دسمبر ۲۰۱۳

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | دسمبر ۲۰۱۳ | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کو زیادہ پریشانیاں اور غم پیش آئیں وہ یوں دعا کرے: اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرے بندے کا بیٹا، تیری بندی کا بیٹا ہوں، میں تیرے قبضے میں ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میرے بارے میں تیرا حکم نافذ ہے، میرے معاملے میں تیرا فیصلہ سراسر عدل ہے، میں تجھ سے تیرے ہراس نام کے وسیلے سے جو تو نے اپنی ذات کے لیے مقرر کیا ہے یا اسے اپنی کتاب میں اُتارا ہے یا اپنی مخلوق میں کسی کو سکھلایا ہے، مثلاً فرشتوں کو یا اپنے بندوں کو وہ نام الہام کیا ہے، یا اسے اپنے علمِ غیب میں اپنے پاس مستور رکھا ہے، سوال کرتا ہوں کہ قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری فکرمندی، پریشانی اور غموں کا مداوا بنادے۔ جب بھی کوئی بندہ یہ دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کے غم کو دُور کردے گا اور غم کے بدلے میں اسے خوشی عطا فرمائے گا۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ابن ماجہ)

انسان آفات اور حوادث سے دوچار ہوتا رہتا ہے، غم اور پریشانیوں سے اسے واسطہ رہتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے ایک طرف تو ان اسباب کو اختیار کرنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے ان تکالیف کے لیے مقرر کیے ہیں۔ فقروفاقہ کی پریشانی میں رزقِ حلال کے لیے دوڑدھوپ، بیماری میں دوا اور طبیب کی طرف رجوع لیکن مسبب الاسباب اللہ رب العالمین کی طرف رجوع زیادہ ضروری ہے کہ کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع دُعا کی شکل میں ہوتا ہے، اور دُعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی جاتی ہے، کائنات پر اس کی حکمرانی اور اپنی ذات کے بارے میں اس کی تقدیر کے عقیدے کو تازہ کرکے اس کے ہرفیصلے خصوصاً اپنے بارے میں اس کے فیصلے کے عادلانہ ہونے کا حوالہ دے کر اس کے ناموں کا واسطہ دے کر اس سے سوال کیا جاتا ہے۔ تب ایسی دُعا جو  اللہ تعالیٰ اور اس کے اسما کے واسطے سے اپنی بندگی کا وسیلہ پیش کرکے کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔    یہاں جو دُعا سکھلائی گئی ہے وہ بہت مختصر ہے، اسے آدمی یاد بھی کرسکتا ہے۔ وہ دعا یہ ہے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلِ القُرٰان رَبِیْع قَلْبِیْ وَجَلَائَ ھَمِّیْ وَحُزْنِی، ’’اے اللہ! قرآنِ پاک کو میرے دل کی بہار اور میری پریشانی، فکرمندی اور غموں کا مداوا بنادے‘‘۔ دُعا سے پہلے اپنی عبدیت اور اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور اس کے اسما و صفات اور اس کی حکمرانی کا واسطہ آدمی اپنی زبان میں بھی پیش کرسکتا ہے۔


حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ ہم نے جنگ ِ خندق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! دل گلے تک پہنچ گئے ہیں یعنی خوف اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے تو کوئی خاص دُعا ہے جسے ہم وردِ زبان بنائیں، تاکہ بے چینی اور خوف کا خاتمہ ہو تو آپؐ نے فرمایا: یہ دعا پڑھو:  اَللّٰھُمَّ اسْتُرْعَوْرَاتِنَا وَاٰمِنْ رَوْعَاتِنَا، ’’اے اللہ! ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما اور ہمیں خوف سے امن عطا فرما‘‘۔ ہم نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کے چہروں پر آندھی کے تھپیڑے مارے اور آندھی کے ذریعے انھیں شکست دے دی۔(مشکوٰۃ بحوالہ مسنداحمد)

آج کل پوری دنیا میں بدامنی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ یہ دعا موجودہ حالات میں نسخۂ کیمیا ہے۔ جب بھی کفار اور شرپسند اہلِ ایمان پر حملہ آور ہوئے اس دعا کو بچائو کا ذریعہ بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کس طرح اس دعا کے نتیجے میں امداد فرماتے ہیں، غزوئہ خندق اس کی نمایاں مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہوا کے ذریعے دشمن کو مدینہ سے بھگادیا اور اہلِ ایمان کو عظیم اور حیرت انگیز فتح نصیب ہوئی۔  آج بھی اسی طرح کے کرشموں کا ظہور ہوسکتا ہے۔ ضرورت ایمان کو تازہ کرکے دل کے اخلاص سے ظاہری اسباب کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے۔ آج بھی دشمن کو بھگانے کا بہترین وسیلہ یہی ہے۔


حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد حصین سے کہا (جب کہ حصین مسلمان نہیں ہوئے تھے) آج کل کتنے معبودوں کی عبادت کرتے ہو؟ میرے والد حصین نے کہا: سات کی ، چھے زمین میں ہیں اور ایک آسمان پر ہے۔ آپؐ نے پوچھا: سخت پریشانی اور خوف میں کس کو پکارتے ہو؟ کہا کہ اسے جو آسمان میں ہے۔ آپؐ  نے فرمایا: حصین! اگر تم اسلام لے آئو تو میں تمھیں دو کلمے بتلائوں گا جو تجھے نفع دیں گے۔ عمران کہتے ہیں کہ: جب حصین اسلام لے آئے تو عرض کیا: یارسولؐ اللہ! مجھے وہ دو کلمے بتلا دیجیے جن کا آپؐ  نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ آپؐ  نے فرمایا: کہو! اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ، ’’اے اللہ! میرے دل میں میرے لیے ہدایت ڈال دے اور مجھے میرے نفس کے شر سے بچادے‘‘۔ (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی)

مشرک کئی دروازوں کا سوالی ہوتا ہے لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہ صرف اللہ کے دَر پر آجاتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اس مصیبت میں جس سے وہ دوچار ہے وہ طوفان بادوباران جس سے وہ سمندر کی طوفانی موجوں میں دوچار ہوچکا ہے، صرف اللہ کی ذات بچاسکتی ہے۔ حصین مشرک تھے تو چھے معبودوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا تھا۔ اسلام لے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں  اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنے اور تمام بھلائیاں سمیٹنے کا طریقہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرو اور اپنے نفس کے شر سے اس کی پناہ میں آجائو۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آدمی کے دل میں بھلائی القا کرتے ہیں اور تمام بھلائیوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے دیتے ہیں، اور نفس کے شر سے جو شیطان کا آلۂ کار ہوتا ہے، بھی حفاطت فرماتے ہیں۔ تب آدمی اطمینان کے ساتھ صراطِ مستقیم پر گامزن رہتا ہے اور منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔


حضر ت جابرؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس آدمی کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو عطیہ کے طور پر کاشت کے لیے دے دے۔اگر   یہ دو کام نہ کرسکے تو اُجرت پر دینے کے بجاے اپنے پاس رکھے۔(متفق علیہ)

اسلام ہمدردی اور غم گساری کادین ہے، وہ تعلیم دیتا ہے کہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرو اوراس پر آخرت میں اجر کی طلب رکھو۔ اسلام نے زکوٰۃ و صدقات اور عطیات کو رواج دیا ۔ اسی سلسلے میں عطیے کے طور پر زمین دینا بھی ہے۔ جائز ملکیت ہو اور بہت بڑی مقدار میں ہو تو ضرورت سے زائد زمین دوسرے بھائی کو مکمل طور پر عطیہ دے دے اور اسے اس کا مالک بنا دے۔ یہ سب سے اُونچادرجہ ہے دوسری صورت یہ ہے کہ ملکیت تو اپنے پاس رکھے لیکن بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اُجرت کے لیے کاشت پر دے دے اور اُجرت منصفانہ ہو تو یہ بھی جائز ہے لیکن اولیٰ پہلی صورت ہے کہ بلااُجرت کاشت کے لیے دے دے۔ اس کا اس حدیث میں ذکر ہے۔

پاکستان میں جو ظالمانہ جاگیردارانہ نظام ہے جس سے مزارعین اور ہاری دوچار ہیں، اس کی اسلام میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اتنی بڑی بڑی جاگیریں جو انگریز نے اپنے دورِ حکمرانی میں اپنے آلۂ کاروں اور کارندوں کو دوسرے مسلمانوں سے غصب کر کے ان کی چاکری کے عوض میں دی ہیں، وہ ان کے جائز مالک نہیں ہیں۔ اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ان جاگیروں کو ضبط کرے اور جاگیرداروں کے پاس اتنی زمین چھوڑ دے جو ان کے گزارے کے لیے ضروری ہے۔ باقی تمام زمین ان ہاریوں کی ملکیت میں دے جو ان زمینوں پر کاشت کاری کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندستان میں جاگیرداری نظام ختم کردیا گیا لیکن افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری نظام قائم ہے۔ حالانکہ اسلام نے جاگیرداری نظام پیدا ہی نہیں ہونے دیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دور میں فیصلہ فرما دیا کہ مفتوحہ زمینیں مقامی مالکوں کے پاس رہیں اور ان سے خراج لیا جائے۔


حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عاریتاً لی ہوئی چیز کا واپس کرنا ضروری ہے اور عطیے کے طور پر جو گائے، بھینس، اُونٹنی، بکری، دودھ کے لیے لی ہو اسے بھی لوٹایا جائے گا۔ اور قرض ادا کیا جائے گا اور ضامن تاوان دے گا۔ (مشکوۃ، ترمذی)

یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اخلاقی ہدایات ہیں جہاں آپؐ  نے یہ ہدایت کی ہے کہ اپنی چیزیں اپنے بھائیوں کو مالکانہ نہ دے سکو تو عاریتاًدے دو، وہیں یہ بھی تاکید کی ہے کہ ضرورت پورا کرنے کے بعد جس وقت مالک طلب کرے چیز اسے واپس لوٹائو۔ حفاظت پوری طرح نہ کی جائے اور چیز ضائع کی جائے تو تاوان دینا پڑے گا، قرض بھی لوٹانا پڑے گا اور جس کی ضمانت پر قرض دیا ہے یا چیز دی ہے اگر مقروض تاوان نہ دے سکتا ہو تو پھر ضامن کو تاوان دینا ہوگا، جب کہ اس نے تاوان دینے کا ذمہ لیا ہو۔ اگر صرف مقروض کو حاضر کرنے کا ذمہ لیا ہو کہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا، میں حاضر کروں گا، تو ایسی صورت میں مقروض کو حاضر کرنا ہوگا۔

آج کل لوگ قرض لے کر واپس نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ قرضِ حسن کا سلسلہ کمزور پڑگیا ہے۔ ایسی صورت میں اس بات کی مہم چلائی جائے کہ لوگ قرضِ حسن لے کر اسے واپس کریں اور اگر واپس کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو قرض نہ لیں۔ عسرت کی زندگی بسر کرنا اس سے بہتر ہے کہ آدمی لوگوں سے قرض مانگے اور پھر واپس نہ کرسکے۔ اس طرح ذلت اُٹھائے اور احسان کرنے والے کو بھی مشکل سے دوچار کرے۔ قرضِ حسن کو رواج دینے میں سودی بنکاری بھی مانع ہے۔ اس سودی بنکاری کو ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت نے سودی قرض کی وصولی اور اس پر سودی منافع دینے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملک ۱۰۰؍ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔