراد وہ ادارہ ہوگا جس میں مالی فنڈ کے استعمال پر سود وصول کیا جاتا ہے، یا دیا جاتا ہے‘‘۔ (International Monetary Fund

Staff Papers, Vol xxxiii, No.1, March 1986, Islamic Interest-free Banking,

a Theoretical Analysis by Mohsin S. Khan, p 4-5(

ان علمی مباحث کا بے لاگ جائزہ اس امر کو بالکل واضح کر دیتا ہے کہ سود کے بارے میں جو سوالات اور شبہات اُٹھائے جاتے ہیں وہ غیرحقیقی ہیں اور قرآن و سنت نے سود کو اس کی ہرشکل میں حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ قدیم ساہوکاری کی شکل میں ہو یا جدید بنکاری کی، ضرورت مندوں کے صرفی قرضوں سے متعلق ہو یا تجارتی اور پیداآوری قرضوں سے، نجی دائرے میں ہو یا سرکاری، نیم سرکاری دائرے میں ، کم شرح پر ہو یا زیادہ شرح پر۔ یہ اتفاق رائے اُمت کا ایک عظیم سرمایہ ہے، اور اب گڑے مُردے اُکھاڑنے کے بجائے سیدھے سبھائو ساری کوششیں اس امرپر مرکوز کرنی چاہییں کہ سود سے کیسے نجات پائی جائے اور متبادل نظام کے خدوخال کیا ہیں؟

اسلامی بنکاری کی طرف پیش رفت

علمی اور نظری میدان میں اس کامیابی کے ساتھ دوسری بڑی کامیابی جو پچھلے ۵۰ سال میں حاصل ہوئی ہے وہ بلاسود بنکاری کے اصول و ضوابط، نظامِ کار، مالیاتی آلات (Financial Instruments) اور سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں کی تجویز و تسوید ہے۔ اس سلسلے میں بڑی عرق ریزی کے ساتھ تحقیقات کی گئی ہیں اور بڑی دِقّت نظر سے متبادل نظام کا نقشہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے کی ابتدائی کوششیں تو ۱۹۳۰ء اور ۴۰ کے عشروں میں ہوئی تھیں اور اس میں سب سے زیادہ راہ کشا کام مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر انور اقبال قریشی اور باقرالصدر شہید نے کیا تھا۔ پھر جدید معاشیات کے ماہرین میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر محمد عزیر، ڈاکٹر محمود ابوسعود نے ابتدائی کام کیا، جسے گذشتہ ۵۰برسوں میں محققین کی ایک ٹیم نے سنوارنے اور مزید آگے بڑھانے میں قابلِ قدر حصہ لیاہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمدنجار، ڈاکٹر ساحی محمود، ڈاکٹر عمرچھاپرا، ڈاکٹر صدیق ضریر، ڈاکٹر معبد جرحی،  ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر محمد انور، ڈاکٹر محمد فہیم خان، ڈاکٹر محمد عارف اور درجنوں اہلِ علم نے بڑی مفید خدمات انجام دیں۔ کم از کم چار درجن ایسی تحقیقی کتابیں شائع ہوئی ہیں، جن میں نئے نظام کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض کے مصنّفین کو ’اسلامی ترقیاتی بنک کا ایوارڈ‘ اور ’شاہ فیصل ایوارڈ‘ بھی مل چکا ہے۔

پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ، جو معاشیات اور بنکاری کے ماہرین کی رپورٹ پر مبنی ہے، ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس رپورٹ میں جو ۱۹۸۰ء میں پیش کی گئی تھی، پاکستان ہی نہیں کسی بھی جدید ملک کی داخلی معیشت کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا بڑا حقیقت پسندانہ ’نقشۂ کار‘ پیش کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کی صدارت میں مرکزی بنک کی ایک کمیٹی نے بھی اسی موضوع پر ۱۹۸۱ء میں کام کیا اور اس کا دیا ہوا نقشہ بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے نقشے سے بہت قریب ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹ پر مارچ ۱۹۸۱ء ہی میں ایک عالمی سیمی نار میں بحث ہوئی اور اس کی سفارشات کی بحیثیت مجموعی توثیق کی گئی، نیز مزید کچھ سفارشات کی گئیں جو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کی طرف سے Money and Banking in Islam کے نام سے شائع ہوئی ہیں۔ ۱۹۸۹ء میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس نے ایک ورکشاپ اس موضوع پر منعقد کی کہ سرکاری لین دین سے سود کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے؟ اس ورکشاپ کی رپورٹ (Report of the Workshop on Elimination of Interest on Govt. Transactions) شائع ہوچکی ہے۔

اس کے بعد جون ۱۹۹۲ء میں ’کمیشن فار اسلامائزیشن آف اکانومی‘ نے اپنی عبوری رپورٹ بنکاری کو سود سے پاک کرنے کے بارے میں دی جسے ابھی تک شائع نہیں کیا گیا بلکہ قانون کے مطابق سینیٹ اور اسمبلی تک میں پیش نہیں کیا گیا۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے ایک سیمی نار معیشت سے سود کو ختم کرنے کے بارے میں منعقد کیا، جس میں معاشیات اور بنکاری کے تقریباً ایک سو ماہرین نے شرکت کی۔ اس کی رُوداد کے بھی متعدد ایڈیشن ۱۹۹۴ء کے بعد Elimination of Riba from the Economy کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔

یہ سارا کام پاکستان کے حالات کی روشنی میں متبادل نظام کا ایک واضح خاکہ پیش کرتا ہے اور ہرشعبے کے لیے متبادل تجویز کرتا ہے۔ بیرونی قرضوں کے بارے میں بھی کام ہوا ہے۔ اس کے لیے مندرجہ بالا رپورٹ اور خودانحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں واضح رہنمائی موجود ہے، بلکہ ’خودانحصاری کمیٹی‘ کی رپورٹ میں تو ایک طرف اس قانون کا خاکہ موجود ہے جو اس کام کو انجام دینے کے لیے درکار ہے اور دوسری طرف باقاعدہ  Econometric Model کی مدد سے تین سال میں معیشت سے سود کو ختم کرنے کا پورا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن اصل مشکل یہ ہے کہ متبادل نظام کا مطالبہ کرنے والے نہ ان چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ان پر عمل کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اگر ان کے ذہنوں میں ان پیش کردہ خطوط کے بارے میں کوئی اعتراضات اور خدشات ہیں تو ان پر گفتگو نہیں کرتے جس سے ان کی عدم توجہی اور غیرسنجیدگی کا پتا چلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس تمام کام میں جو سفارشات کی گئی ہیں وہ ان کے ذوق یا خواہش کے مطابق نہیں ہیں،  اس لیے وہ ان باتوں کے وجود کا انکار کر دیتے ہیں اور رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ متبادل کہاں ہے؟

ہم نے اُوپر صرف اس کام کی طرف اشارہ کیا ہے جو پاکستان میں ہوا ہے، باقی مسلم ممالک میں بھی خصوصیت سے عرب دُنیا، ملایشیا، ترکیہ اور خود مغرب کی یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں جو کام اس وقت ان موضوعات پر ہوچکا ہے اور جسے مغرب کی جامعات نے بھی اعلیٰ تحقیقاتی کام شمار کیا ہے، اس کی فہرست اور تعارف ایک الگ مقالے کا محتاج ہے۔

بات صرف علمی کام اور نظری طور پر متبادل نظام کی نقشہ گری تک محدود نہیں ہے، الحمدللہ، پچھلے ۶۰برسوں میں بلاسود بنکاری محض ایک نظریہ نہیں رہی ہے بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت بن چکی ہے۔ بلاشبہہ ابھی بہت سا کام کرنا ہے اور بڑے مراحل طے کرنا ہیں، مگرجو کچھ حاصل کیا جاچکا ہے وہ اسلامی اصول بنکاری کا لوہا منوانے کے لیے کافی ہے۔ بالکل نچلی اور عوامی سطح پر تو بلاسودی انداز میں بچتوں کو جمع کرنے اور وسائل کی فراہمی کا کام ہمیشہ سے ہوتارہا ہے، انفرادی سطح ہی پر نہیں اداروں کی سطح پر بھی ہوتا رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب نے حیدرآباد دکن میں پہلی جنگ عظیم کے بعد کے تجربات پر تحقیقی کام کیا تھا اور دکھایا تھا کہ کس طرح کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری اس نظام کے ذریعے ہورہی تھی۔

پچھلے ۶۰برسوں میں جو تجربات ہوئے ہیں، ذیل میں ان کی چند مثالیں پیش کرتے ہوئے، ہمیں یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بنک ہراعتبار سے معیاری اسلامی اپروچ پر استوارہیں، لیکن یہ بات بھی ضرور کہہ سکتے ہیں کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود ان بنکوں نے دُنیا کے سامنے یہ مثال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ بلاسودی بنکاری ممکن ہے۔ ان مثالوں میں چند کا تذکرہ یہ ہے:

lمصر کا ’مت غمر بنک‘ (Mit Ghamr Bank)  ہے، جو ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۷ء تک شرعی اصولوں کے تحت اسلامی بنکاری کے ابتدائی تجربے کے طور پر کام کرتا رہا۔ دراصل صدرناصر نے سیاسی خطرات محسوس کرتے ہوئے اسے بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد ’ناصر سوشل بنک‘ (۱۹۷۱ء) کی شکل میں اس پروگرام کو نیا رُوپ دیا گیا۔ یہ ادارے نہایت کامیابی سے دس بارہ سال چلتے رہے جس پر مغرب کے محققین نے تحقیق کی اور انھیں کامیاب ابتدائی تجربات قرار دیا۔ (ملاحظہ ہو: T. Wholus Seharf: Arab of Islamic Banks: New Business Partners for  Developing Countries، مطبوعہ پیرس، OECD،  ۱۹۸۳ء)

  • اسی طرح ملایشیا میں ۱۹۶۳ء میں حاجیوں کے لیے بنک سیونگ کارپوریشن قائم ہوئی، جسے ۱۹۶۹ء میں تبوک حاجی (Tabuk Haji) کے نام سے باقاعدہ ایک بنکاری کا ادارہ بنا دیا گیا، جس میں دس لاکھ کھاتہ داروں نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ لگایا ہے۔ اس کے تحت پانچ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور نہایت کامیابی سے بنکاری اور حج کے انتظامات کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
  • ۱۹۷۵ء میں پہلاباقاعدہ تجارتی بنک Dubai Islamic Bank کے نام سے دوبئی میں قائم ہوا۔ اسی سال ۲۸ اسلامی ملکوں کے تعاون سے جدہ کا Islamic Development Bank قائم ہوا، جس کے اب ۵۰ مسلم ممالک ممبر ہیں۔ ان باب کشا بنکوں کے بعد گذشتہ بیس سال میں سو سے زیادہ بلاسودی بنک قائم ہوئے۔ دو بڑے مالیاتی گروپ DMI اور Al-Baraka متعدد ملکوں میں بلاسود بنکاری کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
  • اخوت فائونڈیشن پاکستان نے بالکل عام آدمی کی سطح پر لاکھوں افراد کو بلاسود قرضے فراہم کیے ہیں اور یہ تجربہ چھوٹے درجے کی سرمایہ کاری (Micro-financing) کی تاریخ میں ایک کامیاب ترین تجربہ ہے، جس میں قرض کی واپسی کی شرح ۹۵ فی صد سے زیادہ ہے۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف اسلامک بنکس کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ (نومبر ۱۹۹۶ء، The Present State of Islamic Banks) کے مطابق اس وقت خلیجی کونسل کے ممالک میں ۱۷، بقیہ مشرق وسطیٰ میں ۲۲، افریقا میں ۳۰، جنوبی ایشیا میں ۴۷ اور یورپ اور امریکا میں چار بلاسودی بنک یا مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان بنکوں کا کُل سرمایہ ۶ بلین ڈالر ہے، ان میں موجود امانات (deposits)  ۷۷ بلین ڈالر اور ان کے کُل اثاثے (assets ) ۱۶۶بلین ڈالر ہیں۔ سرمائے کی تقسیم کے اعتبار سے مشرقِ وسطیٰ کے بنکوں کا حصہ ۵۵ فی صد، خلیجی کونسل کے ممالک کا حصہ ۲۳ فی صد اور جنوب ایشیا کا ۱۵ فی صد ہے۔ ان بنکوں کی کُل شاخیں اس وقت ۲۱ہزار ہیں اور ان میں دو لاکھ ۷۱ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں کے operations کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے وسائل کا ۳۰ فی صد اندرونی تجارت، ۱۹ فی صد صنعت، ۱۳فی صد سروس سیکٹر، ۱۲ فی صد اراضی اور املاک، اور ۸ء۵ فی صد زراعت کی مالی ضروریات پورا کرنے پر صرف ہورہا ہے۔

ایوان ٹریور (Evan Traver) نے ۱۵مارچ ۲۰۲۲ء کو لکھا: ’’اس وقت ۵۲۰ بنک اور ۱۷ہزار میوچل فنڈز، اسلامی معاشی اصولوں کے تحت کسی نہ کسی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے ۲۰۱۹ء کےدرمیان ایک اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر سے بڑھ کر ان کا حجم ۲ء۸ ٹریلین ہوگیا۔ اور اندازہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں یہ ۳ء۷ ٹریلین تک پہنچ جائیں گے‘‘۔ (Investopedia)

کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان تجربات کی موجودگی میں ہمارے اربابِ سیاست متبادل نقشہ طلب کر رہے ہیں۔

انسدادِ سود کا لائحہ عمل اور حکومتی روش

تینوں اہم میدان:

  • سود کی حقیقت اور تصور کی وضاحت
  • نظری طور پر بلاسود بنکاری اور مالیاتی نظام کے نقشۂ کار کی صورت گری اور
  • کمرشل اور انوسٹمنٹ بنکاری کے میدان میں عملاً بلاسودی اداروں کا قیام اور ان میں کچھ کی چالیس برس پر پھیلی ہوئی کوششوں میں جو کچھ حا صل کیا گیا ہے اس کے ایک سرسری جائزے کے بعد ضروی معلوم ہوتا ہے کہ ہم تعین کے ساتھ یہ بھی بتائیں کہ پاکستان میں یہ تجربہ کیوں کامیاب نہ ہوسکا اور گاڑی کس طرح پٹڑی سے اُتری؟

تفصیل میں جانے کا موقع نہیں لیکن مختصراً سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جو حکمت عملی ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور دوسرے اسلامی معاشیات کےماہرین نے پیش کی تھی، اس پر پہلے قدم (فروری ۱۹۷۹ء) کے بعد کوئی حقیقی پیش رفت نہ ہوسکی۔ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ اور ہم سب کی تجویز یہ تھی کہ ایک متعین تدریج کے ساتھ بنکاری ہی نہیں، پوری معیشت کو سود سے پاک کیا جائے۔ سب سے پہلے ان اداروں سے آغاز ہو جن کے نظام کوفوراً تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہم نے نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ (NIT)، آئی سی پی کا میوچل فنڈ اور ’ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن‘ (HBFC) کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے صنعت کے لیے Banker's Equityکے قیام کا منصوبہ دیا اور زرعی بنک، سمال انڈسٹریز کارپوریشن، کوآپریٹوز اور ان اداروں کو پابند کیا کہ چھوٹے کاشتکار، چھوٹے تاجر اور چھوٹی صنعت کو سرمایہ فراہم کریں، تاکہ بنیادی سطح (grass-root ) پر  عام آدمی کو سب سے پہلے بلاسود سرمایہ کاری کی سہولت میسر ہوسکے، جس سے روزگار کے مواقع بھی عام آدمی کو میسر آسکیں گے اور غربت وافلاس کو دُور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

دوسرے مرحلے پر جسے ایک سال کے اندر شروع کرنے کا ہم نے منصوبہ پیش کیا تھا، اس میں سرکاری شعبے سےسود کو ختم کرنے کا لائحہ عمل دیا تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ہماری رائے میں اصل ساہوکار مرکزی حکومت اور ایک حد تک صوبائی حکومتیں بن گئی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے جس سیکٹر کو سود سے پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی سرکاری سیکٹر ہے۔ یہی بات اسلامی نظریاتی کونسل نے کہی تھی اور یہی موقف خودانحصاری کمیٹی کا تھا۔ لیکن اس سیکٹر کو نہ صرف یہ کہ اس پورے زمانے میں ہاتھ تک نہیں لگایا گیا بلکہ اس میں سودی کاروبار گذشتہ ۱۵سال میں دگنا اور تین گنا ہوگیا ہے۔

ہماری تجویز تھی کہ پہلے تجارتی بنکوں کی اصلاح ہو اور اس میں اصل توجہ اثاثہ جات (Bank Assets) کو اسلامی احکام سے ہم آہنگ کرنے کی ہو، تاکہ سرمائے کے استعمال کی راہیں کھلیں اور سود سے پاک ہوکر کھلیں، جب کہ ڈیپازٹس کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا نسبتاً آسان تھا۔ حکومت نے ترتیب اُلٹ دی اور ساری توجہ ڈیپازٹس کے نظام کو بدلنے پر صرف کی اور اثاثہ جات کی اصلاح اور اس کے لیے جس قانونی ڈھانچے کی ضرورت تھی وہ نہ بنایا۔

ہماری تجویز تھی کہ کمپنی لا، ٹیکس کے نظام، کارپوریٹ لا اتھارٹی،اسٹاک ایکسچینج ان سب کو اس طرح تبدیل کیا جائے کہ نیا معاشی انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ اس کے ساتھ ہی قانونی طور پر سود کو ختم کیا جائے۔ تمام تحفظات اور محرکات جو سود کو حاصل ہیں وہ نفع و نقصان پر مبنی سرمایہ کاری کو دیئے جائیں۔ بنک اور مالیاتی اداروں کے عاملین کی تربیت کے لیے مناسب ادارے قائم کیے جائیں اور مؤثر انتظامات کیے جائیں۔ نیز عوام کی تعلیم کا انتظام ہو، تاکہ حلال و حرام سے واقفیت ہو اور نئے نظام کے لیے عوامی تائید حاصل کی جاسکے۔اسی طرح وطن عزیز میں اسلامی بنکاری کے عنوان سے جو اور جتنی پیش رفت ہورہی ہے، اس کو شریعت کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اطلاقی پہلو کو شریعت کی بنیاد پر پختگی سے استوار کیا جائے، نہ کہ رسمی طور پر تذکرہ کیا جائے۔

اسٹیٹ بنک کو اس پورے کام میں ایک مرکزی کردارادا کرنا تھا لیکن حکومت نے ان میں سے کوئی اقدام نہ کیا۔ اصل اسکیم کو گڈمڈ کرکے تجارتی بنکوں میں PLS اکائونٹ کھولے اور مارک اَپ کے نام پر سود کو نئی زندگی عطا کردی۔ نیز حکومت پاکستان خود اس زمانے میں مسلسل سودی بانڈ اور سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی، ملک میں بھی اور زرمبادلہ کے لیے بھی، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، حتیٰ کہ ۱۹۹۷ء میں ’’قرض اُتارو، ملک سنوارو‘‘ اسکیم کے تحت حکومت نے جو قرضے حاصل کیے، ان کا ۹۰ فی صد بھی سودی بنیاد ہی پر تھا۔

اصل رکاوٹ ___ عزم کی کمی

یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل رکاوٹ اربابِ اقتدار کے فکرونظر کا بگاڑ اور ارادہ و عزم کی کمی ہے اور جب تک یہ درست نہ ہوں محض تجاویز اور متبادل صورتوں کے انبار لگانے سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ سرکاری رپورٹوں، کمیشنوں اور کمیٹیوں کا تو یہ حال ہے کہ رپورٹیں موجود ہیں  جن پر کوئی عمل نہیں ہوتا اور نئی کمیٹیاں قائم کر دی جاتی ہیں، اور اس بڑھیا کی طرح اپنی محنت ضائع کی جاتی ہے جو سوت کاتتی ہے اور پھراسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے: وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْكَاثًا۝۰ۭ (النحل ۱۶:۹۲)۔ بلاشبہہ تحقیقی کام کی بھی ضروت ہے اور عوام کی تعلیم و تربیت کی بھی، مردانِ کار کی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہیے لیکن سب سے پہلے دل و نگاہ کی اصلاح اور مؤثر سیاسی عزم (Political Will) کی ضرورت ہے جن کے بغیر کوئی منزل سر نہیں کی جاسکتی۔

صرف عبرت کے لیے اور ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے جو متبادل کا گلا کرتے ہیں اور حقائق سے صرفِ نظر، ایک اقتباس ورلڈ بنک کے ایک برادر ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کی رپورٹ سے دے دوں جو میں نے خود انحصاری کمیٹی کی رپورٹ میں بھی دیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایک اسٹیج پر یہ عالمی مالیاتی ادارے اس امر پر غور کر رہے تھے کہ اگر پاکستان سود کو ختم کر دیتا ہے اور حقیقی اسلامی بنکاری اور سرمایہ کاری سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کرنے کو تیار نہیں، تو پھر وہ کس طرح اپنے معاملات کو اس سے ہم آہنگ کریں؟ لیکن داد دیں ہماری قیادت کو کہ اس نے ان کو یقین دلا دیا کہ اسلام کی باتیں صرف دل بہلانے کے لیے ہیں، عمل کے لیے نہیں، اس لیے ان کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو IFC کی رپورٹ نمبر IFC/P-587، مؤرخہ دسمبر ۱۹۸۷ء:

A change to Islamic modes of financing has been considered by IFC but this would be contrary to the Government (of Pakistan) intentions for foreign loans. Adoption by a foreign lender of Islamic instruments could be construed as undermining Governments policy to exempt foreign lender from this requisit.

انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن نے اسلامی سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپنانے کے بارے میں غور کیا، لیکن یہ بیرونی قرضوں کے بارے میں حکومت (پاکستان) کے منشا کے خلاف ہوتا۔ اگر بیرونی قرضہ دینے والے اسلامی طریقے اور ذرائع اختیار کرتے ہیں تو اسے اس سرکاری پالیسی کو غتربود کرنے کی کوشش سمجھا جائے جس کے تحت بیرونی قرض دینے والوں کو ان (اسلامی) مطالبات سے مستثنیٰ رکھا جارہا ہے۔

اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بورڈ آف گورنرز تو پاکستان کے دستور کی اسلامی دفعات خصوصیت سے، وفاقی شرعی عدالت سے، سود کے بارے میں اختیارات کی تحدید کے ختم ہونے کے امکان کی روشنی میں اپنے رویے میں تبدیلی کے لیے فکرمند ہے، مگر ہمارے سرکاری حکام ان کو تسلی دیتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں، ہم دستور کو بھی بدل دیں گے:

We have been advised by senior Government officials that steps will be taken to rectify this situation in all probability.

ہمیں سینیرسرکاری افسروں کے ذریعے مطلع کیا گیا ہے کہ پورا امکان ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔

یہ ہے ہمارے حکمرانوں کا ذہن اور کردار۔ ہمیں ہوّا دکھایا جاتا ہے کہ بیرونی مالیاتی ادارے ہمارا حقّہ پانی بند کردیں گے اور ملک تباہ ہوجائے گا اور اگر وہ اسلامی بنکاری کے اصولوں کو اختیار کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو روک دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دستور میں بھی ترمیم کرڈالی جائے گی مگر سود کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دیں گے، وہ شیرمادر کی طرح حلال اور رواں رہے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ  اللہِ  وَرَسُوْلِہٖ ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو اور اس جنگ کے نتیجے میں صرف یہی تباہ نہیں ہورہے، پورا ملک اور پوری قوم عذاب میں مبتلا ہے۔

ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ پہلے خلوصِ دل سےاللہ اور اس کے رسولؐ کے خلاف اس جنگ کو بند کرنے کااعلان کرو۔ سیزفائر کے بغیر کسی اور اقدام کا کیا سوال؟ ایک محفوظ اور مستقل راستہ تو دستور میں ترمیم ہے، مگر دستوری ترمیم تو نہ کی جاسکی، البتہ اس کے بالکل اُلٹ وفاقی شرعی عدالت کےفیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کردی گئی۔ طویل عرصے بعد وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنایا تو پھردوبارہ بنکوں کی جانب سے اپیل کرا دی گئی۔

یہ ایک بڑا ہی سفاکانہ کھیل ہے، جسے حکمران اور دولت مند طبقے کھیل رہے ہیں۔ انھیں آخرت کی جواب دہی کا خیال کرنا چاہیے اور ہم وطنوں پر معاشی ظلم و ستم کی حکمرانی کو ترک کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ غلطی اورفروگزاشت کو معاف کرنے میں بڑا غفور و رحیم ہے لیکن بغاوت اور سرکشی کے باب میں اس کی گرفت بھی بڑی سخت ہے: اِنَّ  بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ۝۱۲ۭ  (البروج ۸۵:۱۲)۔ آیئے، بندگی اور اطاعت کا راستہ اختیار کریں، پھر ہرمشکل آسان ہوجائے گی اورہربند دروازہ کھل جائے گا۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایمان کے ارکان و اصول میں سے ایک اہم رکن ہے۔ اس کے وجود پر ایمان کا وجود قائم ہے۔ کوئی مسلمان اس وقت تک کامیاب مومنوں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان، اپنے والدین اور اولاد اور  دنیا کے تمام انسانوں اور جملہ محبوب چیزوں اور خواہشوں کے مقابلے میں زیادہ محبوب نہ بنا لے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن عظیم خصوصیات اور اعلیٰ اخلاق و شمائل سے نوازا اور آپؐ کے ذریعے امت کے لیے جن مختلف قسم کی بھلائیوں اور برکتوں کا دروازہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے ہم بندوں پر جو عظیم احسان فرمایا، ان سب کا عقلی اور شرعی تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان کے دل میں آپؐ کی محبت دنیا کے تمام انسانوں، بلکہ خود اس کی جان کے مقابلے میں غالب اور راجح ہو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی آیت قُلْ  اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ (التوبہ ۹:۲۴﴾) میں ایسی آٹھ چیزوں کا ذکر فرمانے کے بعد جن پر انسانی رشتوں کی بنیاد اور انسان کی مصلحتوں اور اس کی معیشتوں کا دارومدار اور مکانات جنھیں انسان موسم کے شدائد سے بچنے اور عزت اور آبرو کے ساتھ رہنے سہنے کے لیے تعمیر کرتا ہے۔ یہ ساری چیزیں جو اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور انسان کے دل میں ان کی محبت بھی فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے، اگر یہ تمام اہم اور ناگزیر اشیاء بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کسی شخص کی نظر میں زیادہ محبوب ہوں اور اللہ و رسولؐ کی محبت کے تقاضوں کی تکمیل میں حارج ہوتی ہوں، تو اسے فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ۝۰ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ۝۲۴ۧ (التوبہ ۹:۲۴﴾) ’’انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے، اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا‘‘ کے ذریعے سخت قسم کی تہدید اور وارننگ دی جا رہی ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

فداک ابی و اُمی

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے مذکورہ بالا آیت میں رشتے داروں، کسب و معاش کے ذرائع اور اِمکانات کی محبت کی مذمت اور ان سے کنارہ کش ہونے کی تلقین نہیں فرمائی۔ کیوں کہ یہ چیزیں زندگی کے لوازمات میں سے ہیں۔ البتہ اللہ و رسولؐ پر ایمان لانے کا تقاضا یہ بتایا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت ان تمام اشیاء پر مقدم ہونی چاہیے۔ یہی وہ مفہوم ہے جسے’احب‘ اسم تفضیل کے صیغے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسی معنی و مفہوم کی حدیث صحیحین میں بھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (صحیح البخاری ومسلم، کتاب الایمان، باب حب الرسول ؐ، حدیث:۱۴)تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے والد سے، اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

 یہ حدیث تھوڑے سے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ صحیح بخاری میں ابو ہریرہؓ سے بھی مروی ہے۔ بہر حال یہ حدیث بھی واضح طور پر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور یہ کہ رسول کریمؐ کی جو محبت شریعت میں مطلوب ہے وہ راجح اور غالب محبت ہے، اور قلبِ مسلم میں جب تک کہ یہ محبت، والدین، اولاد، اور دنیا کے تمام انسانوں کی محبت پر غالب نہ ہو وہ کامل الایمان مومن اور مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ اس حدیث میں جس ایمان کی نفی کی گئی ہے یا جس محبت پر ایمان کو موقوف کیا گیا ہے وہ ایمان واجب ہے۔ شریعت میں جہاں کہیں بھی ایمان، اسلام اور دین وغیرہ امور کی نفی کی گئی ہے وہ دراصل واجب کے ترک کے سبب سے ہے۔ کسی مستحب عمل کے چھوڑنے پر ایمان کی نفی نہیں کی گئی۔ایمان واجب کا مطلب یہ ہے کہ اس کے فقدان پر بندہ عذاب کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ لہٰذا جس کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غالب محبت نہ ہو گویا اس نے ایمان کے واجبات میں سے ایک واجب کو ترک کر دیا اور ایسا شخص عذاب الٰہی کا مستحق ہے۔ اسی نکتے کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموعہ الفتاوٰی ۷/۱۵ میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ محبت رسولؐ کے مذکورہ حکم اور مفہوم کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یا رسولؐ اللہ! مجھے آپ میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَاوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتَّی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ، ’’نہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک میں تمھیں خود تمھاری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ اب آپؐ مجھے میری جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آ پؐ نے فرمایا: الآنَ یَاعُمَرُ، ’’اے عمر! اب تم مومن ہو‘‘۔( صحیح البخاری مع فتح البخاری، کتاب الایمان ﴾ والنذو، حدیث: ۶۲۶۹)

اس حدیث کی تشریح میں علامہ ابو سلیمان الخطابی لکھتے ہیں کہ انسان کا اپنے نفس سے محبت کرنا طبعی اور فطری امر ہے اور دوسرے سے محبت کرنا متعدد اسباب ووجوہ کی بنا پر اختیاری معاملہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ اختیاری محبت کو فطری محبت پر غالب کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پر اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: حضرت عمرؓ کا پہلا قول تقاضائے فطرت کے مطابق تھا، پھر جب انھوں نے غور وفکر سے کام لیا تو ان پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری جان سے زیادہ محبوب اور قیمتی ہیں۔ کیونکہ وہی دنیا و آخرت کی ہلاکتوں سے میرے نفس کو نجات دلانے کا سبب ہیں۔ لہٰذا یہ اختیاری محبت اس لائق ہے کہ اسے فطری محبت پر ترجیح دی جائے اور اب وہ برملا کہہ اٹھے: پس واللہ! اب آپؐ مجھے میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری)

محبت اگرچہ قلبی شئے ہے، لیکن اس کے اثرات اعضاء و جوارح پر بھی قولاً و عملاً ظاہر ہوتے ہیں۔ چوں کہ اظہار محبت میں لوگ عام طور پر زبانی جمع خرچ یا دعووں اور نعروں سے کام لیتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی آڑ میں مختلف قسم کی بدعات اور غلو آمیز حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ محبتِ رسولؐ کے دعوے کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے لیے کچھ شواہد اور واضح تقاضے معلوم کیے جائیں، تاکہ محبتِ صادق اور محبتِ کاذب کے درمیان تمیز آسان ہو۔ محبتِ رسولؐ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند واضح علامات او رروشن تقاضے باختصار یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔

محبتِ رسولؐ  کی کسوٹی

محبت جیسی بھی ہویاجس سے بھی کی جائے اس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہوتا ہے کہ محب اپنے محبوب کی تمام باتوں سے موافقت کرتا ہو۔ اس کے بغیر دعویٰ ٔ محبت جھوٹا اور کھوکھلا سمجھا جاتا ہے۔ اس قاعدے کی بنیاد پر بہ آسانی یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جس پر ہمارا ایمان ہے، اطاعت و اتباع کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا محبتِ رسولؐ کی پہلی دلیل اور روشن شہادت اتباع اور پیروی ہے۔ اس کے بغیر محبت شرعیہ کا تصور بالکل بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع و پیروی کو محبتِ الٰہی کی دلیل بنایا ہے۔لہٰذا یہی اتباع و پیروی محبتِ رسولؐ کی بدرجۂ اولیٰ دلیل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللہُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ۝۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝۳۱ (اٰل عمرٰن ۳: ۳۱﴾) اے نبیؐ، لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔

یہ آیت تمام دعوے دارانِ محبت کے لیے ایک کسوٹی اور معیار ہے۔ محبتِ رسولؐ کا مدعی اگر متبع سنت ہے تو یقیناً وہ اپنے دعوے میں سچا ہے اور اسے بطور انعام اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوگی، ورنہ وہ جھوٹا اور اس کا دعویٰ محض فریب ہے۔ اس لیے بعض علماء اور حکماء نے کہا ہے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ محب سے محبوب بن جائے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسولؐ سے سچی محبت کرکے اللہ کا محبوب بن جائے۔ یہ بڑا اونچا مقام ہے ۔اتباعِ رسولؐ کی اہمیت پر بہت سی آیات و احادیث وارد ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ دارین میں ایک مسلمان کی سعادت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی پر موقوف ہے۔ اس کے بر عکس اس کی شقاوت و ہلاکت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپؐ کے طریقہ کی مخالفت کا نتیجہ ہے۔

رسولؐ اللہ کی تعظیم و توقیر

مقام نبوت و رسالت اس امر کا متقاضی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعظیم و توقیر، علم و معرفت کے تابع ہوتی ہے۔ جس کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت جس قدر زیادہ معلومات اور معرفت تامہ حاصل ہوگی وہ اسی قدر آپؐ سے سچی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شایانِ شان عزت کرے گا۔ اسی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زندگی بسر کی اور آپؐ کو قریب سے دیکھا، دنیا کے تمام انسانوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اپنے رسولؐ سے محبت تھی اور انھوں نے شیفتگی، والہانہ عقیدت اور جاں نثاری کی جو مثالیں پیش کیں، ہم ان کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کر سکتے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم قلبی، لسانی اور اعضاء و جوارح تینوں ذریعے سے ہونی چاہیے۔ قلبی تعظیم یہ ہے کہ آپؐ کے تئیں یہ عقیدہ دل میں راسخ ہو کہ آپؐ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور آخری رسولؐ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے مقام کو اعلیٰ و ارفع اور آپؐ کے ذکر کو بلند کیا ہے اور تمام مخلوقات پر آپؐ کو فضیلت بخشی ہے۔ قلبی تعظیم کا یہ بھی لازمی تقاضاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بندۂ مومن کے دل میں اس کی اپنی جان اور اعلیٰ ترین رشتے داروں، والدین و اولاد اور دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہو۔ جب بھی دو محبتوں کا ٹکراؤ ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب اور دوسری محبت مغلوب ہو جائے۔

زبان و بیان سے تعظیم یہ ہے کہ آپ ؐکی شایان شان تعریف و توصیف کے کلمات کہے جائیں۔ اُن القاب و آداب سے آپ ؐکو ملقب کیا جائے جن سے خود آپ ؐنے اپنی ذات کو ملقب کیا ہے اور ان الفاظ سے آپ ؐکی ثنا خوانی کی جائے جو رب العالمین نے آپؐ کی شان میں استعمال کیے ہیں۔ اس معاملے میں مبالغہ آمیزی اور تقصیر و کوتاہی دونوں طریقوں سے پرہیز کیا جائے۔ لسانی تعظیم کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام پڑھنا بھی داخل ہے اور خطاب کرنے یا آپؐ کا نام لینے میں عمدہ اور ثابت الفاظ مثلاً رسول اللہ، خاتم الانبیاء والمرسلین، امام الانبیاء ، رحمتہ للعالمین وغیرہ القاب و آداب استعمال کیے جائیں۔ اور اعضاء و جوارح کے ذریعے ہونے والی تعظیم میں آپؐ کی خالص پیروی، ان چیزوں سے محبت جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی اور ان چیزوں سے نفرت جن سے آپ ؐکو نفرت تھی۔ نیز آپؐ کے دین کے اظہار و غلبہ کی کوشش، شریعت کی نصرت و حمایت اور دفاعِ دین کا اہم فریضہ بھی شامل ہیں۔

گویا تعظیم نبیؐ کی اساس اور بنیادی قاعدہ یہی ہے کہ آپؐ کی رسالت پر ایمان لایا جائے، آپؐ کی خبر کردہ باتوں کی تصدیق کی جائے، آپؐ کے اوامر کی بجاآوری اور منہیات سے اجتناب کو لازم جانا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اس طریقے پر کی جائے جو آپ ؐسے ثابت ہے اور آپؐ کی باتوں پر کسی دوسرے فرد و بشر کی باتوں کو مقدم نہ کیا جائے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور بلندپایہ کیوں نہ ہو۔ نہ کوئی عالم و امام اور نہ کوئی حاکم وبادشاہ ۔غرض دنیا کا کوئی فرد اس لائق نہیں ہے کہ اسے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم پلہ قرار دیا جائے۔ چہ جائیکہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر مقدم سمجھا جائے۔ اسی مذکورہ اساس اور بنیادی قاعدہ سے انحراف کے نتیجے میں غلویا تقصیر پیدا ہوتی ہے اور امت جادۂ مستقیم سے ہٹ کر ضلالت و گمراہی کی پگڈنڈیوں پر چلنے لگتی ہے۔ کوئی آپؐ کی صداقت، امانت اور عدالت پر زبان طعن دراز کرتا ہے۔ جسے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ معلوم نہیں وہ اپنی گفتگو اور اپنی تحریر میں بعض حکمرانوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے متصف مانتا ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک مفکر و دانشور باور کرتا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو رو جفا میں یہ بھی داخل ہے کہ زبانی یا تحریری طور پر آپؐ کے نام کے ساتھ ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کہا اور لکھا نہ جائے۔ بعض بڑے علماء بھی صرف ’ص‘ یا ’صلعم‘ لکھ کر گزر جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کی ستم ظریفی ہے اور حدیث میں اسے بخل کا نام دیا گیا ہے۔ چنانچہ سنن ترمذی، کتاب الدعواۃ، باب ماجاء فی فضل التوبہ و الاستغفار میں حضرت ابوہریرہؓ اورحضرت علی ؓ سے تھوڑے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ مروی ہے: اَلْبَخِیْلُ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہٗ  فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیَّ ’’وہ شخص بخیل ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر صلوٰۃ نہ بھیجی‘‘۔ اسی طرح کتب سیرت و شمائل نبویؐ اور سنن نبویہؐ کے مطالعے سے عام مسلمانوں کی دوری بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو روجفا اور آپؐ کی عدم تعظیم و توقیر کا سبب ہے۔ دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اندر مبالغہ آرائی اور آپؐ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرنے کا گھناؤنا اور شرکیہ عمل بھی باعث صد افسوس ہے، امت کا ایک بڑا طبقہ اس مرض کے اند ر مبتلا ہے۔ اس کی نظر میں اللہ اور رسولؐ کے درمیان کوئی فرق نہیںہے اور رسولؐ کے دم سے ہی کائنات کا وجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری امت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کو واجب قرار دیا ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود و قیود کے اندر ہو۔ اس معاملے میں غلو اور تقصیر دونوں سے پرہیز لازم ہے۔

حضرت عمر ؓ سے مروی ہے انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا :

لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطَرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ اِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ  (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، حدیث:۳۲۷۷) ﴾،مجھے میرے مقام سے آگے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم ؑ کے ساتھ غلو کا معاملہ کیا۔ میں تو صرف ایک بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔

اسی مفہوم کی روایت مسند احمد میں حضرت انسؓ سے بایں الفاظ وارد ہے:

اَنَـا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللّٰہِ ،  عَبْدُاللّٰہِ   وَرَسُوْلُہٗ  وَاللّٰہِ  مَا اُحِبُّ اَنْ تَرْفَعُوْنِیْ   فَوْقَ مَنْزِلَتِیْ الَّتِیْ اَنْزَلَنِی اللّٰہُ  (مسنداحمد، من مسند بنی ہاشم ، مسندانس بن مالک، حدیث:۱۲۳۲۶) میں محمد بن عبداللہ ہوں، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ واللہ! میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مقام و مرتبہ سے اونچا دکھاؤ جس مرتبہ پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائق کیا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و تعظیم کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰكَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّـرًا وَّنَذِيْرًا۝۸ۙ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ۝۰ۭ وَتُسَـبِّحُوْہُ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۹ (الفتح ۴۸: ۸،۹﴾) اے نبیؐ، ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بناکر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو، تم اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایمان لائو اور اُس کا (یعنی رسولؐ کا) ساتھ دو، اُس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو۔

اس آیت میں انذار و تبشیراور امداد واستعانت کے ذریعے تقویت اور توقیر و تعظیم کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور تسبیح کا اللہ تعالیٰ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب و توقیر کے تعلق سے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۂ حجرات کی ابتدائی آیات چند اہم اخلاقی پہلوؤں اور تربیتی توجیہات پر مشتمل ہیں۔ پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے قول اور اپنی رائے اور سمجھ کو ترجیح نہ دی جائے۔ دین میں کسی قسم کے اضافے سے پرہیزکیا جائے، جسے علمی اصطلاح میں ’بدعت‘ کہتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز اُونچی نہ کرو۔ یہ حبط ِعمل کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ادب حیاتِ نبویؐ میں بھی مطلوب تھا کہ آپؐ کی مجلس میں وقار و سکون سے بیٹھنااور ادب و تواضع کے ساتھ پست آواز میں گفتگو کرنا لوگوں کے لیے ضروری تھا۔ اسی طرح بعد ممات بھی اُمت کے ہر فرد سے یہ ادب و احترام مطلوب ہے۔اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس یا آپؐ کی مسجد میں اُونچی آواز میں گفتگو کرنا جور و جفا اور تعلیم ربانی کے خلاف ہے۔ کیوںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب و احترام بعد ممات بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح آپؐ کی حیات میں واجب تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سائب بن یزید ؓ سے مروی ہے :

 میں مسجد ﴿نبویؐ میں کھڑا تھا، مجھے ایک شخص نے کنکری مار کر متوجہ کیا دیکھا تو عمر بن خطاب ؓ تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کومیرے پاس لے آؤ جو مسجد نبویؐ کے ایک گوشہ میں زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ میں انھیں ان کے پاس لے آیا۔ حضرت عمر ؓ نے   ان دونوں سے دریافت کیا: تم کون ہو اور کہاں کے رہنے والے ہو؟ دونوں نے جواب دیا: ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: لَوْ کُنْتُـمَا مِنْ اَھْلِ الْبِلَادِلَاَوْجَعْتُکُمَا تَرْفَعَانِ اَصْوَاتَکُمَا  فِیْ  مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی عَلَیْہِ وَسَلَّم،’’اور اگر تم دونوں مدینہ کے رہنے والے ہوتے تو میں تمھیں سخت سزا دیتا ، تم دونوں مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی آواز اُونچی کرتے ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ ﴾، باب رفع الصوت فی المسجد، حدیث:۴۶۰)

آج کل حج کے موقع پر زیارت کرنے والے جس قدر بلند آواز سے قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام اور دعا کے کلمات پڑھتے اور اپنے پیچھے چل رہے قافلے سے پڑھواتے ہیں اور عام نمازیوں کے لیے تشویش اور الجھن پیدا کرتے ہیں وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ یقینا یہ ادبِ نبیؐ کے مخالف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی کا باعث اور مسجد نبویؐ کے احترام و تقدیس کی پامالی کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نام لے کر پکارنا یا محمد یا احمد جس طرح عام لوگ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں یا فلاں، بے ادبی ہے۔ یہ آپؐ کی زندگی کے لیے تھا، بعض لوگ آپؐ کے دروازے پر کھڑے ہو کر نام لے کر پکارا کرتے تھے جیسا کہ ارشاد بانی ہے:

لَا تَجْعَلُوْا دُعَاۗءَ الرَّسُوْلِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاۗءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا۝۰ۭ (النور۲۴:۶۳﴾) مسلمانو، اپنے درمیان رسولؐ کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلانا نہ سمجھ بیٹھو۔

اور دوسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ جس طرح عام لوگوں کی پکار پر آدمی کبھی کان دھرتا اور کبھی اَن سنی کر دیتا ہے، نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر کان دھرنا ہی لازم اور اَن سنی کرنا حرام اور باعثِ خسران ہے۔ گویا ان کی پکار پر لبیک کہنا اور سمع و طاعت کرنا ہی اصل ادب اور اصل دین ہے۔

درود و سلام

مظاہر محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود و سلام پڑھنا بھی داخل ہے اور خاص کر جمعہ کے دن درود کی فضیلت، کیفیت اور مخصوص اوقات جن میں درود کی تاکیدی حیثیت ہے، صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درود کے جو مسنون کلمات اپنے صحابہ کرام ؓ کو سکھائے ہیں وہ افضل ہیں۔ کیونکہ وہ مشکوٰۃ نبوت سے صادر ہوئے ہیں اور اس لیے بھی کہ ان ہی کلمات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے پسند فرمایا۔ لہٰذا ان سے زیادہ اشرف ، افضل اور اکمل ہیٔت وکیفیت اور کلمات کا تصور محال ہے۔

ذکرِ نبیؐ اور دیدار کی تمنا

علامات محبت کے اندر یہ بات بھی داخل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت تذکرہ کیا جائے اور ملاقات و دیدار کی تمنا رکھی جائے۔ کیونکہ آدمی جب کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو اس کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ سے توفیق محبت و دیدارِ رسول کی دعا کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ایمان کی حالت میں موت عطا کرے اور جنت میں آپ ؐکی رفاقت نصیب کرے۔ جب دنیا سے رخصتی کا وقت آئے تو ہمیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور ان کے دیدار کی خواہش محسوس ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آ پ کا یہ فرمان ثابت ہے :

مِنْ اَشَدِّ اُمَّتِیْ لِیْ حُبًّا نَاسٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدِیْ یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْرَآنِیْ بِاَھْلِہٖ وَمَالِہٖ (رواہ مسلم فی صحیحہ عن ابی ہریرہ، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا، باب فیمن یودّ رؤیۃ النبیؐ،حدیث:۵۱۶۷)،میری امت کے ان لوگوں میں جو سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والے ہوں گے، وہ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے بعد آئیںگے اور ان کی خواہش ہوگی کہ تمام مال و متاع اور اہل و عیال کو لٹا کر میرا دیدار کرتے۔

اہل بیت سے محبت

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آپؐ کے قرابت داروں، اہلِ بیتؓ، ازواج مطہراتؓ اور صحابۂ کرام ؓ سے محبت کی جائے اور اس کے اندر بھی غلو اور تقصیر سے بچا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : اُذَکِّرُ کُمْ اللّٰہَ  فِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ، تین مرتبہ آپؐ نے فرمایا: ’’میں اپنے اہل بیت کے حقوق اور ان کے آداب و احترام کے سلسلے میں تمھیں اللہ کو یاد دلاتاہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر اور اس کا خوف دلا کر اپنے اہل و عیال کے حقوق کی رعایت و حفاظت کی وصیت فرمائی۔ ازواجِ مطہرات ؓ بھی اہل بیتؓ کے اندر داخل ہیں جیسا کہ سورۂ احزاب کی آیت ۳۳ : اِنَّمَا يُرِيْدُ اللہُ لِيُذْہِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَيْتِ وَيُطَہِّرَكُمْ تَطْہِيْرًا۝۳۳ۚ  (اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت ِنبیؐ سے گندگی کو دُور کرے اور تمھیں پوری طرح پاک کردے) دلالت کرتی ہے۔ تاہم، اہل بیت میں جن لوگوں کے لیے صدقات و زکوٰۃ حرام ہیں وہ آلِ علی، آلِ عقیل، آلِ عباس ہیں۔(صحیح مسلم)

اسی طرح صحابۂ کرامؓ کا معاملہ ہے۔ جملہ صحابۂ کرام ؓ جو شرف صحبت سے باریاب ہیں وہ امت کے باقی افراد کے مقابلے میں بدر جہافائق ہیں۔ امت کا بڑے سے بڑا آدمی بھی کسی ادنیٰ صحابی کے مرتبے کونہیں پہنچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام ؓ کی تعریف و توصیف کی ہے۔ مثلاً: وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ (التوبہ ۹:۱۰۰)، اور  لَقَدْ رَضِيَ اللہُ عَنِ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ يُبَايِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ (الفتح۴۸:۱۸)، اور لَايَسْتَوِيْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقٰتَلَ۝۰ۭ (الحدید ۵۷:۱۰) میں وَكُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ کہہ کر جملہ  صحابۂ کرامؓ کو جنت کا مستحق ٹھیرایا گیا ہے۔ اور سورۂ حشر کی آیات لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُہٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ  …… رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۝۱۰ۧ  (الحشر۵۹:۸-۱۰)، اور ان کے علاوہ آیات صحابۂ کرامؓ کے مقام و مرتبہ کو متعین کرتی ہیں اور سورۂ حشر کی آیت ۱۰ بعد میں آنے والی امت پر یہ واجب قرار دیتی ہے کہ وہ جملہ صحابۂ کرامؓ کے حق میں دعائے خیر کرے اور کسی کے تئیں اپنے دل میں کدورت نہ رکھے۔ بعض حضرات جلیل القدر صحابۂ کرامؓ کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا چاہیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات لا تسبوا أصحابی  ’’میرے اصحاب کو گالی نہ دو‘‘ (صحیح البخاری و مسلم، کتاب فضائل الصحابہ عن ابی سعید الخدری) اور خیرالناس قرنی (رواہ الشیخان عن عمران بن حصین) یعنی سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے لوگ ہیں، ان فرمودات کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہیے۔

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مظاہر و علامات میں سے ایک اہم علامت یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور سنت کی نشر و اشاعت کرنے والے علما، محدّثین اورفقہا سے بھی محبت کی جائے، جنھوں نے نہایت جاںفشانی اور عرق ریزی سے سنت کے ذخیرے کو جمع کیا اور پھر امت کی خیر خواہی کے لیے صحیح حدیثوں کوضعیف حدیثوں سے چھانٹ کر الگ کر دیا، تاکہ امت کے لیے سنت پر عمل کرنا آسان ہوجائے۔ یہ لوگ ہمارے سلف صالحین ہیں، ہمیں ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کی خدمتوں اور کوششوں کو سراہنا چاہیے اور ان کے حق میں مخلصانہ دعائیں کرنی چاہییں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی رضا و خوشنودی کے لیے دین کی کسی ادنیٰ خدمت کے لائق بنادے، اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضوں کو زیادہ سے زیادہ پورا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!   

اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزّت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابلِ نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ یونانی، رومی، ایرانی اور زمانۂ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔  درحقیقت عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا۔

  • دورِ جاہلیت میں عربوں کا نظامِ وراثت :اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ان کے ہاں میراث پانے کے درج ذیل تین اسباب تھے:

۱- قرابت اور نسبی تعلق: لیکن اس کے لیے شرط یہ تھی کہ وارث بالغ اور جنگی صلاحیت کا حامل ہو، اور ترکہ کا سب سے پہلا حقدار بڑا بیٹا تھا، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اور وارث نہیں ہوسکتا تھا۔ اس کے بعد پوتا، پھر باپ، دادا اور ان کے بعد بھائی اور چچا وغیرہ کا حق تھا۔

۲- وَلاء : اسی جنگ و جدال کی وجہ سے ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے اور ایک شخص دوسرے شخص سے باہم مدد اور نصرت کا معاہدہ کرتا تھا جسے ’وَلاء‘ کہا جاتا ہے اور قریبی وارث کی موجودگی میں بھی یہ شخص وارث ہوتا تھا۔

۳- تَبَــنِّیْ: سابقہ اقوام اور مذاہب میں لے پالک بیٹے کا رواج تھا اور اب بھی بہت سے فرقوں میں باقی ہے، کہ لوگ دوسروں کے بچے کو گود لیتے ہیں اور وہ حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا ہے اور اس کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ عربوں میں بھی یہ طریقہ رائج تھا۔ اسلام نے آکر اسے ختم کیا۔

  • بعثتِ نبویؐ کے نتائج: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، اسی طرح یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق ومیراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔ دُنیائے انسانیت جاہلی تہذیب سے نکل کر اسلام کی پاکیزہ معاشرت میں زندگی گزارنے لگی۔
  • اسبابِ میراث :زمانۂ جا ہلیت میں جن اسباب کی وجہ سے آدمی کو میراث ملتی تھی،ان میں ایک سبب ’نسب‘ تھا تو دوسرا ’معاہدہ‘ (یعنی ایک دوسرے سے خوشی وغم میں تعاون کریں گے، ایک مرے گا تو دوسرا اس کا وارث بنے گا،اس بات کا معاہدہ کیا جاتاتھا)۔تیسرا سبب ’متبنٰی‘ (یعنی منہ بولا بیٹا ) وارث بنتاتھا۔اس کے علاوہ ابتدائے اسلام میں ان اسباب کے ساتھ مواخات وہجرت کی وجہ سے بھی میراث میں حصہ تھا ، جو حقیقت میں معاہدہ ہی کی ایک صورت تھی۔

لیکن اسلام نے تدریجاً ان اسباب کو ختم کردیا اور نسب، نکاح اور ولاء کو وراثت کا سبب قرار دیا۔ یعنی اب ترکہ میں سے صرف اس کو حصہ ملے گا جس کا میت کے ساتھ نکاح ہوگا یا کوئی نسبی تعلق ہوگا۔ چونکہ زمانے کا رواج میراث میں عورتوں کو نظرانداز کرنے اور محروم کرنے کا تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عورتوں کا ذکر خصوصیت سے کیا۔

عورتوں کا حصہ بیان کرنے میں قرآن کااسلوب

آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں غور فرمائیں: لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۝۰ۚ (النساء۴:۱۱)  ﴾یعنی لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے: لِلْاُنْثَیَیْنِ مِثْلُ حِــظِّ الذَّکَرِ نہیں فرمایا کہ دولڑکیوں کو ایک لڑکے جتنا حصہ ملے گا۔ علامہ آلوسی ؒنے روح المعانی میں لکھاہے کہ اللہ تعالیٰ نے لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ۝۰ۚ فرمایا ،اس کی وجہ یہ ہے اہل عرب صرف لڑکوں کو حصہ دیا کرتے تھے ،لڑکیوں کو نہیں دیتے تھے۔ان کی اس عادت سیئہ پر رد اور لڑکیوں کے معاملے میں اہتمام کے لیے فرمایا کہ لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا۔گویا یہ فرمایا کہ تم صرف لڑکوں کو حصہ دیتے ہو ،ہم نے ان کاحصہ دگنا کر دیا ہے، لڑکیوں کے مقابلے میں،لیکن لڑکیوں کو بھی حصہ دینا ہوگا،ان کو بالکلیہ میراث سے محروم نہیں کیا جائے گا۔

امام قرطبیؒ احکام ا لقرآن میں اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں : ہٰذِہِ الْآیَةُ رُکْنٌ مِنْ اَرْکَانِ الدِّیْنِ ، وَعُمْدَةٌ مِنْ عُمَدِ الْاَحْکَامِ ، وَاُمٌّ مِنْ اُمَّہَاتِ الْآیَاتِ، فَاِنَّ الْفَرَائِضَ عَظِیْمَةُ الْقَدْرِ، حَتّٰی اِنَّھَا ثُلُث الْعِلْمِ  (تفسیرقرطبی، القرطبی، جلد۶، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، طبع ۲۰۰۶ء، ص ۹۳)، یہ آیت (یوصیکم اللہ فی اولادکم) ارکان دین میں سے ہے اور دین کے اہم ستونوں میں سے ہے اور امہات آیات میں سے ہے، اس لیے کہ فرائض (میراث)کا بہت عظیم مرتبہ ہے ،یہاں تک کہ یہ علم کا ایک تہائی ہے۔

اس آیت کریمہ میں میراث کے احکام بیان فرمانے کے بعد اس کے اخیر میں اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا: تِلْكَ حُدُوْدُ اللہِ  ط  (النساء ۴:۱۳)یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالیٰ کی بیان کردہ حدود ہیں۔ ان حدود پر عمل کرنے والوں کے لیے بطور انعام وجزا کے فرمایا : وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ يُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا۝۰ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۝۱۳ (النساء۴:۱۳)’’جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے‘‘۔

اسی طرح دوسری جگہ پر جاہلیت کی رسوم کے خلاف اسلام کے امتیازی قانون کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے: لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۝۰۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّـمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِـمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْ كَثُرَ۝۰ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا۝۷ (النساء۴: ۷) ’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ  تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے ) مقرر ہے‘‘۔

اس آیت میں پانچ قانونی حکم دیے گئے ہیں: ایک یہ کہ میراث صرف مردوں ہی کا حصہ نہیں ہے، عورتیں بھی اس کی حقدار ہیں۔ دوسرے یہ کہ میراث بہر حال تقسیم ہونی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی کم ہو، حتیٰ کہ اگر مرنے والے نے ایک گز کپڑا چھوڑا ہے، اس کے دس وارث ہیں تو اسے بھی دس حصوں میں تقسیم ہونا چاہیے، یہ اور بات ہے کہ ایک وارث دوسرے وارثوں سے ان کا حصہ خرید لے۔ تیسرے یہ کہ وراثت کا قانون ہر قسم کے اموال واملاک پر جاری ہوگا خواہ وہ منقولہ ہوں یا غیر منقولہ، زرعی ہوں یا صنعتی یا کسی اور صنف مال میں شمار ہوتے ہوں۔ چوتھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مورث کوئی مال چھوڑ مرا ہو۔ پانچویں اس سے یہ قاعدہ بھی نکلتا ہے کہ قریب تر رشتہ دار کی موجودگی میں بعید تر رشتہ دار میراث نہ پائے گا۔

احکام میراث سے متعلق احادیث

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عَنْ اِبْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: عَنِ النَّبِي صلى الله عليه و سلم قَالَ: أَلْـحِقُوْا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلٰى رَجُلٍ ذَكَرٍ (صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث الولد من ابیہ وامّہ، حدیث: ۶۳۶۳) جن ورثا کے حصے مقرر ہیں انھیں ان کے حصے دے دو، جو بچ جائے وہ زیادہ قریبی مرد رشتہ دار کاہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ احد کے بعد حضرت سعد بن ربیع ؓکی بیوی اپنی دوبچیوں کو لیے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یارسول ؐاللہ!یہ سعد کی بچیاں ہیں، جو آپؐ کے ساتھ اُحد میں شہید ہوئے ہیں۔ ان کے چچانے پوری جائیداد اپنے قبضہ میں لے لی ہے اور ان کے لیے ایک حبّہ تک نہیں چھوڑا ہے، اب بھلا ان بچیوں سے کون نکاح کرے گا؟ اس پر میراث کی درج بالا آیات نازل ہوئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چچا کو بلاکر فرمایا :’’ بچیوں کو کل ترکہ کا دوتہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو، جو بچ جائے وہ تمھارا ہے‘‘۔ (ترمذی، ابواب الفرائض، عن رسول اللہ ، باب ماجاء فی میراث البنات، حدیث: ۲۰۶۹)

 حضرت زید بن ثابتؓ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ ایک عورت کا ترکہ اس کے شوہر اور سگی بہن میں کس طرح تقسیم ہوگا؟ تو انھوں نے دونوں کو ترکہ میں نصف نصف کا حقدار ٹھیرایا اور کہا کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کا فیصلہ فرماتے دیکھا ہے۔ (مسنداحمد، مسندالانصار، حدیث زید بن ثابت، حدیث: ۲۱۱۱۲)

ھُزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے میراث کے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا گیا جس میں میت ایک بیٹی، پوتی اور بہن چھوڑ مرا تھا تو انھوں نے کہا کہ کل ترکہ کا نصف بیٹی کو اور بقیہ نصف بہن کو ملے گا۔ پھر کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے بھی پوچھ لو وہ میری تائید ہی کریں گے۔ سائل نے حضرت ابن مسعودؓ کے ہاں حضرت ابوموسیٰؓ کا فتویٰ ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اگر میں بھی وہی فتویٰ دوں جو ابو موسیٰؓ نے دیا ہے تو یقینا میں راہ راست سے بھٹک جاؤں گا۔ میں اس کے بارے میں وہی فتویٰ دوں گا جو آنحضورؐ نے دیا تھا: بیٹی کو کل ترکہ کا نصف، پوتی کو چھٹا حصہ (بیٹوں کے دوتہائی حصہ کی تکمیل کے طور پر) اور باقی بہن کا ہوگا۔ بخاری اور مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ہم نے حضرت ابو موسیٰؓ کو ابن مسعودؓ کے فتویٰ کے متعلق بتایا تو انھوں نے کہا کہ جب تک ایسا بڑا عالم تمھارے درمیان موجود ہو، مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔

اسود کہتے ہیں: ’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب یمن میں تھے، تو اس وقت انھوں نے میت کے ورثا صرف بہن اور بیٹی ہونے کی صورت میں ہر ایک کو ترکہ میں سے نصف دیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حیات تھے‘‘۔

قبیصہ بن ذؤیب کہتے ہیں کہ ایک دادی /نانی حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئی اور ان سے (اپنے پوتے /نواسے کے) ترکہ میں سے حصہ دینے کا مطالبہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اسے کہا کہ اللہ کی کتاب میں تمھارے حصے کا ذکر نہیں، نیز مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ میں بھی تمھارے لیے کوئی حصہ ہونے کا علم نہیں۔ فی الحال تم چلی جاؤ میں لوگوں سے پوچھ کر تمھیں بتاؤں گا۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شُعبہؓ نے کہا کہ میں نے رسولؐ اللہ کو اسے (دادی /نانی کو)چھٹا حصہ عطا فرماتے دیکھاہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان سے پوچھا کیا تمھارے ساتھ کوئی اور بھی ایسی گواہی دے سکتا ہے؟ اس پر محمد بن مسلمہ انصاریؓ اٹھے اور حضرت مُغیرہ کی بات کی تائید کی۔ چنانچہ حضرت ابو بکرؓ نے اسے ترکہ میں سے چھٹا حصہ دینے کا فیصلہ فرمادیا۔ پھر حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک اور دادی/نانی آپؓ کے پاس آئی جو حصہ طلب کر رہی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اسے کہا کہ اللہ کی کتاب میں تمھارے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں، البتہ چھٹا حصہ ہے۔ اگر تم دونوں کسی مسئلہ میں جمع ہوجاؤ تو یہ تم دونوں میں تقسیم ہوگا، اور اگر تم دونوں میں سے کوئی ایک ہی ہوگی تو یہ اس کا حصہ ہوگا۔

حضرت بریدہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی عدم موجودگی میں دادی /نانی کو کل ترکہ کا چھٹا حصہ عطا فرمایا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض، حدیث: ۲۸۹۵)

حضرت مقدام بن معدیکربؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جوشخص مال چھوڑ کر فوت ہوا ہو وہ اس کے ورثاء کا ہوگا، اور میں (اسلامی حکومت کے سربراہ کے طور پر) اس شخص کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ اس کی مالی ذمہ داریاں اداکروں گا اور اس کے ترکہ کا وارث بنوں گا، اور جس شخص کا کوئی اور قریبی وارث موجود نہ ہو تو اس کا ماموں اس کا وارث قرار دیا جائے گا‘‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الفرائض، باب میراث ذوی الارحام، حدیث: ۲۸۹۹)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جب کسی بچے نے پیدایش کے بعد چیخنے کی آواز نکالی اور پھر فوت ہوگیا تو وہ وارث قرار دیا جائے گا‘‘۔ (ابوداؤد، کتاب الفرائض، باب فی المولود یستھلّ ثم یموت حدیث: ۲۷۳۸)

حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کسی کافر کا اور نہ کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث بن سکتا ہے‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب الفرائض، حدیث:۳۱۱۲)

حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قاتل کو مقتول کے ترکہ میں سے حصہ نہیں ملے گا۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الدّیات، حدیث: ۲۶۴۱)

اسلام کے قانونِ وراثت کی چند اہم خصوصیات

  • اسلام نے ورثاء کی ایک بڑی تعداد کو ترکہ میں حصہ دار بنا کر ایک جگہ جمع ہوجانے والی دولت کو پھیلایا اور اسے گردش میں لایا ہے۔ اس سے ایک طرف تو بڑے بڑے سرمائے ایک جگہ جمع ہو رہنے کے بجائے مختلف چھوٹی چھوٹی ملکیتوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، تو دوسری طرف خاندان کی اکائی مضبوط ہوتی ہے اور اس میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ ملکیت کے حوالے سے حسد و کینہ اور کدورت کے عوامل ختم ہوجانے کی وجہ سے خاندان متحد ومنظم رہتاہے۔
  • اسلام کے نقطۂ نظر سے ترکہ کی تقسیم ناگزیر ہے۔ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے ترکہ میں سے حصہ پانے والے کسی وارث کو اس سے محروم نہیں کرسکتا۔ وارث کو ہر صورت میں میت کے ترکہ میں سے حصہ مل کر رہے گا، بشرطیکہ اس میں حصہ پانے کی شرائط پائی جائیں۔ البتہ وارث کسی ایک یا تمام ورثاء کے حق میں اپنی آزاد مرضی سے اپنے حصہ سے دست بردار ہوسکتا ہے۔
  • اسلام نے حصوں کی کمی بیشی میں قرابت داری کو بنیاد بنایا ہے۔ چنانچہ جو زیادہ قریبی رشتہ دار ہے وہ نسبتاً دور والے رشتہ دار کو حصہ پانے سے محروم کردے گا یا اس کے مقابلے میں زیادہ حصہ پائے گا۔ لہٰذا باپ کو دادا پر، ماں کو دادی اور نانی پر اور بیٹے کو پوتے پر، اور بیٹے،پوتے اور باپ کو بھائی پر فوقیت دی گئی ہے۔
  • اسلامی قانون وراثت میں میت کے ترکہ میں سے حصہ پانے والوں کا تعین خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ترکہ کی تقسیم کا اختیار مورّث (میت) کو نہیں دیا۔ اس لیے کہ انسان پر خواہشاتِ نفس کا غلبہ ہوسکتا ہے جن کی بنا پر وہ کسی وقتی جذبے کے تحت ترکہ کے بعض حق داروں کو یا تو بالکل محروم کرسکتا ہے یا پھر بلا جواز ان کے حصوں میں کمی کر سکتا ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ نے ورثا اور ان کے حصوں کا تعین فرماکر اس بات کا سد باب کردیا ہے۔
  • اسلام نے قانون میراث کے ذریعے کمزور افراد، عورتوں اور بچوں کو ان کے حقوق دیے اور ان کا خاطر خواہ تحفظ کیا، جب کہ دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں عورت اپنے جائز حقِ وراثت سے محروم رہی ہے اور عموماً اسے نظرانداز کیا گیا ہے۔
  • اسلام نے بعض صورتوں میں ضرورت واحتیاج کو حصوں میں کمی و بیشی کی بنیاد بنایا ہے۔ اسی لیے بیٹی کا حصہ اس کے بھائی کے مقابلے میں آدھا رکھا گیا ہے۔ اس لیے کہ اسے مالِ ملکیت کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کی مالی ذمہ داریاں بیٹی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کو مہر دینا ہوتا ہے، اپنے بیوی بچوں، والدین، بہن بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کی اگر وہ تنگدست ہوں، کفالت کرنا ہوتی ہے، جب کہ عورت پر اس طرح کی کوئی ذمہ داری اسلام نے نہیں ڈالی، بلکہ ولادت سے وفات تک اس کی کفالت کی تمام تر ذمہ داری مرد پر رکھی گئی ہے۔ چنانچہ عدل وانصاف کا تقاضا یہی تھا کہ اس کا حصہ بھی اس کے بھائی کے مقابلے میں کم رکھا جائے۔
  • ضرورت و احتیاج کے اسی اصول کے پیش نظر اسلام نے فوت شدہ کے بیٹے کا حصہ اس کے باپ کے حصہ سے زیادہ رکھا ہے۔ اس لیے کہ بیٹا نوعمر ہے، اسے ابھی زندگی کے مسائل و مشکلات کا سامنا کرناہے، جب کہ باپ بوڑھا وکمزور ہے، اسے اتنا ہی مال درکار ہے جس سے وہ اپنے بڑھاپے کی حفاظت کرسکے اور ضروریات زندگی کے لیے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے۔

مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟

اسلام میں عورت کے حصہ کا مرد سے آدھا ہونے پر مغرب زدہ حضرات کی طرف سے اعتراضات کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ مثلاً یہ کہ عورت کے ساتھ صنفی تخصیص روا رکھی گئی ہے، یا یہ کہ عورت کو آدھے مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مرد کو دوحصے دیئے جائیں اور عورت کو ایک، جب کہ عورت زیادہ قابل رحم اور مالی اعانت کی زیادہ مستحق ہے۔ وہ مردوں کی طرح تجارت وزراعت نہیں کرسکتی۔ شوہر کی دست بستہ غلام ہے۔ بچوں کی پرورش کرنے والی ہے۔ علاوہ ازیں وضع حمل کی تکلیف اور رضاعت کی محنت ومشقت اسے بالکل ناتواں کردیتی ہے۔ اس لیے اس کا حصہ ہونا تو زیادہ چاہیے تھا، اور اگر زیادہ نہیں کم از کم برابر تو ضرور ہونا چاہیے تھا۔

ان اعتراضات کی وجہ کم علمی اور ہمارے ہاں عورت کی ابتر معاشی حالت ہے،اور اس کا سبب اسلامی نظام میراث نہیں، بلکہ ہمارا معاشرہ ہے۔ جس معاشرے میں آج تک عملی زندگی میں عورت کے حق وراثت کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اور عموماً عورتوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، خصوصاً بیٹیاں پرایا دھن سمجھی جاتی ہیں، لہٰذا انھیں بوقت شادی جہیز کی صورت میں کچھ دے دلا کر رخصت کردیا جاتا ہے اور انھیں خاندانی جائیداد اور وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا۔ حالانکہ ایسا کرنے والا صریحاً اللہ اوراس کے رسولؐ کے احکام کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے اس نظام کی مصالح اور حکمتوں کو کماحقہٗ سمجھنا، ہماری ناتواں عقل سے باہر ہے۔ بایں ہمہ ہمارے خیال میں اس حکم کی مصلحتیں حسب ذیل ہوسکتی ہیں:

۱- اسلام میں عورت کا حصۂ میراث نصف مقرر کرنے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم حکمت کارفرما ہے۔ اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو دوگنا حصہ اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے دیا ہے۔ کیونکہ زندگی میں زیادہ تر معاشی، تعلیمی اور تربیتی ذمہ داریاں بنیادی طور پر مردوں پر ہیں، جن سے عورت بالکل مستثنیٰ ہے، بلکہ خود عورت کی اپنی کفالت کا بار بھی شادی سے پہلے اس کے سرپرست پر رکھا گیا ہے اور شادی کے بعد خاوند یا اس کی اولاد پر۔ ایسی صورت میں دونوں کو مساوی حقوق دینا کسی طرح قرین انصاف نہ تھا۔ نامور مفکر محمد قطبؒ لکھتے ہیں: اسلام کا قانون یہی ہے کہ میراث میں مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔ یہ بالکل فطری اور منصفانہ تقسیم ہے کیونکہ عورت پر مالی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ہوتا۔ دوسرے انداز سے دیکھیے: کل ورثے کا ایک تہائی عورت(بیٹی) کو صرف اپنی ذات کے لیے ملتا ہے، جب کہ باقی دوتہائی مرد (بیٹے) کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بیوی بچوں اور خاندان کی ضروریات پوری کرے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وراثت کا بیشتر حصہ کس کو ملتا ہے عورت کو یا مرد کو۔

مرد خاندان کی معاشی ذمہ داریاں پوری کرنے کا پابند ہے۔ اگر وہ بیوی کو نان و نفقہ دینے سے انکار کردے یا آمدنی کے لحاظ سے اس کو کم خرچہ دے، تو بیوی ذاتی طور پر مال دار اور صاحب ِحیثیت ہونے کے باوجود بھی اس کے خلاف مقدمہ دائر کر کے نان ونفقہ کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اس لیے کہ مرد کو گھرانے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے جو ذمہ داریاں پوری کرنا پڑتی ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ اسے وراثت میں زیادہ حصہ دیا جائے۔

۲- میراث میں آدھے حصے کی تلافی بھی اسلام کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک تو بیوی کو شوہر سے مہر دلواتا ہے جو کہ بلا شرکت غیرے صرف اسی کا ذاتی حق ہے۔ دوسرے یہ کہ شادی میں جو مال وزر اور تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، اس کی مالک بھی وہ خود ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر اس کے پاس کوئی جائیداد وغیرہ ہے، تو وہ صرف اسی خاتون کاحق ہے، کوئی اسے اس کے خاوند یا بچوں پر خرچ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتا، جب کہ مرد قانونًا اپنے حصے کے مال و دولت کو دوسروں پر خرچ کرنے کا پابند ہے۔ماں باپ کی طرف سے ملنے والا حصہ بھی ذاتی طور پر اسے مل جاتا ہے اور اسے اپنے بچوں یا شوہر کی کفالت بھی نہیں کرنی پڑتی۔

۳- قانون وراثت میں اصل اہمیت چونکہ نسب کو دی جاتی ہے، اس لیے اس ضابطے کے تحت ضروری نہیں کہ مرد کو زیادہ حصہ ہی ملے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک عورت مورث (میت) سے قریبی تعلق رکھتی ہو اور اس مرد سے زیادہ حصہ پائے جو مورث کا دور کا رشتہ دار ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت اپنے خاندان(والدہ، والد، بھائی، بہن وغیرہ) سے بھی وراثت میں حصہ پاتی ہے اور اپنے خاوند کے خاندان (خاوند اور اپنے بیٹے، بیٹیوں وغیرہ) سے بھی۔

۴- اصولی طور پر اسلام نے عورتوں کو سماج میں مردوں کے مساوی حیثیت دی، اور وراثت کا مستحق ٹھیرایا۔ اسلام کی جانب سے عورتوں کی مزید عزت افزائی کا مظہر یہ ہے کہ اس نے تقسیمِ میراث میں حصۂ نسواں کو اصل پیمانہ قرار دیا ہے اور اس کی نسبت سے مردوں کا حصہ بیان کیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:يُوصِيكُمُ اللهُ فِيْٓ  أَوْلَادِكُمْ ق لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ج (النساء ۴: ۱۱) ’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہے‘‘۔

قرآن کی یہ تعبیر قابلِ غور ہے۔ یوں بھی کہا جاسکتا تھا کہ عورت کے لیے مرد کے حصہ کا نصف ہے یا دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر حصہ ملے گا۔لیکن اس کے بجائے یہ کہا گیا کہ مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ قرآن کی نظر میں میراث میں لڑکی کا حصہ اصل ہے، اسی لیے اسے تقسیم میراث کے معاملے میں پیمانہ اور بنیاد بنایا گیا ہے۔

پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مستحقینِ میراث میں کچھ لوگ وہ ہیں جو دوسرے وارثین کی موجودگی میں میراث سے بالکلیہ محروم ہوجاتے ہیں، مثلاً: بھائی جو باپ کی موجودگی میں محروم رہتا ہے۔ اور بعض لوگ وہ ہیں جو محروم تو نہیں ہوتے البتہ ان کا حصہ کم ہوجاتا ہے۔ چھ وارثین ایسے ہیں جو کسی بھی حال میں بالکلیہ میراث سے محروم نہیں ہوتے: شوہر، بیٹا، باپ، بیوی، بیٹی اور ماں۔ اس فہرست میں اگر تین مرد ہیں تو تین عورتیں بھی ہیں۔

اس کے علاوہ میراث میں اصحاب الفروض کے جو حصے متعین کیے گئے ہیں، ان کے مستحقین میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں تین گنا ہے۔

نیز تقسیمِ میراث کے متعدد حالات ایسے ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد کے برابر ہوتا ہے اور ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہوتی۔ جیسے: نرینہ اولاد کی موجودگی میں ماں باپ میں سے ہرایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ میت کے اصول(باپ دادا ) اور فروع (بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی…) میں سے کوئی نہ ہو اور اس کے اخیافی (ماں شریک) بہن بھائی ہوں تو سب ایک تہائی میں برابر کے حصہ دار ہوں گے۔نیز بعض حالات میں حقیقی بہن اتنا ہی حصہ پاتی ہے جتنا حقیقی بھائی مستحق بنتا ہے۔

ان صورتوں کے علاوہ جن میں عورت کا حصہ مرد سے زیادہ یا اس کے برابر ہوتا ہے، صرف درج ذیل حالتوں میں ہی عورت کا حصہ مرد کا نصف ہوتا ہے۔جیسے: اولاد اور شوہر یا بیوی کی عدم موجودگی میں ماں کا حصہ ایک تہائی ہوتا ہے اور بقیہ کا مستحق باپ قرار پاتاہے۔

•          میاں بیوی میں سے کوئی ایک وفات پاجائے اور دوسرے کو چھوڑ جائے تو عورت یعنی بیوی کا حصہ مرد یعنی شوہر کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔

•          اگر میت کی اولاد بیٹے بیٹیاں یا پوتے پوتیاں(تا آخر) ہوں تو ان کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر ایک لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا۔

•          اسی طرح اگر میت کے حقیقی یا باپ شریک بھائی بہن ہوں تو ان کے درمیان بھی میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ہر مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔

بایں ہمہ شریعت اسلامیہ کے پورے قانون میں معاشی، معاشرتی اور قانونی ذمہ داریوں کا بار چونکہ زیادہ تر مرد پر ہی عائد کیا گیا ہے، اس لیے عورت کو مرد کے مقابلے میں اکثر اوقات نصف حصہ یا نصف رقبہ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر وراثت، دیت اور قانون شہادت وغیرہ میں عورت کا حصہ کئی جگہ مرد کے مقابلے میں نصف رکھا گیا ہے، مگر اس کا مطلب عورت کے درجے اور رُتبے میں کمی ہرگز نہیں، بے شمار دوسرے مواقع پر عورت کا درجہ زیادہ یا مساوی رکھا گیا ہے۔ مثلاً علم و عمل اور اُخروی اجروثواب کے حصول میں دونوں میں کوئی فرق نہیں، جب کہ خدمت واطاعت میں اولاد کے لیے والدہ کا درجہ زیادہ ہے۔ اولاد میں سے دُختری اولاد کی پرورش، تربیت اور نگہداشت پر لڑکوں کی نسبت زیادہ اجر وثواب ہے۔ علاوہ ازیں بہت سے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے عورت کا درجہ مرد سے بڑھادیا ہے۔ اس طرح شریعت نے دونوں کے مابین توازن اور اعتدال قائم رکھا ہے جو کہ صحت مند معاشرے کے لیے ضروری ہے۔

پاکستانی سماج میں خواتین کی میراث کی عملی صورت حال

اسلام کی مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے کا عمومی جائزہ لیں تو ہمارے ہاں عملی صورت حال بہت مختلف اور ظالمانہ ہے۔ بیٹی اور بہن کو وراثت سے محروم کرنے کے لیے نہایت افسوس ناک حیلے اور ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں عام طور پر شادی کے موقع پر بیٹی کو جہیز کے نام پر ترکہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ معاشرتی جبر اس حد کو پہنچا ہے کہ بے چاری اسی کو اپنا نصیب مان کر خاموش رہتی ہے اور کبھی مطالبہ کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ اگر کہیں اس بات کا امکان ہو کہ سسرال کی طرف سے دباؤ ڈالے جانے پر بے چاری کہیں مطالبہ ہی نہ کر دے تو اس کا انتظام اس طرح کیا جاتا ہے کہ شادی سے پہلے یا بعد میں اس سے لکھوا لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنا حصہ بھائیوں یا بیٹوں کو بخش دیا ہے اور کبھی حق کا دعویٰ نہیں کرے گی۔

پاکستان کی مختلف برادریوں میں عورت کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے جو ظالمانہ حیلے اختیار کیے جاتے ہیں، ان کی ایک جھلک یوں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:جاگیر دار خاندانون میں لڑکیوں کی شادیاں چچا یا تایا زاد بھائیوں سے کی جاتی ہیں تاکہ وراثت کے ذریعے ان کی زمینیں خاندانوں سے باہر نہ جاسکیں۔ کبھی لڑکی کو ایسے ہم نثراد سے بیاہ دیا جاتا ہے جو عمر میں اس سے چھوٹا ہوتا ہے یا بالکل بھی صحیح جوڑ نہیں ہوتا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں تو لڑکوں کی موجودگی میں عورتیں زمین کی وارث نہیں بن سکتیں، اور باپ کی طرف سے بیٹیوں کے لیے غیر منقولہ جائیداد حاصل کرنے کا کوئی رواج نہیں۔ اسی طرح بیواؤں کے لیے الگ سے وراثت کا کوئی تصور نہیں؛ عموماً انھیں جائیداد میں وارث کی حیثیت سے قبول نہیں کیا جاتا۔ صوبہ بلوچستان میں ہزارہ جاتوں اور نوآباد لوگوں میں لڑکیوں کو جائیداد میں حصہ دیا جاتا ہے لیکن اس کا تمام کنٹرول چچاؤں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ پھر ان علاقوں میں عورتیں باپ کی جائیداد میں حصہ لے سکتی ہیں لیکن عملاً سماج اسے قبول نہیں کرتا تو انھیں اپنے حصے سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ بیواؤں کی جائیداد ہتھیانے کے لیے انھیں سسرال میں دوبارہ شادی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانونی طور پر (۱۹۶۲ء سے ) اسلامی قانون کی روشنی میں عورت کا حقِ میراث تسلیم کیے جانے کے باوجود خواتین کے لیے میراث کے حوالے سے کوئی سہولیات پیدا نہیں کی گئیں۔ دوسری طرف دینی اداروں کی طرف سے اس حوالے سے شعور وآگہی فراہم کرنے کی سنجیدہ اور قابل ذکر کوشش نہیں کی گئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نبی کریمؐ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور ان کو قابل عمل بنا کر پیش کیا جائے۔ من جملہ ان تعلیمات کے خواتین کا حق میراث بھی ہے؛ جسے عام کرنا اور عملی زندگی میں رُوبہ عمل لانا بھی حقوقِ مصطفےٰ ؐ میں داخل ہے۔

انسانی تاریخ کے عجائب میں سے ہے کہ ایک ایسی قوم، جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا، جنگ وجدال اور لوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی،وہ ایک دم تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علَم بردار کیسے بن گئی؟ جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاںماررہی تھی، وہ اچانک علم کی شمعیں کیوں کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے اس قدر خون کے پیاسے رہتے تھے کہ صدیوں کی معرکہ آرائیوں سے ان کی دشمنی کی شدت میں کمی نہ آتی تھی، وہ چشم زدن میں کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے، حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان، مال، جائیداد، گھربار اور دوسری قیمتی اور محبوب چیزیں نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگیاںبے حیائی، آوارگی، عریانیت اور فحاشی میں غرق رہتی تھیں، وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟

تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بدولت واقع ہوئی تھی۔ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی، ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزّت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انھیں جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں لے آیاتھا اور وحشت و سفاکیت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انھیں تہذیب و شائستگی کاامام بنادیاتھا۔ لیکن جوں جوں قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا، دوسری قومیں ان پر شیر ہوگئیں اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے :

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

صحابۂ کرامؓ کی زندگیا ںقرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنے کااولین نمونہ ہیں۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے کیسا تعلق تھا؟ قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انھیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ ان کی تلاوت کرنے اور انھیں یاد کرنے کا، ان کاکیا معمول تھا؟ اس کے احکام و تعلیمات سے انھوں نے کس طرح اپنی زندگیوں کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انھوںنے کتنی جدوجہد کی تھی ؟ اور اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انھوں نے کیا قربانیاں دی تھیں؟

 اس مضمون میں صحابۂ کرامؓ کے تلاوتِ قرآن کے معمولات پر روشنی ڈالی جارہی ہے۔ قرآن کریم سے ان کے تعلق کے دیگر پہلوئوں پر ان شاء اللہ آیندہ اظہار خیال کیاجائے گا۔

قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابۂ کرامؓ اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انھوںنے قرآن مجید کو مختلف ٹکڑوں (احزاب) میں تقسیم کررکھاتھا۔

اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دریافت کیاکہ آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک ٹکڑے میں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انھوںنے جواب دیا: تین، پانچ، سات، نو ، گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک ٹکڑے میں شامل تھیں۔(سنن ابی دائود، ابواب شہر رمضان، باب تخریب القرآن، ۱۳۹۳)

صحابۂ کرامؓ کے غایت شوق کایہ عالم تھاکہ وہ کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجیدپڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ نے ایک موقعے پر دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں۔ انھوںنے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انھوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رعایت سے پندرہ دن، پھر دس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:

اِقْرَأ فِی سَبْعٍ وَّلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ (سنن ابی داؤد، کتاب شہر رمضان، باب فی کم یقرأ القرآن،۱۳۸۸، صحیح بخاری:۲۵۰۵،۵۰۵۴، صحیح مسلم:۱۱۵۹) سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو، اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو۔

بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ لیکن جب انھوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپؐ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

لَایَفْقَہُ مَنْ قَرَاُہ‘ فِی اَقَلٍّ مِّنْ ثَلَاثٍ،جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا، وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ ( بخاری، مسلم، ابوداؤد، حوالہ بالا)

امام نووی ؒ نے متعدد صحابہ، تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں، جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے، بلکہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے۔ ﴿ملاحظہ کیجیے: نووی، ابوزکریا یحییٰ بن شرف، التبیان فی آداب حملۃ القرآن، تحقیق و ترویج: عبدالقادر الارنووط، دمشق، ص: ۴۶-۴۹﴾ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے ۔

تلاوتِ قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے کہ محسوس ہوکہ سرکابوجھ اُتارا جارہاہے، بلکہ ٹھیر ٹھیر کر پڑھاجائے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہؓ  بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت قرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔(سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب استحباب الترتیل فی القرأۃ، کتاب قیام اللیل، باب ذکر صلاۃ رسولؐ باللیل، ۱۲۲۹، مسند احمد، ۴/۲۹۴،۳۰۰)

یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کابھی تھا۔ ایک موقعے پر حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا:

میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں، یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ﴿بغیر ترتیل کے ﴾ پورا قرآن پڑھ لوں۔( نوویؒ، التبیان، ص ۷۰ )

ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں مفصل سورتیں ﴿سورئہ حجرات جو ۲۶ویں پارے میں ہے،سے سورۂ ناس تک ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انھوںنے جواب دیا: ہَذًّا کَھَذِّ الشِّعْرِ ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو۔(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب الترتیل فی القرأۃ، ۵۰۴۳، مسلم: ۸۲۲)

اس موقعے پر انھوں نے مزید فرمایا: ’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ حالاں کہ قرآن مجیدجب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتاہے۔(صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب ترتیل القرأۃ واجتناب الھذ:۲۲۸)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: زَیِّنُوْا القُراٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ ،قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، ۱۴۶۸، سنن نسائی، ۱۰۱۵، سنن ابن ماجہ، ۱۳۴۲)

دوسری حدیث میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنَّا، جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا، وہ ہم میں سے نہیں۔ ( سنن ابی داؤد: ۱۴۶۹،۱۴۷۰، سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷، مسند احمد، ۱/۱۷۲)

اسی بناپر صحابۂ کرامؓ بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ کے حالات میں بیان کیاگیاہے کہ انھوںنے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کررکھی تھی، جہاں بیٹھ کر قرآن مجیدکی تلاوت کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرکین مکہ کی عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے غورو انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انھوںنے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنّہ ﴿جس نے حضرت ابوبکرؓ کو ’جوار‘ دے رکھی تھی ﴾ سے شکایت کی۔ اس نے انھیں اس سے روکناچاہا تو انھوں نے اس کی جوار واپس کردی ۔(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، دارالمعرفۃ بیروت،۱/۳۴۴-۳۴۵)

خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپؐ نے فرمایا:

اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاؤد، انھیں نغمہ دائودی عطا کیاگیاہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصلوٰۃ، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۴۱)

مشہور صحابیٔ رسول حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان سے ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَورأیْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِـعُ لِقِرَأتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْاُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِّنْ مَزَامِیْرِ                             آل داؤدَ،میں نے گذشتہ رات تمھاری قرأت سنی۔ بہت متاثر ہوا۔ تمھیں نغمہ داؤدی عطاکیاگیاہے۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب حسن الصوت بالقرأۃ للقرآن، ۵۰۴۸، صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن، ۷۹۳)

ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیںکہ: میں نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ  کی خوش الحانی قرأت سے بہتر نہیں پایا۔( ابن حجرعسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، دارالمعرفۃ بیروت، ۲۰۰۴ء ۲/۱۱۱۲، تذکرہ حضرت عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعریؓ )

یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ ہی کی خصوصیت نہ تھی، بلکہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوہ کے لیے سفر کے دوران صحابۂ کرام نے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھاتھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں، لیکن رات میں ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیاتھا۔(صحیح بخاری، ۴۲۳۲، صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل الاشعر یین، ۲۴۹۹)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحانی کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان سے قرآن سننے کی فرمایش کیاکرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطابؓ کی خدمت میںحاضر ہوتے تھے تو حضرت عمرؓ ان سے فرماتے تھے: ہمیں اللہ کا شوق دلائو، وہ فوراً قرأت شروع کردیتے۔ (ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۴،ص۲۱۳)

ان کی قرأت کو اُمہات المومنینؓ بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں۔( ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، دارالفکر بیروت، ۱۹۹۴ء، تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری، ۲/۱۱)

ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کہیں گئی ہوئی تھیں۔ انھیں گھر واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا: آپ کے اصحاب میں سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں نے ایسی قرأت کبھی نہیں سنی۔ آپؐ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ  تھے۔ اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا:

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ، اللہ کا شکر ہے کہ میری امت میں تم جیسے لوگ موجود ہیں۔(ابن حجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ،۱/۶۸)

ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے حضرت عبدالرحمٰن بن سائبؓ کی قرأت قرآن کریم سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا: ’تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب حسن الصوت بالقرآن، ۱۳۳۷)

قرآن کریم نے سابقہ قوموں کے بعض اصحاب علم کاتذکرہ تحسین و توصیف کے انداز میں کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے:

وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہُمْ خُشُوْعًا۝۱۰۹ (بنی اسرائیل۱۷:۱۰۹﴾) اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے۔

احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات آپؐ نمازکے لیے کھڑے ہوئے۔ جب سورۂ مائدہ کی اس آیت پر پہنچے:

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ۝۰ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝۱۱۸ (المائدہ ۵:۱۱۸﴾) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔

تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(سنن نسائی: ۱۰۱۰، سنن ابن ماجہ: ۱۳۵۰)

یہی حال تمام صحابۂ کرامؓ کابھی تھا۔ وہ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے تو خود ان پر بھی بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ قرآن کریم کی کسی آیت سے ان پر خاصا اثر ہوتا تو اسی کو بار بار دہراتے تھے۔ اس کامضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اس سے اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے اور شدّت گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔

حضرت ابوبکرصدیقؓ سے کچھ لوگ یمن سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے انھوں نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔

حضرت عمربن الخطابؓ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے، یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ اتنے زور زور سے رونے لگے تھے کہ پیچھے مقتدی ان کے رونے کی آواز سنتے تھے۔

حضرت عباد بن حمزہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت اسماءؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورۂ طور کی اس آیت پر پہنچیں:

فَمَنَّ اللہُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ۝۲۷ (الطور۵۲:۲۷﴾)آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔

تو اس پر ٹھیر ٹھیر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذاب جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں اور بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور اللہ سے دُعا کررہی ہیں۔

حضرت تمیم داریؓ  ایک رات سورۂ جاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:

اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ (الجاثیہ۴۵:۲۱﴾) کیا وہ لوگ جنھوںنے بُرائیوں کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انھیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے۔

تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

حضرت ابورجاء ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔(نوویؒ، التبیان، ص:۸۷)

صحابۂ کرام اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں گزارتے تھے۔ وہ دن میں بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں بھی۔ وہ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے تھے اور مسجد میں بھی(بخاری:۵۰۱۱، ۵۰۱۸، ۵۰۳۷ ، ۵۰۳۸ )۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہؓ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؐ نے فرمایا:

اِقْرَءُا فَکُلٌّ حَسَنٌ وَسَیَجیْیُٔ  اَقَوَامٌ یُقِیْمُوْنَہ‘ کَمَایُقَامُ القِدْحُ، یَتَعجَّلُوْنَہٗ وَلَا یَتَاَجَّلُوْنَہٗ (سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب مایجزیٔ الأمی والأعجمی من القرأۃ،۸۳۰) ’پڑھے جائو، سب کاطرزاچھاہے۔ کچھ لوگ آئیں گے جو قرآن کو تیرکی طرح سیدھا کریں گے، لیکن ان کامقصد دنیاہوگی آخرت نہ ہوگی۔

ایک مرتبہ آپؐ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ، اللہ کاشکر ہے۔ اس کی کتاب ایک ہے، لیکن تم میں سرخ، سفید اور سیاہ قسم کے لوگ  ہیں۔(سنن ابی داؤد، حوالہ بالا، ۱۳۸)                                             

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے مسجد میں لوگوں کی قرآن پڑھنے کی گونج سنی تو فرمایا:یہ لوگ  قابل مبارک مبادہیں۔ ایسے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبوب تھے۔( نوویؒ، التبیان، ص: ۸۶)

سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں بھی صحابۂ کرامؓ کے اس شوق میں کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں ہے کہ جس وقت بلوائیوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفانؓ کے گھر پر حملہ کیا، وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور اسی حالت میں ان کی شہادت ہوئی تھی۔( ابن عبدالبر، الاستیصاب فی معرفۃ الاصحاب، تذکرہ عثمان بن عفان، ۳/۸۷)

تلاوتِ قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کہا: ’فلاں شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتاہے‘۔ انھوںنے ناراضی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ ’’وہ دل کااندھا ہے‘‘۔(النوویؒ، التبیان، ص۹۹)

قرآن کی تلاوت کرتے وقت پوری سنجیدگی، انہماک، توجہ اور وقار کو ملحوظ رکھناچاہیے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا، کوئی دوسرا کام کرنے لگنا، کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں نہیں ہے۔ اس سے غیردل چسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے تعلق سے مناسب رویّہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتاہے کہ وہ قرآن کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے، کسی سے بات نہ کرتے تھے۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ۴۵۲۶)

قرآن کی تلاوت خود کرنے کے ساتھ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے معمولات میں سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سنائو۔ انھوں نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے عرض کیا: آپ کو قرآن سنائوں، جب کہ وہ تو آپؐ ہی پر اُترا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں، میں اسے دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے سورۂ نساء ابتدا سے پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب میں آیت۴۱  پر پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: رک جائو۔ وہ آیت یہ ہے:

فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍؚ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا۝۴۱ (النساء۴:۴۱﴾) پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریںگے جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔

میں آپ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپؐ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں۔(بخاری: ۴۵۸۲ ، مسلم: ۸۰۰، ابوداؤد: ۳۶۶۸، ترمذی: ۳۰۲۴، ۳۰۲۵)

اُوپرگزراکہ حضرت عمرؓ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے فرمایش کرکے قرآن سناکرتے تھے۔ آج کے دور میں قرأت قرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قراءکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل اور دوسرےآلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔

اجتماعی ماحول میں خداوند تعالیٰ کی جو نافرمانیاں اور احکاماتِ الٰہی سے دُوریاں اور فاصلے ہیں، درحقیقت وہی ہماری تکلیفوں اور اذیتوں کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ جب تک ہم خدا کی طرف نہیں پلٹیں گے، اس کے احکامات کی بجاآوری نہیں کریں گے، ہمارے دُکھ اور اذیتیں ہمارا پیچھا کرتی رہیں گی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان عبادات میں اتنی کوتاہی اور کمی نہیں کرتے جتنا معاملات میں ہم بدنیت اور بدمعاملہ واقع ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عبادات کے علاوہ اجتماعی زندگی کے معاملات میں ذمہ دارانہ رویہ بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ مغرب کی اجتماعی زندگی میں نظر آنے والی امن کی فضا کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے ہاں عام طور سے باہم معاملات کے صاف ہیں۔ ایسی بے ایمانی اور بدکرداری جو ہمارے ہاں کئی صورتوں میں پائی جاتی ہے، اس کے آثار وہاں بہت کم ملتے ہیں۔ پس پتا چلا کہ انسان صرف عبادات کے ذریعے خدا کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے، تاوقتیکہ ہم معاملات میں راست روی نہ اختیار کریں۔

یہاں پر دو اہم موضوعات پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے: اوّل ’نفس‘ اور دوم ’گناہ‘۔ جب تک ان کے بارے میں ہمارا ذہن ہر الجھاوے سے پاک نہ ہو، ہمیں خدا کی خوشنودی حاصل نہیں ہوسکتی۔ ’نفس‘ کی بابت معرکہ آرا بحثوں کی علمی اور فکری سطح اتنی بلند ہے کہ اکثر لوگ یہ نہیں  جان پاتے کہ نفس کیا ہے؟ مغرب نے اس کے لیے ’اَنا‘ یا Ego کی اصطلاح اختیار کی ہے، لیکن اس مقصد کی وضاحت کے لیے یہ لفظ درست نہیں۔ ’اَنا‘ یا ’اِیگو‘ میں وہ ساری خصوصیات نہیں آتیں، جو نفس میں موجود ہیں۔ اَنا یا اِیگو سے مراد انسان کی اپنی ’ذات‘ یا ’مَیں‘ (Self)ہے۔ اس میں وہ خواہشیں شامل نہیں ہیں، جو نفس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں اور جن کی تہذیب کرکے نفس کا ’تزکیہ‘ کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں دوسری چیز گناہ ہے۔ اس کا تعلق بھی نفس ہی سے ہے، مگر گناہ مرحلہ وار طریقے سے انجام پاتا ہے۔

  • نفس کیا   ہـے؟: انسان کا وجود گوناگوں عناصر کا مجموعہ ہے، جو انسان کے داخلی وجود میں پائے جاتے ہیں، اور انھی میں ایک چیز ’نفس‘ ہے۔ نفس کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ انسانی خواہشات کا منبع و مرکز ہے۔ خواہشیں اسی نفس میں پیداہوتی ہیں اور ان خواہشوں کو پورا کرنے کی طاقت کا مادّہ بھی نفس ہی کے اندر موجود ہوتا ہے۔ اپنی خواہش کو ہرحال میں پورا کرنے کی آرزو انسان کے اندر ایک قوتِ عمل پیدا کردیتی ہے اور وہ جائز یا ناجائز ہرطریقے سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مادی طلب کے بالمقابل دین و مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی بندے کو اسی وقت ملتی ہے، جب وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے، جب بندہ اپنی بے لگام خواہشوں پر کنٹرول کرنا سیکھ لے کہ نفس میں ہرآن اور ہرلمحے، طرح طرح کی خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اسی کو اصطلاح میں ’نفس امارہ‘ کہتے ہیں۔

جب بندہ ’نفس امارہ‘ پر بڑی حد تک قابو پالیتا ہے تو وہ ’نفس لوامہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ اس درجے پہ بندے میں بُرے بھلے اور نیکی و بدی کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب وہ مسلسل مشق اور ریاضت کے ذریعے بُرائی اور شر کو ترک کرنے کی ہمت پالیتا ہے، تو وہ ’نفس مطمئنہ‘ کے درجے پر آجاتا ہے۔ خدا اس سے راضی ہوجاتا ہے اور نفس بھی خدا سے اور خدائی فیصلوں پر راضی ہونا سیکھ لیتا ہے، اور اللہ کی رضا پالیتا ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو نفس، ’قلب‘ ہی کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ وہ کیفیت جسے خواہش یا ’آرزو‘ کہتے ہیں۔ یاد رہے ’قلب ‘کی اصطلاح کے بہت وسیع معنی ہیں۔ خدا جب کوئی خیال کسی بندے پر القا کرتا ہے تو وہ قلب ہی پر کرتا ہے۔ لہٰذا، قلب ایک پاکیزہ حقیقت ہے۔ تاہم، اچھی اور بُری خواہشیں جو قلب میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، انھیں نفس کا نام دےدیا گیا ہے، اوراسی مناسبت سے اس کی خرابی اور درستی کے معاملات کا فہم اور شعور دیا گیا ہے۔

نفس میں جو کیفیات جنم لیتی ہیں، ان میں تکبر یا احساسِ برتری اور احساسِ ملکیت، حُب ِ مال، حُب ِ جاہ اور حُب ِ دُنیا، یہ وہ کیفیات ہیں، جنھیں ہم اصطلاحاً ’نفس امارہ‘ کا نام دیتے ہیں۔ گویا ’نفس امارہ‘ کے تزکیے کا دوسرا مطلب قلب کو ہرقسم کی بدی اور گندی خواہشوں سے پاک کرنا ہے۔ ’قلب‘ جب ان گندگیوں سے بلند اور پاکیزہ ہوجاتا ہے تو اس میں سکون و اطمینان اور امن و آشتی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان معنوں میں کہا جاسکتا ہے کہ قلب اب ’قلب ِ مطمئنہ‘ ہوگیا۔

  • گناہ: کیوں اور کیسے؟: انسان کی زندگی چاروں طرف سے گناہوں کی یلغار اور گناہوں کی کشش سے اس طرح گھری ہوئی ہے، جس سے بظاہر یوں لگتا ہے، جیسے شاید انسان، گناہ کرنے ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن خدا کی آخری کتاب قرآن عظیم بتاتی ہے کہ انسان گناہ کے لیے نہیں، گناہوں سے بچ کر خدا کی عبادت اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ تقویٰ جو مقصودِ دین ہے، گناہ سے بچنے ہی کا نام ہے۔ متقی وہ ہے، جو اس کوچے سے اجتناب کرے کہ جدھر گناہوں کی جھاڑیاں اور کانٹے ہیں، لیکن انسان پھر انسان ہے، اس کی فطرت گناہوں کی طرف مائل ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اندر گناہ کی شدید رغبت رکھتا ہے۔ لیکن خدا نے جہاں انسان کی فطرت میں گناہوں کی طرف رغبت کا مادہ رکھا ہے، وہیں گناہ سے بچنے کے لیے ضمیر اور عقل کی نعمتیں بھی عطا کردی ہیں۔یہ ضمیر ہے جو انسان کو گناہوں کی وادی کی طرف جانے سے روکتا ہے، اور یہ عقل ہے جو انسان کو ان نقصانات سے آگاہ کرتی ہے جو گناہ کرنے کے نتیجے میں اسے پہنچ سکتے ہیں۔ گویا انسان کا وجود خیروشر کی کش مکش سے عبارت ہے  

ع       ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر

خدا کی کتاب بتاتی ہے کہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ گناہوں کی کشش اسے مسحور کرکے اسے مائل بہ گناہ کردیتی ہے اور وہ ارتکابِ گناہ کرکے خدا کو ناراض کر دیتا ہے۔ توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے کہ انسان حالت ِ مجبوری میں گناہ کربیٹھے تو جلد حالت ِ غفلت سے نکل آئے اور خدا کے حضور توبہ کرے تاکہ وہ اس کے گناہوں کو اپنے لطف و کرم سے معاف کردے۔ آیندہ اس سے بچنے کا عہد کرے، یعنی گناہ کا داعیہ انسان کی فطرت میں رکھنے کے ساتھ اسی لیے توبہ کا دروازہ کھول دیا گیا، تاکہ انسان جلد پلٹ آئے اور غفلت میں پڑ کر گناہوں پہ گناہ کرتا نہ چلا جائے۔ خداوند تعالیٰ کو معاف کر دینا پسند ہے۔ اسے توبہ کے آنسو بہت عزیز ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ انسان کے گناہ پر ناراضی سے زیادہ اس امر پر غضب ناک ہوتا ہے کہ انسان گناہ کرکے اِترائے۔ اس کا یہ گھمنڈ، درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے، جاہلیت ہے اور دانستہ غفلت ہے، اور ناقابلِ معافی گناہ۔

’غفلت‘ کا مطلب ہے خدا کے احکامات اور شریعت کی تعلیمات کی موجودگی میں ان سے رُوگردانی کرکے خود کو گناہ میں مبتلا کرنا اور گناہ پہ گناہ کرتے چلے جانا، اور توبہ کی طرف مائل نہ ہونا، جب کہ گناہ، صرف توبہ اور ’تلافی‘ سے معاف ہوسکتے ہیں۔ اور پھر ’تلافی‘ سے مراد یہ ہے کہ اگر گناہ مخلوقِ خدا کا حق مار کر کیا گیا ہے تو یہ محض اللہ سے توبہ کرنے سے معاف نہ ہوں گے،تاوقتیکہ اس کی عملاً تلافی نہ کردی جائے، یعنی حق دار کو اس کا حق نہ دے دیا جائے، اور کسی کو تکلیف پہنچائی گئی ہے تو اس سے اپنا گناہ معاف نہ کرا لیا جائے۔

گناہ کے امکان سے حقیقت بننے تک پانچ درجے ہیں اور وہ یہ ہیں: lترغیب ِ گناہ  lتحریکِ گناہ lخواہشِ گناہ l امکانِ گناہ اور پھر عملاً گناہ۔

آج کی زندگی میں اگر چاروں طرف گناہ اور گناہ گار نظر آتے ہیں، تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہرطرف ترغیب ِ گناہ کے دروازے کھلے ہیں۔ دولت و امارت کی جا و بے جا نمایش انسان کو جائز و ناجائز طریقے سے حصولِ دولت کی ترغیب دیتی رہتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے جدید ادارے خصوصاً موبائل فون اور ان کی ایپلی کیشنز، مثلاً فیس بُک، وٹس ایپ، مسینجر وغیرہ گناہوں کی طرف انسان کو راغب کرتے رہتے ہیں۔ ان اداروں سے بڑھتی ہوئی دلچسپی اور رغبت عبادات اور تقویٰ کی زندگی سے دُور کرنے اور بالکل غافل کردینے کا باعث بنتے ہیں۔

سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جدید ثقافت میں ترغیب ِ گناہ بہ کثرت ہیں، جن میں گھِر کر انسان میں گناہ کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور یہی تحریک خواہشِ گناہ بن جاتی ہے___ اور یہ خواہش جب تکمیل کی طرف قدم اُٹھاتی ہے تو امکانِ گناہ پیدا ہوجاتا ہے اور پھر گناہوں کا صدور ہوتا ہے۔ گناہ گار کی زندگی ایک دلدل میں پھنس جاتی ہے، جس سے وہ آسانی سے نہیں نکل پاتا، تاوقتیکہ خدا اس کی سچی توبہ کے نتیجے میں اسے گناہوں کی دلدل سے نکلنے کی توفیق نہ دے دے۔

اسلام میں بندگیِ رب کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ خدمت خلق کا ہی دوسرا نام حقوق العباد ہے۔ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی، مؤمنانہ وصف ہے:

اِلَّا الْمُصَلِّيْنَ۝۲۲ۙ  الَّذِيْنَ ہُمْ عَلٰي صَلَاتِہِمْ دَاۗىِٕمُوْنَ۝۲۳۠ۙ  وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ  لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵ (المعارج ۷۰: ۲۲-۲۵﴾) مگر لوگ (اس عیب سے بچے ہوئے ہیں) ﴾ جو نماز پڑھنے والے ہیں، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں، جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔

حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یا خدمت خلق کے انکار کو قرآن کافرانہ عمل کے مشابہ قرار دیتا ہے:

اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ۝۱ۭ  فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ۝۲ۙ  وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝۳ۭ   (الماعون۱۰۷: ۱-۳) کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کا کھانے دینے پر نہیں اُکساتا۔

دکھاوے کی نماز پڑھنے والوں اور خسیس طبیعت لوگوں کو جو دوسروں کی معمولی سی خدمت بھی نہیں کرتے، قرآن تباہی کی دھمکی دیتا ہے:

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۝۴ۙ الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۝۵ۙ  الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ۝۶ۙ  وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ۝۷ۧ  (الماعون۱۰۷: ۴-۷) تو پھر تباہی ہے اُن نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں، جو ریاکاری کرتے ہیں، اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حقوق العباد میں خیانت کرنے والوں کے ایمان کی نفی فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے، ﴿یہ تین بار فرمایا: ﴾ جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے لیکن اس کا پڑوسی بھوکا سوجائے‘‘۔ اس نوعیت کی اور بھی کئی حدیثیں ہیں۔

درج بالا تمام آیات مکی ہیں۔ مکے میں مسلمانوں کو خدمت خلق کرنے کی بڑی تاکید کی گئی تھی۔ مکے میں عبادات اور حلال و حرام کی فہرست نازل فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حقوق العباد، خدمت خلق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی اہمیت سے واقف کرایا اور انھیں داعی کے کردار کا لازمی وصف قرار دیا۔ اس بات کو اُن دو پڑوسیوں کی مثال سے بہ آسانی سمجھا جاسکتا ہے جو ہمیشہ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بیمار پڑ جائے تو وہ دوسرے کی پیش کردہ دوا بدگمانی اور شکوک کی بنا پر ہرگز استعمال نہیں کرے گا۔ البتہ اُن دونوں کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوں تو دونوں آنکھ بند کرکے ایک دوسرے پر اعتماد کریں گے۔ پس داعی کے اخلاق و کردار، صداقت و دیانت اور انسانیت نوازی سے مدعو اگر واقف اور متاثر ہو تو پھر جلد ہی وہ اس کی دعوت سے بھی متاثر ہوکر رہے گا۔

قرآن نے سابق انبیائے کرامؑ کی دعوتی جدوجہد کا جو نقشہ مسلمانوں کے سامنے بطور اُسوہ پیش کیا ہے، اس میں اَن تھک اور مسلسل دعوت، مشکلات اور ابتلائوں میں پہاڑ کی سی ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق، انسانوں کو مختلف تکالیف اور پریشانیوں سے نجات دلانے اور سماجی مسائل کو حل کرنے کے اقدامات کا تذکرہ بہت زیادہ نمایاں ہے۔ مثلاً:

۱- حضرت ہودؑ قوم عاد کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، جس میں شرک و بت پرستی کے علاوہ اُونچی اُونچی عمارتیں بنا کر اسراف اور فضول خرچی کے ذریعے اپنی شان و شوکت جتانے کی بڑی اخلاقی برائی تھی۔ حضرت ھودؑ نے ان دونوں بیماریوں کا علاج کرنے کی کوششیں بیک وقت کیں جن کا تذکرہ قرآن پاک کی سورۃ الشعراء کی آیات ۳۲ ۱ تا ۱۴۰میں تفصیل سے دیکھا جاسکتا ہے۔

۲- حضرت صالح ؑ کو قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا تھا جو پہاڑوں کی چٹانیں تراش کر ان میں بڑے بڑے محلات بناتی اور اُونچی اُونچی عمارتیں تعمیر کرتی تھی۔ حضرت صالح ؑنے اُس کے شرک و کفر کے علاوہ اُس فضول اور بے فیض کام پر بھی گرفت کی تھی۔ ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف، آیات ۷۳ تا۷۹،  سورۂ الشعراء آیات ۱۴۱ تا ۱۵۹۔

۳- حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو ہم جنسی کی بدترین اخلاقی پستی سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کی تھیں۔ قرآن میں جہاں جہاں آپؑ کی دعوتی کوششوں کا تذکرہ ہے وہاں وہاں سماج کو اُس قبیح عادت سے چھٹکارا دلانے کی جدوجہد کا ذکر بھی لازماً کیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے سورۂ اعراف آیات :۷۹ تا ۸۴،سورۂ ھود آیات :۷۷ تا ۸۳، سورۂ حجر آیات:۵۸ تا۷۷، سورۂ انبیاء آیات: ۷۳ تا۷۵،سورۂ شعراءآیات:۱۶۰ تا۱۷۵ ، سورۂ نمل آیات:۵۴ تا۵۸، سورۂ عنکبوت آیات:۲۸تا ۳۵۔

۴-حضرت شعیبؑ کی قوم میں ناپ تول میں بے ایمانی اور سنسان راستوں پر لوٹ مار کرنے کی بیماریاں تھیں۔بعض مفسرین کا خیال ہے کہ حضرت شعیبؑ دو قوموں کی طرف بھیجے گئے تھے: اہل مدین اور اصحاب الایکہ ﴿ (تفہیم القرآن جلد ۵، تفسیر سورۂ شعراء آیت :۱۷۶ )۔آپؑ نے اپنی دعوتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ اُن سماجی بیماریوں کی اصلاح کی بھی کوششیں فرمائی تھیں، جن کا تذکرہ قرآن میں کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: سورۂ اعراف آیات:۸۵تا۸۷ ، سورۂ ھود آیات:۸۴تا ۹۵، سورۂ شعراء آیات:۱۷۶تا ۱۹۱ ، سورۂ عنکبوت آیات :۳۶، ۳۷۔

۵- حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کو مصر کے قبطیوں اور ان کے بادشاہ فرعون کے کفر و شرک اور ظلم و استحصال کے خاتمے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ساتھ ہی بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزاد کراکے ان کی اصلاح کا کام بھی انھیں انجام دینا تھا۔ حضرات موسیؑ و ہارونؑ کی جدوجہد قرآن میں بہت تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔

۶- حضرت یوسفؑ نے خدمت خلق کا بڑا جامع منصوبہ بنایا۔ آپؑ کی تدبیر سے مصر و عراق اور آس پاس کے ملکوں کی ایک بہت بڑی آبادی سات سالہ قحط کی ہلاکت سے محفوظ رہی تھی۔ قحط سے قبل آپ نے سات سالوں تک غلے کی بچت کرکے اس کا بڑا ذخیرہ محفوظ کرلیا تھا۔

۷-حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمانؑ نبی ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی تھے، جن کے ذمے اپنی رعایا اور اطراف میں رہنے والے انسانوں کے لیے ایک رفاہی سلطنت کا قیام بھی تھا۔

قرآن کریم کی اِن تعلیمات اور آنحضورؐ کی اخلاقی تربیت سے صحابہ کرامؓ پر زبردست اثرات مرتب ہوئے۔ آپؐ کی رہنمائی میں انھوںؓ نے دعوت دین، خدمت خلق اور حقوق اللہ کی ادائیگی کا زبردست کام انجام دیا اور اپنے معاشرے کے مسائل کو حل کیا۔ غلام آزاد کرائے، لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچایا، یتیموں ، کمزوروں، غلاموں ، خواتین ، مسافروں وغیرہ کے حقوق کا تحفظ کیا، عورتوں کا وقار بحال کرایا۔ شراب، جوا، فحاشی، عریانی، زناکاری، فریب دہی، چوری، لوٹ مار، قتل و غارت گری وغیرہ جرائم کا کُلّی استیصال کیاگیا۔ غریبوں ، بے سہاروں، یتیموں، بیوائوں، مطلقاؤں، مریضوں، مسافروں، غلاموں وغیرہ کے لیے مالی امداد کا زبردست ادارہ بیت المال اور دیگر رفاہی ادارے قائم کیے گئے۔

اسی انبیائی نمونے کااتباع موجودہ تحریکات اسلامی کررہی ہیں۔ پاکستان کے علاوہ مصر اور دیگر عرب و افریقی ممالک میں اخوان المسلمون ، فلسطین میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، ترکی میں مختلف پارٹیاں اور بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی، الجزائر میں الجمیعت الاسلامیہ وغیرہ نے دعوتِ دین کے ساتھ خدمت خلق کو اساس بنایاہے۔تحریکات اسلامی اپنے ممالک میں متبادل حکمراں طاقت کے طور پر سامنے آئی ہیں۔جماعت اسلامی ہند ابتدا ہی سے اپنی پالیسی میں خدمتِ خلق کو نمایاں اہمیت دیتی رہی ہے اور سنجیدگی سے اس پرعمل پیرا ہے۔ مزید بہتری اور تیزی لانے کے لیے وہ اپنے متوسلین کی مسلسل تربیت بھی کررہی ہے۔

دعوتِ دین کا کام کرنے والی تمام تنظیموں اور افراد کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ مسائل کے شکار عوام کو محض وعظ ونصیحت کرنا مفید ثابت نہ ہوگا۔ ضرورت ہے کہ انبیائے کرامؑ کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے ہم عوام کے مسائل کو بھی حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کریں۔ انھیں پریشانیوں اور مصیبتوں سے نجات دلانے کی جدوجہد کریں۔ ہمارا عمل گواہ ہوکہ ہم انسانیت کے حقیقی خیرخواہ ہیں۔ ایسی صورت میں ان شاء اللہ حالات بڑی تیزی سے اسلام کی دعوت کے حق میں تبدیل ہوجائیں گے۔

اسلامی علوم وفنون کی تدوینِ نو کا کام ایک ہمہ پہلو تعلیمی اور فکری جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جدوجہد میں بعض نئے مسائل پر اجتہادی نقطۂ نظر سے غور وخوض بھی شامل ہے اور بعض اجتہادی آراء پر اَزسرنو ناقدانہ نظر ثانی بھی ناگزیر ہے۔ دور جدید نے بعض ایسے مسائل ومعاملات ہمارے سامنے پیش کر دیے ہیں، جو سلف کے سامنے نہیں تھے۔ اس لیے ماضی میں مجتہدین اُمت اور مفکرین اسلام کو ان پر کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

  • کثیر جہتی معاشرے میں اسلام کا کردار: مثال کے طور پر ایک کثیر نسلی و مذہبی (Pluralistic) معاشرے میں اسلام کا کردار کیاہے اور کیا ہونا چاہیے؟ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بیسویں صدی کے اواخر میں سامنے آیا۔ بالخصوص مجاہدین افغانستان کے ہاتھوں سوویت یونین کی تباہی اور بالآخر کمیونزم کے زوال کے نتیجے میں جو یک قطبی دنیا سامنے آئی، تو اس مسئلے کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔ اب ایک طرف تو مغرب کی کوشش یہ ہے کہ تہذیبوں کے تصادم کے پردے میں ایک یک عنصری نظام دنیا پر مسلط کر دیں۔ دوسری طرف کثیر العناصر نظاموں کی تلاش کے نام پر دوسروں کے معاملات میں مداخلت کا جواز پیدا کریں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ قرآن وسنت کی نصوص اور فقہائے اسلام کی تصریحات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا تعین کریں کہ ایک مسلم معاشرے میں دوسری تہذیبوں اور ثقافتوں کی بقا کیونکر اور کن حدود کے اندر رہ کر ہوسکتی ہے اور ایک غیر مسلم معاشرے میں اسلامی ثقافت اور اسلامی تمدن کا تحفظ کیسے کیا جا سکتا ہے؟

آج دنیا کا کوئی بڑا شہر ایسا نہیں ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ نہ ہو رہا ہو، جہاں مسلم تنظیمیں فعال نہ ہوں، جہاں مسجدیں اور اسلامی مراکز ترقی نہ کر رہے ہوں، جہاں قدیم اور جدید مسلمانوں کے مابین ربط و ضبط [Interaction] نہ ہو رہا ہو۔ ان شہروں میں تیزی سے پھیلنے والی مسلم آبادیاں اپنے آپ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر منظم کر رہی ہیں۔ مشرق ومغرب کے غیر مسلم ممالک میں بسنے والے یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلم نوجوان اپنے تشخص کا تحفظ اور   اپنی شخصیت کا اظہار چاہتے ہیں۔ ان حالات میں ان کو نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسلامی شریعت کی رُو سے ان مسائل کا حل کیا ہے؟ ان سب سوالات کا شافی جواب آج کے اہل علم کے ذمے ایک قرض اور فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔ ماضی میں یہ صورت حال اتنی شدید اور وسیع نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے۔ اس کی شدت اور وسعت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہرآنے والا دن ایک نیا مسئلہ لے کر طلوع ہوتا ہے۔

ہماری قدیم فقہی کتابیں، مسلمانوں کے دور عروج میں مرتب ہوئیں۔ مجتہدینِ اسلام نے اسلامی ریاست، اسلامی تہذیب، اسلامی ثقافت، اسلامی معاشرہ اور اسلامی زندگی کے ایسے مسائل اور ان کے ممکنہ حل تو نہایت باریک بینی اور توجہ کا موضوع بنانے سے مرتب کر دیے، جو مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں پیش آئے، یا جن سے مسلمانوں کو مسلم ماحول میں واسطہ پڑتا ہے۔ رہے وہ مسائل جو ایک مسلم اقلیت کو پیش آسکتے تھے، یا غلامی کی زندگی گزارنے والے مسلمانوں کو پیش آسکتے تھے، انھیں فقہائے اسلام کو زیادہ توجہ کا موضوع بنانے کا نہ موقع ملا، اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی۔

اس کی وجہ بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مسلمانوں کو سیاسی زوال کا سامنا کرنا پڑا تو یہ وہ زمانہ تھا جب اسلامی فقہ بھی ایک طرح کے تعطل کا شکار ہوکر جمود کے دورِ انحطاط سے گزر رہی تھی۔ اجتہاد کا سلسلہ تقریباً بند ہو چکا تھا اور علمائے اسلام عام طور سے دورِ انحطاط میں لکھی ہوئی فقہی کتابوں اور متون کی شرحوں اور حاشیوں کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں مغربی ممالک میں جا کر بسنے والے مسلمانوں کی رہنمائی کا کوئی خاص سامان فراہم نہ ہوا، جس کے نتیجے میں یہ لوگ مختلف مغربی معاشروں میں جا جا کر گم ہوتے رہے۔ آج نئی تحقیقات اور تاریخی اکتشافات سے ان لاتعداد مسلم آبادیوں کا پتہ چل رہا ہے جو امریکا، آسٹریلیا، برازیل اور ارجنٹائن جیسے بڑے ممالک کے سمندروں میں گم ہو گئیں۔ اگر اٹھارھویں صدی کے اوائل ہی سے کسی  ’فقہ الاقلیات‘ پر غور وخوض کی داغ بیل ڈال دی جاتی، اور ایسے غیر موافقانہ ماحول میں مسلم وجود کے احکام پہلے سے مرتب شدہ موجود ہوتے، تو شاید یہ مسلمان آبادیاں یوں آسانی اور تیزی سے وہاں گم نہ ہوتیں۔ خلاصۂ کلام یہ کہ آج فقہائے اسلام اور علمائے اُمت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پیش آنے والے سوالات اور نت نئی مشکلات کا ایسا قابل عمل حل پیش کریں، جو غیر مسلم ماحول میں مسلم وجود کے تحفظ اور بقا کا ضامن ہو۔

  •  اسلامی معاشرے اور ریاست کی تحدیدِ نو: اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آج کے حالات کی مناسبت سے مسلم معاشرے اور مسلم ریاست کی تحدید ِنو کی جائے اور جدید معروضی حقائق اور فکری مباحث کے پس منظر میں یہ واضح کیا جائے کہ اسلامی معاشرے کی تعریف کیا ہے؟ اور اسلامی ریاست آج کے سیاق وسباق میں کس ریاست کو کہا جائے گا؟

اس بات کی ضرورت اس لیے پیش آ رہی ہے کہ فقہائے اسلام نے آج سے کم وبیش ایک ہزار دو سو سال قبل ’دار الاسلام‘، ’دار الحرب‘ اور ’دار الصلح‘ وغیرہ کی جو حد بندیاں تجویز کی تھیں، وہ آج کے زمینی حقائق کی روشنی میں اجنبی معلوم ہوتی ہیں۔ خود فقہائے اسلام کو ابتدائی دو تین صدیوں میں ہی ان تقسیمات پر کئی بار اَزسرنو غور وخوض کرنا پڑا۔ دوسری صدی ہجری کے نصف اول کے زمینی حقائق کی روشنی میں امام ابو حنیفہؒ (م: ۱۵۰ھ) کے فہم اسلام کی رُو سے روئے زمین کو صرف دو حصوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تھے، یعنی دار الحرب اور دار الاسلام۔ لیکن جلد ہی امام شافعیؒ (م: ۲۰۴ھ) بلکہ خود امام ابوحنیفہؒ کے شاگردوں کو اس تقسیم پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انھوں نے ’دارالاسلام‘ اور ’دار الحرب‘ کی دوگانہ تقسیم کے مابین ’دار العہد‘ اور ’دار الصلح‘ کی درمیانی تقسیمیں تجویز کرنا ضروری سمجھا۔ کچھ اور بعد کے فقہا نے ’دار العدل‘، ’دار البغی‘ اور ایسی ہی دوسری تقسیموں کی ضرورت محسوس کی۔

آج کے بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں جدید زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ان تمام تقسیموں پر اَزسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کوئی ایک ملک نہ دنیا سے بالکلیہ لاتعلق ہو کر رہ سکتا ہے اور نہ کسی ملک سے تعلق کی وہ نوعیت ہو سکتی ہے جو فقہائے اسلام نے ’دار الحرب‘ کے حوالے سے سوچی تھی۔ یہاں تک کہ جن ممالک سے مسلمان عملاً برسرِ جنگ ہیں  [مثال کے طور پر ہندستان، اسرائیل، روس اور امریکا] ان کو بھی کلی طور پر ’دارالحرب‘ قرار دینا اس لیے مشکل ہے کہ فقہائے اسلام نے اس وقت ’دار الحرب‘ کی جو شرائط بیان کی تھیں، ان میں سے کئی شرائط ان ممالک میں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، جہاں مسلمانوں کی خود مختار حکومتیں بھی ہیں، جہاں انھیں مذہبی مراسم اور مذہبی تعلیم کی آزادی بھی حاصل ہے، لیکن وہ خود کو آئینی طور پر سیکولر ریاست قرار دیتے ہیں۔ ان کو شاید نہ دارالاسلام کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے اور نہ غالباً ان کو ’دار الحرب‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ اور ا س طرح کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جن کے پیش نظر ایک نئی تقسیم کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور نصوص اور فقہائے اسلام کے متفق علیہ اجتہادات کو سامنے رکھتے ہوئے ان حدود کا آسانی سے تعین کیا جا سکتا ہے، جن کے ذریعے سے جدید بین الاقوامی تعلقات اور میل جول کے معاملات کو نئے انداز سے منظم کیا جاسکے۔

  • تہذیبی کش مکش اور غورطلب پہلو: اسی طرح کا ایک اور مسئلہ گذشتہ چند برسوں کے درمیان ہونے والی بحثوں کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، اس نے مستقبل میں ممکنہ تہذیبی جنگ یا کم از کم کشمکش کے بارے میں مسلمانوں کے لیے اہمیت رکھنے والے متعدد سوالات اٹھائے ہیں:

۱- تہذیبوں کے اس تصادم میں اسلام کا رویہ کیا ہوگا؟ پھر جس چیز کو اسلامی تہذیب کہا جاتا ہے، اس کے تحفظ اور بقا کے لیے مسلمانوں کو کس حد تک جانا چاہیے؟

۲- کیا اسلامی تہذیب کے مادی اور فنی مظاہر (تاج محل اور الحمرا وغیرہ) اسی طرح دفاع کے مستحق ہیں جس طرح اسلامی تہذیب کے فکری اور تعلیمی امتیازات (مثلاً اسلامی علوم اور اصول فقہ وغیرہ)؟

۳- تہذیبوں کی ممکنہ کشمکش میں مذاہب کی روایتی تقسیم (مذاہب اہل کتاب، شبہہ اہل کتاب اور غیر اہل کتاب) کی حیثیت کیا ہوگی اور اس تصادم کے دوران مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہوگی؟

۴- اس باب میں کیا مسلم حکومتوں، مسلم عوام اور مسلم اقلیتوں کی ذمہ داریوں کے مابین فرق کیا جائے گا؟

۵- اگر تہذیبی تصادم شروع ہوا تو دنیائے اسلام میں اس وقت قائم قومی ریاستوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ اور ان مسلم قومی ریاستوں اور تصور امت کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے کی کیا صورت ہوگی؟

۶- دنیائے اسلام کے وہ علاقے جہاں بہت سے لوگ خود کو مغربی تہذیب کا تسلسل قرار دیتے ہیں، ان کا طرز عمل اس تصادم کے دوران میں کیا ہونا چاہیے؟

۷- اور بڑا  بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا ہمارے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم میں اس کی گنجایش ہے کہ ایسے اصحاب بصیرت پیدا ہو سکیں، جو اس طرح کے چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے میں امت مسلمہ کی راہ نمائی کر سکیں؟ بہرحال اس اکیسویں صدی میں مسلمانوں کے نظام تعلیم کا کم از کم ایک بنیادی ہدف ایسے افراد کار کی تیاری بھی ہونا چاہیے۔

یہ اور ایسے بے شمار سوالات ہیں، جو اجتہادی بصیرت کے متقاضی ہیں۔ ان سوالات کا جواب نہ محض فقہی اسلوبِ استدلال سے کام لے کر دیا جا سکتا ہے، اور نہ محض متکلمین اسلام کی تحریروں سے۔ اس کام کے لیے نہ صرف قرآن مجید پر گہری نظر اور پیغام قرآن میں گہری بصیرت کی ضرورت ہے بلکہ فکر اسلامی میں مہارت، تصوف اور کلام سے واقفیت اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ جدید مغربی افکار بالخصوص فلسفہ، تاریخ اور معرکۂ مذہب وسائنس کی تاریخ اور نشیب وفراز سے ناقدانہ واقفیت بھی ضروری ہے۔

  • جہاد اور دعوت میں توازن   : اسلامی علوم وفنون کی تدوین نو کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ جو جدید دینی تحریکات اور تحریکی فکر کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، وہ جہاد اور دعوت کے شکستہ رشتے کی بازیابی ہے۔ بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشروں میں جب پہلی جنگ عظیم میں کامیابی کے بعد سلطنت برطانیہ کا آفتاب نصف النہار پر معلوم ہوتا تھا، تو دنیائے اسلام میں بہت سے حساس اور مخلص خادمین اسلام نے یہ محسوس کیا کہ دنیائے اسلام کی کمزوری اور ادبار کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اُمت مسلمہ کی پشت پناہی کے لیے کوئی ایسی بڑی سلطنت موجود نہیں ہے، جو مذکورہ بالا ریاستوں کے مقابلے میں کھڑی ہو سکے اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کے موقف کو بیان کر سکے۔

اس احساس نے، جس کی بنیادیں اخلاص اور دردمندی کے خمیر سے اٹھی تھیں، متعدد طاقت ور اسلامی تحریکات کو جنم دیا۔ ان تحریکوں کی صفوں سے بہت سے ایسے اہل قلم اور اربابِ صحافت سامنے آئے جنھوں نے ملت اسلامیہ کی نشاتِ ثانیہ کی لازمی شرط اور خشت اول کے طور پر اسلامی ریاست کے وجود کو لازمی قرار دیا اور یوں بیسویں صدی کے وسط سے لے کر آیندہ کم وبیش پچاس سال کے دوران میں یہ بحث معاصر اسلامی فکر کی شاید سب سے اہم بحث بن گئی، جس نے دنیائے اسلام میں مغربی تعلیم یافتہ نوجوانو ں کی ایک بہت بڑی تعداد کو متاثر کیا، اور اس طرح ’احیائے اسلام‘ اور ’اقامت دین‘ کی اصطلاحیں تاسیس ریاست کے مترادف بن گئیں۔

ان مباحث میں ’جہاد‘ اور’ دعوت‘ کی اصطلاحات بڑے پیمانے پر کلام و بیان کا حصہ بنیں، اور اکثر وبیشتر ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر استعمال ہوئیں حالانکہ یہ دونوں اصطلاحات مسلمانوں کی دینی ذمہ داریوں کے دو مختلف مراحل کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیم کی بنیادی روح ایمانِ کامل، تعلق مع اللہ اور اُخروی کامیابی کا حصول ہے۔ اسلام کا مزاج داعیانہ ہے، فاتحانہ نہیں۔ وہ سنگ وخشت کو فتح کرنے سے نہیں، قلب وروح کو فتح کرنے سے غرض رکھتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاصر حکمرانوں کو جتنے بھی دعوتی خطوط تحریر فرمائے، ان میں بہت سے مکتوبات میں یہ بات قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھی کہ ’’اگر تم اس پیغام کو قبول کر لو تو تمھاری حکومت برقرار رہے گی اور تمھارا اقتدار قائم رہے گا‘‘۔ اسلامی دعوت کی تاریخ میں یہ بات انتہائی اہمیت رکھتی ہے کہ آغاز وحی سے لے کر ریاست مدینہ کے قیام اور سنہ ۲ ہجری میں ’میثاق مدینہ‘ کی تحریر وتدوین تک کا یہ سارا پندرہ سالہ عمل ایک انتہائی پُرامن تبدیلی کے مرحلے سے عبارت تھا۔ بغیر ایک قطرۂ خون بہائے اور تلوار ہاتھ میں لیے ایک مسلم معاشرہ اور مسلم ریاست وجود میں آ گئی۔ جہاد بالسیف کی اجازت اس وقت دی گئی، جب اس ریاست پر بیرونی حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعوت اور جہاد کے مابین اس نہایت اہم تاریخی ترتیب کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اصل، دعوت ہے اور جہاد بالسیف اس کا ایک ناگزیر مرحلہ۔ یوں بھی قرآن مجید کی متعلقہ نصوص کی رُو سے جہاد کی بہت سی قسموں: جہاد بالمال، جہاد بالقرآن، جہاد بالنفس کے ساتھ جہاد بالسیف بھی ایک مرحلہ ہے، اگرچہ وہ اپنی اہمیت اور فضیلت کے اعتبار سے بقیہ تمام مراحل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات میں جو مزاج تیار ہوا اور جو ادب سامنے آیا، اس میں دعوت اور جہاد کے ان مراحل اور ترتیب کا لحاظ رکھنے کی، کوئی شعوری کوشش نہ کی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دعوت کا خالص نبویؐ اسلوب پس منظر میں چلا گیا اور سیاسی کشاکش اور سیاسی تنظیم نے اس کی جگہ لے لی۔ سیاسی سرگرمیوں کا یہ انداز خالص دعوتی انداز سے چونکہ خاصا مختلف تھا، اس لیے جب ان سرگرمیوں کو دینی مکالمے اور دینی محاورے میں بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، تو اس میں جہاد کی اصطلاح زیادہ موزوں اور قریب الفہم محسوس ہوئی۔ اس لیے اس کو بلاتکلف استعمال کیا جانے لگا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کے وہ لازمی شرائط جو جہاد بالسیف کے ساتھ خاص ہیں،  روزہ مرہ کے سیاسی عمل کا لازمی حصہ سمجھی جانے لگیں اور یوں بعض جگہ دینی تحریکات کے پُرجوش کارکنوں کے ذہنوں میں مغربی انداز کا سیاسی عمل ایک مجاہدانہ سرگرمی بن گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اس میں شدت پیدا ہوتی گئی تو اس کا اظہار شدت پسندانہ انداز میں ہونے لگا۔

ان حالات میں مسلمان اہل علم اور مفکرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ جہاد اور دعوت کے گرد گھومنے والے اس علم کلام کا ازسرنو جائزہ لیں اور یہ واضح کریں کہ دعوت اور جہاد کا رشتہ کیا ہے؟ اور یہ کہ دور جدید کے مغربی انداز کے عام سیاسی عمل کی اسلام میں کیا حیثیت ہے؟ اور یہ کہ اس عمل کو کب اور کس طرح دعوتی رنگ دیا جانا چاہیے؟ اور کب اور کن حالات میں اس عمل کو جہاد بالسیف میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟

جہاد کے سیاق وسباق میں جہاں دعوت وجہاد کے رشتۂ شکستہ کی بحالی ضروری ہے… وہاں عدل، ایفائے عہد، احساس ذمہ داری، نظم، سمع وطاعت اور اس طرح کے بہت سے احکام جہاد کے لازمی عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان عناصر کے بغیر اگر تلوار اٹھائی جائے گی تو وہ فتنہ اور افراتفری پیدا کرے گی۔ اس سے پہلے دعوت اور اس کے مراحل، تالیف قلب اور اس کے مراحل اور دشمن پر پُرامن دباؤ کے مراحل کا گزرنا ضروری ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جدید اسلامی فکر کے بعض انتہائی محترم اسلامی مفکرین کی تحریروں سے جو یک طرفہ رجحان جنم لے رہا ہے، اس میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے نئے معاملات ہیں جو سنجیدہ اور گہرے غور وخوض کے متقاضی ہیں۔

مولانا سیّد جلال الدین انصر عمری، اللہ کی عطا کردہ زندگی گزار کر، خالق و مالک کے حکم پر ۲۶؍اگست ۲۰۲۲ء کو، ربّ کے حضور پیش ہوگئے۔ وہ صرف ہندستان کے مسلمانوں کا نہیں بلکہ پوری اُمت مسلمہ کا سرمایہ تھے۔ان کا انتقال ہم سب کے لیے ایک گہرا زخم اور بڑا سانحہ ہے۔ موت برحق ہے، سب کو جانا ہے۔ یہاں پر کوئی بھی ہمیشہ نہیں رہا۔ لیکن کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں، جن کی زندگی دوسروں کے لیے روشنی کا منبع ہوتی ہے۔ ایسے قیمتی افراد کے جانے سے ایک ایسا بڑاخلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بھرنے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ مولانا جلال الدین عمری صاحب کا شمار انھی قیمتی افراد میں سے ہے___  اِنَّـا لِلہِ   وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

مجھے ان سے بالمشافہہ ملنے کا موقع تو دوبار ہی ملا، لیکن ان سے بنیادی تعارف ان کی کتابوں اور ان کے مضامین سے تھا، جن سے مَیں بے حد متاثر تھا۔ فکر کی گہرائی، مطالعے کی وسعت، زبان و بیان کا حُسن، دلیل کی قوت، سبھی خصوصیات ان کی تحریر کا حصہ تھیں۔ ہزاروں افراد نے مجھ سمیت ان کی تحریروں سے استفادہ کیا ہے۔ اس طرح وہ میرے محسنوں میں شامل ہیں۔

مولانا جب انگلستان آئے تو کمالِ عنایت سے اسلامک فائونڈیشن میں بھی تشریف لائے۔ یہاں ان کے ساتھ کئی گھنٹے ملاقات رہی۔ دینی، تحریکی، قومی اور عالمی اُمور پر بہت کھل کر بات چیت ہوئی۔ امرواقعہ ہے کہ ان کے پُراعتماد لہجے نے ہندستان کے مسلمانوں کے بارے اور اسلام کے مستقبل کے بارے میں عزم و اُمید کے چراغ روشن کیے۔ پھر جب پاکستان تشریف لائے تو اسلام آباد میں ہم نے ان کے اعزاز میں محفل منعقد کی، جہاں انھوں نے بڑی ایمان افروز تقریر فرمائی۔

مولانا عمری صاحب سے اپنے ربط و تعلق کے زمانے پر نظر دوڑائوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ماہ نامہ زندگی ، رام پور پھر زندگی نو، نئی دہلی اور اس کے ساتھ تحقیقات اسلامی  ،علی گڑھ میں اُن کے فکرانگیز مضامین ہمیشہ توجہ کھینچ لیتے تھے، اور قلب و نظر کو علم سے منور کرتے تھے۔اُن کی کتب خاص طور پر عورت اسلامی معاشرے میں، معروف و منکر، اسلام میں خدمت خلق کا تصور، مزدوروں کے حقوق ، غیرمسلموں سےتعلقات اور ان کے حقوق بہت عام ہوئیں۔ بلاشبہہ اصولِ دین، عقیدے، قرآنی تجزیات، سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلام کی جامع تعلیمات، تحریکی اُمور اور عہدحاضر کی زندگی کے پیدا شدہ مسائل پر انھوں نے اجتہادی بصیرت کے ساتھ کلام کیا۔ اگرچہ ان کا میدان علمِ معاشیات نہیں تھا، مگر اسلامی تعلیمات کے اطلاقی معاشی پہلو پر انھوں نے متعدد تحریروں کے ذریعے انسان کے معاشی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے رہنمائی دی، خصوصیت سے مزدوروں کے مسائل۔ سیاسی و تہذیبی موضوعات، دعوتِ دین کے عملی اور اطلاقی حوالے ، کثیر مذہبی معاشرت میں زندگی کے چیلنج، غرض کون سا موضوع ہے جس پر انھوں نے قلم نہیں اُٹھایا، اور جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کردیا۔ کمال یہ کہ وہ جو بات کرتے، دلیل سے کرتے تھے اور بڑے شگفتہ انداز میں۔

مولانا عمری صاحب جہاں قرآن کے مفاہیم سے گہرا ربط رکھتے تھے، وہیںوہ سیرتِ پاکؐ سے اُمڈتی روشنی سے بھرپور فیض پاتے تھے۔ حدیث نبویؐ سے متعلقہ اُمور میں احتیاط غالب تھی، تو دوسری طرف فقہی بصیرت ایمان افروز تھی۔ ایک طرف اسلامی فکری اور تہذیبی روایت سے وابستگی درجۂ کمال کو پہنچی ہوئی تھی تو دوسری جانب اس فکر اور تفکر کو نئی نسل میں منتقل کرنے کی خداداد صلاحیت اور گہرا ذوق و شوق بھی الحمدللہ فراواں تھا۔ انھوں نے نئے موضوعات پر لکھا اور اپنے رفقا سے لکھوایا بھی۔ وہ جن موضوعات پر لکھ رہے تھے، مگر مباحث ادھورے رہ گئے، انھیں مکمل کرنا نوجوان فاضلین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں قائدانہ ، تبلیغی، دعوتی اور مکالماتی صلاحیتوں سے بھی فیاضی سے نوازا تھا، جنھیں انھوں نے بڑی محنت سے استعمال کیا۔جماعت اسلامی ہند کی امارت کی ذمہ داری بہ حُسن و خوبی انجام دی۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے جوارِ رحمت میںرکھے اور ان کے صدقاتِ جاریہ کا فیض مدتوں جاری و ساری رکھے، آمین!

خالق کائنات کی کمالِ حکمت ہے کہ اس نے زمین پر اپنے ’خلیفہ‘ انسان کو دو صنفوں میں پیدا کیا، جو انسانیت میں یکساں ہونے کے باوجود جسمانی ساخت، ذہنی و نفسانی اوصاف اور جذبات وداعیات، ایک دوسرے سے مختلف لےکر پیدا ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو مختلف اسالیب میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

 اور یہ کہ اسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا۔(النجم ۵۳ :۴۵)

سورئہ شوریٰ میں ربِ کریم کی عظمت اور قدرت کے اظہار کے طور پر فرمایا:

اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ، جسے چاہتاہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادرہے۔(الشورٰی ۴۲:۴۹-۵۰)

اللہ کی عطا کردہ جنس، اصولِ زوجیت اور اس کے نتیجے میں طریقۂ تناسل، اللہ کی تخلیق کردہ نشانی ہے۔ یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کا اظہار ہے۔ البتہ بعض اوقات اللہ ہی کی حکمت کے تحت دورانِ حمل یا کچھ عوامل کے اثرانداز ہونے یا صنفی خلیوں (عورت کے بیضہ یا مرد کے نطفہ) میں کسی جینیاتی (ڈی این اے) تبدیلی یا تغیر کے باعث بچے کی جنسی شناخت میں ابہام واقع ہو جاتا ہے۔

پیدایشی نقائص جسم کے کسی بھی حصے میں ہوسکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں، کہیں بھی ہوں ایک بیماری اور آزمایش ہیں۔ ان نقائص کو انٹرسیکس (Inter Sex) یا جنسی نشوونما کی خرابی (Disorder of Sex Development) کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد کو’ خنثیٰ ‘کہا جاتا ہے۔ جنسی ابہام ایک معذوری ہے جو آبادی کے 0.017 فی صد افراد میں نوٹ کی گئی ہے۔ دیگر معذوریوں یا بیماریوں کی طرح اس کا ممکنہ علاج یا بندوبست میڈیکل کے شعبے اور معاشرے کی ذمہ داری ہے اور ان کے حقوق متعین ہیں۔

’ٹرانس جینڈر‘ کے حقوق کی حفاظت کے نام پر جو قانون سازی ہوئی ہے یا کی جارہی ہے، اس میں ایسے افراد کے حقوق کی حفاظت یا معاشرے میں انھیں باعزّت مقام دینے کی سرے سے کوئی بات ہی نہیں۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کے عنوان میں ضمناً ان کا ذکر آگیا ہے۔

’جنس‘ (Sex) تو وہ ہے جو کسی فرد کی پیدایش کے وقت حیاتیاتی شناخت ہے، جب کہ ’جینڈر‘ کا مفہوم مختلف ہے۔ یہ وہ کیفیت ہے جو ایک فرد اپنے بارے میں محسوس کرلے یا معاشرہ اس سے اس کردار کی توقع رکھے۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک مرد یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ عورت ہے، اور وہ عورتوں جیسی شناخت رکھنا چاہے اور ’عورت‘ ہونے کی حیثیت میں مردوں سے جنسی لذت کا خواہش مند ہو تووہ اس کا جینڈر ہے۔ اسی طرح کوئی ’عورت‘ خود کو ’مرد‘ محسوس کرتے ہوئے ’مردانہ‘ اطوار اختیار کرسکتی ہے۔گویا’جینڈر‘ اصل ’جنسی‘ شناخت سے مختلف ہوسکتا ہے۔

اسی سوچ کو مزید ترقی ۱۹۷۰ء کے عشرے میں ملی جب ۱۹۷۴ء میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح سامنے آئی۔ ’بنیادی انسانی حقوق‘ کے تحفظ کے نام پر فرد کے اس حق کو تسلیم کیا گیا کہ حیاتیاتی جنسی تعین سے قطع نظر کرتے ہوئے وہ اپنی جنس کا تعین اپنی خواہش سے کرسکتا ہے۔

ایک مرد کو اپنا مرد ہونا پسند نہیں ہے تو وہ ’عورت‘ بن سکتا ہے اور کسی عورت کو اپنا عورت ہونا اچھا نہیں محسوس ہوتا تو وہ ’مرد‘ بن سکتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے میڈیکل سائنسز اس کی پوری مدد کریں گی۔ چنانچہ ’مرد‘ کو ’عورت‘  بنانے کے لیے نسوانی ہارمون دے کر اور پلاسٹک سرجری کے ذریعے جسمانی ساخت میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

اسی طرح عورت کی ’مرد‘ بننے کی خواہش ہے، تو مردانہ ہارمون اور سرجری کے ذریعے اس کی جسمانی ساخت میں رد و بدل ممکن ہوسکتا ہے۔ ظاہری ساخت میں تبدیلی کا جینیاتی ساخت پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خالق کائنات کی تو ہر تخلیق ’منفرد‘ ہے۔ عورت اور مرد کا بنیادی خلیہ (cell)بلکہ ہرخلیہ منفرد ہے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف۔

ابتدا میں اپنی حیاتیاتی جنسی شناخت پر عدم اطمینان کو ایک ’نفسیاتی بیماری‘ قراردیا گیا۔ بعدازاں اسے ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کی فہرست سے نکال کر ’فرد کا حق‘ قرار دے دیا گیا اور دُنیابھر کو اس ’حق‘ کو تسلیم کرنے کا حکم صادر کردیا گیا۔

دراصل ’ٹرانس جینڈر‘ کے نام پر ہم جنسیت کا تحفظ بلکہ فروغ مقصود رہا ہے۔ ’ٹرانس جینڈر‘ کی پوری بحث اور تذکرے میں ’خنثیٰ‘ یا ’خواجہ سرا‘ کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ملتا۔ ایسا غالباً صرف ہماری پاکستانی پارلیمنٹ میں ہوا کہ انھیں ایک دوسرے سے منسلک کردیا گیا، تاکہ ’خنثیٰ‘کی آڑ میں نئی اصطلاح ’ٹرانس جینڈر‘ قابلِ قبول بنائی جاسکے۔ اس اصطلاح کو قابلِ قبول بنانے کے لیے میڈیا اور دوسرے مقامات پر ’خنثیٰ ‘کو’ ٹرانس‘ کہنا شروع کر دیا گیا۔

حضرت ابوہریرہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد روایت کرتے ہیں: ’’چار آدمی صبح کےوقت اللہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ ان سے ناراض ہوتا ہے‘‘۔

میں نے پوچھا: ’’وہ کون ہیں یارسولؐ اللہ؟‘‘

فرمایا:

  • وہ مرد جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں۔
  • وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں
  • وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیرفطری حرکت کرتا ہے
  • وہ مرد جو مرد سے اپنی خواہش پوری کرتا ہے۔

اللہ کا دین تو ظاہری مشابہت بھی گوارا نہیں کرتا، کجا یہ کہ فطرت میں تبدیلی کے جتن ہوں اور پھر اسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہو۔ یہ نہ صرف انسانی مرتبہ و مقام اور شرف کی توہین ہے بلکہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے۔ انسانی حقوق کی آڑ میں ایسے شرمناک افعال کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ نیکی، رحم، عدل اور احسان کے معانی میں تمام بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے مگر اپنی خواہشات کی تابع داری کو انسانی حقوق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ’خواہش پرستی‘ کو شرک بھی قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنالیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہِ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ (الفرقان ۲۵:۴۳)

سورئہ کہف میں مزید وضاحت سے ارشادہے:

کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے، اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔(الکہف ۱۸:۲۸)

اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی شیطانی کام ہے۔ انسان جسے ربّ العزت نے احسن تقویم بنایا، اپنے خلیفہ ہونے کا شرف بخشا۔جب اپنے اس شرف سے غافل ہوتا ہے اور نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، تو وہ اپنے طے شدہ ایجنڈے پر اسے چلاتے ہوئے اسے جہنم کا ایندھن بناکر چھوڑتا ہے، جیساکہ ارشادِ ربانی ہے:

وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں جس کو اللہ نے لعنت زدہ کیا ہے۔ (وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں) جس نے اللہ سے کہا تھا کہ ’’میں تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کررہوں گا، میں انھیں بہکائوں گا، میں انھیں آرزوئوں میں اُلجھائوں گا، میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انھیں حکم دوں گا اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں رَد و بدل کریں گے‘‘۔ اس شیطان کو جس نے اللہ کے بجائے اپنا ولی و سرپرست بنالیا وہ صریح نقصان میں پڑگیا۔ وہ اِن لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انھیں اُمیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ ان لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے خلاصی کی کوئی صورت یہ نہ پائیں گے۔ (النساء۴:۱۱۷-۱۲۱)

خاتم النبیین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابلیسی طریقۂ واردات سے متنبہ فرماتے ہوئے واضح ارشاد فرمایا: ’’لعنت فرمائی اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پرجو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(رواہ البخاری)

سورۃ الاعراف میں خواہشات کے غلام کو اس کتّے سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کی لٹکتی ہوئی زبان ایک سونگھنے والی آتشِ حرص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتہ دیتی ہے‘‘ (آیت۱۷۶)

جنسی تبدیلی کے آپریشن کے بارے میں تمام مسلم علما کا ایک ہی موقف ہے۔ مصر کا الازہر ہو یا سعودی عرب کا دارالافتا، پاکستان اور ہند کے تمام مکاتب ِ فکر کے علما کا اس معاملے میں متفقہ فیصلہ ہے۔ ملایشیا، مراکش، انڈونیشیا اور قطر کے علما، غرض سب اس معاملے میں متفق ہیں۔

قطر کے وزارتِ اوقاف کے تحت کام کرنے والے مستند افتاء مرکز نے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد علی البار نے لکھا:’’اس قسم کے آپریشن کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے، جو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی تخلیق میں تبدیلی کو مستلزم ہے اور جبلت سے انحراف بھی شامل ہے۔ آپریشن صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب حالت مشتبہ ہو جیساکہ ایک مرد حقیقت میں عورت ہو، لیکن اس کے اعضا مردوں کی طرح ہوں تو ایسی صورت میں اپنی قدرتی اور اصل حالت پر واپس آنے کے لیے آپریشن کروانے میں کوئی حرج نہیں (اور اسی طرح دوسری صورت میں)۔

لیکن اگر اعضاء معمول کے مطابق ہیں، جنسی شناخت میں کوئی شبہہ نہیں ہے تو محض خواہش کی تکمیل کے لیے جنس کی تبدیلی کا آپریشن کروانا جائز نہیں۔ فقط جنسِ مخالف کی طرف نفسیاتی میلان اور رجحان اس آپریشن کے لیے جواز نہیں بن سکتا بلکہ یہ رجحان ختم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور اپنا نفسیاتی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔

LGBTQ: یہ مخصوص اصطلاحات کے پہلے حروف کا مجموعہ ہے ، مثلًا L برائے Lesbian  یعنی وہ عورت جو عورت ہی کو شریک حیات منتخب کرتی ہے ۔ Gیعنی Gay وہ مرد جو ایک مرد سے تعلقات رکھے۔ B سے مراد Bisexual جو مرد اور عورت دونوں کے ساتھ رغبت رکھے ۔ T یعنی Transgender جو پیدایش کے ساتھ ملنے والی جنسی شناخت کے بجائے جنس مخالف کی شناخت اختیار کرے ، جنس تبدیل کرلے ، اس کے لیے دواؤں اور آپریشن کا طریقہ اپنائے۔ Qسے مراد Queer  ہے، جو ابھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ اس نے تبدیلی کے لیے کون سی جنس کا انتخاب کرنا ہے ۔

اس کے مقابل ایک دوسری اصطلاح Intersex ہے، جو Hermaphroditeبھی کہلاتی ہے۔ یہ دونوں میڈیکل اصطلاحات ہیں ، جو ان افراد کے لیے مخصوص ہیں، جو پیدایشی نقص کے حامل ہوتے ہیں۔ان کو بوقت پیدایش لڑکا یا لڑکی کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو ہیجڑہ یا ’مخنث‘ کہتے ہیں۔ان اصطلاحات Transgender اور Intersex کو جو یکسر مختلف ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

  • تاریخ : تبدیلیٔ جنس کی تاریخ کا نکتۂ آغاز سولھویں صدی میں ولیم شیکسپیئر (م: ۱۶۱۶ء) کا ڈراما بنا، جس میں کرداروں کو لباس کی باہم تبدیلی یعنی مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس پہنا کر پیش کیا گیا ۔ اس دوران ۱۷۹۸ء میں انگلستان میں ہم جنسیت کے قانون میں تبدیلی کی سفارش کی گئی۔ دوسرے دور میں برطانیہ میں فوجداری جرائم کے قوانین میں ترمیم کی گئی ، اس کے لیے بھی ایک ڈراما نویس آسکر والڈ (م: ۱۹۰۰ء) نے ترامیم کے لیے کوششیں کیں ۔ اسی دوران سگمنڈ فرائیڈ (م:۱۹۳۹ء) نے ہم جنسیت کو بچپن میں سرپر لگنے والی چوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔بعدازا ں برطانیہ میں اس کی حمایت میں سوسائٹیز بننا شروع ہوئیں ۔امریکا میں ایسی سوسائٹیز کا آغاز ۱۸۹۰ءمیں ہوا، اور اس تحریک کے تعارف اور حمایت کے لیے متعدد ناول لکھے گئے۔ ۱۹۲۲ء میں امریکا کے ضابطۂ فوجداری قوانین کی فہرست سے ہم جنسیت کو نکال دیا گیا،گویا اس جرم پر سزا نہیں ہوگی۔

تیسرے دور میں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و امریکا میں بہت سے گروپس وجود میں آگئے۔امریکا کی پہلی عوامی تنظیم ۱۹۵۷ء میں مخصوص نام سے منظم ہوئی۔قانوناً ہم جنسیت کو ۱۹۵۷ء میں جائز قرار دے دیا گیا۔ اس مرحلے (۱۹۶۸ء) میں عورت کی آزادی کی تحریک اور ہم جنسیت زدگی کی تحریک ایک ہی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ ہم جنس زدہ عورتوں نے، آزادیٔ نسواں کی علَم بردار خواتین پر زور دیا کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔(un.org.lgbt.plus)

۱۹۷۲ء میں سویڈن پہلا ملک تھا، جس نے سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت دی اور اس کے لیے ہارمون یا دواؤں کے استعمال کو بھی جائز قرار دیا۔اسی دوران ۱۹۷۴ءمیں امریکی ماہرین نفسیات ایسوسی ایشن نے ہم جنسیت اور تبدیلیٔ جنس کو ذہنی بیماریوں کی فہرست سے نکال دیا۔اس سے جڑے برسوں میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کی انجمنوں، سوسائٹیز نے اپنے حقوق کے حصول کی تحریک کا آغاز کیا۔ برطانیہ میں ۱۹۷۴ء میں پہلی ہم جنس زدہ خاتون، پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی۔ برطانیہ میں ان کا ایک خبرنامہ بھی شائع ہونا شروع ہوگیا۔

ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کی تحریک دُنیابھر میں شروع ہوگئی۔ اسی دور میں ۱۹۸۰ء میں ایڈز سے متعلق سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مرض ہم جنس زدگان میں سب سے زیادہ ہے ۔ جس سے اس تحریک کو کچھ دھچکا لگا۔

  • قانون سازی : دنیا بھر میں اس کے متعلق قانون سازی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے ۳۱ ممالک ہم جنس زدگان کو شادی یا باہم مل کر رہنے کاحق دیتے ہیں ۔۴۰ ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ تبدیلیٔ جنس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ۵۷ممالک ان کو امتیازی سلوک سے متعلق کچھ نہ کچھ تحفظ دیتے ہیں۔۶۸ ممالک ہم جنسیت کو جرم قرار دیتے ہیں اور گیارہ ممالک میں ان کے لیے سزائے موت ہے (un.org.lgbt.plus)۔ایسے لوگوں کے حقوق،امتیازی سلوک کے خاتمہ ، حقوق میں برابری وغیرہ کو عدالتوں ، حکومتی ذمہ داران اور عوامی مراکز کا عنوان بنایا گیا۔ان کی تشہیر کی گئی، تسلسل سے مظاہرے کیے گئے، یادداشتیں پیش کی گئیں، عدالتوں میں کوششیں کی گئیں ، غرض چومکھی جنگ لڑی جانے لگی۔
  • اثرات: یہ تحریک آج تک پورے زور و شور سے جاری ہے اور اپنے اثرات دکھا رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں ، امریکا میں کیے گئے سروے کے مطابق۹۳ فی صد جونیئر اسکول اسٹوڈنٹس کےوالدین اور ۹۱ فی صد سینئر اسکول کے بچوں کے والدین صنفی تعلیم کہ جس میں ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس شامل ہے، اس کے بارے میں مفصل معلومات دئیے جانے کے حق میں ہیں  (www.cap.mews)۔ بہت سی آرگنائزیشنز بشمول امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن ، نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن ، امریکا کا محکمۂ صحت اور انسانی سروسز کا ادارہ بھی اس کے حق میں ہیں ۔

گلوبل انسائیکلوپیڈیا برائے ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس LGBT مرتب کیا گیا ۔جس میں الفاظ کو تبدیل کر کے لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر معروف اصطلاح ’بریسٹ فیڈنگ‘ کو ’چیسٹ فیڈنگ‘ لکھا گیا ہے۔عوامی مقامات پر واش روم یا باتھ روم پر ان کے لیے مخصوص علامات آویزاں کی گئی ہیں ۔ بچوں کی کارٹون سیریز میں سالانہ کئی نئی سیریز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک معروف کارٹون سیریز ڈزنی میں ان کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ بیڈن انتظامیہ نے اوباما کی پالیسیوں کے تسلسل میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدایش کے لیے سہولیات کی اجازت دے دی ہے(نیشنل ریویو، ۲۳جون ۲۰۲۱ء)۔ ایسےمرد، بچے کی پیدایش کے بعد ماں اور عورت ،باپ ہونے کا اعلان کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں (Kellyman.com)۔ سالانہ تقریبات میں Month Pride  (خود اعتمادی کا مہینہ) کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جو اسکول انتظامیہ اور حکومتوں کی سرپرستی میں وسع پیمانے پر انجام پاتی ہیں ۔ اگرچہ ان سب اقدامات سے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ پریشان ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔ مثلاً ایک امریکی سروے میں بہت سے امریکی ووٹر اپنے بچوں کی سرجری کے ذریعے کی جانے تبدیلیٔ جنس کے تو خلاف ہیں، مگر خوف کی بنا پر کھلم کھلا مخالفت نہیں کر تے۔(The Cristian Post،  ۱۸مئی ۲۰۲۲ء)

۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ۲۵ لاکھ ہم جنس زدگان موجود تھے۔ بہت سی عوامی تحریکیں ان کی حمایتی تھیں۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے ’انڈین پینل کوڈ‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیرقانونی قرار دے دیا، جو ہم جنس زدہ افراد کو شادی کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ ۲۰۱۴ء میں انڈین سپریم کورٹ نے ان افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اسی سال ایک پرائیویٹ ممبر نے ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن بل‘ جنس تبدیل کرنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا ، جوقانونی کمیٹی کی کچھ ترامیم کے بعد دسمبر ۲۰۱۹ء میں پاس ہوکر قانون کا حصہ بن گیا۔

  • پاکستان میں آغاز: برطانوی حکومت نے برصغیر پاک وہند میں ’انڈین پینل کوڈ‘ کے سیکشن ۳۷۷ کے تحت LGBT سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان آزاد ہوا تو اس نے اس قانون کو بطور ’پاکستان پینل کوڈ ۳۷۷ ‘ برقرار رکھا۔ ۱۹۸۰ء میں صدرجنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں اس جرم کی سزا کو بڑھا کر عمر قید اور رجم میں تبدیل کردیا گیا۔ پھر صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی کچھ تقریبات منعقد ہونا شروع ہوئیں۔ دینی جماعتوں کی مخالفت کے سبب ان کو علانیہ اپنے آپ کو متعارف کروانا ممکن نہ ہوسکا۔

مئی ۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہاتھوں ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس ہوا۔ جس میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں انٹر سیکس یا ہجیڑے یا مخنث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نیشنل کورٹ آف جیورسٹ نے اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تعریف، جس کے سیکشن ۲ میں انٹرسیکس کو شامل کیا گیا ہے ، کی طرف اشارہ کیا کہ ہیجڑہ ،ٹرانس جینڈر نہیں ہے۔ مئی ۲۰۲۲ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ٹرانس جینڈر بل پیش کیا گیا، اور ۵جولائی ۲۰۲۲ء کو سندھ اسمبلی نے ٹرانس جینڈرز کے لیے جاب کوٹہ مقرر کیا ہے۔ یہ اس تحریک کے مختلف مراحل کا ایک مختصر خاکہ ہے۔

انسانی حقوق کا بنیادی تصور یہ ہے کہ تمام انسان آزادی، تحفظ، عزّت اور یکساں سلوک کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ حقوق کسی بھی قسم کے مذہبی، نسلی، لسانی، جغرافیائی حدود، عمر، جنس، معاشی و سماجی مرتبہ کی تفریق کے بغیر سب کو حاصل ہوں۔ انسانی حقوق ہرفرد کو پیدائشی طور پر حاصل ہیں اور کسی سے بغیر کسی وجہ کے چھینے نہیں جاسکتے۔

عصرحاضر میں انسانی حقوق کے تصورات، تفصیلات اور معاہدات اقوامِ متحدہ کے تحت طے کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے ۱۹۴۵ء میں اپنے قیام کے بعد اپنے دستور (یواین چارٹر ۱۹۴۶ء) میں ایسے بنیادی اُصول وضع کیے جن کی بنیاد گذشتہ چند صدیوں میں مغرب میں پیش کردہ انسانی حقوق کے تصورات اور ان کی بنیادوں پر انقلابات، نئی ریاستوں کا قیام اور ان کےدساتیر کا ترتیب پانا تھا، جن میں انگلستان کا ’میگناکارٹا‘ (۱۲۱۵ء)، انقلاب فرانس کا ’منشور حقوق انسانی‘ (۱۷۸۹ء)، امریکا کا ’منشور انسانی حقوق‘ (۱۷۷۶ء) اور امریکا کا ’معاہدہ انسانی حقوق و فرائض‘ (۱۹۴۸ء) شامل تھے۔

جمہوری فلسفہ کے تحت اقوام متحدہ نے بہت سی مثبت اور تحفظاتی حقوق سے متعلق قراردادیں منظور کیں اور آخرکار ۱۰دسمبر ۱۹۴۸ء کو ’عالمی منشور حقوقِ انسانی‘ (The Universal Declaration of Human Rights) منظرعام پر آیا۔ دُنیا کے بیش تر ممالک نے اس کی تائید کی اور جنھوں نے تائید نہیں کی انھوں نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ صرف عام اصولوں کا اعلان و اظہار تھا، معاہدہ نہیں تھا کہ کسی نوعیت کی قانونی پابندی دستخط کرنے والی حکومتوں پر لازم ہو۔ البتہ اس کے ذریعے واضح کر دیا گیا تھا کہ یہ وہ معیار ہے جس تک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس منشور کو حقوق انسانی کی تاریخ میں ایک انقلابی قدم سمجھا جاتا ہے۔

حقوقِ انسانی کے اس عالمی منشور (UDHR 1948) میں ۳۰ آرٹیکلز کے ذریعے فرد کے بنیادی حق زندگی، عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی حقوق کا احاطہ کیا گیا ہے۔ منشور میں تمام حقوق کو عالم گیر اور ناقابلِ تنسیخ قراردیا گیا ہے۔ ہرفرد کا حق تسلیم کیا گیا ہے کہ اس کے ساتھ مساوات ہو، کسی کو اس سے برتر یا اسے کسی سے کم تر نہ سمجھا جائے۔ اسے جان اور مال کا تحفظ حاصل ہو۔ اس پر کسی قسم کا جبروتشدد روا نہ رکھا جائے۔ اسی طرح عقیدہ اور مذہب، اظہارِخیال ، تنظیم اور جماعت سازی، سفر اور نقل مکانی، شادی اور خاندان بسانے کے حق کو مانا گیا ہے۔ تعلیم، حکومت میں شرکت، ملازمت، راحت اور آرام، خلوت اور نجی زندگی میں عدم مداخلت کو بھی اس کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے دستور اور انسانی حقوق کے چارٹر نے تمام دُنیا میں، تمام مرد و خواتین کے لیے جو حقوق لازم قرار دیئے ہیں، انھیں اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے اپنے ریاستی دساتیر اور قوانین کا حصہ بنایا۔ آئین پاکستان ۱۹۷۳ء میں بھی ان تمام بنیادی حقوق اور آزادیوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اس اہم حقیقت کا تذکرہ ضروری ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور اور اس کے بعد آنے والے انسانی حقوق کے مختلف معاہدات اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔

شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICCPR 1966)، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ (ICESCR 1966)،نسلی امتیازات کے خاتمے کا بین الاقوامی معاہدہ (ICERD 1965)، خواتین کے خلاف ہرقسم کے امتیازات کے خاتمے کا سمجھوتہ (CEDAW 1979)، تشدد کے خلاف سمجھوتہ (CAT 1984)، بچوں کے حقوق کے تحفظ کا سمجھوتہ (CRC 1989) اور دیگر معاہدات ، قراردادوں میں کسی بھی سطح پر ہم جنسیت کو انسانی حقوق کا درجہ حاصل نہیں ہے۔

’ہم جنسیت‘ کو انسانی حقوق سے منسلک کرنے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ۲۰ویں صدی کے آخری عشرے میں ہم جنسیت کو ’جبلت‘ اور ’طبیعت کا میلان‘ قرار دیتے ہوئے، اسے ایک عمل کے بجائے ایک رویہ قرار دیا گیا اور اس کے لیے ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) کی اصطلاح وضع کی گئی۔ ہم جنس زدہ افراد جو پہلے صرف Homosexualsکہلاتے تھے، ان کی وسیع نمایندگی کے لیے پہلے LGB ، پھر LGBT ، LGBTI، اور LGBTIQ کی اصطلاحات استعمال کی جانے لگیں۔

اقوام متحدہ کے تحت پہلی دفعہ ’جنسی رجحان‘ کی اصطلاح خواتین کی ’چوتھی عالمی کانفرنس‘ کے لیے بننے والی دستاویز ’بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘ (BPA 1995)کے دوران زیربحث آئی، جہاں اسے خواتین کے حق کے طور پر متعارف کروایا گیا۔ بعدازاں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) اور انسانی حقوق کی کونسل (UNHCR) کے تحت مختلف فورمز پر جنسی رجحان، صنفی شناخت اور LGBTحقوق کی تائید میں قراردادیں ، اعلامیے اور بیانات پیش اور منظور ہوتے رہے۔

اس سلسلے کی اہم قراردادیں ۲۰۱۱ء، ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۵ء میں منظور ہوئیں۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کے ۱۲ بین الاقوامی اداروں: ILO، OHCHR، UNAIDS، UNDP، UNESCO، UNFPA، UNHCR، UNICEF، UNODC، UN WOMEN، WFP اور WHO نے  LGBT افراد کے خلاف امتیاز اور تشدد ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ قرارداد منظور کی، جس پر ممبر ممالک سے عمل درآمد کا مطالبہ کیا گیا۔ ۹۶ ممبر ممالک نے LGBTحقوق کے تحفظ کے لیے اس قرارداد کی تائید کی۔ ان تمام پیش قدمیوں کے دوران ۲۰۰۸ء کی منظور شدہ ایک قرارداد کی مخالفت میں ویٹی کن کے نمایندے، ’اسلامی تعاون کی تنظیم‘ (OIC) اور پاکستان کی طرف سے بھی مخالفت میں بیان دیئے گئے اور ان اقدامات کو ’’بین الاقوامی انسانی حقوق کے ڈھانچے کو کمزور کرنے اور معاشرے میں جنسی بے راہ روی کی اثرپذیری‘‘ اور ان کے قانونی جواز پر تحفظات کا اظہار کہا گیا۔

اقوام متحدہ نے LGBT حقوق کے ضمن میں اپنی اس تمام پیش رفت کے دوران ۲۰۱۱ء میں انسانی حقوق کی کونسل میں حتمی طور پر LGBT حقوق کو بطورِ انسانی حقوق تسلیم کرنے کی قرارداد منظور کرلی۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے فوراً ہی ایک رپورٹ جاری کردی، جس میں دُنیا کے مختلف ممالک میں LGBT افراد کے حقوق کی خلاف ورزی، ان کے خلاف ہونے والے مبنی بر نفرت جرائم، امتیازات اور ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی سزائوں کا جائزہ لیا گیا۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا کہ ’’وہ LGBT حقوق کی حفاظت و ضمانت کے لیے قوانین کی تشکیل کریں‘‘۔ اقوام متحدہ کے تحت LGBT حقوق کو انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے نتائج میں، عالمی اداروں کی حمایت کے ساتھ ’جنسی رجحان‘ (Sexual Orientation) ، صنفی شناخت (اپنے خود ساختہ احساسات کی بنیاد پر) رویوں کی ترویج، ہم جنسیت کو ممنوع یا ناروا رویے کے بجائے سماجی قبولیت کا درجہ حاصل ہونا، ہم جنسیت کے خلاف خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان کی تنسیخ کا مطالبہ، ہم جنس زدگان کی علانیہ فخریہ پریڈ اور ہم جنس شادیوں کو قانونی تحفظ دینا شامل ہیں۔

LGBTکے انسانی حقوق کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد ہم جنس شادیوں سے متعلق بہت سے اُمور پر بھی قوانین سازی کی کوششیں جاری ہیں، جن میں اسے جوڑنے کے لیے اولاد کا حصول بذریعہ Adoption یا Surrogacy (کرائے پر رحمِ مادر کا حصول) اور IVF کے ذریعے تولیدی عمل، تبدیلیٔ جنس کے لیے سرجری، ہارمونز کی تبدیلی اور دیگر اُمور کی اجازت اور سہولیات کی فراہمی، تولیدی صلاحیتوں میں تبدیلیوں کی سرجری کی سہولیات کی فراہمی پر مبنی قوانین شامل ہیں۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی تعلیم، ملازمت، طبّی سہولیات، فوجی خدمات میں بلاامتیاز شمولیت کے قوانین اور امتیازی سلوک یا ہراساں کیے جانے کے خلاف قوانین کی تشکیل بھی مطلوب ہے۔

ہم جنس شادی کی صورت حال دیکھی جائے تو ۲۰۰۱ء میں ہالینڈ سے آغاز کے بعد سے ۲۰۲۲ء تک اسے برطانیہ، ویلز، امریکا، آسٹریلیا، جرمنی، فرانس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، مالٹا، کینیڈا، اسپین، ڈنمارک، برازیل سمیت ۳۲ ممالک میں (مکمل طور پر یا کچھ حصوں میں) قانونی تحفظ حاصل ہوچکا ہے، جب کہ مزید ۳۴ ممالک میں ہم جنس جوڑوں کو تحفظ حاصل ہے۔ تقریباً ۷۰ممالک میں جن کا تعلق ایشیا، افریقا اور مشرق وسطیٰ سے ہے، ہم جنسیت غیرقانونی ہے۔ البتہ ۲۰۱۹ء میں بھارت میں بھی سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہم جنسیت کو قانونی تحفظ دیا گیا ہے۔

عالمی اداروں کے دبائو پر قوانین میں گنجایش پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ انھی میں ایسے ممالک ہیں، جہاں ہم جنسیت کی قانونی سزا ’سزائے موت‘ ہے۔ ان میں ایران، سوڈان، سعودی عرب، یمن، صومالیہ، نائیجیریا کے کچھ علاقے، شام اور عراق شامل ہیں۔ اگرچہ پاکستان، افغانستان، موریطانیہ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی شریعہ لا کے تحت سزائے موت دی جاسکتی ہے، لیکن اس پر کبھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی متعدد بار تمام ممالک کو ہدایت ہے کہ وہ ’’ہم جنسیت کے خلا ف موجود ریاستی قوانین کو منسوخ کر دیں اور ہم جنسیت اور ہم جنس شادی کے حق میں قانون سازی کریں اور پالیسی اقدامات اُٹھائیں‘‘۔ پاکستان میں بھی گذشتہ عشرے سے نسبتاً مربوط کوششوں کے اثرات ظاہر ہورہے ہیں ۔ ۲۰۱۸ء میں خواجہ سرا افراد کے حق میں منظور ہونے والے قانون میں ’ٹرانس جینڈر‘ کی اصطلاح میں وسعت پیدا کرتے ہوئے، جنسی رجحان اور شخصی صنفی شناخت کو قانونی تحفظ فراہم کرکے LGBT حقوق اور ہم جنس شادی کا راستہ کھولنے کی کوشش کی گئی۔

آئین پاکستان ۱۹۷۳ء کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بنیادی تشخص اسلام ہے۔ ریاست کی حاکمیت اعلیٰ اللہ رب العالمین کے لیے ہے اور ملک میں قرآن و سنت کے قانون کی بالادستی ہے۔ جس سے متصادم کوئی قانون سازی ملک عزیز میں نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کے قانون ساز اداروں پر لازم ہے کہ ہم جنسیت سے متعلق کسی قسم کے قوانین کو ملکی قوانین کا حصہ نہ بنائیں کہ یہ  اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور ریاست کے آئین کی نفی ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تجارت، بین الریاستی تعلقات کا ایک اہم جز ہے، اور عالم گیریت کے دور میں یہ اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ تجارت خاص طور پر ناموافق تعلقات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے، کیونکہ اس سے بہتر ماحول کی تشکیل میں مد د ملتی ہے۔ بنیادی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ’’تجارت کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے اور وقتاً فوقتاً کشیدگی کو دوطرفہ تجارت پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، کیونکہ عارضی خلل بھی خاص طور پر عام لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے‘‘۔

بلاشبہہ، کوئی بھی سمجھ دار شخص، پاک بھارت تعلقات کو معمول پر لانے پر اعتراض نہیں کرسکتا، لیکن تاریخ ان کمزور لوگوں پر کبھی رحم نہیں کھائے گی جو وقتی مصلحتوں کی قربان گاہ پر اصولوں کی قربانی دیتے ہوئے اس حقیقت کے برعکس دلائل دیئے چلے جارہے ہیں۔

پاکستان ان دنوں تباہ کن سیلاب اور اس کے مابعد اثرات سے گزررہا ہے۔ ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنے کے حق میں دلائل اور زیادہ زورشور سے سننے کو مل رہے ہیں۔ یہ دعویٰ کیا جارہا ہےکہ ممکنہ طور پر پاکستان کو کھانے پینے کی اشیا اور کپاس کی بڑے پیمانے پر قلت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے نہ صرف مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ پاکستانی برآمدات (exports) کو بھی نقصان پہنچے گا۔ لیکن بھارت سے ان اشیا کو درآمد کرکے اس صورتِ حال میں جزوی طور پر کمی لائی جاسکتی ہے، کیونکہ ان شدید معاشی اور مالیاتی حالات میں پاکستان کے لیے بھارت سے بہتر کوئی متبادل نہیں۔ اگر زندگی بخش دوائیں ہندستان سے درآمد کی جاسکتی ہیں تو ضروری اشیائے خورونوش کے حق میں یہ دلیل کیوں نہیں دی جاسکتی؟

جی ہاں، خالصتاً معاشی نقطۂ نظر سے یہ خیالات بامعنی ہیں۔ لیکن جب پاکستان بھارت تعلقات کی بات آتی ہے تو جغرافیائی معاشیات (جیواکنامکس) کو دوسرے بنیادی متعلقات سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

۱۴فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ میں مسلح کارروائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، بھارت نے پاکستان سے درآمد و برآمد کے معاملات پر سخت فیصلے کیے اورفوری طور پر پاکستان سے درآمدات پر ۲۰۰ فی صد کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی۔ لیکن پاکستان نے ردعمل میں اس طرح سے جواب نہیں دیا۔ تاہم، پاکستان نے سفارتی تعلقات کو کم کرنے کے علاوہ دوطرفہ تجارت کو صرف اس وقت روکا، جب اسی سال ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت نے کشمیر پر یک طرفہ غیرقانونی ادغام کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارت نے اپنی ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ غیرآئینی اقدام کیا۔ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ایسا ردعمل ظاہر کرے جیساکہ اس نے کیا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ۲۰۲۲ء کے سیلاب سے بہت پہلے پاکستان میں دوطرفہ تجارت کی بحالی کی تجاویز سننے میں آرہی تھیں۔ ’تحریک انصاف‘ کی حکومت میں وزیر تجارت عبداللہ رزاق داؤد اور وزیرخزانہ حماد اظہر نےعوامی سطح پر رائے سازی شروع کر رکھی تھی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اس سلسلے میں ایک سمری بھی تیار کرلی تھی، جسے بعد میں انھی کی کابینہ نے مسترد کر دیا۔  بعدازاں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت کے وزیرخارجہ بلاول زرداری نے حلف اُٹھانے کے بعد اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک سے خطاب کے دوران بھارت سے تجارت کے حق میں بیان داغ دیا۔

خارجہ پالیسی کے اس طرح کے اہم فیصلوں کو ایسے غیرسنجیدہ انداز میں حل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ایسا ہونا چاہیے۔ شہباز شریف کی حکومت میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک روز قوم کو بتایا کہ ’’پاکستان بھارت سے ضروری اشیائے خورو نوش درآمد کرنے پر غور کر رہا ہے‘‘۔ اور اگلے ہی روز وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے وزیرخزانہ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایسا کچھ نہیں ہے‘‘۔ خارجہ پالیسی کے اہم مسائل پر فیصلہ سازی کی مناسبت سے یہ رویہ تشویش ناک ہے۔

بھارتی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد سے باضابطہ درخواست موصول ہونے پر اس معاملے پر غور کیا جائے گا، جب کہ بھارتی میڈیا نے یہ منتر دُہرایا کہ ’’تجارت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں چل سکتے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بھارت، پاکستان کو کشمیر پر اپنے روایتی موقف سے ہٹ کر چلتا دیکھنا چاہتا ہے۔ یاد رہے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے ۷؍اگست ۲۰۱۹ء کو اپنے اجلاس میں کچھ ایسے فیصلے کیے، جو پاکستان میں وسیع عوامی جذبات کی نمایندگی کرتے ہیں۔دُنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے بھی ۵؍اگست کے بھارت کے غیرسنجیدہ فیصلے پر پاکستان کے معقول ردعمل کا خیرمقدم کیا۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کے مقتدر حلقے، کشمیر پر اپنے غیرسنجیدہ رویے کی وجہ سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنہیں سکے۔ تاہم، عالمی برادری کی جانب سے لاتعلقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان بھارت کے مقابلے میں اپنے اصولی موقف سے دست بردار ہوجائے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے اس موقف کو دُہرایا کہ ’’جب تک بھارت کشمیر کی سابقہ صورتِ حال کو بحال نہیں کرتا، پاکستان بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا‘‘۔ بھارت یہ توقع کر رہا تھا کہ شہباز حکومت گذشتہ حکومت کی طرف سے اختیار کیے گئے سخت موقف کو بآسانی ترک کر دے گی۔

بھارت کی طرف سے مسلسل ہٹ دھرمی پر مبنی دھونس اور بین الاقوامی عہدوپیمان کی دھجیاں بکھیرنے کے باوجود، پاکستان کا دوطرفہ تجارت دوبارہ شروع کرنا کشمیر کاز کے لیے ایک اور دھچکا ہوگا۔ اسلام آباد کو بھارت کے غیرآئینی اقدامات کو قانونی حیثیت نہیں دینی چاہیے، جو کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ۱۹۷۲ء کے شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان اس صورتِ حال کو جوں کا توں قبول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جسے بھارت مستحکم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

ان حالات میں بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی سے کشمیریوں کے حوصلے مزید پست ہوں گے۔ وہ سخت مشکلات میں اپنی جدوجہد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب پیاز، ٹماٹر  اور کپاس کی درآمد دیگر جگہوں سے کی جاسکتی ہو تو کشمیریوں کی قربانی کو ان کی بھینٹ چڑھانا انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ امرواقعہ تو یہ ہے کہ پاکستان کو دیگر مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے بھارت سے ادویات کی درآمد بھی روک دینی چاہیے۔ اپنی کشمیر ڈپلومیسی کو مزید مستحکم کرنا چاہیے اور نامناسب وقت پر یک طرفہ لچک میں مبتلا ہونے سے گریز کرنا چاہیے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم معروف عالمی تنظیم ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘(A1) نے حال ہی میں جاری اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے:’’جموں و کشمیر میں پچھلے دو برسوں یعنی اپریل ۲۰۲۰ءسے مارچ ۲۰۲۲ءتک پولیس مقابلوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد سے ا ب تک شہریوں کی ہلاکتوں میں ۲۰ فی صد کا اضافہ ہوا ہے‘‘۔ رپورٹ کے مطابق: ’’مقامی قوانین کی منسوخی کے نتیجے میں سات اداروں بشمول انسانی حقوق کمیشن کو تحلیل کر دیا گیا، جس سے خطے کے لوگوں کے لیے انصاف کا حصول مشکل تر ہو گیا ہے‘‘۔ اس تنظیم کے مطابق: ’’خطے کے ہائی کورٹ میں اس وقت ایک ہزار۳سو۴۶ حبس بے جا مقدمات التواء میں ہیں۔ مجموعی طور پر حبس بے جا کی درخواستو ں میں پچھلے تین برسوں میں ۳۲ فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ عدالت نے جن ۵۸۵ درخواستوں کی سماعت شروع کی ہے، ان میں اب تک صرف ۱۴ درخواستیں ہی نمٹائی گئی ہیں‘‘۔

 رپورٹ نے ۶۰ ایسے واقعات کی تفصیلات درج کی ہیں، جن میں صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یا تو پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا یا پھر حراست میں لیا گیا۔ اس کے علاوہ متعدد نیوز میڈیا اداروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں پر مالی بے ضابطگیوں کے الزامات لگا کر قومی تحقیقاتی ایجنسی اور محکمۂ انکم ٹیکس کی طرف سے مسلسل چھاپوں اور تحقیقات کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہراساں کیے جانے اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے بہت سے صحافی یا تو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا پیشہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں، وکلا، سیاست دانوں، انسانی حقوق کے کارکنان، اور تاجروں سمیت ۴۵۰ سے زائد افراد کو بغیر کسی عدالتی حکم کے ’نو فلائی لسٹ‘ میں رکھا گیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے: ’’۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے ۵؍ اگست۲۰۲۲ء کے درمیان صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین تعلیم سمیت کم از کم چھ افراد کو بغیر کسی وجہ کے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا‘‘۔ انسانی حقوق کے ایک محافظ نے جسے بیرون ملک پرواز کرنے سے روک دیا گیا تھا ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا:’’ سفری پابندیاں جبر کے انداز کا ایک اور پہلو ہیں۔یہ ایک ایسا حربہ ہے جس کو حکام نے ملک کے اندر اور باہر آزاد، تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا ہے‘‘۔

پچھلے تین برسوں میں بھارتی حکومت نے۱۶۴ مقامی قوانین منسوخ کیے اور ۲۴۳ مرکزی قوانین کی اس خطے تک توسیع کی، مگر بد نامِ زمانہ مقامی قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کو برقرار رکھا۔ اس کے علاوہ ’آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ‘ جو فوجی اہل کاروں یا نیم فوجی تنظیم کے اہل کاروں کو کسی بھی شخص کو مکمل استثنیٰ کے ساتھ گولی مارنے یا قتل کرنے کا اختیار دیتا ہے،مضبوطی سے نافذ ہے۔ ’نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ (NCRB) کے اعداد و شمارکے مطابق جموں و کشمیر میں انسداد دہشت گردی قانون (UAPA) کے استعمال میں ۱۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس قانون کے تحت حکام کسی بھی فرد کو بغیر چارچ شیٹ دیئے، ۱۸۰ دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

            ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شکایت کی ہے کہ ’’بھارت میں اس کے لیے برسرِزمین کام کرنے کی صلاحیت کو محدود کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ اس کے دفاتر پر یلغار کرکے اس تنظیم کے خلاف منی لانڈرنگ کی روک تھام ایکٹ ۲۰۰۲ء، فارن ایکسچینج مینجمنٹ ایکٹ ۱۹۹۹ء اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ۲۰۱۰ء اور دیگر قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ستمبر۲۰۲۰ء میں، بھارتی حکام کی جانب سے تنظیم کے خلاف مسلسل مہم جوئی کے بعد، ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بھارت میں اپنا دفتر بند کرنے پر مجبور کیا گیا،اور بغیر کسی پیشگی اطلاع کے اس کے تمام بنک اکاؤنٹس منجمد کردیے گئے۔ اس رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا:’’برسرِزمین کام کرنے کی اجازت نہ دینے کی وجہ سے اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے مختلف افراد سے انٹرویو کا سہارا لینا پڑا۔ انٹرویو دینے والوں نے تنظیم کو بتایا کہ ان کے نام ظاہر ہونے کی صورت میں ان کو اور ان کے رشتہ داروں کو انتقامی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کئی صحافیوں نے ایمنسٹی کے اہل کاروں سے بات کرنے سے ہی انکار کردیا‘‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ۲۲؍ اگست ۲۰۲۲ء کو بھارتی حکومت کو اس صورت حال کے حوالے سے خط لکھا ، مگر رپورٹ کی اشاعت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

رپورٹ میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء سے جموں و کشمیر میں کم از کم ۲۷ صحافیوں کو بھارتی حکام نے گرفتار اور نظر بند کیا ہے۔پریس کونسل آف انڈیا (PCI) نے اپنی ’فیکٹس فائنڈنگ رپورٹ‘ میں بتایا ہے کہ ۲۰۱۶ء سے اب تک اس خطے میں کم از کم ۴۹صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے آٹھ کو غیر قانونی سرگرمیوں کی (روک تھام) ایکٹ (UAPA) کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومتی یا آر ایس ایس میڈیا نے گیارہ صحافیوں کو کٹہرے میں کھڑا کرکے انھیں حکومت سے جواب دہی کا مطالبہ کرنے پر ’ریاست مخالف بیانیہ‘ بتایا اور ا ن پر الزام لگایا کہ ان کو پاکستان کی سرپرستی حاصل ہے۔

            جولائی ۲۰۲۰ء میں، سیکورٹی اہل کاروں نے کشمیر کے ضلع شوپیاں میں تین افراد کو ’دہشت گرد‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ہلاک کیا۔ تین افراد نے گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔ انکوائری کے نتیجے میں طے پایا کہ مسلح افواج کے ارکان نے اختیارات سے تجاوز کیا تھا، مگر ان فوجیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مقدمہ چلاناکسی کے بس میں نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مبینہ مجرموں، خاص طور پر حراستی تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ملزمان کو قانونی چارہ جوئی اور جواب دہی سے بچانے کے لیے سکیورٹی اہل کاروں کے ٍمقدمات فوجی عدالتوں میں چلائے جاتے ہیں۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء تک، جموں و کشمیر کا اپنا ریاستی انسانی حقوق کمیشن تھا جس کو ختم کر دیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے، ریاستی انسانی حقوق کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس بلال نازکی نے کہا: ’’جس وقت اس ادارے کو تحلیل کیا گیا، اس وقت اس میں ۸ہزار سے زیادہ زیر التوا مقدمات تھے‘‘۔دوسری طرف بھارتی سپریم کورٹ نے آرٹیکل۳۷۰ کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی تین برسوں سے سماعت نہیں کی۔ ایک وکیل نے تنظیم کو بتایا کہ ’’عدالتیں مناسب وجوہ بتائے بغیر مقدمات کی سماعت میں تاخیر کرتی ہیں۔اس خطے میں،  جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ موجود تھا جس کی جگہ نیشنل رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ، نے لے لی۔ مگر مرکزی حق اطلاعات ایکٹ کو برسوں کے دوران مسلسل کمزور کیا گیا ہے ‘‘۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ انتظامی حراست اور دیگر جابرانہ قوانین کے تحت من مانی طور پر حراست میں لیے گئے افراد کو فوری طور پر رہا کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خلاف باقاعدہ عدالت میں فوری اور منصفانہ مقدمہ چلایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فیصلہ سازی کے عمل میں جموں و کشمیر کے لوگوں کی نمایندگی اور شرکت بڑھانے کے لیے بھی اقدامات کرنے چاہییں۔ غیر قانونی نگرانی کے اقدامات، من مانی حراست، اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگانے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اقدامات کو چھپانے کی حکومت کی کوششیںجموں و کشمیر میں انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے‘‘۔

گذشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان سے تعلق رکھنے والے ’غیر ریاستی عناصر‘ کی جانب سے مقبوضہ فلسطین (اسرائیل) جانے آنے کی اُوپر تلے اطلاعات، بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اگر مختلف ممالک کے ’ریاستی عناصر‘ متحرک ہوچکے ہیں، تو دوسری طرف ’غیر ریاستی عناصر‘ بھی میدان میں اتارے جا چکے ہیں۔

ماضی میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی اصطلاح صرف مسلح جنگجوؤں کے لیے استعمال ہوتی تھی جنھیں جنگی نوعیت کی ’پراکسیز‘ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب ان کی جگہ ’غیر جنگی پراکسیز‘ کے لیے غیر مسلح ’غیر ریاستی عناصر‘ کو متحرک کیے جانے کا رجحان غالب آ رہا ہے۔ یقیناً یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ بعض ریاستوں کے لیے وہ کام کر دکھاتے ہیں جو ریاستیں خود کریں تو انھیں کئی طرح کے رد عمل اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس پس منظر میں کافی زیادہ تعداد میں انسانی وسائل اور افرادی قوت کے علاوہ غیر حکومتی تنظیموں (NGO's)کی دستیابی ممکن ہو گئی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سرگرم ہونے والے یہ ’غیر ریاستی عناصر‘ کون ہیں؟ انھیں کون متحرک کرتا ہے؟ اس بارے میں ذکر ذرا بعد میں کرتے ہیں۔ پہلے اس غیر معمولی پیش رفت کا تذکرہ ضروری ہے جو مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے پس منظر میں ۲۰ برس کے بعد سعودی عرب نے اَز سر نو بحال کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز [م:۲۳جنوری ۲۰۱۵ء] نے مشرق وسطیٰ میں ’امن‘ کی غرض سے ۲۰۰۲ء میں جو منصوبہ پیش کیا تھا، اس کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اسے تمام عرب دنیا اور مسلم دنیا سمیت فلسطینیوں نے بھی اسی وقت تسلیم کیا تھا۔ جس کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اس سے مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی مداخلت کا امکان کم کیا جاسکتا تھا۔

یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ امریکا اور اس کے ہم نوا دیگر یورپی ممالک ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ (مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر) ہیں، بلکہ خود اسرائیل بھی ایسا ایک عنصر ہے، جس نے اس علاقے ہی کو نہیں، بلکہ پوری دُنیا کے امن کو دائو پر لگارکھا ہے۔ اس منظرنامے میں اسرائیل ایک اجنبی کاشت شدہ پودا ہے۔ اسے یورپی ممالک کی تلچھٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسرائیلی قبضے کو یقینی بنانے کے لیے یہودی تنظیمیں، جنھیں آج کی اصطلاحات میں ’دہشت گرد‘ سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا، ان سے لے کر ناجائز قابض اسرائیلی ریاست کے حکمران بننے والے ابتدائی برسوں کے تقریباً سارے لوگ نہ صرف دہشت گرد یہودی تنظیموں کے عہدے دار تھے بلکہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے اجنبی بھی تھے۔

اسرائیل کی موجودہ آبادی میں ایک بڑی تعداد انھی یہودیوں پر مبنی ہے، جن کا آبائی علاقہ تو کوئی اور ہے، مگر قابض اسرائیلی اتھارٹی نے انھیں محض اس لیے لا کر فلسطین کی زمین میں بسا دیا کہ فلسطینی آبادی کا تناسب تبدیل کر سکے۔ نہ صرف یہ بلکہ فلسطینیوں کی شناخت بھی بدل سکے۔ رہی بات امریکا اور یورپی ممالک کی، تو وہ بھی اسرائیلی یہودیوں کی طرح ہی ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ ہیں۔ اس منظر نامے میں سعودی مملکت کا پیش کردہ ۲۰۰۲ء کا عرب امن منصوبہ ایک بہتر راستہ تلاش کرنے کی طرف لے جاسکتا ہے۔

مذکورہ سعودی امن فارمولے پر ’نان مڈل ایسٹ ایکٹرز‘ کے علاوہ دوسرے تقریباً سبھی متعلقہ حلقوں کا کسی نہ کسی درجے میں اتفاق ہے، حتیٰ کہ ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے رکن ممالک کا بھی اس پر اتفاق ہے۔ صرف امریکا، یورپ اور اسرائیل کا اس پر اتفاق نہیں تھا، اس لیے امریکا نے اپنا منصوبہ پیش کیا، جسے آج ’معاہدہ ابراہم‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وجہ ہوئی کہ امریکا نے سعودی عرب کا پیش کردہ ایک قسم کا امن منصوبہ اختیار کرنے یا اس کو آگے بڑھانے کے بجائے اپنا فارمولا پیش کر دیا، تو فطری سی بات ہے، اسے مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی عزائم اور اسرائیل نوازی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکے گا۔

اس کی ایک وجہ اس سے پہلے امریکی نگرانی میں ہونے والے ’کیمپ ڈیوڈ‘ اور ’اوسلو معاہدے‘ بھی ہیں کہ دونوں میں پیش نظر مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل یا مشرق وسطیٰ میں پائے دار امن ہرگز نہ تھا بلکہ اسرائیل کا بچاؤ اور تحفظ تھا اور اسرائیلی بالادستی قائم کرنا تھی۔

دوسری جانب مشرق وسطیٰ سے تعلق نہ رکھنے والے عناصر کی سرگرمیاں دیکھ کر ہر ذی شعور کا ماتھا ضرور ٹھنکتا ہے۔سعودی عرب اور خطے کے دیگر ممالک سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھ کر اور ناراض کر کے خطے میں امن کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جسے امریکا اور اسرائیل ’نارملائزیشن‘ کا نام دے رہے ہیں، اس سے کوئی بڑا تنازع اس خطے کے لیے جنم لے سکتا ہے۔

 خطے کے ممالک کی غالب آبادی بشمول فلسطینی، جنھوں نے ۷۵ برس مشکلات ومصائب  دیکھے ہیں، وہ بھی نارمل زندگی کی طرف آنے کا راستہ دیکھتے ہیں، جسے امریکی پشت پناہ نسل پرست صہیونیت حکومت باربار برباد کردیتی ہے۔ بلاشبہہ نارملائزیشن کی اگر کسی کے لیے ضرورت ہے تو وہ فلسطینی عوام ہیں، جنھیں ان کی سرزمین پر معمول کی زندگی کا حق ملنا چاہیے۔

صرف عربوں کو نہیں بلکہ پوری دُنیا کے دیگر ممالک کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ فلسطینی اگر مضطرب اور پریشان ہیں تو اس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں اضطرابی ماحول کو جنم دیں گے۔ دُنیا بھر کے نقشے پر اسرائیل ایک ’ابنارمل‘ شناخت کا غاصب ملک ہے۔ اس کی آبادی کا بڑا حصہ غیرفطری طریقے سے جبری طور پر آباد کیا گیا ہے، جس سے نارملائزیشن کا مطالبہ تعجب انگیز ہے۔

اس دوران الجزائر نے بھی فلسطینی تنظیموں کو ایک میز پر بٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اکتوبر کے شروع میں ایک بار پھر فلسطینی باہمی اختلاف کے خاتمے کے لیے بیٹھیں گے۔

پھر دلچسپ یا حیران کن پیش رفت اور بھی منظر عام پر آئی ہے، جس میں پاکستان اور انڈونیشیا کا ذکر ہے اور اس اطلاع یا پیش رفت کا انکشاف اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے کیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے جن امور، واقعات یا اقدامات کا تعلق پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے، وہ خبریں عام طور پر غیر ملکی میڈیا میں پہلے آتی ہیں۔ بعدازاں پاکستان کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ان خبروں کی جگالی کرتا ہے۔

پاکستان کا دفتر خارجہ اور حکومت ہمیشہ اس کی گول مول سی روایتی تردید کرتے نظر آتے ہیں، ایک رٹی رٹائی طوطا کہانی کی طرح۔ جس پر اعتبار کریں تو نقصان، نہ کریں تو نقصان۔ اگرچہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری بھی اسرائیلیوں سے ملاقاتوں کا فیض پا چکے ہیں۔

یروشلم پوسٹ کا انکشاف انڈونیشیا اور پاکستان کے شہریوں کے وفود کے حوالے سے ہے، جنھوں نے ستمبر ۲۰۲۲ء میں اسرائیل کا دورہ کیا۔ انڈونیشیا اور پاکستان میں کئی شعبوں میں مماثلت ہے اور کئی باتیں مختلف ہیں۔ دونوں مسلم آبادی کے اعتبار سے پہلے اور دوسرے نمبر پر ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر جکارتہ اور اسلام آباد، سعودی عرب کے علاوہ امریکا کے بھی بہت قریب ہیں۔ دونوں کے ہاں اپنے اپنے معاشی و دیگر مسائل رہتے ہیں۔ دونوں کے عوام سڑکوں پر قبلہ اوّل سے محبت کا اظہار فلک شگاف نعرے لگا کر کرتے ہیں۔

اس لیے ان دونوں کے ’وفود‘ کا ایک ہی وقت میں اسرائیل میں موجود ہونا اہم ہے۔ انڈونیشیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں کس حد تک جا سکتا ہے؟  اس سوال سے زیادہ اہم پاکستان کا معاملہ ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان اور اس کے رہنے والوں کی سوچ کئی پہلوؤں سے اہم تر ہے۔ اور یہ ایک جوہری مسلم ملک بھی ہے۔ کیا یہ بھی فلسطینیوں کے لیے ’بروٹس‘ بننے جا رہا ہے؟

بار بار پاکستان سے تعلق رکھنے والے غیر ریاستی عناصر کے اسرائیل جانے آنے کی اطلاعات اور نت نئی باتیں اس معاملے میں مسلسل بے معنی قرار نہیں دی جا سکتیں۔

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا محمد اجمل قادری صاحب سے لے کر میڈیا سے تعلق رکھنے والے احمد قریشی اور اب مشرف دور کے کرکٹ بورڈ کے سربراہ اور نائب وزیر کے عہدے پر فائز رہنے والے نسیم اشرف کے ایک بڑے وفد کے ساتھ اسرائیل جانے کی خبر اہم ہے۔ افراد کے علاوہ ’بین المذاہب مکالمے‘ اور ’بین المذاہب ہم آہنگی‘ جیسے فورم بھی مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے لیے غیر ریاستی عناصر کے طور پر کُود چکے ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان سب کی کوششوں کا انتساب امریکا سے شروع ہو کر اسرائیل پر ختم ہوتا ہے۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ سب براستہ امریکا ہی کیوں اسرائیل پہنچتے ہیں؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود اسرائیل میں انھیں کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ خود پاکستان کی حکومت، ریاست اور ادارے ان کے بارے میں کبھی تشویش میں مبتلا نظر نہیں آتے ہیں، اور نہ کسی شک و شبہے میں پڑتے ہیں۔ کبھی کسی سے بازپُرس کی گئی اور نہ ڈی بریفنگ کے عمل سے گزارا گیا۔

سچ پوچھیں تو بدلے ہوئے زمانے میں ’غیر ریاستی عناصر‘ (نان اسٹیٹ ایکٹرز)کی صورت میں یہ لوگ سفارتی رابطہ کاری اور برف پگھلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان کا میڈیا بھی ایک بڑے ’نان سٹیٹ ایکٹر‘ کے طور پر اپنا ہوش ربا کام کر رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے اہم ترین میڈیا ہاوسز پاکستانی عوام کے اعتقادات، نظریات، تصورات، رجحانات، معاملات اور مفادات سے الگ راستے پر چلنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ پاکستانی عوام بھی ان ’مین سٹریم‘ میڈیا ہاوسز کے خیالات اور معاملات کو اپنے سے دور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ ابلاغی ادارے اور ان میں اہم قرار پانے والی کئی شخصیات سب غیر ریاستی عناصر کا رُوپ دھار چکے ہیں۔اس لیے یہ اسرائیل جائیں یا بھارت کے ساتھ ’بیک ڈور ڈپلومیسی‘ کی چھاؤں میں کردار ادا کریں۔ مقصد اور منزل ان کی ایک ہی ہے کہ جو کام حکومت اور اس کے ادارے نہ کر سکیں، اس کام کے لیے یہ لوگ دستیاب ہیں۔

یورپ میں سب سے زیادہ ہندو برطانیہ کے شہر لیسٹر میں مقیم ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق ۳۲ء۴ فی صد عیسائی، ۱۸ء۶ فی صد مسلمان، ۱۵ء۲ فی صد ہندو، ۴ء۴ فی صد سکھ، لیسٹر میں رہتے ہیں۔ باقی دیگر مذاہب یا لامذہبیت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، معاشی اور تعلیمی  لحاظ سے ہندو اس شہر میں کافی منظم اور متحرک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیسٹر سٹی کونسل کی بلدیہ کے منتخب اراکین میں ان کی تعداد اچھی خاصی ہے، اور اسی لحاظ سے کافی اثر و رسوخ بھی ہے۔ یورپ میں ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر بھی لیسٹر میں ہے۔ جیساکہ بتایا گیا ہے، یہاں پر مسلمان بھی کافی ہیں، جن کا تعلق بھارتی صوبہ گجرات سے ہے۔ پھر پاکستانی، بنگلہ دیشی اور دیگر کمیونٹی کے باشندے بھی یہاں بستے ہیں، لیکن ان کی تعداد کم ہے۔ اس شہر میں اس سے قبل کبھی ہندو مسلم فسادات نہیں ہوئے تھے۔

جون ۲۰۲۲ء میں جب بھارت میں نبی اکرمؐ کی شان میں حکومتی شخصیت نوپور شرما نے گستاخانہ کلمات کہے تھے، تو فطری طور پر لیسٹر کے مسلمانوں میں بھی اضطراب پایا گیا۔ کچھ دردمند مسلمانوں نے سوچا کہ موقعے کی مناسبت سے انتہا پسند ہندوؤں کی منفی سرگرمیوں کو برطانوی معاشرے کے سامنے لایا جائے۔ عین انھی دنوں بھارت کے ایک بڑے عالمِ دین برطانیہ آئے ہوئے تھے۔ جو جگہ جگہ مساجد میں جا کر بھارتی مسلمانوں کو تلقین کر رہے تھے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جن سے ہندو مسلم تعلقات خراب ہوں، کیونکہ اس کے اثرات بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پر پڑتےہیں۔ نتیجتاً مسلمانوں نے انتہا پسند ہندوؤں کی ہرزہ سرائی کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔

ستمبر۲۰۲۲ء کے دوران لیسٹر میں ہندو مسلم کشیدگی عروج پر رہی ہے۔ اگرچہ اس کشیدگی کی جڑیں تین ماہ گہری پائی جاتی ہیں، مگر پھر یہ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اسے کرکٹ میچ سے منسلک کر رہے ہیں، لیکن ممتاز محقق اور یونی ورسٹی میں استاد ریاض خاں کے مطابق: ’’اس تنائو کا آغاز تقریباً تین چار ماہ قبل ہو گیا تھا، جب انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروہ نے ایک مسلمان لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، مگر مقامی پولیس نے کوئی ایکشن نہیں لیا تھا‘‘۔

لیکن یہ کشیدگی اس وقت بہت بڑھ گی جب ۲۸؍ اگست کو دوبئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والےمیچ  میں پاکستان کو بھارتی ٹیم کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ اس وقت بہت سے ہندوؤں نے جیت کی خوشی میں بھارتی جھنڈے لہراتے ہوئے ’پاکستان مُردہ باد‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے تھے۔ اپنی ٹیم کی جیت پر خوشی میں نعرے بلند کرنے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ لیکن مخالف ٹیم کے خلاف نعرے بازی کا مقصد اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے پاکستان مخالف نعروں سے کشیدگی بہت زیادہ بڑھ گئی۔

اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ میچ کے شائقین اپنی ٹیم کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں، لیکن مخالفانہ نعروں سے گریز کیا جاتا ہے۔ لیکن اس دفعہ پاکستان مخالف نعروں کے ردِ عمل میں پاکستانیوں کے ایک گروپ نے بھی ہندوؤں کے علاقے میں ایک مظاہرہ کیا اور پاکستان کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے بازی کی۔ چونکہ پولیس بڑی تعداد میں موجود تھی، اس لیے حالات کنٹرول میں رہے۔ مگر حالات اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گئے، جب ۱۷ ستمبر کو۳۰۰  ہندوانتہاپسندوں پر مشتمل ایک منظم جلوس مختلف راستوں کے چکر لگاتا ہوا، مسلمانوں کے علاقے گرین لین روڈ پر آگیا۔ ان مشتعل نوجوانوں نے اپنے چہرے ڈھانپے ہوئے تھے، اور یہ ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کی دکانوں کے سامنے سے گزر رہے تھے، اور مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے۔ ان مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بلائی گئی۔

اگلے روز ہندوؤں نے دوبارہ ایک مظاہرہ بلگریوو روڈ پر کیا، اس کی اطلاع پولیس کو نہیں تھی، مگر جب پولیس وہاں پہنچی تو مظاہرین نے ان پر بوتلیں پھینکیں۔ ان مظاہروں میں پولیس کے ۲۵ آفیسر اور پولیس کا ایک کتا بھی زخمی ہوا۔ پولیس نے اس ہنگامہ آرائی کے جرم میں ۴۷؍ افراد کو حراست میں لے لیا۔ تب انکشاف ہوا کہ ان میں نصف سے زیادہ تعداد دوسرے شہروں سے آئے ہوئے انتہا پسندوں کی ہے۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے نسل پرست بھارتی طلبہ جو آر ایس ایس سے منسلک ہیں، وہی ان مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ یہ مختلف شہروں سے لیسٹر پہنچے تھے اور منظم ہو کر مسلمانوں کو ہراساں کررہے تھے۔ گرین لین روڈ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ’’لوگ خوف زدہ ہیں، کیونکہ جب انتہا پسند گزر رہے تھے تو وہ مسلمانوں کو اشتعال دلا رہے تھے، جس کے نتیجے میں اکثر لوگوں نے گھروں کی روشنیاں بند کیں اور پردے وغیرہ گرا دئیے تھے‘‘۔

ممتاز امریکی صحافی سلیل ترپاٹھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’جن لوگوں نے اپنے چہرے ڈھانپ کر مسلمانوں کی دکانوں پر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے۔ وہ بھارتی نسل پرست سیاست کو برطانیہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ ’’برطانوی سیاست دانوں کو حالات کی نزاکت کا احساس نہیں۔ حکومت کو آر ایس ایس جیسے سخت گیر نظریات کو پروان چڑھنے سے روکنا چاہیے‘‘۔ بی بی سی کی نامہ نگار گگن سبروال کا کہنا ہے کہ ’’لیسٹر کے ہندوؤں کی اکثریت امن پسند تھی، لیکن کچھ عرصے سے مغربی انڈیا کے جزیرے دمن اور دیپ سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آنے والے ہندو جو نظریاتی طور پر آر ایس ایس سے وابستہ ہیں، انھوں نے برطانیہ میں بھی انتہاپسندی شروع کر دی ہے‘‘۔

اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے ہندو انتہا پسند کافی متحرک ہوگئے ہیں۔ ۱۵؍ اگست بھارت کا یومِ آزادی ہے۔ کشمیری اور سکھ اسے ہر سال یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ کشمیری اور سکھ اس روز بھارتی ہائی کمشنر اور کونصلیٹ کے سامنے مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن اس سال ۱۵؍ اگست کو جب برمنگھم میں کشمیریوں اور سکھوں نے اس طرح کا مظاہرہ کیا تو اسے منتشر کرنے کے لیے کچھ ہندو انتہا پسند بھی آگے تھے،جنھیں سکھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور بھاگنے پر مجبور کیا۔

بظاہر یہ ایک برطانوی شہر میں رُونما ہونے والا بدنما اور افسوس ناک واقعہ ہے، لیکن اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ برہمنیت کے علَم بردار اور ’ہندوتوا‘ کے فسطائیت نواز طائفے نے  اب یورپ و مغرب کو اپنی نئی چراگاہ بنانے کے لیے قدم اُٹھایا ہے۔ اگر یہاں کے حکام نے اس کا بروقت تدارک نہیں کیا تو یہ چیز یہاں کی عام شہری زندگی کے لیے ایک مستقل کینسر بن جائے گی۔ اس فسطائیت کے جواب میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جوابی کارروائی کرنے اور سڑکوں پر فیصلہ کرنے کے بجائے یہاں کے قانون کو حرکت میں آنے دیں، اور اپنی جانب سے کوئی منفی قدم نہ اُٹھائیں۔

مولانا غلام رسول مہر [۱۳؍اپریل ۱۸۹۳ء- پھول پور، جالندھر- ۱۶نومبر ۱۹۷۱ء،لاہور] برصغیر میں اُردو صحافت اور تاریخ کا بڑا قابلِ احترام نام ہیں۔ آپ انقلاب [اجراء: ۱۹۲۷ء] کے ایڈیٹر رہے اور متعدد کتب تصنیف کیں، جن میں سیرت امام ابن تیمیہ ، سیّد احمد شہید، سرگزشت مجاہدین، جماعت مجاہدین شامل ہیں۔ مولانا مہر اور عبدالمجید سالک [۱۲ستمبر ۱۸۹۴ء، بٹالہ - ۲۷ستمبر ۱۹۵۹ء، لاہور] کی رفاقت کو برصغیر کی صحافتی و ادبی تاریخ میں ایک انفرادیت و بلند مقام حاصل ہے۔ زیر نظر وہ مضمون ہے، جو انھوں نے لکھا، مگر اشاعت کی غرض سے نہیں بھیجا۔ اب بھی ہم اسے کسی بحث کے لیے نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک مرحلے کی نشانی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ یہاں پر مولانا مہرمرحوم کا مدیر رسالہ الاعتصام جناب محمد اسحاق بھٹی [۱۵ مارچ ۱۹۲۵ء، کوٹ کپورا، فریدکوٹ، ۲۲دسمبر۲۰۱۵ء، لاہور]کے نام خط اور مضمون دیئے جا رہے ہیں:

مسلم ٹاؤن، لاہور

۱۷ جون ۱۹۵۵ء


باسمہٖ سبحانہ

مکرمی!

میں نے بڑے تامل کے بعد چند سطریں آج لکھوائی ہیں ۔ دو تین ہفتے سے میں مضطرب تھا ۔ ان سطور کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ آپ انھیں اخبار میں چھاپیں، یا ان کا جواب دیں اور اس طرح بحث کا ایک نیا دروازہ کھلے۔ اہلِ علم کو انتہائی ضبط و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ اعتراضات کی دوقسمیں ہیں: اول وہ اعتراضات جو قلتِ علم پر مبنی ہوں۔ ان کے جواب کے لیے ہر شخص کو تفہیمی انداز اختیار کرنا چاہیے۔ دوسرے وہ اعتراضات، جو اہل بغی وضلالت کی طرف سے پیش ہوں۔ان کے بارے میں دوصورتیں ہو سکتی ہیں: اوّل اعتراض کے علمی پہلو کی توضیح،دوم شخصی نکتہ چینیاں یا استہزا۔ علمی پہلو کی توضیح علمی رنگ میں ضرور ہونی چاہیے،استہزا کو بہر حال نظر انداز کیا جائے گا۔

ہمارا موقف بڑا ہی کٹھن اور حد درجہ پریشان کن ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر سمت سے فتنہ و فساد کے جھکڑ چل رہے ہیں اور ہمارے پاس ہدایت کا جو چراغ ہے، اس کی  لَو کو ان جھکڑوں سے محفوظ رکھے بغیر چارہ نہیں۔ اگر ہم خود بھی جھکڑ چلانا شروع کردیں تو ظاہر ہے ہمارا مقصد فوت ہو جائے گا۔

میں نہ آپ کی طرح پڑھا لکھا ہوں اور نہ آپ کی طرح مقامِ حدیث کی اندازہ شناسی کا شرف مجھے حاصل ہے، لیکن برسوں عوامی دائرے میں تبلیغی مقاصد کی خدمت سر انجام دیتا رہا ،اس بنا پر تھوڑا سا تجربہ حاصل ہو گیا۔ ممکن ہے وہ آپ کے نزدیک قابلِ اعتنا نہ ہو، لیکن میں نے مناسب سمجھا کہ وہ تجربہ آپ تک پہنچا دوں۔اسے میری جسارت فرض کر لیجیے۔ معافی خواہ ہوں کہ باوجود قلتِ علم،اہلِ علم کے مباحث میں مداخلت کی جرأت کی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ     

مولانا داؤد غزنوی [اگست ۱۸۹۵ء، امرتسر- ۱۶دسمبر ۱۹۶۳ء لاہور] اور مولانا عطاء اللہ [حنیف: ۱۹۰۹ء، بھوجیاں، امرتسر- ۲؍اکتوبر ۱۹۸۷ء ، لاہور]کی خدمت میں سلام پہنچائیے۔ اگر مولانا [محمد] اسماعیل [سلفی: ۱۸۹۵ء،ڈھونیکی، وزیرآباد- ۲فروری ۱۹۶۸ء، گوجرانوالہ] سے ملاقات ہو تو ان کی خدمت میں بھی سلام عرض کیجیے ۔ میں ان سے ملنے کا آرزو مند ہوں، لیکن ریحی اوجاع کی وجہ سے جسم اس آرزو کے لیے مساعد نہیں۔

نیاز مند  


مولانا سیّد ابو الاعلیٰ مودودی اور مباحثِ حدیث

مکرمی!

مجھے ابتدا ہی میں کہہ دینا چاہیے کہ میں کسی درجے میں بھی علم کا دعوے دار نہیں۔ میری معلومات اور مطالعے کی فرومایگی کا یہ عالم ہے کہ اہلِ علم کی مجلس سے استفادے کی صلاحیت بھی بہت ہی محدود ہے۔ میری گزارشات ایک عامی کی گزارشات ہیں،آپ چاہیں تو انھیں ایک اَن پڑھ کی گزارشات سمجھ لیں،لیکن امید ہے آپ ان پر توجہ مبذول فرمائیں گے:

میں نے وہ مضامین پڑھے ہیں، جو آپ نے مباحث ِ حدیث کے سلسلے میں مولانا مودودی کے متعلق لکھے۔ آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنے کی بھی ضرورت نہیں کہ مجھے مولانائے موصوف کی جماعت اسلامی سے نہ کبھی کوئی علاقہ رہا ہے، اور نہ ان کے تمام ارشادا ت سے مجھے اتفاق کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔

مولانا [مودودی] نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ ’’جو الفاظ مجھ سے منسوب کیے گئے [ہیں] وہ میں نے نہیں کہے‘‘ تو پھرسمجھ میں نہ آیا کہ آپ نے اس بحث کو اس درجہ طول دینے کی ضرورت کیوں محسوس فرمائی؟ گویا آج آپ کے لیے اس کے علاوہ کوئی [اور] مسئلہ ہے ہی نہیں، جس پر توجہ فرمائی جائے!

مولانا کے محولہ بالا الفاظ کا مطلب یہی تھا کہ آپ جس مقصد کے لیے مضطرب ہیں، مولانا  کو اس سے قطعاً اختلاف نہیں، اگرچہ ان کے تصور کی حیثیت وہ نہ ہو جو آپ نے اپنے دماغ میں قائم کر رکھی ہے۔ پھر کیا آپ کا مدعا یہ ہے کہ مولانا ضرور ان الفاظ کوتسلیم کریں،اور اس طرح آپ کا مقصد بوجہ احسن پورا ہو جائے؟ آخر خدمتِ حدیث کی یہ کون سی صورت ہے، جو آپ نے اختیار فرما رکھی ہے؟

ذخیرۂ احادیث کے متعلق مولانائے موصوف نے بالعموم جو رائے ظاہر کی، وہ تو ایسی نہیں کہ اس سے کسی کو اختلاف کی گنجائش ہو، یعنی یہ تو کوئی بھی نہیں مانتا کہ جو کچھ بطور حدیث مختلف کتابوں میں جمع ہوچکا ہے، وہ سب کا سب درست ہے۔ اگر صحیح البخاری کے متعلق انھوں نے یہ کہا کہ اس کی تمام حدیثیں آنکھیں بند کرکے قبول کر لینے کا دعویٰ کسی نے نہیں کیا، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ حدیثوں کے متعلق تحقیق و تفتیش اور چھان بین کا دروازہ جس طرح پہلے کھلا ہوا تھا، اُسی طرح اب بھی کُھلا ہوا ہے۔ اس پر اعتراض کی کون سی وجہ ہے؟

رہا آپ کا یہ ارشاد کہ ’’جب تک کوئی شخص علم کی وہ تمام منزلیں طے نہ کر جائے جو ان بزرگوں نے طے فرمائیں، اس وقت تک ان کے متعلق گفتگو نہیں کر سکتا‘‘ تو حضراتِ علم و آمرانِ فقہ بھی ہمیشہ یہی فرماتے رہے ہیں۔ یہ استدلال آپ کے نزدیک بہت وزن دار ہوگا، لیکن اس کا طبعی نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ لوگ ذخیرۂ حدیث کے متعلق بد ظن ہو جائیں۔

آپ یقیناً مولانا [مودودی]سے پوچھ سکتے ہیں کہ کوئی حدیث، صحیحین یا کسی دوسری کتاب میں سے ایسی نکالیے، جسے اہلِ علم نے ناقابلِ قبول قرار دیا ہوتو اس کے متعلق آپ یقیناً گفتگو فرما سکتے ہیں۔ اس قسم کی بحثیں علمی حلقے کے لیے مفید اور سود مند ہوں گی، لیکن جو طریقِ بحث آپ نے اختیار فرمایا ہے، وہ تو مجھ ناچیز کے نزدیک مضر ہی ہے، سودمند قطعاً نہیں۔

جب ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں نے فلاں بات نہیں کی، تو آپ کو کیا حق ہے کہ ان کے خلاف شہادتیں فراہم کرتے پھریں اور اصرار کریں کہ ضرور کہی۔ آپ کیوں یہ فرض نہیں کر سکتے کہ کہنے والے کا جو مدعا تھا ،آپ نے اسے غلط سمجھا یا پہلے سے آپ کے دل میں ایک بات بیٹھی ہوئی تھی اور آپ نے فاعل کے الفاظ کو اس کے سانچے میں ڈھال لیا؟ پھر جب مقصود احترامِ حدیث ہے تو وہ تو پورا ہو گیا۔ کیا آپ بحث و تمحیص سے اس مقصد کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟

میرے نزدیک مقاصد کے لیے کام کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ جو اصحاب جس حد تک متفق ہوں، ان کے اتفاق کا خیر مقدم کیاجائے، اور جس حد تک انھیں اختلاف ہو، اس کے لیے تبلیغ و تعلیم کے ذریعے سے مناسب بندوبست فرمایا جائے۔ اس سلسلے میں حکمت سے کام لیا جا سکتا ہے، نیز ’موعظۂ حسنہ‘ سے اور اگر بحث کی ضرورت پیش آجائے، تو ا س کے لیے بھی ’احسن‘ طریق کی شرط معلوم ہے۔ آپ غور فرمائیں کہ آپ کے پُر زور مقالات یا طریقِ استدلال اس مقدس ترازو میں پورا اُترتا ہے؟

اب آپ نے ایک نیا طریقہ اختیار فرمایا ہے،یعنی یہ کہ حدیث کی چھان بین کے اصول دوحصوں میں منقسم ہیں: ایک وہ جو محدثین نے مقرر کیے،دوسرے وہ جو معتزلہ وغیرہ فرقِ ضالّہ کے وضع کردہ ہیں۔ گویا آپ صرف ان قاعدوں کے پابند ہیں، جو محدثین نے وضع کیے۔ فرقِ ضالّہ اگر کوئی چیز پیش کریں تو آپ یہ کہہ کر الگ ہو جائیں گے کہ ’ہم تو صرف محدثین کے اصول کے مطابق گفتگو کرسکتے ہیں‘۔ بھلا آپ سوچیں کہ اگر سب لوگ بطور خود محدثین کے اصول و قواعد کو بے چون و چرا تسلیم کر لیں، تو پھر آپ کا وظیفہ کیا رہ گیا؟ لطف یہ کہ ان قاعدو ں کی تعلیم و تبلیغ کے لیے بھی اب تک آپ نے کچھ نہیں کیا۔

بھائی،آپ نے جو طریقہ اختیار فرمایا ہے، یہ خدمتِ حدیث کے لیے نہ صرف غیر موزوں بلکہ سراسر مضر ہے۔ آپ اس دور میں بیٹھے ہیں، جس میں لوگ حدیث کے مقام و مرتبے سے بھی آگاہ نہیں اور مخالفین نہایت نامناسب تدبیروں سے عوام کو بد ظن کررہے ہیں۔ آپ کی حالت یہ ہے کہ جو لوگ ۶۰ فی صد، ۷۰ فی صد، ۹۰فی صد آپ سے متفق ہیں، ان کو بھی آپ برگشتہ کیے بغیر چین نہ لیں گے، یا کم از کم ایسی کیفیت ضرور پیدا کردیں گے کہ وہ متفقہ علیہ مقاصد میں بھی آپ سے مل کر کام نہ کر سکیں۔ازراہِ لطف و کرم معاملے کے اس پہلو پر ٹھنڈے دل سے غور فرمائیے اور وہ طریقہ اختیار کیجیے جو پیشِ نظر مقاصد کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ہو۔

آپ حدیث کی چھان بین کے لیے اصول کو دو حصوں میں کیوں بانٹتے ہیں؟

کیوں یہ نہیں کہتے کہ کسی شے کی صحت و عدم صحت کی جانچ کے لیے آج تک انسان نے جو اصول وضع کیے اور جن پر اہلِ علم کا اتفاق ہے، وہ تمام اصول پیش نظر رکھ کر حدیثوں کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ فرقِ ضالّہ کے اصول اگر پختہ و پائے دار ہیں تو آپ کیوں انھیں قبول نہ کریں؟ وہ نا پختہ ہیں تو ان کی تردید کیجیے،محض درایت پر ذرا زیادہ زور دے دینے سے کوئی چیز باطل نہیں ہو جاتی۔ درایت کی بھی حدود و قیود ہیں۔ آپ کیوں درایت سے گھبراتے ہیں؟ مجھے تو کبھی کسی چیز کے متعلق تشویش نہیں ہوئی۔

اگر ہمارا یقین ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ روشنی اور نور ہے، تو اندھیرا کسی بھی شکل میں ہمارے سامنے آئے، ہم اس سے کیوں پریشان ہوں؟اگر خدانخواستہ ہماری روشنی ایک خاص شیشے اور عینک کے بغیر نظر نہیں آسکتی، تو بھائی ! یقین رکھیے کہ ہم اس روشنی کو کسی بھی گروہ تک پہنچا نہیں سکتے۔ وہ مدھم ہوتے ہوتے خود ہی ختم ہو جائے گی۔ خدا نہ کرے کہ مآخذ دین میں سے حدیث جیسے اہم مآخذ کے متعلق کسی مسلمان کا یہ عقیدہ ہو۔اگر ہم فتنہ انکار ِ حدیث کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس سلسلے میں حدیث کو چھوئی موئی بنالینے سے تو گزارا نہ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ گزارشات آپ کو کسی قدر تلخ معلوم ہوں، لیکن اُمید ہے کہ ان پر غور فرمانے کی زحمت آپ ضرور گوارا کرلیں گے۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ اگرچہ کئی صدیوں پر محیط ہے، مگر مسلمانوں کے اثرات اوران کے قابل ذکر اداروں کا قیام پچھلے پانچ عشروں میں ہی عمل میں آیا ہے ۔کسی بھی ایسے ملک کی طرح جہاں مسلمان ایک مختصر اقلیت میں ہیں ، امریکا میں رہنے والے مسلمانوں نے ایک طویل اور صبر آ زما جدوجہد کے بعد ایک اجنبی معاشرے میں یہ مقام حاصل کیا ہے۔ امریکا میں مسلمان کُل آ بادی کا ۲سے ۴ فی صد حصہ ہیں۔

میرے والد محترم ۱۹۶۵ء میں پہلی مرتبہ امریکا آ ئے تھے،اور وہ بتاتے تھے کہ اس زمانے میں مساجد نہ صرف ناپید تھیں بلکہ حلال کھانے کی تلاش ایک بڑا مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ انھوں نے یہاں چھ مہینے تک قیام کے دوران بمشکل چند مساجد دیکھیں اور گنتی کے چند مسلمانوں سے واسطہ پڑا۔ اسلامک اسکول ، باحجاب خواتین اور حفظ کے مدارس کا تو تصور بھی محال تھا۔

  ۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء کے عشرے میں امریکا میں منظم، اسلامی سر گرمیوں کی داغ بیل ڈالی گئی ۔اس طرح جہاں برصغیر پاک و ہند سےتعلق رکھنے والوں نے ’اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا‘ (ICNA) اور اس کی ذیلی تنظیموں کو اپنے اعتماد سے نوازا، وہاں مشرقِ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے دُوراندیش مسلمانوں اور قائدین نے ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا‘(ISNA)، ’مسلم امریکن سوسائٹی‘ (MAS)، ’کو نسل آف امریکن ریلیشن‘ ( CAIR) اور دیگر تنظیموں میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کی بقا اور دوام کے لیے منظم جدوجہد کا انتظام کیا۔

 ایک اور انتہائی قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اس پورے دورمیں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی تنظیموں اور قائدین نے بھی دین کی اشاعت اور ترویج میں بھرپور حصہ لیا ۔ یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ سیاہ فام مسلم تنظیموں کی اپنی تاریخ ڈیڑھ سوسال سے زیادہ پرانی ہے۔ ملک شہباز میلکم ایکس جیسے لیڈروں کے نام نہ صرف امریکا کے سیاہ فام مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے زندہ کردار ہیں اور سول رائٹس کی جدوجہد میں امریکا کی تاریخ کا اَنمٹ حصہ ہیں۔ انفرادی و سماجی مطالعات کے مشہور تحقیقاتی ادارے (PEW)کے مطابق سیاہ فام، امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں اور ان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اس کا پانچواں حصہ یا ۲۰ فی صد ہیں۔ سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ ’’مختلف ممالک سے آنے والے مسلمانوں کی تحریکات کو سیاہ فام مسلمانوں کے اندر زیادہ نفوذ کرنا چاہیے تھا، اور ان کی اسلامی اور سماجی نشوونما اور اُٹھان کے لیے مزید اور ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہیے تھے‘‘، جس سے اصولی طور پر کسی کو اختلاف نہیں۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی سراسر نا انصافی ہو گی کہ خود اُن سعادت مند انسانوں کی جدوجہد کو ہلکا بناکر پیش کیا جائے، کہ جنھوں نے پچھلے ۵۰برسوں میں امریکا میں جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے اپنی پوری زندگی امریکا میں اسلام کی بقا اور ترویج کے لیے وقف کردی۔

 ایسا ملک جہاں چند عشرے پہلے حلال کھانا ناپید، ٫ مسجدوں اور عبادت گاہوں کا تصور محال اور مسلمان نسلوں کی اسلامی تعلیمات کا کوئی انتظام نہ تھا۔ آ ج وہاں لگ بھگ ۲۸۰۰مساجد ، سیکڑوں اسلامک اسکول اور قرآن حفظ کرنے کے ادارے، قدم قدم پر حلال کھانے کے مراکز اور یہاں تک کہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی یونی ورسٹیاں تک قائم  ہیں۔ امریکی ایوانوں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونی ورسٹیوں میں باحجاب خواتین کی موجودگی ، ’مسلم اسٹوڈنٹس ایسو سی ایشن‘ (MSA) اور ’ینگ مسلمز‘ (YM) سے وابستہ ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، ۶۰ ہزار سے زائد امریکی مسلمان ڈاکٹر ، ہزاروں آئی ٹی ماہرین ، وکلا، ججز اور ماہرین تعلیم نے، اپنی موجودگی اور دعوت سے عام امریکی معاشرے پر اپنے گہرے اثرات چھوڑ ے ہیں ۔

امریکا میں ہونے والے اسلامک کنونشن اسلامی تہذیب ، دینی علم کے فروغ، مسلم فیملی سسٹم کی مضبوطی اور دین سے وابستگی کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔ گذشتہ برس اکنا کے سالانہ مرکزی کنونشن میں ۲۲ ہزار سے زائد افراد اپنے خاندانی یونٹوں کے ساتھ امریکا کے طول و عرض سے شریک ہوئے۔ اکنا کے کنونشن میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے ، امریکی اور افریقی سیاہ فام ، وہائٹ امریکن ، مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ، غرض کے ہر رنگ و نسل اور ہر عمر کے لوگ شریک ہوئے۔ کنونشن شرکا کے بقول جب ۱۵ سے ۲۰ ہزار مسلمان باجماعت نماز پڑھتے ہیں تو حرم میں مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کا بہ یک وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سر بہ سجود ہونے کا منظر تازہ ہوجاتا ہے کہ ان شرکا میں تمام رنگ و نسل کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔

آ ج امریکا میں پیدا ہونے والے اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے والے چند نوجوان اسکالر مسلمانوں میں مقبول ترین اسکالر اور اسلام کے داعی سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح اکنا اور دیگر اسلامی تحریکوں کے تحت چلنے والی سوشل ویلفیئر کی تنظیمیں امریکا کے مسلم اور غیر مسلم دونوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی خدمت خلق کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔

امریکا کی کارفرما اسلامی تحریکوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مقامی افراد کی دعوتِ دین کی جدوجہد میں شرکت کو وسعت دیں۔ واضح رہے کہ مقامی (indigenous)  امریکیوں میں تین اہم اکائیاں شامل ہیں: پہلی غالب اکثریت سفیدفام امریکیوں کی ہے جو مجموعی آبادی کا ۷۶ فی صد ہے۔ دوسری بڑ ی آبادی سیاہ فام باشندوں کی ہے جو امریکا کی آ بادی کا ۱۳ء۴ فی صد ہیں۔ تیسرا بڑا حصہ ہسپانوی نژاد باشندوں پر مشتمل ہے، جو آبادی کا ٪۱۰ فی صد ہے۔

اسلامی تحریک سے وابستہ بالخصوص وہ افراد جو معاشرے میں موجود پسماندہ افراد کا درد رکھتے ہیں ، رول ماڈل بنیں۔ مقامی امریکیوں کی آبادیوں میں اسلامک سنٹر قائم کریں۔ سب سے بڑھ کر ان کی آ بادیوں میں میل جول بڑھائیں۔ ان پہلوئوں پر دردمندی سے نظر رکھنے والے بجا طور پر امریکا کی اسلامی تحریکوں کے لیے کچھ مفید مشورے دے سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ضروری ہے کہ پچھلے پانچ عشروں میں ہونے والے غیرمعمولی کام کو معمولی یا کمزور بنا کر نہ پیش کیا جائے۔

اللّہ سبحانہٗ وتعالیٰ، امریکا میں رہنے، بسنے اور دعوت و تربیت میں مصروف ساتھیوں کو اپنے رب سے کیے وعدے  اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ۝۰ۭ قَالُوْا بَلٰي۝۰ۚۛ شَہِدْنَا۝۰ۚۛ  (اعراف ۷:۱۷۲) کو ایفا کرنے اور اپنی زندگیوں کو نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت اور اطاعت پر گزارنے کی توفیق دے۔(آ مین!)

شریعت کا منشا [اسلام کی] اسکیم کو متوازن طریقے سے نافذ کرکے ہی پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے، اس کے کسی جز کو ساقط اور کسی کو نافذ کرنا حکمت دین کے بالکل خلاف ہے۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شریعت اپنے نفاذ کے لیے مومن و متقی کارکن چاہتی ہے یا فاسق و فاجر لوگ، اور وہ لوگ جو اپنے ذہن میں اس کے احکام کی صحت کے معتقد تک نہیں ہیں؟

اس معاملے میں بھی محض جواز اور عدم جواز کی قانونی بحث کافی نہیں ہے۔ مجرد قانونی لحاظ سے ایک کام جائز بھی ہو تو یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ حکمت ِ دین کے لحاظ سے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ کیا حکمت دین کا یہ تقاضا ہے کہ احکامِ شرعیہ کا اجرا ایسے حُکام کے ذریعے سے کرایا جائے، جن کی اکثریت رشوت خور، بدکردار اور خدا و آخرت سے بے خوف ہے، اور جن میں ایک بڑی تعداد عقیدتاً مغربی قوانین کو برحق اور اسلامی قوانین کو غلط اور فرسودہ سمجھتی ہے؟ اسلام کو دُنیا بھر میں بدنام کردینے اور خود مسلم عوام کو بھی اسلام سے مایوس کردینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اِن لوگوں کے ہاتھوں احکامِ شریعت جاری کرائےجائیں۔ اگر چند بندگانِ خدا پر بھی جھوٹے مقدمے بنا کر سرقے اور زنا کی حد جاری کردی گئی، تو آپ دیکھیں گے کہ اس ملک میں حدودِ شرعیہ کا نام لینا مشکل ہوجائے گا اور دُنیا میں یہ چیز اسلام کی ناکامی کا اشتہار بن جائے گی۔

اس لیے اگر ہم دین کی کچھ خدمت کرنا چاہتے ہیں، اُس سے دشمنی نہیں کرنا چاہتے تو پہلے اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ ملک کا انتظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے ، جو دین کی سمجھ بھی رکھتے ہوں، اور اخلاص کے ساتھ اس کو نافذ کرنے کے خواہش مند بھی ہوں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوگا کہ اسلام کی پوری اصلاحی اسکیم کو ہمہ گیر طریقے پر نافذ کیا جائے اور حدودِ شرعیہ کا اجرا بھی ہو۔

یہ کام بڑا صبر اور بڑی حکمت چاہتا ہے ۔ یہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں ہے کہ آج مجلس قانون ساز میں ایک دو نشستیں ہاتھ آگئیں اور کل حدود ِ شرعیہ جاری کرنے کے لیے ایک مسودئہ قانون پیش کردیا گیا۔(’رسائل و مسائل‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جلد۵۹، عدد۱، اکتوبر ۱۹۶۲ء، ص۵۸-۵۹)