اگست ۲۰۱۹

فہرست مضامین

بیٹیوں اور بیٹوں کے نام!

سیّد علی گیلانی | اگست ۲۰۱۹ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ان سطور میں، مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں اور بیٹوں سے بات کرنے کی ضرورت محسوس کرر ہا ہوں۔

لختِ جگر بیٹیو! آج جس دورِ فتن سے ہمارا معاشرہ گزر رہا ہے، اُس کے چاروں طرف بدی، بُرائی، بے حیائی، بے شرمی، اختلاط مرد و زن، شراب نوشی، منشیات، رقص و سُرود، خرافات اورفضولیات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیدا کرنے میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ تاہم، ان میں سب سے بڑا عامل (factor) ہمارے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کو بھلا کر، اس کے نسخوں کو الماریوں کی زینت بنادیا گیا ہے۔  ایک زمانہ تھا کہ گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے گھروں سے تلاوتِ قرآن کی آوازیں سنی جاتی تھیں۔ آج اس کے بجاے ایسے فلمی گانوں کے بول کانوں سے ٹکراتے ہیں کہ شرم و حیا کے جامے تارتار ہوجاتے ہیں۔

گھروں میں بڑوں، یعنی والدین کی لاپروائی اور بچوں کے حوالے سے بے اعتنائی بھی خرابی اور بے راہ روی کی بنیادی وجہ بن رہی ہے۔ والدین پر جس طرح اپنے بچوں کے لیے کھانے پینے، لباس اور علاج و معالجے کی ذمہ داری ہے، بالکل اُسی طرح ، بلکہ اس سے بڑھ کر بچوں خاص طور پر لڑکیوں کی عزت و آبرو، عفت و عصمت، شرم و حیا اور اخلاق و کردار کی حفاظت کرنا بھی فرض ہے۔ مگر مادہ پرستی کے اس دور میں وہ اس اہم اور بنیادی ضرورت کو پورا کرنے سے   کنی کتراتے ہیں۔ والدین کو سوچ لینا چاہیے کہ جس طرح وہ لڑکیوں کی دنیا بنانے اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، اُسی طرح لڑکیوں کی آخرت کی زندگی میں جہنم کی آگ سے بھی بچانے کی ذمہ داری پوری کریں۔ جیساکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔(التحریم ۶۶:۶)

’’یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا کام یہ بھی ہے کہ نظامِ فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اُس پر ڈالا ہے، اس کو بھی وہ اپنی حد استطاعت تک ایسی تعلیم و تربیت دے، جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بنیں، اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جا رہے ہوں، تو جہاں تک بھی اس کے بس میں ہو، ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے۔ اُس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ آخرت میں جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔

بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملے میں جواب دہ ہے۔ حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘۔جہنم کا ایندھن پتھر ہوں گے، اس سے مراد غالباً پتھر کا کوئلہ ہے۔ ابن مسعودؓ، ابن عباسؓ، مجاہدؒ، امام محمد الباقرؒ، اور سُدِّیؒ کہتے ہیں کہ یہ گندھک کے پتھر ہوں گے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد ششم، ص۲۹-۳۰)

بچوں کے والدین اور سرپرست اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھیں تو اپنی اولاد کے بارے میں لاپروائی اور بے اعتنائی نہیں برتیں گے اور ان کو کھلی چھوٹ نہیں دیں گے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہیں بے روک ٹوک کریں۔ اپنی عزت اور آبرو کا خیال نہ کریں۔ بے پردہ گھومیں پھریں۔ منشیات کے عادی بن جائیں۔ موبائل فون کا غلط استعمال کریں۔ انٹرنیٹ اور فیس بُک پر غیرمحرم اوراوباش نوجوانوں کے ساتھ روابط قائم کریں۔ ساتر لباس کے بجاے چُست اور نیم عریاں لباس کا استعمال کریں۔ نمازوں کی پابندی نہ کریں۔ قرآن پاک کی تلاوت نہ کریں۔ قرآن پاک کے معانی سمجھنے کی کوشش نہ کریں ۔ کوئی معتبر اور مستند تفسیر کا سہارا لے کر قرآن پاک کے حیات بخش پیغام سے رہنمائی حاصل نہ کریں۔ سیرتِ پاک کا مطالعہ نہ کریں اور اپنی سیرت اور کردار میں باحیا اور باکردار خواتین کی سیرت کے خدوخال اپنے اندر پیدا نہ کریں۔ دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی اور اسلامی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سب کچھ والدین اور سرپرستوں کی نگاہوں کے سامنے ہو اور وہ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کے مصداق دیکھتے رہیں اور ٹوکنے اور روکنے کی کوشش نہ کریں تو قرآنِ پاک کی اس تنبیہ کا ان پر ہی اطلاق ہوگا۔

لختِ جگر بیٹیو! ہم اپنے ہی ہاتھوں بھارت کے فوجی قبضے میں جاچکے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں ہمارے لیڈروں نے نہایت کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنجہانی ہری سنگھ کی متنازعہ اور مشکوک دستاویز الحاق کی تائید کرکے بھارت کی فوجوں کی یہاں آنے کی حمایت کی۔ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء سے ہم اسی فوجی قبضے میں ہیں۔ بھارت ایک طرف فوج کے بل بوتے پر ہمارے تمام ذرائع    اور وسائل پر قبضہ جما رہا ہے۔ دوسری طرف ہم پر اپنی مشرکانہ تہذیب بزورِ بازو مسلط کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت خاص طور پر ہماری تعلیم گاہوں، یونی ورسٹیوں، کالجوں اور مدارس کو نشانہ بنا رہا ہے۔ مخلوط تعلیم ہماری اسلامی تہذیب، تمدن اور ثقافت کے خلاف ہے۔ اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم بھی ضروری ہے مگر اس تعلیم میں لڑکیوں کی عزت، عصمت اور شرم و حیا کا بھرپور تحفظ ہونا چاہیے۔ مخلوط نظامِ تعلیم میں ان مقدس اقدار کا تحفظ ممکن نہیں ہوسکتا۔

نظامِ تعلیم بھی انسانی اور اخلاقی اقدار کے منافی ہے۔ تعلیم ہماری نئی نسل کو مادہ پرست اور دنیا پرست بناتی اور بُرائیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں اور کالجوں میں کلچراور ثقافت کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کروائے جاتے ہیں، جن میں دینی اور اسلامی اقدار سے ہم کو دور لے جایا جارہا ہے۔ بھارت اپنی مخصوص تہذیب اور طرزِ زندگی کوان پروگراموں کے ذریعے ہم پر مسلط کر رہا ہے۔ تعلیم گاہوں میں کردار سازی کی طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ منصوبہ بند طریقے پر جو ان لڑکوں اور لڑکیوں کو شراب اور منشیات کا عادی بنایا جا رہا ہے۔ جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کھلے عام ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم کرنے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس تہذیبی یلغار کے مقابلے میں ہمارے مقامی افسران اور ذمہ داران مزاحمت کرسکتے تھے، مگر وہ اپنی کرسیوں،اپنے عہدوں اور منصبوں کے غلام بن چکے ہیں اور اُنھی کی معاونت، تابع داری اور غلامانہ ذہنیت کے سہارے یہ سب اخلاق باختہ پروگرام انجام دیے جارہے ہیں۔

ان حالات میں،مَیں اپنی لخت ِ جگر بیٹیوں سے دردمندانہ اپیل کروں گا کہ آپ قرآن پاک پڑھ کر، سمجھ کر اس کی رہنمائی کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کریں، کیونکہ آپ ہی کے ہاتھوں میں ہمارا مستقبل ہے۔ اگر آپ نے اپنے اندر اسلامی کردار اور سیرت پیدا نہیں کی تو ہماری آنے والی نسل مشرکانہ تہذیب کا شکار ہوجائے گی، اور اسلام کے حیات بخش نظام سے محروم ہوکر دُنیوی ذلّت و خواری اور آخرت کے ابدی عذاب سے دوچار ہوجائے گی۔

میں آپ کو علامہ محمد اقبالؒ کی ایک رُباعی کی وساطت سے خاتونِ ملّت کے کردار کی طرف متوجہ کرکے، ایک بار پھر دردمندانہ اور دل سوزی کے ساتھ نصیحت کروں گا کہ اپنی عزت، سیرت اور اسلامی کردار کی ہرحال میں حفاظت کریں اور اپنے آپ کو اسلامی سانچے میں ڈھال کر اپنی دُنیا اور آخرت آباد و شاداب کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔ علامہ اقبال آپ کو نصیحت کرتے ہیں:

زِشامِ مابروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہلِ نظر را
تو میدانی کہ سوزِ قرأت تو
دگرگوں کرد تقدیرِ عمرؓ را

[قرآن پاک کی تلاوت سے اہلِ نظر کو متاثر کرکے ،ہماری شام کو سحر سے بدل دے۔ تو جانتی ہے کہ تیرے سوزِ قرأت نے عمرؓ کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔]
اے خاتونِ ملّت! تو اپنے کردار اور اسلامی سیرت کے ذریعے ملّت کو اس تاریکی سے نکال کر صبحِ آزادی اور اسلام کے عادلانہ نظام کی طرف لانے کے لیے اپنا منصبی فریضہ انجام دے۔ اس مقصد کے لیے تم قرآن پڑھ کر ، سمجھ کر، عملاً پھیلا کر اور غالب کرنے کی کوشش کرکے اہلِ نظر پیدا کرو، کیوں کہ تو اگر اپنا ماضی یاد کرے گی تو تجھے معلوم ہوجائے گا کہ تیری سوزِ قرأت سے اسی طرح نسلوں کی تقدیر بدل جائے گی، جس طرح عمر بن خطابؓ کی بہن کی تلاوت سے ان کی تقدیر بدل گئی تھی۔

یہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جب عمربن الخطاب برہنہ تلوار لےکر رسولِ رحمت    صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے گھر سے نکلے تو راستے میں ایک صحابی سے اُن کاسامنا ہوا۔ اُنھوں نے کہا:’’ عمر! یہ چمکتی تلوار لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘ عمر نے جواب دیا: ’’اس دین کے بدلنے والے محمد کو قتل کردوں گا‘‘۔

اُس صحابی نے کہا: ’’پہلے اپنے گھر کی خبر لو اور اپنی بہن فاطمہ بنت خطاب کے گھر جائو‘‘۔ عمر غصّے سے بے تاب ہوکر اپنی بہن کے گھر پہنچے۔ وہاں اُن کی بہن قرآن پاک سے سورئہ طٰہٰ کی تلاوت کر رہی تھیں۔ عمر کے آنے کی خبر سن کر وہ سہم گئیں اور قرآنِ پاک کے اَوراق چھپانے لگیں۔ عمر نے بڑے گرج دار لہجے میں پوچھا: کیا پڑھ رہی تھی؟ فاطمہ نے کہا: ’’قرآن پڑھ رہی تھی‘‘۔  عمر نے اُن کو بے تحاشا پیٹنا شروع کر دیا۔ فاطمہ کے شوہر اُن کو بچانے کے لیے آگے بڑھے۔ ان کو  بھی عمرنے غیض و غضب کا نشانہ بنایا۔ تھک ہار کر عمر نے فاطمہ سے کہا: ’’اچھا، مجھے وہ سنائو جو تم پڑھ رہی تھی‘‘۔فاطمہ نے کہا: ’’میں وہ اوراق تمھارے ہاتھ میں نہیں دوں گی جو مَیں پڑھ رہی تھی۔ جب تک تم نہادھوکر اپنے آپ کو پاک و صاف نہیں کرو گے‘‘۔ عمرؓ نے اپنے آپ کو پاک و صاف کیا۔ پھر فاطمہ نے سورئہ طٰہٰ کی آیات تلاوت کیں۔ اس سے عمرؓ کی دنیا ہی بدل گئی۔

رسولؐ اللہ اپنے پاک باز ساتھیوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ کسی نے پریشان ہوکر آپؐ سے کہا: عمر ہاتھ میں ننگی تلوار لیے آرہے ہیں۔ اس مجلس میں حضرت حمزہؓ بھی تشریف فرما تھے۔ انھوں نے مومنانہ اور مجاہدانہ انداز میں برملا کہا کہ: اگر نیک نیت سے آیا ہے تو مرحبا، اگر بدنیتی سے آیا ہے تو یہ تلوار اس کا فیصلہ کرے گی۔مگر عمر بن خطاب کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعا قبول ہوچکی تھی، جو آپؐ نے ربِ کریم کی بارگاہ میں کی تھی کہ دو عمروں میں سے ایک کو اسلام لانے کی توفیق عطا کر۔ ابوجہل کا نام بھی عمر تھا اور دوسرے عمر بن خطاب تھے۔یہ دُعا دوسرے عمر کے حق میں قبول ہوئی اور انھوں نے خدمت ِ اقدس میں اس روز حاضر ہوکر کلمۂ شہادت پڑھ کے اسلام کے حیات بخش پیغام کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

جوانانِ ملّت! آپ ہمارا مستقبل اور اصل سرمایہ ہیں۔ آپ غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے جاچکے ہیں، اُن سے آزادی حاصل کرنا، آپ ہی کی ہمت، حوصلے، عزم اور اخلاص کا مرہونِ منت ہے۔ آپ اپنے اندر وہ سیرت وکردار پیدا کریں ،جو آپ کو بے تیغ لڑنے کا حوصلہ اور ولولہ عطا کرے۔ سامراجی طاقتوں اور استعماری قوتوں نے خاص طور پر آپ کو نشانہ بنانے کے لیے دُور رس نتائج کی حامل ایک پالیسی وضع اور طریق کار اختیار کیا ہے۔ اس سنگین ترین صورتِ حال کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ آپ محسن ملّت اسلامیہ علامہ محمد اقبالؒ کی نصیحت پر پوری یکسوئی اور سلیمِ قلب کے ساتھ پیروی کریں:

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں!

طوفان سے تو ہم دوچارہوچکے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ہے۔  علامہ اقبال مرحوم نے اس طوفان کو سخت ترین موت سے تعبیر کیاہے:

موت ہے اِک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
مکر و فن خواجگی کاش سمجھتا غلام
اے کہ غلامی سے ہے روح تیری مضمحل
سینۂ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام

اس سخت ترین موت سے نجات پانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ کتاب خواں ہی نہیں بننا ہے، بلکہ صاحب ِ کتاب بننے کی طرف بڑھنا ہے۔ صاحب ِ کتاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت اس بھرپور احساس سے کی جائے کہ یہ کتاب مجھ پر ہی نازل ہورہی ہے ۔ مجھے کہہ رہی ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے؟ تمھارے لیے حق کیا ہے اور باطل کیا؟ تمھارے لیے حلال کیا ہے اور حرام کیا؟ تمھارا خالق اور مالک کون ہے؟ تمھارا حاکم اور مقتدرِاعلیٰ کون ہے؟ تمھارا معبود اور پروردگار کون ہے؟ تمھیں کس کی عبادت اور بندگی کرنا ہے؟ تمھیں کس کا خو ف اور ڈر ہونا چاہیے؟ تمھاری قوتیں اور صلاحیتیں کس کے لیے وقف ہونی چاہییں؟ تم نے کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ کر کس کے ساتھ اپنی جان و مال کا سودا کیا ہے؟ تمھارے لیے عدل و انصاف کا نظام اور ضابطہ کیا ہے؟ تمھیں انسانیت کا احترام کرنا کون سکھاتا ہے؟ تمھارے لیے صلح اور جنگ کے ضوابط کون ترتیب دے رہا ہے؟

جب آپ قرآن یہ جان کر اور مان کر پڑھیں گے کہ یہ مجھ ہی سے مخاطب ہے تو وہ آپ کو بتائے گا کہ تم کو پانی کے ایک حقیر قطرے سے اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔ اُسی نے تمھاری پرورش کے لیے ماں باپ کے دل میں محبت اور شفقت پیدا کی ہے۔ اُسی نے تمھاری زندگی کے لیے ہوا، پانی، زمین پیدا کی ہے۔ تمھارے لیے رزق کا انتظام کیا ہے۔ قرآن آپ کو بتائے گا کہ تمھاری زندگی کے لیے تمھارا جوڑا پیدا کیا ہے، اور اس طرح دونوں صنفوں کے لیے سکون و طمانیت کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا گیا ہے۔ مودت اور محبت کا سامان فراہم کیا ہے۔ تم بیمار ہوتے ہو تو شفا وہی بخشتا ہے۔ قرآن آپ کوبتائے گا کہ جب سب کچھ اللہ ہی تم کو دیتا ہے تو تم دوسروں کی بندگی کیوں کرتے ہو؟ وہی تو تمھارا احکم الحاکمین ہے۔ تم دوسروں کی سرداری اور حاکمیت کیوں تسلیم کرتے ہو؟ یہ توتمھارے اللہ پر ایمان رکھنے کے منافی ہے۔ اس طرح تمھاری زندگی میں دو رنگی اور نفاق پیدا ہوجاتا ہے۔ قرآن اپنے پڑھنے والے کو بتاتا ہے کہ حق کو قبول کرلینے اور سمجھ لینے کے بعد باطل کی پرستش اور اطاعت کرنے کا تمھارے پاس کیا جواز ہے؟

قرآن پاک کو جب آپ اس ایمان و یقین کے ساتھ پڑھیں گے کہ یہ آپ پر ہی نازل ہو رہا ہے تو آپ جان لیں گے کہ قرآن آپ کو بہت بڑی نعمت اور دولت سے سرفراز فرما رہا ہے۔ قرآن کریم ایک بہت بڑی حکمت اور ایمانی قوت ہے۔ قرآن، آپ میں اللہ وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت کا یقین، اُس کی قوت و سطوت کا راسخ احساس اور ناقابلِ شکست اعتماد پیدا کرتا ہے کہ اسے پاکر آپ بہت طاقت ور بن جاتے ہیں۔ جہاں ایمانی قوت ہو، وہاں دنیا کی ساری طاقتیں پرکاہ کے برابر لگتی ہیں اور کوئی فرعونیت اور نمرودیت مسلمان کو زیردست اور محکوم نہیں بنا سکتی۔ اگر ایمانی قوت نہ ہو تو اسلحہ اور ایٹم بم بھی آپ میں جرأت اور ہمت پیدا نہیں کرسکتے۔

نائن الیون کے سانحے کےبعد امریکا نے پوری دنیا کو چیلنج دیا کہ: ’’ہمارے ساتھ رہو، ورنہ ہم تم کو پتھر کےزمانے میں پھینک دیں گے‘‘۔ پاکستان میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف صاحب کے پاس ایٹم بم ، میزائل اور فوج بھی تھی۔ ۱۸کروڑ عوام بھی ساتھ تھے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت، پاکستان کی بہی خواہ اور ہمدرد تھی۔ برادر ملک ایران بھی پشت پر تھا، مگر اُس وقت کے فوجی صدر میں ایمانی قوت و بصیرت نہیں تھی کہ وہ جرأت اور ہمت کا مظاہرہ کر کے امریکا کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دیتے اور عملاً ہتھیار ڈالنے کی سی ذہنیت کا شکار نہ ہوتے۔

اس بات کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ اس وقت ہوا تھا کہ جب ان کے ساتھ دہلی میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے بھارت سے مرعبویت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم نے تین جنگیں لڑی ہیں۔ آپ لوگوں نے بھی بہت قربانیاں دی ہیں، مگر کچھ حاصل نہیں کرسکے۔ بھارت بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس ایٹم بم ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک اور طاقتیں بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں۔ ہمیں اب اس کے ساتھ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر مسئلہ حل کرلینا چاہیے‘‘۔ جواباً میں نے ان سے کہا کہ: ’’ہمارا موقف مبنی برصداقت ہے۔ ہمیں مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اللہ بزرگ و برتر کی ذاتِ اَقدس پر بھروسا کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے‘‘۔ انھوں نے کہا کہ: ’’میرے ساتھ بش اور ٹونی بلیر ہیں‘۔ بش امریکا کا صدر تھا اور ٹونی بلیربرطانیہ کا وزیراعظم تھا۔ صدافسوس کہ انھوں نے اللہ غالب، اور بزرگ و برتر کا نام نہیں لیا۔ پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ نہ بُش رہا نہ کوئی بلیر رہا اور نہ مُش رہا: فاعتبروا یااولٰی الابصار!

پھر پاکستان کے صدر مشرف صاحب نے بزدلی اور سنگ دلی کا مظاہرہ کرکے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو پاکستان کی سرزمین، ہوائی اڈے اور اپنی انٹیلی جنس معلومات فراہم کرکے، افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ اس کے بعد ان خونیں مناظر نے پوری ملت اسلامیہ کے دلوں کو ہلا دینے والا باب رقم کیا ۔ یہ سب کچھ ایمانی قوت سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ میں نےجنرل مشرف صاحب سے یہ بھی کہا کہ: ’’اپنوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کریں‘‘۔ مگر وہ طاقت کے نشے میں چُور یا کم ہمتی کے زیراثر کوئی بات سننے کے روادار نہ تھے۔

جوانانِ عزیز!یہ سب کچھ قرآنِ پاک سے دُوری اور اُس سے ایمانی قوت حاصل کرنے سے وہ محرومی ہے کہ جس کا خمیازہ پوری ملت اور خاص طور پر ہم مظلوموں اور محکوموں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ایمانی قوت کو ’زورِ دُروں‘ سے تعبیر کر کے جوانوں کو ان الفاظ میں مخاطب کیا ہے:

یہ آب جُو کی روانی، یہ ہمکناریِ خاک
مری نگاہ میں ناخُوب ہے یہ نظارہ
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوانِ عزیز
بلند زورِ درُوں سے ہُوا ہے فوارہ!