۲۰۰۸ فروری

فہرست مضامین

کینیا: سیاسی بحران، ایک تجزیہ

حافظ محمد ادریس | ۲۰۰۸ فروری | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

دنیا واقعی ایک عالمی گائوں کی حیثیت اختیار کرگئی ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی اہم واقعہ یا حادثہ رونما ہوجائے، ہر شہر اور قصبے بلکہ گائوں اور گوٹھ میں ذرائع ابلاغ پوری تفصیلات و تصاویر بروقت پہنچا دیتے ہیں۔ اس وقت عالمی خبروں میں ایک نمایاں ترین خبر مشرقی افریقہ کے ملک کینیا کے صدارتی انتخابات اور ان کے مابعد کے حالات و واقعات ہیں۔ موجودہ صورت حال کو سمجھنے  کے لیے کینیا کے سیاسی و معاشرتی پس منظر کا مختصر مطالعہ مفید رہے گا۔

کینیا، براعظم افریقہ کا اہم اور مرکزی کردار کا حامل ملک ہے جہاں انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور فوج کبھی ایوانِ اقتدار پر قابض نہیں ہوسکی۔ اس ملک نے انگریزی استعمار سے سخت جدوجہد اور گوریلا جنگ کے بعد ۱۲دسمبر ۱۹۶۳ء کو آزادی حاصل کی تھی۔ اس وقت کینیا کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے متجاوز ہے۔ خوب صورت ساحلوں، قابلِ دید جزائر اور انتہائی دل فریب پہاڑی مقامات کے علاوہ گھنے جنگلوں اور ہر طرح کے جنگلی جانوروں (wild life)کی وجہ سے یہ ملک دنیا بھر کے سیاحوں کا بھی مرکز ہے۔ پھر موسم اتنا پُرکشش کہ ۱۲ مہینے نہ شدت کی گرمی نہ یخ بستہ سردی، یہاں کے دن اور رات تقریباً سال بھر برابر رہتے ہیں۔

ملک کی آزادی کے بعد پہلا سربراہِ مملکت باباے قوم، مزے جوموکنیاٹا(Mzee Jomo Kenyatta) منتخب ہوا، جسے پوری قوم کا اعتماد اور قابلِ رشک مقبولیت حاصل تھی جو اس کے آخری لمحے تک برقرار رہی۔ وہ اپنی وفات (۱۹۷۸ئ) تک بلاشرکت غیرے ملک کا سربراہ رہا۔ دستور کے مطابق ہر پانچ سال بعد صدارتی اور پارلیمانی انتخاب ہوتے رہے لیکن ملک میں کثیرالجماعتی سیاست ممنوع تھی۔ ایک ہی پارٹی کینیا افریقن نیشنل یونین (KANU) حکمران رہی۔ صدر کنیاٹا کے مقابلے پر کبھی کسی نے کاغذات نامزدگی داخل ہی نہیں کیے تھے، البتہ پارلیمان میں کانو کے ارکان آپس میں مقابلہ کرتے اور تقریباً آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے پارلیمان میں پہنچتے تھے۔

آزادی کے بعد ملک کا پہلا نائب صدر، موجودہ اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ (Raila Odinga) کا باپ اوڈنگہ اوگِنگہ (Oginga) تھا۔ آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد صدر اور نائب صدر کے درمیان تنازعات شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں اوڈنگہ کو پس دیوارِ زنداں بھیج دیا گیا۔ کنیاٹا نے زندگی کے آخری برسوں میں اپنے حریف کو جیل سے رہا کردیا مگر وہ مؤثر شخصیت ہونے کے باوجود بدلے ہوئے حالات میں سیاسی میدان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ کرسکا۔ کنیاٹا کی اچانک وفات (۱۹۷۸ئ) کے بعد نائب صدر ڈینیل ارپ موئی (Daniel Arapmoi) دستور کے مطابق قائم مقام صدر بن گیا، جو کنیاٹا کے زمانے میں محض ایک نمایشی نائب صدر کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ موئی نے آہستہ آہستہ اپنی گرفت اتنی مضبوط کرلی کہ نہ صرف حکمران سیاسی پارٹی کانو بلکہ تمام حکومتی اور نیم حکومتی اداروں پر بھی اپنے قبیلے اور من پسند لوگوں کو مسلط کردیا۔ کرپشن اس قدر بڑھی کہ لوگ بلبلا اُٹھے۔ صدر موئی کے خلاف ۱۹۸۲ء میں جونیر افسروں کی طرف سے ناکام فوجی بغاوت ہوئی، جسے اس وقت کے مسلمان آرمی چیف جنرل محمود محمد کی طرف سے کچل دیا گیا تھا۔ اس سے موئی کے حوصلے اور من مانی مزید بڑھ گئی۔

۱۹۹۳ء میں صدر موئی کے چوتھی بار منتخب ہونے کے بعد ملک کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی بالآخر ناقابلِ برداشت ہوگئی۔ لوگوں نے کثیرالجماعتی سیاست کے لیے مظاہرے شروع کردیے۔ ان مظاہروں کو سختی سے کچلنے کی حکومتی کوشش کے باوجود، ان میں مسلسل شدت آتی چلی گئی اور ملک کا بڑا قبیلہ (کیکویو(Kikuyu)، پہلے صدر کنیاٹا اور موجودہ صدر کیباکی (Kibaki) کا قبیلہ)   پوری طرح حکومت کے خلاف منظم ہوگیا۔ موجودہ صدر شروع میں موئی کے ساتھ نائب صدر کے فرائض ادا کرتا رہا تھا۔ موئی نے اسے برخاست کردیا اور نسبتاً چھوٹے قبائل کو اپنے ساتھ ملاکر حکومت بچانے کی پالیسی اختیار کی۔ ۱۹۹۹ء میں احتجاجی تحریک کامیاب ہوگئی اور کثیرالجماعتی سیاست کا آغاز ہوا، مگر انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے حکمران پارٹی ہی برسرِاقتدار رہی۔

صدر موئی کا تعلق کالن جین (Kalenjin) قبیلے سے تھا، جو آبادی کا ۱۲ فی صد ہے۔ کینیا میں ۵۰ سے زائد قبائلی اور لسانی گروپ ہیں لیکن تقریباً ۷۵ فی صد آبادی پانچ بڑے قبائل پر مشتمل ہے۔ باقی چھوٹے چھوٹے گروپ مل کر ۲۵ فی صدبنتے ہیں۔ سب سے بڑا قبیلہ موجودہ صدر موائی (Mwai) کیباکی کا ہے (

۲۲ فی صد)، دوسرے نمبر پر لوہیا (Luhya)، ( ۱۴ فی صد)، تیسرے نمبر پر اپوزیشن لیڈر رائیلا اوڈنگہ کا قبیلہ لوئو (Luo) ( ۱۳ فی صد)، چوتھے نمبر پر کالن جین (۱۲ فی صد) اور پانچویں نمبر پر کامبا (Kamba) ( ۱۱ فی صد) ہے۔ موائی کیباکی  ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں حکمران کانو پارٹی کے صدارتی امیداوار اوصرو کنیاٹا (باباے قوم کا بیٹا) کے مقابلے پر رائیلہ اوڈنگہ اور دیگر گروپوں کی مدد سے جیتا تھا۔ اس نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں اپنے پیش رو سے بھی زیادہ کرپشن کی مگر اسے امریکا کی اشیرباد حاصل رہی۔ اس نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور کانو کو بھی اپنا حلیف بنا لیا۔ مگر اس کے قریبی ساتھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔ انھوں نے اس کے خلاف نئی پارٹی، اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ بناکر تحریک شروع کردی۔

۲۷ دسمبر ۲۰۰۷ء کے انتخابات میں تین امیدوار حصہ لے رہے تھے جن میں نمایاں دو ہی تھے یعنی موائی کیباکی (حکمران نیشنل یونٹی پارٹی) رائیلا اوڈنگہ (اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ) ملک کی سابقہ حکمران پارٹی کانو، موائی کیباکی کی حلیف ہے لیکن وہ اب بے اثر ہوچکی ہے۔ انتخابات میں واضح طور پر اوڈنگہ جیت رہا تھا۔ تمام سروے رپورٹس اور مبصرین کے مطابق اس کی جیت یقینی تھی مگر انتخابات میں بے پناہ دھاندلی اور جھرلو استعمال کیا گیا۔ الیکشن اتھارٹی نے خود بھی نتائج کو مشکوک بنا دیا ہے۔ چیف الیکشن کمیشن صحافیوں کے سامنے بے بس نظر آرہے تھے۔ وہ سارے سوالات کے جواب ہی نہ دے سکے۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کرکے احتجاجی تحریک شروع کر دی۔

انتخابات کے بعد فوری طور پر امریکا نے کینیا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی اور امریکا کی نمایندہ جنڈائی فریزر (Jenday Frazer) حکومت اور اپوزیشن میں مصالحت کرانے کے لیے نیروبی پہنچ گئی اور اب تک اس کام میں سرگرمِ عمل ہے۔ اسی طرح سے آرگنائزیشن آف افریقن یونٹی (OAU) کے سربراہ اور گھانا کے صدر جان کفور (John Kufour) بھی مصالحت کنندہ کے طور پر نیروبی پہنچے۔ نیلسن منڈیلا اور بشپ ڈسمنڈ ٹوٹو جنوبی افریقہ سے نیروبی وارد ہوئے۔ ان سب لوگوں نے حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات کی کوشش کی مگر تاحال کوئی کامیابی نہیں ہوسکی۔ صدر کیباکی کے خلاف عوامی لہر اتنی مضبوط ہے کہ امریکی دبائواور دیگر سفارت کاروں کی کوششوں کے باوجود حزبِ اختلاف اور عوام دھاندلی سے جیتنے والے صدر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔صدر کیباکی نے متنازعہ انتخابات کے بعد اپنی صدارت برقرار رکھنے کے لیے قومی حکومت کے قیام کا بھی اعلان کردیا، کابینہ میں دیگر پارٹیوں کو نمایندگی دینے کا وعدہ بھی۔ انھوں نے ایک کابینہ کا تقرر بھی کردیا مگر ان کے مدّمقابل رائیلا اوڈنگہ نے اسے جعلی صدر کی جعلی کابینہ کہہ کر مسترد کردیا۔ اپوزیشن کا موقف واضح، دوٹوک، یک نکاتی اورحتمی ہے کہ غاصب اور انتخابی نتائج کے چور سے کسی قسم کے مذاکرات کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ملک کے حالات دگرگوں ہیں اور تمام افریقی ممالک کے لوگ ان کا تجسس سے مطالعہ کررہے ہیں۔ محتاط اندازوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سے زائد لوگ ہنگاموں کے دوران پولیس کی گولیوں سے، یا عوامی بلووں کے نتیجے میں مارے جاچکے ہیں، جب کہ کینیا کے وزیرخزانہ ایموس کیمونیا (Amos Kimunya) کے بقول مالی نقصان کا تخمینہ ایک بلین ڈالر ہے اور اربوں شلنگ کی جایدادیں نذرِ آتش ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کے تازہ ترین سروے میں تین لاکھ لوگ گھروں سے بے گھر بتائے گئے ہیں اور ابھی تک بڑے شہروں میں زندگی معمول پر نہیں آئی۔ رائیلا اوڈنگہ انقلابی ذہن رکھنے والا ہنگامہ پرور لیڈر ہے، جب کہ موائی کیباکی، امریکا کا منظور نظر۔ ارپ موئی کے خلاف کیباکی کا بڑا حامی رائیلا ہی تھا۔ کیباکی نے گذشتہ پانچ سالوں میں امریکی اشاروں پر جنرل پرویز مشرف کی طرح نام نہاد دہشت گردی کے خلاف ملک میں کئی کریک ڈائون کیے ہیں۔

ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تمام چھوٹے قبائل بالخصوص سواحلی اور شمال مشرقی علاقوں میں بسنے والے مسلمان پوری طرح اپوزیشن کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کی حقیقی آبادی کو ہمیشہ گھٹاکر بیان کیا گیا ہے۔ عملاً اس ملک میں مسلمان ۲۵ سے ۳۰ فی صد ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کیباکی امریکی کٹھ پتلی ہے۔ یہ حقیقت تو بالکل عیاں ہے کہ دنیا بھر میں بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک میں امریکا کے خلاف شدید عوامی نفرت پائی جاتی ہے۔ مسلم اُمہ میں جو عمومی بیداری نظر آتی ہے، افریقی ممالک میں بھی اس کی ایک نمایاں لہر محسوس کی جارہی ہے۔ نوجوان اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں میں بحیثیت مسلم کمیونٹی فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

حزبِ اختلاف کی پارٹی اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ میں ساحلی علاقوں سے ایک اُبھرتا ہوا نوجوان نجیب بلالہ بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ وہ اپوزیشن لیڈر اوڈنگہ کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے اور بعض سیاسی مبصرین کی راے میں اگر اوڈنگہ منتخب ہوجاتا ہے تو نجیب بلالہ یا کسی دوسرے مسلمان لیڈر کے نائب صدر یا کم از کم اہم وزارتوں میں سے کسی وزارت پر آنے کے امکانات خاصے روشن ہیں۔ کینیا کی اپوزیشن اس لحاظ سے قابلِ تحسین ہے کہ مقامی طور پر حکومت کی پُرتشدد کارروائیوں اور بیرونی طور پر سفارتی دبائو کے باوجود وہ کسی ناروا ڈیل یا دبائو کے ذریعے اپنے حق سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ نعرہ اب کینیا میں ہر بچے بوڑھے کی زبان پر ہے کہ غاصب حکومت نامنظور، غاصب سے مذاکرات نامنظور۔ اس نعرے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی پیغام پنہاں ہے۔