اپریل ۲۰۱۳

فہرست مضامین

اقبال کا تصورِ فقر

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی | اپریل ۲۰۱۳ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

فقر کے ظاہری اورلغوی معنی توافلاس،محتاجی ،تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگرعلامہ اقبال  اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظرکرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں،یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کاتعلق ہے،اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِامت کوکامیابی اورسربلندی کی معراج تک پہنچاسکتاہے۔حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں   کہ  ع

کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی

(بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲)

فقرکایہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کی حیات طیبہ سے اخذکیاہے۔

نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کانمونہ اورفقرکی عملی تفسیرہے۔متعددروایات میں بتایاگیاہے کہ اِدھراُدھرسے جو تحائف،ہدایا، مال ومنال اورزروجواہرآتا،آپؐاسے فی الفور  تقسیم کردیتے۔اپنے لیے یاگھروالوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہرلاکرآپ کے قدموں میںڈھیرکردیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔آپؐنے اس پیش کش کو پرکاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسولؐ سے ہٹ کرسمجھناممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقرایسی ’متاعِ مصطفی ؐ ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو  وراثت میں عطا ہوئی ہے اورآپ نے اُمت کو اس کاامانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا    ؎

فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفیؐ ست

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

چوں کہ رسول اللہؐ کوحجازسے نسبت تھی،اس لیے علامہ متاع فقرکو’’حجازی فقر‘‘کہتے ہیں :     ؎

ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی

(ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰)

یہاںبھی اشارہ رسولؐ اللہکی طرف ہے جن کا طریق فقرآج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کاذکراس طرح کرتے ہیں:     ؎

اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی

یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی

مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری

(ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱)

علامہ اقبال نے ’؎فقرغیور‘کی ترکیب’غیراسلامی فقر‘کے متضادکے طورپراستعمال کی ہے۔  فقرغیور اور غیراسلامی فقردوایسے مختلف اور متضادرویے ہیںجومتوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میںنہیںملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘میں دونوں اصنافِ فقرکاباہمی موازنہ کیاگیاہے۔ایک فقر،  کم ہمتی،بزدلی اورپسپائی سکھاتاہے۔ دوسری نوعیت کافقر امامت وامارت کاراستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیرؓسے جوڑتاہے:     ؎

اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری

اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری

اِک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری

(بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲)

سیدنذیرنیازی کے نام۲۱؍اکتوبر۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِغیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳)ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کوعین اسلام قراردیاہے۔ان کے نزدیک اسلام اورفقرِغیورپورے دین پرمحیط ہے:      ؎

لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور

(ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳)

علامہ اقبال نے فارسی اوراردوشاعری میں قلندر،مردقلندر،درویش ،بندۂ درویش اورمردِکامل جیسے الفاظ وتراکیب کوفقرغیورکے معنوں میں اورفقیرکے متبادل اورمترادف کے طورپراستعمال کیاہے۔ایک جگہ کہتے ہیں:      ؎

قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا

(بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸)

گویاتوحید، مردِقلندرکاسرمایۂ حیات ہے اور یہی فقرکی کلید ہے۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتاہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی‘پیداہوجاتی ہے۔حضرت علی ہجویری نے اس کی تائیداس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسواتمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کانام فقرہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعیدؒکاقول نقل کیا ہے کہ اصل فقیروہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔(ایضاً،ص۸۷)یعنی اللہ اسے کافی ہواور   وہ خودکو اللہ کے سواکسی کا’’بندہ‘‘نہ سمجھے،نہ وہ کسی سے ڈرے،نہ کسی سے دبے اور’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘کے مصداق ،نہ وہ کسی کے سامنے سرجھکائے ۔

ڈاکٹرسیدعبداللہ لکھتے ہیں:[فقر]ایک روحانی کیفیت،ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برترمقاصدزندگی کومادی لذائذ اورقریبی ترغیبات پرترجیح حاصل ہوتی ہے۔فقرفردکے اندرایک خاص قسم کاوقار،ایک خاص قسم کامیلانِ بے نیازی پیداکرتاہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت،مادی طرزِ فکر، حُبّ ِدنیا،ہوسِ جاہ ومنصب اورآل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اورساراکرّوفربے حقیقت معلوم ہوتاہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتااوراسی پربھروسا کرتاہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اورشاہوںسے بھی بلندوبرتراوراُونچاہوتاہے،بشرطیکہ اس کی فقیری میں  اسوۂ رسولؐ اللہ اور اسوۂ صحابہؓ کے آثار پائے جاتے ہوں۔فرماتے ہیں:    ؎

دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی

(بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹)

؎ نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

                (ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰)

؎ فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ

                (ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹)

ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی

(ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷)

حضرت علی ہجویریؒ کے نزدیک فقرکی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ،بلکہ دل کو دنیاکی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف  المحجوب،ص ۸۴)

علامہ اقبال کے تصورِفقر کوترک دنیا،سکوںپرستی،خانقاہیت یاگوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتاہے اورزندگی کا ارتقا،کش مکش اورحرکت وجدوجہدہی سے ممکن ہے۔راہب جس سکوں پرستی کاقائل ہے،وہ تحرک اورفعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیمکی نظر’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہاہے:    ؎

کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی

سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی

(ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲)

اقبال گوشہ گیری کے اسی حدتک قائل ہیں،جس حد تک اسوہ ٔرسولؐ اجازت دیتاہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اوریہ خلوت نشینی بھی ذکرالٰہی، فکرِآخرت، ضبطِ نفس،خوداحتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام   خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنت ِنبویؐمیں اعتکاف کرنا،نہ صرف کارِثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اورصفاے قلب کے لیے ایک سازگارماحول بھی فراہم کرتاہے۔

علامہ اقبال جن اخلاق واوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں،ان میںصبروشکر،تسلیم ورضااور  حلم وانکسار بھی شامل ہیںمگر اس تسلیم ورضا کے معانی،بے کسی ،ناتوانی یاضعف کے نہیںہیں۔   فقر تحرک و جرأت کانمونہ ہوتاہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتاہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اوربے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔اقبال کے تصورِفقر میں اس کی گنجایش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے۔چوںکہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے،اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کاخوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں:    ؎

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

(بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶)

وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکاربندہوتاہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ فقراورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری،بوے اسداللّٰہی،سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔تاریخ وروایات میں حیدر،شبیراورتیمورغیرمعمولی جرأت اورعزم وہمت کی علامتیںہیں۔اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتاہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیمکی نظم’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کااظہار ہے۔

فرماتے ہیں:    ؎

فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم

اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم

                (ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲)

بے باکی وبے تابی اوراظہارجرأت وقوت فقرکی پہچان ہے۔یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کاپاسبان اورمحافظ ہے:  ع 

زندہ حق از قوتِ شبیری است

(اسرارورموز،ص۱۱۰)

کسی معرکے میںاگراسے وقتی طورپرپسپابھی ہونا پڑے ،تب بھی وہ ذہنی طورپرشکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کااقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتاہے۔

مردِ فقیرفلاح انسانیت کاعلمبردار ہے۔وہ فطرت پر بھی غالب آسکتاہے اورتسخیرجہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں:     ؎

فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند
بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند

(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)

؎ فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات

(ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸)

اقبال کے تصورفقرکا،قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقراپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثرکرداراداکرسکتاہے۔دنیا کی قیادت اور امامت فقیرکی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افرادفقرکی صفت کو اپنائیں۔امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی،اور  حقیقی اسلامی فقرکو ترک کردیا تو زوال واِدباراورپستی ونکبت کا شکارہوگئی۔ علامہ فرماتے ہیں:    ؎

یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی

(ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳)

؎  نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ

(بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵)

؎ اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز

(ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸)

علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میںپہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیاہے۔ اقبال کا شاہین کارزارِحیات میں چندمخصوص امتیازات رکھتاہے۔فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میںاسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خودداراورغیرت مندہے کہ اورکے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲)بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلندپروازہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیزنگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴)

گویاشاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجودہیںجوفقیرکی زندگی کالازمی جزوہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاںیوں محسوس ہوتاہے جیسے انھوںنے فقر کی تجسیم آںحضوؐرکی ذات مبارک میں کی ہے۔اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت شبیرؓ اورحضرت خالدؓبن ولیدکوبھی ایسے مردان ِقلندرمیں شمار کرتے ہیں جن کاوجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتاہے:     ؎

آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او
شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او

بر نیفتد ملتے اندر نبرد
تا درو باقیست یک درویشِ مرد

(پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷)

اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘اور’مردفقیر‘قراردیتے ہیں۔فقر کو وہ اپنے لیے باعث ِعزت وفخر سمجھتے ہیں۔وہ فقرکوشاعری سے بھی برترقراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولت ِفقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں:     ؎

خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟

(بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰)

؎ مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر

(ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹)

؎ مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی

(ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸)

علامہ کا دعواے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں،انھوںنے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتاہے۔مزاجاًوہ درویش تھے۔مولانا غلام رسول مہرطویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میںحاضررہے۔سفروحضرمیں بھی ساتھ رہا۔وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔   یہ ان کے کلام میں بار بار نظرآتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو’فقیر ‘اور’دریش ‘ اور’قلندر‘کہہ کرپکارتے تھے تو یہ کوئی شاعر انہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کااظہارتھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری ، قلندری، توکل اور خداکے سواہرشے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دورمیں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲)

حیات اقبال کے بعض واقعات،ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کاپانچ سوروپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا تھا۔ اس کے محرک سرراس مسعود تھے۔ سرراس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوںاورسرآغاخاں کی طر ف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہوجائیں۔ان کی درخواست پر آغاخان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کرلی مگر خوداقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیںکیا۔ ۱۱؍دسمبر۱۹۳۵ء کو راس مسعودکے نام ایک خط میںلکھا:’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقررفرمائی ہے ،وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔بہترین مسلمانوں نے سادہ اوردرویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرناروپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵)

اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطامحمد،علامہ کوسیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر۱۹۳۰ء میں انھوں نے جایدادمیں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویزبھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰)

اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباددکن سے سراکبرحیدری کا بھیجاہواایک ہزارروپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ (ارمغانِ حجازاردو،ص۴۸؍۶۹۰)علامہ کا  یہ مصرع خودانھی پر صادق آتاہے:  ع

فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد

(پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳)

اقبال کا تصورِفقراُردوشاعری میں ایک نیااور منفرد تصورہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یاترک ِدنیا سے اس کا علاقہ نہیںبلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقرکامتحرک اور برسرِعمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتاہے اورمثبت اوراخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت منداورپاکیزہ بنانے میں معاونت کرتاہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہ ِاستغنااس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندرنیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔

علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیاہے کہ نہ صرف فردکے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت منداور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقرکا رویہ اورقلندرانہ طرزِ عمل اپناناضروری ہے۔

کتابیات

۱-            اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء

۲-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء

۳-            اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ)۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء

۴-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۵-            اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء

۶-            اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء

۷-            حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء

۸-            سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء

۹-            علی ہجویری،شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء

۱۰-         مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء