۲۰۰۸ فروری

فہرست مضامین

موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کی راہ

قاضی حسین احمد | ۲۰۰۸ فروری | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیا فوجی عہدہ چھوڑنے اور فوجی وردی اتارنے کے بعد بھی پرویز مشرف صاحب حسب سابق اسی طرح مطلق العنان حکمران رہیں گے اور انھوںنے فوج کی پشتی بانی سے آئین کا حلیہ بگاڑ کر فردِواحد کی شخصی حکمرانی کا جونظام قائم کیا ہے، کیا وہ مستقبل میں برقرار رہ سکتاہے ؟ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کے درست تجزیے اور جواب پر پاکستان کے مستقبل کا دارومدار ہے ۔

پاکستانی افواج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی طرف سے فوجی افسران کے نام ایک خط لکھا گیا ہے ۔ اس خط کے جو مندرجات عام لوگوں کے لیے افشاکیے گئے ہیں ان سے یہ خوش آیند تاثر ملتاہے کہ نئے چیف کو واقعی فوج کا امیج درست کرنے کی فکر ہے ۔ انھوںنے فوجی افسران کو سیاست سے کنارہ کش رہنے، سیاست دانوں سے تعلق نہ رکھنے اور تجارتی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی ہدایت کی ہے ،اوراعلیٰ سول عہدوںپر حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتی کو بھی ناپسند کیا ہے ۔اگر یہ محض دل خوش کن باتیں نہیں ہیں اورآرمی چیف واقعی ان پر   عمل درآمد کرناچاہتے ہیں تو یہ نہ صرف افواج پاکستان بلکہ پوری قومی زندگی کے لیے  ایک نئے دور کی نویدہے۔ اگر جنرل کیانی واقعی ان باتوں پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ ہیں تو جلدجنرل (ر) پرویز مشرف کے ساتھ ان کا اختلاف سامنے آجائے گا کیونکہ پرویز مشرف نیشنل سکیورٹی کونسل: صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف پر مشتمل ’تکون‘ کے ذریعے اپنے نظام کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوںنے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ تکون مل جل کر نظام چلائے گی ۔ یہ غیر دستوری تکون اسی وقت  چل سکتی ہے جب آرمی چیف کو سیاست کرنے اور قومی زندگی میں غیر دستوری طور پر مداخلت کرنے کا شوق ہو ۔ لیکن اگر آرمی چیف اپنے قول کے سچے اور اپنے دستوری عہد (oath)  کے پکّے ہیں تو بجاطورپر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حالات بہتر رخ اختیار کریںگے، پرویز مشرف کا غیر آئینی صدارتی نظام بھی نہیں چلے گا اور اقتدار بالآخر عوامی نمایندوں کی طرف واپس آجائے گا۔

یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی راہ ہموار کی جائے گی۔ اس طرح کے انتخابات کے لیے ضروری ہے کہ پرویز مشرف کا قائم کردہ آمرانہ نظام ختم ہو اور وہ مستعفی ہوجائیں ۔ملک، غیر آئینی ایمرجنسی (۳نومبر۲۰۰۷ئ) سے پہلے والی صورت حال کی طرف واپس لوٹ جائے ۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جن ججوں کو غیر آئینی اقدامات کے ذریعے سبک دوش کردیا گیاہے، وہ بدستور اپنے عہدوں پربحال ہوجائیں ۔ اتفاقِ راے سے ایک عبوری سول حکومت اقتدار سنبھال لے اور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے مشورے سے ہو۔ان اقدامات کے بعد جو انتخابات ہو ں گے ان پر قوم کا اعتماد ہوگا اور اس کے نتیجے میں آزاد پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آئے گا جو پرویز مشرف کے خود ساختہ نظام کا خاتمہ کرکے ۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے والا آئین بحال کردے گی اور آئین اپنی بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوجائے گا ۔ اسلامی نظامِ حیات، جمہوریت اور تمام اداروں پر منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی ،صوبائی خود مختاری اور عوام کی فلاح و بہبوداس دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ دستور جب ان بنیادی خصوصیتوں کے ساتھ نافذ ہوگا تو ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوگا، عدلیہ منصفانہ فیصلے کرنے میں آزاد ہوگی، امن وامان بحال ہوگا، عوام کو چین و سکون ملے گا اور تمام صوبو ں کو آزادی اور اقتدار میں شرکت کا احساس ہوگا جس سے ملک خوش حال اور معاشی ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔

اس پس منظر میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ملک و قوم پرجب تک دستور کے بجاے    سول اور ملٹری انتظامیہ کی بالادستی قائم رہے گی، عوامی نمایندے ان کے رحم وکرم پر ہوں گے اور عدالتوں کو حقیقی آزادی حاصل نہیںہوگی، اس وقت تک موجودہ انتشار کی کیفیت نہ صرف برقرار رہے گی، بلکہ اور زیادہ بڑھے گی جس سے ملک کی سالمیت کو حقیقی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔    خود موجودہ آرمی چیف نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عوام کی تائیداور تعاون کے بغیر فوج    کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونا اور ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرناممکن نہیںہے، اور فوج کا اصل کام ملکی دفاع ہے ۔ اگر آرمی چیف ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام کا تعاون واقعی ضروری سمجھتے ہیں تو انھیں جان لینا چاہیے کہ یہ تعاون اسی وقت حاصل ہوسکتاہے جب ملکی پالیسیاں عوام کی مرضی کے تابع ہوںگی۔

اس وقت ملک کی غالب اکثریت پاکستان ، افغانستان اور فلسطین وعراق سمیت پوری دنیا میں امریکی پالیسیوں کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام امریکا کوایک دوست کے بجاے استعماری اور استحصالی طاقت کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ پرویز مشرف نے پاکستان کو امریکا کا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیاہواہے اور افواج پاکستان امریکی مفادات کے لیے خود اپنے قبائلی علاقوں ، سوات اور ملک کے دوسرے علاقوں میں استعمال کی جارہی ہیں۔ اگر جنرل کیانی واقعی چاہتے ہیں کہ فوج اور عوام ایک ہوجائیں تو عوام کی مرضی کے مطابق خارجہ پالیسی تشکیل دینی ہوگی اور وہ تبھی ممکن ہے جب عوام کے حقیقی منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کی تشکیل ہو اور ملک کے تمام ادارے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرلیں ۔ اس کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کو ختم کرنا پڑے گا اور صدر،وزیراعظم اورآرمی چیف پرمشتمل تکون کے بجاے پارلیمنٹ کو تمام پالیسیوں کی تشکیل کا منبع تسلیم کرنا پڑے گا۔  لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے یہ بیان دیا ہے کہ وہ نئی حکومت کو پالیسیاں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیںگے ۔ اسی وجہ سے جماعت اسلامی اور اے پی ڈی ایم نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کردیا ہے کہ پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخاب محض ڈھونگ اور فریب ہیں۔نواز شریف صاحب بھی گو یہی بات کہہ رہے ہیںلیکن الیکشن میں پھر بھی شریک ہونے کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔

 اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد حقیقی قیادت سے محروم ہوچکی ہے ۔ پارٹی کو اکٹھا رکھنے کے لیے مرحومہ کی وصیت کا سہارا لیا گیا لیکن جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں وصیتوں کی بنیاد پر زیادہ دیر تک نہیں چل سکتیں ۔ جب تک پارٹی کے اندر جمہوریت اور جمہوری روایات مستحکم نہیں ہوں گی، پارٹی کے باہر ملکی معاملات بھی جمہوری انداز میں نہیں چلائے جاسکتے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے بارے میں یہ حقیقت اب چھپی ہوئی نہیں ہے کہ وہ امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں خود ساختہ جلاوطنی چھوڑ کر پاکستان تشریف لائی تھیں اور اس باہمی مفاہمت کا ایک لازمی جزو یہ تھاکہ وہ آیندہ کی وزیراعظم ہوںگی ۔ ظاہر ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس طرح وزیراعظم بننے پر اکتفا ہرگز نہ کرتیں جس طرح کے وزیراعظم شوکت عزیز تھے یا ان سے قبل چودھری شجاعت حسین اور میرظفراللہ خان جمالی  تھے۔ پرویز مشرف کے لیے ظفراللہ جمالی جیسا کمزور سیاسی وزیراعظم بھی قابل قبول نہیں تھا تو وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیسے گزارا کرسکتے جن کے ساتھ خود ان کی اپنی پارٹی کے فاروق احمد خان لغاری صاحب بھی مطمئن نہیں رہ سکے تھے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مظلومانہ قتل کے گرد اسی وجہ سے شکوک وشبہات کی ایک دھند چھائی ہوئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اگر انتخابات میں کوئی کامیابی حاصل بھی ہوئی تو وہ محترمہ کے بعد جمہوری اداروں کی بحالی کے سلسلے میں کوئی مضبوط کردار ادا  نہیں کرسکے گی اور فوج اوراس کے ادارے پرویز مشرف کے دور میں جس مطلق العنان اقتدار کے عادی ہوچکے ہیں، پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے یہ امر محال ہے کہ وہ انھیں آئین ،قانون اور جمہوری اداروں کے تابع کرنے میں کامیاب ہوسکے۔

دوسری اپوزیشن پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن)اگرچہ میاں محمدنواز شریف کی قیادت میں متحد ہے۔ میاںبرادران کو انتخاب لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہے، اس کے باوجود وہ انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ وہ انتخاب جیت کر حالات پر اثر انداز ہوسکیں گے۔ حالانکہ جو شخص اپنے شخصی اقتدار کی خاطر ’آخری مُکا‘چلا کر دستور کو معطل کرسکتاہے ، چیف جسٹس کو مع ۶۰ ججوں کے گھر بٹھا سکتاہے اور ملک کے پورے آئینی ڈھانچے کو متزلز ل کرسکتاہے، اس سے یہ توقع رکھنا کہ اپنے ’دست آموز الیکشن کمیشن ‘ اوراپنی خود ساختہ عبوری حکومتوں کے ذریعے ایسے الیکشن کروائے گا جن سے اس کا اپنا اقتدار خطرے میںپڑ جائے خودفریبی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ میاں نواز شریف کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ انتخابی مہم کے ذریعے عوام میںبڑا تحرک پیدا کرکے انتخابات کو ریفرنڈم میں تبدیل کردیں گے لیکن تقریباً ایک ماہ تک کوشش کے باوجود وہ کوئی بڑاتحرک پیدا نہ کرسکے۔ بلاشبہہ لوگ پرویز مشرف کے خلاف ہیں اورملک کے مستقبل کو ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں سمجھتے۔ بلاشبہہ عوام متبادل قیادت کی تلاش میں ہیں لیکن بم دھماکو ں اور پولیس گردی کے ذریعے خوف و ہراس کی جوفضا بنادی گئی ہے اس میں عوام میں تحرک پیدا کرنا اور انھیں بڑی تعداد میں سڑکوں پر لانا دشوار ہوگیا ہے۔ سیاسی کارکن تو جان پر کھیل کر بھی باہر نکلنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں لیکن عوام الناس سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ چاروں طرف پولیس اور پیرا ملٹری فورسز بندوقیں تانے کھڑی ہوں،بڑے مجمعوں میںبم بلاسٹ کے ذریعے سیکڑوں لوگوں کو قتل کیا جارہاہو، ملک میں دہشت گردی، پولیس گردی ، آٹے گھی کی قلت اوربجلی و گیس کے بحران کے ذریعے پریشانی کی ایک فضا پیدا کردی گئی ہو، اور اس کے باوجود وہ کسی سیاسی لیڈر کی قیادت میں جان پر کھیل کر باہر نکل آئیں گے۔

عوام کے بڑے پیمانے پرمتحرک نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو قیادت میدان میں ہے، وہ ا ن کی آزمودہ ہے ۔ عوام الناس کو اس قیادت سے قطعاً یہ امید نہیں ہے کہ وہ ان کی    حالت زار کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی بڑے اقدامات اٹھا سکے گی۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر عوام کو متحرک کرنے سے مایو س ہو کراب میا ں برادران قومی حکومت کی بات کرنے لگے ہیں۔

قومی حکومت سے کیا مراد ہے؟اس کی وضاحت میاں صاحبان نے اپنے قریبی حلقوں میں بھی نہیں کی۔ میاں نواز شریف کو ایک اچھا موقع ملا تھا کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے ان کی دعوت پرلندن کانفرنس میں شرکت کی۔ پھر آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کی بنیاد پڑی جس میں وہ پارٹیاں بھی شامل ہوئیں جو اس سے قبل نئے دستور کا مطالبہ کررہی تھیں ۔ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ کے فورم پر فیصلہ کیا گیا کہ فوجی آمریت کے خاتمے اور پرویزمشرف کومستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے تحریک چلائی جائے گی۔ معزول ججوں کی بحالی تمام پارٹیو ںکا ایک بنیادی مطالبہ بن گیا اور وکلا تحریک کے ساتھ ہم آہنگی کا اعلان کیاگیا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ باہر کے دبائو اور پارٹی میں انتخابی امیدواروں کے اصرار کے نتیجے میں میاں نوازشریف نے قومی قیادت سنبھالنے کے اس اہم موقعے کو ضائع کردیا اور اپنی پارٹی کی انتخابی مہم سے توقعات وابستہ کرلیں۔ اب اگر وہ اپنی انتخابی مہم سے مایوس ہوگئے ہیں تو قومی حکومت کا مطالبہ کرنے سے پہلے انھیں دوبارہ آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش میں انھیں کئی باراپنا موقف تبدیل کرناپڑا جس سے ان کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔

بنگلہ دیش کی صورت حال کے پیش نظر قومی حکومت کی تجویز کو لوگ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں ایک غیر جانب دار حکومت فوج کی پشتی بانی سے برسراقتدار ہے جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ ملک میں آزادانہ الیکشن منعقد کرکے اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردے۔ لیکن یہ حکومت دونوں بڑی جماعتوں کے خلاف مقدمات قائم کرنے اور ان کی مبینّہ بدعنوانیوں کی تحقیق میں لگ گئی ہے ۔ تیسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی تھی جس پر بد عنوانی کا کوئی الزام نہیں تھا تو اس پر ۱۹۷۰ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کا الزام لگا کر اس کی قیادت کے خلاف تحقیقات کرنے کی کوشش کی گئی۔اس ساری کاوش کامقصد یہ تھا کہ فوج ایک نام نہاد قومی حکومت کے نام سے اپنااقتدار قائم کرے۔لیکن عوامی ردعمل اس انتظام کے حق میں نہیں اورعلما اور سیاسی کارکن عبوری انتظام کو اس طرح طول دینے کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور فضا میں نئے سیاسی ارتعاش کے آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔

قومی حکومت ایک مبہم اصطلاح ہے ۔ اس لیے اے پی ڈی ایم نے اپنے مطالبے کو واضح طور پر بیان کیا ہے کہ:

                ۱-            پرویز مشرف فوری طور پرمستعفی ہوں۔

                ۲-            سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ان ججوں کو بحال کیا جائے جنھوںنے پرویز مشرف کی غیر آئینی نام نہاد ایمرجنسی پلس کو ماننے سے انکار کردیاتھا، اور اسے غیر آئینی قرار دیاتھا۔

                ۳-            دستور۱۲اکتوبر ۱۹۹۹ء کی صورت میں بحال کیا جائے۔

                ۴-            اتفاقِ راے سے ایک عبوری حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے جو شفاف الیکشن کروائے، اور مختصر ترین وقت میں اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کردیا جائے ۔

یہ مطالبات ہم کس سے کررہے ہیں؟یہ ایک بڑا سوال ہے ۔ ظاہرہے کہ پرویز مشرف تو یہ مطالبات تسلیم نہیں کریں گے۔ موجودہ عدلیہ سے بھی یہ توقع نہیںہے۔ سابقہ سپریم کورٹ سے  یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ملک کو دوبارہ آئینی راستے پر ڈالنے کے لیے وہ اہم اور بنیادی آئینی فیصلے کردے لیکن اس خطرے کو بھانپ کر پرویز مشرف نے اسے راستے سے ہٹا دیا۔موجودہ سپریم کورٹ سے یہ توقع عبث ہے کہ وہ اس حوالے سے انقلابی اقدامات اٹھائے۔ واحد راستہ یہ ہے کہ عوام کو ان مطالبات کے لیے متحرک کیا جائے۔ بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ہی اس وقت تمام مسائل کا حل ہے۔

ادھرسوات میں فوجی مداخلت کرکے سردی کے موسم میں لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا گیاہے ۔ لوگ بھوک اور خوف کی دُہری مصیبت میں گرفتار ہیں ۔ بظاہر امن وامان برقرار رکھنے کے لیے فوج بھیجی گئی ہے لیکن خودفوج کے ۲۰، ۲۵ ہزار جوان ایک مشکل صورت حال میں محصور ہوگئے ہیں اور عوام کو بھی مشکل سے نکالنے کے بجاے مزید مشکلات میں گرفتار کردیا گیاہے ۔ اشیاے ضرورت کی قلت ہے اور جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں میں بھی کرفیو کے نفاذ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے مشکلات ہیں ۔قبائلی علاقوں میں بھی امن و امان کی صورت حال ایک عرصے سے خراب ہے، اور اب محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی ذمہ داری بیت اللہ محسود پر ڈال کر وہاں نیا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔ گورنر سرحد علی محمد جان اورکزئی کی تبدیلی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

اس وقت ملک کے ۵۰ فی صد سے زیادہ لوگ بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ شہری علاقوں میں روٹی کی قیمت دُگنی ہوگئی ہے۔ دوروپے کی روٹی چار روپے میں اور چار روپے کی روٹی آٹھ روپے میں ملتی ہے۔ آٹے کی قلت کی وجہ سے تنور بند ہوگئے ہیں ۔ پہاڑی علاقوں میں برف باری ہے اور ایندھن کی کمی ہے ۔ حکمران بیانات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے۔ چودھری برادران نے اس صورت حال کی ذمہ داری شوکت عزیز پر ڈال دی ہے جس سے پرویز مشرف ناراض ہوگئے ہیں کیونکہ شوکت عزیز کے بجاے اصل ذمہ داری انھی پرعائدہوتی ہے، جنھیں فساد کی جڑ قرار دیا جارہاہے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد فوری طور پر جو ہنگامے شروع ہوئے تھے،ان کے پیچھے ایک منظم گروہ کا ہاتھ نظر آرہاہے۔ یہ منظم تخریبی گروہ جو فوری طور پر ریل کی پٹڑیاں اکھاڑنے، ریل کے انجن جلانے،بڑے پیمانے پر اموال اور ٹرانسپورٹ کو تباہ کرنے میں لگ گیا ہے، ملک کے ہر حصے، خاص طور پر کراچی اور سندھ میں موجود ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہے۔ کراچی کی صورت حال خاص طور پر مخدوش ہے اور وہاں بڑے پیمانے پر اسلحہ جمع کیاگیا ہے ۔ کراچی پہلے بھی لسانی فسادات کی زد میں آ چکاہے،اس باراگرپھر لسانی فسادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی تو تباہ کن اسلحے کی وجہ سے اس کی تباہی وبربادی عام اندازوں سے زیادہ ہوگی۔ ان حالات کامقابلہ عوام کو مل جل کر کرناہے ۔ عوام کے پاس منظم جدوجہد کے سوا کوئی دوسراہتھیار نہیں ہے جس سے ملکی سالمیت کی حفاظت کی جاسکے۔ اگر موجودہ آرمی چیف جنرل کیانی اپنے بیانات پر عمل کرنا چاہتے ہیں توانھیں فوج کو آئینی حدود کا پابند کردینا چاہیے۔ اس طرح  پرویز مشرف مجبور ہوں گے کہ وہ آئین کا احترام کرکے فوری طور پر مستعفی ہوجائیں اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔ آئین کا احترام ملک کو موجودہ خطرناک بحران سے بچا سکتاہے۔ اور یہ اس وقت ہوسکتا ہے کہ عوام وکلا اور ججوں کی پشت پر کھڑے ہوجائیں،  فوج غیر جانب دار ہوجائے اور سویلین حکومت کو پولیس گردی اور عوام کے خلاف طاقت کے استعمال سے روک دیاجائے۔

اس وقت تمام شواہد اس پر دلالت کرتے ہیں کہ پرویزمشرف اور اس کا نظام مکمل طور پرناکام ہوچکاہے۔اس کی ناکامی پر ساری دنیا گواہ ہے۔یورپ کے دورے کے موقع پر یورپین لیڈروں نے بھرے اجتماعات میں پرویز مشرف کے سامنے پاکستان میں جمہوریت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جس پر پرویز مشرف جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئے۔ حقیقت یہی ہے کہ  بزعم خویش جمہوریت کی طرف پرویز مشرف کا سفر کامیابی کی منزلیں طے کرنے کے بجاے مسلسل حادثات کاشکار ہو رہا ہے اور ا ن کی موجودگی میں قومی حکومت سمیت کوئی بھی نسخہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ انتخاب ہوبھی جائیں تو خود پرویزمشرف کو اس کے بعد ایک عام بے چینی نظر آرہی ہے اور خود انھوںنے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کریں گی۔ اگر انھیں معلوم ہے کہ انتخابات کے بعد بھی سکون اور اطمینا ن کے بجاے سیاسی اضطراب اور بے چینی ہی میں اضافہ ہوگا تو عقل کی بات یہی ہے کہ وہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر خود اقتدار سے الگ ہوجائیں اور سپریم کورٹ کو اپنی اصل شکل میں بحال ہونے دیں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق چلا کر سیاسی استحکام کی تدابیر اختیار کی جاسکیں ۔

پاکستان کو موجودہ بحران سے نکالنے اور اس پیچیدہ صورت حال کے سدھار کے لیے بعض وکلانے نئے آرمی چیف کو مشورہ دیا ہے کہ جس طرح پرویز مشرف نے آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذ کی اور اس کے تحت غیر آئینی کارروائیاں کرکے انھیں آئین کا حصہ قرا ر دے دیا، اور پھروردی اتارنے سے پہلے ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر کو منتقل کردیا، جب کہ خود ہی ملک کے صدرا ور چیف آف آرمی سٹاف تھے۔اسی طرح موجودہ آرمی چیف صدر سے اپنا ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار واپس لے لیں اور اس ایمرجنسی کے تحت غیر آئینی اقدامات کو کالعدم قرار دے کر ججوں کو بحال کردیں اور باقی سارے اقدامات بحال شدہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیں تاکہ وہ آئین اور قانون کے مطابق ملک کو واپس آئینی پٹڑی پر ڈال دے ۔اس کے حق میں ایک سینئر وکیل نے دلیل دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایک چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو معطل کرکے غیرآئینی اقدامات کرنے کا جواز پیدا کیاجاسکتاہے تو دوسرے چیف آف آرمی سٹاف کے لیے آئین کو بحال کرنے کے لیے کسی اقدام کا جواز کیوں نہیں بنتا۔

یہ اور اسی نوعیت کی جو آوازیں اُٹھ رہی ہیں، وہ اس بے چینی اور اضطراب کا مظہر ہیں جس کی گرفت میں پوری قوم اور اس کا سوچنے سمجھنے والا طبقہ اپنے کو محسوس کر رہا ہے اور جس کی اصل وجہ پرویز مشرف کے بار بار کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام ہیں۔ ہم وکلا کے اس طبقے کی پریشانی خاطر کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس راے سے اتفاق نہیں کرسکتے کہ فوج کے سربراہ کو کسی ایسے اقدام کا مشورہ دیا جائے جس کا اسے دستور کے تحت اختیار نہیں۔ اگر نظریۂ ضرورت کے تحت سپریم کورٹ ماضی میں فوجی حکمرانوں کو دستور میں ترمیم کا وہ اختیار دینے کی غلطی نہ کرتی جو خود اسے بھی حاصل نہیںتھا تو ملک بہت سی تباہی سے بچ جاتا۔ اس لیے فوج کے سربراہ کو جواب خود فوج کے سیاست سے باہر رہنے کی بات کر رہا ہے، اس قسم کا مشورہ دینا صحیح نہیں۔ البتہ قومی مشاورت کے ذریعے عدالتوں اور دستور کے لیے اولین طور پر۲نومبر ۲۰۰۷ء والی اور بالآخر ۱۲اکتوبر۱۹۹۹ء والی پوزیشن کو بحال کرنے کے لیے صرف ایک بار مؤثر ہونے والا کوئی راستہ نکالا جاسکتا ہے ۔ اس قومی مشاورت میں تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے تمام ریٹائرڈ ججوں کو شریک کیا جاسکتا ہے اور اس طرح معزز بزرگوں کی مجلس (Council of Elders ) کے مشورے سے ایک راستہ نکالا جاسکتا ہے جسے بالآخر نئی اسمبلی دستور کے تحت قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے۔

ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ کردار سینیٹ ادا کرے جو اس وقت واحد منتخب ادارہ ہے اور جو دستور کے تحت فیڈریشن کا نمایندہ اور ترمیم دستور کے اختیارات میں شریک ہے۔ اس کے علاوہ بھی راستے ہوسکتے ہیں۔ جب کوئی ماوراے دستور اقدام ناگزیر ہی ہو تو ضروری نہیں کہ اس اقدام کے لیے فوج کے سربراہوں کو ملوث کیا جائے، یہ کام سینیٹ اور اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے بھی انجام دیا جاسکتا ہے جن کا ایک رول خود دستور میں موجود ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان ، اس کے دستور اور اس کے مفادات کے تحفظ کی آخری  ذمہ داری عوام پر آتی ہے اور اب اس سلسلے میں سب سے فیصلہ کن کردار عوام ہی کو ادا کرنا ہوگا۔ فوجی حکمرانوں اور ان کے عدالتی مشیروں اور سیاسی گماشتوں نے پاکستان کے آئین کو بازیچۂ اطفال بنادیا ہے اور قانون اور روایات سب پامال ہیں۔ ایک غلط کام پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسرا غلط کام کرنا کب تک جاری رہے گا۔ اب اصل ضرورت عوام کی بیداری اور ۱۹۹۹ء سے اب تک دستور اور دستوری اداروں پر جو بھی شب خون مارے گئے ہیں ان کو ختم کرکے دستورکواس کی اس شکل میں بحال کرنے کی ضرورت ہے جس پر قوم کا اتفاق تھا، اور ہے۔ یہی وہ دستور ہے جسے ایک میثاقِ ملّی (National Covenant) کا مقام حاصل ہے، اور اب یہ اسی وقت ممکن ہے جب پرویز مشرف اور ان کے بنائے ہوئے نظام سے نجات پائی جائے اور قومی اتفاق کی عبوری حکومت کے ذریعے نئے الیکشن کمیشن کے توسط سے آزاد، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے عوام اپنے نمایندے منتخب کریں اور وہ دستور اور قانون کے تمام تقاضے پورے کریں۔ نیز یہ نمایندے قوم کا اعتماد لے کر اپنے فرائض اداکریں اور خود بھی قوم کے سامنے جواب دہ ہوں تاکہ کوئی بھی اب اس قوم کی قسمت سے نہ کھیل سکے۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے قوم کی بیداری، اس کے تحرک اور   ان کے ذریعے دستوری عمل کو پٹڑی پر چڑھانے کی مؤثر جدوجہد___ اس ملک کو حقیقی جمہوری  اور دستوری نظامِ حکمرانی پر عامل ہونے، اور استعماری قوتوں کی آلۂ کار سول اور فوجی انتظامیہ کی دست بُرد سے نکالنے کے لیے عوام الناس کے پرامن اور پرجوش تحرک کے سوا کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے۔ اگر عوام متحرک نہیں ہوئے تو ملک کی بڑی بدقسمتی ہوگی کیونکہ اس درد کا درمان صرف اور صرف ملک کے عوام کے پاس ہے۔ مخلص سیاسی کارکنوں کا فرض ہے کہ مایوس ہونے کے بجاے متحرک ہوں اور یاس وقنوطیت کے بجاے ہر شہری کے دل میں امید کی شمع روشن کریں ۔

ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس ملک کی حفاظت اور استحکام کی خاطر ہرطرح کی قربانی دینے کے لیے خودبھی تیار ہوں اور عوام الناس کو بھی اس کے لیے تیار کرسکیں ۔


ترجمان القرآن کا پیغام پھیلایئے

ترجمان القرآن ایک پیغام کا علَم بردار رسالہ ہے۔ اس پیغام کی زیادہ سے زیادہ وسیع تر حلقے میں اشاعت ہمارے قارئین کے تعاون سے ہوتی ہے۔ آیندہ سال کے لیے ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف طے کیا ہے۔ ہر ۱۰۰ پرچوں پر ہر ماہ ۲ کااضافہ کیا جاتا رہے تو یہ ہدف حاصل ہوجائے گا۔

کیا یہ مشکل ہے؟ ناممکن ہے؟ غالباً نہیں___ تھوڑی سی توجہ اور کوشش سے یہ کیا جاسکتا ہے اور نتیجہ؟ اشاعت میں ۱۰ ہزار کا اضافہ! یعنی ۱۰ ہزار نئے افراد بلکہ گھرانوں تک دین کی دعوت اور آج کے دور میں اس کے تقاضے پورا کرنے کا پیغام پہنچے گا۔

مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے قارئین واقعی اس طرف توجہ دیں تو ہم ہدف سے بہت زیادہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

ہم نیک نیتی اور اخلاص کے کوشش کریں، اللہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمیں حوصلہ افزا نتائج ملیں گے، ان شاء اللّٰہ تعالٰی!

___  مدیر