اگست ۲۰۱۹

فہرست مضامین

تجارت میں اسلام کی رہنمائی

ڈاکٹر محمد واسع ظفر | اگست ۲۰۱۹ | اسلامی معاشیات

Responsive image Responsive image

  تجارت اور کاروبار حصولِ رزق کے اہم اسباب میںسے ایک بڑا ذریعہ ہے ۔یہ وہ سبب ہے جس کی اہمیت اور افادیت ہر دور میں یکساںطور پر تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم، ایک وقت تھا کہ جب مسلمان تجارت کے میدان میں ساری قوموں سے نمایاں مقام رکھتے تھے، جس کے بہت سے دینی و دُنیوی فوائد حاصل ہوتے تھے۔ تجارتی اسفار میں دعوتِ دین بھی ان کے پیش نظر رہتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں نے تجارت کے میدان میں بھی شکست کھانا شروع کی۔

تجارت کی اہمیت

قوم کی معاشی روش میں یہ تبدیلی شاید اس وجہ سے واقع ہوئی کہ اس کی نگاہوں کے سامنے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہ رہا: عَلَیْکُمْ بِالتِّجَارَۃِ  فَاِنَّ فِیْھَا تِسْعَۃَ أَعْشَارِ الرِّزْقِ، یعنی ’’ تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے کیوں کہ رزق کے دس میں سے نو حصے فقط اس میں ہیں‘‘۔ (احیاء علوم الدین ،امام غزالی ، دار ابن حزم ، بیروت، ۲۰۰۵ء، ص۵۰۴)
آج کی دنیا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تعبیر ہر کسی کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ تجارت کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے او ر بھی ارشاداتِ مبارک موجود ہیں۔ مثلاً:جب آپؐ سے یہ دریافت کیا گیا کہ ’کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے؟ (أَیُّ الْکَسْبِ أَطْیَبُ؟) تو آپ ؐ نے فرمایا: ’’آدمی کااپنے ہاتھ سے کوئی کام کرنااور ہر وہ تجارت جو پاک بازی کے ساتھ ہو‘‘۔ گویا شریعت اسلامیہ کی عائد کردہ پابندیوں کو ملحوظ رکھ کر تجارت کی جائے ۔ (مسند احمد، حدیث : ۱۷۷۲۸، بروایت رافع بن خدیجؓ)
آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اگر رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا لائے پھر اسے فروخت کرے اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی آبرو محفوظ رکھے، تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور اسے کچھ دیا جائے یا نہ دیا جائے‘‘ (بخاری، حدیث: ۲۳۷۳، بروایت زبیربن عوامؓ)۔ آپؐ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن)   انبیا،ؑ صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۰۹، بروایت ابو سعید خدریؓ)
ان چند روایات سے تجارت کی فضیلت، روزی کے اسباب میں اس کی اہمیت، اس کے ذریعے حاصل شدہ مال کی پاکیزگی اور تاجروں کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقام واضح ہوتا ہے۔ باوجود ان سب بشارتوں کے، دیگر شعبوں کی طرح معیشت کے شعبے میں بھی امت مسلمہ نے رسول اکرمؐ کی رہنمائی کو قبول کرنے میں عملاً کوتاہی برتی۔البتہ حال میںمسلمان ایک بار پھر تجارت کی طرف متوجہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن اس میں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ وہ شرعی اور اخلاقی ضابطوں سے بے نیاز ہو کر تجارت کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر و ہ نبی کریمؐ کی ہدایات کو اپنی تجارت میں داخل کرلیں،تو ان کی تجارت اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جائے گی۔ اس دنیا میں بھی اس کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور آخرت میں بھی اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے انعامات سے مالامال ہوں گے۔ 
اسی مقصد کے پیش نظر اس تحریر میں تجارت کے چند بنیادی اسلامی اصولوں کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شاید یہ کوشش تجارت کے شعبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو زندہ کرنے میںکچھ کام آجائے۔ چونکہ تجارت کا علم بہت ہی دقیق ہے اور کتب حدیث وفقہ میں اس کی بہت سی جزئیات ملتی ہیں اور ان سب کا احاطہ ایک مضمون میںناممکن ہے، اس لیے یہاں صرف تجارت کے عام اصولوںپر اکتفا کیا گیا ہے۔

 تجارت کے علوم کا حصول

 سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ تجارت میں مشغول ہونے سے پہلے اس سے متعلق علوم کو سیکھنا چاہیے۔ رسول پاک ؐ کے فرمان: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم،یعنی ’’علم (دین) طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ، حدیث: ۲۲۴، بروایت انس بن مالکؓ) کی تشریح میں فقہا نے لکھا ہے کہ: ’’آدمی کسب ِمعاش کے لیے جو کوئی پیشہ اختیار کرے، اس کا علم حاصل کرنابھی اس پر فرض ہو جاتا ہے‘‘۔ لہٰذا، اگر کسی نے تجارت کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر یہ فرض ہے کہ وہ بیع کے مسائل اور اس کی شرطیں معلوم کرے۔
 امام غزالیؒ لکھتے ہیں: ’’اسی طرح اگرآدمی کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو اس پیشے کا علم بھی اس پر واجب (یعنی فرض) ہوجاتا ہے، جیسے کہ اگر تاجر ہے تو سود کے مسائل کا علم اس پر واجب ہوجاتا ہے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہوجاتا ہے کہ بیع کی جملہ شرائط سے واقف ہو، تاکہ بیع باطل سے    بچ سکے‘‘۔(کیمیاے سعادت،ص ۱۱۵) ۔پھر امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ: ’’بیع کے مسائل جاننا  سب پر فرض ہے، کیونکہ ہر ایک کو اس سے واسطہ پڑسکتا ہے، کوئی شخص اس سے بری نہیں ہوسکتا (حوالہ سابق، ص ۲۵۹)۔ انھوں نے حضرت عمرؓ کے بارے میں لکھا کہ: جب وہ بازار جاتے تو تاجروں سے بیع کے مسائل پوچھتے اور جو نہیں بتاتا اسے کوڑے لگا کر علم سیکھنے کے لیے بھیجتے، اور فرماتے کہ جو بیع کے احکام نہ جانے اسے بازار میں نہیں ہونا چاہیے، یعنی تجارت نہیں کرنی چاہیے کہ لاعلمی میںحرام اور سود میں مبتلا ہوجائے گا اور اسے خبر بھی نہ ہوگی‘‘۔ (ایضاً، ص ۱۱۵) 
امام ترمذیؒ نے حضرت عمرفاروقؓ کا یہ فرمان نقل کیا ہے:’’ہمارے بازارمیں خرید و فروخت نہ کرے مگر وہ شخص جس نے دین میں خوب سمجھ بوجھ حاصل کرلی ہو‘‘۔ (سنن ترمذی)
یہاں دین کی سمجھ سے ان کی مراد ہے،معاملات اور بیع و شراء (یعنی خرید و فروخت) کے مسائل سے آگاہ ہونا۔ گویا حضرت عمرؓ کی راے میں صرف ایسے شخص کے لیے تجارت کرنا درست اور جائز ہے، جو معاملات اور بیع و شراء کے مسائل سے پوری طرح واقف ہو، کیونکہ جو شخص ان سے واقف نہیں ہوگا، وہ کاروبار میں بے اصولیاں کرے گا، جو معاشرے میں معاشی بگاڑ کا سبب بنیں گی۔ اس لیے ہر مسلمان تاجر بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بیع و شراء کے مسائل کو جانے۔

 نیت کی درستی

 تجارت میں نیت کی درستی بہت ضروری ہے:

  • اوّل یہ کہ ا پنی تمام تر محنت، مشقت اور جدوجہد کے باوجودصرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے کہ رزاقِ مطلق اسی کی ذات ہے اور کسب وتجارت صرف ایک ظاہری وسیلے کے درجے کی چیز ہے اور اس کے پردے میںاللہ تعالیٰ کی قدرت کارفرما ہے۔ لہٰذا، اپنے پیشہ و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے۔ یہ شرک خفی ہے۔ (مظاہر حق جدید، شرح مشکوٰۃ ،علامہ قطب الدین دہلوی، تدوین جدید: مولانا عبداللہ جاوید،مطبوعہ ادارہ اسلامیات، دیوبند، ۱۹۸۶ء، جلد۳، ص ۴۲۸)
  • دوم یہ کہ یہ نیت کرے کہ تجارت اس لیے کرتا ہوںتاکہ خود کی اوراہل وعیال کی معاشی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوجائیں، لوگوں کی محتاجی نہ رہے اور اس قدر فراغت میسر آجائے کہ دل جمعی کے ساتھ اللہ عزوجل کی عبادت کرسکوں۔ علما نے اس قدر کمانے کو فرض لکھا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے: طَلَبُ کَسَبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ، یعنی حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے۔(الجَامِعُ لِشُعَبِ الأِیْمَانِ لِلبَیْہَقِي، حدیث: ۸۳۶۷، بروایت عبداللہ بن مسعودؓ)۔ آپؐ کا ارشاد ہے: جو شخص   خود کو سوال سے بچانے، اپنے اہل و عیال (کی کفالت) کے لیے سعی کرنے اور اپنے پڑوسی پر شفقت و مہربانی کرنے کے لیے دنیا کو حلال اور جائز طریقے پر طلب کرتا ہے، وہ (بروز قیامت ) اللہ جل شانہٗ سے اس حال میںملاقات کرے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا۔ اور جو شخص کثرت مال اور ریاکاری (تفاخر) کی نیت سے حلال دنیا طلب کرتا ہے، تو ایسا شخص اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضب ناک ہوگا۔ (بروایت ابوہریرہؓ)

امام غزالیؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ان لوگوں کی نگاہ ایک طاقت ور اور مضبوط جسم والے نوجوان پر پڑی، جو صبح سویرے ہی طلب معاش کے لیے بھاگ دوڑ کرنے میں مصروف تھا۔ بعض صحابہ کرامؓ نے کہا کہ افسوس ہے اس پر، کاش! اس کی جوانی اور طاقت اللہ کی راہ میں صرف ہوتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کہو! کیوں کہ اگر وہ محنت و کوشش اس لیے کررہا ہے کہ خود کو سوال کرنے سے بچائے اور لوگوں سے بے نیاز ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر وہ اس لیے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے ضعیف والدین یا کمزور و ناتواں اولاد کو لوگوں سے بے نیاز کر دے اور ان کی کفایت کرے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر وہ دوسروں پر دھونس جمانے اور کثرت مال کی غرض سے بھاگ دوڑ کررہا ہے تو (یقیناً) وہ شیطان کی راہ میں ہے۔ (احیاء علوم الدین للغزالی، ص۵۰۳) 

اسی مضمون کی روایت کو حافظ سلیمان بن احمد طبرانی نے معاجم ثلاثہ میں کعب بن عجرہؓ سے، امام بیہقیؒ نے سنن الکبریٰ میں انس بن مالکؓ سے، اور امام ابن ابی الدنیاؓ نے کتاب العیال میں ابی المخارقؓ سے نقل کیا ہے۔ اختصار کے لیے صرف امام طبرانیؒ کی روایت نقل کی جاتی ہے: ایک صاحب کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا تو صحابہ کرامؓ اس کے جسم کی ساخت اور چُستی کو دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور کہنے لگے یارسولؐ اللہ! کاش! کہ یہ اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ہوتا۔ رسول ؐاللہ نے فرمایا: ’’اگر یہ اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کی تگ و دو میں نکلا ہے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کی کوشش میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر یہ اپنی ذات کو سوال و محتاجی سے بچانے کی سعی میں نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور اگر اپنے گھر والوں( کی کفایت) کے لیے محنت کی خاطر نکلا ہے تو بھی اللہ کی راہ میں ہے، اور (ہاں) اگر فخر اور ہوسِ مال کے لیے نکلا ہے تو طاغوت کی راہ میں ہے‘‘۔(المعجم الصغیر ، ج۲، ص۶۰)
مذکورہ احادیث سے جہاں کسب ِمعیشت کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، وہیں یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اپنے اور اہل و عیال کی ضرورت سے زیادہ اس نیت سے کمانا، تاکہ عزیز و اقارب، پڑوسیوں اور فقرا و مساکین کی خبرگیری کروں گا، نیز زائد مال اللہ تعالیٰ کے دین کو زندہ کرنے میں لگائوں گا، مستحب اور مندوب ہے۔ البتہ صرف مال و دولت جمع کرکے فخرو تکبر کے اظہار کے لیے زیادہ کمانا حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، ص ۴۲۶)

  • سوم یہ کہ اپنی تجارت سے حصول منفعت کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی عموماً اور مسلمانوں کی خصوصاً، خدمت اور حاجت روائی کی نیت رکھے، تو اس کی تجارت عبادت کی ایک صورت بن جائے گی۔ کیونکہ کسی بھی جگہ ضروریاتِ زندگی کی تکمیل سے جڑی اشیا کی فراہمی کے لیے تجارت ایک ناگزیر عمل ہے اور اگر یہ نہ ہو تو نظامِ زندگی کے درہم برہم ہوجانے اور انسانوں کے مصیبت میں مبتلا ہوجانے کا شدید خدشہ ہے ۔ مثلاً:اگر کسی جگہ دوا کی دکان نہ ہوتو لوگ کسی کے بیمار ہوجانے پر دوا کی عدم دستیابی کی وجہ سے پریشانی میں مبتلا ہوں گے۔ اگر کسی جگہ کپڑے کی تجارت نہ ہو تو لوگ کسی میت کے کفن یا دیگر انسانی ضروریات کی تکمیل کے لیے پریشان ہوں گے۔ اسی طرح شہروں میں اگرغلہ اور دیگر اشیاے خوردنی کی تجارت نہ ہو تو لوگوں کے لیے روپیہ پیسہ ہوتے ہوئے بھوکوں مرنے کی نوبت آسکتی ہے۔ انھی مثالوں پر دیگر کاروبار اور پیشوں کو قیاس کیا جاسکتاہے۔ اسی لیے علما نے ہر جائز پیشے کو فرضِ کفایہ قرار دیا ہے اور ان میں تگ و دو کی ترغیب بھی دی ہے۔ امام غزالیؒ کے مطابق تو بعض محدثین نے حدیث رسولؐ: اِخْتِلَافُ اُمَّتِيْ رَحْمَۃٌ، یعنی ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے‘‘ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے کہ مختلف صنعتوں اور پیشوں کے معاملے میں ان کی پسند کا مختلف ہونا رحمت ہے کیونکہ اگر سب لوگ ایک ہی پیشے کی طرف متوجہ ہوجائیںیا ایک ہی طرح کی تجارت اختیار کرلیں تو باقی پیشے اور باقی تجارتیں سب معطل ہوکر رہ جائیں گی اور انسانیت پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔ (احیاء علوم الدین ، ص ۵۲۸ - ۵۲۹)

 اس لیے اپنی صنعت و تجارت میں ان فرائض کفایہ میں سے ایک کو قائم کرنے ، انسانیت کو مصیبت و پریشانی سے بچانے اور راحت و آرام پہنچانے کی نیت کرنی چاہیے۔

  • چہارم، نیت یہ کرے، کہ تجارت اس لیے کر رہا ہوںتاکہ اس شعبے میںاللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے احکام اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عملاً زندہ کروں۔ 
  • پنجم، نیت یہ بھی کرے ،کہ بازار میں جاکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دوں گا اور ایسے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے بھی نہ دے۔ 

ان نیتوں کے ساتھ ایک بندہ مومن تجارت کے لیے بازار میں جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوگی اور اس کی تجارت بھی عبادت کی ایک صورت بن جائے گی۔

 صبح سویرے تجارت کے لیے نکلنا

 تجارت کے لیے صبح سویرے نکلنا اور اپنی دکان علی الصبح کھولنا بہتر ہے ،کیوںکہ اس وقت کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ اس لیے ایسا کرنے سے اموالِ تجارت میں بھی برکت کی قوی امید ہے۔ 
حضرت صخر غامدیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللّٰھُمَّ! بَارِکْ لِأُمَّتِي فِي بُکُورِھَا(ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث:۲۲۵۳)یعنی ’’اے اللہ! میری امت کے لیے دن کے ابتدائی حصے میں برکت ڈال دے ‘‘ ۔ آپؐ کو جب بھی کوئی سریہ ( فوجی دستہ) یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصے میںروانہ فرمایا کرتے تھے۔ (عمارہ بن حدیدؒ نے کہا کہ) صخر غامدیؓ ایک تاجر تھے۔ وہ اپنی تجارتی کارندوں کو دن کے اول حصے میں روانہ کیا کرتے تھے، چنانچہ وہ مال دار ہوگئے اور ان کی دولت بہت بڑھ گئی تھی۔ (سنن ترمذی، حدیث: ۱۲۱۲)
عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے با رے میں بھی اسی قسم کی روایت ہے کہ جب انھوں نے بنی قینقاع کے بازار میں تجارت شروع کی تھی، تو ان کا معمول یہی تھا کہ وہ بازار صبح سویرے جاکر تجارت کے کاموں میں مشغول ہوجاتے تھے (بخاری، حدیث: ۳۷۸۰)۔ پھر وہ بہت ہی مال دار ہوگئے تھے اور عرب کے بڑے تجار میں ان کا شمار ہوتا تھا۔افسوس کی بات یہ کہ آج ہم غیروں کی طرح رات گئے تک لہو و لعب میں مشغول رہتے ہیں اور صبح کو نماز اور ذکر و تلاوت سے غافل ہوکر سوتے رہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ صبح کی نماز اور اوراد و وظائف سے فارغ ہوکر اپنے کاروبار کی طرف نکلیں، گو اس وقت کاروبار نہ ہو جب بھی اس برکت کو حاصل کرنے کی نیت سے اپنے کام پر ضرور جانا چاہیے۔

حرام اشیا کی خرید و فروخت سے اجتناب

 ایک مسلمان تاجر کو چاہیے کہ وہ خود کو حلال اشیا کی تجارت تک ہی محدود رکھے، حرام کی طرف قدم نہ بڑھائے ،گو مالی منفعت اس میں زیادہ نظر آئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی تجارت کو حرام قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال، جب کہ آپؐ مکہ ہی میں تھے ، یہ فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ حَرَّمَ بَیْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَیْتَۃِ، وَالْخِنْزِیْرِ، وَالْأَصْنَامِ، (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۴۲) یعنی ’’بے شک اللہ اور اس کے رسولؐ نے شراب، مُردار، خنزیر اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ 
 اس حدیث پر معمولی غور و فکر سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جن اشیا کی تجارت کو یہاں حرام قرار دیا گیا ہے، وہ سب اسلام میں حرام ہیں۔ لہٰذا، اس کا اطلاق ان اشیا کی تجارت پر بھی ہوگا، جن کا نام یہاں تو نہیں لیا گیا، لیکن جن کی حرمت نصوص سے ثابت ہے اور جن کے حرام ہونے پر علماے امت کا اتفاق ہے، مثلاً تمام نشہ آور اشیا، آلات غنا و مزامیر ، حرام و معصیت کے دھندوں میں استعمال ہونے والے سامان، فحش لٹریچر اور باطل نظریات پر مبنی کتابیں، عریانیت و فحاشی کو فروغ دینے والی فلمیں اور ویڈیوز اور موسیقی کے البم وغیرہ۔ ان تمام بے ہودہ اشیا کو قرآن کریم نے لَھْوَ الْحَدِیْث سے تعبیر کیا ہے، اور ان کی خرید و فروخت اور استعمال کی سخت مذمت کی ہے، کیوںکہ یہ چیزیں انسان کو دین اور فکرِ آخرت سے غافل کردیتی ہیں ، نیز اس کے اخلاق و کردار کو بھی بُری طرح متاثر کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کلامِ دل فریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے علم کے بغیر بھٹکا دے اور اِس راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑا دے۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔(لقمٰن۳۱:۶)

بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ (النور۲۴:۱۹)

افسوس یہ ہے کہ موجودہ دور میں ایسی اشیا اور ایسے اسباب و محرکات کا ایک سیلاب سا اُمڈ آیاہے، جو مذکورہ برائیوں کو فروغ دے رہا ہے اور لوگ ان میں ان کے ممکنہ نتائج اور مضمرات سے بے پروا ہوکر ملوث ہورہے ہیں، بلکہ انھیں ہنسی مذاق اور تفریح کے طور پر لیتے ہیں لیکن وہی باتیں ان کے دنیوی و اخروی خسارے کا سبب بن رہی ہیں ۔ 
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’حرام ہے تم پر مُردار جانور اور خون‘‘ (المائدہ۵:۳)۔ اس لیے اس کی تجارت بھی درست نہیں گرچہ اضطرار کی حالت میں، یعنی کسی کی جان بچانے کے لیے خون کا عطیہ دینا اور قبول کرنا دونوں جائز ہیں بلکہ قیمت دے کر لینا بھی جائز ہے،تاہم خون دینے والے کو چاہیے کہ وہ قیمت لیے بغیر صرف اللہ کی خوشنودی کی خاطر کسی کی جان بچانے کے لیے خون ہبہ کرے۔ ان شاء اللہ وہ سورۃ المائدۃ (آیت ۳۲) میں دی گئی اس بشارت کا مستحق گردانا جائے گا کہ جس شخص نے کسی کی جان بچالی تو یہ ایسا ہے گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ خون کا عطیہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اگر خون کا عطیہ دینے والوں کو سہولت فراہم نہیں کی جائے گی تو لوگ اپنے اخراجات پر کسی کو خون دینے جانے کے لیے متردد ہوں گے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے: اِنَّ اللّٰہَ اِذَا حَرَّمَ عَلٰی قَوْمٍ أَکْلَ شَیْئٍ حَرَّمَ عَلَیْھِمْ ثَمَنَہُ،یعنی ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے جب کسی قوم پر کسی چیز کے کھانے کو حرام کیا ہے، تو ان پر اس کی قیمت لینے کو بھی حرام کردیا ہے‘‘ (سنن ابی داؤد، کتاب البیوع، حدیث: ۳۰۴۳، بروایت عبداللہ بن عباسؓ)۔ اس اصول کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو تمام طرح کی حرام اشیا کی تجارت سے بچا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور تمام طریقے کی تبلیغی و اصلاحی جدوجہد کا مقصدیہ ہے کہ ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آجائے، جہاں برائیاں مفقود ہوںاور نیکیوںکا غلبہ ہوجائے ، کسی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر شخص سکون و عافیت کی زندگی گزار سکے۔ 
اس اصول کا اطلاق تجارت کے میدان میں بھی ہوتا ہے۔ ایک تاجر کو یہ غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس کی تجارت بلاواسطہ یا بالواسطہ گناہ کے فروغ میں مددگار تو نہیں ہورہی ہے، اور اگر اسے یہ یقین ہو کہ خریدار مجھ سے خریدی ہوئی چیز کا استعمال حرام مقاصد کے لیے کرے گا، تو اس کا  اس خریدارکے ساتھ معاملہ کرنا جائز نہیں ہوگا گرچہ حلال اشیا کا ہی ہو۔ مثلاً انگور بیچنے والے کو اگر یہ یقین ہوجائے کہ خریدار اس کا استعمال شراب بنانے کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ اس کا تجارتی معاملہ کرنا درست نہیں ہوگا۔
 حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انگور کو اس کے توڑنے کے زمانے میںروک لیا تاکہ اسے شراب بناکر فروخت کرے، تو وہ جانتے بوجھتے آتشِ دوزخ میں جاگھسا‘‘۔ (بُلُوغُ الْمَرَام ، ابن حجر العسقلانیؒ، کتاب البیوع، حدیث: ۷۴۹)
اسی طرح فتنے کے زمانے میں جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں، تو انھیں ہتھیار وںکا فروخت کرنا درست نہیں،کیوں کہ ان کا استعمال کسی مسلمان کے خلاف ہونے کا قوی امکان ہے اور یہ گناہ میں تعاون کی ایک شکل ہے۔ امام بخاریؒ نے عمران بن حصینؓ کے سلسلے میں یہ نقل کیا ہے کہ وہ فتنے کے دور میںہتھیاروں کی فروخت کو مکروہ قرار دیتے تھے۔ روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: وَکَرِہَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ بَیْعَہُ فِي الْفِتْنَۃِ، یعنی ’’عمران بن حصینؓ نے فتنے کے زمانے میں اسلحے کی فروخت کو مکروہ قرار دیا ہے‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث:۲۱۰۰)
حرام کاروبار کے لیے جگہ فراہم کرنے یا فروخت کرنے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے کہ اگر یہ علم ہوجائے کہ خریدار اس جگہ کا استعمال غلط اور حرام مقاصد کے لیے کرے گا تو اس کے ساتھ معاہدۂ بیع کرنا درست نہیں ہوگا، اور اگر معاہدے کے وقت اس کی نیت معلوم نہ ہوسکی اور آگے چل کر اس نے اس جگہ کا غلط استعمال شروع کردیا تو فروخت کرنے والے پر اس کا گناہ نہیں ہوگا۔ دوسرے معاملات کو بھی ان مثالوں پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔

ملکیت اور قبضے کے بغیر بیع سے پرہیز

 جو اشیا حلال ہیں، ان کی تجارت میں بھی یہ اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو چیز اپنے قبضے میں نہ ہو، اس کی بیع سے پرہیز کرے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرمایا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع کیا ہے کہ اس چیز کو بیچوں جو چیز میرے پاس نہ ہو‘‘۔ (جامع ترمذی، کتاب البیوع، حدیث: ۱۲۳۵)۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ حکیم بن حزامؓ نے عرض کیا : یا رسولؐ اللہ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس موجود نہیںہوتی، تو میں اس سے اس کا معاملہ کرلیتا ہوں۔ پھر اس چیز کو اس کے لیے بازار سے خرید لاتا ہوں (اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں)۔ آپؐ نے (یہ سن کر) فرمایا: لَا تَبِعْ مَا لَیْسَ عِنْدَکَ،یعنی ’’تم کسی ایسی چیز کی بیع نہ کرو جو تمھارے پاس نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، حدیث: ۴۶۱۳)
سنن نسائی کے اسی باب میں ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ عَلٰی رَجُلٍ بَیْعٌ فِیـْمَا لَا یَمْلِکُ،یعنی ’’آدمی اس چیز کی بیع نہیں کرسکتا جس کا وہ مالک نہیں ہے ‘‘۔ (سنن نسائی، کتاب البیوع، حدیث: ۴۶۱۲)۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے ہی اس سلسلے میں ایک روایت ابن ماجہؒ نے نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں: لَا یَحِلُّ بَیْعُ  مَا لَیْسَ عِنْدَکَ، یعنی ’’جو چیز تمھارے پاس نہ ہو اس کا فروخت کرنا تیرے لیے حلال (جائز) نہیں ہے ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، حدیث: ۲۱۸۸) 
اس حکم کے پیچھے حکمت یہ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ وہ سامان بازار میں نہ ملے، جس کی قیمت پہلے ہی لے لی گئی ہے۔ اگر مل جائے تو اس کا بھی امکان ہے کہ گاہک سے لی گئی قیمت سے کم یا بہت زیادہ قیمت میں ملے۔ یہ بھی کہ بازار سے خرید لانے کے بعد وہ گاہک کو پسند آئے یا نہ آئے۔ ان سب صورتوں میں تاجر اور گاہک کے مابین اختلاف اور جھگڑے کا قوی امکان ہے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کی بیع سے منع فرما دیا، بلکہ تاجر اگر کوئی سامان خرید بھی چکا ہو، مگر وہ اس کے قبضے میں ابھی تک نہ آیا ہو تو بھی اس کا بیچنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں بھی رسولؐ اللہ کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح قبضے میں نہ لے لے ‘‘۔(بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۶)
حکیم بن حزامؓ سے ہی اس طرح روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ میں ایک غیرمعمولی کاروباری آدمی ہوں تو میرے لیے کون سی چیز حلال ہے اور کون سی چیز حرام ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا: ’’کسی بھی چیز کو اس وقت تک فروخت نہ کرو، جب تک اسے قبضے میں نہ لے لو ‘‘۔ (معجم الکبیر ، طبرانی، جلد۳، حدیث:۳۱۰۸)
امام ابوداؤدؒ نے حضرت زید بن ثابتؓ سے ایک ایسی روایت نقل کی ہے، جس سے یہ پتاچلتا ہے کہ خریدی ہوئی منقولہ شے پر (یعنی وہ چیزجو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جاسکے) صرف قبضہ کافی نہیں بلکہ جب تک اسے خریدنے کی جگہ سے منتقل کرکے اپنے ٹھکانے پر نہ لے آئے، اس وقت تک اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو ان کا خریدا ہوا تیل بازار میں اسی جگہ فروخت کرنے سے یہ کہہ کر روکا:یعنی ’’اسے فروخت نہ کرو جہاں پر تم نے خریدا ہے، حتیٰ کہ تم اسے اپنے ٹھکانے پر لے جاؤ، کیو نکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودے کو اسی جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے، جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتیٰ کہ تجار اسے اپنے گھروں کی طرف لے جائیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ، حدیث: ۳۴۹۹)
 یہاں یہ سوال کسی کے بھی ذہن میںآسکتا ہے کہ آخر اس حکم کی حکمت کیا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی بات تو یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ایک طرح سے کرنسی کے بدلے زائد کرنسی کی بیع ہے (جو کہ شریعت میں درست نہیں)۔ کیونکہ اس میںدوسرے تاجر کی عملی طور پر کوئی خدمت شامل نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے کہ سامان وہیں کا وہیں پڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضرت طاؤس کے سوال پر بتائی، جسے امام بخاریؒ نے روایت کیا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: ’’یہ تو روپے کا روپے کے بدلے بیچنا ہوا اور غلہ توبعد میں دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۲)
 دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پہلا تاجر جب یہ دیکھے گا کہ دوسرا بغیر کسی محنت کے بہت زیادہ نفع حاصل کر رہا ہے، تو اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ کیوں نہیں وہ پہلی بیع کو فسخ کرکے تیسرے شخص سے براہ راست زیادہ قیمت پر معاملہ کرلے ؟ اس طرح وہ قبضہ نہ دینے اور پہلی بیع کو فسخ کرنے کے حیلے بہانے بناسکتا ہے، جس سے آپس میں جھگڑے کی نوبت آسکتی ہے۔ اگر وہ قبضہ دے بھی دے تو اس زائد نفع سے محرومی کا احساس اسے ستائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ ایسا کرنے میں باربرداری کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کے روزگار کے متاثر ہونے کا بھی قوی امکان ہے جس سے حفاظت مقصود ہے۔ چوتھی بات یہ کہ قبضے میںلیے بغیر آگے فروخت کرنے کا یہ سلسلہ اگر یوں ہی چلتا رہا، جیساکہ کسی صنعت و حرفت کی کمپنی سے نکلنے والی مصنوعات یا درآمدات کے ذریعے بازار میں آنے والی اشیا کے ساتھ اکثر دیکھنے کوملتا ہے، تو اصل صارف (consumer)  تک پہنچتے پہنچتے متعلقہ شے کی قیمت بڑھ کرکہیں سے کہیں پہنچ جائے گی۔ کیوںکہ بیچ کا ہر تاجر کچھ نہ کچھ نفع پر ہی اگلے تاجر کو سامان فروخت کرے گا۔ اس عمل کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی نقصان تو اصل صارف کو ہی برداشت کرنا پڑے گا جو کہ ایک عام آدمی ہے۔ 
تاہم، اس مسئلے پر فقہا کے درمیان اختلاف راے ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک قبضے سے پہلے صرف غلے کا فروخت کرنا جائز نہیں، باقی تمام اشیا کا بیچنا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور امام یوسفؒ کے نزدیک اشیاے منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا قبضے سے قبل بیچنا جائز نہیں، لیکن عقار، یعنی زمین کا بیچنا جائز ہے۔ امام احمدؒ کا بھی بظاہر یہی مسلک ہے۔ امام شافعیؒ اور حنفیہ میں سے امام محمدؒ کے نزدیک کسی بھی چیز کو خواہ وہ غلہ ہو یا اشیاے منقولہ میں سے کوئی اور چیز ہو یا پھر زمین، خریدنے کے بعد قبضے سے قبل فروخت کرنا درست نہیں۔ (مظاہر حق جدید، جلد۳، حدیث ۴۹۶)
امام بخاریؒ نے اس سلسلے میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا یہ قول نقل کیا ہے: أَمَّا الَّذِي نَھَی عَنْہُ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَھُوَ الطَّعَامُ أَنْ یُبَاعَ حَتّٰی یُقْبَضَ یعنی ’’نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز سے منع فرمایا تھا، وہ اس غلے کی بیع تھی جس پر ابھی قبضہ نہ کیا گیا ہو ‘‘۔ پھر ابن عباسؓ نے فرمایا: وَلَا أَحْسِبُ کُلَّ شَیْئٍ  اِلَّا مِثْلَہُ ‘‘ یعنی میرا گمان یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہر چیز اسی ( غلہ) کی مانند ہے۔ (بخاری، کتاب البیوع، حدیث: ۲۱۳۵)
گویا انھوں نے بھی اس مسئلے میں غلے پر ہی غیر غلے کو قیاس کیا اور کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد قبضے سے پہلے بیچنے کو صحیح نہیں ٹھیرایا اور اسی راے کو امام شافعیؒ اور امام محمدؒ نے اختیار کیا ہے جس کی مطابقت حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابت ؓکی روایات سے بھی ہوگئی۔رہی یہ بات کہ واضح نصوص، یعنی حضرت حکیم بن حزامؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ کی روایات کی موجودگی میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو قیاس کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ    یہ عین ممکن ہے کہ ان تک اس وقت تک یہ نصوص نہ پہنچے ہوں جیساکہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ حکم اس وقت تک نہ پہنچا تھا جب حضرت زید بن ثابتؓ نے ان کے تیل کی تجارت میں مداخلت کی۔ 
اسی خدشے کا اظہار علامہ شوکانیؒ نے اس مسئلے کی بحث میں نیل الاوطار میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ابن عباسؓ نے قیاس کا استعمال کیا اور یہ شاید اس وجہ سے ہو کہ ان تک ضروی نصوص  نہ پہنچے ہوں کہ سودے میں تمام اشیا غلے کی مانند ہیں (نیل الاوطار شرح منتقی الأخبار،  کتاب البیوع،ص۹۸۶ )۔اس لیے احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ ایک مسلمان تاجر کوئی بھی چیز،  گو اس نے اسے خرید لیا ہو، اپنے قبضے میں آنے سے قبل کسی کو فروخت نہ کرے ۔

 تجارتی معاملات باہمی رضامندی سے طے کرنا

 بیع و شراء کے انعقاد کی بنیادی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ معاملہ بائع اور مشتری کی باہمی رضامندی سے طے کیا جائے۔ بیچنے والا اپنے اختیار سے اپنی چیز بیچے اور خریدنے والا بھی اپنے اختیار اور خوشنودی سے اسے خریدے۔ اگر کسی جانب سے بھی دوسرے فریق کو مجبور کرکے معاملہ کرایا گیا، جب کہ وہ دل سے اس پر راضی نہ تھا، تو یہ بیع درست نہیں ہوگی بلکہ منعقد ہی نہیں ہوگی۔ کیوںکہ فرمان الٰہی ہے: 
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ ۝۰ۣ (النساء۴: ۲۹)اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، اِلاّ یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضامندی سے وجودمیں آئی ہو۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے: إِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ، یعنی ’’بیع (فریقین کی) باہمی رضامندی سے ہی ہوتی ہے ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت، بابُ بَیْعِ الْخِیَارِ، حدیث: ۲۱۸۵، بروایت ابوسعید خدریؓ)۔آپ ؐکا یہ بھی فرمان ہے: ’’کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیںکہ وہ اپنے بھائی کا عصا بھی اس کی خوشنودی و رضامندی کے بغیر لے ‘‘۔ (صحیح ابن حبان بہ ترتیب ابن بلبانؒ، کتاب الجنایات،حدیث: ۵۹۷۸، بروایت ابوحمید ساعدیؓ)
یہ حدیث اس معاملے میں، یعنی بغیر رضا مندی کے کسی بھائی کی کوئی چیز لینے کی حرمت کی شدت کو واضح کررہی ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل امر نہیں، کہ لاٹھی جیسی معمولی چیز بھی جب کسی سے بغیر اس کی رضامندی کے لینا حلال نہیں، تو دوسری اہم چیزیںکیسے حلال ہوسکتی ہیں؟ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ خرید و فروخت کے ہر معاملے میں اس بنیادی اصول کا لحاظ رکھے بصورت دیگر وہ دوسرے کا مال باطل طریقے سے ہڑپ کر لینے والوں میں شمار کیا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ یہ رضامندی حقیقی ہونی چاہیے، رسمی اور جبری نہیں، نہ دھوکے اور فریب کے ذریعے اس کی اصل قیمت سے دوسرے فریق کو اندھیرے میں رکھا گیا ہو۔ اگر ان حربوں سے رضامندی حاصل کی گئی ہو تو شریعت میں اس کا کوئی اعتبار نہیںاور متاثرہ فریق کو بیع منسوخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اپنی کوئی چیز بیچ رہا ہو، تو اسے بازار کے نرخ (rate) یا مروجہ نرخ سے بہت کم پر خریدنا، اگرچہ وہ اس پر بظاہر راضی بھی ہو، درست نہیں۔ کیوںکہ یہ بات یقینی ہے کہ مجبور شخص خوش دلی سے غیرمعمولی کم نرخ پر اپنی چیز بیچنے کو تیار نہیں ہوتا، جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی منشاء   قلبی خوشی کے موجود ہونے کی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مجبور شخص کا سامان انتہائی کم قیمت پر خریدنے کی جو روش دیکھنے کو ملتی ہے، وہ یقیناً ناپسندیدہ اور اصلاح طلب ہے کیونکہ یہ انسانی خیرخواہی کے جذبے اور دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔

 خریدار کو صحیح مشورہ دینا

 تجارت میں بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ گاہک اپنی کم علمی یا ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی چیز کی نوعیت یا خاصیت کو از خود سمجھ نہیں پاتا اور دکان دار یا تاجر ہی سے مشورہ طلب کرتا ہے۔ ایسی صورت میں تاجر کو چاہیے کہ اس کو درست مشورہ دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اَلْمُسْتَشَارُ مُؤتَمَنٌ ، ’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب الادب، حدیث: ۳۷۴۵، بروایت ابوہریرہؓ)۔اسے امانت داری کالحاظ کرتے ہوئے صحیح اور مفید مشورہ دینا چاہیے۔ جس طرح امانت میں خیانت جائز نہیں ہے، اسی طرح کسی کو غلط مشورہ دینا بھی جائز نہیں، یہ بھی دھوکا دہی کی ہی ایک صورت ہے۔ایک شخص نے آپ پر بھروسا کیا اور آپ نے اسے گمراہ کردیا۔ اس لیے تاجر کو چاہیے کہ محض ذاتی فوائد کے پیش نظر خریدار کو غلط مشورے نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کی رزّاقیت پر بھروسا رکھے، جو رزق اس کے مقدر میں ہوگا وہ ضرور مل کر رہے گا۔   اس کے اس عمل سے خریدار کا اس پر اعتماد قائم ہوجائے گا، جو انجامِ کار اس کے لیے ہی مفید ثابت ہوگا۔

 قیمت متعین کرنا ،  غیرمعین نہ رکھنا

 بیع کے منعقد ہونے کی بنیادی شرائط میں سے یہ ہے کہ مبیع، یعنی فروخت ہونے والی چیز اور ثمن، یعنی قیمت، دونوں معلوم اور معیّن ہوں۔ نیز فریقین باہمی رضامندی سے ان کے تبادلے پر راضی ہوں۔ مجہول اور غیر معین ثمن کے ساتھ بیع صحیح نہیں ہوتی، کیونکہ فقہا نے بیع کی تعریف ہی یہی بیان کی ہے کہ یہ باہمی رضامندی کے ساتھ مال کے عوض مال کا تبادلہ ہے یا ملکیت کی منتقلی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر العسقلانیؒ (م: ۱۴۴۹ء) نے بیع کی تعریف یوں کی ہے: والبیعُ نقلُ مِلکٍ اِلَی الغیر بثمنٍ ،یعنی ’’بیع (کا مطلب ) قیمت کے عوض کسی چیز کی ملکیت دوسرے کی طرف منتقل کرنا ہے‘‘۔ (فتح الباری ،ابن حجر العسقلانیؒ ، دمشق،۲۰۱۳ء، جلد ۷، ص ۵)
۲۰ویں صدی کے معروف فقیہ سیّد سابق مصریؒ (م: ۲۰۰۰ء) اپنی مایہ ناز تصنیف   فقہ السنۃ میں، بیع کی تعریف میں رقم طراز ہیں: ’’شرعًا بیع سے مراد باہمی رضامندی کے راستے سے مال کا مال کے عوض تبادلہ یا ماذون (جس کی شریعت نے اجازت دی ہے) طریقے پر کسی عوض کے بدلے مِلک کا دوسرے کے نام انتقال ہے‘‘۔ (فقہ السنۃ ، ص ۸۹۸)
اس لیے یہ ضروری ہے کہ فروخت ہونے والی چیز کی قیمت متعین کی جائے جو فریقین کے علم میں بھی آجائے، خواہ وہ معاملہ نقد ہو یا ادھار کا اور سامان کی قیمت متعین کیے بغیر کوئی بھی تجارتی معاملہ نہ کیا جائے۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ باہمی تعلقات کی وجہ سے سامان فروخت کرنے والا خریدنے والے سے یہ کہتا ہے کہ: ’آپ یہ سامان لے جائیں اور بازار میں جو قیمت رائج ہے یا جس قیمت پر لوگ اسے فروخت کر رہے ہیں، وہ مجھے آپ ادا کردیں ‘، جب کہ بازار میں رائج قیمت کا فریقین یا خریدار کو علم نہیں ہوتا۔ اس صورت میں قیمت کے مجہول (Indeterminate)  رہنے کی وجہ سے بیع درست نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جو قیمت آپ کو پسند ہو وہ دے دیں، کیوں کہ یہ عین ممکن ہے جو قیمت خریدار اپنی پسند سے دے، وہ فروخت کرنے والے کی توقع سے کم ہو،جو اس کی دل شکنی کا باعث بنے اور باہمی نزاع کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس لیے ہر حال میں سامان کی قیمت طے کرکے ہی خرید و فروخت کا معاملہ کرنا چاہیے اور اس حکم کے پیچھے حکمت یہی ہے کہ آگے چل کر آپس میں جھگڑے کا کوئی اندیشہ اور امکان باقی نہ رہے۔  یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ قیمت مروجہ کرنسی میں ہی طے ہو بلکہ ہروہ چیز جو شریعت کی نظر میں جائز ہو اور معاشرے میں اس کا بطور معاوضہ قبول کیا جانا رائج ہو، قیمت بننے کی اہل ہے ۔

 ادھار معاملات کو ضبطِ تحریر  میں لانا

یہ بھی اسلامی اصول میں سے ہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ اگر ادھار پر مبنی ہوتو اسے  ضبطِ تحریر میں لانا چاہیے۔ ایسی صورت میں قیمت کے ساتھ ادائی کی مدت اور اس کی صورت و ترکیب کا بھی طے کیا جانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ ادائی یکمشت ہوگی یا قسطوں میں؟ اور اگر قسطوں میں ہوگی تو کتنی قسطوں میں ہوگی وغیرہ؟ ان سب باتوں کو تحریر کے تحت لانا چاہیے، تاکہ آگے چل کر کسی بھی فریق کی بھول چوک سے، جس کا وقت گزرنے کے ساتھ امکان رہتا ہے، کسی قسم کی غلط فہمی اور اختلاف کی راہ ہموار نہ ہو۔ 
یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں اس کی تاکید فرمائی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْہُ (البقرۃ۲: ۲۸۲) اے ایمان والو! جب تم معینہ میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔

  آگے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَسْــَٔـــمُوْٓا اَنْ تَكْتُبُوْہُ صَغِيْرًا اَوْ كَبِيْرًا اِلٰٓى اَجَلِہٖ ۝۰ۭ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَاَدْنٰٓى اَلَّاتَرْتَـابُوْٓا (البقرۃ۲: ۲۸۲) اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو، یہ بات اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے ، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آیندہ شک میں نہیں پڑوگے۔

اس لیے اس طرح کے معاملات کو ضرور دستاویزی شکل دینی چاہیے۔ اس کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ فریقین میں سے اگر کسی کا بھی انتقال ہوجائے تو ان کے ورثا کے لیے حق کی ادائی یا وصولی دونوں ہی میں یہ دستاویز معاون ثابت ہوگی۔ بدقسمتی سے عام طور پر لوگ اس طرح کی تحریر کو باہمی اعتماد اور تعلقات کی نزاکتوں کے خلاف سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں کوتاہی برتتے ہیں، جو بسااوقات آگے چل کر نسیان یا غلط فہمی کے باعث باہمی نزاع کا سبب بن جاتاہے۔ کبھی کبھی تو مقدمہ بازی تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اس لیے ہمیںاللہ تعالیٰ کے اس حکم کی حکمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور سماجی اقدار کے خود ساختہ معیار قائم کر کے اس سلسلے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے۔ 
ساتھ ہی فریقین کو چاہیے کہ وہ معاہدۂ بیع کی پابندی کریں، فروخت کنندہ میعادِ معین سے پہلے ادائی کا مطالبہ نہ کرے اور خریدار اس سے تاخیر نہ کرے اور نہ ٹال مٹول ہی کا رویہ اختیار کرے، بلکہ حُسن ادایگی کی صورت اختیار کرے۔ قرض کی ادائی پر قادر ہوتے ہوئے بھی ٹال مٹول کا رویہ اختیار کرنا ظلم ہے۔ اس لیے اس سے بچنا ضروری ہے اور اگر کسی معقول وجہ سے خریدار وقت پر ادھار کی رقم ادا نہ کرسکے تو تاجر کو خریدار سے نرمی کا رویہ اختیار کرنا چاہیے، اسے مہلت دینی چاہیے، اور جرمانہ وصول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ سود ہی کے زمرے میں داخل ہوجائے گا۔ (جاری)