اگست ۲۰۰۴

فہرست مضامین

داعی کی زندگی: چار بنیادی تقاضے

حسن الطوخی | اگست ۲۰۰۴ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ترجمہ: گل زادہ شیرپائو

اُمت مسلمہ اس وقت جس ضعف اور وھن کا سامنا کر رہی ہے اس کو ہم سب دیکھ رہے ہیں اور اس کے بارے میں ایک دوسرے سے سنتے رہتے ہیں۔ پھر کیا ہم اس شرمناک   صورت حال کے آگے سرتسلیم خم کر کے آرام سے بیٹھ جائیں؟ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْط(الرعد ۱۳:۱۱)

حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی۔

سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں: ’’یہ دین انسانی زندگی کے لیے ایک خدائی دستور ہے۔ یہ انسانی زندگی میں مکمل طور پر اس وقت نافذ ہوگا جب انسانیت اس کے نفاذ کے لیے اپنی وسعت اور صلاحیتوں کے مطابق جدوجہد کرے گی‘‘۔ (ھذا الدین‘ سید قطب شہیدؒ)

اس لیے ضروری ہے کہ اپنے طرزِعمل کو درست کیا جائے اور طویل المیعاد حکمت عملی کے ذریعے اس غفلت سے نکلنے کی کوئی راہ تلاش کی جائے۔ چنانچہ داعی کا فرض ہے کہ‘ بقول استاذ مصطفی مشہورؒ: وہ کام‘ کام اور کام ہی کو اپنا نصب العین بنائے اور کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی فکر کرے۔ (من فقہ الدعوۃ‘ استاد مصطفی مشہورؒ)

داعی کی زندگی میں ذمہ داری کے کئی پہلو ہیں:

تعمیر ذات

داعی جب اچھے اعمال میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے‘ خواہ ان اعمال کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے‘ اخلاق سے ہو یا عام عادات سے‘ یہ جنت کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جو اس دوڑ میں اپنی کوششیں صرف نہیں کرتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لا اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الحدید۵۷:۲۱) ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان و زمین جیسی ہے‘‘۔

داعی کا درست ہو جانا‘ دعوت کی کامیابی کا سربستہ راز ہے۔ ڈاکٹر فتحی یکن کہتے ہیں: مثالی قائد کی شخصیت میں کسی قسم کا فتور نہیں ہوتا۔ اس کے لیے تو ضروری ہے کہ اس کا ظاہر و باطن اور قول و فعل ایک جیسے ہوں۔ اس طرح نہیں ہونا چاہیے کہ آدمی دوسروں کو اچھے اخلاق کی دعوت دے اور خود اس کے اخلاق بُرے ہوں یا لوگوں کو جہاد کی دعوت دے اور خود مجاہد نہ ہو‘‘۔ (الاستعیاب فی حیاۃ الداعیۃ‘ فتحی یکن)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: آدمی مومن نہیں ہو سکتا‘ جب تک اس کا دل اس کی زبان کے موافق نہ ہو‘ اور زبان‘ دل کے موافق نہ ہو۔ اس کا فعل اس کے قول کے خلاف نہ ہو اور اس کے پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔ (اصفہانی)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o (الشمس ۹۱: ۹-۱۰)’’یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا‘‘۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی کہتے ہیں: ’’ہم چاہتے ہیں کہ داعی پہلے جہالت‘ خواہشِ نفسانی اور اس کے غلبے اور فساد پر فتح حاصل کر لے اور اُن ہتھیاروں سے لیس ہو جائے جو اس حملے سے بچائو کے لیے ضروری ہیں‘‘۔

۱-  ایمان: ان ہتھیاروں میں بلاشک و شبہہ‘ سب سے پہلا ہتھیار ایمان ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو باقی سارے اسلحے بے کار ہیں۔ ایمان صرف ایک خواہش کا نام نہیں ہے۔ ایمان وہ ہے جو دل میں جگہ بنا لے اور عمل اس کی تصدیق کرے۔

۲-  اخلاق: ایمان کے لوازمات میں سے ہے‘کامل ترین مسلمان وہ ہے جو اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھا ہو۔

۳-  علم و فہمِ دین: اخلاقی اور روحانی تیاری کے پہلو بہ پہلو یہ داعی کی فکری تیاری ہے۔ دعوت نام ہی عطا اور انفاق کا ہے لیکن اگر کسی کے پاس خود علم اور فہم دین نہ ہو تو وہ کسی اور کو کیا دے گا۔ ’’جس کے پاس کوئی چیز نہ ہو وہ کیا دے سکتا ہے‘‘۔ (ثقافۃ الداعیۃ‘ ڈاکٹر یوسف قرضاوی)

ڈاکٹر سید نوح کہتے ہیں: تبدیلی کے معاون عوامل یہ ہیں:

۱- گناہ سے بچنا اور توبہ ۲- اللہ تعالیٰ سے مدد ۳- دائمی ذکر ۴- نفس کا محاسبہ ۵- اجر کی امید ۶- زندگی کے کم ہونے اور موت کے قریب ہونے کی یاد ۷- جدوجہد کرنے والوں کا ساتھ دینا ۸- اوقات کو غنیمت سمجھتے ہوئے ان سے استفادہ ۹- قابلِ عمل منصوبہ بندی۔ (آفات علی الطریق‘ ج ۳‘ ڈاکٹرسید نوح)

تبدیلی میں رکاوٹ بننے والے عوامل یہ ہیں:

۱- جلد بازی ۲- بے فائدہ گپ شپ ۳- سہل پسند لوگوں کا ساتھ دینا ۴- مباحات کی کثرت ۵- دنیا کی طرف مائل ہونا ۶- خواہشات کی تابع داری۔ (ایضاً)

حقیقی داعی اپنے نفس میں تبدیلی لا سکتا ہے‘ اس کو حق کی طرف متوجہ کر سکتا ہے‘ اس کو بھلائی پسند کرنے والا اور برائی سے نفرت کرنے والا بنا سکتا ہے اور اسے اندھیروں سے روشنی کی طرف لا سکتا ہے۔

اُمت مسلمہ کو جس داعی کی ضرورت ہے اس کی تعریف ڈاکٹر احمد حسن زیات کے الفاظ میں یہ ہے کہ: داعی حق جب کسی بستی میں داخل ہوتا ہے تو اس کے آنے سے وہاں کی زمین چمک اٹھتی ہے اور اس کے باشندے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ وہ اس کی طرف لپکتے ہیں اور اس کے قریب رہنے میں ان کو اللہ تعالیٰ کا قرب نظرآتا ہے۔ اس کے ساتھ مصافحہ ان کے لیے عہدوفا ہے اور اس کے اشارئہ آبرو کو وہ حکم کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ اس کی دعوت کرنا اپنے لیے ایسی برکت سمجھتے ہیں جس کا سلسلہ دیر تک جاری رہے۔ اس کی خاموشی میں بھی سبق ہوتا ہے اور اس کا سکون بھی اثر کرتا ہے۔ لوگ سر جھکا کر اس کے ارد گرد بیٹھے اس کی باتوں میں مستغرق رہتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دلوں کو دنیا کی خواہشات سے خالی کر لیا ہوتا ہے اور ان کے سینے شیطانی وسوسوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ (مجلۃ الرسالہ‘ شمارہ ۸)

مسلم خاندان کی تعمیر

اصلاح نفس کے بعد داعی کا نصب العین ایک مسلم خاندان کی تعمیر ہوتا ہے۔ گھر معاشرے کی اہم ترین اکائی ہے۔ بچپن کا آغاز اسی کے گود میں ہوتا ہے۔ شفقت و محبت کے رشتے اور امداد باہمی کے سوتے یہاں سے پھوٹتے ہیں۔ آدمی ان رشتوں سے اصول و اقدار اخذ کرتا ہے اور یہاں اس کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ اسی طرح گھر ہی ہے جو فرد کی فکری و عملی کج روی کو درست کرتا ہے۔ اس لیے گھر کی درستی ہر چیز سے زیادہ ضروری ہے اور خاندان کا بگاڑ و فساد اسلامی معاشرے کے لیے ہر قسم کی خرابی سے زیادہ خطرناک ہے۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطب شہیدؒ)

چنانچہ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ گھریلو زندگی کا استحکام انتہائی ضروری ہے کیونکہ گھر ہی میں ان افراد کی تیاری و تربیت ہوتی ہے جو متوازن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں‘ اپنی ذمہ داریوں سے اچھے طریقے سے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔ وہ کارزار حیات میں مردانہ وار اترتے ہیں اور دین اسلام کی فتح کا جھنڈا اٹھاتے ہیں۔

امام حسن البنائؒ فرماتے ہیں: ’’اسلام نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ خاندان‘ معاشرے کی بنیاد ہے۔ درست زندگی‘ جو روحانی اور علمی تعاون پر مشتمل ہے‘ کی بنیادی اکائی خاندان ہی ہے۔ اسلام ایسے ہی خاندان کا خوگر ہے اور اس کی تعمیر کی ترغیب دیتا ہے‘‘۔ (حدیث الثلاثائ‘ امام حسن البنائؒ)

خاندان کے بارے میں داعی کا فرض یہ ہے کہ اس کو اسلامی سانچے میں ڈھالے۔ اس طرح گھر کی شکل و صورت اور اس کی ضروریات‘ جیسے گھریلو سامان‘ کھانے پینے کے آداب‘ استیذان‘ باہمی گھریلو تعلقات اور پڑوسیوں اور ارد گرد کے ماحول کے ساتھ تعامل‘ اس سانچے کے مطابق ہوں گے جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔

ایک اسلامی معاشرے کا ایک خاندان پر یہ حق ہے اور اہلِ خاندان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک مسلمان نسل کو وجود میں لائے جو اِن صفات کی حامل ہو:

۱-  اللہ تعالیٰ کے بارے میں‘ کائنات کے بارے میں‘ زندگی کے بارے میں اور خود انسان کے بارے میں درست عقیدہ۔

۲-  اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ کی عبادت۔

۳- عدل‘ احسان‘ امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد۔

۴-  اُس تنظیم اور اصول و اقدار کے مطابق لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنا‘ جن کو اسلامی شریعت مقرر کرتی ہے۔

۵-  ایک خاندان کے افراد میں‘ مختلف خاندانوں کے درمیان اور پھر مختلف معاشروں کے درمیان تعلقات میں ’’اپنی ذمہ داری ادا کرو اور حقوق کے لیے کوشش کرو‘‘ کے اصول کو اپنانا۔ (تربیۃ الناشئی المسلم‘ علی عبدالحلیم)

اسلامی معاشرے کا قیام

استاد علی عبدالحلیم فرماتے ہیں: ’’وہ معاشرہ جس کا قیام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدائی طریق کار کے مطابق عمل میں لائے تھے‘تقریباً آدھی صدی کے عرصے میں نصف کرئہ ارض پر اپنے اصول و اقدار کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ان اصولوں کے ضمن میں عقائد‘ عبادات‘ معاملات‘ عدل و احسان‘ امربالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کے پیغام کو عام کیا گیا۔ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا بلکہ ایک صحیح معاشرے کے قیام کے لیے اسلامی طریق کار پر عمل کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ ممکن ہوا‘‘۔ (ایضاً)

ڈاکٹر محمد امین مصری کہتے ہیں: ’’یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ ہم اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اس کے پیغام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں‘‘۔ (سبیل الدعوۃ الاسلامیہ‘ ڈاکٹرمحمد امین المصری)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

سید قطب شہیدؒ فرماتے ہیں:’’آیت کا یہ ٹکڑا اُمت مسلمہ کے کندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری کا بوجھ ڈالتا ہے۔ اس سے اسلامی جماعت کو ایک عظمت اور بلنددرجہ عطا ہوتا ہے لیکن یہ عظمت اُمت کو تب حاصل ہوگی جب وہ سچے ایمان کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے گی‘‘۔ (فی ظلال القرآن‘ سید قطبؒ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ تمھارے ہاتھوں‘ ایک آدمی کو بھی ہدایت سے نوازے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے‘‘۔ (بخاری)

اس طریق کار پر عمل کرتے ہوئے داعی کو چاہیے کہ وہ چند اسالیب کا خیال رکھے جو ہدف تک پہنچنے میں اس کے معاون بنتے ہیں۔ ڈاکٹر عبداللہ ناصح علوان کہتے ہیں: ’’داعی کے لیے ضروری ہے کہ:

۱-  ترجیحات قائم کرے‘ دعوت کا آغاز عقیدے سے کرے۔ پھر عبادات کی دعوت دے اور پھر نظامِ زندگی اُن کے سامنے رکھے۔ جزئیات سے پہلے کلیات کی دعوت دے اور سیاست کی گہرائیوں میں اترنے سے پہلے انفرادی اصلاح کی طرف توجہ دلائے۔

۲-  مشکلات پر صبر کرے‘ اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپؐ کو دعوت کی راہ میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ نہ اس سے پہلے کسی داعی نے دیکھی تھیں اور نہ بعد میں وہ کسی داعی کو پیش آئیں‘ اس کے باوجود آپؐ نے کوئی پروا نہیں کی۔ آپؐ نے داعیوں کے لیے صبروتحمل اور استقامت میں ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَo وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَo (العنکبوت۲۹:۲-۳) ’’کیالوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ہم ایمان لائے‘‘اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ حالاں کہ ہم اُن سب لوگوں کی آزمایش کر چکے ہیں جو اِن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون‘‘۔

۳- گردوپیش کا مطالعہ: داعی جس ماحول میں دعوت کا بیڑا اٹھاتا ہے‘ اس کا خوب مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ گمراہی کے مراکز اور کج روی کے اڈوں کو جانتا ہے اور پھر وہ اسلوب اختیار کرتا ہے‘ جو لوگوں کے ذہن اور اُن کی استعداد کے مطابق ہو اور اُن کی عقل و فکر کو اپیل کرے۔ داعی کو یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اس دعوت کا ردعمل کیا ہوگا اور اس کے لیے خود بھی تیار رہتا ہے۔

اسلامی تحریک میں فرد کی ذمہ داری

داعی کی زندگی میں ذمہ داری کے پہلوئوں میں سے چوتھا پہلو یہ ہے کہ اسلامی تحریک میں فرد کی کیا ذمہ داری ہے؟

ڈاکٹر محمد امین مصری کہتے ہیں: ’’اسلام میں تربیت سے مراد ’احساس ذمہ داری‘ پیدا کرنا ہے۔ قائد کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے جس کی وجہ سے اس کے ساتھ محبت کی جاتی ہے‘ اس کا احترام کیا جاتا ہے اور معروف میں اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسلام نے امیر کی اطاعت اور اس کے احترام کے ساتھ مثبت تنقید اور نتائج و عواقب میں شراکت کی بھی تلقین کی ہے‘‘۔ (سبیل الدعوۃ الاسلامیہ)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کی اسی طرح تربیت کرتے تھے کہ ایک طرف وہ قیادت کی مکمل طور پر اطاعت کرتے تھے اور دوسری طرف حق بات کہنے اور ہر جگہ اس کا کھلم کھلا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔

اسلامی تحریک ایسے قائدین تیار کرنا چاہتی ہے۔ وہ ایسے نہیں ہوتے کہ ہر پکارنے والے کے پیچھے چلیں اور ہمارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس حوالے سے بھی نمونہ ہے۔ چنانچہ آپؐ نے غزوئہ بدر میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ لیا اور اپنی رائے کے بجاے اُن کی رائے پر عمل کیا۔ اسی طرح غزوئہ احد میں آپؐ نوجوانوں کی رائے پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینے سے باہر نکلے اور غزوئہ خندق میں آپؐ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورے سے خندق کی کھدائی کا حکم دیا۔

اس تربیت سے ہر آدمی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ وہ دعوت اور اس کے مقاصد کے بارے میں جواب دہ ہے‘ اگرچہ وہ اکیلا ہو۔ اور اس ذمہ داری کے ضمن میں دعوت کے اندر ہر فرد پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ حسبِ ذیل امور کی پابندی کرے‘ جن کو مصطفی مشہور نے بیان کیا ہے:

۱-  دعوت ‘ فرد سے جن پابندیوں کا مطالبہ کرتی ہے اور جن چیزوں کو اس کے لیے اہم قرار دیتی ہے‘ ان کے ذریعے اپنی حیثیت کے مطابق دعوت کا احاطہ کرے اور اپنی زندگی کے تمام پہلوئوں کو دعوت کی بہتری کے تابع بنائے۔

۲-  اپنی دعوت کی روح کا صحیح اور جامع فہم حاصل کرے۔

۳-  اس طریق کار کی پابندی کرے‘ جس کو دعوت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مقرر کرتی ہے۔

۴- اپنی دعوت کے ان اہداف کا محافظ بنے جن کے لیے دعوت کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

۵- اپنی دعوت کے لیے اخلاص اور گہرا تعلق اور باقی تمام تعلقات سے دست برداری۔

۶- قیادت کی طرف سے ملنے والے جائز احکام کو عملی جامہ پہنانا‘ تنگ دستی و مال داری اور سختی و آسانی دونوں حالتوں میں اس پر عمل کرنا۔

۷-  کارکن اور قائد کے درمیان مضبوط اعتماد کا تعلق۔

۸-  فرقہ وارانہ طرزِعمل اور شخصی و علاقائی‘ ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر رہنا۔

۹-  جماعت کے اندر میدانِ عمل میں مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب اور اس بات سے گریز کہ اپنے ساتھیوں اور قیادت کو ایسے شخصی اختلافات میں پھنسائے جو دعوت کے کام اور اس کے نتائج پر اثرانداز ہوں۔

اُمت مسلمہ کی تعمیر پر اس دین کی اشاعت کا انحصار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس تعمیرو تاسیس میں تدریج سے کام لیا جائے اور اس کی بنیادیں مضبوطی سے گاڑ دی جائیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ رکوع اور سجدہ کرو‘ اپنے رب کی بندگی کرو‘ اور نیک کام کرو‘ اِسی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے اور دین میں  تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجائو اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملّت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام’مسلم‘ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارایہی نام ہے)۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ پس نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو‘ اور اللہ سے   وابستہ ہو جائو۔ وہ ہے تمھارا مولیٰ‘ بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ (الحج ۲۲: ۷۷- ۷۸)

(ماخوذ:  المجتمع‘ شمارہ ۱۵۹۸‘ ۲۴ اپریل ۲۰۰۴ئ)