اپریل ۲۰۱۳

فہرست مضامین

قیادت: اوصاف اور جدید تقاضے

محمد بشیر جمعہ | اپریل ۲۰۱۳ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

قیادت عوام کے کسی گروہ کو ایک طے شدہ سمت میں بلا جبر کام پر آمادہ کرنے کا نام ہے۔ قیادت ایک کردار بھی ہے اور لوگوں کو متاثر کرنے کا ایک طریقۂ عمل بھی۔ قائد کسی گروہ کا ایک ایسا رکن ہوتا ہے جسے کوئی عہدہ یا ذمہ داری دی جاتی ہے اور اس سے اس منصب کے شایان شان کام کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔

قیادت کا منصب

  •               قائد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا وقت کہاں خرچ ہورہا ہے اور وقت کو کس طرح  منظم طریقے سے استعمال کرناہے۔ اسے عرف عام  میں کنٹرول کہتے ہیں۔
  •               ٹھوس نتایج پر توجہ مرکوز رکھیے۔ محض کام کے بجاے نتائج پر توجہ دیجیے۔
  •               کام کے ذریعے حالات کی اصلاح اور منزل کی تلاش کیجیے۔
  •               تعمیر کمزوریوں پر نہیں، خوبیوں پر کیجیے۔
  •               اپنے مضبوط اور کمزور پہلوؤں کا جائزہ لیجیے، دوسروں کی خوبیوں کو بھی تسلیم کیجیے۔
  •              چند ایسے اہم میدانوں میں کام پر توجہ دیجیے جن میں مسلسل محنت شان دار نتائج پیدا کرسکتی ہے۔
  •              ترجیحات مقرر کرکے اور ان پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہ کرایسے میدانوں کا انتخاب کیجیے۔
  •              اللہ پر بھر پور اعتماد کیجیے، محفوظ اور سہل منزل کا انتخاب کرنے کے بجاے اپنا مقصد بلند رکھیے۔
  •              جب تک اللہ کے لیے کام کر رہے ہیں اس وقت تک کسی چیز کا خوف نہ کیجیے۔

قیادت کی خوبیاں

قیادت کی خوبیوں میں درج ذیل عناصر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے:

  •               سائنسی تحقیق کے ذریعے ثابت ہونے والے عناصر۔
  •               انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر۔
  •               پیر و کاروں کے بیانات سے سامنے آنے والے عناصر۔

سائنسی تحقیق سے ثابت ھونے والے عناصر

  •               ذہنی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔
  •              وسیع دل چسپی اورصلاحیتیں رکھتے ہیں۔
  •               با ت چیت اور گفتگو کی مہارت رکھتے ہیں۔
  •              رویے اور کردار میں پختگی اور بلوغت ہوتی ہے۔
  •              قوتِ محرکہ کے ذریعے وہ خو د بھی متحرک رہتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی متحرک رکھتے ہیں۔
  •               معاشرتی ہنرمندی ہوتی ہے، یعنی وہ معاشرے میں رہ کر معاشرے کے افراد کو بھرپور فائدہ بھی پہنچاتے ہیں اور ان افراد کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
  •              دورِ حاضر کی ضروریات کے مطابق انتظامی صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کو  وہ دنیا اور آخرت کی بہتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

انتظامی تجربات سے حاصل ہونے والے عناصر

عمومی عناصر

  •              اخلاقی پختگی ہو اور بات بات پر رنجیدہ نہ ہوجاتا ہو، صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔
  •             فکری صلاحیت ہو اور نصب العین کے تقاضوں کے پیش نظر سوچ کر آگے بڑھنے والا ہو۔
  •               انتظامی صلاحیت کا مالک ہو اور اس کو صلاحیت کے ساتھ ساتھ فن کے طور پر بھی استعمال کرتا ہو۔
  •               تمام متعلقہ افراد کے ساتھ انصاف سے پیش آتا ہواور اپنی ذات کے ساتھ بھی انصاف کرتا ہو۔
  •              مختلف امور میں دل چسپی لیتا ہو اور الگ تھلگ رہنے والا محسوس نہ ہو۔
  •              ہدایات جاری کرنے کا مزاج رکھتا ہو۔ یہ حکم کے زمرے میں تو ہو لیکن اس انداز سے پیش کرے کہ لوگ اسے اپنی ذمہ داری کے طور پر لیں۔
  •               منصوبہ بندی کا ذہن رکھتا ہو۔ہر کام کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کرے اور اس میں اپنی ٹیم کو بھرپور انداز میں شامل کرے۔ یہ منصوبہ بندی صرف ذہن تک محدود نہ ہو بلکہ اسے تحریری صورت میں لاکر ایک لائحہ عمل کے طور پر رکھے تاکہ خود بھی پابند ہواور دوسرے افراد بھی بغیر حکم کے اپنے آپ کو پابند سمجھیں۔
  •              خود اپنے اور دوسروں کے لیے احترام کے جذبات رکھتا ہو۔ اپنے ساتھیوں اور معاشرتی رابطے میں آنے والے افراد کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہو۔
  •              مطالعے کا شو قین ہو۔ دین اور دنیا کا مطالعہ کرے اوردور حاضر کے تقاضوں کے مطابق دین کے احکامات دنیا کے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے پیش کرے تاکہ عمل ممکن ہو۔
  •              قوت فیصلہ کا مالک معاملہ فہم اور فیصلے کرنے کے طریقۂ کار سے واقف ہو۔ جلد باز، رد عمل کرنے والا اور سست نہ ہو۔
  •              تربیتی ذہن رکھتا ہو اور اپنی ٹیم کو تیار رکھتا ہو۔ اس انداز سے کام کرے اور افراد کو تربیت دے اور تیار کرے کہ کل کسی وجہ سے وہ حاضر نہ ہو سکے تو اس کا کام سنبھالنے کے لیے ایک سے زائد افراد موجود ہوں۔
  •              اپنے کام اور معاملات منظم طریقے سے کرتا ہو۔
  • قابل اعتماد ہو۔لوگ اس پر بھروسا کرتے ہوں۔
  • پُر جوش اور سر گرم ہو، سست اور کاہل نہ ہو۔
  • طاقت وراور باہمت ہو۔ قوی مومن ہو اور اپنی صحت کا خیال رکھتا ہو۔
  • تحریری اور تقریری صلاحیتوں کے ساتھ اظہار کرتاہو۔
  • منطقی ذہن رکھتا ہو۔
  • زود فہم اور مستعد ہو۔
  • ذمہ دار ہو۔rبا وسائل ہو۔
  • بہتری پیدا کرنے کا مزاج رکھتا ہو اور احسان کے اصول پر عمل پیرا ہو۔
  • آگے بڑھ کر اقدام کر سکتا ہو اور محنتی ہو۔rتمام متعلقہ افراد کے ساتھ وفادار ہو۔
  • انسان دوست ہو۔

تنظیم کے متعلق عناصر

  •              تنظیم کے اغراض و مقاصد اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔
  •               تنظیم کے ڈھانچے اور رُخ سے بھی واقف ہو۔
  •               فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ہو۔
  •               تنظیم کی پالیسی، عمل اور طریق کار سے بھی واقف ہو۔
  •               کاروباری تنظیم کی مصنوعات، ان کی تیاری کا عمل اور فروخت کی صورتوں سے واقف ہو۔
  •               غیرکاروباری تنظیم کی صورت میں تنظیم کی خدمات کو مصنوعات کے طور پر لے کر اسے دورِ جدید کی techniques کے ذریعے پیش کرے۔
  •              منصوبہ بندی ، کام کے خاکے کی تیاریاں جانتا ہو اور نگرانی کے عمل سے بھی واقف ہو۔
  •               رپورٹنگ کا سلسلہ، محاسبہ اور احتساب کے طریقہ کارسے واقف اور محاسبے اور احتساب کو اپنی ذات پر حملہ یا بد اعتمادی نہ سمجھتا ہو۔
  •               دنیاوی انداز میں نفع اور خسارے کے مفہوم سے واقف ہو۔
  •              ملازمت، تجارت، فنی اور پیشہ ورانہ علم رکھتا ہو۔
  •            خدمات کا معیار برقرار رکھنے کے تقاضے جانتاہو اور ان کی نگرانی کا فن بھی جانتا ہو۔
  •               بنیادی علوم، یعنی ریا ضی، زبان اور سائنس سے واقف ہو۔
  •              موزوں قانون سازی کر سکتا ہو اور قانون کے مفاہیم اور تقاضوں سے واقف ہو۔

علوم اور مھارت سے شناسائی

ایک قائد کو ان چیزوں کے متعلق علم اور مہارت ہونا چاہیے:

  •               اپنے میدان میں پیشہ ورانہ معیارات کو برقرار رکھنے والا ہو۔
  •              ذاتی قوت اور ترقی کے تقاضوں کا خیال رکھنے والا ہو اور اس میں پیش رفت کرتا ہو۔
  •               تخلیقی فکر کا حامل اور جدید علوم و فنون سے واقف ہو۔
  •              انسانی تعلقات کے اصولوں سے واقف ہو، دورِ جدید کے سوشل نیٹ ورک کے طریق کار سے واقف اور اس سے بھرپور فائدہ  اٹھانے والا ہو۔
  •               افراد کے انتخاب، ان کے تقرر کے اصولوں سے واقف ہو، ٹیم ورک اور تفویض اُمور کے ساتھ محاسبے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  •               اپنے منصب کے مطابق کام کرنے کی مہارت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہے۔
  •              تخلیقی سوچ و بچار کے ذریعے  اپنی ٹیم کو آگے لے جانے والا ہو۔
  •              منظم انداز میں منصوبہ بندی کرنا، عمل درآمد کرنا اور تعاقب کرنے کے فن سے واقف ہو۔
  •               دوسروں کے ساتھ تعاون کرنا آتا ہو۔
  •               ضرورت کے مطابق ریکارڈ رکھنا اور حسب موقع اسے استعمال کرنا آتا ہو۔
  •               امانتوں کا خیال رکھنا اور ان کا باقاعدہ حساب رکھنا آتا ہو۔
  •               قواعد اور ضوابط نافذ کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت ہو۔
  •               حالات کار کی اصلاح کرنے کی صلاحیت ہو۔
  •               ہنگامی حالات سے نمٹنا آتا ہو۔
  •              عمدہ طریقے سے دفتر اورخانہ داری کا فن آتا ہو۔
  •               مسلسل بہتری کے لیے مطالعے اور مشاہدے کا عمل جاری رکھنے والا ہو۔
  •               عمدہ ذاتی مثال قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

قائد: کارکنوں کی نظر میں

پیر وکاروں اور کارکنان کے بیانات سے سامنے آنے والے ایک قائد کے عناصر    درج ذیل ہیں:

  •              مروت اور خاطر داری کی صلاحیت رکھتاہو، روکھا فرد نہ ہو۔
  •               غیر جانب داری کی صلاحیت کا مالک ہو، غیر جانب دار ہو بھی اور غیر جانب دار نظر بھی آئے۔
  •              ایمان داری اس کی خاصیت ہو اور ظاہر اور باطن میں ایمان دار رہنے کی کوشش کرتارہے۔
  •              اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک ہو اور اپنے ساتھیوں میں ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والا ہو۔
  •               عوام کے بارے میں علم رکھتا ہو اور باخبر ہو۔
  •               ان صلاحیتوں سے واقف ہو، جن کے ذریعے وہ تنظیم کو اپنے اختیار میں رکھ سکے اور دوسرے افراد غیر ضروری طور پر حائل نہ ہوجائیں۔
  •               جرات اور ہمت کا حامل ہو۔
  •               راست روی اس کا طرۂ امتیاز ہو، یعنی نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو،رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز۔
  •               فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہو۔
  •               پُر وقار اور بُردبار ہو۔
  •               اپنے ساتھیو ں، ٹیم کے افراد اورعوام کا مفاد پیش نظر رکھتاہو۔
  •               مدد گار اور قربانی کا جذبہ رکھتا ہو۔

کرنے کے کام

درج ذیل سوالوں کے جوابات دے کر اپنی منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کیجیے:

  •               آپ کے سامنے بعض واضح اور معین اہداف ہوں ، منزلیں ہوں اور ان کے حصول کے لیے درست لائحۂ عمل اختیا ر کریں۔ دراصل یہ چیز انسانی زندگی کے لیے اس قدر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے بڑی تفصیل کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس پر انفرادی اور اجتماعی تربیت کی ضرورت ہے۔
  •               کیا آپ  نے اپنی زندگی کا نصب العین متعین کرلیا ہے ؟
  •               کیاآپ نے اپنے نصب العین کے مقاصد اور مطالب متعین کرلیے ہیں؟
  •               کیا آپ نے ان کے مطابق منازل کا تعین کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے شیڈولنگ کرلی ہے اور وقت مقرر کرلیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اس کے محاسبے کا طریقہ متعین کرلیا ہے؟

آپ کی قوت ارادی اس قدر مضبوط ھو کہ آپ اپنے نفس کی لگام کو اپنی مرضی کے مطابق حرکت دے سکیں، اپنے معاملات کو منظّم کر سکیں:

  •               کیا آپ نے اس بات کا جائزہ لے لیا ہے کہ آپ کتنے مضبوط ارادے کے فرد ہیں؟
  •               کیا آپ کے ارادے بلبلے کی طرح بنتے اور اسی طرح ٹوٹ جاتے ہیں؟
  •               آپ نے مضبوط قوت ارادی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟

اپنی عادات کا جائزہ لیں، انسان عادات کے ذریعے بھت کچھ حاصل کرتا یا گنواتا ھے۔ وقت، مال اور صلاحیتوں کو ضائع کرنے والی خراب عادات کو ترک کر کے ان کی جگہ عمدہ عادات کو اپنی شخصیت کا حصہ بنالیں:

  •               کیا کبھی آپ نے تنہائی میں اپنی ذات سے ملاقات کرکے اپنی عادات کا جائزہ لیا ہے؟
  •               کیا اچھی اور بری عادات کو الگ الگ نوٹ کرلیا ہے؟
  •               کیا بری عادات کو ختم کرنے اور اچھی عادات کو مزید بہتر بنانے کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کی کوشش کرلی ہے؟

آپ کے اندر بھترین حافظہ موجود ھو۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے حافظے کو پروان چڑہانے کے لیے شعوری کوششیں کریں:

  •               کیا آپ نے اپنے حافظے کا جائزہ لیا ہے کہ وہ کس طرح کام کررہا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کے بہتر استعمال کے لیے کچھ مطالعہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے حافظے کی بہتری  کے لیے کو ئی تربیت حاصل کی ہے؟

دوسروں سے تعلقات و روابط رکہنے کی مھارت حاصل کریں۔ ان کے تجربات سے سیکہنے کا عمل جاری رکہیں:

  •               کیاآپ دوسروں سے اچھی طرح مل لیتے ہیں؟
  •               کیا لوگ آپ سے مل کر خوش ہوتے ہیں؟
  •               جب آپ لوگوں سے ملنے کے لیے جاتے ہیں تو کیا معاشرے کے تقاضوں کے مطابق لباس پہنتے ہیں؟
  •               کیا آپ پہلی ملاقات کے بعد ان سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ فون نمبر اور ای میل ایڈریس نوٹ کرتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے ہیں؟
  •               کیا آپ ان کے مشکل وقت میں ساتھ دینے کی کوشش کرتے ہیں؟

اعتماد ذات کی دولت اور اپنی ذات کا احترام آپ کے اندر موجود ھو۔ اس کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اور آئے دن پیش آنے والے مختلف حوادث و واقعات کے حوالے سے آپ کی سوچ مثبت ھو:

  •               کیا آپ اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہیں؟
  •               کیا لوگوں سے ملاقاتوں میں آپ ان کی عزت نفس اور مرتبے کا احترام کرتے ہیں۔
  •               کیا آپ گفتگو کے دوران متنازع معاملات میں سوچ کو مثبت رکھتے ہیں؟
  •               کبھی سخت گفتگو کے بعد آپ کو احساس ندامت ہو، تو کیا آپ معذرت اور معافی کے طریقے کو اپناتے ہیں؟

معاشرتی تعلقات کے بارے میں اتنی حساسیت ضرور ھو کہ بعض اھم معاشرتی آداب آپ کے معمولات کا حصہ بن جائیں:

  •               کیا آپ نے معاشرتی اخلاقیات کی تربیت حاصل کی ہے؟
  •               کیا آپ کی تنظیم اور ادارے نے آپ کے لیے اس قسم کی تربیت کا اہتمام کیا ہے؟
  •               کیا آپ مختلف مواقع کے معاشرتی اخلاقیات سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ اس سلسلے میں اپنا جائزہ لیتے رہتے ہیں؟
  •               اپنی ذات کے خول سے باہر، دوسروں کے جذبات کو سمجھنے کی اہلیت رکھیں، ان کے ساتھ محبت سے پیش آئیں، اپنے معاشرے اور اپنی اُمت کے مسائل میں شریک ہوں۔
  •               کیاآپ تنہائی پسند ہیں تو کیا آپ نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس گھٹن سے کیسے باہر نکلا جائے؟
  •               کیا آپ نے اپنے قابل اعتماد دوستوں سے اس سلسلے میں کبھی مشورہ کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے اپنے دوستوں کا کوئی گروپ بنایا ہے جس میں بیٹھ کر آپ اپنے آپ کومتحر ک کرسکیں؟

اپنے نفس کو بعض ایسے زریں آداب سے آراستہ کر لیں جو آپ کو زندگی کے چیلنجوں سے نبردآزما ھونے اور مستقبل کی اُمیدوں کو بَر لانے میں معاونت دے سکیں:

  •               کیا آپ اپنی زندگی کے چیلنجوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ دور حاضر کے تقاضوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کن مسائل سے دوچار ہے؟
  •               کیا آپ جانتے ہیں کہ ملت کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کیا حکمت عملی استعمال ہورہی ہے؟
  •               اس سلسلے میں کیا آپ اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں سے واقف ہیں؟

معاش اور روزگار کے لیے ایسے مواقع کی تلاش کے لیے کوشاں رھیں جو آپ کو زیادہ ترقی اور زیادہ آمدنی فراھم کر سکیں:

  •               کیا آپ روزگار کے معاملے میں خود کفیل ہیں؟
  •               رزق حلال کی ضرورت کے مطابق فراہمی کے لیے آپ نے کچھ کوشش کی ہے؟
  •               کیا آپ نے حالات اور ضرورت کے مطابق پس اندازی کی ہوئی ہے؟
  •               کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ دنیا کمانے کے لیے سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں اور آخرت کے معاملات کو بھول گئے ہیں؟
  •               کیا آپ نے قناعت کے معانی اور مفہوم کو سمجھ لیا ہے؟

اپنے اندر بعض ایسے بلند تر اخلاقی اوصاف اور مھارتیں پیدا کرنے کی کوشش کریں جن کی بدولت آپ مشکلات میں سے اپنے لیے راہ نکالنا سیکہیں۔ نئی نئی منصوبہ بندیوں کا نفاذ کرسکیں اور ناکامی کی صورت میں ناکامی کو اپنے اُوپر طاری کرنے کے بجاے عزم اور حوصلے سے اس کا مقابلہ کرسکیں:

  •               کیا آپ ان اوصاف اور مہارتوں سے واقف ہیں؟
  •               کیا آپ راہ کی مشکلات کا اندازہ کرسکتے ہیں؟
  •               کیا آپ نے کبھی ان ممکنہ مشکلات کو تحریر کیا ہے؟
  •               کیا آپ نے مشکلات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے کو ئی منصوبہ بندی کی ہے؟

روحانی، عقلی اور جسمانی صحت کا خاص خیال رکہیں، ان کی حفاظت کے اصولوں پر عمل پیرا رھیں تاکہ زندگی کی نعمتوں سے صحیح انداز میں لطف اندوز ھو سکیں:

  •               کیا آپ اللہ تعالیٰ کی دو اہم نعمتوں، یعنی صحت اور فرصت اوقات کی قدر کرتے ہیں؟
  •               اپنی جسمانی صحت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟
  •               کیا آپ نے ان عادتوں کو ترک کردیا ہے، جو آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں؟

اس بات کا خیال رکھیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من الستوٰی یوماہ فھومغبون ’’وہ شخص تباہ ہوگیا جس کے دو دن کارکردگی کے لحاظ سے ایک جیسے رہے‘‘۔ اس حدیث پر عمل کا تقاضا یہ ہے کہ ہمار ا آج گذشتہ کل سے بہتر ہو، اور ہمارا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اس پر عمل کے لیے رات کو سونے سے پہلے احتساب کی، اور صبح کام شروع کرنے سے پہلے منصوبہ بندی، ترجیحات اور ترتیب کی ضرورت ہے۔

اے اللہ! توہمارے آج کے دن کے پہلے حصے کو ہمارے کاموں کی درستی ، درمیانی حصے کو بہبودی، اور آخری حصے کو کامرانی بنادے۔ آمین!

تیز ترک گام زن منزل ما دور نیست

(اس مضمون کی تیاری میں ذاتی مطالعے کے نوٹس اور مغربی مصنفین کی کتابوں کے علاوہ درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے: کامیابی کا سفر ، مصنف،ڈاکٹر ابراہیم بن حمدالعقید ترجمہ ،خدیجہ ترابی، ناشر مکتبہ خواتین میگزین، لاہور۔ رہنمائے تربیت، ہشام الطالب، ترجمہ شاہ محی الحق فاروقی، ناشر ادارہ فکر اسلامی، اسلام آباد)