اگست ۲۰۱۳

فہرست مضامین

تیونس: اسلام اور جمہوریت کے تعامل کا تجربہ

راشد الغنوشی | اگست ۲۰۱۳ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

تیونس میں جمہوریت کی طرف کامیابی سے منتقلی نہ صرف تیونس کے لیے بلکہ تمام خطے کے لیے اہم ہے کیونکہ یہ خطے میں پہلا ملک ہوگا جو جمہوری بھی ہوگا اور مسلم بھی۔ یہی وجہ ہے کہ     ہم تیونس میں اس ذمہ داری کے بوجھ کو محسوس کرتے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ ہمارا انقلاب برآمد کرنے کے لیے نہیں ہے لیکن ہمیں اُمید ہے کہ ایک کامیاب مثال (ماڈل) پورے خطے پر اثرانداز ہوگی۔

انتخابات سے قبل کے زمانے میں، ہم نے اعلان کیا تھا کہ ہم سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے حکومت کرنا پسند کریں گے۔ ہم آزاد ارکان اسمبلی کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرسکتے تھے لیکن ہم نے ایک ایسی اتحادی حکومت بنانے کو ترجیح دی جسے سیاسی تناظر میں وسیع پیمانے پر تائید حاصل ہو۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عبوری دور میں سادہ اکثریت کی حامل حکومت ناکافی ہے، بلکہ ہمیں وسیع تر اتحادی حکومت کی ضرورت ہے جو یہ پیغام دے سکے کہ ملک سب کے لیے ہے نہ کہ محض اکثریت کے لیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معتدل اسلام پسند اور معتدل لادین عناصر مل کر  کام کرسکتے ہیں، اور کرنا چاہیے، اور انھیں سیاسی تناظر میں مفاہمت کے لیے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہم نے اپنی حد تک بہت کوشش کی ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر تقسیم سے اجتناب کیا جائے کیونکہ یہ انتشار اور ناکامی کا نسخہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے نہ صرف حکومت کی تشکیل بلکہ آئین سازی میں بھی بہت سی رعایتوں کو ملحوظ رکھا ہے۔ ہم اسلام پسندوں اور لادین عناصر کے بقاے باہمی کی ضرورت پر Troika (سہ رکنی کونسل) اور کانگرس براے ری پبلک اینڈ ڈیموکریٹک فورم براے ورک اینڈ لبرٹیز (Attakatol) کے فریم ورک میں یقین رکھتے ہیں۔ ان میں درج ذیل وجوہات شامل ہیں:

اوّل: اسلام اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔ جمہوریت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حکومت بالخصوص لادین عناصر کی ہو، جب کہ اسلام پسندوں کو ریاست کا دشمن تصور کیا جائے جنھیں نظربند کردیا جائے یا جلاوطن۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ لادین عناصر کو اقتدار سے محروم اور آئین سازی میں ان کے اختیار کو محدود کردیا جائے کیونکہ انھوں نے انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کی۔

دوم: اسلام پسندوں کا اقتدار میں آنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حکومت، معاشرے اور انقلاب میں غالب ہوں گے کیونکہ وہ سب سے زیادہ مقبول پارٹی ہیں جیساکہ ماضی کے  دورِاستبداد میں روا رکھا جاتا تھا۔ ریاست کا کردار عوام پر ایک مخصوص طرزِ زندگی مسلط کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا کردار عوام کو تحفظ فراہم کرنا اور ان کی ضروریات کی تکمیل ہے اور پھر ان کو اپنی پسند کے مطابق طرزِزندگی اختیار کرنے کی آزادی دی جائے۔

سوم: لادین عناصر اور اسلام پسندوں کے درمیان تصادم، جوکہ عشروں سے جاری ہے، بہت سی توانائیوں کے ضیاع کا باعث اور آمروں کے ہمارے ملکوں پر مسلط ہونے میں مددگار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام پسندوں اور سیکولر عناصر کے درمیان اتحاد ایک آزاد جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہے جو اپنے اختلافات کو سنجیدہ اور مخلصانہ مکالمے کے ذریعے حل کرسکے۔

دستور کا مسئلہ

آئین ایک اہم دستاویز ہے جو حکومت اور انتظامیہ کی حدود کا تعین کرتی ہے اور انھیں پابند کرتی ہے کہ قانون کی پابندی کریں۔ ہمارے پاس اسلامی تاریخ میں الصحیفہ [میثاقِ مدینہ] کے عنوان سے ایک مثال ہے جو رسولِؐ خدا کے ہاتھوں قائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کی تشکیل کے وقت سامنے آئی۔ اس آئین نے ایک ہمہ جہتی ریاست کو تشکیل دیا جو مختلف قومیتوں اور مذاہب کو قریب لانے کا باعث بنا اور شہریت کی بنیاد حقوق اور فرائض پر رکھی۔

یہ بات ہمارے لیے باعث ِ مسرت ہے کہ گذشتہ دنوں تیونس میں آئینی اسمبلی کی کمیٹیوں نے دستور کے حتمی مسودے پر کام مکمل کرلیا ہے۔ امید ہے کہ یہ اگلے چند ہفتوں میں اسمبلی کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ اس دستور میں ہمارے لیے بنیادی رہنما اصول یہ ہے کہ یہ صرف سادہ اکثریت کا دستور نہ ہوبلکہ یہ پوری تیونس قوم کا دستور ہو۔ پوری قوم اس دستور میں اپنے آپ کو  دیکھ سکتی ہے اور یہ محسوس کرسکتی ہے کہ یہ سب کا ترجمان ہے خواہ اکثریت ہو یا اقلیت۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہم نے بڑے پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں سے مشاورت کی۔ اس عمل کے ذریعے ہم نے بڑے پیمانے پر دستور پر اتفاق راے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، جب ہمیں مختلف مسائل، مثلاً شریعت، سیاسی نظام خواہ صدارتی ہو یا پارلیمانی، آزادیِ اظہار اور انسانی حقوق کی آفاقیت میں شدید اختلافات کا سامنا کرنا پڑا، تو ہم نے قومی سطح پر اتفاق راے پیدا کرنے کے لیے ملک کی اہم جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کیے جو کہ تقریباً پانچ ہفتوں تک جاری رہے اور ان کا اختتام ان اہم مسائل میں مفاہمت پر ہوا۔ چنانچہ ہم نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا کہ دستور میں شریعت کا ذکر نہ کیا جائے کیونکہ تیونس کے عوام کے لیے سیاسی نظام کے حوالے سے یہ تصور واضح نہ تھا۔ گو، ہم نے ابتدائی طور پر پارلیمانی نظام کو اختیار کیا ہے لیکن ہم اس معاہدے پر بھی پہنچے ہیں کہ ہمارے ہاں ملاجلا نظام ہوگا جس کے مطابق اختیارات صدر اور وزیراعظم کے درمیان تقسیم ہوں گے۔ ہم نے انسانی حقوق کی آفاقیت اور آزادیِ اظہار کو بھی ایک معاہدے کے تحت تسلیم کیا ہے۔ ہماری جماعت کے اندر کچھ لوگوں نے قیادت پر یہ الزام بھی لگایا کہ ہم ایک مفاہمتی جماعت بن کر رہ گئے ہیں، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ایک بڑی جماعت ہونے کے ناتے یہ ہماری اہم ذمہ داری ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے ناگزیر اُمور میں مفاہمت اختیار کریں۔

ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا مسودۂ دستور ہے جو اسلام کی اقدار، جدید روایات اور جمہوری روایات کو یک جا کردیتا ہے۔ یہ انیسویں صدی کے عظیم مفکرین و مصلحین کا خواب تھا اور ہمیں امید ہے کہ اس دستور کی توثیق سے ہم اس خواب کو حقیقت میں بدل دیں گے۔  نیادستور مساوات، مختلف آزادیوںاور حقوق اور اختیارات کی تقسیم جیسی تمام اقدار پر مشتمل ہے۔

ہمیں اُمید ہے کہ جب دستورمنظور ہوجائے گا تو پورے ملک میں دوسرے انتخابات کی تیاریاں شروع ہوجائیں گی۔ یہ انتخابات آزاد اور منصفانہ ہوںگے اور دنیابھر میں ہمارے بہت سے احباب ان انتخابات کو دیکھنے اور نگرانی کے لیے تشریف لائیں گے تاکہ ان کی دیانت و صداقت کی ضمانت دے سکیں۔ ہمیں اُمید ہے کہ تمام جماعتیں اس میں حصہ لیں گی۔ صرف ایک پھول سے بہار کا سماں نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ انتخابات اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بہت ضروری ہیں کہ جمہوری عمل کو واپس لوٹایا نہیں جاسکتا۔

درپیش چیلنج

پہلا چیلنج اقتصادی اور سماجی ہے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انقلاب کے اہم عناصر میں سے یہ ایک اہم عنصر ہے۔

ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ عوام کی توقعات بہت زیادہ ہیں اور ان کا صبر بہت کم۔ اقتصادی صورت حال بھی اہم مسئلہ ہے۔ یورپ میں ہمارے اہم تجارتی پارٹنر کے متاثر ہونے سے ہماری برآمدات اور سیاحت بھی متاثر ہورہی ہیں۔ ان تمام مسائل کے علی الرغم حکومت بے روزگاری کو ۲فی صد تک، یعنی ۱۸فی صد سے ۱۶فی صد تک کم کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ پیداوار میں بھی ۲۰۱۲ء کے ۵ء۳ فی صد کے مقابلے میں جب ہم نے اقتدار سنبھالا تھا ۲ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ سیاحوں کی آمد میں بھی اضافہ ہوا ہے، گذشتہ سال ۶۰لاکھ سیاحوں کی آمد ہوئی تھی۔ تاہم، وہ نوجوان جنھوں نے سعیدی بوزید اور کسرین میں انقلاب برپا کیا تھا، انھیں اپنی زندگیوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ یہ وہ چیلنج ہے جس کا سامنا کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔

دوسرا چیلنج سیکورٹی کا ہے۔ انقلاب نے ریاست اور اس کے اختیارات کو کمزور کردیا ہے۔ اس لیے مختلف گروپوں کو موقع مل گیا ہے کہ اپنی حدود سے آگے بڑھیں اور قانون کی خلاف ورزی کریں۔ دونوں طرف کے انتہاپسندوں، یعنی دائیں طرف کے مذہب پسند اور بائیں طرف کے انتہاپسند، نے کوشش کی ہے کہ قانون کو بالاے طاق رکھتے ہوئے بزور اپنے تصورات کو لوگوں پر مسلط کریں۔ ہم نے ان گروپوں سے کہاہے کہ وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ سمجھیں کہ جمہوریت کمزور پڑگئی ہے۔ ہم بتدریج ریاست کے اختیار کو مؤثر بنارہے ہیں لیکن آمریت کی طرح خوف کی بنیاد پر نہیں، بلکہ قانون کی بالادستی کے تصور کی بنا پر۔

سلفی مسئلے کے ضمن میں، مَیں اس بات پر زور دوں گا کہ یہ عنصر بن علی کے دورِحکومت کا پھل ہے نہ کہ جمہوریت کا۔دوسرے، یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے لہٰذا اس کا حل بھی پیچیدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر یہ مسئلہ غریب آبادیوں میں پایا جاتا ہے، لہٰذا ترقیاتی کام اس مسئلے کے حل کا حصہ ہونے چاہییں۔

ہمیں اس بات کو بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک کثیرجہتی مسئلہ ہے، اور یہ پُرتشدد نہیں ہے۔ لہٰذا اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ سلفیوں کو پُرتشدد عناصر سے الگ کرکے تشدد سے دُور رکھنے کی کوشش کریں اور پُرتشدد عناصر کو اقلیت میں تبدیل کردیں۔ اس مقصد کا حصول مکالمے اور انھیں اس بات پر قائل کرنے سے کہ ان کا اسلام کا تصور غلط ہے، ممکن ہے۔انھیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر انھیں ایک شہری کی حیثیت سے مکمل حقوق حاصل کرنا ہیں تو پھر انھیں قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔

اس مسئلے کے حل کا تیسرا پہلو سیکورٹی ہے۔ وہ لوگ جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں یا پُرتشدد انداز میں دوسروں پر اپنے تصورات مسلط کرتے ہیں، ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ کام ہے جو حکومت نے گذشتہ برس میں سیکڑوں ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے کیا ہے جنھوں نے قانون شکنی کی کوشش کی۔ بعض ایسے افسوس ناک پُرتشدد واقعات میں ملوث لوگوں کو گرفتار بھی کیا جنھوں نے کچھ لوگوں کو قتل کردیا۔ سیکورٹی کا یہ حل انسانی حقوق کے احترام اور قانون کی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے کیا جانا چاہیے نہ کہ آمریت کے زمانے کی طرح، جب کہ حقوق کا کسی بھی طرح احترام نہ کیا جاتا تھا۔

تیونس میں آمریت کا زوال وہ شعلہ ہے جس نے عرب بہار کو برپا کیا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ تیونس کے تجربے کی کامیابی اس پُرامن اور جمہوری راستے کو آگے بڑھائے گی۔ تیونس نے ثابت کیا ہے کہ عرب بہار بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہورہی۔ آج ہم آپ کو اس بات کی یقین دہانی کراسکتے ہیں کہ یہ ’مذہبی‘ اور ’سیکولر‘ بنیادپرست خزاں میں تبدیل نہیں ہوگی بلکہ ایک جمہوری بہار میں تبدیل ہوگی جہاں سب کے لیے جگہ ہوگی (ترجمہ: امجد عباسی)۔ (بہ شکریہ ریڈیئنس ویوز ویکلی ، دہلی، ۲۹ جون ۲۰۱۳ء)


راشد غنوشی النہضہ پارٹی، تیونس کے صدر ہیں