اگست ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | اگست ۲۰۱۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنھیں روزے سے سواے پیاسا رہنے کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے قیام کرنے والے    وہ ہیں جنھیں اپنے قیام سے سواے بیدار رہنے کے کچھ نہیں ملتا۔ (دارمی)

رمضان المبارک اور اس کے روزوں اور اس میں قیام کا مقصد تقویٰ ہے۔ روزہ تو ایک ذریعہ ہے، مقصد تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا، فرائض ادا کرنا اور منکرات سے پرہیز کرنا ہے۔ روزے دار صحیح معنی میں اسی وقت روزے دار شمار ہوتا ہے جب رمضان المبارک کے مہینے میں بھی متقی ہو اور بعد میں بھی متقی رہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ رمضان المبارک کے مہینے میں روزے نہیں رکھتے اور نمازیں بھی نہیں پڑھتے۔ ایسے وہ لوگ تو رمضان المبارک کی رحمتوں سے مکمل طور پر محروم رہتے ہیں۔ کچھ وہ ہیں جو صرف رسمی روزہ رکھتے اور رسمی نمازیں پڑھتے ہیں، مقصد کو پیش نظر نہیں رکھتے اور دوسرے حرام کام بھی بلادھڑک کرتے ہیں۔ فرائض کی بھی قطعاً پرواہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگ بھی روزہ رکھنے کے باوجود روزے کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ ان کا روزہ سواے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں اور راتوں کو ان کی تراویح اور نفلی نمازیں بھی بے کار اور بے اثر ہیں۔ رمضان کے روزے تقاضا کرتے ہیں کہ آدمی رمضان المبارک اور رمضان المبارک کے بعد اسلام کے تمام احکام پر عمل کرے، زندگی کو کھیل کود نہ سمجھے بلکہ آخرت کے لیے کمائی کا ذریعہ سمجھے اور آخرت کی کمائی میں دن رات مصروفِ عمل رہے اور سستی کو قریب نہ آنے دے۔ اپنی کمر کو شیطان سے مقابلے کے لیے کَس لے۔ رمضان المبارک اپنی رحمتیں نچھاور کرتا ہوا آیا اور رخصت ہوگیا۔ نفل کا ثواب فرض اور فرض کا ثواب ۷۰فرض کے برابر، اور لیلۃ القدر جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ جس نے دامن بھرنا ہو بھرلے۔ خوش قسمت ہیں جنھوں نے اپنی جھولیاں رحمتوں سے بھرلیںاور بدنصیب ہیں وہ جنھیں رحمتوں کی موسلادھار بارش میں بھی صرف پانی کی چند بوندیں ملیں اور ان سے بھی بڑھ کر بدنصیب وہ ہیں جنھیں اس بارانِ رحمت سے ایک بوند بھی نہ مل سکی۔ آیئے اپنا جائزہ لیں کہ ہم کن لوگوں میں شامل ہیں؟ ہم تقویٰ کی راہ اختیار کرکے متقی لوگوں کی معیت اختیارکرکے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرنے والوں اور مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے والوں میں شامل ہوکر سعادت مندوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں۔


حضرت عمربن الخطابؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس کتاب کے ذریعے کچھ لوگوں کو اُونچا کرتا ہے اور کچھ کو اِس کتاب کے ذریعے پست کرتا ہے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک اعلیٰ درجے کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ کے افضل نبی ؐ پر نازل ہوئی۔ اس کتاب پر ایمان، اس پر عمل، اس کی طرف دعوت، اس کے نظام کو قائم اور نافذ کرنے کے لیے جدوجہد بہت عظیم اور  اعلیٰ درجے کا کام ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ کام کریںگے، اللہ تعالیٰ ان کو رفعت اور عظمت عطا فرمائیں گے، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور جو اس کتاب اور اس کے نظام کی مخالفت کریںگے اللہ انھیں نیچا کرے گا، انھیں ذلت اور پستی سے دوچار کرے گا۔ آج مسلمان اس کتاب اور اس کے نظام سے محرومی کے سبب ذلت و پستی سے دوچار ہیں۔ وہ قرآن کے راستے پر چل کر دنیا میں عزت اور آخرت میں اجر پاسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس کتاب سے وابستگی اور اس کی سربلندی کے لیے جہاد کی سعادت بخشے۔


حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورئہ بقرہ پڑھی جائے۔ (مسلم)

قرآنِ پاک کی تلاوت سے گھر آباد ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہوتا ہے، ایمان تازہ اور عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ گھر برائیوں سے پاک و صاف ہوجاتا ہے۔ ایسے گھر والوں کے خلاف شیطان میں چالیں چلنے کی سکت نہیں رہتی۔ وہ اس گھر کی طرف رُخ کرنے کی ہمت نہیں پاتا بلکہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ اس لیے ہدایت ہے کہ مسجد میں نمازیں پڑھو تو کچھ حصہ گھر کے لیے بھی رکھ لیا کرو تاکہ گھرآباد رہیں۔ گھروں کا آباد رہنا اور شیطان کے شر سے حفاظت کتنا بڑا فائدہ ہے۔


حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو۔ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور سب سے افضل عبادت مصیبت سے چھٹکارے کا انتظار ہے۔ (ترمذی)

مصیبت انسانوں پر آتی رہتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، وہ راحت دے کر بھی آزماتا ہے اور تکلیف سے دوچار کرکے بھی آزماتا ہے۔ مصیبت آجائے تو انسان اللہ سے لو لگائے، اس کے در کا سوالی بن جائے، اس کی یاد میں لگ جائے، اس سے دعائیں کرے، صبروشکر کا پیکر بن جائے، شکووں اور شکایتوں سے پرہیز کرے۔ اللہ کے فیصلے پر راضی رہے اور دعائوں کی قبولیت کا انتظار کرے۔ انبیاے علیہم السلام پر آزمایشیں سب سے زیادہ آئیں اور انھوں نے سب لوگوں سے بڑھ کر صبر کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے صبر کا عظیم نمونہ پیش کیا۔ آج اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے دنیا کے مختلف خطوں میں ہولناک مظالم سے دوچار ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسے لوگوں کو حوصلہ اور درس دیتا ہے، اُمید دلاتا ہے کہ مصیبت اور آزمایش کی گھڑیاں سدا نہیں رہتیں، ختم ہوجایا کرتی ہیں۔ جب مصیبتیں انتہا کو پہنچ جاتی ہیں اور اہلِ ایمان مسلسل اذیتوں سے بے قرار ہوکر تڑپ اُٹھتے ہیں تو پھر اللہ کی مدد آجاتی ہے، تکلیفیں دُور ہوجاتی ہیں اور اہلِ ایمان ہشاش بشاش اور سرخرو ہوجاتے ہیں۔ آزمایشوں اور ابتلا کا یہ دور بھی ختم ہوجائے گا۔ اہلِ ایمان کو چاہیے کہ وہ اس حدیث کو پیش نظر رکھیں اور اس میں دی گئی ہدایت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ اور دل کا سرور بنائیں۔ استقامت سے دین کی سربلندی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں، اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرتے رہیں کہ یہ اسے پسند ہے۔ ان شاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔


حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جس دن آپؐ کے صاحبزادے ابراہیم فوت ہوئے اس دن سورج گرہن ہوا تو آپؐ  نے صلوٰۃ الکسوف پڑھی۔ دورکعت میں آپؐ  نے ہر رکعت میں اتنا طویل قیام کیا کہ ہر رکعت میں تین رکوع کیے (دو مرتبہ رکوع کی شکل میں قیام تھا اور ایک رکوع تھا جیسے ہرنماز میں ایک رکعت میں ایک رکوع ہوتا ہے۔ خشوع اور خضوع کا ایسا غلبہ ہواکہ آپ قرأت کرتے کرتے جھک گئے اور ایسا دو مرتبہ ہوا)۔ دورکعتوں میں ہررکعت میں دو سجدے کیے۔ اسی طرح دونوں رکعتوں میں چارسجدے ہوگئے۔

آپؐ  نے اس وقت فرمایا: آخرت کی جن چیزوں سے تمھیں ڈرایا گیا ہے میں نے انھیں اس نماز میں دیکھا۔ آگ بھی اُس وقت سامنے لائی گئی جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں پیچھے ہٹ گیا، اس وجہ سے کہ کہیں آگ کی لپٹ مجھ تک نہ پہنچ جائے۔ میں نے دوزخ میں کنڈے والے کو بھی دیکھا، وہ اپنی آنتیں دوزخ میں کھینچتے ہوئے جارہا تھا۔ یہ اپنے کنڈے سے حاجیوں کا سامان چوری کرتا تھا۔ اگر حاجی کو پتا لگ جاتا کہ میرا سامان چوری کر رہا ہے تو کہہ دیتا کہ میرے کنڈے کے ساتھ اتفاقاً اٹک گیا تھا۔ میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اسے لے جائوں۔ اور اگر حاجی کو پتا نہ چلتا تو اسے لے جاتا۔ میں نے بلی والی عورت کو بھی دیکھا جس نے اسے باندھ رکھا تھا۔ نہ اسے کھلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ کیڑے مکوڑے کھا کر زندہ رہے، یہاں تک کہ بلی مرگئی۔پھر جب تم نے مجھے دیکھا کہ میں آگے بڑھا ہوں تو یہ اس وقت ہوا جب میرے سامنے جنت کو لایا گیا۔ میں نے اپنا ہاتھ بڑھانے کا ارادہ کیا کہ اس کا پھل توڑوں تاکہ تم بھی اسے دیکھ سکو۔ پھر میرا ارادہ بدل گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسا نہ کروں۔(مسلم)

سورج گرہن آج کل بھی ہوتا ہے لیکن صلوٰۃ الکسوف کی سنت معطل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی نشان دیکھتے تھے تو نماز کی پناہ لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے سامنے نماز کے ذریعے سربسجود ہوتے اوراللہ تعالیٰ کی ہر شان سے متاثر ہوکر خشوع و خضوع کرتے۔ صلوٰۃ الکسوف تو آپؐ نے سورج گرہن کی وجہ سے شروع کی تھی لیکن نماز میں مزید آیات (نشانیاں) پردئہ غیب سے ظاہر ہوئیں۔ ان کو آپؐ نے تو دیکھا لیکن آپؐ  کی اقتدا میں نماز پڑھنے والوں نے نہ دیکھا۔ اس وجہ سے آپؐ پر خشوع و خضوع کی مزید کیفیات بھی طاری ہوئیں اور آپؐ سے قیام میں جھکائو اور نماز میں پیچھے ہٹنے اور آگے بڑھنے کی کیفیات کا بھی ظہور ہوا ۔ ہماری نمازوں میں خشوع و خضوع کی بہت زیادہ کمی آگئی ہے اور شب و روز میں اور خاص مواقع کی سنتوں میں بھی کمی واقع ہوگئی ہے۔ دعوت و تبلیغ کے کارکنوں کو چاہیے کہ ان سنتوں کو خود بھی ان کے حق کے ساتھ ادا کریں اور مسلمانوں میں بھی ان کو رواج دیں۔ لہوولعب اور گانے بجانے اور لغو کاموں کو نئی شکلوں میں رواج دیا جا رہا ہے۔ عید کے دنوں میں لوگ رمضان المبارک اور اس کی عبادات کو یک سر بھول جاتے ہیں اور بیہودہ پروگراموں اور مجالس میں وقت گزارتے ہیں۔ بدعات کو رواج دینے والے بیدار اور فعال ہیں لیکن سنتوں کو قائم کرنے والے غفلت کی نیند سورہے ہیں۔


حضرت عبداللہ بن ابی ربیعۃؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ۴۰ہزار کا قرض لیا ۔ اس کے بعد جب آپؐ کے پاس مال آیا تو آپؐ نے مجھے قرض کی ادایگی فرما دی اور ساتھ ہی دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے مال اور اہل و عیال میں برکت دے۔ قرض کا بدلہ شکرگزاری اور ادایگی ہے۔(النسائی)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرض اپنے ذاتی اخراجات کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کی ضروریات کے لیے لیا، اس کی ادایگی مسلمانوں کے مال سے کی۔ اسلامی حکومت عوام کی ضروریات کے لیے قرض لے سکتی ہے لیکن یہ قرض بلاسود ہونا چاہیے۔ جتنا قرض لے اتنا ہی واپس کرے۔ حکومتی اخراجات اتنے نہ ہوں کہ ان کے لیے قرض لیے جائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکاری خدمت گاروں کے لیے قرض لے کر ادایگیاں نہیں کیں۔ آج مسلمان حکومتوں کے اخراجات مسرفانہ ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لیے سودی قرضے لیتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ جب بجٹ بنائیں تو وہ غیرسودی ہو اور بجٹ کو پورا کرنے کے لیے بین الاقوامی اداروں، آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے سودی قرضے نہ لیں۔ اپنے آپ کو خود ہی ظلم کے حوالے نہ کریں۔ آج کل کی حکومتیں ان اداروں سے سودی قرض بھی لیتی ہیں۔ پھر ان کی ہدایات پر بجٹ بناتی ہیں۔ یہ ادارے سودی قرضوں کے سود کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگواتے ہیں، جس کے نتیجے میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے اور پبلک ظلم کی چکی تلے پستی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک شکرگزاری کے مستحق نہیں۔ شکرگزاری کے مستحق تو وہ ادارے ہوسکتے ہیں جو غیرسودی قرضے دیں۔ آج کی حکومتوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے۔ وہ اس نمونے کی پیروی کر کے اپنی معیشت کو بہتر اور عوام کو مہنگائی کے عذاب سے بچاسکتی ہیں۔


 

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو روکا اللہ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے کو روکا اللہ اس سے اپنے عذاب کو روکے گا اور جس نے اللہ سے معافی مانگی اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمائیں گے۔ (بیہقی شعب الایمان)

دنیا میں عزت ہر انسان کو مطلوب ہے، زبان کو روکنا، اس کا بلاضرورت استعمال نہ کرنا عزت کا سامان ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلی بات کہو یا خاموش رہو۔ بے جا غصے کو روکنا دنیوی اور اُخروی فوائد حاصل کرنے کا وسیلہ ہے۔ خلقِ خدا کو اپنے شر سے بچانے اور اس کے شر سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ رہنے کی ضمانت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے عفو اور مغفرت کا سوال دن رات کا وظیفہ ہونا چاہیے۔