اکتوبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

جنس میں تبدیلی کا فساد

ڈاکٹر کوثر فردوس | اکتوبر ۲۰۲۲ | سماجیات

Responsive image Responsive image

LGBTQ: یہ مخصوص اصطلاحات کے پہلے حروف کا مجموعہ ہے ، مثلًا L برائے Lesbian  یعنی وہ عورت جو عورت ہی کو شریک حیات منتخب کرتی ہے ۔ Gیعنی Gay وہ مرد جو ایک مرد سے تعلقات رکھے۔ B سے مراد Bisexual جو مرد اور عورت دونوں کے ساتھ رغبت رکھے ۔ T یعنی Transgender جو پیدایش کے ساتھ ملنے والی جنسی شناخت کے بجائے جنس مخالف کی شناخت اختیار کرے ، جنس تبدیل کرلے ، اس کے لیے دواؤں اور آپریشن کا طریقہ اپنائے۔ Qسے مراد Queer  ہے، جو ابھی فیصلہ نہیں کرسکا کہ اس نے تبدیلی کے لیے کون سی جنس کا انتخاب کرنا ہے ۔

اس کے مقابل ایک دوسری اصطلاح Intersex ہے، جو Hermaphroditeبھی کہلاتی ہے۔ یہ دونوں میڈیکل اصطلاحات ہیں ، جو ان افراد کے لیے مخصوص ہیں، جو پیدایشی نقص کے حامل ہوتے ہیں۔ان کو بوقت پیدایش لڑکا یا لڑکی کے طور پر شناخت نہیں کیا جاسکتا۔ ان کو ہیجڑہ یا ’مخنث‘ کہتے ہیں۔ان اصطلاحات Transgender اور Intersex کو جو یکسر مختلف ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ گڈمڈ نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں مختلف پہلوؤں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

  • تاریخ : تبدیلیٔ جنس کی تاریخ کا نکتۂ آغاز سولھویں صدی میں ولیم شیکسپیئر (م: ۱۶۱۶ء) کا ڈراما بنا، جس میں کرداروں کو لباس کی باہم تبدیلی یعنی مرد کو عورت کا اور عورت کو مرد کا لباس پہنا کر پیش کیا گیا ۔ اس دوران ۱۷۹۸ء میں انگلستان میں ہم جنسیت کے قانون میں تبدیلی کی سفارش کی گئی۔ دوسرے دور میں برطانیہ میں فوجداری جرائم کے قوانین میں ترمیم کی گئی ، اس کے لیے بھی ایک ڈراما نویس آسکر والڈ (م: ۱۹۰۰ء) نے ترامیم کے لیے کوششیں کیں ۔ اسی دوران سگمنڈ فرائیڈ (م:۱۹۳۹ء) نے ہم جنسیت کو بچپن میں سرپر لگنے والی چوٹ کا نتیجہ قرار دیا۔بعدازا ں برطانیہ میں اس کی حمایت میں سوسائٹیز بننا شروع ہوئیں ۔امریکا میں ایسی سوسائٹیز کا آغاز ۱۸۹۰ءمیں ہوا، اور اس تحریک کے تعارف اور حمایت کے لیے متعدد ناول لکھے گئے۔ ۱۹۲۲ء میں امریکا کے ضابطۂ فوجداری قوانین کی فہرست سے ہم جنسیت کو نکال دیا گیا،گویا اس جرم پر سزا نہیں ہوگی۔

تیسرے دور میں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ و امریکا میں بہت سے گروپس وجود میں آگئے۔امریکا کی پہلی عوامی تنظیم ۱۹۵۷ء میں مخصوص نام سے منظم ہوئی۔قانوناً ہم جنسیت کو ۱۹۵۷ء میں جائز قرار دے دیا گیا۔ اس مرحلے (۱۹۶۸ء) میں عورت کی آزادی کی تحریک اور ہم جنسیت زدگی کی تحریک ایک ہی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ ہم جنس زدہ عورتوں نے، آزادیٔ نسواں کی علَم بردار خواتین پر زور دیا کہ ہمیں مل کر کام کرنا چاہیے۔(un.org.lgbt.plus)

۱۹۷۲ء میں سویڈن پہلا ملک تھا، جس نے سرجری کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کرنے کی اجازت دی اور اس کے لیے ہارمون یا دواؤں کے استعمال کو بھی جائز قرار دیا۔اسی دوران ۱۹۷۴ءمیں امریکی ماہرین نفسیات ایسوسی ایشن نے ہم جنسیت اور تبدیلیٔ جنس کو ذہنی بیماریوں کی فہرست سے نکال دیا۔اس سے جڑے برسوں میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کی انجمنوں، سوسائٹیز نے اپنے حقوق کے حصول کی تحریک کا آغاز کیا۔ برطانیہ میں ۱۹۷۴ء میں پہلی ہم جنس زدہ خاتون، پارلیمنٹ کی ممبر منتخب ہوئی۔ برطانیہ میں ان کا ایک خبرنامہ بھی شائع ہونا شروع ہوگیا۔

ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کی تحریک دُنیابھر میں شروع ہوگئی۔ اسی دور میں ۱۹۸۰ء میں ایڈز سے متعلق سروے میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ مرض ہم جنس زدگان میں سب سے زیادہ ہے ۔ جس سے اس تحریک کو کچھ دھچکا لگا۔

  • قانون سازی : دنیا بھر میں اس کے متعلق قانون سازی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ممبر ممالک میں سے ۳۱ ممالک ہم جنس زدگان کو شادی یا باہم مل کر رہنے کاحق دیتے ہیں ۔۴۰ ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ تبدیلیٔ جنس کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ۵۷ممالک ان کو امتیازی سلوک سے متعلق کچھ نہ کچھ تحفظ دیتے ہیں۔۶۸ ممالک ہم جنسیت کو جرم قرار دیتے ہیں اور گیارہ ممالک میں ان کے لیے سزائے موت ہے (un.org.lgbt.plus)۔ایسے لوگوں کے حقوق،امتیازی سلوک کے خاتمہ ، حقوق میں برابری وغیرہ کو عدالتوں ، حکومتی ذمہ داران اور عوامی مراکز کا عنوان بنایا گیا۔ان کی تشہیر کی گئی، تسلسل سے مظاہرے کیے گئے، یادداشتیں پیش کی گئیں، عدالتوں میں کوششیں کی گئیں ، غرض چومکھی جنگ لڑی جانے لگی۔
  • اثرات: یہ تحریک آج تک پورے زور و شور سے جاری ہے اور اپنے اثرات دکھا رہی ہے۔ تعلیم کے میدان میں ، امریکا میں کیے گئے سروے کے مطابق۹۳ فی صد جونیئر اسکول اسٹوڈنٹس کےوالدین اور ۹۱ فی صد سینئر اسکول کے بچوں کے والدین صنفی تعلیم کہ جس میں ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس شامل ہے، اس کے بارے میں مفصل معلومات دئیے جانے کے حق میں ہیں  (www.cap.mews)۔ بہت سی آرگنائزیشنز بشمول امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن ، نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن ، امریکا کا محکمۂ صحت اور انسانی سروسز کا ادارہ بھی اس کے حق میں ہیں ۔

گلوبل انسائیکلوپیڈیا برائے ہم جنسیت، تبدیلیٔ جنس LGBT مرتب کیا گیا ۔جس میں الفاظ کو تبدیل کر کے لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر معروف اصطلاح ’بریسٹ فیڈنگ‘ کو ’چیسٹ فیڈنگ‘ لکھا گیا ہے۔عوامی مقامات پر واش روم یا باتھ روم پر ان کے لیے مخصوص علامات آویزاں کی گئی ہیں ۔ بچوں کی کارٹون سیریز میں سالانہ کئی نئی سیریز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک معروف کارٹون سیریز ڈزنی میں ان کرداروں کو پیش کیا گیا ہے۔ بیڈن انتظامیہ نے اوباما کی پالیسیوں کے تسلسل میں ہم جنس زدگان اور تبدیلیٔ جنس کے حامیوں کو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی پیدایش کے لیے سہولیات کی اجازت دے دی ہے(نیشنل ریویو، ۲۳جون ۲۰۲۱ء)۔ ایسےمرد، بچے کی پیدایش کے بعد ماں اور عورت ،باپ ہونے کا اعلان کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں (Kellyman.com)۔ سالانہ تقریبات میں Month Pride  (خود اعتمادی کا مہینہ) کا انعقاد کیا جاتا ہے ، جو اسکول انتظامیہ اور حکومتوں کی سرپرستی میں وسع پیمانے پر انجام پاتی ہیں ۔ اگرچہ ان سب اقدامات سے مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگ پریشان ہیں اور احتجاج کررہے ہیں۔ مثلاً ایک امریکی سروے میں بہت سے امریکی ووٹر اپنے بچوں کی سرجری کے ذریعے کی جانے تبدیلیٔ جنس کے تو خلاف ہیں، مگر خوف کی بنا پر کھلم کھلا مخالفت نہیں کر تے۔(The Cristian Post،  ۱۸مئی ۲۰۲۲ء)

۲۰۱۲ء کے اعدادوشمار کے مطابق بھارت میں ۲۵ لاکھ ہم جنس زدگان موجود تھے۔ بہت سی عوامی تحریکیں ان کی حمایتی تھیں۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے ’انڈین پینل کوڈ‘ کی دفعہ ۳۷۷ کو غیرقانونی قرار دے دیا، جو ہم جنس زدہ افراد کو شادی کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ ۲۰۱۴ء میں انڈین سپریم کورٹ نے ان افراد کو تیسری جنس کے طور پر تسلیم کرلیا۔ اسی سال ایک پرائیویٹ ممبر نے ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن بل‘ جنس تبدیل کرنے والے افراد کے حقوق کے تحفظ کا بل پیش کیا ، جوقانونی کمیٹی کی کچھ ترامیم کے بعد دسمبر ۲۰۱۹ء میں پاس ہوکر قانون کا حصہ بن گیا۔

  • پاکستان میں آغاز: برطانوی حکومت نے برصغیر پاک وہند میں ’انڈین پینل کوڈ‘ کے سیکشن ۳۷۷ کے تحت LGBT سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ جب ۱۹۴۷ء میں پاکستان آزاد ہوا تو اس نے اس قانون کو بطور ’پاکستان پینل کوڈ ۳۷۷ ‘ برقرار رکھا۔ ۱۹۸۰ء میں صدرجنرل محمد ضیاءالحق کے دور میں اس جرم کی سزا کو بڑھا کر عمر قید اور رجم میں تبدیل کردیا گیا۔ پھر صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی کچھ تقریبات منعقد ہونا شروع ہوئیں۔ دینی جماعتوں کی مخالفت کے سبب ان کو علانیہ اپنے آپ کو متعارف کروانا ممکن نہ ہوسکا۔

مئی ۲۰۱۸ء میں مسلم لیگ ن کی حکومت کے ہاتھوں ’ٹرانس جینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ‘ پاس ہوا۔ جس میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں انٹر سیکس یا ہجیڑے یا مخنث کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ لیکن نیشنل کورٹ آف جیورسٹ نے اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تعریف، جس کے سیکشن ۲ میں انٹرسیکس کو شامل کیا گیا ہے ، کی طرف اشارہ کیا کہ ہیجڑہ ،ٹرانس جینڈر نہیں ہے۔ مئی ۲۰۲۲ء میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں ٹرانس جینڈر بل پیش کیا گیا، اور ۵جولائی ۲۰۲۲ء کو سندھ اسمبلی نے ٹرانس جینڈرز کے لیے جاب کوٹہ مقرر کیا ہے۔ یہ اس تحریک کے مختلف مراحل کا ایک مختصر خاکہ ہے۔