فروری ۲۰۱۹

فہرست مضامین

بنگلہ دیشی ’انتخابات‘ اور مضمرات

سلیم منصور خالد | فروری ۲۰۱۹ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

بنگلہ دیش میں انتخابی عمل، ہوبہو تصویر ہے مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد انتخابی ڈراموں کی۔ بنگلہ دیش کا ۱۱واں پارلیمانی الیکشن ایک ایسا کھیل تھا کہ جس میں ہر مدمقابل کھلاڑی کے ہاتھ بندھے تھے، جب کہ محبوب کھلاڑی کے ہاتھ کھلے ہوئے تھے اور پھر منصف بھی کھلے ہاتھ والی ٹیم کا رکن تھا۔ حسینہ واجد کی قیادت میں عوامی لیگ ۲۰۰۹ء میں برسرِاقتدار آئی، جس نے ۲۰۱۴ء میں جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر اگلے پانچ سال حکمرانی کی، اور اب اسے تیسری مرتبہ بھی ووٹ کی ضرورت تھی۔ حقائق اور واقعات چیخ چیخ کر گواہی دیتے ہیں کہ اس انتخابی ڈرامے کو عملاً بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ڈیزائن کیا۔
گذشتہ سات برسوں کے دوران حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو پھانسیاں دینے کے لیے افسانوی مقدموں کو نام نہاد ’خصوصی عدالتوں‘ میں چلایا۔ پھر جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر(اسلامی جمعیت طلبہ )کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے، بہیمانہ تشدد کرکے سیکڑوں کارکنوں کو معذور اور اپاہج بنانے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے علاوہ، جماعت کے اداروں اور نجی کاروباروں کو تباہ کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا دیا۔ پھر جماعت اسلامی کی حلیف ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی‘ (بی این پی) کی قیادت کو میدان سے نکال باہر کرنے کے لیے، اس کی سربراہ خالدہ ضیا بیگم کو ۱۷سال کی سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا۔
اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء کو ایسا نام نہاد انتخاب ہوا کہ پارلیمنٹ کی ۳۰۰نشستوں میںسے ۲۸۸ سیٹیں جتوا کر، ۹۸ فی صد کامیابی حکمران عوامی لیگ کے نام کی گئی، جسے ہر عاقل انسان اور حسِ انصاف رکھنے والے فرد نے مسترد کیا۔ تاہم، نئی دہلی اور بیجنگ حکومتوں نے سربراہی سطح سے فوری طور پر انتخابی نتائج کو قبو ل کرکے مبارک باد کے پیغامات روانہ کیے، اور چند روز بعد ’اسلامی تعاون تنظیم‘(OIC) کے سیکرٹری جنرل نے بھی یہی کیا۔
حزبِ اختلاف نے اگرچہ الیکشن سے پہلے ہی دنیا بھر کی حکومتوں کے سامنے اور ذرائع ابلاغ پر یہ دہائی دی تھی کہ قبل از انتخاب دھونس دھاندلی کا طوفان اُٹھایا جا رہا ہے۔ ستمبر۲۰۱۸ء میں  ’ڈجیٹل سیکورٹی ایکٹ‘ پاس کر کے اخبارات و ذرائع ابلاغ کی آزادی  سلب کرلی گئی۔ پھر مدمقابل پارٹیوں کے اُمیدواروں اور لیڈروں کو قیدوبند، مقدمات کی بھرمار اور پولیس یا باقاعدہ منظم غنڈوں کے ذریعے ڈرا دھمکا کر انتخابی عمل سے باہر رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ حتیٰ کہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، اور جب کاغذات داخل ہوگئے تو آدھے سے زیادہ حلقوں میں اُمیدواروں کو ایک روز کے لیے بھی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور جس روز رسمی انداز سے الیکشن کا انعقاد ہوا، اسی روز : ’’اندرونِ ملک مختلف حلقوں میں عوام کو ڈرا دھمکا کر عوامی لیگ کے انتخابی نشان ’کشتی پر مُہر لگانے پر مجبور کیا گیا‘۔(ڈیلی اسٹار، ڈھاکا، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
۳۰ دسمبر یومِ انتخاب کو بی بی سی کے نمایندے نے آنکھوں دیکھا حال دنیا بھر میں پہنچایا اور سنایا کہ: ’’ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس بھر کر پولنگ اسٹیشنوں میں لائے جارہے ہیں‘‘۔ اور جب بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں متعین بی بی سی کے نامہ نگار نے  لکھن بازار میں ایک بھرا بیلٹ بکس، قبل از الیکشن دیکھ کر پریذائیڈنگ افسر سے سوال کیا: ’جناب یہ کیا ہے؟‘ تو متعلقہ افسر نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ چٹاگانگ کے اس پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کا نمایندہ موجود تھا، اور یہی حال دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا ہے‘‘(بی بی سی ویب سائٹ، ۳۰دسمبر ۲۰۱۸ء)۔’’خود ڈھاکا شہر کے متعدد مقامات پر عوامی لیگ نے انتخابات شروع ہونے سے پہلے ہی بیلٹ بکس، ووٹوں سے بھر دیے، اور لوگوں کو مصروف رکھنے کے لیے گھنٹوں تک لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رکھا گیا، تاکہ ہجوم سے تنگ اور تھکن سے مجبور ہوکر لوگ ووٹ ڈالے بغیر خود ہی گھروں کو واپس لوٹ جائیں‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
انتخابات کے روز بھی لوگ اس ظلم پر بڑے پیمانے پر چیخ پکار کرتے رہے، لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی: ’’یاد رہے، قانون نافذ کرنے والے چھے لاکھ سیکورٹی اہل کاروں کی نگرانی میں انتخابات ہورہے تھے۔ انتخابی عملے اور کئی جگہوں پر سیکورٹی اہل کاروں نے عوامی لیگ کے لیے مُہریں لگاکر ’انتخاب‘ کو ’محفوظ‘ بنایا۔ ڈھاکا یونی ورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نذرل نے بیان کیا : بہت سے پولنگ اسٹیشنوں پر عوامی لیگ کے علاوہ کسی دوسری پارٹی کے اُمیدواروں کو  ذاتی طور پر یا ان کے پولنگ ایجنٹوں تک کو نہ بیٹھنے دیا گیا اور نہ انتخابی عمل کے معائنے کی اجازت دی گئی۔ اور جو پولنگ ایجنٹ کسی طرح، کسی مقام پر بیٹھنے میں کامیاب ہوگئے، ان کی اکثریت کو گنتی شروع کرتے وقت بھگا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے لوگ احمق نہیں ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ  ان کے ووٹ پر کس انداز سے، اُن کی آنکھوں کے سامنے ڈاکا زنی کی گئی ہے۔اس طرح عملاً  ایک پارٹی کی حکومت مسلط کی جارہی ہے‘‘۔(ڈیلی ساؤتھ ایشین مانیٹر، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)
حزبِ اختلاف نے بدانتظامی، بدنظمی اور بددیانتی تمام مظاہر کو دیکھ کر، اس انتخابی ڈھونگ کو فراڈ، جعل سازی اور دھاندلی زدہ ڈراما قرار دیا، مسترد کیا اور کہا کہ: ’’یہ موت کے سکوت اور خوف کے بھوت کا کھیل تھا‘‘ (ڈیلی واشنگٹن پوسٹ ، یکم جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یاد رہے کہ الیکشن کے روز ۲۲؍افراد قتل کر دیے گئے اور سیکڑوں افراد کو زخمی کرکے دہشت پھیلائی گئی۔ ملک کے سنجیدہ حلقے بنگلہ دیش میں جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے شدید صدمے اور مایوسی سے دوچار ہیں۔
بنگلہ دیش لیفٹ ڈیموکریٹک الائنس (LDA)نے ۸۲اُمیدواروں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔ اس کی قیادت نے ڈھاکا پریس کلب میں بتایا: ’’پورا ملک عینی شاہد ہے کہ حکمران ٹولے نے انتخابی عمل کو برباد کرکے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے‘‘۔ اور کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش (CPB) کا موقف ہے: ’’عوامی لیگ نے الیکشن سے پہلے، الیکشن کے دوران اور الیکشن کے بعد جبر، دھوکے، دھاندلی اور جھوٹ کا طوفان برپا کیا۔ (ڈیلی اسٹار، ۱۲جنوری۲۰۱۹ء)
انسانی حقوق کے عالمی ادارے ’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)نے انتخابات سے قبل، حسینہ حکومت کی بدنیتی کی نشان دہی کر دی تھی، اور الیکشن کے بعد اس کے ڈائرکٹر ایشیا، مسٹربریڈ ایڈمز نے گواہی دی: ’’حزبِ اختلاف کے اہم لیڈروں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے، بعض کو قتل کر کے اور بعض کو لاپتا کرکے جس خوف اور گھٹن کا ماحول پیدا کیاگیا، اس میں کسی بھی لحاظ سے یہ قابلِ اعتبار انتخابات نہیں ہیں‘‘ (بی بی سی لندن، ۳۱دسمبر ۲۰۱۸ء)۔ بنگلہ دیش میں سابق امریکی سفیر اور ولسن سنٹر کے سینئر اسکالر ولیم بی میلان نے کہا: ’’بنگلہ دیش کے انتخابات پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ یہ انتخابات سراسر بددیانتی کی ایک مجسم مثال ہیں اور حسینہ واجد کی حکومت غیرقانونی ہے‘‘ (ڈیلی نیونیشن، ڈھاکا، ۱۷جنوری ۲۰۱۹ء)۔’’برطانیہ، امریکا اور یورپی یونین نے بھی انتخابات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا‘‘(رائٹر، ۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔ البتہ اپنا روایتی’ریکارڈ‘ برقرار رکھتے ہوئے یہ ممالک چند ہفتوں بعد اس جعلی انتخاب کو تسلیم کرکے حسب ِ معمول تعاون شروع کردیں گے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی ان انتخابات کی صداقت کو مشکوک اور فساد زدہ قرار دیا ہے کہ: ’’جس میں بدعنوانی کے بے شمار شواہد اپنی کہانی آپ بیان کر رہے ہیں‘‘ (ڈیلی بی ڈی نیوز۲۴، ۱۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے جمع کردہ حقائق کی بنیاد پر بیان دیا: ’’بنگلہ دیش کے موجودہ انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کے لیے منطقی اور اصولی بنیادیں موجود ہیں‘‘۔ (ڈیلی نیو ایج، ڈھاکا، ۱۷ جنوری ۲۰۱۹)
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گڑیس نے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابات درست نہیں ہوئے۔ ہم بنگلہ دیش میں سیاسی عمل اور شہری زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بامعنی کردار کی ضرورت پر زور دیتے ہیں‘‘۔(ڈیلی نیو ایج، ۱۹ جنوری ۲۰۱۹)
امرِواقعہ ہے کہ خاص طور پر۲۰۰۹ء کے بعد، جب سے حسینہ واجد کی عوامی لیگ برسرِاقتدارہے، بنگلہ دیش پہلے سے بھی کہیں زیادہ بھارتی گرفت میں جکڑا گیا ہے۔ وہ بہت سے مفادات جو بھارت ابتدائی ۳۷برسوں میں حاصل نہ کرسکا تھا، گذشتہ ۱۰ برسوں میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جس میں خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں (اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورام، ناگالینڈ، تری پور اور سکم) تک، بنگلہ دیش کی سرزمین سے گزر کر نئی دہلی انتظامیہ کی براہِ راست رسائی ہے۔ اسی لیے حسینہ واجد نے کہا کہ: ’’ہمارے برسرِاقتدار رہنے سے بھارت سے تعلقات مضبوط اور باثمر ہوں گے اور تجزیہ نگار ہرانمے کارلیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ:’’ ضیاء الرحمان، حسین محمد ارشاد اور خالدہ ضیا کے اَدوارِ حکومت میں بنگلہ دیش، بھارت سے فاصلے پر اور پاکستان سے قربت کی طرف گیا تھا‘‘ (ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۶جنوری ۲۰۱۹ء)۔ اسی اخبار نے بھارتی مقتدر قوتوں کی خواہشات کے آئینہ دار مضمون Why We need Hasina?  میں وضاحت سے بتایا کہ: ’’خالدہ ضیا نے کبھی بھارتی مفادات کے لیے کام نہیں کیا ہے بلکہ یہ جماعت اسلامی کی حمایت سے برسرِاقتدار آتی ہے اور بھارتی مفادات کے برعکس پاکستان سے قربت کی طرف بڑھتی ہے‘‘۔(ڈیلی دی پانیئر، نئی دہلی، ۷جنوری ۲۰۱۹ء)
بھارت اور دوسری طاقتیں بنگلہ دیش کو تجرباتی طور پر اسلامی قوتوں کی بیخ کنی کا میدانِ کارزار بنانا چاہتی ہیں۔ جب اسلامی شناخت کا ذکر آتا ہے تواس علاقے میں خودبخود پاکستان کا نام نمایاں ہوتا ہے۔ یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ حسینہ واجد کے لیے تیسری بار اقتدارکا راستہ ہموار کرنے میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی بنگلہ دیشی نیشنلسٹ قیادت کو بُری طرح دبایا، منتشر اور بے اثر کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ ۲۰۲۱ء کو، جب کہ بنگلہ دیش کے قیام کے ۵۰سال مکمل ہوں، تو اس مناسبت سے پاکستان کے خلاف زیادہ منظم طریقے سے، تسلسل کے ساتھ مہم چلاکر اسے بدنام کیا اور دبائو میں لایا جائے۔
حسینہ واجد کے سیاسی مشیر اور ’آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘ کے ایچ ٹی امام نے برملا کہا:  ’’بی این پی نے جماعت اسلامی سے تعاون جاری رکھا ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ پارٹی چین اور پاکستان کی حامی ہے، اس لیے بنگلہ دیش کی سیاست میں بھارت کسی بھی صورت، بی این پی پر بھروسا نہیں کرسکتا‘‘(دی اسٹار آن لائن، ۱۶ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ سوچ بنگلہ دیش سے زیادہ بھارت کے ان استعماری رویوں کی گواہی پیش کرتی ہے کہ برسرِزمین نئی دہلی کس انداز سے بنگلہ دیش کی سیاست اور ریاست کے معاملات میں دخیل ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے حسینہ واجد سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے مبارک دُہرائی اور کہا کہ: ’’حسینہ واجد کی صورت میں، بھارت کے لیے مشرقی محاذ محفوظ اور مامون ہے‘‘ (ڈیلی ایشین ایج، ۱۷جنوری)۔ دیکھیے: ’’حکومت ِ ہند اور بھارتی سیاست دان اور میڈیا کے لوگ بہت مسرور ہیں کہ عوامی لیگ کی کامیابی کی وجہ سے بنگلہ دیش، اسلامی بلاک میں جانے سے بچ گیا ہے‘‘۔ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
بنگلہ دیش کے اخبارات کے مطابق نئی حکومت کی شروعات کے طور پر بنگلہ دیش کے وزیرقانون انیس الحق نے کہا: ’’عوامی لیگ کی حکومت ایسی قانون سازی کرے گی کہ جس کے تحت جماعت اسلامی کو سزا دینے کا عمل تیزتر ہوگا۔ اس قانونی ترمیم کا مسودہ، وزیراعظم حسینہ واجد کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جارہا ہے اور جلد کابینہ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ تاحال بنگلہ دیش جماعت اسلامی کو پوری طرح سزائیں نہیں دی جاسکیں۔ فروری ۲۰۱۳ء کے ترمیمی ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں افراد کو سزائیں دینے کا ذکر ہے، مگر پارٹی کو عبرت کا نشان بنانے کا معاملہ مذکور نہیں ہے۔ اب ہمارے پیش نظر یہ ہدف حاصل کرنا ہے‘‘ (ڈیلی اسٹار،۱۰جنوری ۲۰۱۹ء)۔یاد رہے کہ: ’’حسینہ واجد کی حکومت، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے کئی اہم لیڈروں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کے باوجود جماعت اسلامی کی کمر نہیں توڑ سکی‘‘ (سہ روزہ دعوت، نئی دہلی، ۱۴ جنوری ۲۰۱۹ء)۔ یہ نامرادی نئی دہلی اور ڈھاکا کی حکومتوں کے لیے غصّے اور شرمندگی کا باعث ہے۔
اس تسلسل میں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھی اور عملاً ریٹائرڈ زندگی گزارنے والے بھارت نواز ڈاکٹر کمال حسین نے منصوبے کے مطابق پہلے تو ایک جعلی انتخاب کو قابلِ قبول بنانے کے لیے، بڑی مہارت سے سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کا کام کیا۔ اور پھر منصوبہ سازی شروع کی ہے کہ: ’’بی این پی کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ جماعت اسلامی سے اپنے ۱۵سالہ اتحاد و اتفاق کو ترک کرکے، جماعت سے الگ ہوجائے‘‘ (ڈیلی سن، ڈھاکا، ۱۲جنوری ۲۰۱۹ء)۔حسینہ واجد نے سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات کی دعوت دی، جس پر تمام پارٹیاں شرکت کرنے یا شرکت نہ کرنے پر غور کرر ہی ہیں، لیکن کمال حسین نے فوراً شرکت کا عندیہ دیا۔(ڈیلی اسٹار، ۱۴جنوری۲۰۱۹ء)
یہ تمام حقائق اور حوادث بتاتے ہیں کہ بھارت کسی صورت نہیں چاہتا کہ بنگلہ دیش میں ایسی امن و سکون کی فضا پروان چڑھے کہ وہاں کے لوگ امن اور خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں۔  اس طرح وہ بھارت کا دست ِ نگر رہے۔ دوسرا یہ چاہتا ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری نہ آئے اور باہم فاصلے بڑھتے رہیں۔ تیسرا یہ کہ جماعت اسلامی کے تنظیمی ہیکل کو تباہ اور بی این پی کے سیاسی وجود کو ختم کیا جائے۔ ان حالات میں مسلم اُمہ کے فہمیدہ افراد اور اداروں کو بنگلہ دیشی بھائیوں کی اس انداز سے دست گیری کرنی چاہیے کہ وہ بھارتی تسلط سے آزاد اور مسلم اُمت سے قریب تر ہوسکیں۔