اپریل ۲۰۰۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| اپریل ۲۰۰۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

اُردو صحافت ‘انیسویں صدی میں‘ ڈاکٹر طاہر مسعود۔ ناشر: فضلی سنز‘ اُردو بازار‘ کراچی۔ صفحات: ۱۲۳۱+] ۵۳[ = ۱۲۸۴۔ قیمت: ۸۰۰ روپے۔

کتاب کے عنوان سے موضوع کی جامعیت و وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا لیکن کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی سندی تحقیق (پی ایچ ڈی) کے لیے ایک بحرذخار جیسا موضوع انتخاب کیا ہے۔ ایک صدی کے طویل دورانیے کا یہ جائزہ مختلف عنوانات کے تحت لیا گیا ہے: فارسی صحافت۔ اُردو صحافت کا آغاز۔ پہلا دور‘ ۱۸۳۷ء سے ۱۸۵۷ء تک۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اور اُردو صحافت۔ سرسیداحمد خاں اور مقصدی صحافت۔ سیاسی و سماجی صحافت۔ مذہبی صحافت۔ ذولسانی صحافت۔ طنزیہ و مزاحیہ صحافت۔ روزنامہ صحافت۔ تخصیصی (تعلیمی‘ قانونی‘ تجارتی‘ طبّی‘ ادبی اور خواتینی) صحافت۔

برعظیم میں خبرنویسی کے آغازو ارتقا کی کہانی دل چسپ ہے اور معلومات افزا بھی۔ زمانۂ قدیم سے تیز رفتار گھوڑے اور کبوترنظامِ برید (خبررسانی) کا اہم ذریعہ تھے۔ سلاطینِ دہلی نے اس نظام کو بہتر بنایا اور خبررسانی کے لیے خوب دیکھ بھال کر کے نہایت معتبر نمایندوں کو مقرر کیا۔ ان کے نظامِ سلطنت کی فعالیت اور کامیابی کا انحصار خاصی حد تک اسی نظامِ برید پر تھا۔ بعض سخت گیر اور نسبتاً زیادہ ہوش مند حکمران (غیاث الدین بلبن‘ علاء الدین خلجی‘ شیرشاہ سوری‘ اکبر اور اورنگ زیب) نظامِ برید کو مختلف تدبیروں سے بہتر بناتے رہے۔

ڈاکٹر طاہرمسعود (استاد‘ شعبہ صحافت‘ کراچی یونی ورسٹی) کی تحقیق یہ ہے کہ برعظیم میں اخبار نویسی کے آغاز کو انگریزوں کی آمد سے وابستہ کرنا غلط ہے۔ وقائع نگاری کا ایک موثر اور جدید نظام یہاں صدیوں سے موجود تھا۔ انگریزوںکی آمد کے بعد اس قلمی اخبار نویسی نے مطبوعہ صحافت کی شکل اختیار کرلی۔ اوائل میں بعض اخبارات نے انگریزوں کی لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانیوں کا کچاچٹھا بھی خوب کھولا۔ اس وجہ سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے وقتاً فوقتاً صحافت کا    گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کی۔ سب سے پہلے لارڈ ولزلی نے صحافت کو پابند زنجیرکرنا چاہا اور  ’’راہِ راست‘‘ پر نہ آنے والے کئی برطانوی صحافیوں کو واپس انگلستان بھیج دیا گیا۔

ابتدا میں زیادہ تر اخبارات فارسی میںچھپتے تھے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والا  جام جہاں نما اُردو کا پہلا اخبار تھا۔ مصنف نے اخبارات کے بارے میں تفصیل فراہم کرتے ہوئے اس دور کی صحافت کے مختلف رجحانات اور ان کی مشکلات و مسائل کا بھی ذکر کیا ہے۔ رپورٹنگ کے انداز و اسلوب اور تبصروں کے نمونے بھی دیے ہیں‘ اور یہ سب کچھ مصنف کی برسوں کی تحقیق کے بعد ممکن ہوا۔ اس سلسلے میں انھوں نے پاکستان کے معروف کتب خانوں کے علاوہ بھارت جاکردہلی‘ پٹنہ‘ کلکتہ‘ علی گڑھ اور لکھنؤ کے کتب خانوں میں بڑی محنت سے چھان بین کی اور ایسی اطلاعات فراہم کی ہیں جن میں سے بعض کا آیندہ ماخذشاید ان کی یہی کتاب ہوگی‘ کیونکہ بوسیدہ اخبارات کا زیادہ دیر تک محفوظ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

ڈاکٹر طاہر مسعود کی یہ تحقیق صحافت کے ساتھ ساتھ‘ اُردو زبان و ادب‘ تاریخ‘ تہذیب‘ معاشیات‘ سیاسیات اورعمرانیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے بھی بہت اچھا اور قابل مطالعہ لوازمہ مہیا کرتی ہے۔ اس سے ہمیں انگریزوں کی بدعنوانیوں‘ رشوت ستانیوں‘ہوس زر اور  فریب کاریوں کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انیسویں صدی میں حاکم و محکوم کے رشتوں اور فاصلوں ‘ اسی طرح ہندو مسلم تعلقات کی استواری اور باہم کشیدگی وخرابی‘ نیز زمانۂ محکومی میں ہندستانی معاشرے میں رونما ہونے والی سماجی تبدیلیوں کی نوعیت معلوم ہوتی ہے اور پتا چلتا ہے کہ غلامی میں دل و دماغ اور ذہنیتیں کیسے بدلتی ہیں اور حکمِ حاکم‘ مرگِ مفاجات بن جاتا ہے۔ مزیدبرآں اُردو نظم و نثرکے مختلف اسالیب بیان‘ بلکہ قدیم املا کے نمونوں تک کا علم بھی ہوتا ہے۔ ۱۸۶۱ء کی ایک دل چسپ خبر دیکھیے: ’’بڑودہ سے بمبئی ریل گاڑی جاری ہوئی۔ ہزارہا آدمی اس کو دیکھنے کے واسطے جمع ہوئے۔ مدت سے اس طرف کے تمام آدمیوں کو اس کے دیکھنے کا انتظار تھا۔ سات بجے صبح کی گاڑی چلنے کے وقت ریلوے کے جنرل مینیجرنے اپنے ہاتھ سے بہ طور شگون کے‘ گاڑیوں کے پہیوں پر شراب کی بھری ہوئی ایک بوتل چھڑکی‘۵۰۰ گاڑیوں کی قطار تھی اور ۴۰۰ آدمی سوار تھے‘‘ (ص ۵۱۷)۔

مصنف نے آخر میں نہایت عرق ریزی سے ۴۰ صفحات کا ایک گوشوارہ مرتب کیا ہے جس سے ایک نظر میں ہر اخبار کے ضروری کوائف سامنے آتے ہیں۔ قدیم اخبارات کے عکس اور اشاریے نے‘ قابلِ ستایش عمدہ معیارِ تحقیق کی اس علمی کتاب کو اور بھی وقیع بنا دیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


خاندانی منصوبہ بندی ‘الزبتھ لیاگن ‘ترجمہ: محب الحق صاحب زادہ۔ ناشر: بک ٹریڈرز‘ بہ اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۲۱۹۔قیمت: ۱۵۰ روپے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے موضوع پر الزبتھ لیاگن کے مضامین امپیکٹ‘لندن میں پڑھنے کو ملتے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ مغرب کی یہ دختر تیسری دنیا میں آبادی کے اضافے کو روکنے کی امریکی اور عالمی ایجنسیوں کی امداد اور تعاون کے پس پردہ اصل کھیل سے ہمیں آگاہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے افریقہ کے حوالے سے اس موضوع پر امریکہ کی قومی سلامتی کونسل‘ سی آئی اے‘ ورلڈ بنک اور دوسرے اداروں کی رپورٹوں اور دستاویزوں کا مطالعہ کیا اور سارا کھیل اس کتاب میں کھول کر رکھ دیا۔

مرکزی خیال یہ ہے کہ مغربی دنیا میں گذشتہ صدیوں میں جو ترقی ہوئی‘ وہ ان کے علاقوں میں آبادی میں اضافے کا دور تھا۔ ۱۷۹۰ء میں امریکہ کی آبادی ۴ ملین تھی‘ جو ۱۹ویں صدی کے آخر تک بڑھ کر ۷۶ ملین ہو گئی۔ ۲۰ ویں صدی کے نصف اوّل میں اضافے کی شرح ۳فی صد تھی۔ (ص ۱۶۰)

الزبتھ لیاگن کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ مغربی ملک خاصے عرصے سے اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اگر ترقی پذیر دنیا میں آبادی کا اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو یہ اپنے اندر اتنی بڑی طاقت رکھتا ہے کہ محض اضافۂ آبادی کی بنا پر ہی مغرب کو مغلوب کرلے گا اور اس کی ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی۔ ان کی سلامتی کی رپورٹیں اور منصوبے سب اس کے عکاس ہیں۔ وہ اسے صحت کی بہتری اور غربت کو دُور کرنے کے پردے میں چھپاتے ہیں۔ خود سامنے آنے کے بجاے ورلڈ بنک کو سامنے کرتے ہیں۔ جو ممالک یا لیڈر اس پروگرام کو نہ لینا چاہیں‘ ان پر بھی ٹھونستے ہیں‘ اقتصادی قرض اور امداد کو اس سے مشروط کر دیتے ہیں۔ تیسری دنیا کے حکمرانوں کو اپنا آلۂ کار بنا کر‘ ان کے عوام کی مرضی کے خلاف زبردستی مدد دیتے ہیں اور اس طرح اپنے  منصوبے روبہ عمل لاتے ہیں۔ غرض ایک بڑی وحشت ناک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ہم سے خود ہی کروایا جا رہا ہے۔

افریقہ کے اس مطالعے میں کچھ حوالہ انڈونیشیا اور بنگلہ دیش کا بھی آیا ہے۔ اسلامی ممالک اور تہذیبوں کے تصادم کا بھی ذکر ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انھوں نے آنکھیں کھولنے والی یہ کتاب شائع کی۔ اچھا ہو اگر آئی پی ایس ‘پاکستان کے حوالے سے بھی اس موضوع پر اسی انداز کا تفصیلی مطالعہ تیار کر کے شائع کروائے تاکہ امداد دینے والے اداروں اور ملکوں کے اپنے شواہد ہمارے سامنے آئیں کہ یہ سب کچھ کیوں کیا جا رہا ہے؟ اور ہماری خواتین کی صحت اور معاشرے کی غربت کی اتنی فکر عالمی ایجنسیوں کو کیوں ہو گئی ہے؟ (مسلم سجاد)


مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‘ حیات و افکار کے چند پہلو‘ ترتیب و تدوین: سفیراختر۔ ناشر: ادارہ تحقیقات اسلامی‘ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۳۳۳۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

بیسویں صدی کے دوران مسلم دنیا کے نمایاں ترین اہل قلم میں ایک بڑا نام مولانا سیدابوالحسن علی ندویؒ کا ہے۔ دنیاے فانی سے رخصت ہونے پر ان کی یاد میں دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف سطحوں پر تذکرہ و تجزیہ اور داد و تحسین کی سرگرمی کا ہونا ایک فطری چیز تھی۔ اس حوالے سے ادارہ تحقیقات اسلامی کے فاضل ڈائرکٹر جنرل ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری نے ۲۱فروری ۲۰۰۰ء کو علی میاں کی یاد میں دو روزہ سیمی نار کا انعقاد کیا۔ زیرنظر کتاب کا محرکِ ترتیب وہی سیمی نار بنا۔ ڈاکٹر انصاری لکھتے ہیں: ’’سیمی نار میں پیش کردہ مقالات اہل نظر کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے ادارہ خوشی محسوس کر رہا ہے‘‘ (ص ۱۰)۔ مگر یہ کتاب تمام تر سیمی نار کے مقالات پر مشتمل نہیں ہے۔ فاضل مرتب نے بتایا ہے کہ اس کتاب کی تدوین میں تاخیر کی وجہ سے سیمی نار کے چند مقالات دوسری جگہ چھپ گئے‘ اس لیے انھیں اس مجموعے میں شامل نہیں کیا گیا (ص ۱۱‘ ۱۲)۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ مرتب نے زیرتبصرہ کتاب میں خاصی تعداد میں پرانی اور چھپی ہوئی تحریریں بھی شامل کردی ہیں‘ مگر ان کی نشان دہی نہیں کی۔ چنانچہ نہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیمی نار میں کیا پیش ہوا اور نہ یہ کہ مدتوں پہلے کی چھپی ہوئی چیزیں کون سی ہیں اور کہاںسے اور کس معیار یا جواز کی بنیاد پر شاملِ اشاعت کی گئی ہیں؟ اگر صرف سیمی نار کی چیزوں کو معیار بنایا جاتا تو یہ ایک معقول بات ہوتی اور مطبوعہ غیرمطبوعہ کی اس ’’کراہت اورمرتبانہ پرہیز‘‘ سے بھی  بچا جاسکتا تھا‘جو ڈاکٹر انصاری اور فاضل مرتب کے بیانات کے باہم ٹکرائو سے پیدا ہوتا ہے۔

لیکن اس سے قطع نظر‘ یہ اپنے موضوع پر نئی پرانی تحریروں کا ایک معلومات افزا اور عمدہ مجموعہ ہے‘ جو مولانا علی میاں کی شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید ہے۔ جن اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں ان میں جلیل احسن ندوی‘ ملک نصراللہ خاں عزیز‘ رضوان علی ندوی‘ پروفیسر خورشیداحمد‘ ڈاکٹر خالد علوی‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ محمد الغزالی‘ سہیل حسن اور خود فاضل مرتب شامل ہیں۔

ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ : ’’دینی حلقے میں ابوالحسن علی ندوی پہلے بلندپایہ عالم ہیں‘ جو اقبال سے متاثر ]ہوئے… اُن کی[ اس کتاب میں فکراقبال کے تمام اہم مباحث آگئے ہیں‘‘ (ص ۱۵۲-۱۵۳)۔ یہ بیان مبالغہ آمیز اور فقط جوشِ عقیدت کا مظہر ہے۔ ایک اور مضمون: ’’برصغیرکی تاریخ اصلاح و جہاد‘‘ باہم ربط و امتزاج سے خالی ہے۔ علی میاں کے فکری ارتقا اور اس باب میں ناہمواری کی متعددمثالوں کے تجزیے سے یہ مضمون خصوصی مطالعے کی بنیاد بن سکتا تھا۔

علی میاں کے جو (زیادہ تر مطبوعہ) مکتوبات کتاب میں شامل کیے گئے ہیں‘ معلوم نہیں ان کے انتخاب میں کیا معیار مدنظر رہا؟ ایک مکتوب میں یہ ذکر آتا ہے کہ دمشق کی ایک کانفرنس میں مولانا مودودی اور علی میاں دونوں شریک تھے۔ علی میاں لکھتے ہیں:’’مودودی صاحب… یونی ورسٹی ہال… میں سٹیج پر آئے تاکہ… مسئلہ فلسطین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں تو انھوں نے منتظمین جلسہ سے خواہش ظاہر کی کہ ان کی اُردو تقریر کا میں ترجمہ کروں۔ میں بعض وجوہ سے اس کو اچھا نہیں سمجھتا تھا لیکن انھوں نے کئی بار اس کا تقاضا کیا… مجبوراً طبیعت کے انقباض کے ساتھ یہ خدمت انجام دینی پڑی اگرچہ تقریر کا تعلق صرف مسئلہ فلسطین سے تھا اور اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی جو میرے لیے موجب ِ انقباض ہوتی ] پھر بھی[ مجھے اس میں تردد تھا… بس طبیعت پر ایک انقباض طاری ہوگیا ---اور کئی روز اس کا اثررہا‘‘ (ص ۲۹۷-۲۹۸)۔ معلوم نہیں یہ خط کس کی تحسین یا کس کی تنقیص کے لیے‘ خصوصاً اس  یادگاری مجموعے میں شامل کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں پرانے رسائل سے علی میاں کی کتب پر مطبوعہ تبصرے‘ مکتوبات اور خود ان کی خودنوشت ۵۰ صفحوں پر مشتمل بھی شامل کی گئی ہے‘ لیکن مطبوعہ چیزوں کے ماخذ کا حوالہ دینے سے پہلوتہی کی گئی ہے۔ (سلیم منصورخالد)


مسلمان عورت  ‘شیخ وہبی سلیمان عاوجی الالبانی‘ ترجمہ: مولانا عبدالصبور بن مولانا عبدالغفور‘ ناشر: مکتبہ غفوریہ‘ مکان ۱‘ گلی ۴۸‘ جمیل ٹائون‘سبزہ زار سکیم‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۷۔ قیمت: درج نہیں۔

زیرنظر کتاب میں: اسلام میں عورت کی حیثیت‘ بعض دائروں میں مرد و زن کے مساوی حقوق‘ مگر بعض (حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور دینی) پہلوئوں سے مرد اور عورت کی نوعیت و حیثیت میں تفاوت و تفریق‘ مردوزن کے تعلق کے معاشرتی پہلو‘ ازدواجی زندگی اور حقوق و فرائض‘ پردہ‘ عورت بطور خاتون خانہ‘ اور عورتوں کی گمراہی کا ذمہ دار کون؟ اور مسلمان عورت کیسی ہو؟ --- جیسے امور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ بعض مصنفین کے مشاہداتِ مغرب کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

اپنے موضوع پر اچھی کتاب ہے لیکن‘ اوّل: مترجم نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ مصنف کون ہے؟ ممکن ہے طبقۂ علما میں وہ محتاجِ تعارف نہ ہوں مگر ان کے مختصر تعارف کے لیے‘ قاری کی خواہش فطری ہے۔ دوم: فاضل مصنف نے یہ کتاب اپنے مخصوص ماحول اور (کسی عرب خطے) کے حالات کو سامنے رکھ کر لکھی مگر طبقۂ نسواں کے حوالے سے‘ پاکستانی معاشرہ کن مسائل سے دوچار ہے؟ صورتِ حالات کیا ہے؟ اور جدید ذرائع ابلاغ‘ میڈیا اور اباحیت زدہ سیکولر طبقہ‘ ہمارے خاندانی نظام کو تلپٹ کرنے اور عائلی زندگیوں میں زہرگھولنے اور اسے فتنوں سے دوچار کرنے میں جس غیرمعمولی مستعدی سے سرگرمِ عمل ہے‘ اُس کا دفاع کرنے کی کیا صورت ہے؟--- یہ کتاب اس بارے میں خاموش ہے--- خیال رہے کہ نہ تو محض وعظ و تبلیغ سے فتنوں کا سدِّباب ہوسکتا ہے‘ اور نہ کافروں اور یہودیوں کو برا بھلا کہہ کر‘ اور حکومتی اداروں کی مذمت کر کے اصلاح احوال کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

یہ خوش آیند امرہے کہ مشینی کتابت کے نتیجے میں دینی اور مذہبی حلقوں کی اشاعتی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں مگر تصنیف و تالیف کے جدید اسالیب‘ اصولِ تدوین اور کتاب کے رنگ ڈھنگ (فارمیٹ) کے حوالے سے‘ ابھی بہت کچھ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حد تو یہ ہے کہ تقریظ کا دوسرا کتابت شدہ صفحہ‘ پیسٹنگ میں کہیں غتربود ہوگیا‘ اور کتاب اِسی طرح چھاپ کر جاری کر دی گئی ہے۔ (ر-ہ)


شعورِ حیات ‘مولانا محمد یوسف اصلاحی۔ ناشر: البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۵۱۶۔ قیمت: ۲۵۰ روپے۔

۹۸ مضامین کا یہ مجموعہ دراصل مجلہ ذکرٰی ‘ رام پور کے اداریوں پر مشتمل ہے۔ یہ مضامین قبل ازیں مختلف مجموعوں کی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ اب انھیں یکجا کر کے پیش کیا گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کل اُمت مسلمہ گوناگوں مصائب و آلام کا شکار ہے۔ ہر چوراہے پر مسلمان ٹکٹی سے بندھے نظر آتے ہیں اور ظلم و جبر اور استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ’’اُمت نے اپنا ]وہ[ فرض بھلا دیا ہے جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا‘‘۔ وہ فرض قرآنی اصطلاح میں امربالمعروف ونھی عن المنکرہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دورِحاضر میں جب انسان اپنے مقاصدِ تخلیق سے ناواقف ہو چکا ہے‘ یہ کتاب اُسے وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون کا مفہوم سمجھاتی ہے۔

مصنف نے زندگی کے مختلف اور متنوع پہلوئوں پر قلم اٹھایا ہے۔ خیر کا اصل چشمہ‘ سماجی اصلاح کا گر‘ اسوۂ حسینؓ کا پیغام‘ عیدقربان‘ تلاوتِ قرآن‘ موت کے دروازے پر‘ روزہ کس لیے؟ چند لمحے رسولؐ کی مجلس میں‘ جب آپ کی بیٹی کا پیغام آئے‘فقروفاقہ‘ ایک آزمایش وغیرہ--- زندگی ہی کی طرح اس کتاب کا دائرہ‘ عبادات سے اعمال تک اور معاشرت سے معیشت تک وسیع ہے۔ مصنف کا مقصد یہ ہے کہ قاری کو حقیقی معنوں میں شعورِ حیات حاصل ہو۔

زبان عام فہم اور سادہ ہے۔ انداز و اسلوب‘ تحریر سے زیادہ تقریر کا ہے۔ انفرادی تربیت و تزکیے کے لیے یہ ایک مفید کتاب ہے۔ (قاسم محمود وینس)


تعارف کتب

  • فکر امروز‘ صاحبزادہ خورشید احمد گیلانی۔ ناشر: خورشید گیلانی ٹرسٹ ۲۲‘ ایچ مرغزار آفیسرز کالونی‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۲۱۱۔قیمت: ۱۲۰ روپے۔]یہ اس کتاب کی دوسری اشاعت ہے۔ (طبع اول ۱۹۹۵ئ) اہم دینی‘ ملّی‘ ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر فکرانگیز تبصرے اور تجزیے‘ جیسے: عالمی قیادت کا امریکی خواب‘ بنیاد پرستی‘ اسلامک ورلڈ آرڈر‘ ارباب اقتدار کی نفسیات‘ اسلام کیسے نافذ ہوا اور کون نافذ کرے؟ وغیرہ۔[
  • اُردو سرکاری زبان‘ چودھری احمد خاں۔ ناشر:ادارہ منشورات اسلامی‘ بالمقابل منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور۔ صفحات: ۴۶۰۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔] ’’پاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہوگی‘‘ (قائداعظم)۔ مگر یہ کیوں نہ ہو سکا؟ یہ کتاب اس کی دل خراش داستان ہے۔ طبع اوّل (اکتوبر ۱۹۹۶ئ) پر تبصرہ دیکھیے: ترجمان‘ جنوری ۱۹۹۶ئ۔ یہ دوسرا ایڈیشن ہے۔[
  • شرح شمائل ترمذی‘ اوّل‘ مولانا عبدالقیوم حقانی۔ ناشر: القاسم اکیڈمی‘ جامعہ ابوہریرہ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ۔ صفحات: ۶۴۰۔ قیمت: درج نہیں۔] شمائل ترمذیکی شرحوں پر ایک اضافہ۔ احادیث کا متن اعراب کے ساتھ مع اسناد‘ تحت اللفظ اُردو ترجمہ اور تشریحات بہ شمول: راویان حدیث کا تذکرہ۔[
  • انفاق فی سبیل اللہ‘ منیراحمدخلیلی۔ ناشر: ادارہ مطبوعات سلیمانی‘ رحمن مارکیٹ‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۲۴۸۔ قیمت:۱۶۵ روپے۔ ] ۱۸‘ ۲۰ سال قبل‘ یہ کتاب پہلی بار چھپی تھی۔ اب مؤلف نے نظرثانی کی اور متعدد اضافے کرکے‘ اسے جامع تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ ایک اخوانی رہنما عبدالبدیع السید صقر کی  نظر میں یہ ’’حقیقی علمی و نظری مباحث سے مالا مال‘‘ ہے اور ’’عام مسلمانوں کے لیے اور خاص طور پر زکوٰۃ و صدقات کے امور سے بحث و شغف رکھنے والے حضرات کے لیے بڑی مفید ثابت ہوگی‘‘۔[