اپریل ۲۰۲۳

فہرست مضامین

منفرد اسلامی دانشور، مالک بن نبی

سیّد سیف الدین | اپریل ۲۰۲۳ | سوانح

Responsive image Responsive image

 ما لک بن نبی ۱۳۲۳ھ/۱۹۰۵ء میں مشرقی الجزائر کے شہر قسنطینہ میں پیدا ہوئے اور  ۴شوال۱۳۹۳ھ/۳۱؍اکتوبر۱۹۷۳ء کو اپنے آبائی وطن الجزائر میں وفات ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم [۴۵-۱۹۳۹ء]کے بعد الجزائر کے بااثر علما، مفکرین، ادیبوں اور سماجی فلسفیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مالک بن نبی تاریخ، فلسفہ اور سماجیات کے میدان میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے پیرس سے انجینئرنگ کی بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی تحریریں مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں ۔ ان کی ایک کتاب الظاھرۃ القرآنیہ  (Phenomene Coranique) ۱۹۴۰ء کے عشرے میں بہت زیادہ مقبول ہوئی اور فرانسیسی تعلیم یافتہ طبقے میں اس کا بہت زیادہ چرچا رہا۔ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۰ء کے درمیان الجزائر یونی ورسٹی سے وابستہ رہے۔

مالک بن نبی کی دلچسپی کا بنیادی مرکز و محور ’’اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب اور ان کا حل‘‘ ہے ۔اپنی تحریروں میں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کس طرح انسان کی انفرادی زندگی اور سماجی تنظیم میں اثر انداز ہوتا ہے۔ مالک بن نبی، ابن خلدون[۱۳۳۲ء-۱۴۰۶ء]  اور آرنلڈ ٹائن بی [۱۸۸۹ء-۱۹۷۵ء] سے متاثر تھے ۔انھوں نے تاریخ، سماجیات اور نظریۂ تہذیب کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اپنی تحریروں میں وہ خصوصاً اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمان ایک لمبی مدت تک دنیا میں نمایاں مقام رکھتے تھے، لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے زوال اور شکستہ ذہنیت کے ساتھ جینا شروع کر دیا۔ ان کے نزدیک اس شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبب اسلام نہیں بلکہ خود مسلمان ہیں ۔انھوں نے اپنے بیان کردہ تہذیبی نظریہ میں مسلمانوں سے وابستہ اس قسم کے مسائل اور دشواریوں کی وجوہ اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسلم قوم کیوں زوال پذیر ہوئی؟ تہذیبی نظریہ کیا ہے؟ اور عصرحاضر میں مسلم دنیا کے جدید مسائل سے نپٹنے کے لیے کیا حل ہو سکتے ہیں؟ اسی نوعیت کے کچھ سوالات کا مالک بن نبی نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

استعمار اور استعماریت

مالک بن نبی کا زیادہ تر کام نظریۂ تہذیب پر ہے۔ انھوں نے اس کو دو مستقل نظریوں میں تقسیم کیا ہے: پہلا نوآبادیاتی ہونا یا نوآبادیات کے قابل ہونا (Colonisibility)، اور دوسرا خود نوآبادیت (Colonialism) ہے۔ انھوں نے ان دونوں تصورات کو اُمت مسلمہ کے زوال کی وجوہ کے تناظر میں پیش کیا ہے۔

پہلی قسم نوآبادیات کی ہے اور یہ اُن داخلی عوامل پر مشتمل ہے ، جومسلم دنیا سے پیدا ہوتے ہیں۔ دوسری قسم استعماریت ہے،یہ اندرونی عوامل پر منتج ہونے والے وہ خارجی عوامل ہیں، جنھیں  مسلم دنیا پر مسلط کیا گیا۔ اندرونی عوامل میں اخلاقیات، معاشرت، تعلیم، معیشت اور سیاست شامل ہیں،جب کہ خارجی عوامل انحراف، ذلت اور تباہی پر مشتمل ہیں۔

مالک بن نبی بیان کرتے ہیں کہ مسلم دنیا نے نئی زندگی کی شرائط کے ساتھ جینے کا ارادہ کیا اور بغیر کسی جانچ پرکھ اور تنقیدی جائزے کے مغربی اقدار اور ان کی سماجی زندگی کو اپنانے کی کوشش کی۔ مغربی اقدار اور غیر مناسب طرزِ زندگی، دونوں نے مسلمانوں میں اخلاقی اور سماجی دیوالیہ پن پیدا کیا، کیوں کہ یہ خود اہل مغرب کے اپنے معاشرے کے لیے موزوں نہیں تھا، چہ جائیکہ مسلمان قوم کے لیے مناسب ہوتا، جو اُن سے یکسر مختلف تھے۔ اس اخلاقی تنزلی نے امت مسلمہ کی فکری صلاحیت کو مفلوج کر دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم قوم فکر و عمل میں ناکام ہوتی چلی گئی اور یوں پسپا ہوتے ہوتے اس مقام پر پہنچ گئی، جہاں اقدار کے بجائے ظاہری تشخص اور رکھ رکھاؤ پہ زور دیا جانے لگا، تاکہ لوگوں کی نظر میں تو کچھ اچھی تصویر بنی رہے خواہ اندرونی حالت کیسی بھی ہو۔

مالک بن نبی نے الجزائر میں تعلیمی انحطاط ، معاشی تباہی اور سماجی زندگی میں احساسِ کمتری کی صورت حال کی نشاندہی ان تین جملوں میں کی تھی:l ہم کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم بے علم ہیں lہم اس بات کا ادراک نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم غریب ہیں lہم یہ کام نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم پر غیرمسلط ہیں۔

انھوں نے شدت سے محسوس کیا کہ ’’تعلیم کو معاشرتی طور پر مؤثر ہونا چاہیے اور لوگوں کو ناخواندگی کے بارے میں بتایا جانا چاہیے کہ یہ کمزوری معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے‘‘۔ انھوں نے مزید پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر پڑھا لکھا آدمی بے کار ہے تو یہ ناخواندگی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ پھر یہ کہ غربت کے ساتھ جہالت اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’دولت و ثروت با ہمی تعاون کو فروغ دینے کا ذریعہ ہونی چاہیے۔اصل ذمہ داری یہ نہیں کہ انسان پیسہ اکٹھا کرنے میں جُتا رہے اور امیر بن جائے،بلکہ اس دولت کا جائز اُمور میں استعمال ،افراد اور قوم کے فائدے کے لیے خرچ کرنا ہی حقیقی ذمہ داری ہے‘‘۔

اسی طرح ایک اور اندرونی مسئلہ جس کا مالک بن نبی نے خاص طور سے ذکر کیا، وہ ہے مسلم دُنیا کی سیاست۔ اس ضمن میں جس سیاسی طریق کا ر کو مالک بن نبی نے مناسب نہیں سمجھا، وہ صرف استعمار کی مذمت کرتے رہنا ہے۔اس کے بجائے وہ لوگوں میں ایسی بیداری لانے پر   زور دیتے ہیں کہ ’’قول کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے کیونکہ باطنی قوت ظاہری رکھ رکھائو سے زیادہ ضروری ہے‘‘۔ چنانچہ انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے: ’’مسلم قوم نے بدقسمتی سے اپنی حالت کو استعمار کے شکنجے سے نکالنے کے لیے بامعنی سطح پر فکر و عمل کے ایک متحرک اور فعال وجود میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی‘‘۔

 استعمار کے خارجی عوامل کے حوالے سےمالک بن نبی، استعماری فلسفے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’استعمار جب بھی کسی ملک میں داخل ہوتا ہے ، فی الحقیقت اسے تباہ کردیتا ہے۔ اُن معاشروں کے محترم لوگوں کو ذلیل کر دیتا ہے اور ان کی یہ حالت کر دیتا ہے کہ ان میں اُمید کی کوئی رمق باقی نہ رہے ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حالت اور عمل کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ مغرب کی رفتار سست پڑ جائے یا ان کی حالت ایسی ہوجائے کہ اس میں کوئی جان باقی نہ رہے۔ حالانکہ مغرب نے تو یہاں دھاوا اس لیے بولا تھا کہ مسلمانوں کو  ان کے ماضی، حال اور مستقبل سے کاٹ کر رکھ دیں‘‘۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’استعماریت ایک طریق کار ہے، جس کا مقصد ایسا نظام قائم کرنا ہے، جس کے ذریعے ملک کے تمام اخلاقی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار کو تباہ کیا جا سکے‘‘۔ چنانچہ مالک بن نبی کے نزدیک ’’مسلم دنیا کے زوال کی بنیادی وجہ مسلم دنیا کا استعماریت کے لیے نوالۂ تر بن جانا ہے، اور بنیادی طور پر اس کی وجہ خود وہ مسلمان ہیں ،جنھوں نے فکری، سیاسی، تعلیمی اور معاشی میدانوں میں اپنی بے عملی کے ذریعے مغرب کی استعماری پالیسی کو قوت بخشی‘‘۔

تہذیب اور مذہب

مالک بن نبی لکھتے ہیں: ’’ہر تہذیب کی ابتدا کسی مذہب سے ہوتی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی عمل کا آغاز ہوتا ہے، گویا کہ تمام انسانی تبدیلیوں کے سرے پر مذہب ہے۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ تمام تہذیبوں نے مذہب ہی کی آغوش میں انسان، مٹی اور وقت کو جوڑ کر ایک متنوع مرکب بنایا ہے ۔ تہذیب اپنے وسیع معنوں میں مذہب کے بغیر شروع نہیں ہوتی‘‘۔ لہٰذا مالک بن نبی کے مطابق ’’کسی بھی تہذیب میں ہمیں ان مذہبی بنیادوں کو تلاش کرنا ہوگا، جنھوں نے اس خاص تہذیب کو پروان چڑھنے میں مدد کی‘‘۔

’’تاہم، مذہب سماجی حقیقت کی تشکیل اور ترقی میں اس وقت تک اپنا سماجی کردار ادا نہیں کرسکتا، جب تک کہ وہ صرف اپنی مابعد الطبیعیاتی اقدار اور تعلیمات پر ہی قائم رہے۔ ایسا اس صورت میں ہوگا، جب نگاہ دُنیاوی معاملات سے بالاتر ہوگی اور ہم سب کچھ مادی دنیا سے پرے دیکھیں گے، اور اس مادی دُنیا میں اپنی ذمہ داریوں اور کردار کی ادائیگی سے انکار کریں گے‘‘۔مالک بن نبی کے نزدیک ’’مذہب سے مراد تمام مذاہب، نیم مذاہب اور نظریات ہیں‘‘۔ وہ ایک وسیع تر پس منظر میں کہتے ہیں کہ ’’مذہب ہروہ چیز ہے جو انسان کو آسمانی قوت اور سماجی فطرت سے جوڑتی ہے۔ ہر وہ نظریہ ان کے نزدیک مذہب میں شمار ہوتا ہے جو کسی بھی طرح معاشرے کے افراد کے مابین ایک ربط پیدا کرتا ہے اور ان کی زندگی کی ایک نئی سمت متعین کرتا ہے ‘‘۔

مالک بن نبی کہتے ہیں:’’قرآن کی روشنی میں، مذہب ایک کائناتی مظہر کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، جو انسان کی فکر اور تہذیب کی تنظیم و ترتیب کا کام کرتا ہے جس طرح کشش ثقل (Gravity)مادے کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے ارتقا کے مدارج کا تعیین کرتا ہے۔ اسی طرح مذہب، کائنات کا ایک جزمعلوم ہوتا ہے جو روح اور جسم دونوں کا اصل قانون ہے ‘‘۔

بقول مالک بن نبی: ’’مذہب ان نظر یات کا منبع ہے جسے تہذیب اپناتی ہے۔ مذہب انسانی نفسیات کی محض روحانی اور ذہنی سرگرمی نہیں ہے، بلکہ یہ نوع انسان کے بنیادی مزاج اور کائناتی ترتیب دونوں کا ایک حصہ ہے، جو کائنات کی ساخت میں بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو محض چند اخلاقی اقدار میں محدود نہیں کیا جا سکتا، اور اسی طرح اسے انسان کی سماجی و ثقافتی ترقی کے ابتدائی مراحل میں بھی محصور نہیں کیا جا سکتا‘‘۔

تہذیب کے اہم عناصر

تہذیب کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے بعد مالک بن نبی تہذیب کو پرکھنے کا ایک منفرد معیار پیش کرتے ہیں: ’’تہذیب تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے: انسان ، زمین اور وقت‘‘۔ اور آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:’’نظریۂ تہذیب میں انسانوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ انسان ایک سماجی شناخت اور ایک فطری شناخت (جسمانی خصوصیات) رکھتا ہے۔فکری اور نفسیاتی خصوصیات سے پیدا ہونے والی سماجی شناخت تو ماحولیاتی اور تاریخی عوامل کے گرد بھی گھومتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سماجی شناخت جگہ اور وقت کے مطابق بدلتی رہتی ہے ‘‘۔

مالک بن نبی کے نزدیک: ’’یہ عناصر جو تاریخی تحریکوں کا سبب بنتے ہیں ، نظریات، افراد اور اشیا کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔لہٰذا اگر کوئی معاشرہ بگڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی تعمیر مذکورہ تین عناصر پر نہیں ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دو عناصر، افراد اور اشیا پر کام کرتا ہے مگر نظریات کو نظر انداز کردیتا ہے تو وہ فکرو عمل کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ گذشتہ تین صدیوں کے دوران مسلمانوں کی بے فکری اور بے عملی ہی مسلم دنیا کے زوال کا باعث بنی، کیونکہ ان کی تمام سماجی شکلیں جامد اور بے جان ہو چکی تھیں‘‘۔

جب مالک بن نبی مٹی اور سر زمین کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے وہ فطری خصوصیات کے بجائے اس کی سماجی اہمیت مراد لیتے ہیں۔اسی طرح وقت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اسے ایک سماجی نقطے کے طور پر دیکھتے ہیں ، ایسا سماجی محور یا نقطہ جو بذات خود ایک سماجی قدر ہے، جو اندرہی اندر سرگرم اور فعال خیالات کو متحرک کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’وقت کا صحیح استعمال کرنے میں مسلم دنیا مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ اسی طرح پختہ اور معنی خیز افکار و خیالات کو پروان چڑھانے میں بھی کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکی۔جب کوئی ان تین چیزوں: انسان،زمین اور وقت پر حکمرانی کرتا ہے تو وہ ہرچیز کو مرکزومحور بناتا ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے نہایت ضروری ہے کہ وہ تاریخ پر نظر رکھے اور سائنس و ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ فکر و خیال اور فنون لطیفہ کے میدان میں بھی آگے بڑھے اور رفتہ رفتہ اپنے ان اصولوں اور اقدار کو بھی پیش کرے، جن سے اس قوم کی شناخت وابستہ ہے‘‘۔

مالک بن نبی کے افکار کو مزید گہرائی سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب کے سماجی کردار کو بنیادی طور پر ایک ایسی فعال اور متحرک شئے مانتے ہیں، جو اقدار کی منتقلی کی حمایت کرتی ہے، اور وہ اقدار جو تہذیب کے مختلف مراحل سے گزر کر اس کی فطری ہیئت سے ایک نفسیاتی حالت میں لے جاتی ہیں۔مذہب سب سے پہلے گوشت پوست سے بنے انسانی وجود کو ایک سماجی عنصر میں بدلتا ہے، پھر یہ ماہ و سال کی سادہ رفتار کو سماجی وقت میں بدل دیتا ہے،جس کی پیمائش اب گھنٹہ اور منٹ کے بجائے عمل اور جد و جہد میں کی جاتی ہےاور آخر میں مذہب عام مٹی کو جو بغیر کسی غرض اور شرط کے زیر استعمال ہوتی ہے، مکمل طور پرتکنیکی اعتبار سے ایک ایسی ہموار زمین میں تبدیل کر دیتا ہے، جو سماجی تبدیلی کی متعدد ضروریات کی تکمیل کر سکے۔اس طرح مذہب کو سماجی اقدار کے تغیرپذیر مادہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘‘۔

دوسرے لفظوں میں مالک بن نبی کے مطابق مذہب تین تبدیلیاں کرتا ہے :

  • سماجی تعلقات کے روابط کو متحد کرتا ہے
  • مشترکہ سرگرمی کو متحرک اور قابل عمل بناتا ہے
  • معاشرے میں افراد کے نفسیاتی رویوں کو تبدیل کرتا ہے۔

یہ بات مالک بن نبی کے نظریے میں صاف نظر آتی ہے کہ مذہب، سماج کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ وہ ایسی سرگرمی انجام دے جو مشترکہ ہو۔ افراد کے سلوک اور رویہ میں ایسی تبدیلی لائے جس کے بعد وہ ایک خاص مقصد کے حصول میں کوشاں رہیں۔افراد اور معاشرے کی نفسیاتی تبدیلی کسی بھی سماجی تبدیلی کے لیے اولین شرط ہے اور یہ تبدیلی تین عناصر یعنی انسان، زمین اور وقت سے مل کر بنے ہوئے کسی بھی معاشرے کی تاریخی اور طبعی ساخت کے لیے لازمی ہے۔بلا کسی استثناء کے تاریخ میں تمام تہذیبیں مذہبی نظریات کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔

مالک بن نبی تہذیبی تصور کا خلاصہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ’’یہ اخلاقی اور مادی اشیا کا مجموعہ ہے، جو معاشرے کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے تمام افراد کے لیے وہ تمام سہولیات مہیا کرسکے، جو ان کی ترقی کے لیے معاون ہوں۔لہٰذا، اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو ایک کمیونٹی کے لیے ضروری ہیں جیسے فکری، روحانی اور ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور تکنیکی ضرورتیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ تہذیب کا تصور کہیں نہ کہیں ثقافت سےمربوط ہوتا ہے، اور ہر معاشرہ اپنے طور پر اسے نظریات اور تصور کی دنیا سے جوڑتا ہے، جس کی بدولت معاشرہ آگے بڑھتا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ تہذیب، ثقافتی تبدیلیوں اور سماجی اصولوں کے ساتھ آتی ہے اور پھر یہ ایک ایسی طاقت بن جاتی ہے، جو معاشرے کی سمت اور رُخ طے کرتی ہے۔مذہب، تہذیب کا ایک اہم جزہے، جس کی وجہ سے معاشرے کا اخلاقی نظام وجود میں آتا ہے،اور جب اس اخلاقی نظام میں کوئی کمی آتی ہے تو اقدار میں بھی زوال آتا ہے اور پھر ہر طرف مسائل اور پریشانیاں ہی مسلط ہوجاتی ہیں۔

تہذیب کے مراحل

مالک بن نبی نے تہذیب کے مراحل کی درجہ بندی کرتے ہوئے انھی مراحل کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے: lروحانی lعقلی lفطری۔

مالک بن نبی نے روحانی مرحلے کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس مرحلے میں مسلمانوں نے مذہب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، یہاں تک کہ مسلم معاشرے کا ذہن، رویہ اور ان کی پوری زندگی مذہبی اور روحانی ہو گئی۔ یہ مذہب ہی تھا جس نےایک محرک کا کردار ادا کیا اور اقدار کو تبدیل کر دیا ۔ مذہب کی روح ہی انسانیت کو عروج و ترقی اور تہذیب کی تشکیل کا موقع دیتی ہے۔ پھر جب مذہب کی روح ختم ہو جاتی ہے تو تہذیب کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ عقلی مرحلہ ہے۔ مالک بن نبی کے مطابق اس مرحلے میں معاشرہ ہرمیدان میں اپنے عروج کی انتہا پر تھا ۔ تاہم، اس مرحلے میں مذہب کے اثر و رسوخ میں کچھ کمی نظر آئی۔ تیسرا اور آخری فطری مرحلہ ہے ، اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ اس مرحلے میں معاشرے نے اپنا ایمان کھو دیا اور تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گیا اور مسلم دنیا میں اخلاقی اور سیاسی زوال کا آغاز ہوا۔

روحانی مرحلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر معرکۂ صفین پر ختم ہوا اور یہاں سے عقلی مرحلے کا آغاز ہوا۔ یہ مرحلہ ابن خلدون اور موحد خاندان کے خاتمے تک جاری رہا اور یہیں سے فطری مرحلہ کے طور پر مسلم دنیا میں نقطۂ زوال کا آغاز ہوا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ مذہب تہذیب کا ایک بڑا عنصر ہے، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تمام سماجی تبدیلیوں کے لیے مذہبی اصلاح ضروری ہے۔ مالک بن نبی کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی اسلامی روح اور جدید دور کے تقاضوں کو یکجا کرنے سے ممکن ہوگی۔ وہ کہتے ہیں: ’’تہذیب و ثقافت ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پُل کی مانند ہے اور یہ تہذیب کی تعمیر کے لیے ایک کارآمد ایجنٹ کے طور پر جسمانی اور روحانی اقدار کو اگلی نسل تک منتقل کرنے میں مدد کرتی ہے ۔ تہذیب کو اخلاقی نظام، جمالیاتی احساس، عملی منطق اور تکنیک کے ساتھ ایک متحرک خیال کے طور پر دیکھتے ہوئے حاصل کرنا ممکن ہے‘‘۔

مالک بن نبی کہتے ہیں: ’’مسلم دنیا کو بہت محتاط انداز میں اپنے معیار کو سامنے رکھ کر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے متعلق صرف پڑھنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ایک زندہ معاشرہ کے طور پر تجربہ و تحقیق کا کام کیا جائے‘‘۔ سیاست کا مقصد بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:’’سیاست کرنا تاریخ کے نفسیاتی اور مادی حالات کو تیار کرنا ، اور انسان کو تاریخ بنانے کے لیے تیار کرنا ہے‘‘۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لوگوں کو اپنے فرائض اور حقوق دونوں کو پہچاننے، الفاظ اور نعروں کی رو میں بہنے کے بجائے طریقے اور تکنیک کو بنانے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔

مالک بن نبی، مسلمانوں کو اخلاقی، سماجی، نفسیاتی اور سیاسی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ بحیثیت اسکالر انھوں نے تہذیب و ثقافت کو انسانی ترقی، نئے خیالات پیدا کرنے اور ایک متحرک معاشرے کی تشکیل کے اہم عوامل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ان کے نزدیک سیاسی، معاشی، ثقافتی، سماجی اور نظریاتی آزادی ہی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک ربط قائم کر سکتی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔