اپریل ۲۰۰۳

فہرست مضامین

’’عالم گیریت‘‘ اور نیا استعمار

پروفیسر عبدالقدیر سلیم | اپریل ۲۰۰۳ | مطالعہ کتاب

Responsive image Responsive image

۱۳ فروری ۱۹۹۷ء کو جب میں عالمی بنک (ورلڈ بنک) کے چیف اکانومسٹ اور سینئروائس پریذنڈنٹ کی حیثیت میں واشنگٹن میں اپنے دفترکی عظیم الشان جدید عمارت میں داخل ہوا‘ تو پہلی چیز جس پر میری توجہ مرکوز ہوئی وہ اس ادارے کا رہنما اصول تھا: ’’ہمارا خواب ہے ایک ایسی دنیا جس میں غربت نہ ہو‘‘ … سڑک کی دوسری جانب سرکاری ثروت کا ایک دوسرا تاب ناک شاہ کار سربلند تھا۔ یہ     بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (انٹرنیشنل مانٹیری فنڈ:IMF ) کی عمارت تھی۔ سنگ مرمر  اور پھولوں سے سجی ہوئی۔ اس کی اندرونی ساخت کو دیکھ کر غیرملکی وزراے خزانہ  اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ آئی ایم ایف دولت و حشمت اور قوت کے مراکز کی نمایندگی کرتا ہے۔ (جوزف اسٹیگ لٹز‘ Globalization and its Discontents)


۱۹۹۹ء میں سیاٹل (seattle) میں جب ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن (WTO) کے اجلاس کے موقع پر بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے اور ہزاروں امریکی سڑکوں پر نکل آئے تو انھوں نے ساری دنیا کو چونکا دیا تھا۔ عالم گیریت٭ کی لہرکے نتیجے میں پس ماندہ اور نام نہاد ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں میں غلط قسم کی ’’کفایت شعاری‘‘ اور نج کاری کے پروگراموں پر عوام کے احتجاج اور مظاہرے کوئی نئی بات تو نہ تھے‘ لیکن امریکہ جیسے ’’ترقی یافتہ‘‘ اور خوش حال ملک میں عوام کو کیا پڑی تھی کہ وہ عالم گیریت کی اس علامت‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے؟ عالم گیریت اور معاشی غلبے کی اس ظالمانہ حکمت ِ عملی کو‘ جس میں کمزور اور طاقت ور کو ایک ہی اکھاڑے میں اُتار دیا گیا ہے‘ ہزار معصومیت کے پردوں میں ملفوف کیا جائے مگر پچھلی (بیسویں) صدی کے اواخر ہی میں محسوس ہونے لگا تھا کہ دنیا کے اربوں عوام کے خلاف دنیا کے قارون اور ہامان ایسی سازشیں کر رہے ہیں جن کے خلاف     مؤثر احتجاج نہ کیا گیا تو عام انسان پھر کبھی سر نہ اُٹھا سکے گا۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(IMF)‘ عالمی بنک(World Bank) اور عالمی تجارتی ادارے (WTO) کے خلاف اب ساری دنیا میں چیخ وپکار کا وہ سلسلہ شروع ہوا ہے‘ کہ ان اداروں کا جہاں بھی کوئی بڑا اجلاس ہوتا ہے‘ باشعور اور حسّاس شہری احتجاجاً سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ احتجاجوں کے یہ سلسلے بڑی حد تک ’’ترقی یافتہ‘‘ اور امیرملکوں کے شہریوں ہی نے شروع کیے ہیں‘ اور پس ماندہ ملک اور ان کے شہری‘ جو ان کی پالیسیوں سے سب سے زیادہ متاثر اور ان کے غمزوں کے زیادہ گھائل ہیں اب تک خواب سے بیدار ہوتے نہیں محسوس ہوتے۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ آلامِ روزگار میں انھیں اس طرح اسیر کر دیا گیا ہے کہ انھیں ہوش ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے!

یہ عالم گیریت‘ بنیادی طور پر ساری دنیا کے ملکوں اور عوام کے درمیان تجارت‘ اور مفادات (بڑی حد تک معاشی مفادات) کے انضمام اور پیوستگی (integration)کا نام ہے‘ جو رسل و رسائل اور ابلاغ کے ذرائع میں عظیم الشان انقلاب کے نتیجے میں واقع ہوئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ آمدورفت‘ رسل و رسائل‘ ابلاغ و اطلاع کی سُرعت اور سہولت کے نتیجے میں ساری دنیا کے ملک اور ان کے شہریوں کے درمیان نہ صرف فاصلے کم ہوئے ہیں‘ بلکہ بہت سی رکاوٹیں بھی دُور ہوئی ہیں‘ اور قدغنیں ڈھیلی پڑتی جا رہی ہیں۔ ان سہولتوں سے اشیا‘ خدمات‘ سرمائے اور اطلاع و آگاہی (علم؟) کے آزادانہ ‘ بے روک ٹوک بہائو میں تیزی اور آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ دنیا ایک ’’عالمی قصبے‘‘ (global village) میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ ملکوں کے درمیان سیاسی لکیریں دُھندلی پڑتی جا رہی ہیں ‘ اور ساری دنیا کے لوگ ایک دوسرے سے جڑتے جا رہے ہیں۔

کیا یہ سب کچھ خوش آیند نہیں؟ کون اپنے بچے کو مرتا دیکھنا چاہتا ہے‘ جب کہ اس کے مرض کو رفع کرنے کی تدبیر اور دوا دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہو۔ بہتر معاشی مواقع‘ آزاد منڈی‘ اشیا اور خدمات کی آزادانہ خریدوفروخت میں ناروا پابندیوں کے ختم ہونے سے کسے خوشی نہ ہوگی؟ بہت سے دانش وروں (اور بے شعور عوام) کا کہنا ہے کہ رسل و رسائل کے جدید ذرائع اور اُن سے بڑھ کر علم و آگاہی کے نئے وسائل نے جس طرح فاصلوں کو بے معنی بنا دیا ہے‘ اور دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے‘ اس کے زیراثر عالم گیریت نہ صرف ناگزیر ہے‘ بلکہ مستحسن بھی ہے‘ جب کہ بہت سے سوچنے سمجھنے والے ذہن اس کے فوری اور دُور رس نتائج سے مطمئن نہیں۔ جوزف اسٹیگ لٹز(Joseph Stiglitz)کی تازہ ترین تصنیف ’’عالم گیریت اور اس کے اضطراب‘‘ (Globalization and its Discontents)اس نئے رجحان پر روشنی ڈالنے کی ایک وقیع کوشش ہے‘ اگرچہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس رجحان سے نہیں‘ بلکہ اس کے کارپردازوں سے غیرمطمئن ہیں۔

جوزف اسٹیگ لٹزبنیادی طور پر ’’ریاضیاتی معاشیات‘‘ کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں‘ تاہم عالمی اطلاقی معاشیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ ۱۹۸۰ء میں وہ چین کے حکمرانوں کو ضابطی معیشت (command economy)سے ’’آزادمعیشت‘‘کی سمت سفر کے سلسلے میں مشورے دے رہے تھے۔ گویا تعلق ان کا بھی اسی معاشی فلسفے سے ہے‘ جس کے برگ و بار میں یہ جدید معاشی رجحان بھی شامل ہے۔ ۱۹۹۳ء میں وہ امریکی صدر کلنٹن کے مشیرانِ معاشیات کی کونسل میں شامل ہوئے‘ جس کے وہ صدرنشین بھی رہے‘ اور وہاں سے وہ ۱۹۹۷ء میں عالمی بنک کے چیف اکانومسٹ اور سینیروائس پریذیڈنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ ۲۰۰۱ء میں انھیں معاشیات میں نوبل انعام دیا گیا۔ انھوں نے کئی امریکی اداروں بشمول جامعہ کولمبیا میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔

جیساکہ اُوپر کہا جا چکا ہے ‘ اسٹیگ لٹزفی نفسہٖ عالم گیریت کے خلاف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عالم گیریت تو آزادانہ تجارت کی راہ میں رکاوٹوں کو دُور کرنے اور قومی معیشتوں کے درمیان باہم ارتباط کا نام ہے۔ یہ تمام قوموں‘ بشمول غریب اور پس ماندہ ملکوں کی بھلائی اور خوش حالی میں ممدومعاون ہوسکتی ہے۔ لیکن عالم گیریت کو جس رُخ پر ڈالا جا رہا ہے‘ بین الاقوامی تجارت پر سے جس انداز میں پابندیاں ختم کی جا رہی ہیں‘ خصوصاً غریب ملکوں پر جو پالیسیاں تھوپی جا رہی ہیں‘ ان پر ازسرنو غور کی ضرورت ہے۔ آزاد معیشت میں بنیادی طور پر اطلاع اور آگاہی کے حق کو تسلیم کیا جاتا ہے مگر ان کا مشاہدہ ہے کہ آزاد معیشت کے علم بردار ملکوں اور وہاں کام کرنے والے تجارتی اداروں کے ہاں اطلاع کی راہیںیک طرفہ ہیں۔ کارکن اور آجر‘ قرض دار اور قرض خواہ‘ انشورنس کمپنی اور انشورنس خریدنے والے کے درمیان آگاہی کا رشتہ دوطرفہ نہیں۔اسی طرح آئی ایم ایف کی پالیسیاں بھی اس فرسودہ نظریے پر استوار ہیں کہ منڈی کی معیشت میں خود درستی کا ایک نظام موجود ہے‘ اور سرکاری دخل اندازی (حکومتوں کے کردار) کے ہٹائے بغیر ملکوں میں معیشت کی اصلاحِ احوال ممکن نہیں۔

عالم گیریت کے حامی ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادانہ بین الاقوامی تجارت کے زیراثر  ترقی پذیر ملکوں کی برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ملکوں میں برآمدی مصنوعات کی تیاری کے لیے صنعتیں وجود میں آئی ہیں‘ کارخانے لگے ہیں‘ لوگوں کو روزگار فراہم ہوئے ہیں‘ اطلاعات کی فراہمی‘ تعلیم و تربیت کے مواقع‘ بہترصحت ‘ بڑے منصوبوں کے لیے قرض اور امداد سے ترقی کی راہیں کھلی ہیں‘ پس ماندہ ممالک اور عوام نئی حرفتوں اور صنعتوں سے آشنا ہوئے ہیں‘ اور لوگوں کی آمدنیوں اور معیارِ زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔     عالم گیریت--- جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے‘ جس کا سرخیل امریکہ ہے--- اب ترقی کا ہم معنی لفظ بن گئی ہے۔ اس کے بغیر کوئی ملک آگے بڑھنے‘ ترقی کرنے‘ پھلنے پھولنے اور اپنے شہریوں کو بہتر زندگی سے آشنا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا۔

ان معصوم آرزوئوں اور جائز خواہشات کا ڈول جولائی ۱۹۴۴ء میں ڈالا گیا۔ یورپ میں دوسری جنگ عظیم کا اختتام قریب نظر آرہا تھا۔ یورپ زخموں سے چور تھا‘ جس کی بحالی ضروری تھی‘اور پھر ایشیا اور افریقہ میں آزادی کی لہریں تُند ہوتی نظر آتی تھیں۔ مستقبل میں  نوآبادیات کے پرانے نظام کو باقی رکھنا غیردانش مندانہ محسوس ہوتا تھا (یہ رائے صاحب ِکتاب کی نہیں ہے)۔ اب اتحادی طاقتوں کے پالیسی سازیورپ کی ’’تعمیرنو‘‘ کی منصوبہ بندی کے لیے برٹین وڈس (Bretton Woods) میں جمع ہوئے۔ اس کانفرنس میں اُس ’’بین الاقوامی  بنک براے تعمیروترقی‘‘(The International Bank for Reconstruction and Development) کی بنیاد پڑی جسے اب عام طور پر ’’عالمی بنک‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ’’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ‘‘یا آئی ایم ایف کا ڈول بھی وہیں ڈالا گیا اور اس کے ذمے یہ فریضہ تفویض ہوا کہ عالمی معاشی توازن پر نظر رکھے اور اُسے بگڑنے نہ دے۔ پچھلی صدی میں ۳۰ کے عشرے میں امریکہ سے جو عالمی کساد بازاری شروع ہوئی تھی‘ اس طرح کے معاشی جذر اور نشیب پیدا نہ ہونے پائیں۔ فلسفہ یہ تھا کہ بعض اوقات بعض ملکوں میں معاشی سرگرمیاں درست انداز میں نہیں ہوتیں۔ منڈیاں صحیح طریقے سے کام نہیں کرتیں۔ مجموعی طلب میں اگر دنیا کے ایک گوشے میں بھی کمی آنے لگے‘ تو اس کے اثرات دوسرے ملکوں پر بھی پڑتے ہیں۔ وہاں بھی پیداوار کو گھٹانا ناگزیر ہو جاتا ہے‘ اور پیداوار میں کمی کرنے کے لیے لوگوں کو بے روزگار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ صنعتی اور پیداآوری سرگرمیوں میں پستی کے رجحان سے پھر معاشی بدحالی جنم لیتی ہے‘ اور یوں ایک طرح کا زنجیری ردّعمل شروع ہو جاتا ہے۔ کہا یہ گیا کہ ایک ایسے  عالمی بنک کی ضرورت ہے جو معاشی دبائو کے شکار ملکوں کو مطلوبہ سرمایہ مہیا کرسکے‘ یعنی ان کی مالی مدد کرسکے (ایک مہاجن ہو‘ جو سود پر قرض دے سکے!)۔ رسماً توعالمی بنک ایک پبلک ادارہ ہے ‘ جس کا سرمایہ دنیا کے بہت سے ملکوں کے سرمایہ داروں نے مہیا کیا ہے ‘ اور گویا یہ ایک طرح کی ’’مالیاتی اقوامِ متحدہ‘‘ ہے۔ مگر اس میں موثر قوت اور کنٹرول صرف ’’بڑے ترقی یافتہ‘‘ ملکوں ہی کے ہاتھ میں ہے ‘اور عملاً صرف ایک ملک --- امریکہ-- موثر ویٹو کا اختیار رکھتا ہے۔

مصنف کے مطابق اگرچہ اپنی تشکیل کے وقت اس ادارے کا مقصد یہی تھا کہ خراب اقتصادی کارکردگی والے ملکوں پر دبائوڈالے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کی اصلاح کریں‘ پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ دیں‘ ٹیکسوں میں کمی کریں‘ شرحِ سود گھٹائیں‘ عوامی خدمات پر خرچ کریں اور سرکاری اخراجات میں اضافہ کریں‘ اور یوں معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کوشش کریں‘ لیکن آج عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف صرف اُسی وقت کسی ملک کو فنڈ جاری کرتا ہے جب وہ ملک اس کی شرائط پر اور اس کی پالیسیوں کے مطابق کام کرنے پر آمادہ ہو‘ اپنے میزانیے کے خسارے میں کمی کے لیے سرکاری اخراجات میںکمی کے لیے راضی ہو جائے‘ یعنی تعلیم‘ صحتِ عامہ اور عوامی مفاد کی ذمّہ داریوں سے دست کش ہونے پر تیار ہو جائے‘ ٹیکسوں کو بڑھانے اور شرحِ سود میں اضافے کو قبول کرے اور یوں مفادِ عامہ کی معیشت کے بجائے ساہوکاری معیشت اپنانے پر تیار ہو جائے۔

مصنف کو اعتراف ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام واشنگٹن کے ایما پر اور اس کی خواہش کے مطابق ‘ حکماً نافذ کیے جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ان جیسے بین الاقوامی اداروں کے اراکین ’’امداد‘‘ لینے والے ملکوں کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں‘ وہاں کے مرکزی بنک اور وزارتِ خزانہ کے افسران سے اعداد و شمار کی ٹھنڈی فضائوں میں گفتگو کرتے ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ ’’افراطِ زر کو روکنے‘‘ اور ’’معاشی اصلاحات‘‘ اور ’’نج کاری‘‘ کے جو منصوبے وہ لے کر آئے ہیں ‘ مغربی بنکوں کے قرضوں کی وصول یابی کے جو پروگرام وہ پیش کر رہے ہیں‘ ان سے کتنے لوگ متاثر ہوں گے۔ بے روزگار ہونے والے تو انسان ہیں۔ ان کے خاندان‘ بیوی‘ بچے اور لواحقین ہیں جن کی زندگیاں اجیرن ہو جائیں گی‘ ان کی پالیسی‘ بلکہ احکام کی وجہ سے کتنے لوگ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ’’جدید ہائی ٹیک جنگ اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ ]متحاربین کے درمیان[ جسمانی رابطے کی نوبت ہی نہیں آتی… ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی سے بم گرانے والوں کو یہ ’’محسوس‘‘ نہیں ہوتا کہ ان کے اس فعل کے کیا نتائج نکل رہے ہیں۔ جدید معاشی نظم کاری اور منصوبہ بندی بھی اسی طرح کی ہے۔ اعلیٰ ترین ہوٹل کے پُرتعیش کمروں میں بیٹھ کر کروڑوں عوام کے لیے منصوبہ سازوں کو ’’محسوس‘‘ ہی نہیں ہوتا کہ جن کی قسمتوں کے فیصلے وہ کرنے جا رہے ہیں‘ وہ کس بربادی کا شکار ہوں گے۔ اگر وہ اُن کے درمیان ہوتے‘ ان کو ذاتی طور پر جانتے ہوتے‘ ان سے رابطے میں ہوتے‘ تووہ شاید یہ فیصلے نہ کرتے‘‘۔

کیا یہ مصنف کی سادگی اور بھولپن ہے یا تجاہلِ عارفانہ؟ وہ خود اس بات سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ نصف صدی میں یہ ادارے اور ان کا تیسرا ساتھی ’’عالمی تجارتی ادارہ‘‘ (WTO)  ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ملکوںپر کیا کیا ستم نہیں ڈھا چکے ہیں؟ انھیں اعتراف ہے کہ پچھلی رُبع صدی میں آئی ایم ایف کی ’’کوششوں کے باوصف‘‘ ساری دنیا میں معاشی بحرانوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سرمائے کی منڈیوں کی بے لگام آزادیوں سے غریب ملکوں کی معیشت مزید زوال کا شکار ہوئی ہے‘ اور جب ایک ملک بحران کا شکار ہوتا ہے‘ تو آئی ایم ایف کے قرضے اور اس کے دیے ہوئے پروگرام نہ صرف یہ کہ ا س کے توازن کو بحال کرنے میں ناکام ہوتے ہیں‘ بلکہ ان کے نتیجے میں مرض کی شدت میں اور اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خاص طور پر یہ پروگرام ملک کے نچلے طبقے کے لیے مزید غربت اور عذاب کا باعث ہوتے ہیں۔

عالمی تجارتی ادارے نے یہ فلسفہ دیا کہ بہت سے ملک اپنی معیشت کو بچانے یا فروغ دینے کے لیے درآمدات پر بے جا پابندیاں یا محاصل عائدکرتے ہیں‘ جو ایک غلط پالیسی ہے‘ اور اس سے ان کے ’’پڑوسیوں‘‘ کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہیے‘ جو اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حرکت کو پروان چڑھائے۔ مگر ہوا یہ کہ اس ادارے اور ’’محصولات اور تجارت پر عمومی اتفاق‘‘ (GATT: General Agreement on Tariffs and Trade) سے خسارہ صرف غریب ملکوں ‘ خصوصاً ان کے معاشی طور پر پس ماندہ طبقوں ہی کے حصے میں آیا ہے۔ تحفظ سے محرومی کے نتیجے میں ایشیا اور افریقہ کے پس ماندہ ملک‘ خام مال پیدا اور مہیا کرنے والے اور ترقی یافتہ ملکوں کی مصنوعات کے صارف بن گئے ہیں۔ وہ مصنوعات‘ جو امریکہ‘ برطانیہ‘ جاپان‘ فرانس اور دوسرے ’’ترقی یافتہ ممالک‘‘ تیار کرتے ہیں۔ ’’ترقی پذیر‘‘ ملکوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ تجارتی پابندیاں ہٹائیں اور اپنے ملکوں میں درآمدات کو آزادانہ آنے دیں‘ جب کہ وہ ان کی مصنوعات پر کئی وجوہ سے پابندیاں لگا دیتے ہیں (مصنوعات غیرمعیاری ہیں‘ بچوں سے مشقت لی جا رہی ہے‘ وغیرہ)۔ غریب ملکوں کی صنعتیں دم توڑ رہی ہیں‘ کارخانے بند اور مزدور بے روزگار ہو رہے ہیں۔ کئی ملکوں میں توکسان بھی اپنے کھیت کی پیداوار اس قیمت پر فروخت نہیں کر پا رہے‘ جو امریکہ اور یورپ میں حکومتی اعانت کی وجہ سے ارزاں قیمت پر دست یاب ہو جاتی ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی سرگرمیاں ختم ہوتی جارہی ہیں‘ بلکہ کسان بھی تباہ حال ہوتے جا رہے ہیں۔ صنعتی ملکوں کو جس خام مال (بشمول زرعی اجناس روئی‘ پٹ سن‘ چمڑا‘ معدنیات‘ معدنی تیل‘ گیس وغیرہ) کی ضرورت ہے‘ اس کی قیمت کا تعین وہ خود کرلیتے ہیں‘ کیوں کہ انھیں اونے پونے برآمد کیے بغیر یہ غریب ملک وہ اشیا اور خدمات حاصل نہیں کرسکتے‘ جن کا انھیں چسکا لگا دیا گیا ہے۔ کاریں اور کمپیوٹر‘ جدید طبّی آلات و سہولیات‘ برقیات‘ تفریح اور آگاہی کے لیے نئے وسائل اور آلات اور ’’غریبوں کی بہت سی عیاشیاں‘‘ (کوکا کولا‘ پیپسی‘ کے ایف سی کی تلی ہوئی مرغیاں‘ پیزا‘ درآمد شدہ ٹافیاں‘چاکلیٹ اور کھلونے) اس وقت تک دست یاب نہیں ہوں گے جب تک آپ کے پاس زرمبادلہ نہ ہوگا۔ اور زرِمبادلہ کے لیے آپ کو اپنے اثاثے اور خود اپنے آپ کو کسی نہ کسی قیمت پر فروخت کرنا ہوگا کہ جی-سیون (سات اہم ترین (گریٹ!) ترقی یافتہ صنعتی ملکوں: امریکہ‘ جاپان‘ جرمنی‘ کینیڈا‘ اٹلی‘ فرانس اور برطانیہ) کا تقاضا یہی ہے۔

مروّجہ معاشی فلسفے کی ایک حکمت ِعملی نج کاری بھی ہے۔ خود اسٹیگ لٹزبھی اس کے حامی ہیں۔ ان کے خیال میں بہت سے پس ماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں حکومتیں وہ کام کر رہی ہیں جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ بھلا حکومت کو فولاد کے کارخانے لگانے اور چلانے سے کیا سروکار؟ اس طرح کے بڑے منصوبوں میں وہ اپنا وقت‘ توجہ اور سرمایہ ’’ضائع‘‘ کرتی ہیں‘ اور بہت سے کرنے کے کام رہ جاتے ہیں‘ تاہم مصنف سے یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہا جاتا کہ دنیا میں سب سے بہتر کارکردگی دکھانے والے فولادی کارخانے وہ ہیں جو کوریا اور تائیوان کی حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں بات یہ نہیں کہ کوئی صنعت حکومت کی تحویل میں ہے‘ یا نجی ہاتھوں میں‘ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ انھیں چلانے والے کتنے اہل اور دیانت دار ہیں۔

بدقسمتی سے آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے اس مسئلے کو ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ فلسفے اور منڈی کی معیشت کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے‘ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بہت سے ملکوں میں قومی اثاثے اور ’’کاروبار‘‘ جو عوام کے خون پسینے ‘ محنت اور سرمائے سے وجود میں آئے تھے‘ اونے پونے     نجی پارٹیوں کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان اور بھارت میں‘ بلکہ ان جیسے بہت سے ترقی پذیر ملکوں میں ’’کارپوریٹ گلوبلائزیشن‘‘ کی پالیسی‘ تمام معاشی‘ سماجی اور سیاسی بیماریوں کی واحد دوا کے طور پر پیش کی جا رہی ہے‘ اس کی حمایت اور وکالت کی جا رہی ہے۔ معاشی بزرجمہراور سیاسی دانش ور ’’تجارتی جسدکاری‘‘ (corporatization) اور نج کاری کے حق میں دلائل دیتے نہیں تھکتے‘ اور تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں کے حکمراں اپنے مادرِ وطن کے قدرتی وسائل‘ اثاثے‘ اور وہ بنیادی ڈھانچے جو ایک صدی میں وجود میں آئے تھے‘ ملکی اور غیر ملکی آڑھتیوں کو بیچنے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔ ملکی تعلیم اور تعلیمی ادارے‘ صحت‘ بجلی‘ گیس‘ تیل‘ کوئلہ‘ لوہے اور فولاد کی صنعت‘ ٹیلی فون‘ رسل و رسائل‘ سڑکیں‘ ریلوے اور قومی علَم بردار فضائی کمپنیاں اور بندرگاہیں‘ حتیٰ کہ پینے کے پانی (بوتلوں کی شکل میں) نج کاری کے نتیجے میں عالمی ساہوکاروں کی نذرکیے جا رہے ہیں 

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند

کیا دنیا کے اربوں عوام کے خلاف کوئی بڑی سازش ہوئی ہے؟ مصنف کے خیال میں ایسانہیں۔ ابتدا میں نیتیں تو نیک تھیں لیکن ان بین الاقوامی اداروں کے کردار میں تبدیلیاں ۱۹۸۰ء کے عشرے سے واقع ہوئیں‘ جب امریکہ میں رونالڈ ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نہ صرف اپنے اپنے ملکوں میں بلکہ ساری دنیا میں منڈی کی معیشت کا پرچار کر رہے تھے۔ دعویٰ یہی تھا کہ یہ نظام ساری دنیا کے غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو فلاح اور خوش حالی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔ اگرچہ وال اسٹریٹ اور آئی ایم ایف کے خلاف ایسی شہادتیں مہیا کرنا دشوار ہے جنھیں عدالت میں ثابت کیا جا سکے‘ مگر اقوامِ عالم کے خلاف ان کی سازشوں کے انداز نہایت ’’لطیف‘‘ اور خفیہ ہیں۔بند دروازوں کے عقب میں ایک خفیہ اجلاس‘ کسی کے بیان یا گفتگو کا ایک مخصوص لہجہ‘ ایک بظاہر سادہ سی دستاویز--- کروڑوں انسانوں کی زندگی پراثراندازہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی نہایت شُستہ معذرت اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی کہ ان ترقی پذیر ملکوں کے کروڑوں عوام کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑ رہی ہیں‘ وہ بہشت کی طرف جانے والے راستے کی سختیاں اوردشواریاں ہیں۔ انھیں توانگیز کرنا ہی ہوگا۔ یا پھر وہ اس طرح کی شکایات کو ایک محکوم نوآبادی کی صداے احتجاج کے طور پر حقارت سے ردّ کر دیتے ہیں۔

یہ ایک نیا استعمار ہے ‘ جس میں حاکموں کی ذمہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر آپ نے جانور پالے ہیں کہ ان کا دودھ اور گوشت حاصل کریں‘ تو آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے  کہ انھیں کھلائیں پلائیں‘ اُن کی دیکھ بھال کریں اور ان کی حفاظت کریں۔ لیکن جب آپ جنگل میں شکار کے لیے نکلتے ہیں‘ توشکار ہونے والے کسی جانور کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہوتی۔ آپ بھی آزاد ہوتے ہیں اور وہ بھی!

(Joseph E. Stiglitz, Globalization and its Discontents, London, Allen Lane, Penguin Books, 2002, pp 282, £16.99)