فروری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

انسانی رویے

ابومسعود اظہرندوی | فروری ۲۰۰۳ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

انسانی وجود کے کئی پہلو ہیں۔ وہ محض ایک بے جان مشین نہیں بلکہ روح بھی رکھتا ہے اور جسم بھی‘ عقل بھی رکھتا ہے اور احساس و جذبات بھی۔ ان میں سے ہر پہلو کے کچھ مخصوص تقاضے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اب اگر کسی ایک پہلو ہی پر نظر رکھی جائے اور دوسرے پہلو کو یکسرنظرانداز کر دیا جائے تو یہ بڑی غلطی ہوگی‘ مثلاً ایک کارخانے دار اپنے کارکنوں کے جسموں ہی پر توجہ دیتا ہے کہ وہ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور کتنی پیداوار ان سے حاصل ہوتی ہے اور ان کے احساسات و جذبات کو نظرانداز کر دیتا ہے‘ تو آخرکار کارکنوں کی معنوی پژمردگی کارخانے کی پیداوار پر بھی اثرانداز ہو کر رہتی ہے۔

آپ ایک شخص سے بات کرتے ہیں۔ آپ کا اندازِ گفتگو اس کے دل میںآپ کے لیے احترام و قدر بھی پیدا کر سکتا ہے اور بے قدری و بیزاری بھی۔ آپ کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘ آپ کے اندازِبیان سے محسوس ہو جاتا ہے کہ آپ دل سے شکریہ ادا کر رہے ہیں یا یہ محض ایک تصنّع اور بناوٹ ہے اور آپ صرف زبانی خانہ پُری کر رہے ہیں۔ ایک شخص آپ سے کوئی بات کہتا ہے‘ آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں یا محض  ہوں ہاں کر کے اسے ٹال دیتے ہیں۔ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی مختلف چیزیں آپ کے مخاطب کو آپ کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ آپ ایک بامقصد و بامعنی بات کرتے ہیں یا بے مقصد اور لایعنی بات کرنے والے ہیں۔ اس لیے طرزِگفتگو میں شائستگی اور آداب کا لحاظ رکھنا بہت اہمیت رکھتا ہے۔

انسانی رویے کے محرکات

انسانی سلوک و معاملت کے پس پشت عوامل و محرکات کا دارومدار دراصل انسان کے عقیدے اور نظریۂ زندگی پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مومن شخص سچ بولتا ہے‘ خندہ پیشانی سے پیش آتا ہے‘ وعدہ کا پابند ہے اور اسی طرح دیگر امور میں بھی خوش گوار طرزِعمل اپناتا ہے تو اس کا محرک ذاتی شرافت‘ مصلحت اورکسی نفع کی امید یا نقصان کا خوف بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاًایک شخص چوری نہیں کرتا لیکن اس کی وجہ نگرانی اور پکڑے جانے کا خوف بھی ہو سکتا ہے۔اگر یہ مصلحت یا خوف باقی نہ رہے‘ تو وہ شخص اپنے حقیقی رنگ میں آجاتا ہے۔ آج بہت سے لوگ امریکہ اور یورپ کی دیانت داری کا ذکر ستایش کے ساتھ کرتے نہیں تھکتے لیکن اسی امریکہ کے ایک شہر میں آٹھ گھنٹوں کے لیے بجلی چلی جاتی ہے--- اور یہ بہت مشہورواقعہ ہے--- تو اس مختصر وقفے میں چوری کی ۵ ہزار وارداتیں درج کرائی جاتی ہیں کیونکہ بجلی چلے جانے کی وجہ سے کیمروں نے کام کرنا بند کر دیا تھا اور لوگوں کو پکڑے جانے کا ڈر نہیں رہ گیا تھا۔

لیکن ایک مومن کے محرکات و عوامل اس سے مختلف ہوتے ہیں۔

مومن کو اللہ کا نیک بندہ اور شریف انسان بننے کی ہدایت کی گئی ہے۔ چنانچہ وہ بندگانِ خدا کے ساتھ حسن سلوک دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لیے کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ ’’لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سب سے اچھے اخلاق کا حامل ہو‘‘۔ بہترین اخلاق پر مومن اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر وثواب کا امیدواررہتا ہے۔ خوش اخلاقی کامظاہرہ اس کی ذاتی مصلحت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ اس کے مقصدِ زندگی کا عین تقاضا ہوتا ہے‘ چاہے لوگ خوش ہوں یا ناراض‘ تعلقات خوش گوار ہوں یا ناخوش گوار‘ محبت و اعتماد حاصل ہوتا ہو یا نہ ہوتا ہو‘ وہ بہرصورت اپنے رب کو خوش رکھنے کے لیے کوشاں رہتاہے۔ یہی اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اس سے بہترین اخلاق پر برابر قائم رہنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’انسان اپنے اچھے اخلاق کی بدولت مستقل طور پر رات کو نمازیں پڑھنے والے اوردن میں روزے رکھنے والے شخص کے درجات حاصل کر لیتاہے‘‘۔

خوش اخلاقی مومن کی بہترین صفات میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم فرماتے ہیں: ’’مومن (دوسروں سے) مانوس ہوتا بھی ہے اور انھیں مانوس کرتا بھی ہے۔ اور جو ایسا نہ کرے اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ لوگوں میںسب سے بہتر وہ شخص ہے جولوگوں کوسب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔ (جامع صغیر)

اللہ تعالیٰ نے جس طرح بہترین اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ہم اللہ کے راستے کی طرف بھی لوگوں کوحکمت اور بہترین خیرخواہی کے ساتھ دعوت دیں۔

اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ (النحل ۱۶:۱۲۵) اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو‘ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا تو سب سے اچھی بات ہے ہی‘بلانے کے لیے انداز بھی حکیمانہ اور دل کو  موہ لینے والااختیارکرنا چاہیے۔

اللہ تعالیٰ نے خود رسولؐ اللہ کی صفت نرم دلی بتائی ہے جو انسان کو خوش گوار سلوک کا پیکر بناتی ہے۔ فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَ نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران ۳:۱۵۹)’’یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لیے نرم دل واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمھارے گردوپیش سے چھٹ جاتے‘‘۔

بہترین سلوک کی ایک شکل غلطیوں سے درگزر کرنا بھی ہے۔ یہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ کسی قدیم دانش ور کا قول ہے کہ لوگوں کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرنا نصف عقل ہے۔

اگر اخلاق کی پشت پر کارفرما عوامل بہترین اور پسندیدہ نہیں ہوتے توان کی بنیاد نہایت کمزور اور ناپایدار ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اثرات بھی وقتی اور ناپایدار ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ماتحت اپنے افسر کے ساتھ بظاہر بڑے اخلاق سے پیش آتے ہیں‘ اس کی خوشی و غم میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس کے ریٹائر ہوجانے پراس سے کوئی ربط و تعلق باقی نہیں رہ جاتا۔ اگر تعلق کی بنیاد خلوص اور بے غرضی ہوتی‘ تو ربط و تعلق کا یکسر خاتمہ نہ ہو جاتا۔

جس طرح اچھے اخلاق کی بنیاد خدا ترسی اور اس کی رضا کا حصول ہے‘ اسی طرح اس کے کچھ ضابطے اور احکام بھی ہیں جو ہمارے اپنے مقرر کردہ نہیں بلکہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہیں۔ جس چیز کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ حرام اور قابل اجتناب ہے اور جس چیز کو لازم قرار دیا گیا ہے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجایش نہیں۔ مثلاً والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی طرح جن امور کی نشان دہی رسولؐ اللہ نے فرمائی ہے ان میں بھی کسی چوں چرا کی گنجایش نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے لیے ان میں سراسر بھلائی ہی بھلائی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سے واقف ہونے کی ہم مسلسل اور سنجیدہ کوشش کرتے رہیں اور جس حد تک واقفیت ہو‘ ان پر عمل پیرا ہوں۔

طرزِ سلوک

لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ معاملہ کے کچھ فطری اصول وقواعد ہیں جو ساری دنیا میں اور تمام قوموں میں تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن انھیں تسلیم کرنے اور ماننے کا فائدہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہماری زندگی مخلصانہ طور پر ان ہی اصولوں پر استوار ہو اور حالات کی نرمی و سختی ہماری راہ میں حائل نہ ہو سکے۔

نارمل لوگوں کے ساتھ تو اکثر ان ہی قواعد کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ یہ انسان کی فطرت ہے کہ اس کے ساتھ اگر حسنِ سلوک ‘ عزت اوراحسان کا معاملہ کیا جاتا ہے تودل میں قدر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص نارمل نہیں ہے‘ تو اس سے معاملہ کرتے وقت اس کے مزاج و طبیعت کا لحاظ رکھا جائے۔

اپنے علم و ادراک اور فہم و شعور کے اعتبار سے بھی لوگوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک انسان ذہین اور سمجھ دار ہوتا ہے۔ دوسرا کم عقل اور کم فہم ہوتا ہے‘ اس کا علم بھی کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی ذہانت اور صلاحیت کے مطابق ہی ان سے گفتگو کی جائے۔ یہی نصیحت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے اس قول سے بھی ملتی ہے کہ ’’تم لوگوں سے اگر کوئی ایسی بات کروگے جو ان کے ذہن سے بلند تر ہو تو وہ بات ان کے لیے فتنہ بن جائے گی‘‘ (مسلم)۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ وہ یا تو اس بات کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے یا غلط سمجھ بیٹھیں گے۔

لوگ کیا پسند کرتے ہیں

یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ اس شخص کو پسند کرتے ہیں جو ان میں ذاتی طور پر بھی دل چسپی لیتا ہو‘ ان کے خیالات و مسائل پر بھی توجہ دیتا ہو‘ جو ان کی ضروریات پوری کرتا ہو اور انھیں تحفے تحائف سے بھی نوازتا ہو۔ حدیث میں آتا ہے: ’’باہم تحفے دیا کرو‘ اس سے باہمی محبت پیدا ہوتی ہے‘‘ (مؤطا)۔ تحفہ چاہے معمولی قیمت ہی کا کیوں نہ ہو‘ اس سے توجہ اور یگانگت کا اظہار ہوتاہے۔ کھانے کی دعوت بھی لوگوں کے درمیان قربت پیدا کرنے کاذریعہ بنتی ہے۔

اگرچہ کسی شخص کو کسی کام کے کرنے یا اس سے باز رہنے کا مشورہ دینا بھی نیکی ہے‘ لیکن بہت سے لوگوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ آپ جس چیز کی طرف دعوت دینا چاہتے ہیں‘ حسنِ سلوک اور حسنِ اخلاق کے ذریعے دیں‘ اس سے بھی دل چسپی پیدا ہو جاتی ہے۔  طبرانیمیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جولوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کر دیں‘ یا اس کی کوئی پریشانی دُور کردیں‘ یا اس کا کوئی قرض ادا کر دیں‘یا اس کی بھوک مٹا دیں۔ اگر آپ اپنے بھائی کے ساتھ اس کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے جائیں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ ایک مہینے تک مسجد میں اعتکاف کیے رہیں‘‘۔

اگر ذمّے داران اور ملازمین یہ سمجھ لیں کہ لوگوں کے معاملات جلدنمٹانا‘ بلاتاخیر ان کی ضرورت پوری کرنابھی حسنِ سلوک سے تعلق رکھتا ہے اور باعث اجر ہے‘ تو وہ جلد جلدمعاملات کو نمٹانے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لوگ ٹھیک طور سے اسلامی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے لگیں تو معاشرہ مثالی بن جائے اور ہم مغربی ممالک کی مثالیں نہ دیں۔

فرانس میں ایک بار ایسا ہوا کہ کارخانوں کے ملازمین نے ہڑتال کر دی ‘لیکن کچھ ملازمین ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ وہی لوگ تھے جن کے افسران اور ذمّے داران ان سے ذاتی روابط رکھتے تھے‘ مسائل حل کرنے میں ان کی مدد کرتے تھے اور انھیں مشینوں کے بجائے باعزت انسان قراردیتے تھے۔ جن کارخانوں اوردفتروں میں ملازمین کے ساتھ ذمّے دار حضرات ہمدردی و انسانیت کاسلوک کرتے ہیں وہاں ملازمین بھی خوش دلی کے ساتھ ان کا حکم مانتے اور اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر ان کارخانوں کی پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے۔

لوگوں کو یہ اچھا لگتا ہے کہ کوئی ان کی باتیں توجہ سے سنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ یہ نہیں کہ ہمیشہ اپنی ہی باتیں سناتا رہے۔ اگر آپ اچھی گفتگو کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو پہلے اچھے سننے والے بنیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں آپؐ صحابہ کرامؓ کی ضرورتوں سے واقف ہو کر ان کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

دُکھ سکھ ‘ ملازمت کے لیے تقرری‘ ترقی اور شادی و غمی وغیرہ سے متعلق لوگوں کے ذاتی مسائل میں دل چسپی لینا اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویّہ اختیار کرنا محبت و یگانگت کا باعث ہوتا ہے۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ گفتگو میں بے مقصد تکرار اور بحث و مباحثہ پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ دوسرے کی عزت کریں گے تو وہ آپ کی عزت کرے گا۔ انسان کے اندرچھپے ہوئے پاکیزہ جذبات کو اُبھارنا چاہیے اوراس پہلو کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی کو بھی اپنے مقابلے میں کم تر سمجھنا اور اسے حقارت کی نظر سے دیکھنا انسانیت و شرافت کا نہیں‘ شیطنت اور کمینگی کا خاصہ ہے۔ اپنے عیوب اور خامیوں پراور دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھنا حقیقی انسانی شخصیت کے ارتقا کا باعث ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے منصب یا عمر والوں کی بھی عزت کرنی چاہیے اوران سے بھی مشورہ کرنا چاہیے۔

جن لوگوں سے آپ کو سابقہ پڑتا ہے انھیں مناسب مواقع فراہم کر کے ان میں خود اعتمادی پیدا کیجیے۔ کسی کی صلاحیتوں کو نظراندازکرنا اس کے اندر دل شکستگی اور بیزاری پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ مومن اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے‘ تاہم انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ قدردانی اور حوصلہ افزائی کو پسند کرتا ہے۔

ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے انسانوں کا شکریہ نہیں ادا کیا اس نے اللہ تعالیٰ کا شکر بھی نہیںکیا‘‘۔ کسی کے حق میں کلمۂ خیر کہنا اور اسے دُعا دینا بھی حوصلہ افزائی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جس سے مزید اچھے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ہاں‘ کسی کی جھوٹی تعریف نہیںکرنی چاہیے۔

یہ بھی ایک بہت اہم اور پسندیدہ بات ہے کہ لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے ان کی غلطیوں اور خامیوں کی حکمت و دانائی سے اصلاح کی جائے اور مثبت پہلو اُبھارا جائے۔ مثلاً ایک صاحب علم شخص آپ سے مشورہ کرتا ہے کہ وہ تجارت کرنا چاہتا ہے۔ آپ اس کے اندر نہ اس کا ذوق پاتے ہیں اور نہ اس کی صلاحیت‘ تو آپ اس سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک صاحب ِ قلم و صاحب ِ فکر شخص ہیں‘ اس میدان کو نہ چھوڑیے۔ اس کے بجائے اگر آپ نے کچھ ایسی بات کہہ دی کہ وہ کوئی کاروباری صلاحیت ہی نہیں رکھتا تو عین ممکن ہے کہ آپ کی بات اسے ناگوار ہو۔

یہ بات بھی لوگوں کو اچھی لگتی ہے کہ انھیں اچھے ناموں سے پکارا جائے‘ تحقیر آمیز انداز نہ اختیار کیا جائے۔

لوگ کیا ناپسند کرتے ہیں

اس میں اختلاف رائے نہیں ہو سکتا کہ لوگ برسرِعام نصیحت کو ناپسند کرتے ہیں اور ہرگز نہیں چاہتے کہ ان کے عیب اور برائیاں لوگوں کے سامنے بیان کی جائیں۔ اگر کسی شخص کونصیحت کرنا چاہتے ہیں تو تنہائی میں کیجیے۔ اس طرح وہ شخص نصیحت قبول کرنے کی طرف زیادہ مائل ہوگا اور اس کے دل میں آپ کی قدر اور احسان شناسی کا جذبہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔

بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی نصیحت سے انسان فوراً مکمل طور پر بدل جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نصیحت کو سمجھنے‘ قبول کرنے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو بدلنے کے لیے انسانی مزاج کو وقت درکار ہوتا ہے۔

انسان براہِ راست نکتہ چینی پسند نہیں کرتا۔ اسے یہ بھی گراں گزرتا ہے کہ اس سے حکم کے انداز میں کہا جائے کہ یہ کرو‘ وہ نہ کرو۔ اگر وہی بات مناسب موقع پر اور حکمت کے ساتھ کہی جائے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ زیادہ قابل قبول ہوگی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکمت و نرمی والا اسلوب اختیار فرماتے تھے۔ مثلاً کچھ خستہ حال لوگ آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ ان کی حالت دیکھ کر متاثر ہوئے اور مسجد میں ان کی مدد پر اُبھارنے کے لیے لوگوں کے سامنے تقریر فرمائی۔ لیکن بجائے براہِ راست حکم دینے کے آپؐ نے ماضی کے واقعے کے طور پر ذکر فرمایا کہ کسی نے دینار و درہم صدقہ کیا‘ کسی نے کپڑے اور کسی نے کھجور۔ اس کے بعد ایک انصاری کافی کھجور لاد کر لائے۔ بوجھ سے ان کے پیر کانپ رہے تھے۔ آپؐ کا چہرہ کھل گیا۔ دوسرے لوگ بھی لا لا کر آپؐ کے پاس ڈھیر کرتے رہے۔ آپؐ نے خوش ہو کر فرمایا: ’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ نکالا اسے وہ طریقہ اختیار کرنے والوں کے برابر ثواب ہمیشہ ملتا رہے گا‘‘۔ (مسلم)

غور کیجیے آپؐ نے کس حکمت کے ساتھ لوگوں کو صدقہ کرنے پر اُبھارا اور پھر کس طرح صدقہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

ایک استاد اپنی میز کلاس روم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ طلبہ بھی اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اب اگر وہ کہتا ہے کہ آئو یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دیں‘ یا اس طرح کہتا ہے کہ اگر یہ میز اُٹھا کر وہاں رکھ دی جائے تو تم لوگوں کے خیال میں کیسا رہے گا؟ نتیجہ دونوں صورتوں میں ایک ہی نکلے گا‘ لیکن دوسری صورت طلبہ کے لیے زیادہ پسندیدہ ہوگی۔

ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ جوکام کرانا چاہتے ہیں اس کی اہمیت مخاطب کے دل میں پیدا کردیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپؐلوگوں کو جو حکم دینے والے ہوتے پہلے اس کے بارے میں شوق پیدا کردیتے‘ مثلاً غزوئہ خیبر کے موقع پر ایک دن آپؐ نے فرمایا: ’’کل میں جھنڈا اس شخص کو دوںگا جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کو محبت ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ ہر شخص تمنا کرنے لگا کہ کاش وہ شخص میں ہی ہو جائوں‘ یا مثلاً آپؐ نے حضرت ابوذرغفاریؓ کو امارت سے منع کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمھارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو خود اپنے لیے پسند کرتا ہوں۔ کبھی دو آدمیوں کے بھی امیر مت بننا‘‘۔ (مسلم)

ایک شخص چند مہمانوں کوکھانے پرمدعو کرتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی اہلیہ کو براہِ راست حکم دیتا ہے کہ فلاں فلاں چیز پکا لو۔ پھر بعد میں نکتہ چینی کرتا ہے کہ فلاں چیز کیوں بھول گئیں تو اس انداز میں‘ اور اس طریقے میں زمین آسمان کا فرق ہو جائے گا کہ وہ اپنی اہلیہ سے کہے کہ آج فلاں وقت کچھ مہمان آنے والے ہیں اور کھانے سے گھر والوں کے ذوق ومعیارکاپتا چلتاہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگوں کا سرنیچا نہ ہونے پائے۔ ایسی صورت میںاہلیہ زیادہ خوش دلی اور توجہ سے کام کرے گی۔

لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ ان کے عیبوں اور خامیوں کو تو تلاش کیا جائے اوران کی اچھائیوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے۔ اگر اس کی کوئی بات اسے ناپسند ہے تو کوئی دوسری بات پسند بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ (مسلم)

کوئی شخص بھی خامیوں سے مبرا نہیں ۔ اور نہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک شخص میں خامیاں ہی خامیاں ہوں اور خوبی کوئی نہ ہو۔ ایسے شخص کی تلاش جس میں صرف خوبیاں ہی خوبیاں ہوں‘ کوئی بھی خامی نہ ہو‘ محض خیالی بات ہو گی۔ ہم بعض لوگوں کی کچھ چیزیں ناپسند کرتے ہیں لیکن جب وہ ہم سے دُورہو جاتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے اوروہ ان سے بدتر ثابت ہوتے ہیں تب پہلے لوگوں کی قدر معلوم ہوتی ہے۔

زندگی گزارنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک طریقہ منفی ہے۔ اس کی بنیاد لوگوں کی برائیوں ہی پر نظر رکھنے پر ہوتی ہے۔ اس میںغلطیاں اصلاح کی خاطر نہیں دیکھی جاتیں بلکہ خود غرضی اورلوگوں کے استحصال کا جذبہ اس کا محرک ہوتا ہے۔ دوسرا طریقہ مثبت ہے اوروہ یہ کہ آپ لوگوں کی خوبیوں پر توجہ دیں اوران کی حوصلہ افزائی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی فضیلت کا ذکرکرتے ہوئے اسی طریقے کی نشان دہی فرماتے ہیں: ’’میں تمھیں انصارکے بارے میں وصیت کرتا ہوں‘ کیونکہ یہ لوگ میرے خاص الخاص ہیں۔ انھوں نے اپنا حق ادا کر دیا (یعنی بیعت عقبہ میں جوعہد کیا تھا وہ پورا کر دیا)۔ اب ان کے حق کی ادایگی باقی رہ گئی ہے۔ لہٰذا ان میں سے جو اچھا کرے اسے قبول کرو اور جو کوئی غلطی کر جائے اس سے درگزر کرو‘‘۔(بخاری)

لوگ ایسے اشخاص کوناپسندکرتے ہیں جوان کی غلطیوں کو بھولتے نہیں بلکہ یاد رکھتے ہیں اورموقع بہ موقع یاددلاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو معاف کر دیتے ہیں تو اس پر احسان جتاتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے کردار کو سراہا ہے جو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں‘ ان کی پردہ پوشی کرتے ہیںاور بھول جاتے ہیں۔ آپ جس کے ساتھ کوئی بھلائی کریں گے تو یہ عین متوقع ہے کہ وہ اس بھلائی کو نہیں بھولے گا لیکن احسان جتانے سے تو بھلائی تلخی میں بدل جاتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا‘‘۔ (مسلم)

اور یہ تو نہایت معیوب بات ہے کہ لوگوں کے ساتھ حقارت آمیز برتائوکیا جائے اور ان پر اپنی بڑائی جتائی جائے۔ اس کے بجائے انکسار و تواضع پر بہت زیادہ زور دیا گیاہے۔ امام احمد بن حنبلؒ کا ایک واقعہ  ان کے ایک شاگرد نے بیان کیا ہے کہ امام صاحب ایک رات میرے گھر آئے۔ دروازہ کھٹکھٹایا‘ میں نکلا توسلام کلام کے بعد فرمایا‘ آج میرے دل میں ایک چیز بار بارکھٹکتی رہی۔ میں دن میں گزرا تو آپ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ آپ سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ دھوپ میں کاغذ قلم لے کر لکھ رہے تھے۔ ایسا نہیں کرناچاہیے۔ سب لوگوں کے ساتھ ہی بیٹھنا چاہیے۔ دیکھیے امام صاحب نے تنہائی میں کس خوب صورتی کے ساتھ نصیحت کی۔ اور یہ واقعہ بیان کرنے والے بھی ان کے وہی شاگرد ہیں۔ خودامام صاحب نے کسی سے بیان نہیں کیا۔ اپنے کسی ساتھی کو بھی سب کے سامنے ٹوکنا پسندیدہ نہیں ہے۔

دوستوں کو جلد جلد ملاقات نہ کرنے پر بھی ملامت نہیں کرنی چاہیے۔دراصل محبت کا تقاضا باربار کی ملاقات سے پورا نہیں ہوتا۔ کتنے دوست ایسے ہوتے ہیں جن سے بہت دنوں کے بعد ملاقات ہو پاتی ہے لیکن ان کی محبت پختہ اور مخلصانہ ہوتی ہے۔

لوگ اس بات کو بھی پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص اپنی غلطی پر مصر رہے۔ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس کی تلافی کی کوشش کرنی چاہیے۔ غلطی سے محفوظ رہنے کی ایک اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ جس چیز کے بارے میںصحیح معلومات نہ ہوں‘ اس کے بارے میں اظہار رائے کرنے سے احتراز کیا جائے۔ کسی چیز کے بارے میں اپنی لاعلمی ظاہر کر دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

انسان کی یہ خصلت بھی بدذوقی کی علامت ہوتی ہے اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے کہ وہ ہر کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرے اور غلطیاں اورناکامیاں دوسروں کے سر ڈالے۔

مومن کا طرزِعمل

جب بندہ اپنے پروردگارپرسچا ایمان رکھے گا اور آخرت کے محاسبے پر اوراس بات پر اسے پورا یقین ہوگا کہ ہر ایک نیکی اور بدی کا اسے بدلہ ضرور ملے گا تو اس کا یہ یقین اسے اس امر کا مستحق بنائے گا کہ اللہ کی ہدایت اسے سیدھی راہ اختیار کیے رہنے کا موقع عنایت کرے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرے گا‘ اس کی نافرمانی سے بچے گا‘ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے گا۔ دیانت دار و امانت دار بن کر رہنے کی کوشش کرے گا۔ ایفائے عہد کرے گا‘ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرے گا‘ صداقت شعار ہوگا‘ اس کے لینے اور دینے کے پیمانے ایک ہوں گے اور اپنی پوری زندگی کو اسی اصول پر استوار کرنے کی کوشش کرے گا۔ اَوْفُوْا الْکَیْلَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ o وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ (الشعرا ۲۶:۱۸۱-۱۸۲) ’’پیمانے ٹھیک بھرو اور کسی کو گھاٹا نہ دو‘ صحیح ترازو سے تولو‘‘۔ وہ خرید و فروخت میں کشادہ دلی سے کام لے گا۔ دوسروں پر اپنے حقوق کے تعلق سے نرمی اختیار کرے گا‘ کسی کے ساتھ دھوکا نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ سامانِ تجارت کی قیمت بڑھا چڑھا کر نہیں بتائے گا‘ نہ جھوٹی قسمیں کھائے گا۔ وہ قیمتیں بڑھانے کے لیے ذخیرہ اندوزی بھی نہیںکرے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے غذائی اشیا ۴۰ دن تک روکے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے دُور ہو گیا‘‘ (احمد و حاکم)۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پیش نظر رکھے گا کہ سچا دیانت دار تاجر نبیوں‘ صدیقوں‘ شہیدوںاور صالحین کے ساتھ ہوگا۔

اگر وہ کسان ہے تو زمین سے غلّہ وغیرہ پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا اور     اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے مقصد سے اس پر پوری توجہ دے گا کیونکہ پیداوار کے ساتھ اسے    اجر و ثواب بھی ملے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ’’جو مسلمان بھی کوئی پودا لگاتا ہے یا کوئی کھیت بوتا ہے۔ اس سے انسان ‘ پرندے اور جانور جو بھی کھاتے ہیں اسے اس کا ثواب ملتا ہے‘‘۔

وہ لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرے گا جو اللہ اور اس کے رسولؐ کو پسند ہو۔ پڑوسیوں کے کھیتوں کی بھی حفاظت کرے گا۔ بغیر اجازت ان میں داخل نہیں ہوگا اور نہ کوئی نقصان پہنچائے گا۔ کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو کترائے گا نہیں۔ بیج اور زرعی آلات کی ضرورت ہو تو وہ بھی دے گا اور اپنے مفید تجربات سے بھی انھیں فائدہ پہنچائے گا۔ کسی کی برائی نہیں کرے گا‘ نہ کسی سے حسد کرے گا۔ اگر وہ کوئی ہنرمند ہے تو یہ سمجھ کر کہ اللہ تعالیٰ کسی اچھے کام کا اجر ضائع نہیں ہونے دیتا اور یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ جب کوئی شخص کوئی کام کرے تو اسے اچھی طرح کرے‘‘ (بخاری) ۔ اپنے ہنر کے مطابق بہترین کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ لوگوں سے جو وعدہ کرے گا اسے پورا کرے گا۔ وقت پر کام پورا کر کے دے گا۔ کسی طرح کی فریب کاری نہیں کرے گا۔ اس طرح اس کی شہرت بھی بڑھے گی اوراس کی آمدنی بھی۔ ساتھ ہی وہ قوم و وطن کی خدمت کرکے دنیا و آخرت کی سعادت بھی حاصل کرے گا۔

اگر وہ ایک معلم و استاد ہے تو اپنے فرائض کی اہمیت محسوس کرے گا اور یہ سمجھے گا کہ طلبہ کی اصلاح کا دارومدار خود اس کی اصلاح پر ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو رہنمابنائے گا کہ ’’میں تم لوگوں کے لیے ویسا ہی ہوں جیسا باپ اپنے بیٹوں کے لیے ہوتا ہے‘‘۔ وہ طلبہ سے نرمی و محبت کا برتائو کرے گا‘ ان پر سختی نہیں کرے گا۔ اپنے شریفانہ سلوک و اخلاق سے ان کی عملی تربیت کرے گا۔ ان کی تعلیمی ترقی اور کامیابی کے لیے پوری کوشش کرے گا۔ انھیں بلندہمتی اور محنت سکھائے گا۔ ساتھ ہی وہ طلبہ کی ذہنی سطح کا لحاظ بھی کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ہم انبیا کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ہم لوگوں سے ان کے مرتبہ و مقام کے مطابق برتائو کریں اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق ہی ان سے گفتگو کریں‘‘۔ اچھا استاد اپنے شاگردوں کو اپنا پورا علم سکھانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے کوئی مفید علم چھپایا وہ قیامت کے دن آگ کی لگام لگائے ہوئے پیش ہوگا‘‘۔ پھر اپنے علم کے مطابق عملی نمونہ بھی پیش کرے گا۔ تاکہ لوگوںپر علم کا فائدہ ظاہر ہو سکے اور وہ بھی علم سیکھنے کی کوشش کریں ورنہ لوگ اس کے علم کو بیکار سمجھ کر اس سے بے نیازی اختیار کریں گے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ’’جب عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا تو جاہل علم سیکھنے ہی سے رُک جاتا ہے‘‘۔

اگر وہ شاگرد طالب علم ہے تو اپنے استاد کی عزت کرے گا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے کسی درباری سے پوچھا: آج کے دور میں سب سے زیادہ معزز شخص کون ہے؟ اس نے جواب دیا: ہم تو امیرالمومنین (ہارون رشید)سے زیادہ کسی کو معزز نہیں جانتے۔ خلیفہ نے کہا: نہیں‘ کسائی مجھ سے زیادہ معزز ہیں‘ میں نے امین اور مامون (شاہزادوں) کو ان کے جوتے اُٹھانے کے لیے دوڑتے دیکھا ہے۔

غرضیکہ ہر طرح کے حالات اور اپنی ہر ایک حیثیت میں آئین و ضوابط اور پاکیزہ روایات کا پابند ہو کر رہنے کی کوشش کرے گا۔

نیکی کرنا ذمّے داری ہے

خود بھی نیکی کرنا ایک انسانی ذمّے داری ہے اور دوسروں کو نیکی کرنے پر آمادہ کرنا بھی نہایت پسندیدہ کام ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی اسے (وہ بھلائی) کرنے والے جیسا ہی اجر ملے گا‘‘۔ (مسلم)

یعنی جس نے کسی دینی یا دنیاوی بھلائی کی طرف کسی شخص کی رہنمائی کی یا اسے آمادہ کیا‘ اسے بھی بھلائی کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے بہتر نیکی لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کسی قسم کی مدد کرنا‘ انھیں سہارا دینا‘  ضرورت مند کی داد رسی کرنا‘ معذور کی مدد کرنا‘ قرض دینا‘ کوئی چیز مستعار دینا‘ تحفہ دینا وغیرہ اچھی بات ہے۔

مسنداحمد میں حضرت ابوحزی جہنیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے بارے میں دریافت کیا توآپؐ نے فرمایا: کسی بھی نیکی کو حقیروکم تر نہ سمجھو‘ چاہے کسی کو رسّی کا ایک ٹکڑا ہی دیا ہو یا جوتے کی کیل ہی دی ہو یا کسی کے برتن میں پانی ہی ڈالا ہو یا راستے سے کوئی تکلیف دہ چیز ہی ہٹائی ہو یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملے ہی ہویا ملنے پر اپنے بھائی کو سلام ہی کیا ہو وغیرہ۔

ابن حبان میں حضرت ابوذرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کے بہت سے کام گنانے کے بعد فرمایا کہ اگر کچھ بھی نہ ہو سکے تو لوگوں کو ایذا رسانی ہی سے محفوظ کردے۔

مسلمان بھائی کے حقوق ادا کرنا بھی نیکیوں میں شامل ہے جیسے مریض کی عیادت کرنا‘ مظلوم کی مدد کرنا‘ سلام کرنا‘ دعوت قبول کرنا‘ جنازے میں شریک ہونا وغیرہ۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کہتے ہیں: جو اپنے بھائی کے کسی کام سے جائے تو اس کا ہر قدم نیکی ہے۔ اسی طرح کسی تنگ دست پر قرض ہو تو اسے ڈھیل دیتے رہنا بھی نیکی ہے‘ حتیٰ کہ جانوروں سے اچھا برتائو کرنا بھی نیکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فی کل کبد رطبۃ اجر ’’ہر جان رکھنے والے جگر میںاجرہے‘‘۔

ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ایک زانی عورت نے پیاس سے تڑپتی ہوئی ایک بلی کو پانی پلا دیا تھا اس کی بخشش اسی بات پر کر دی گئی۔

جو مسلمان بھی کوئی درخت لگائے گا تو اس میں سے جو کھایا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو اس میں سے چرا لیا جائے گا وہ اس کا صدقہ ہوگا‘ جو جانور یا پرندے کھا لیں گے وہ اس کا صدقہ ہوگا اوراس میں جو بھی کم ہو گا وہ اس کا صدقہ ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا صدقہ قیامت تک کے لیے ہوگا۔

تاریخ بخاری میں حضرت جابرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی کنواں کھودا تو انسانوں‘ جنوں‘ جانوروں اور پرندوں میں سے جو بھی پیاسا پیے گا اس کا ثواب اسے قیامت تک ملتا رہے گا۔

ایک دوسری روایت میں عمارت بنانے کے سلسلے میں بھی ایسا ہی قول منقول ہے۔ اس طرح کے کام اسی لیے صدقہ جاریہ کہلاتے ہیں۔ الغرض معاشرے کو صحت مند اور خوش گوار بنانے کے لیے حتی المقدور اچھے کام کرتے رہنا انسان کی ذمّے داری ہے اور یہی مثبت اور تعمیری طرزِعمل ہے جس سے معاشرہ امن و سکون اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنتا ہے۔

سماجی خدمات

یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے اس لیے خدمت ِ خلق یا بالفاظِ دیگر سماجی خدمات کی نہایت اہمیت ہے۔ ان کے ذریعے انسان نہ صرف اپنے معاشرے کی خدمت کرتاہے بلکہ وہ پورا ماحول سازگار بناتا ہے جس میں خود اسے زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں نے سماجی خدمات میں حصہ لینا اپنی زندگی کا ایک اہم جز بنا رکھا ہے۔ تعلیمی اداروں‘ یتیم خانوں‘ بے سہارا لوگوں کے لیے پناہ گاہوں اور بیماروں کے لیے ہسپتالوں وغیرہ کا جال پھیلا کر وہ اپنے معاشرے کے دکھ درد کوبانٹنے کی کوشش بھی کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ یہ بھی انسانی سلوک کا ایک لازمی جز ہے کہ انسان حیوانوں کی سطح سے اُوپراُٹھ کر دوسرے بھائیوں کی ہمدردی اور راحت رسانی کو بھی اپنی ذمّے داریوں میں شامل سمجھے۔

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے بھی اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے جس کی وجہ سے قوم آپؐ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتی تھی۔ وحی کے نزول کے بعد جب آپؐ پر ایک طرح کی گھبراہٹ طاری تھی تو اُم المومنین حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے انھی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے آپؐ کوتسلی دی تھی کہ آپؐ رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں‘ لوگوں کے لیے مشقت اٹھاتے ہیں‘ مہمانوں کی خاطر تواضع میں کسر نہیںچھوڑتے اور لوگوں کی راحت رسانی کے لیے ایسے ایسے کام کرتے ہیں جو عام طور پر نایاب ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ آپؐ کو ضائع نہیں کرے گا۔

صحابہ کرامؓ خدمت ِ خلق کو کتنی اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ آپ ایک واقعہ سے کرسکتے ہیں:

حضرت عبداللہ بن عباسؓ مسجد میں اعتکاف کر رہے تھے کہ ایک شخص پریشان و مغموم آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے پریشانی کا سبب معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ فلاں شخص کا مجھ پر قرض ہے اور میں ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ حضرت ابن عباسؓ فوراً مسجد سے نکل کر اُس شخص کے پاس گئے اور اس سے (مہلت دینے کے لیے) بات کی۔ مقروض شخص نے عرض کیا: آپ تو اعتکاف میں ہیں‘ کیا بھول گئے؟ آپ نے فرمایا: نہیں‘ بھولا نہیں‘ لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہ زیادہ دن کی بات بھی نہیں (اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے) کہ ’’جوشخص اپنے بھائی کی ضرورت کے لیے قدم اٹھائے اور پوری کر دے تو یہ اس کے لیے دس برس کے اعتکاف سے زیادہ بہتر ہوگا‘‘۔

مسلمان کی زندگی خیرخواہی‘ عالی ظرفی اور میانہ روی سے عبارت ہوتی ہے اور وہ پورے وقار اور ذمّے داری کے ساتھ اپنی ہرڈیوٹی انجام دینے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔

انسانی مساوات

انسانوں کے ساتھ سلوک میں یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ (حضرت آدم ؑ و حوا ؑ) کی نسل سے ہیں۔ ان میں کسی طرح کا نسلی امتیاز نہیں ہے۔ دنیا کی حیثیت ایک گلشن کی ہے اور مختلف قوم و وطن اور مختلف رنگوں کے لوگ اس گلشن کے رنگ برنگے پھولوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ اس گلشن کے حسن کا ذریعہ ہے ورنہ ایک ہی رنگ کے پھول اسے کشش سے محروم کر دیتے۔ پھر علم و فضل‘ صحت و جسم‘ مال و دولت وغیرہ کی تقسیم خدا کی طرف سے ہے۔ ان میں کسی بھی بنیاد پر دوسرے انسانوں کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خدا کے نزدیک بہتر صرف وہ ہوگا جوزیادہ پاک باز ہوگا‘ لہٰذا ذہن میں کسی طرح کے تعصب و تنگ نظری کو دخل نہیں دینا چاہیے اور جب ذہن میں کوئی تنگ نظری نہیں ہوگی تو معاشرے میں عدل و انصاف کابول بالا ہوگا جس سے پورا ماحول سازگار ہوگا۔

اتحاد پسندی

فرد معاشرے کا ایک جزو ہوتا ہے‘ اس سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ وہ اختلاف کا شکار ہوں بلکہ انھیں وحدت کا سبق دیا ہے۔ توحید کے ماننے والوں پر تو یہ اور بھی لازمی ہے کہ وہ وحدت کی لڑی میں پروئے رہیں‘ اسی لیے جماعت کے ساتھ نماز کا ثواب تنہانماز سے پچیس گنا رکھاگیا ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان خود اپنے دائرے میں محدود ہو جائے بلکہ یہ ہدایت دیتا ہے کہ دیگر بھائیوں کے ساتھ منسلک و مربوط ہو کر رہاجائے۔ باہمی پھوٹ تو طاقت ور قوموں کو بھی کمزور کر دیتی ہے اور کمزور قوموں کوتو صفحۂ ہستی سے مٹا دیتی ہے۔

کسی بزرگ سے کہا گیا کہ جلدی سے مسجد پہنچیے‘ لوگ باہم لڑ رہے ہیں۔ انھوں نے دریافت کیا: کس بات پر؟ بتایا گیا کہ کچھ لوگ تراویح آٹھ رکعتیں پڑھنا چاہتے ہیں اور کچھ لوگ ۲۰ رکعتیں۔آپ کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے۔ بزرگ نے کہا: میرا فیصلہ یہ ہے کہ مسجد بند کر دی جائے اور اس میں تراویح کی نماز کی اجازت نہ دی جائے‘ کیونکہ تراویح کی نماز نفل ہے اور مسلمانوں کا اتحاد فرض ہے۔ فرض کو ختم کرنے والی نفل نماز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

جب انسان کے ذہن میں یہ سب باتیں صاف رہیںگی‘ وہ کسی تعصب و تنگ نظری کا شکار نہیں ہوگا۔ بہترین کردار و اخلاق ہر وقت اس کے ذہن نشین ہوں گے تو اس کے طرزِعمل پر لازماً ان باتوں کا بہترین اثر پڑے گا اور بہترین سلوک کا نمونہ بن سکے گا۔

انسانی طرزِعمل کی کج ادائیوں پر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کی اس روایت میں خاص طور پر روشنی ڈالی گئی ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں تمھارے برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: تم میں برا وہ ہے جو اکیلا سفر کرتا ہے‘ اپنے غلام کو پیٹتا ہے اور کسی کو مدد نہیں پہنچاتا۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا:جو لوگوں کو ناپسند کرتا ہو اور لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمھیںاس سے زیادہ برے لوگوں کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! اگر آپؐ پسند فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا: جو کسی لغزش کو قبول نہیں کرتے نہ کوئی معذرت قبول کرتے ہیں نہ کوئی خطا معاف کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: کیا میں اس سے زیادہ برے کے بارے میں نہ بتا دوں؟ لوگوں نے عرض کیا: کیوں نہیں یارسولؐ اللہ! آپؐ نے فرمایا: جس سے بھلائی کی امید نہ کی جائے اور جس کے شر سے محفوظ نہ سمجھا جائے۔ (طبرانی)