فروری ۲۰۰۳

فہرست مضامین

اخوان المسلمون: تحریکی اور عالمی مسائل نئے مرشد عام استاذ مامون الہضیبی سے انٹرویو

ترجمہ : حافظ محمد عبداللہ | فروری ۲۰۰۳ | اسلامی تحریکیں

Responsive image Responsive image

سوال: کیا نائب مرشدعام نوجوان نسل سے لینے کی بات بھی ہورہی ہے ؟

مرشدعام: ہمارے دستور کے مطابق نائب چننے کا اختیار مرشد عام کو حاصل ہے‘ وہ جسے چاہے اپنا نائب منتخب کر لے ۔ اب‘ جب کہ ہم مرشد عام کے انتخاب سے فارغ ہو چکے ہیں عنقریب نائب کے نام کا اعلان بھی کر دیاجائے گا ۔ جہاں تک اخوان المسلمون میں نئی نسل کے کردار کی بات ہے تو میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوںکہ اخوان کی قیادت حتیٰ کہ فیصلہ ساز ادارے مکتب الارشاد‘ میں بھی نوجوان موجود ہیں اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔میں یہاںڈاکٹر عبدالمنعم عبد الفتاح کی مثال دوں گا ۔ انھیں تقریباً سات سال قبل ۱۹۹۵ء میں قاہرہ میں ہونے والے مجلس شوریٰ کے اجلاس میں مکتب الارشاد کا رکن منتخب کیا گیا تھا ۔ اس وقت ان کی عمر  صرف ۴۴ برس تھی ۔ مکتب الار شاد کی ساری قیادت باقاعدہ جمہوری طریقے سے منتخب شدہ ہے ۔

  • کہا جارہا ہے کہ جماعت کے اندر مختلف پالیسیوںپر اختلاف موجودہے‘اور جماعت کی صفوں میں نئی نسل اور پرانی نسل کے درمیان کش مکش جاری ہے ؟

  • اختلافات کی سب خبریں بالکل بے بنیاد اوراس بڑے منصوبے کا حصہ ہیں جوہمارے خلاف جاری پروپیگنڈا وار اور نفسیاتی جنگ کا باقاعدہ حصہ ہیں۔ ہم دنیا کے طالب نہیں ہیں اور نہ کوئی ایسی جماعت ہی ہیں جس میں مناصب کے لیے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ اخوان کی سوچ اور طریقہ کار سے واقف نہیں ہیں۔یہ لوگ ایک اور اہم حقیقت کو بھی نظر انداز کر جاتے ہیں کہ ملک کے عام شہریوں کو حاصل آزادیاں اور حقوق بھی ہم سے چھین لیے گئے ہیں ۔ وہ بھو ل جاتے ہیں یا جان بوجھ  کر بھولنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اخوان المسلمون اس وقت بے پناہ دبائو‘ انتہائی رکاوٹوں اور دھونس دھاندلی کی فضا میں کام کر رہی ہے ۔ کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ہم اخوان پر عائد پابندیوں کو تو بھول جائیں اور مرشد عام اور نائب مرشد عام کے انتخاب اورکردار پربات شروع کر دیں؟تاہم اخوان المسلمون نے اپنے بہترین نوجوانوں کو بڑی بڑی ذمہ داریوں پر فائز کیا ہے تا کہ وہ بھی کام کا وسیع تجربہ حاصل کرلیں۔

نوجوان مکتب الارشاد میں بھی موجود ہیں اور پیشہ ور تنظیموں اور پارلیمانی پارٹی میں بھی۔ بطور مثال میں میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عصام العریان کا نام لوں گا۔ انھیں اخوان المسلمون نے سیشن ۱۹۸۷ء کے لیے پارلیمنٹ میں اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔    اللہ کے فضل و کرم سے وہ کامیاب ہوکر پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔کیا آپ جانتے ہیں ان کی عمر اس وقت کیا تھی ؟ صرف ۳۱ برس ۔یہ مثال ان لوگوں کے اعتراضات کا شافی جواب ہے جو کہتے ہیںکہ اخوان نوجوانوں کے فعال کردار کے مخالف اور ان کے آگے آنے میں حائل ہیں ۔

  • کیا جماعت کے با قاعدہ ترجمان کا نام بھی طے ہوچکاہے ؟

  • حقیقت یہ ہے کہ اخوان المسلمون میں اس نام کا کوئی منصب نہیں ہے۔ مرشدعام ہی معاملات سے بہتر انداز میںواقف ہوتے ہیں اس لیے د ستور اور ضابطے کے مطابق جماعت اور اس کی پالیسیوں کے ترجمان بھی وہی ہوتے ہیں۔ اسی طریقۂ کار پر امام حسن البنا شہید‘ محترم حسن الہضیبی اور استاذ عمر التلمسانی رحمہم اللہ کے ادوار میں عمل ہوتارہا ہے۔
  • لیکن ۱۰ برس تک ذرائع ابلاغ پر آپ کا نام بطور ترجمان لیا جاتا رہاہے ؟

  • جی ہاں ! ہمارا دستور مرشد عام کو یہ اختیاربھی دیتاہے کہ وہ کسی کو اپنا یا جماعت کا ترجمان مقرر کریں ۔ میں یہ بتاتا چلوں کہ با قاعدہ ترجمان مقرر کرنے کی روایت استاذ حامدابوالنصرؒ کے دور میں پڑی۔ اس کا بھی ایک عجیب قصہ ہے۔ جنگِ خلیج کے دوران جب عالمی ذرائع ابلاغ نے اخوان المسلمون کے موقف سے آگاہ رہنے کا خصوصی اہتمام کیا تو خبر رساں ایجنسیوں ٗ اخبارات اور عالمی ریڈیو ٹی وی کے نمایندوں کا مرکزی دفتر میںتانتا بندھ گیا۔ جسے دیکھو مرشد عام کا بیان یا انٹرویو لیناچاہتاہے۔ مرشد عام اس سے بڑی تھکاوٹ اور بوجھ محسوس کرتے ۔ایک دن ایک نیوز ایجنسی کا نمایندہ مرشد عام سے ملنے کے لیے دفتر میں آیا۔ جب وہ مجھ تک پہنچا تو پوچھنے لگا :کیا جماعت میں نمبرایک آپ ہی ہیں ؟میں نے کہا : اول تو کیا میری حیثیت تو ثانوی بھی نہیں ہے۔نمایندہ کہنے لگا: میں توصف ِاول کے قائد سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اس پرمیں نے ناظم دفتر مرحوم ابراہیم شرف کو مہمان کی رہنمائی کر نے اور استاذ حامد ابوالنصرؒ سے ملوانے کے لیے کہا ۔تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ صحافی پھر میرے سامنے کھڑا ہے ۔میں نے اس سے پو چھا کہ بھائی کیا معاملہ ہوا ہے ؟اخباری نمایندے نے بتا یا کہ مرشد عام کہتے ہیں کہ ہضیبی سے انٹرویو کرو‘وہی نمبر ایک ہے ۔انٹرویو کی تکمیل کے بعد استاذ ابو النصر نے اپنی اور جماعت کی ترجمانی کا فریضہ مستقل طور پر مجھے سونپ دیا ۔اس دن سے لے کر پانچویں مرشدعام استاذ مصطفی مشہورؒ کی وفات تک میں ہی جماعت کا با قا عدہ ترجمان رہا ہوں ۔
  • آپ جماعتی ڈھانچے میں پڑنے والی دراڑوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔خاص طور پر جماعت کے اندر سے جو نئی فکری لہریں اٹھ ر ہی ہیںاور نئی نئی تنظیمیں وجود میں آر ہی ہیں‘ ان کے بارے میںآپ کا کیا خیال ہے؟کیا اس کا یہ مطلب لیا جاسکتا ہے کہ جماعت ان لہروں کو اپنے اندر سمونے کی استطاعت نہیں رکھتی ؟

  • جس دعوت سے لاکھوںافراد وابستہ ہوں اور جسے دعوتی کام کرتے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت چکا ہو اس کے اتنے طویل سفر میں اس کے حامیوں کے درمیا ن اختلاف پید اہو جانا ایک فطری امر ہے ۔ دوران سفر بعض مقامات ایسے بھی آتے ہیں جب چند رفقا اصل دھارے کو چھوڑکر منزل تک پہنچنے کے لیے نیا راستہ اور نیامنہج اختیار کر لیتے ہیں  اوراسی کی طرف لوگوں کو دعوت بھی دیتے ہیں ۔ اس فطری عمل کو بڑھا چڑھاکر پیش کر نے کی کوشش کسی طور پر بھی درست نہیں‘ اور ان اختلافات کو جماعت کے وجود کے لیے عظیم خطرات سے تعبیر کرنا  خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں۔جہاں تک جماعتی نظم و ضبط کا تعلق ہے تو اسے آپ پوری دنیا میں اپنی آنکھو ں سے دیکھ سکتے ہیں ۔ اخوان المسلمون کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یونٹس وہا ں کے عوام کو متحرک کرنے والی واحد حقیقی‘ اور فعا ل سیاسی قوت کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عناصر جنھیں اپنا اور اپنی کرسی ٔ اقتدار کا خوف لاحق ہوتا ہے اس منظم قوت کو کنٹرول کر نے اور عامتہ الناس کو اس سے دور رکھنے کی کو ششوں میں مصروف رہتے ہیں۔
  • اخوان المسلمون اور عرب ممالک کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کا مستقبل آپ کی نظرمیں کیا ہے؟ کیا شام اور تیونس کی مانند تعلقات میں تصادم اور جمود کی موجودہ کیفیت برقرار رہے گی ؟ یا آنے والے چند برسو ں میںآپ کی حکمت عملی میں بنیاد ی فرق آئے گا ؟

  • میں دوبارہ کہوں گا کہ ہم کسی سے تصادم نہیں چاہتے‘ خاص طور پر اپنے ممالک کی حکومتوں سے تو با لکل بھی نہیں۔ ہم بھی او ر دنیا بھر میں موجود اخوان المسلمون کے تمام یونٹس بھی اسی اصول پرعمل پیراہیں ۔حکومتوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کا انحصار بڑی حد تک ان مما لک کی حکومتوں پر ہے ۔ ہم دنیا بھر کی اسلامی اور عرب حکومتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے عوام کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کریں‘اوراپنے عوام کو منصفانہ ترقی‘ حقیقی آزادی اور حریت کے یکساں مواقع فراہم کریں۔
  • اخوان المسلمون کو کئی عرب ممالک میں اب تک قانونی حیثیت کیوں حاصل نہیں ہو پائی؟

  • یہ سوال تو ان ممالک پر مسلط حکومتوں سے کر نے کا ہے جن کا بدنما چہرہ پکار پکار کر ان کے ظلم و ستم کا اعلان کر رہا ہے یا جو ظلم و ستم سے داغ دار چہرے کو نام نہاد جمہوری پردے میں چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بار ہا اعلا ن کیا جاچکاہے کہ ہم ۲۴ گھنٹے کے مختصر نو ٹس پر قانونی اور دستوری تقاضوں پر پورااترنے والی سیاسی جماعت بن سکتے ہیں اور اگر موقع ملے تو مصرہی نہیں بلکہ الجزائر ‘سوڈان‘ یمن‘ اردن‘ لبنان اور کویت میں بھی قانو نی تقاضوں پر پو را اترنے والی  پہلی جماعت ہم ہی ہوں گے۔
  • ایک ایسے وقت میں‘ جب کہ امریکہ اسلام اور اسلامی تحریکوں کے گرد دائرہ تنگ کررہا ہے  ا لجزائر‘ بحرین‘ پاکستان اور مراکش میں اسلام پسندوں کی نمایاں کامیابی اور ترکی میں تقریباً دوتہائی اکثریت سے برسر اقتدار آنے کی آپ کیا توجیہہ کریں گے ؟

  • اسلام پسندوں کی یہ کامیابیاں ا س بات کی دلیل ہیں کہ امت میں بیداری کا عمل جاری و سار ی ہے اور یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود اپنے دین کا محافظ ہے ۔ جان لینا چاہیے کہ اقوام عالم کی ضرورت صرف اور صرف اسلام ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی اور ورلڈ آرڈر دنیا کے مسائل کا حل نہیں۔ جبر و قہر کا ہر ہتھیار اور عقیدۂ اسلامی کو مٹانے‘ مغربیت زدگی کو عام کرنے اور مسلمانوں کوافتراق و انتشا ر سے دوچار کرنے کی ہر کوشش کا انجام مکمل ناکامی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔  مسلم حکو متوں کو چاہیے کہ اپنے رویے پر نظرثانی کریں اور اپنی صفوںمیں انتشار و افتراق کے بیج بونے اور اپنے اور حا ملین دعوت اسلامی کے مابین فاصلوں کو ہر گز نہ بڑ ھنے دیں۔ہماراپختہ خیال ہے کہ انتخابات خواہ دنیا میں کہیں پر بھی ہوں اگر منصفانہ ہوئے تو ان شاء اللہ اسلام پسند ہی کامیاب ہوں گے۔ اپنے حکمرانوں کو چننے کا اصل حق عوام کو ہی حاصل ہے۔ اگر عوام ہی اپنے حکام کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں اور عوام اور حکام کے درمیان تعاون ضروری ہے تو پھر باہم اتحادو یک جہتی کا مظاہرہ کر ناچاہیے نہ کہ ایسی ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا جس سے قو تیں ضائع جائیں اور ملک ترقی کی بجائے تنزل کی طرف بڑھنے لگے۔

عبد اللہ گل کی حکو مت ہمارے لیے خوشخبری ہے ۔ انصاف و ترقی پارٹی کو استنبول جیسے بڑے شہرکی مالی حالت سدھارنے کا کامیاب تجربہ بھی حاصل ہے اور پارٹی کے پاس مختلف علوم کے بہت سے ماہرین بھی موجود ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے ان کی ثابت قدمی کے لیے دعا گو ہیں۔

  • آپ کی جماعت کا فلسطین کی تحریک مزاحمت کے بارے میں کیا موقف ہے ؟ اور فلسطینی عوام کی مدد کے لیے اب تک آپ نے کیا خدمات سر انجام دی ہیں ؟

  • ذرائع ابلاغ ہم سے ایسامعاملہ کر تے ہیںجیسے ہم کوئی حزب اقتدار ہوں اور سیاسی قوت کی باگیں بھی ہمارے ہی پاس ہو ں‘ اور ہم سے اس طرح کے سوالات شروع کردیتے ہیں کہ ٓاپ نے اس مسئلے کے حل کے لیے کیا خدمات سر انجام دی ہیں ؟ذرائع ابلاغ اس حقیقت کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمیں  ہر قسم کے سیاسی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔جہاں تک مسئلہ فلسطین کا تعلق ہے‘ ہمارے نزدیک اس مسئلے کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ہمارے دین کا جز بھی ہے اور اس کے لیے مدد بھی ہم پر فرض ہے۔ہمار اعقیدہ ہے کہ قیامت کے روز ہم سے اس بارے میں پوچھاجانا ہے۔اور قیامت کے دن یقینا تمام حکمرانوں سے بھی ضرور پوچھا جائے گا کہ اس معاملے میں کیو ں کو تاہی کی اور فلسطینیوں کو دشمن کا ترنوالہ بننے کے لیے کیوں تنہا چھوڑدیا کہ شارون اور اس کے حواری جب چاہیں انھیں گرفتار اور قتل کرتے پھریں۔
  • اگر فلسطینی مسلمانو ں کی مدد کے لیے جہا د کی کو ئی عملی صورت سامنے آئے تو آپ کا اقدام کیا ہوگا؟

  • اگر جہاد کا موقع آیا اور فلسطینی مسلمانوں کو نوجوانوں کی ضرورت پڑی تو ہم اپنے بہترین بیٹے اس راہ میں قربان کردیں گے ۔ میرے خیال کے مطابق فلسطینی مسلمانوں کو اس وقت نوجوانوں کی نہیں بلکہ طبی ‘مالی اورفوجی اسلحے کی صورت میں مدد کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکیں اور یہودیوں کی طرف سے اجاڑے گئے گھر‘ کھیت وکھلیا ن کو نئے سرے سے آباد کر سکیں ۔انھیںمیڈیا کی اور عامۃا لناس کی تائید و حمایت کی بھی ضرورت ہے‘ اس لیے کہ یہ بھی ایک طرح کا ہتھیارہیں۔ فلسطینیوں کی حمایت میں نکلنے والے یہ مظاہرے اور ریلیاں بالواسطہ طور پر حکمرانوں کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اگر ہمیں سیاسی آزادیاں میسر ہو ں تو ہم ایک جگہ اکھٹے ہو کر اپنے بھائیوں کی حقیقی ضروریات سے آگاہ ہو سکتے ہیںاور ان کی اہم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پیش رفت بھی کر سکتے ہیں۔ اگر مصری قوم کو موقع دیا جائے تو و ہ اس خطے کی تمام اقوام کی رہنمائی کر سکتی ہے۔
  • امریکہ کی طرف سے عراق کے خلاف جنگ کی دھمکی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟

  • ہم عراق کے مظلوم عوام کے شانہ بشانہ ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس حملے کا اصل ہدف عراقی عوام کو امریکہ کی طاقت و جبرکے سامنے جھکنے پر مجبور کر دینا ہے۔عراق کی تباہی دراصل اسرائیلی طاقت میںاضافے کے مترادف ہے ۔ بار بارکی ہمہ پہلو تفتیش کے بعد بھی امریکہ اب تک ایسے ٹھوس شواہد اکٹھے کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکا کہ جنھیں عراق پر حملے کے جواز میں پیش کیا جاسکے۔
  • ۱۱ستمبر کے حادثے کے بعد ایک بڑی اسلامی پارٹی ہونے کی حیثیت سے عالمی سطح پر آپ اپنے آپ کو کس سیا سی مقام کا حامل پاتے ہیں؟

  • امریکہ نے ۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے حادثے کا اسلامی نظریہ حیات وعقائد‘ اسلام‘ مسلمان اقوام اور ان کی ریاستوں پر حملے کے لیے بدترین استعمال کیا ہے۔ ان امریکی اقدامات سے بدنیتی‘ تعصب اور پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی واضح طور پر جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس کی      یہ نفرت آمیز کارروائیاں مسلمانوں کی غالب اکثریت میں امریکہ اور اس کی ظالمانہ پالیسیوںکے خلاف شدید رد عمل کا باعث بن رہی ہیں۔

امریکہ کے ان تمام اقدامات کے بر عکس اسلام کی دعوت بڑھتی اور ترقی ہی کرتی جارہی ہے۔  دعوت کے پھیلائو کایہ سلسلہ اب کسی حال میں بھی رک نہیں سکتا۔امریکہ کی ظالمانہ روش کے خلاف تحریک اسلامی اور ساری امت کی جدو جہد میں دن بدن تیزی ہی آتی جائے گی۔

مسلمانوں کی غالب اکثریت کا ایمان ہے کہ مادی قوت ‘ایمانی قوت کا کبھی بھی مقابلہ نہیں کر سکتی ۔امریکہ اور اس کے حواری خاص طور پر وہ لوگ جنھیں امریکہ نے مسلم ممالک میںاقتدار پر مسلط کیا ہوا ہے ‘جو کچھ بھی کرلیں ان کی ہر کوشش کا انجام بالا ٓخر ناکامی ہے۔یہ لوگ اسلامی احکام و مبادی کی تبدیلی میںکبھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اللہ تعالی خود ہی اپنے دین کی حفاظت کے لیے کافی ہے ۔اس کا فرمان ہے:  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo (اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔ الحجر ۱۵:۹) گذشتہ کئی صدیوں سے قرآنی نصو ص اور صحیح احادیث نبویہ سے کھیلنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ ان کوششوں کا انجام ہمیشہ ناکامی کی صورت میں نکلا ہے:  وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَعْلَمُوْنَo (یوسف ۱۲:۲۱)’’اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں‘‘۔

  • اگر امریکہ اخوان المسلون کو بھی دہشت گرد جماعتوں کی فہرست میںشامل کر لے اور آپ کی جماعت سے وہی سلوک شروع کر دے جو وہ مختلف جہادی تنظیموںسے کررہاہے توآپ کا کیا رد عمل ہو گا؟

  • ہم مقابلہ اور جنگ نہیں چاہتے۔ فرمان نبویؐ ہے کہ لا تتمنوا  لقاء العدوفاذا لقیتموھم فاثبتوا  (دشمن سے مڈ بھیڑ کی خواہش نہ کیا کرو لیکن اگرسامنا ہو تو ثابت قدمی دکھائو) ۔اللہ پر ہمارا ایمان کبھی متزلزل نہیں ہوگا۔ ان شاء اللہ ۔امریکہ کو چاہیے کہ عدل و انصاف کی روش اختیار کرے اور ملت اسلامیہ سے مکالمے کا آغاز کرے اور اپنی وحشیانہ طاقت کے بل بوتے پر دنیا بھر میںاپنی ظالمانہ پالیسیاں نافذ کرنا چھوڑ دے۔امریکی قوم کو بھی چاہیے کہ اپنی انتظامیہ کی پالیسیوںپر کڑی نظر رکھے ۔انھی پالیسیوں نے پوری دنیا میں ان کے خلاف نفرت و عداوت کے بیج بوئے ہیں۔
  • سابقہ ادوار میں کئی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ آپ کی جماعت امریکہ سے روابط بڑھانے پر غور کر رہی ہے تاکہ کچھ عرب تنظیموں کے متبادل کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرسکے ۔ کیا یہ اطلاعات درست ہیں؟کیا آپ کے اور امریکی انتظامیہ کے مابین گذشتہ ۳۰برس میں کوئی رابطہ ہوا ہے ؟ کیا واقعی آپ اپنے آپ کوان عرب تنظیموں کا متبادل سمجھتے ہیں؟

  • اس سوال کا ہر جزایک طبقے کی بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس خبر میں کسی قسم کی کوئی صداقت مو جود نہیں ہے۔ہماری تمام سر گرمیا ں معلوم و معروف اورسب لو گوں کی دیکھی بھالی ہیں۔ ہم سب امریکی حملے کی زد میں ہیںاور اس حملے سے بچائوکے لیے ہم سب لوگوں کو ایک وسیع تر پلیٹ فار م کی تشکیل کی دعوت دیتے ہیں۔
  • ایک طرف تو آپ کا دعویٰ ہے کہ آپ عالمی تحریک ہیں‘ جب کہ دوسری جانب آپ کا کہنا یہ ہے کہ دیگر ممالک میں موجوداخوان المسلمون کی جماعتوںکے معاملات میں ہم دخل نہیں دیتے اس طرح آپ کاعالمی جماعت ہونے کا دعویٰ کہاں باقی رہتا ہے؟

  • اسلام کے ایک آفاقی دعوت ہونے اور آپ کے قول:  اھل مکۃ اد ریٰ بشعابھا (اہل مکہ ہی مکہ کی گھاٹیوں کو جانتے ہیں)۔ میں تضاد تلاش کرنا کارِ لاحاصل ہے ۔ہمارا طریقہ کار‘اسلوب تربیت او ر عمومی قواعدو ضوابط ہرجگہ ایک ہی ہیں۔البتہ ان کی عملی تطبیق کاطریقہ ہر ملک کے حالات کی مناسبت سے جداجدا ہے۔
  • آپ اپنے آپ کوعالمی سطح کی تنظیم تو قرار دیتے ہیں‘ جب کہ صورت حال یہ نہیں ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ وغیرہ کے استعمال میں آپ بہت پیچھے ہیں؟

  • اللہ کے فضل سے ہم کسی میدان میں بھی پیچھے رہنے والے نہیں۔ہمارے پاس قابل اور جدید علوم کے ماہر افراد موجود ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم جن ممالک میں رہ رہے ہیںان کی حکومتوں نے میڈیا کے آزادانہ استعمال پر کئی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق میڈیا اور انٹرنیٹ کا سب سے زیادہ استعمال اخوان المسلمون سے وابستہ لوگ کرتے ہیں۔
  • آپ کا کیا خیال ہے کہ اخوان المسلمون جن سیاسی اصطلاحات میں بات کرتی ہے وہ موجودہ دور ‘ درپیش مشکلات اور چیلنجوںسے مطابقت رکھتی ہیں؟

  • ہم ایک نظریاتی جماعت ہیں اور ہمارا نظریہ اسلام ہے۔ اسلام میں کچھ امور تو محکم اورثابت شدہ ہیں جن میں کسی قسم کا کوئی  تغیرو تبدل نہیں ہو سکتا ۔یہ امور تمام علماء اور فقہاء کے نز دیک متفقہ ہیں۔جن امو ر میں اجتہاد کی گنجایش ہے‘ یعنی مباحات اور معلوم ہونا چاہیے کہ دین میں ا ن اجتہادی امور کا میدان بڑا وسیع ہے ان امور کو عصری تقاضوں اور قوموں کے سماجی اور ثقافتی احوال کے مطابق ہونا چاہیے۔ اخوان المسلمون کے موقف کا مطالعہ کر نے والے ہر فرد پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جمود اور ٹھہرائو ہماری اور تحریک اسلامی کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔اسی وجہ سے عرب عوام کے اندر سب سے زیادہ پذیرائی اخوان کے موقف کو حاصل ہے۔
  • آپ کا کیا خیال ہے کہ لٹریچر میں موجود ۷۰سال پرانے اسلوبِ تربیت جماعت کے لیے مطلوبہ ا فراد کو کامیابی سے تیار کررہا ہے ؟

  • ہم اپنے اسلوب ِ عمل میں مسلسل تبدیلی کر تے رہتے ہیں اور ہر قسم کی تبدیلی کو خوش آمدید بھی کہتے ہیں۔ دراصل یہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہے ہوسکتا ہے کہ باہر سے دیکھنے والا تبدیلی کو محسوس نہ کر سکے۔

  • کیا موجودہ دور میں اخوان المسلون کا خلافت راشدہ کے قیام اوراحیا کاخواب غیرحقیقت پسندانہ نہیں ہے؟

  • (انہ لایبائس من روح اللّٰہ الا القوم الکافرون)ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ اس کے ذمے اللہ کے راستے میں سعی وجہد اور اپنی نیت کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرلینا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے شریعت کے مطابق اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ ہم امم اسلامیہ کوان کی ثقافتوںمیںقربت پیدا کر کے ایک دوسرے سے قریب کرتے رہیںگے۔ان کے درمیان اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے اور ان کے سیاسی موقف کو ایک بنانے کے لیے جدوجہد کرتے رہیںگے۔

میراخیال ہے کہ موتمر عالم اسلامی کی تنظیم کو فعال کرنابھی اس جانب پیش رفت کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔ سرمایہ کاروں کو باہم اقتصادی سرگرمیوں کو فروغ دینے پر آمادہ کرنا اور علماے کرا م اور مفکرین کے خیالات میں ہم آہنگی پیدا کرنا ‘علمی بحث و جستجو اور باہمی مکالمے کے مراکز کا قیام بھی اس سلسلے کی اہم کڑیاں ثابت ہو سکتی ہیں۔

  • آپ اپنے اوپر عائد ہونے والے ان الزامات کا کیاجواب دیں گے کہ اخوان المسلمون نے دینی جماعت اور سیاسی پارٹی کے کردار کو خلط ملط کر دیا ہے؟

  • یہ الزام تو گذشتہ۷۰ برس سے لگایا جاتا رہا ہے اور اس کا جواب تفصیل کے ساتھ بار بار دیا بھی جا چکا ہے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے جسے ہر مسلمان اچھی طرح جانتا ہے کہ شریعت اسلامیہ ایک مکمل نظام حیات ہے۔ اس میں عقیدہ بھی ہے اور اخلاق بھی۔ تمام معاملات کی اصل اور بنیادشریعت میں موجود ہے۔ اس میں ہمارے انفرادی و اجتماعی مسائل کے متعلق ہدایات موجود ہیں۔ حاکم اور محکوم کا تعلق کیسا ہو؟نظام معیشت و معاشرت اور نظام سیاست کیا ہو؟ دوسرے ممالک کے سا تھ ہمارے تعلقات کس نوعیت کے ہونے چا ہییں؟  ان سب سوالوں کا جواب دین میں موجود ہے۔ اسلام دین بھی ہے اور ریاست بھی ‘قرآن بھی ہے اورتلوار بھی۔ اگر کوئی اسے خلط ملط کرنا سمجھتا ہے تو سمجھے۔ حقیقت یہی ہے کہ آپؐ اسی اسلام کو لے کرتشریف لائے تھے اور اب بھی مومن درحقیقت وہی ہے جو اس اسلام پر اطمینان قلب اور شرح صدر رکھتا ہو۔
  • آخری سوال یہ ہے کہ آپ اپنی دعوتی و سیاسی سرگرمیاں اخوان المسلمون کے نام سے کرنے پر کیوں مصر ہیں؟ ترکی میںموجود اسلامی تحریک کے تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے جنھوں نے قبولیتِ عامہ کے حصول کے لیے کئی بار اپنا نام تبدیل کیاہے؟

  • ہم اخوان المسلمون کا نام کیوںنہ اختیار کریں اور اسے تبدیل کرنے کے بارے میں کیوںسوچیں؟ ہمارے نام کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ اس کی ایک تاریخ ہے اور ایک روایت۔ دنیا کے کسی کونے میں اخوان المسلمون کانام لیاجائے تو سامع کے ذہن میں ایک خاص مفہوم ابھرتا ہے۔ دراصل بہت سی حکومتیںہمیں اپنے موقف سے ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ نام کی تبدیلی پر اصرار بھی انھی کو ششوں کا ایک حصہ ہے ۔

جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو وہاں کے اپنے مخصوص حالات ہیں۔ (رسالۃ الاخوان ۱۳؍۱۲