سلیم منصور خالد


ہر مسلمان کا دل رنجیدہ ہے۔ ہر توحید پرست کا دل زخمی ہے۔ ہر بندۂ مومن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ مگر یہ رنجید گی، یہ زخم اور آنسوؤں کی برکھا، کسی بندوق کی گولی، بم کے ٹکڑے یا تلوار کے وار کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ بے چارگی دراصل حرمین الشریفین سے نسبت رکھتی ہے۔

اگر کوئی عام تنازع نہ ہو توریاستوں کے درمیان سفارتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ میں کسی کے لیے اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ لیکن ہر ملک محض تجارت کی منڈی اور سفارت کی مسند پر نہیں جھول رہا ہو تا، بلکہ ان مفادات کے ساتھ اپنی تاریخ و تہذیب کے کچھ سوالات بھی پیش نظر رکھتا ہے۔ سعودی عرب کی مادی ترقی پر سبھی مسلمان خوش ہیں، لیکن سعودی عرب محض دوسو ملکوں میں سے ایک ملک نہیں ہے۔ حرمین الشریفین کی مناسبت سے یہ ملک پہچان اور بڑے منفرد تقاضے رکھتا ہے، جس سے نہ وہ چھٹکارا پا سکتا ہے اور نہ مسلم دنیا کی توقعات کو وہاں کے حکمران روند سکتے ہیں۔

جیسا کہ اس تحریر کے شروع میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےدل خون کے آنسورو ر ہے ہیں تو اس تلخ نوائی کا حوالہ یہ ہے کہ بھارت میں ایک ایسی حکومت اپنے مسلم دشمنی پر مبنی ایجنڈے کو تیزی سے آگے بڑھا رہی ہے، جو: مسلمانوں کو قتل و غارت میں جھونکنے، مسجدوں کو شہید کرنے، ہجومی قتل عام کی سرپرستی کرنے، مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات کو بڑھاوا دینے اور بہت سے نوجوانوں کو مقدمات کے بغیر جیلوں میں پھینک دینے جیسی کارروائیوں میں مصروف ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (RSS) کی سرپرستی میں قائم اس بدنام حکومت کی وزیر برائے اقلیتی اُمور، سمرتی ایرانی، جن کے ہمراہ خارجہ امور کے وزیر مملکت مرلی دھرن بھی تھے، انھوں نے مدینہ منورہ کا دورہ کیا ۔ سمرتی نے اُسی روز یعنی ۸جنوری کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر     بڑی خوشی سے اپنی نوعدد تصویریں شائع کرتے ہوئے لکھا ’’آج میں مدینہ کے تاریخی سفر پر نکلی، جو اسلام کے متبرک ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اس میں مسجد نبویؐ کے اطراف کی زیارت کرنے کے ساتھ ہی احد پہاڑ اور مسجد قبا کی بیرونی حدود شامل ہیں‘‘۔ انڈین سرکاری نشریاتی ادارے ’دوردرشن‘ نے اس دورے کو غیر معمولی اور تاریخی واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہ پہلا موقع ہے کہ جب ایک غیر مسلم وفد کا استقبال مدینہ میں کیا گیا، جس سے انڈیا اور سعودی عرب کے غیرمعمولی رشتوں کی عکاسی ہوتی ہے‘‘۔

مراٹھی زبان میں ہندو نسل پرست اخبار سناتن پرابھات نے ۱۲ جنوری کی اشاعت میں فخریہ لہجے میں لکھا:’’بھارتی یونین وزیر سمرتی ایرانی نے مسلمانوں کے مقدس شہر مدینہ کا دورہ کیا،جہاں عورتیں سر ڈھانپ کر جاتی ہیں، وہاں سمرتی اپنی ساڑھی میں ملبوس گئی اور اپنے سر کو بالکل نہیں ڈھانپا۔ سعودی عرب نے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن پاکستان والے اس بات پر ضرور پریشان ہیں۔‘‘ بی بی سی لندن نے اس استقبال کو ’’غیر معمولی تاریخی واقعہ‘‘ قرار دیا۔

بنگلہ دیشی تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں لکھا، ’’میں سمرتی کو سلام پیش کرتی ہوں کہ اس نے سر نہیں ڈھانپا‘‘۔ جرمن ٹیلی ویژن کے مطابق:’’ایک بھارتی میڈیا پرسن نے لکھا ہے: آپ نے ایک کٹر مسلم ملک میں سر نہ ڈھانپ کر اپنی حقیقی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۔

جواہر لال نہرو کے ہاتھوں ۱۹۳۷ء میں جاری کردہ اخبار قومی آواز (۱۴جنوری ۲۰۲۴ء) کے مطابق: ’’۲۰۲۱ ء میں ولی عہد نےمدینہ منورہ میں غیر مسلموں کے لیے داخلے سے متعلق بورڈ ہٹادیےتھے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس دورے کے پیچھے وزیر موصوفہ کی اپنی ذاتی خواہش تھی یا سعودی حکام کی جانب سے خود کو لبرل دکھانے کی ایک کوشش؟ بہر حال، اس واقعے سے اتنا اندازہ ہو گیا ہے کہ سعودی حکام آنے والے دنوں میں یہ عمل مکہ مکرمہ میں بھی دکھا سکتے ہیں۔ ویسے سمرتی ایرانی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ جہاں اور جب جب موقع ملا ہے کھل کر اپنی ذہنیت کا مظاہرہ کیا‘‘۔ یہی اخبار مزید لکھتا ہے: ’’سمرتی کے دورے سے پہلے تک سعودی حکمرانوں نے بھی حرم مکہ کی طرح حرم مدینہ میں بھی غیر مسلموں، کے داخل ہونے پر پابندی عائد کر رکھی تھی، اور اس پالیسی کے تحت حدودِ حرم پر باضابطہ علانیہ بورڈ لگائے جاتے تھے، جس میں حرم مدینہ کے راستوں پر ’’صرف مسلمین‘‘ (Only Muslims)کے بورڈ لگا ئےجاتے تھے۔اب ۹۴ سال بعد اچانک مدینۃ الرسول میں غیرمسلموں کو عزت و احترام سے بلانا کیا ظاہر کرتا ہے؟‘‘

اسی طرح اُردو العربیہ ڈاٹ نیٹ (۴؍مئی۲۰۲۱ء) کا یہ شذرہ دیکھیے: ’’سعودی عرب کی حکومت نے مذہبی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں داخلے کے راستوں پر غیرمسلموں، اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں کی راہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈوں پر اصطلاحات تبدیل کرنا شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تبدیلی لفظ ’غیرمسلم‘ کے بجائے ’حدود حرم‘ کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ ماضی میں یہ عبارت مدینہ منورہ کے تقدس کے پیش نظر اپنائی گئی تھی کہ ’حرمِ مکی‘ کی طرح ’حرمِ مدنی‘ میں بھی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتے تھے‘‘۔ بی بی سی (۹جنوری ۲۰۲۴ء) کےمطابق: ’’سعودی ’ای ویزہ‘ ویب سائٹ کے مطابق غیر مسلم افراد کو مدینہ کی سیر کی دعوت دی جاتی ہے، تاہم مسجد نبویؐ کے احاطے میں ان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔

ان تفصیلات کا مقصد یہ ہے کہ چودہ سو سال سے اختیار اور نافذ کیے گئے فیصلے اور روایت کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیا حرمِ مدنی کے حوالے سے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کے فیصلے کو تبدیل کرنا پیش نظر ہے؟ اور کیا اس کا سبب واقعی مغربی دنیا کے سامنے لبرل بننے کی خواہش ہے؟

تین احادیث نبویؐ الجامع الصحیح سے مطالعے کے لیے درج کی جاتی ہیں:

l…’’ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن احول عاصم نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مدینہ حرم ہے فلاں جگہ سے فلاں جگہ تک (یعنی جبل عیر سے ثور تک )۔ اس حد میں کوئی درخت نہ کاٹا جائے نہ کوئی بدعت کی جائے اور جس نے بھی یہاں کوئی بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،حدیث: ۱۸۶۷) [یعنی حرم مدینہ کا بھی وہی حکم ہے، جو مکہ کے حرم کا ہے۔ امام مالک اور امام شافعی اور احمد بن حنبل اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے]۔

l…’’ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے سعید مقبری نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ کے دونوں پتھریلے کناروں میں جو زمین ہے وہ میری زبان پر حرم ٹھہرائی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ بنوحارثہ کے پاس آئے اور فرمایا بنوحارثہ ! میرا خیال ہے کہ تم لوگ حرم سے باہر ہو گئے ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا کہ نہیں بلکہ تم لوگ حرم کے اندر ہی ہو۔(رقم: ۱۸۶۹)

l…ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرحمان بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے اعمش نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے پاس کتاب اللہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صحیفہ کے سوا جو نبی کریم ؐ کے حوالے سے ہے اور کوئی چیز (شرعی احکام سے متعلق ) لکھی ہوئی صورت میں نہیں ہے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: مدینہ عائر پہاڑی سے لے کر فلاں مقام تک حرم ہے، جس نے اس حد میں کوئی بدعت نکالی یا کسی بدعتی کو پناہ دی تو اس پر اللہ اور تمام ملائکہ اورانسانوں کی لعنت ہے…آپؐ نے فرمایا کہ تمام مسلمانوں میں سے کسی کا بھی عہد کافی ہے۔ اس لیے اگر کسی مسلمان کی (دی ہوئی امان میں دوسرے مسلمان نے ) بدعہدی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ اور تمام ملائکہ اور انسانوں کی لعنت ہے۔ نہ اس کی کوئی فرض عبادت مقبول ہے، نہ نفل۔(رقم:۱۸۷۰)

ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ مملکت سعودی عرب مادی ترقی کے لیے کن راستوں کا انتخاب کرتی ہے (اگرچہ اسلامی شریعت اس معاملے میں بھی واضح احکامات بیان کرتی ہے)۔ تاہم، یہ ضرور عرض کیے دیتے ہیں کہ حرمین الشریفین کسی بادشاہ کی ملکیت نہیں ہیں اور نہ اسلامیانِ عالم اُن کی رعایا ہیں۔ اس لیے وہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات و احساسات کا احساس کریں اور چودہ سو برس کی تاریخ کا احترام کریں۔ مدینہ منورہ کو ٹورسٹ سنٹر بنانے سے اجتناب برتیں، اور ایسے راستے نکالنے کے لیے درباری علما کی فتویٰ نویسی پر اعتماد کرنے کے بجائے، اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنی محبت کو فروغ دیں، کہ جس پر وہ عشروں سے کاربند چلے آئے ہیں۔

اسی طرح اُن علما اور دانش وروں سے درخواست ہے کہ وہ وہاں کانفرنسوں میںجا کر محض میزبانی کا لطف نہ اٹھائیں بلکہ جس دین کی بنیاد پر وہ یہ اعزاز حاصل کرتے ہیں، اس کی تعلیمات کے مطابق حکمرانوں تک اپنے سچے اور حقیقی جذبات پہنچا کر، انھیں غلط فیصلوں سے منع کریں۔

یہ ۸ سے ۱۲مارچ ۱۹۵۴ء کے دوران پانچ روزہ ’کامیاب‘ جمہوریت کش مشقیں تھیں، جب عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے الیکشن لوٹنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ اس معرکے میں نسل پرستی، جھوٹ، کانگریسی سرپرستی اور پولنگ اسٹیشن پر دھونس و دھاندلی کا مطلب عوامی لیگ کی کامیابی قرار پایا۔ ۷۰سال پر پھیلی تاریخ میں، عوامی لیگ کے فاسد خون میں یہی بیماری پلٹ پلٹ کر اُمڈتی ہے اور سیاسی درندگی کی ایک نئی منزل عبور کرلیتی ہے۔

پچھلے پندرہ برسوں کے دوران حسینہ واجد کی نام نہاد قیادت میں، بھارتی ایجنسی ’را‘ نے کامیابی سے بنگلہ دیش کی جمہوریت کا قلع قمع کرکے ایک گماشتہ ٹولہ مسلط کر رکھا ہے۔ جو قانون شکن ہے، قاتل ہے، فاشسٹ ہے اور جھوٹ کے انبار پر کھڑا ہے۔ بنگلہ دیش سے باہر، بھارتی پشت پناہی میں متحرک این جی اوز پاکستان میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ’’بنگلہ دیش معاشی جنّت بن چکا ہے‘‘۔ لیکن جب بنگلہ دیش میں دیکھتے ہیں تو ظلم، نفرت، قتل و غارت، بے روزگاری اور عدل کا خون بکھرا نظر آتا ہے۔

موجودہ حکمران عوامی لیگی ٹولے نے ۷جنوری ۲۰۲۴ء کو ملک میں ۱۲ویں پارلیمانی الیکشن کا اعلان کیا ہے، لیکن اس شکل میں کہ گذشتہ کئی برس سے بنگلہ دیش میں اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں یعنی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اورجماعت اسلامی کو مفلوج کرکے رکھا ہے، بلکہ اپنے طور پر انھیں کچل کر رکھ دیا گیا ہے۔

اس سب کے باوجود کہ بی این پی کی سربراہ بیگم خالدہ ضیاء مسلسل جیل میں قید ہیں اور انھیں علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے تک کی اجازت نہیں۔ دوسری جانب جماعت اسلامی کی قیادت کو یا تو پھانسیوں پر لٹکا دیا گیا، یا بہت سے قائدین کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ جماعت کو بہ حیثیت سیاسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے۔ اس کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن صاحب کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا، قید کر رکھا ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے رفاہی اور معاشی اداروں کو برباد کردیا ہے۔ لٹریچر کو کتب خانوں سے نکال باہر پھینکا ہے۔ عام عوامی لیگی غنڈوں کو بالکل آر ایس ایس اسٹائل میں جماعت کےکارکنوں، دفتروں اور گھروں پر حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ یہ ہے وہ منظرنامہ، جس میں بنگلہ دیش کے الیکشن کا ڈھول پیٹا جارہا ہے۔

یہ ۱۰ جون ۲۰۲۳ء کی بات ہے، جب دس سال شدید پابندی کے بعد پہلی بار جماعت اسلامی کو ڈھاکہ کے ایک چھوٹے سے ہال میں جلسہ منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ اس ہال میں مشکل سے تین سو افراد کی گنجایش تھی لیکن ڈھاکہ نے یہ منظر دیکھا کہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے تقریباً ایک لاکھ پُرامن افراد، ڈھاکہ کی شاہراہوں پر کھڑے، جلسہ گاہ جانے یا جلسہ گاہ سے مقررین کی تقاریر سننے کے لیے اُمڈے چلے آرہے ہیں۔ اس منظر نے بنگلہ دیش میں عوامی لیگی، ہندو قوم پرست اور سوشلسٹ اخبارات کے صفحات پر کہرام برپا کردیا اور یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ ’’دس برس میں جماعت اسلامی کو اور اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) ختم نہیں کیا جاسکا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ انھیں کچل دیا جائے‘‘۔ یہ بیانات اور تجزیے آج بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں یہ نام نہاد الیکشن درحقیقت بھارتی ایجنسی ’را‘ کی ایک انتخابی دھوکا دہی کی مشق ہے۔ اسی لیے بی این پی نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حسینہ واجد نے وزارتِ عظمیٰ سے استعفا نہ دیا تو وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے گی، جب کہ جماعت مطالبہ کر رہی ہے کہ:

            ۱-         جماعت اسلامی پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے عائد پابندی ختم کی جائے۔

            ۲-         حسینہ واجد حکومت ختم کرکے عبوری حکومت قائم کی جائے۔

            ۳-         بی این پی سمیت تمام سیاسی قائدین اور پارٹیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق دیا جائے۔

            ۴-         تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔

            ۵-         عوامی لیگی مسلح غنڈوں کو لگام دی جائے۔

            ۶-         قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی مخالفین کچلنے سے منع کیا جائے۔

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائم مقام امیر پروفیسر مجیب الرحمان نے ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کے بنگلہ دیشی کنگرو سپریم کورٹ کے فیصلے پر گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ڈھاکہ ہائی کورٹ نے یکہ طرفہ طور پر یکم اگست ۲۰۱۳ء کو جماعت اسلامی کی رجسٹریشن غیرقانونی قرار دی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف جماعت نے سپریم کورٹ میں بروقت اپیل کی تھی، مگر دس سال تک اپیل کی کوئی سماعت نہ ہوئی۔ آخرکار جنوری ۲۰۲۳ء کو سپریم کورٹ نے جماعت کے وکلا سے کہا کہ ’’دوماہ کے اندر اندر دوبارہ جامع بیان داخل کریں‘‘۔ جماعت نے مقررہ تاریخ گزرنے سے پہلے درخواست جمع کرادی۔ مگر پانچ ماہ تک پھر کوئی سماعت نہ ہوئی اور اس عرصے میں ۱۰جون کو جماعت کے بندہال میں جلسے کا سن کر ہزاروں لوگوں کی آمد نے حکومت اور کنگرو کورٹ کی عقل کو بٹہ لگادیا۔ ۱۹نومبر ۲۰۲۳ء کو آخرکار سپریم کورٹ نے کیس سننے کے لیے مقرر کیا، مگر سماعت شروع ہوتے ہی کہہ دیا: ’’ہم جماعت کے وکیلوں کی سماعت نہیں کریں گے‘‘ اور درخواست مسترد کردی۔ یہ سب ڈراما پوری دُنیا کے سامنے کھیلا گیا ہے۔

یہ عدالتی ڈراما ابھی انجام کو پہنچا ہی تھا کہ جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ اور کریک ڈائون کی سیاہ آندھی پورے بنگلہ دیش میں چلنا شروع ہوگئی۔ جس میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جماعت اسلامی کے ۲ہزار ۹ سو ۳۷ کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان قیدیوں میں بزرگ، معذور اور خواتین بھی شامل ہیں۔ تین کارکنوں کو عوامی لیگی غنڈوں نے تیزدھار آلے سے حملہ کرکے شہید کردیا ہے۔ پانچ کارکنوں کو پولیس نے گولی مار کر زخمی کیا ہے۔ ۵۷۳کارکن شدید زخمی حالت میں نجی ہسپتالوں میں پڑے ہیں، کہ سرکاری ہسپتال جماعت کے کارکنوں کو طبّی امداد دینے سے انکاری ہیں۔ ابھی ہم کہہ نہیں سکتے کہ دسمبر کے مہینے میں حسینہ واجد نامی ’کالی ماتا‘ (خونی ماتا) جماعت کے کتنے کارکنوں اور انصاف کا خون پیئے گی!

بنگلہ دیش کے ممتاز عالم دین، کرشماتی شخصیت، شان دار خطیب، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر، سابق ممبر بنگلہ دیش پارلیمنٹ اور مفسرقرآن علّامہ دلاور حسین سعیدی ۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو جیل کی کال کوٹھڑی سے، دل کے دورے کے بعد تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل ہونے کے چند گھنٹوں بعد انتقال کرگئے، انا للّٰہ  وانا الیہ  رٰجعون!

جناب دلاور حسین سعیدی کی عمر ۸۴برس تھی۔ وہ ۲فروری ۱۹۴۰ء کو ضلع فیروز پور کے گائوں سید کھلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی یوسف سعیدی ممتاز عالم دین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی۔سرسینا عالیہ مدرسہ سے عالم اور ۱۹۶۲ء میں کھلنا کے عالیہ مدرسہ سے کامل کی سند لی۔ وہ قرآن، حدیث، فقہ، فلسفہ، معاشیات، خارجہ تعلقات، نفسیات اور ادبیات کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اسی طرح بنگلہ کے علاوہ اُردو، عربی، فارسی اور انگریزی میں مطالعہ کی قابلیت رکھتے تھے۔ بنگالی، اُردو اور عربی میں بڑی روانی سے خطاب فرماتے تھے۔ آپ سولہ بلندپایہ کتب کے مصنف تھے۔ دلاور سعیدی بنگلہ دیش بننے کے گیارہ برس بعد ۱۹۸۲ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، ۱۹۸۹ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے نائب امیر مقرر ہوئے۔ وہ اس ذمہ داری پر آخری لمحے تک فائز رہے۔ ضلع فیروزپور، حلقہ نمبر ایک سے ۱۹۹۶ء اور پھر ۲۰۰۱ء میں بھاری اکثریت کے ساتھ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔یاد رہے کہ اس حلقے میں ہندو آبادی  بنگلہ دیش کے کسی بھی حلقے سے زیادہ ہے۔

۱۹۶۷ء سے انھوں نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیا، اور آخری قید سے پہلے بنگلہ دیش کے علاوہ دنیا کے تقریباً ۵۰ممالک میں درس و تعلیم کے لیے سفر پر گئے۔ درس قرآن میں وہ قرآنی آیات کی تفسیر اس انداز سے کرتے کہ سامعین کو یوں لگتا جیسے ہرآیت، ایک ایک فرد کو پکار رہی ہے، جھنجھوڑ رہی ہے اور دین کے لیے کام پر اُبھار رہی ہے۔ اسی لیےبچّے، جوان، بزرگ، خواتین و حضرات لاکھوں کی تعداد میں ان کے دروس میں شرکت کرتے۔ انھیں جلسے کے انعقاد کے لیے کسی اشتہار یا اعلان کی ضرورت نہیں ہوتی تھی، بلکہ فیصلہ ہوتے ہی سینہ بہ سینہ یہ خبر پورے علاقے میں خوشبو کی طرح پھیل جاتی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کو بنگلہ دیش کی عوامی جماعت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وہ علّامہ اقبال کے کلام کے حافظ تھے اور مولانا مودودی سے محبت رکھتے تھے۔

علّامہ دلاور حسین سعیدی کو بھارت کی پشت پناہی میں قائم عوامی لیگی حسینہ واجد حکومت نے جعلی، من گھڑت اور افسانوی الزامات کے تحت ۲۹جون ۲۰۱۰ء کو گرفتار کیا اور جیل میں لے جاتے ہوئے کہا: ’’جماعت کو چھوڑنے کا اعلان کردو تو مقدمہ واپس لے لیں گے‘‘۔ مگر انھوں نے اس پست درجے کی سودے بازی کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ عوامی لیگی حکومت کے قائم کردہ نام نہاد ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ کے جج فضل کبیر نے اپنے دوساتھیوں کے ہمراہ سعیدی صاحب کے گواہوں کو سنے بغیر یک طرفہ طور پر ۲۸فروری ۲۰۱۳ء کو سوا بارہ بجے انھیں سزائے موت سنائی۔ اس اعلان پر سرکاری وکیل نے کہا: ’’سعیدی کے لیے موت کی سزا کا حکم نامہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے‘‘۔ اگلے ہی لمحے ڈھاکا میں کمیونسٹوں کے اخبار ڈیلی اسٹار کے انٹرنیٹ ایڈیشن نے سرخی جمائی: Sayeedy to be hanged، اور انڈین ٹیلی ویژن NDTV نے بار بار یہ خبر نشر کی: Senior Jamaat Leader Sayeedy gets Death Sentence.

 نام نہاد جج نے جب سزائے موت کا فیصلہ سنایا، تب سعیدی صاحب نے جو ہاتھ میں قرآن تھامے ہوئے تھے، کٹہرے سے ٹریبونل کے جج کو مخاطب کرکے مضبوط لہجے میں کہا: ’’میں نے ان میں سے کوئی جرم نہیں کیا اور آپ نے یہ فیصلہ اپنے دل اور دماغ کی گہرائی اور انصاف کی زبان سے نہیں سنایا۔ میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پہ چھوڑتا ہوں‘‘ اور کسی قسم کی گھبراہٹ کے بجائے باوقار انداز سے چلتے ہوئے قیدیوں کی ویگن میں قدم رکھا۔ سعیدی صاحب کے وکیل بیرسٹر عبدالرزاق نے صحافیوں سے کہا: ’’علّامہ سعیدی، عدل و انصاف کے قلم سے نہیں بلکہ بے انصافی، جھوٹ اور سفاکی کے خنجر سے، ایک گھنائونے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے گئے ہیں‘‘۔ سعودی اخبار نے لکھا: ’’سعیدی کی پھانسی کے فیصلے نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ٹریبونل ایک کینگرو کورٹ ہے‘‘(سعودی گزٹ، ۷مارچ ۲۰۱۳ء)۔ ایک سال قبل ’امریکن سوسائٹی آف انٹرنیشنل لا‘ ۲۱جون ۲۰۱۱ء کی رپورٹ نے اس ٹریبونل کی قانونی حیثیت کو مضحکہ خیز قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔اس فیصلے کی خبر سنتے ہی پورے بنگلہ دیش میں احتجاجی ہنگامےپھوٹ پڑے، جس میں ۱۵۰ سے زیادہ مظاہرین پولیس فائرنگ سے شہید ہوگئے۔ وکلا نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس نے ۱۷ستمبر ۲۰۱۴ء کو سزائے موت کو تادمِ مرگ جیل میں قید کی صورت تبدیل کر دیا۔

جناب سعیدی کے مقدمے کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے کہ ضلع فیروزپور میں ۱۹۷۱ء میں ایک ہندو کے قتل کا الزام بھی ان پر لگایا گیا۔ لیکن اس مقتول کے بھائی سکرنجن بالی نے سرکاری گواہ بن کر، سعیدی صاحب کے خلاف گواہی دینے کے بجائے، تمام زور زبردستی کے باوجود اُن کے حق میں گواہی دینے کا فیصلہ کیا اور کہا: ’’علّامہ سعیدی ہمارے محسن ہیں اور ہمیں ان سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اُن پر میرے بھائی کے قتل کا الزام جھوٹا ہے، پچھلے چالیس برسوں میں ہم نے سعیدی صاحب پر یہ الزام لگانے کا کبھی سوچا تک نہیں‘‘۔ یہ گواہی دینے کے لیے سکرنجن ۵نومبر۲۰۱۲ء کو خصوصی ٹریبونل پہنچ گیا، جہاں گیٹ ہی سے نامعلوم افراد نے اسے اغوا کرلیا۔ اخبار New Age نے پانچ ماہ بعد اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا: ’’پولیس کی برانچ (Deductive Branch) نے سکرنجن کو اغوا کرلیا، اور پھر چھ ہفتے کی غیرقانونی حراست کے بعد دسمبر ۲۰۱۲ء میں اسے انڈین بارڈر سیکورٹی فورس (BSF) کے سپرد کردیا، جس نے ڈم ڈم جیل، کلکتہ میں اسے قید کردیا۔ مارچ ۲۰۱۳ء سے کسی طرح اس کے خاندان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ انڈیا پہنچے، جنھیں ۸جون ۲۰۱۳ء کو سکرنجن بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیش کی نقاب پوش خفیہ پولیس نے اغوا کرکے ایک سیل میں پہنچایا اور کہا: ’’تم سعیدی کے حق میں کیوں گواہی دیتے ہو؟ اس نے تو پھانسی کی سزا پانی ہی ہے، مگر اس طرح تم بھی قتل کر دیئے جائو گے‘‘۔ بالی نے بتایا: ’’مجھے بنگلہ دیشی خفیہ پولیس اہل کاروں نے کہا: ’’تمھیں سعیدی کے بڑے بیٹے ’بلبل سعیدی نے ورغلایا ہے‘‘، حالانکہ وہ بےچارا مئی ۲۰۱۲ء ہی میں پولیس کے دعوے کے مطابق ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا۔ اگرچہ مجھے ہارٹ اٹیک والے پولیس کے اس دعوے پر بھی شک ہے۔ میں نے کہا: ’’مجھے کسی نے نہیں ورغلایا، میں ایک بے گناہ فرد کے خلاف جھوٹی گواہی دینے کو جرم سمجھتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کر رہا ہوں‘‘۔

اس شرمناک مثال پر برطانیہ کے معتبر رسالے The Economist نے اپنی رپورٹ میں لکھا: ’’اسرائیل کی خفیہ پولیس نے ۱۹۶۱ء میں ارجنٹائن سے جرمن ایل ایچ مین کو اغوا کرکے اسرائیل پہنچایا، ۲۰ سال پرانے ہولوکاسٹ جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دے کر مقدمہ چلایا۔ بالکل اسی طرح بنگلہ دیش میں ’انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل‘ میں چالیس سال پرانے الزامات کے تحت وہ مقدمے چلائے جارہے ہیں، جو نہ کبھی درج ہوئے اور نہ کبھی اُن کا نشانہ بننے والوں کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور ا ب اچانک انھیں پکڑ کر مقدمے چلانے کا ڈراما کھیلا جارہا ہے‘‘۔ (۲۳مارچ ۲۰۱۳ء)

علامہ دلاور حسین سعیدی کی جانب سے قرآنی تعلیم کا پروگرام سالہا سال سے پورے بنگلہ دیش کے ہرضلعی صدرمقام میں پھیلا ہوا تھا۔ اس پھیلائو کی نسبت سے چند مثالیں ملاحظہ کیجیے: lراج شاہی کے گورنمنٹ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۵برس تک، ہرسال ۳ دن درس دیتے۔ lکھلنا کے سرکٹ ہائوس میدان میں ۳۸برس تک، ہرسال ۳ روز درسِ قرآن دیتے۔ lبوگرہ شہر کے مرکزی میدان میں ۲۵برس تک ۳ روز تک درسِ قرآن دیتے۔ lچٹاگانگ پریڈ گرائونڈمیں ۲۹سال تک ۵ دن باقاعدہ قرآن کا پیغام ہرخاص و عام تک پہنچاتے اور شرکا کی تعداد بلامبالغہ ۶،۷ لاکھ سے زیادہ سامعین پر مشتمل ہوتی۔ lسلہٹ، گورنمنٹ عالیہ مدرسہ گرائونڈ میں مسلسل ۳۳ برس تک ۳روز محفل قرآن کے پروگرام کرتے۔ lڈھاکہ پلٹن میدان اور کملاپور ریلوے میدان میں ۳۴برس تک ہرسال تین، تین روز درس قرآن پروگرام کرتے رہے، جن میں لاکھوں سامعین شرکت کرتے___ ہرجگہ خواتین کی شرکت کے لیے الگ سے انتظامات کیے جاتے جنھیں وہاں کے اہل خیر مل کر یقینی بناتے۔

ڈاکٹر محمد نورالامین (لندن) نے اپنی یادداشت میں لکھا: ’یہ ۱۹۷۹ء کی بات ہے کہ میں نواکھالی ڈسٹرکٹ اسکول گرائونڈ میں سنجیدگی یا اخلاص کے ساتھ نہیں بلکہ مذاق اور شغل کے جذبے کے تحت سعیدی صاحب کے درس میں شریک ہوا۔ وہاں چند منٹوں کا خطاب سننے،اور ہرجملے میں براہِ راست قرآن کریم کا مخاطب ہونے پر یہ سوچتا رہ گیا کہ مجھ سے قرآن مخاطب ہے یا یہ فاضل مقرر مجھے پکار رہے ہیں۔ میرا یہ ارادہ کہ چند منٹ تماشا دیکھ کر واپس چلا آئوں گا، ریت کی دیوار ثابت ہوا، اور مَیں وہیں دیر تک کھڑا خطاب سنتا رہا۔ علّامہ سعیدی کا اندازِ گفتگو، طرزِ استدلال، سنجیدگی، علمی گہرائی اور وسعت، دردمندی، اخلاص اور دل کی دُنیا کو جھنجھوڑتی باوقار آواز___ بتانہیں سکتا کہ ایک خطاب میں کتنے رنگ میرے دل و دماغ کی دُنیا کو ایک نئے پہلو سے متعارف کرانے کا ذریعہ بن گئے۔مولانا سعیدی نے ہماری روز مرہ کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل کو اُٹھایا، قرآن و سنت کی روشنی میں ان کا فی زمانہ حل بتایا اور سامعین کو کام کا عملی منصوبہ تھمایا۔ان کی گفتگو میرے لیے اتنی دل پذیر اور روح پرور بن گئی کہ وہیں شامیانے کے نیچے بیٹھ گیا اور اختتام تک خطاب سنتا رہا۔ تب میرے لیے اس میں حیرت کا یہ زاویہ بھی تھا کہ قرآن، عربی، یادداشت اور موزوں الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ وہ جدید سائنسی علوم کے سماجی پہلوئوں پر کامل گرفت کے ساتھ کلام کرنے کی صلاحیت سے سرفراز تھے‘‘۔

بنگلہ دیش میں کس قسم کی سفاک، فاشسٹ اور بھارت کی آلۂ کار پارٹی، عوامی لیگ گذشتہ پندرہ برسوں سے حکومت کر رہی ہے؟ اس کا اندازہ محض چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ چند خبریں عوامی لیگ کے اُس مزاج کا اچھا تعارف کرا دیتی ہیں، جس مزاج کے ساتھ اُس نے ۱۹۶۹ء سے مشرقی پاکستان پر قبضہ جمایا، ۱۹۷۰ء میں تمام مدِمقابل متحدہ پاکستان کی حامی پارٹیوں کو تشدد کرکے میدان سے باہر نکال دیا، اور ۱۰دسمبر ۱۹۷۰ء کو پولنگ اسٹیشنوں پر قبضہ کرکے من مانا، سوفی صد نتیجہ حاصل کر لیا، جسے عقل کے اندھے دانش ور ’’شفاف ترین الیکشن اور بنگلہ دیش کے حق میں ریفرنڈم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جس مزاج کے ساتھ ۷۰سال پہلے عوامی لیگ کو بنایا، اُٹھایا اور غالب کرایا گیا تھا۔ اُس کی جانب سے آج بھی وہی فاسد خون بنگلہ دیش کی نئی نسل میں منتقل کیا جا رہا ہے:

  • ۱۵؍اگست کو جماعت اسلامی ڈھاکہ نے سعیدی صاحب کی نمازِ جنازہ کا اعلان کیا تو انھیں جبری طور پر روک دیا گیا۔ اس سے قبل جب سعیدی صاحب کے انتقال کی خبر پھیلی تو لاکھوں لوگ ہسپتال پہنچے، جنھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا اور ایک کارکن فرقان الدین کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔
  • فیروز پور میں جنازے کے لیے لوگوں کی آمد روکنے کی غرض سے سڑکوں پر سرکاری طور پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اس کے باوجود لاکھوں لوگ جنازے میں شریک ہوئے، جن کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔
  • عوامی لیگ کی حامی تنظیم بنگلہ دیش ’اسٹودنٹس لیگ‘ (چھاترو لیگ) کھلنا شہر نے اپنے ۶ پارٹی لیڈروں کو اس ’جرم‘ میں پارٹی سے نکال دیا ہے کہ انھوں نے دلاور سعیدی کے انتقال پر فیس بک پر غم کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح عوامی لیگ کے مقامی لیڈروں شاہ عالم اور خوندکر رحمان کو اس بناپر عوامی لیگ سے خارج کردیا گیا کہ انھوں نے دلاور سعیدی کی نمازِ جنازہ میں ’شرکت کے جرم‘ کا ارتکاب کیا۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۲؍اگست ۲۰۲۳ء)
  • شہید مینار جامع مسجد نواکھالی کے خطیب انورحسین نے بتایا : ’’میرے پاس اپنا دُکھ بیان کرنے کے لیے ہمت اور الفاظ نہیں ہیں کہ کس طرح بتائوں؟ جس مسجد میں مَیں پندرہ برس سے قرآن کی تعلیم اور باقاعدگی سے خطبہ دے رہا ہوں، وہاں نمازِ جمعہ کے بعد ایک اعلیٰ درجے کے مسلمان جناب سعیدی کی مظلومانہ موت پر، محض مغفرت کے چند جملے ادا کرنا مسجد سے میری برطرفی کی بنیاد بنالیا گیا‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۲؍اگست ۲۰۲۳ء)
  • کمار باڑی (جیسور) کے تھانہ شرشا میں گلاپول جامع مسجد کے امام مولانا اشرف الاسلام  نے بتایا: ’’میں ۲۱؍اگست کو مغرب کی نماز پڑھنے اپنی مسجد میں جارہا تھاکہ سات، آٹھ نقاب پوش نوجوانوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے راستے میں روک لیا کہ تم نے سعیدی کے لیے مغفرت کی دعا کیوں کی؟ اور چاقو، بلیڈمارنے شروع کردیئے۔ زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے میں بے ہوش ہوکر گر پڑا تو کچھ لوگوں نے جنرل ہسپتال جیسور میں داخل کرا دیا‘‘۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر مرسلین نے بتایا کہ ’’امام کے جسم پر تیزدھار آلات سے متعدد گہرے زخم آئے ہیں، بہت زیادہ خون بہہ چکا ہے اور وہ زیرعلاج ہیں‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۲؍اگست ۲۰۲۳ء)
  • نندائل، ضلع میمن سنگھ میں بنگلہ دیشی اسٹوڈنٹس لیگ نے اپنے ۸ لیڈروں کو اس لیے پارٹی سے مستقل طور پر نکال دیا کہ انھوں نے فیس بُک پر مولانا دلاور سعیدی کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے چند جملے لکھے تھے۔ اسٹوڈنٹس لیگ نے ڈھاکہ پوسٹ کو بتایا: ’’سعیدی کی موت پر افسوس کا اظہار کرنا، ہماری پارٹی کے اصولوں اور مقاصد سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، اس لیے ہم ایسے کسی فرد کو برداشت نہیں کرسکتے‘‘۔ (روزنامہ سنگرام، ڈھاکا، ۲۲؍اگست ۲۰۲۳ء)

علّامہ سعیدی کی زندگی ایک دینی اور قومی ہیرو کی سی زندگی کا عنوان ہے۔ جس میں عقیدت بھی ہے اور عظمت بھی۔ سچائی پر جم کرکھڑے ہونے کا پیغام بھی ہے اور حق کے لیے جان دینے کے اسوئہ حسینیؓ سے وابستگی کا روشن نقش بھی۔ انھوں نے دین سے محبت، قرآنی تعلیم و تدریس کے شوق اور سیاست میں خدمت کی شاہراہ پر چلتے ہوئے، خوشی خوشی اپنی قتل گاہ تک کا سفر طے کیا۔ علّامہ دلاور حسین سعیدی نے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ برصغیر جنوبی ایشیا کے تمام ممالک میں اسلامی تاریخ کے دبستانوں پر اَن مٹ اثرات چھوڑے ہیں، جن سے آیندہ نسلیں سبق اور عزم کی سوغات پاتی رہیں گی، گفتگو کرتی رہیں گی۔

سوائی مادھوپور، راجستھان ،انڈیا سے بلندپایہ شاعر جناب سرفراز بزمی نے اس موقعے پر کہا:

سفید ریش، جبینوں پہ ضوفگن سجدے

فرشتے دار پہ آتے ہیں مسکراتے ہوئے

رہ وفا کے شہیدو، سلام ہو تم پر

تمھی تو غیرتِ اُمت کی آن بان ہوئے

جھکے نہ نخوتِ شاہی کے آستانے پر

بلا سے راہِ وفا میں لہولہان ہوئے

خطۂ بنگال دعوتِ حق سے وابستہ یادوں، عزیمتوں اور قربانیوں کی سرزمین ہے۔ پہلے یہ مشرقی پاکستان تھا اور اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ وہاں تحریک اسلامی کے تابندہ نقوش کی ایک تاریخ ہے، جسے محفوظ کرنا ہم پر قرض ہے۔ آج بنگلہ دیش، تحریک اسلامی سے وابستگان کے لیے قید، تعزیر اور تختۂ دار سے منسوب ایک خطہ ہے، جہاں قدم قدم پر ظلم کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ اسی سرزمین پر قیامِ پاکستان کے تین سال بعد تحریک اسلامی کے ایک نوعمر طالب علم محبوب الٰہی نے تعلیمی دُنیا میں دعوتِ دین سے منسوب کھجور کا پودا لگایا تھا۔ یہی محبوبِ الٰہی ۹۱برس کی عمر فانی گزار کر، یکم مئی ۲۰۲۳ء کو ربِّ جلیل و کریم کے حضور پیش ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے مقربین میں مقام عطا فرمائے، آمین۔

 خواجہ صاحب کے آباواجداد کشمیر اور سہگل برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ تاہم، رہائشی تعلق پنجاب کے ضلع جہلم، پنڈ دادن خاں سے تھا۔ محبوب الٰہی جولائی ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے ۔ بچپن کا ابتدائی حصہ اپنے والدین کے ساتھ پٹنہ ، گریڈی ( بہار) اور کلکتہ میں گزارا۔ شدید بیماری کے دوران کلکتہ میں والدین نے ان کی تعلیم کے لیے گھرپر ہی انھیں ایک اتالیق محمدرفیق شبلی کی نگرانی میں دے دیا۔ رفیق صاحب مولانا مودودی کی کتب کے شیدا تھے۔ انھوں نے اپنے طالب ِ علم محبوب الٰہی کو مولانا مودودی کی تحریریں پڑھنے کے لیے دیں اور اسلام سے عملی وابستگی کی شاہراہ پر گام زن کردیا۔ قیامِ پاکستان کے زمانے میں محبوب صاحب والدین کے ہمراہ آبائی وطن آگئے۔

آپ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے بالکل ابتدائی  زمانے کے رفقا میں سے تھے۔ ۱۹۵۰ء میں اپنے نانا محمد امین صاحب کے ہاں مشرقی پاکستان چلے گئے، جنھوں نے پٹ سن کی مصنوعات کے لیے ’امین جیوٹ مل‘ قائم کر رکھی تھی۔ محبوب صاحب نے خطبات، سلامتی کا راستہ اورشہادتِ حق سے دعوتِ حق کی جو روشنی حاصل کی تھی، اسے بانٹنے کے لیے انھوں نے ڈھاکا شہر کے علاوہ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں چٹاگانگ،راج شاہی، کھلنا، میمن سنگھ سے چیدہ چیدہ طلبہ کو جمع کرکے اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) قائم کی۔اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کے ناظم کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ چوتھے سالانہ اجتماع ۲،۳،۴ نومبر ۱۹۵۱ء [دہلی مسلم ہوٹل، انارکلی، لاہور]میں شرکت کی ۔ پھر کچھ مدت میں باقاعدہ کوشش کرکے تنظیمی ذمہ داریاں مقامی بنگالی رفقا کے سپرد کیں۔ اپنے بعد سید محمد علی کو مشرقی پاکستان جمعیت کا ناظم مقرر کیا اور کچھ عرصہ بعد ڈھاکا جمعیت کا ناظم قربان علی صاحب کو بنایا ۔یہ خواجہ صاحب کی مردم شناسی کا ثمر تھا کہ اس زمانے میں سید محمد علی، عبدالجبار، شاہ عبدالحنان (بعد میں اسٹیٹ بنک کے ڈپٹی گورنر )،اور فیاض الدین جیسے مثالی کارکن نظم جمعیت میں آئے اور مستقبل میں تحریک اسلامی کو ایک دانش ور اور عملی قیادت فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔ اسی طرح خواجہ صاحب جمعیت کی دعوتی اور تنظیمی کاوشوں کو وسعت دینے اور جملہ مالی وسائل فراہم کرنے کے لیے صف اول میں کھڑے رہے ۔

۱۹۵۶ء میں، ڈھاکا یونی ورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا، اور اعلیٰ تعلیم کی غرض سے لندن اسکول آف اکنامکس سے گریجوایشن کی، اور لندن ہی سے چارٹرڈ اکاؤنٹینسی کا امتحان پاس کیا۔ خواجہ محبوب صاحب نے برطانیہ میں جماعت اسلامی کے پہلے نمایندہ فرد کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا ۔ اسلامک کلچرل سنٹر، بیکرسٹریٹ میں درسِ قرآن کا حلقہ قائم کیا، اور مصر سے اخوان المسلمون کے وابستگان سے ربط و تعلق قائم کیا۔ یہ سلسلہ ’یوکے اسلامک مشن‘ سے بھی پہلے تحریک اسلامی کی کونپل ثابت ہوا۔ انھی کوششوں کے نتیجے میں آج لندن کی سب سے بڑی مسجد کا انتظام بنگالی رفقا بڑے مثالی طریق پر چلا رہے ہیں، جسے اِن نوجوانوں نے اپنی توجہ کا مرکز بنایا تھا۔ یہیں آج کل ’ریسرچ اینڈ آرکائیوز سنٹر‘ ممتاز محقق، جناب جمیل شریف کی زیر نگرانی کام کر رہا ہے ۔

اسی قیام کے دوران خواجہ صاحب نے ڈھاکا سے جمعیت کے ہونہار لیڈر قربان علی صاحب کو لندن بلاکر بیرسٹری کا امتحان دلانے میں فراخ دلانہ تعاون کیا۔  بیرسٹر قربان علی مرحوم بڑے جذبے سے اس واقعے پر شکر گزاری کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ خواجہ صاحب قیامِ لندن کے دوران ہفت روزہ ایشیا لاہور (مدیر: نصراللہ خاں عزیز) میں باقاعدگی سے ’مکتوب لندن‘ لکھتے رہے، جو معلومات اور راست تجزیے کا مرقع ہوتا تھا۔ لکھنے کی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے لندن کے مختلف اخبارات کو بعض اوقات مراسلے اور مختصر مضامین اپنے قلمی نام Saigal (سیگل) سے بھیجے، جو اشاعت پذیر ہوئے۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا کہ انھوں نے کیمبرج میں قیام کے دوران لندن کے اخبار کو مضمون بھیجا، جو نہ چھپا، لیکن پھر وہی مضمون چند روز بعد ’پطرس‘ کے نام سے بھیجا تو شائع ہوگیا۔(یہ ہے یورپ کا نام نہاد ’غیرمتعصب‘ پریس!)

خواجہ صاحب تعلیم مکمل کرکے دوبارہ مشرقی پاکستان ہی منتقل ہو گئے اور امین جیوٹ ملز کے شعبۂ حسابات سے منسلک ہوئے اور باقی وقت تحریکی مصروفیات کے لیے وقف کیا۔۱۹۶۵ء میں خواجہ محبوب الٰہی نے ڈھاکا میں جماعت اسلامی کے امیرخرم جاہ مراد اور اسلامک ریسرچ اکیڈمی کے سیکرٹری جنرل پروفیسر خورشید احمد کو تجویز پیش کی کہ اگر مولانا عبدالرحیم صاحب، امیرجماعت اسلامی مشرقی پاکستان کو تنظیمی ذمہ داریوں سے فراغت دلائی جائے اور وہ پورا وقت تفہیم القرآن کو بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے مختص کردیں، تو اس ضمن میں تمام مالی اخراجات کو وہ ذاتی طور پر ادا کریں گے،اور اس مد کے لیے پانچ سو روپے ماہانہ اعانت دیں گے  (یاد رہے ، تب ایک سو بیس ، پچیس روپے تولہ سونا ہوا کرتا تھا)۔  پھر ۶۷- ۱۹۶۶ میں اس تجویز پر عمل شروع ہوا ،اور مولانا عبدالرحیم صاحب نے یہ کارنامہ بہت تیزی اور کمال درجے محنت سے مکمل کردیا۔

۱۹۷۱ء میں عوامی لیگ کی بغاوت کے دوران شرپسندوں نے امین جیوٹ مل لوٹ لی اور خواجہ صاحب بہت مشکل حالات میں واپس مغربی پاکستان آئے ۔یہاں فیملی کے صنعتی اور کاروباری اداروں میں بطور معاشی مشیر ذمہ داریاں ادا کرنے لگے۔ پھر ’نیلم گلاس‘ اور ’لائنر پاک جیلاٹین‘ (کالا شاہ کاکو) پراجیکٹ کو کامیابی سے چلایا ۔

آزاد جموں و کشمیر میں ۱۹۷۲ء کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آیا، جب کہ  ۱۳جولائی ۱۹۷۴ء کو جماعت اسلامی نے مولانا عبدالباری کی قیادت میں یہاں کام کا آغاز کیا۔ قبل ازیں جماعت کے افراد زیادہ تر مسلم کانفرنس ہی کی تائید و حمایت کرتے تھے۔ یوں اس پارٹی سے وابستہ افراد کے بیٹے جمعیت کی طرف رجوع کرنے لگے۔ تاہم ۱۹۷۶ء میں ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت میں مسلم کانفرنس بے جا پریشانی کا شکار ہوگئی۔ اس کے قائدین اپنے بیٹوں پر ناروا دبائو ڈالتے ہوئے، بھرے جلسوں میں انھیں کھڑا کرکے ’’جمعیت میں شمولیت سے توبہ کرانے‘‘ لگے۔ یہ حالات دیکھ کر خواجہ محبوب الٰہی صاحب نے آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم رائومحمداختر کو بلاکر کہا: ’’یہ تو بڑی ناپسندیدہ صورتِ حال ہے‘‘۔ رائو صاحب نے بتایا: ہمارا تو مسلم کانفرنس سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن اس طرح دعوت کا کام اور کشمیرکاز ضرور متاثر ہوگا‘‘۔ خواجہ صاحب نے کہا: ’’ٹھیک ہے کوشش کرتا ہوں کہ معاملات سلجھ جائیں‘‘۔ اس ملاقات کے صرف دوروز بعد خواجہ صاحب نے کشمیر جمعیت کے ناظم کو پیغام بھیجا کہ ’’میں نے سردار عبدالقیوم خاں صاحب اور سردار سکندر حیات صاحب کو گھر کھانے پر دعوت دی ہے، آپ بھی آجائیں‘‘۔ آزاد کشمیر جمعیت کے ناظم اور جمعیت کے ناظم اعلیٰ اس دعوت میں شریک ہوئے۔ اس طرح بڑے خوش گوار ماحول میں خواجہ صاحب نے بے جا گریز اور تلخی کو ختم کرادیا، یوں دس بارہ برس تک فضا اطمینان بخش رہی۔

پاکستان بننے کے فوراً بعد جن پانچ چھے نوجوانوں کو مولانا مودودی نے شفقت سے نوازا، خواجہ صاحب ان خوش نصیبوں میں شامل تھے ، جب کہ دیگر نوجوانوں میں اسرار احمد،ظفر اسحاق انصاری ،خرم مراد، خورشید احمد اورحسین خان نمایاں تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ اور مولانا مودودی کے ہمراہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ، اور حج کے دوران ان کی خدمت گزاری کی ۔

خواجہ صاحب، جماعت کے رسائل و جرائد کی مالی اعانت بڑے تسلسل سے کرتے۔ تحریک کی مختلف ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے، مشورے دیتے، نئے منصوبوں کی افادیت پر گفتگو کرتے، حوصلہ بڑھاتے اور دل کھول کر مالی امداد کرتے تھے۔ جہاد افغانستان کے دوران صحت اور تعلیم کے منصوبوں میں خوب معاونت کی۔ درجنوں ذہین نوجوانوں کو میڈیکل، انجینئرنگ اور سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلسل وظائف دیے۔ جہادکشمیر کے لیے مالی وسائل مختص کیے۔ حزب المجاہدین جموں و کشمیر کے سربراہ سیّد صلاح الدین نے بجا طور پرکہا: ’’خواجہ صاحب ایک خدا ترس اور جودوسخا کا پیکر تھے۔ خصوصاً بھارتی مظالم کے مارے ورثا، مہاجرین اور محبوسین کشمیر کے حوالے سے انتہائی متفکر رہتے تھے اور مالی اعانت کرنے میں پیش پیش ہوتے تھے‘‘۔ خواجہ صاحب کی اہلیہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے پہلے خواتین کے ماہ نامہ بتول  اور پھر عفت  کو بڑی باقاعدگی اور بلند معیارپر شائع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ خواجہ صاحب کو جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے ، آمین!

پاکستان میںوقتاً فوقتاً بہت سی عجیب چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور حیرت کے سمندروں میں ڈبو دیتی ہیں۔عقل، منطق، اخلاق اور شعور ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ گذشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔

’پیمرا‘ نے اے آروائی چینل کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ۲۰۲۰ء میں مذکورہ چینل پر ایک ڈراما ’جلن‘ کے عنوان سے چل رہا تھا، جس میں ایک بہنوئی اپنی بیوی کی چھوٹی بہن سے عشق میں مبتلا دکھایا گیا تھا۔ پھر کہانی اور ڈرامے کے لوازمات پورا کرنے کے لیے اخلاق باختگی و بے حیائی کا پورا طرزِ بیان اپنے مناظر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ’پیمرا‘ کے چیئرمین نے عوامی حلقوں کے رَدعمل کے جواب میں اس ڈرامے پر پابندی لگادی۔ چینل نے سندھ ہائی کورٹ میںاستدعا کی کہ پابندی ہٹائی جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے فنی بنیادوں پر یہ کہہ کر پابندی ہٹادی کہ ’’پابندی عائد کرنے کے لیے سیکشن ۲۶ کے ضابطے پر عمل نہیں کیا گیا‘‘، جس پر ’پیمرا‘ نے چینل کے خلاف، سپریم کورٹ میں اپیل کردی، جہاں سے ڈھائی سال بعد ۱۲؍اپریل ۲۰۲۳ء کو دورکنی بنچ، مشتمل بر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے متفقہ طور پر ’پیمرا‘ کا موقف مسترد کردیا اور اے آر وائی چینل کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

اس فیصلے میں تین نکات پر زور دیا گیا ہے:l’پیمرا‘ عوامی نمایندوں پر مشتمل ایک وفاقی اور صوبائی شکایات کے لیے کونسلیں بنائے۔  lشکایات کی کونسلیں کسی پروگرام پر پابندی کے لیے معیار مقرر کریں lفحاشی اور بیہودگی کی کیا تعریف ہے؟

بلاشبہہ کسی بھی ڈرامے پر پابندی کی مختلف وجوہ میں بنیادی پہلو اخلاقیات کی مناسبت سے سامنے آتا ہے ، جب کہ ایک مسلم معاشرے میں اخلاقیات کا قانون اور ضابطہ: قرآن، سنت، فقہ اور تاریخی نظائر کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سے ایسی کوئی رہنمائی نہیں دی گئی کہ  ان کی نسلوں میں دینی اُمور کے ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ عمومی حکم کی بنیاد پر یہی امکان ہے کہ معروف این جی اوز کے زیراثر اور دین بے زار لوگ ہی ایسی کونسلوں کے کرتا دھرتا بن کر فیصلے کریں گے، جیساکہ عام طور پر ہوتا آرہا ہے۔

اس فیصلے پر کلام کرتے ہوئے شریعت اور قانون کے پروفیسر محمد مشتاق صاحب کہتے ہیں:  ’’اے آر وائی کا بنیادی اعتراض تو یہ تھا کہ ’پیمرا‘ نے پابندی لگانے کےلیے اس قانونی طریقِ کار پر عمل نہیں کیا، جو ’پیمرا‘ کے قانون میں طے کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے اس اعتراض کو قبول کیا ہے کہ قانون میں وضع کردہ طریقِ کار کی پابندی ضروری ہے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے اس سے آگے بڑھ کر ایسی بحث شروع کی ہے ،جس کی ضرورت نہیں تھی اور پھر اس بحث میں کئی بنیادی اور اہم اُمور کو نظر انداز کردیا ہے، جن پر بات کیے بغیر وہ بحث مکمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ ’برداشت‘ ( Tolerance)سب سے اہم 'آئینی قدر ہے اور اس معیار پر فیصلے کرنے چاہئیں۔ لیکن فاضل ججوں نے یہ نہیں بتایا کہ ’برداشت‘ سے مراد کیا ہے اور برداشت کی وسعت اسلامی اصولوں سے طے کی جائے گی یا مغربی/سیکولر/لبرل مفروضات سے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے اور، بدقسمتی سے، اس پر بہت ہی عمومی، ادھوری اور سطحی نوعیت کی گفتگو کی گئی ہے‘‘۔

یاد رہے، آج کی دُنیا میں ’Tolerance ‘(برداشت) کوئی مجرد لغوی لفظ نہیں ہے بلکہ لبرل ازم کی ایک سوچی سمجھی اور پورے پس منظر کو لیے سیاسی و تہذیبی اصطلاح ہے، جس کا مخصوص ہدف، مفہوم اور متعین ایجنڈا ہے۔

فیصلے کے پیراگراف ۲۴ میں فاضل ججوں نے تحریر فرمایا ہے: ’برداشت‘ ایک کثیرالجہتی تصور ہے، اور عام طور پر اس سے مراد افراد یا گروہوں کے درمیان رائے، عقائد، رسم و رواج اور طرزِعمل میں اختلاف کو قبول کرنا، اور ان کا احترام کرنے کی صلاحیت رکھنا اور ان سے راضی ہونا شامل ہے۔ اس میں نسل، مذہب، ثقافت، جنس(gender)، جنسی رجحان (sexual orientation)، سیاسی نظریہ اور انسانی تنوع (diversity)کے دیگر پہلوئوں میں فرق اور اختلاف شامل ہوسکتا ہے‘‘___ صاف نظر آتا ہے کہ فیصلے میں اس اصطلاح کو ’جنس اور جنسی رجحان‘ سے منسوب کرکے، اباحیت پسندی کے پورے فلسفے کو زیرغور لائے بغیر فیصلے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا گیا۔

پروفیسر محمد مشتاق صاحب کے مطابق: ’’دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل ججز نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کے حق پر کئی حدود و قیود قانون کے تحت لگائی جاسکتی ہیں اور یہ کہ ان حدود میں وہ بھی ہیں جو 'اسلام کی عظمت کے مفاد میں لگائی جاسکتی ہیں( یہ ترکیب آئین کی اسی دفعہ میں مذکور ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کے حق کی ضمانت دی گئی ہے)۔ پھر کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ ۲۰صفحات پر مشتمل اس پورے فیصلے میں ایک بھی قرآنی آیت، حدیثِ نبویؐ یا اسلامی اصول کا ذکر تک نہیں کیا گیا!

اسی طرح فاضل ججز نے ’جنسی رجحان‘ کا بھی ذکر کیا ہے، حالانکہ ’جنسی رجحان‘ پر مقدمے کے فریقوں کی جانب سے بحث ہی نہیں کی گئی! کیا فاضل ججز نے یہ ترکیب استعمال کرنے سے قبل جنس اور صنف کے متعلق آئینی دفعات پر غور کرنا ضروری نہیں سمجھا، جہاں بظاہر جنس اور صنف میں کوئی فرق نہیں ہے اور جہاں ’جنس‘ ہو یا ’صنف‘، اس کی بس دو ہی قسمیں ذکر کی گئی ہیں؟ جو لوگ ’جنس ‘اور’ صنف‘ میں فرق کرتے ہیں یا دو سے زائد جنسوں یا صنفوں کے قائل ہیں، ان کے خلاف تشدد کا عدم جواز ایک الگ امر ہے، لیکن ان اُمور کو بحث میں لائے بغیر فاضل جج یہ ترکیب کیسے استعمال کرسکتے تھے؟ یقینا اپنے نظریاتی پس منظر کی وجہ سے فاضل ججز نے ایسا ضروری سمجھا ہوگا، لیکن آئین و قانون کی رُو سے ان کےلیے مناسب طریقہ یہی تھا کہ ایسے اُمور پر کوئی بات کہنے سے قبل پوری بحث تو ہونے دیتے اور پھر اس بحث کا تنقیدی تجزیہ کرکے اپنی رائے دیتے۔ ایسا کیے بغیر اپنی مرضی فیصلے میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔

’’فیصلے کا یہ حصہ غیر ضروری اور غیر متعلق سہی، لیکن اب اسی حصے کو معاشرے کے بعض افراد سپریم کورٹ کے فیصلے کے طور پر پیش کرکے اپنے مقاصد کےلیے استعمال کریں گے اور کون اس بحث میں پڑے گا کہ آئینی و قانونی لحاظ سے اس حصے کی کوئی حیثیت نہیں ہے‘‘۔

چونکہ اس فیصلے میں کئی ایسے امور ہیں جو واضح طور پر درست نہیں ہیں، اس لیے اس کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے، جس میں درج ذیل اُمور پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے:

  • اظہارِ رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حقوق کی حدود۔
  • ان حقوق پر عائد ہونے والی ان قیود کی وسعت، جو اسلام کی عظمت کے مفاد میں کسی قانون کے تحت عائد کی جاسکتی ہیں۔
  • اسلامی جمہوریہ پاکستان میں فحاشی اور آرٹ کے مفہوم کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔ کیونکہ اس اسلامی جمہوریہ میں تمام قوانین کی اسلام کی روشنی میں تدوین اور تعبیر ضروری ہے۔
  • '’جنسی رجحان‘ کی ترکیب کا مفہوم اور اس کی حدود کا تعین اسلامی اصولوں کی روشنی میں۔
  • میڈیا، سوشل میڈیا اور اظہار و بیان کے تمام پلیٹ فارموں پر اس فیصلے کے مضمرات پر بات ہونی چاہیے،اور رائے عامہ بیدار کرنی چاہیے۔

نظر ثانی کی درخواست مقدمے کا فریق ہی دائر کرسکتا ہے، لیکن اگر ’پیمرا‘ کو اس سے دلچسپی نہ ہو، تو پھر اس موضوع پر آئین کی دفعہ ۱۸۳ (۳) کے تحت باقاعدہ درخواست دائر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس پر اسلامی تشخص کے حوالے سے فکر مند تمام لوگوں کو غور و فکر اور بحث کی ضرورت ہے۔

مسلم دُنیا میں تصادم اور تنائو کی فضا ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، لیکن گذشتہ پچاس برسوں میں اس تصادم کے ماحول میں جن دو ممالک کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشیدگی نے مسلم دُنیا کے حال اور مستقبل پر گہرے منفی اثرات ڈالے، یہ دو ممالک ہیں سعودی عرب اور ایران۔

اس فضا کو گہرائی اور وسعت دینے میں جہاں دونوں ممالک کی سیاسی قیادتوں کا کردار تھا، وہیں اسرائیل کے نام سے ایک آلہ کار امریکی اسرائیلی ریاست کا وجود اہم سنگ میل ہے کہ جسے طاقت اور قوت دے کر امریکی اور مغربی ممالک نے مسلم دُنیا کی کلائی مروڑنے کا کام لیا۔ اس دوران بے مقصد عراق ایران جنگ نے لاکھوں مسلمانوں کی جان لی، اور پھر قریب کے مسلم ممالک مختلف تصادموں اور المیوں کی آماج گاہ بنے رہے۔جس سے خاص طور پر پاکستان متاثر ہوا۔

اس ماحول میں ۱۱مارچ ۲۰۲۳ء کو دُنیا اُس وقت حیران اور امریکی حکومت ششدر رہ گئی، جب بیجنگ میں سعودی عرب اور ایران نے چینی حکومت کے سامنے یہ عہد کیا کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کا پاس و لحاظ رکھیں گے اور ایک دوسرے کی ریاستی خود مختاری کا احترام کریں گے،دوستانہ ہمسائیگی کے تعلقات قائم کریں گے، اور اختلافات بات چیت سے حل کریں گے۔ کھیلوں، سائنسی ترقی اور معیشت کے میدانوں میں تعاون بڑھائیں گے۔

یہ اعلان بیجنگ، ریاض اور تہران سے بہ یک وقت نشر کیا گیا، اور دونوں ممالک نے چینی حکومت کی ثالثی کی کوششوں کی تحسین کرتے ہوئے، تعاون کی اس فضا کو ترقی دینے اور مستحکم کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا۔

یاد رہے دسمبر۲۰۲۲ء میں چینی صدر شی چن پنگ نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پھر فروری ۲۰۲۳ء میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے دورے میں مستقبل کے تعلقات کی اس فضا کو بہتر بنانے میں پیش رفت کی۔ اگرچہ اس اعلان سے یہ ایک مبارک پیش رفت ہوچکی ہے، لیکن آثار بتاتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل اس کے نتیجے میں اپنے تزویراتی اہداف کو پہنچنے والے جھٹکے کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے۔ اب یہ سعودی اور ایرانی قیادتوں کی بالغ نظری کا امتحان ہے کہ وہ پُرامن خطے کو وجود میں لانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور سازشی عناصر کے جوڑ توڑ پر کڑی نگاہ رکھیں۔

۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران مغرب کی طرف سے مسلسل نشانے پر رہا۔ گذشتہ برسوں میں سعودی عرب اور اسرائیل کے باہم تعلقات میں پیش رفت نے ایران کے لیے خطرات کا گراف مزید بلند کردیا، جسے کم کرنے کے لیے ایرانی قیادت نے سوچ بچار کے عمل کو تیز تر کیا۔

ماضی قریب میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے، جب شمالی افریقا کے عربوں میں ۲۰۱۱ء کے دوران عوامی بیداری کی تحریک شروع ہوئی تو عرب حکمرانوں نے اس آزادی کے سیلاب کا رُخ موڑنے کے لیے فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کا منفی کام کیا، جس کے نتیجے میں یہ عوامی اُبھار اُلجھ کر رہ گیا اور جس کو خاص طور پر شام میں تباہ کن عذاب دیکھنا پڑا۔ اس کے نتیجے میں خود فلسطینی تحریک مزاحمت کو انتہائی شدید نقصان پہنچا۔

دوسری طرف ۲۰۱۴ء میں یمن میں جو تضاد بھڑکا، اس نے شیعہ سُنّی مناقشے کا رُوپ دھار لیا، جس میں ایران نے براہِ راست پیش قدمی کرکے ۲۰۱۵ء میں سعودی عرب کی سلامتی کے لیے مسائل کھڑے کر دیئے۔ اسی تسلسل میں جنوری ۲۰۱۶ء کے دوران سعودی عرب نے ممتاز شیعہ عالم نمرباقر کو پھانسی دے دی اور حالات میں کشیدگی برق رفتاری سے بڑھ گئی۔ جس کے نتیجے میں سعودی عرب اسلحے کی خریداری کی ایک حددرجہ مہنگی اور ناقابلِ تصور دوڑ میں اُتر گیا۔ امریکی اسلحہ سازی کی صنعت کو ہوش ربا فائدہ ہوا اور سعودی معیشت پر ناقابلِ بیان بوجھ پڑگیا۔

یہ امر بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ سعودی عرب پر امریکا اور اسرائیل کا ناقابلِ تصور دبائو مختلف سمتوں سے بڑھ رہا تھا، جس کے رَدعمل کے طور پر سعودی عرب اور امریکا میں دُوری کا عمل شروع ہوگیا۔ اسی طرح امریکا، سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ تیل کی قیمتیں کم کرے، جسے سعودی عرب نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، جس سے ان کے درمیان تنائو اور فاصلہ مزید بڑھ گیا۔اس فضا میں سعودی قیادت کوشش کر رہی تھی کہ امریکا کے اثرات سے آزادہوکرعلاقے میں کردار ادا کرے۔ سعودی عرب کی اس داخلی سوچ کا چین کو ادراک تھا اور اس نے اس پس منظر میں ایک انقلابی اور تعمیری کردار ادا کرکے سعودی عرب اور ایران کو اپنے تعلقات درست کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ ان ممالک کی قیادتوں کو باور کرایا کہ تصادم کے بجائے اشتراک اور تعاون کے ذریعے علاقے کے مسائل کو حل کریں اور اپنے وسائل کو اپنے ممالک کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں۔ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اثرورسوخ کم ہوگا، اسرائیل کے عزائم اور منصوبوں پر ضرب پڑے گی اور علاقائی ممالک کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع میسر آئے گا۔

اس میں پاکستان کے لیے بھی نئے امکانات کا بڑا سامان ہے، بشرطیکہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو امریکا کے اثرات سے آزاد کروا کے، اپنے قومی مفادات اور مشرق وسطیٰ کی ترقی کے لیے استعمال کریں۔ تاہم، پیش نظر رہے کہ پاکستان کے لیے ایک پہلو خطرے کا بھی ہے ،جس کے بارے میں ضروری سوچ بچار کرنا اور ایران سے تعلقات میں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ اس اُبھرتے ہوئے نظام میں وسط ایشیا کی ریاستوں اور خود افغانستان کا عرب دُنیا تک رسائی کے لیے پاکستان پر انحصار کم ہوجائے گا اور وہ ایران کے راستے براہِ راست رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں اس سلسلے میں بہت سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا ہوگی اور ایران سے خصوصیت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔

آج، جب کہ یہ منظر بدلا ہے تو اس کے تسلسل میں سعودی حکومت نے شام کے ساتھ معاملات کو معمول پر لانے کے لیے بڑا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ چیز بھی امریکا اور اسرائیل کے لیے سفارتی پسپائی کا عنوان ہے۔

بہرحال، سعودی عرب اور ایران کے ان تعلقات کی بحالی کا مثبت اثر نہ صرف مسلم دُنیا بلکہ عالم انسانیت پر بھی پڑے گا۔ اسرائیلی ریاست کو قائم کرنے کے لیے برطانیہ، امریکا اور یورپ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا،اس کا بڑامقصد دُنیا کے اعصاب مرکز کو مسلسل اضطراب کا شکار کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کا استحصال کرنا اور اسلحے کی مہنگی صنعت کے ذریعے یہاں کی دولت بٹورنا تھا۔ اس کے برعکس چین کی سفارت کاری میں صاف نظر آرہا ہے کہ اس کا مقصد اس علاقے کو دھونس پر مبنی امریکی اثرات سےبچاکر عمومی تجارتی مفادات کو فروغ دینا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک انسانیت کش جنگی صنعت کے مقابلے میں یہ تجارتی دھارے کا سفر ہے۔

مناسب ترین صورت یہ ہے کہ مستقبل میں ایسی تباہ کن صورتِ حال سے بچنے کے لیے سعودی عرب اور ایران آگے بڑھ کر پاکستان اور ترکیہ کے تعاون سے ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کو ایک نیا، فعال اور مؤثر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

دوسرے یہ کہ تاریخ کے اوراق کو تو ہم تبدیل نہیں کرسکتے مگر عوامی اور سماجی سطح پر آپس کے تعلقات میں بہتری اور خوش گواری کے لیے، فرقہ وارانہ مغائرت سے بلند ہوکر حیات بخش راستے تلاش کریں اور ایک نئے عہد کا آغاز کریں۔

تیسرا یہ کہ سائنس، ٹکنالوجی، ابلاغیات اور انتظامیات کے میدانوں میں شان دار پیش رفت کا آغاز کریں۔

چوتھا یہ کہ چین کی قومی سلامتی کو برقرار رکھتے ہوئے، وہاں ایغور مسلمانوں کے تعلیمی، تہذیبی، معاشی اور اختیاراتی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس طرح مسلم دُنیا میں اطمینان کی لہر پروان چڑھانے کی غرض سے دُور اندیشی پر مبنی اقدام کی طرف متوجہ کریں۔

پانچواں یہ کہ افغانستان میں امن، سکون، شہری زندگی کی بحالی اور جنگی اثرات سے نجات دلانے کے لیے یہ تینوں ممالک پاکستان سے مل کر کردار ادا کریں۔

سات عشروں سے کشمیری اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جان کی بازی لگارہے ہیں، اور دوسری طرف انڈیا کی کبھی نام نہاد سیکولر حکومتیں اور کبھی فاشسٹ حکومتیں انھیں کچلتی اور ان کی اولادوں کو عذاب کی مختلف صورتوں میں دھکیلتی چلی آرہی ہیں۔ نئی دہلی کے سفاک حکمرانوں نے جب یہ دیکھا کہ مسلم دُنیا کے دولت مند ممالک اُن کی نازبرداری کرتے ہوئے انڈین تجارت، کلچر اور دفاعی تعاون تک کے لیے بچھے جارہے ہیں، تو اُنھوں نے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و وحشت کے پہیے کو تیز تر کردیا۔ جنوری ۲۰۲۳ء میں جب کشمیر شدید برف باری اور بارشوں میں گھرا ہوا تھا، ظلم اور توہین کی ایک نئی یلغار سے اہل کشمیر کو اذیت سے دوچار کیے جانے کا آغاز ہوا۔ یہ ہے سری نگر سمیت کشمیر کے تمام اضلاع میں، سرکاری املاک پر ’تجاوزات‘ کے نام پر سالہا سال سے مقیم کشمیری مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں کو بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کرنے اور شہری زندگی کے آثار کچلنے کا وحشیانہ عمل۔ اس پر نعیمہ احمد مہجور نے اخبار دی انڈی پنڈنٹ (۱۷فروری) میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عنقریب مقامی آبادی کا ایک حصہ سڑکوں یا گلی کوچوں میں پناہ لے رہا ہوگا یا روہنگیا مسلمانوں کی مانند لائن آف کنٹرول کی جانب بھاگنے پر مجبورہوگا‘‘۔

سری نگر سے بی بی سی کے نمایندے ریاض مسرور نے ۱۸فروری ۲۰۲۳ء کو رپورٹ کیا: ’’انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں مقبول احمد اُن ہزاروں بے گھر کشمیریوں میں شامل ہیں، جنھوں نے برسوں کی جدوجہد کے بعد دو کمروں کا گھر تعمیر کیا۔ ایسی بستیوں کو حکومت کی طرف سے بجلی، پانی اور سڑکوں جیسی سہولت بھی میسر ہے، مگر اب اچانک کہا جارہا ہے کہ تم سب ناجائز قابضین ہو‘‘۔

 حکومت کی طرف سے ’ناجائز‘ یا ’غیرقانونی‘ قرار دی جانے والی تعمیرات کو گرانے کی مہم زوروں پر ہے اور ہر روز حکومت کے بُلڈوزر تعلیمی اداروں، دکانوں، مکانوں اور دیگر تعمیرات کو منہدم کررہے ہیں۔ اس نئی مہم کے تحت کسی کی دکان جارہی ہے، کسی کا مکان اور کسی کی زرعی زمین چھینی جارہی ہے۔ مقبول احمد کہتے ہیں:’’ہماری تین نسلیں یہاں رہ چکی ہیں۔ ہم کہاں جائیں؟ یہاں کے لوگ خاکروب یا مزدور ہیں۔ اگر یہ گذشتہ ۷۵برس سے غیرقانونی نہیں تھے تو اب کیسے ناجائز قابضین ہوگئے؟ یہ کون سا انصاف ہے‘‘۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے مقامی کشمیری لیڈر الطاف ٹھاکرے نے اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوکر کہا:’’بابا کا بلڈوزر تو چلے گا‘‘ حالانکہ عالمی نشریاتی اداروں کی دستاویزی رپورٹوں میں تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر کھڑی عورتیں فلک شگاف فریادیں کرتی نظر آتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ انصاف کرو ، ہمیں برباد نہ کرو‘‘۔

نئی دہلی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ حکومت نے گذشتہ تین سال کے دوران زمین سے متعلق ۱۲قوانین ختم کیے ہیں، ۲۶قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں اور ۸۹۰ بھارتی قوانین کو جموں کشمیر پر نافذ کر دیا ہے۔اکتوبر ۲۰۲۲ء میں ’’جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن تھرڈ آرڈر‘‘ نافذ کیا گیا، جس کا مقصد مقامی کشمیریوں کو زمین سے بے دخل کرکے ، سرزمین کشمیر کو پورے ہند کی چراگاہ بنانا ہے۔ اس کے بعد دسمبر ۲۰۲۲ء میں ’لینڈ گرانٹس ایکٹ‘ نافذ کیا گیا ہے، جس کے ذریعے تعمیرات کو ناجائز قرار دینے کا یہ سارا فساد برپا کیا گیا ہے۔

ان مسلط کردہ ضابطوں کے مطابق کہا جارہا ہے: ’’کوئی زمین یا عمارت پہلے اگر لیز پر دی گئی تھی تو حکومت حق رکھتی ہے کہ وہ پراپرٹی واپس لی جائے‘‘۔ سرینگر، جموں اور دوسرے اضلاع میں تقریباً سبھی بڑی کمرشل عمارتیں لیز پر ہی تھیں، اب وہ لیز ختم کی جارہی ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ ’’سابق وزرا، بڑے افسروں اور حکومت کے حامی تاجروں کی عمارات کو چھیڑا نہیں جارہا۔ مقامی صحافی ماجد حیدری کے بقول: ’’ان بلڈوزروں کا نشانہ صرف غریب مسلمانوں کی جھونپڑیاں ہیں‘‘۔ ’بلڈوزر مہم‘ سے مسلمانوں کی آبادیوں میں سخت خوف پایا جاتا ہے اور کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے ہیں، مگر احتجاجیوں کی فریاد سننے کے بجائے ان کو بُری طرح تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لوگ بجاطور پر سمجھتے ہیں کہ ’’یہ زمینیں حاصل کر کے انھیں پورے انڈیا کے دولت مند لوگوں میں فروخت کر دیا جائے گا‘‘۔پہلے یہ بات خدشہ تھی، اب عملاً یہ سب کچھ ہورہا ہے۔

روزنامہ دی گارجین،لندن(۱۹مارچ ۲۰۲۳ء) میں آکاش حسان نے سری نگر سے اور حنان ایلس پیٹرسن نے نئی دہلی سے ایک مشترکہ رپورٹ میں اسی نوعیت کے حقائق پیش کیے ہیں۔

۵۲ برس کے فیاض احمد کا کھردرا باغ میں ۳۰سال پرانا گھر بھی بغیر کسی وارننگ کے منہدم کردیا گیا تو انھوں نے کہا: ’’یہ سب حربے کشمیریوں کو دبانے کے لیے برتے جارہے ہیں‘‘۔ ۳۸سال کے سہیل احمد شاہ اُس ملبے کے سامنے صدمے اور مایوسی کی کرب ناک تصویر بنے کھڑے تھے، جو دوعشروں سے اُن کا ذریعۂ معاش تھا۔ وہاں وہ اپنی ورکشاپ میں کام میں مصروف تھے کہ ایک ناگوار کرخت آواز سنی، جو دراصل اُن کی ٹین کی چھت کو چڑمڑ ہونے سے پیدا ہورہی تھی، اور وہ چھت اُن کے اُوپر گرا چاہتی تھی کہ بمشکل بھاگ کر جان بچاسکے۔انھوں نے بتایا: ’’نہ ہمیں کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ کوئی پیشگی اطلاع دی گئی۔ ہم مدتوں سے کرایہ دے کر یہاں روزی روٹی کماتے تھے، اور اب تباہ ہوکر یہاں کھڑے ہیں‘‘۔

سری نگر شہر میں پرانی کاروں کے پُرزوں کی مارکیٹ میں اس نوعیت کی تباہی کے آثار بکھرے دکھائی دے رہے ہیں، جسے حکومت ’زمینیں واپس لینے‘ کا نام دے رہی ہے، حالانکہ کشمیر میں رہنے والے اسے ایک مذموم اور مکروہ مہم قرار دے رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندونسل پرست نریندرا مودی وسیع ایجنڈے کے تحت کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل، بے گھر اور بے روزگار کرکے نقل مکانی پر مجبور کرنے میں مصروف ہے۔ یاد رہے، واحد کشمیر ہی وہ علاقہ ہے، جہاں مسلمان واضح اکثریت رکھتے ہیں اور اس پہچان کو ختم کرنا آر ایس ایس کے پیش نظر ہے۔

۲۰۱۴ء میں نئی دہلی میں مودی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی انڈیا کے طول و عرض میں مسلم اقلیت کو ستم کا نشانہ بنانے کا مؤثر ذریعہ بلڈوزر رہے ہیں۔ اترپردیش، دہلی، گجرات اور مدھیہ پردیش میں فعال مسلمانوں کے گھروں کو تہس نہس کرنے کے لیے بلڈوزروں ہی کو ہتھیار کے طور پر برتا گیا ہے۔ جب اس بلا کا رُخ کشمیر کی طرف مڑا تو سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا:’’انہدام کی یہ مہم [کشمیر میں] لوگوں کو ان کے گھروں اور معاش و روزگار کے مراکز کو تباہ کرکے پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی ایک مکروہ چال ہے‘‘۔ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا: ’’انڈیا میں واحد مسلم ریاست کے شہریوں کے استحصال کی یہ نئی لہر درحقیقت ماضی کی زیادتیوں کا ہی تسلسل ہے‘‘۔کانگریس نواز نیشنل کانفرنس کے لیڈر فیصل میر کے مطابق: ’’بی جے پی جموں و کشمیر کو واپس ڈوگرہ دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ بلڈوزر سے زمین ہتھیانا اور جائیداد چھیننا اسی پالیسی کا تسلسل ہے‘‘۔

اگست ۲۰۱۹ء میں مودی حکومت کی نسل پرست حکومت نے یک طرفہ طور پر جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت چھین لی اور ریاست کے دروازے تمام بھارتیوں کے لیے کھول دیئے کہ وہ یہاں جائیدادیں خرید سکتے ہیں اور یہاں کے ووٹر بن سکتے ہیں۔ یہ سب کام یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے ہیں، تاکہ ووٹوں کا تناسب تبدیل اور من مانی حلقہ بندیاں کرکے، مسلم آبادی کو نام نہاد انتخابی عمل میں بے بس کر دیا جائے۔

ریاست جموں و کشمیر میں آزادیٔ اظہار سلب ہے، سیاسی نمایندگی تارتار ہے، اور کشمیر  اب دُنیا میں سب سے زیادہ فوجیوں کی موجودگی کا علاقہ بن گیا ہے، جس میں ہرچند کلومیٹر کے فاصلے پر مسلح فوجیوں کی چوکیاں موجود ہیں۔  سنسرشپ عائد ہے، جو کوئی سوشل میڈیا پر حکومتی ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، پولیس اسے فوراً گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں میں صحافیوں آصف سلطان، فہدشاہ، سجادگل اور عرفان معراج کو دہشت گردی کے قوانین کے تحت اُٹھا لیا گیا ہے، جب کہ ہزاروں کشمیریوں کے سر سے چھت چھین لی گئی ہے۔دراصل یہ وہی ماڈل ہے جو اسرائیل نے فلسطینیوں پر مسلط کرکے عرب آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا ہے، اور جسے برہمن نسل پرست، صہیونی نسل پرستوں سے سیکھ کر کشمیر میں نافذ کر رہے ہیں۔ مقامی شواہد کے مطابق گذشتہ ڈیڑھ برس کے دوران تقریباً سات لاکھ غیرکشمیری، یہاں لاکر آباد کیے جاچکے ہیں۔

ظلم کی اس سیاہ رات میں مظلوموں کے گھر روندے جارہے ہیں،وہ کھلے آسمان تلے حسرت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ دُنیا کا میڈیا اور مسلمانوں کی حکومتیں، جماعتیں، ادارے اور سوشل میڈیا پر فعال نوجوان اس درندگی اور زیادتی کا کرب محسوس کرنے سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ معلوم نہیں کس قیامت کے ٹوٹنے کا انتظار ہے، حالانکہ ہزاروں کشمیری گھروں پر قیامت تو ٹوٹ بھی چکی ہے۔

برما (میانمار) کے مسلمانوں پر گذشتہ ۸۰برس سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، لیکن گذشتہ دس برسوں کے دوران اس ستم کاری اور بدھ مت کے پیروکاروں کی وحشت انگیزی میں بے پناہ شدت آئی ہے۔ مگر افسوس کہ نام نہاد عالمی ضمیر خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔

’’روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ ایک نہایت خطرناک موڑ پر آچکا ہے۔اگر بین الاقوامی رہنماؤں نے فوراً کوئی لائحہ عمل تیار نہ کیا تو خدشہ ہے کہ مہاجرین کی واپسی کے تمام امکانات ختم ہوجائیں گے‘‘۔ ان خیالات کا اظہار ناروے کی مہاجرین کونسل کے سیکرٹری جنرل جان ایجی لینڈ نے ستمبر۲۰۲۲ء میں بنگلہ دیش کے دورے کے دوران کیا۔

انھوں نے مزید کہا: ’’یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بنگلہ دیش میں مہاجر روہنگیا برادری ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے کہ اگر فوراً ان کی دربدری کا کوئی سدباب نہیں کیا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی۔ یہاں بسنے والے خاندان بنی نوع انسان کی بدترین بے حسی کے گواہ ہیں۔ اگر معاملات یونہی رہے تو ان کی میانمار میں اپنے گھروں کو واپسی ہمیشہ کے لیے ناممکن ہو جائے گی‘‘۔

اگست ۲۰۱۷ء میں میانمار میں تباہ کن مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو ۱۰ لاکھ روہنگیا مہاجرین نے جان بچانے کے لیے پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لی اور تاحال یہیں مقیم ہیں۔ مکمل طور پر بیرونی امداد پر گزربسر کرنے والے ان مہاجرین کے لیے ۳۱ عارضی آبادیاں قائم کی گئیں، جنھیں مجموعی طور پر دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ کہا جاتا ہے۔

ان مہاجرین میں تقریباً ساڑھے چار لاکھ کی تعداد میں بچے، نابالغ اور نوجوان شامل ہیں، جوشاید ایک ’گمشدہ نسل‘ کے طور پر پروان چڑھ رہے ہیں۔ عالمی برادری کی توجہ دوسرے بہت سے مسائل کی طرف بٹ رہی ہے اور امدادی فنڈز کی فراہمی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے،ان حالات میں مہاجرین کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا انتہائی مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ 

مہاجرین کونسل ناروے نے ۳۱۷ روہنگیا نوجوانوں پر تحقیق کی، جس میں معلوم ہوا کہ ۹۵ فی صد نوجوان بے روزگاری کے سبب شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی روزگار ہے اور نہ زندہ رہنے کا وسیلہ۔ یہ قرض کے بوجھ تلے دب چکے ہیں اور دنیا سے مدد کا انتظار کر کے تھک چکے ہیں۔ شکستہ وعدوں اور مایوسی کے اندھیروں نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے‘‘ ۔ روہنگیا آبادی کی بحالی کا منصوبہ فنڈز کی مسلسل کمی کا شکار رہتا ہے۔ گذشتہ اگست تک درکار امداد کا صرف ۲۵ فی صد ہی مہیا ہو سکا۔ اب تک حاصل ہونے والی رقم ۳۵ سینٹ (۶۰روپے)  یومیہ فی مہاجر بنتی ہے۔

ایجی لینڈ نے کہا:’’میں بنگلہ دیش سے باہر بین الاقوامی قیادت کی اس مسئلے میں عدم دلچسپی دیکھ کر شدید مایوس ہوا ہوں۔ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے اور اس سیاسی بحران کو ختم کرنے کے بجائے ہماری قیادتوں کے درمیان بے حسی کا مقابلہ چل رہا ہے۔جو لوگ باہر کہیں پناہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں انھیں اُلٹا زبردستی واپس دھکیل دیا جاتا ہے۔چین اور اس علاقے کے ممالک کو مل کر اس مسئلے کے حل پر غور کرنا چاہیے۔ روہنگیا مہاجرین ایک گہری کھائی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اگر ہم نے ان کا ہاتھ نہ تھاما اوراگر ہم اس ظلم کو یونہی خاموشی سے دیکھتے اور برداشت کرتے رہے تو آیندہ نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم کو جو کہنا چاہیے تھا، وہ نہیں کہا اور جو کرنا چاہیے تھا، وہ ہم نے نہیں کیا‘‘۔

بنگلہ دیش کی طرف روہنگیا مسلمانوں کی پہلی بڑی ہجرت ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔اس کے بعد ۹۰ء کے عشرے کے آغاز میں اور پھر ۲۰۱۷ء میں بڑے پیمانے پر یہ ہجرت عمل میں آئی۔  روہنگیا مہاجرین کی اکثریت مسلمان ہے۔

روہنگیا آبادی ’راکھائن‘ کے علاقے سے سرحد کو پار کر کے اس طرف کاکس بازار میں آباد ہوئی ہے اور یہ شہر مہاجرین کی مسلسل آمد کے باعث آبادی کے بے پناہ دبائو کا شکار ہو چکا ہے۔ اب بنگلہ دیشی حکومت مہاجرین کو جزیرہ ’بھاشن چار‘ پر منتقل کرنے کا سوچ رہی ہے۔

۲۰۱۷ء کی بڑی نقل مکانی سے پہلے بھی کاکس بازار کے کیمپوں’کٹاپالونگ‘ اور’ نیاپرا‘ میں ہزاروں روہنگیا مہاجرین موجود تھے۔ اکثر فلاحی تنظیمیں مثلاً UNHCR وغیرہ چاہتی ہیں کہ روہنگیا برادری امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے۔لیکن بنگلہ دیش کی کمزور معیشت اتنے مہاجرین کو سہارا دینے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق ڈھاکا میں غربت کی شرح ۳۵ فی صد ہے اور کاکس بازار میں۸۵ فی صد۔ اس پر مستزاد یہ خطہ قدرتی آفات مثلاً سیلاب اور سمندری طوفانوں کی زد میں رہتا ہے،جب کہ یہاں بنیادی صحت اور تعلیم کا نظام بھی موجود نہیں۔

اس وقت بنگلہ دیش میں بنیادی ضروریات کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ بالائی درمیانہ طبقہ بھی سخت متاثر ہو رہا ہے۔ بہت سے کاروبار بند ہو چکے ہیں اور بے روزگاری میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ ۲۰۱۹ء کی ۴ء۳ فی صد شرح بے روزگاری ۲۰۲۰ء میں بڑھ کر۵ء۳  فی صد ہو چکی ہے۔بہت سے کاروبار جو بند ہو گئے تھے وہ دوبارہ شروع نہیں ہو رہے، کیونکہ کوئی سرمایہ موجود نہیں ہے۔

کاروبار شروع یا بحال کرنے کے لیے بنکوں سے قرضہ لینا انتہائی مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ بنگلہ دیش میں ہر طرف پھیلی بدعنوانی ہے اور دوسری وجہ فرسودہ بنکاری نظام۔ پھر بیرونِ ملک سے ہونے والی ترسیلات زر (Remittances) میں کمی نے ہلاکر رکھ دیا ہے، جن پر بنگلہ دیشی معیشت بڑی حد تک منحصر ہے۔

سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ معاشی تباہی کے شکار روہنگیا مسلمانوں کی خواتین کے ایک حصے میں جسم فروشی زہر بن کر پھیل رہی ہے۔ اس موضوع پر شائع شدہ تحقیقی رپورٹوں میں اتنے شرمناک اعدادوشمار اور تفصیلات درج ہیں کہ ہم انھیں یہاں پر پیش کرنے کی ہمت نہیں پاتے۔

فی الحال اس سیاہ رات کے بعد کسی دن کا اُجالا نظر نہیںآتا۔ لاکھوں مہاجرین کو گن پوائنٹ پر واپس راکھائن کی طرف دھکیلنے کے بجائے اس مسئلے کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش کیا جائے۔

اس وقت کیفیت یہ ہے:

  • میانمار کے مختلف حصوں میں جاری شدید جھڑپوں کے بعد وہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال دگرگوں ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں شہریوں کی املاک کے مزید نقصان اور مزید نقل مکانی کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔انسانی زندگی کو مزید خطرے درپیش ہیں اور پہلے سے خراب صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
  • پورے میانمار میں اس وقت تک مجموعی طور پر ۱۳ لاکھ سے زیادہ لوگ دربدر ہو چکے ہیں۔ اس میں گذشتہ سال ہونے والے فوجی شب خون کے بعد نقل مکانی کرنے والے ۸ لاکھ  ۶۶ہزار  لوگ بھی شامل ہیں۔
  • ایک کروڑ ۴۰ لاکھ سے زائد کی آبادی کو زندہ رہنے کے لیے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے۔
  • اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے جو منصوبہ تیار کیا گیا ہے اس کے لیے درکار رقم کا صرف ۱۷فی صد ہی مہیا ہو سکا ہے۔ مہاجرین کی مدد کے لیے پہنچنے کی راہ میں درپیش مشکلات کے باوجود، کئی فلاحی تنظیمیں شدید خطرات میں گھری آبادی کو انتہائی بنیادی ضروریات مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔

(ریلیف ویب اور روزنامہ اسٹار، اور سودا دیس رائے کی معلومات سے بھی استفادہ کیا گیا ہے)۔

کیا مسئلہ کشمیر ، یوں ہی سلگ سلگ کر، سامراجیت کی نذر ہوجائے گا؟

یہ اذیت ناک سوال جموں و کشمیر اور پاکستانی عوام کے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، اور ہرآنے والا دن اس کرب میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت میں حکومت، فوج، حزبِ اختلاف تینوں ہی یکسوئی کے ساتھ، کشمیر میں انسانیت کے قتل پر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے ہیں، اور دوسری جانب پاکستان میں حکومت، حزبِ اختلاف اور فوج مسئلہ کشمیر کے حل کی جدوجہد کے لیے یکسو اور متحد دکھائی نہیں دیتے۔

اگر حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ برس فروری میں اچانک کمانڈروں کی سطح پر فائربندی کی یادداشت پر دستخطوں نے تو ہر کسی کو حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا تھا۔ جنگی صورتِ حال سے دوچار ملکوں کے درمیان ایسے سنگین معاملات حکومتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں، لیکن یہاں پر عسکری سطح پہ مذاکرات اور معاملہ فہمی کی گئی۔

ہم نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ یہ محض بھارتی چال ہے، جس سے وہ پاکستان کے اندر غلط فہمی کو ہوا دے گا اور وقت گزاری کے بعد، برابر اپنے ایجنڈے پر نہ صرف قدم آگے بڑھائے گا بلکہ جب چاہے گا کشمیر میں قتل و غارت سے دریغ نہیں کرے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ،اپریل ۲۰۲۱ء کے بعد خاص منصوبے کے تحت انسانیت کی تذلیل پر مبنی نام نہاد سول اقدامات پر عمل جاری رہا۔ حتیٰ کہ اسی سال یکم ستمبر ۲۰۲۱ء کو جموں و کشمیر کے عظیم رہنما سیّد علی گیلانی صاحب کے انتقال کے موقعے پر بھارتی حکومت کی جانب سے بدترین ظلم و زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی تجہیزو تدفین توپ و تفنگ کے زیرسایہ جبری طور پر من مانے طریقے سےکی گئی، اوراہلِ خانہ تک کو شرکت سے محروم رکھا گیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان فروری ۲۰۲۱ء کی نام نہاد ’فوجی معاملہ فہمی‘ کے صرف تین ماہ بعد پاکستان کے سپہ سالار صاحب نے بھارت کے ساتھ ’ماضی کو بھلا کر‘ معاملات میں آگے بڑھنے کا نظریہ (doctrine) پیش کیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون سے ’ماضی کو بھلا کر؟‘ یعنی یہ ماضی کہ: بھارت نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اسے ناکام بنانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کیا، اور بڑے پیمانے پر مسلسل پاکستان کی تخریب کا سامان کر رہا ہے، ۱۹۷۱ء میں پاکستان توڑا، پاکستان میں بار بار مداخلت اور تنگ نظر قوم پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں دہشت گردی کرائی، افغانستان سے پاکستان کی تباہی کا سامان مہیا کیا اور جموں و کشمیر میں مسلسل قتل و غارت اور درندگی و بہیمیت کا ارتکاب کیا ہے اور مسلسل کیے جا رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا، جب معصوم کشمیری نوجوان شہید نہ ہورہے ہوں، اور کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے اور اسے ہندو اکثریت کا ایک خطہ بنانے کےمذموم منصوبے پر عمل نہ ہورہا ہو۔

ہماری دانست میں بھارت سے تعلقات پر بات کرتے وقت یہی اذیت ناک ماضی سامنے آتا ہے۔ کیا یہ ماضی یک طرفہ طور پر بھلا دینا اور ان اسباب و علل کو نظرانداز کرنا کوئی واقعی سوچی سمجھی حکمت عملی اور دانش مندی ہے؟ پھر یہ کہ ریاست کے مستقبل سے منسوب معاملات کی پالیسی بنانا کیا عوام کے منتخب نمایندوں کا کام ہے یا طاقت کے کسی ایک یا دو مراکز کے پاس اس نوعیت کے ڈاکٹرائن پیش کرنے اور واپس لینے کا اختیار ہے؟ اسی طرح یہ بات واضح ہے کہ خود عمران خاں حکومت کا رویہ بھی مسئلہ کشمیر پر چند روایتی تقاریر اور بیانات تک محدود رہا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح ان کی ’کشمیر کمیٹی‘ بھی نہایت نچلے درجے پر محض خانہ پُری اور بے عملی کی تصویر بنی رہی۔

اب جیسے ہی اپوزیشن پارٹیوں کی صورت میں شہباز شریف حکومت برسرِاقتدار آئی تو اُس نے کشمیر کے مسئلے کو اپنی توجہ کا اس طرح موضوع بنایا ہے کہ بھارت کے تمام منفی اقدامات کو نظرانداز کرکے، اس سے تجارتی تعلقات پروان چڑھانے کے لیے کمرشل اتاشی مقرر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ تنقید کے بعد حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تجارتی تعلقات قائم کیے جارہے ہیں‘‘۔ اگر واقعی تجارتی تعلقات قائم نہیں کیے جارہے تو کمرشل اتاشی کیا سیاحت کے لیے دہلی بھیجے جارہے ہیں؟ تاہم، یہ وضاحت اقتدارو اختیار کے سرچشموں پر فائز افراد کی جانب سے عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی ایک حرکت لگتی ہے۔ اس خدشے کی بنیاد ایک تو شریف حکمرانی میں بنیادی اُمور کو نظرانداز کرکے بھارت سے تعلقات بڑھاتے وقت بزعم خود معاشی پہلو کو مرکزیت دینا ہے اور دوسری طرف طاقت ور ادارے بھی وقتاً فوقتاً اس نوعیت کے خیالات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔

چند لمحوں کے لیے یہ مان لیا جائے کہ بھارت سے تجارت کھول دی جائے، تو اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ بھارت نے پاکستانی درآمدات پر دو سو فی صد ڈیوٹی عائد کر رکھی ہے۔ ماضی کے تجربات گواہ ہیں کہ بھارت کو پاکستانی برآمدات کا حجم، بھارت سے درآمدات کا صرف پانچواں حصہ رہا ہے، اور اس طرح ہم بھارت کی معاشی قوت کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے رہے ہیں۔دوسرے یہ کہ اس پیش قدمی سے پاکستان کی گھریلو صنعت اور زراعت پر شدید منفی اثرات پڑیں گے، کیونکہ بھارت میں شعبہ زراعت سے متعلق طبقوں کو پانی اور بجلی کے سستے فلیٹ ریٹ پر فراہمی کے نتیجے میں پاکستان کے مقابلے میں بہت کم معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ یہ حقائق نظرانداز کرکے بھلا ہمارے حکمت کار کس طرح دوطرفہ تجارت کے نام پہ، عملاً یک طرفہ تجارت کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں؟ اس تمام پس منظر میں پاکستانی زرِمبادلہ کا بہائو بھارت ہی کے حق میں ہوگا، نہ کہ پاکستان کی جانب۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ ہے، وگرنہ ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل مسئلہ ، مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ تجارت، تعلیم، ثقافت، ثانوی اُمور ہیں، جن کی بنیاد پر اصل مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا اور نہ قالین کے نیچے دھکیلا جاسکتا ہے۔

مسئلہ کشمیر ایک عالمی مسئلہ ہے، جو دو ملکوں کے درمیان زمین کا کوئی تنازعہ نہیں ہے، بلکہ ڈیڑھ دو کروڑ انسانوں کی زندگی، تہذیب اور حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ اس طرح جموں و کشمیر کسی بھی اصول کے تحت نہ بھارت کا حصہ ہے اور نہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔

مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی ۱۷ سے زیادہ قراردادیں، عالمی برادری کی فکرمندی کی گواہ ہیں،  اور اس پس منظر میں دوایٹمی طاقتیں ہروقت جنگ کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی پوری انسانیت کے مستقبل کو بربادی کے جہنّم میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ بڑی طاقتیں محض بھارت کی مارکیٹ میں حصہ پانے سے دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے ایک ’پسندیدہ‘ ملک کے جرائم پر پردہ ڈال کر غیرانسانی اور غیراخلاقی جرم کا ارتکاب کررہی ہیں۔ اب رفتہ رفتہ پاکستان کی حکومتوں کی طرف سے بھی کچھ ایسے ہی اشارے مل رہے ہیں، جو انتہائی تشویش ناک ہیں۔

جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ، تقسیم ہند کے طے شدہ ضابطے کے تحت، وہاں کے لوگوں کے حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، جسے بار بار اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے تسلیم کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری پر زور دیا ہے۔ ان تمام وعدوں اور اتفاق رائے کی بنیادوں پر یہ امر بالکل شفاف انداز سے سامنے آتاہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تو وہاں بسنے والے لوگوں کے صرف انسانی حقوق کی پاس داری کا معاملہ ہے اور نہ داخلی سیاسی حقوق کے بندوبست کا کوئی معاملہ ہے۔ بلاشبہہ یہ تمام مسائل اپنی جگہ اہم اور حل طلب ہیں، لیکن اصل مسئلہ براہِ راست حقِ خود ارادیت کے نتیجے میں وہاں کے لوگوں کے مستقبل کا معاملہ ہے، جسے بھارتی حکومتیں بہت ڈھٹائی کے ساتھ ٹالتی چلی آرہی ہیں اور اس کے ساتھ وہاں بسنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں پر انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کررہی ہیں۔

۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارت کی فسطائی حکومت نے عالمی سطح پر منظور کردہ حدود پامال کرتے ہوئے ایک غیر آئینی اقدام سے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔ اس طرح بھارتی دستور کی دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵-اے کو ختم کر کے کشمیر کی مقامی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے مذموم عمل کا آغاز کر دیا ہے۔

برطانوی سامراجی حکومت کے زمانے سے جموں و کشمیر کے مسلمان ایک وحشیانہ ریاستی جبر کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور تھے، اور جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر وہاں سے نقل مکانی کرکے، امرتسر، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کی جانب مہاجرت پر مجبور کردیے گئے تھے۔ پھر اگست ۱۹۴۷ء میں بھارت اور پاکستان کی شکل میں دو ریاستیں وجود میں آنے کے فوراً بعد اکتوبر ۱۹۴۷ء میں جموں میں مسلمانوں کی بدترین نسل کشی کی گئی۔ پھر وقفے وقفے سے بھارتی ریاست نے جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو پے درپے انسانیت سوز مظالم، عورتوں کی بے حُرمتی، قتل و غارت اور سالہاسال تک جیلوں اور عقوبت خانوں میں قید کرکے نوجوانوں کو مارڈالنے اور زندگی بھر کے لیے معذور بنادینے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس کے نتیجے میں گذشتہ تین عشروں کے دوران ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ جہاں پر ناجائزقبضہ ہوگا، وہاں مزاحمت ہوگی۔ سامراجی اور غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزادی حاصل کرنا، انسانیت کا بنیادی حق ہے، جسے کوئی سلب نہیں کرسکتا۔ آج دُنیا کے نقشے پر موجود دو سو ممالک میں ۱۵۵  سے زیادہ ملکوں نے اپنے حقِ خودارادیت کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہے۔ کہیں مذاکرات سے، کہیں انتخاب سے اور کہیں مسلح مزاحمت سے یہ منزل حاصل کی گئی ہے۔ خود مقبوضہ برطانوی ہند نے بھی انھی ذرائع کو استعمال کرکے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی ہے، جسے کوئی فرد نہیں جھٹلا سکتا۔ اسی بنیاد پر کشمیر میں بھی مظلوموں کے ایک حصے نے قلم اور دلیل سے، دوسرے طبقے نے مکالمے اور سیاسی و سفارتی میدان میں، اور تیسرے حصے نے عملی مزاحمت کا راستہ اختیار کیا ہے۔ یہ تینوں راستے درست بھی ہیں اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھنے کا سامان کرتے ہیں۔

یہ ایک ہمہ گیر اور مربوط جدوجہد ہے، جس میں عالمی ضمیر کو جگانے، ابلاغ عامہ کے اداروں کو جھنجھوڑنے اور حکمرانوں کی یادداشت کو تازہ رکھنے کے لیے پاکستانی حکومت کو مربوط کاوشیں کرنی چاہییں، نہ کہ زندگی اور موت کے اس مسئلے کو ابہام اور تضادات کے گرداب میں گم کرنے کا سامان!

 

یہ جملہ ’’ملک شدید بحران سے گزر رہا ہے‘‘ اتنی کثرت سے سنتے اور پڑھتے چلے آرہے ہیں کہ اب یہ اپنی معنویت تقریباً کھو چکا ہے، مگر ’’شدید بحران‘‘ کا لفظ بہرحال اپنی جگہ موجود ہے۔

قومی زندگی کے صبح و شام پر نظر ڈالیں تو یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ قوم اور ملک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑے ہیں ، اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ حساس دل و دماغ تو زیرزمین زلزلے کی گہری زیریں لہروں کو محسوس کر رہے ہیں، مگر افسوس کہ قومی قیادت اور خود قوم، قریب آتے ہوئے تباہ کن مستقبل سے بالکل بے خبر ہے۔ سطحیت ہر سطح پر حاوی ہے، جذباتیت کا دور دورہ ہے۔ اجتماعی زندگی ہیجان اور انتشار کا شکار ہے، کہ صاحبانِ اقتدار اور اپوزیشن کے بیانات سے کم علمی اورکج فہمی جھلکتی ہے۔ جاہلیت، اسلامی تہذیب کے خرمن کو جلا رہی ہے۔

تاریخ کا یہ سبق یاد رہنا چاہیے کہ ایسے طوفانوں کے نتیجے میں محض حکومتیں تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ ماضی کی تہذیبی قدریں اور تعلقات و معاملات کا پورا نظام اپنی جگہ سے ہل کر رہ جاتا ہے جس کے اثرات دیر تک قومی وجودکو چاٹتے رہتے ہیں۔ گویا کہ چند افراد کی نادانی کے نتیجے میں معاشرے کو بہت قربانی دے کر پھر کہیں بہت مشکل سے راستی اور درستی کا سرا ہاتھ آتا ہے۔

قیامِ پاکستان کے ۷۵ویں سال، یہ منظر ایک بدقسمتی ہے۔ تاہم، اس گئی گزری صورتِ حال کے باوجود ملک و ملّت کو سنبھالنے والے دماغ موجود تو ہیں، مگر بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ حالات کو دیکھ کر رہنمائی دینے کے لیے آگے بڑھنے میں تذبذب کا شکار ہیں۔

پاکستان کی تعمیروترقی کے لیے فی الحقیقت سب سے بڑا ادارہ سیاسی جماعتوں کا وجود ہے، لیکن افسوس کہ یہی ادارہ سب سے زیادہ بگاڑ اور عاقبت نااندیشی کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کے مخصوص علاقائی مسائل کے باعث، پارلیمانی جمہوریت کی صورت میں، ملک کے لیے ایک مفید راستہ تجویز کیا گیا تھا، اور اس پر کم و بیش ہر زمانے میں اتفاق رائے پایا گیا۔ تاہم حکومتوں، انتظامیہ اور مقتدر طبقوں کی جانب سے دانستہ طور پر اچھی تعلیم و تربیت سے پہلوتہی اور شرح خواندگی کی حددرجہ کمی نے ملک کی جمہوری اور پارلیمانی زندگی کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، نوابوں، برادریوں اور لسانی و علاقائی تفریقوں کی دلدل میں اس طرح جکڑ لیا ہے کہ انتخابات میں تقریباً ۷۰فی صد یہی لوگ کامیاب ہوکر مسند ِ اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔ یوں جمہوریت بے اثر ہوکر رہ گئی ہے۔

’منتخب ہونے کے قابل ناموں‘ (electables) نے جمہور عوام کی رائے کو بے وزن بناکر، پارلیمنٹ کی قوتِ کار کو گھن لگا دیا ہے۔ لوگ پارٹیوں کو تبدیل کر کے یا اپنے شخصی رسوخ کے بل بوتے پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ کے ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر نہ انھیں قانون سازی سے کچھ دلچسپی ہوتی ہے، نہ ملک کی پالیسی سازی میں کوئی کشش نظر آتی ہے اور نہ ان کے اندر کاروبارِ ریاست کا فہم حاصل کرنے کی کوئی اُمنگ ہے۔ اس طرح پارلیمان، کچھ خاندانوں، چند لوگوں اور طاقت ور افسروں کی یرغمال بلکہ غلام نظر آتی ہے۔ایسی پارلیمان کہ جسے جب چاہے کوئی میڈیا ہائوس رام کرلے یا کوئی این جی او زیردام لے آئے۔ سیاسی پارٹیوں کی موروثی قیادتیں، جمہور عوام کے ان نمایندوں کو اپنے تابعِ مہمل کارندوں سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں۔

اجتماعی اور تمدنی زندگی کی شیرازہ بندی کے لیے ایک دستوری معاہدے کے تحت جس بندوبست نے ملک کی تمام قوتوں کو متحد و متفق کیا ہے، اور جس کے تحت قومی ادارے وجود میں آئے ہیں، افسوس کہ اسی دستوری معاہدے کو تسلیم کرنے اور اس کے مطابق حکومت چلانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ یہ سب فساد، اسی انکار کے نتیجے میں قومی وجود کو ڈس رہا ہے۔ اس زہر کے تریاق، یعنی دستور کو کچھ وقعت نہیں دی جاتی۔ البتہ جب کسی طبقے، گروہ یا فرد کو اپنے مفاد کے لیے اسے محض ایک عارضی وسیلے کے طور پر برتنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو وہ چند روز دستور کی حُرمت اور احترام کا واویلا ضرور کرتا ہے، اور پھر اسے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ سمجھ کر دُور پرے پھینک دیتا ہے۔

انتخابات کے انعقاد کے دوران، رائے عامہ کی بے توقیری سے یہ مرض شروع ہوتا ہے۔ ناجائز پیسے کی ریل پیل سے انتخابی مہمات چلتی ہیں، ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ امیدواری کے لیے دستوری پابندیوں (دفعہ ۶۲، ۶۳) کے پُرزے اُڑائے جاتے ہیں۔ کہیں انتظامیہ سے  مل کر اور کہیں براہِ راست دھاندلی اور انتخابی انجینئرنگ کا ہتھیار استعمال کر کے، زہریلے دودھ سے  خالص زہریلا مکھن تیار کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد یہ ہوگی تو خیروبرکت، دیانت و امانت، عدل و توازن کے پھول وطن عزیز کے آنگن میں کب اور کہاں کھِل سکیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف پھولوں کے بجائے کانٹے اُگتے اور جسد ِ قومی کو لہولہان کرتے ہیں۔

پھر معلوم نہیں کیوں اور کس اختیار کے تحت مسلح افواج کے اعلیٰ افسران نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ملکی سیاست اور کاروبارِ ریاست کی نشست و برخواست کو ’درست کرنا‘ یا انھی کی مرضی کے تحت منظم کرانا، مسلح افواج کی ذمہ داری ہے۔ حالانکہ دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلح افواج کے لیے ایسی کسی ذمہ داری کی نہ گنجایش دیتا ہے اور نہ اس کا کوئی روزن ہی کھلا رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یقینا بعض سیاسی قوتیں، اپنی باری پانے کی غرض سے اس غیرآئینی کھیل کے لیے راستہ بناتی اور اپنے مفاد کے لیے اس قومی ادارے کو استعمال کرنے اور اس کا آلۂ کار بننے کا غیرقانونی فعل انجام دیتی ہیں۔ جسے ملازمینِ ریاست خوشی سے انجام دینے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

سرحدوں پہ اور پھر داخلی سطح پر ملکی دفاع سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ اس میں سرحدوں کے ان مایہ ناز فرزندوں کے حلف کا تقاضا ہے کہ وہ پوری توجہ دفاعی اُمور پر مرکوز رکھیں، لیکن صدافسوس کہ بعض اعلیٰ عسکری افسران کے ہاں سیاسی مداخلت کےذوق کی تسکین کے لیے سرگرمی دکھائی جاتی ہے۔ اسی چیز کا نتیجہ ہے کہ ایک وقت میں ایک سیاسی قوت برسرِعام دفاعی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتی ہے اور پھر اپنی باری آنے پر دوسری سیاسی قوت، مسلح افواج کو بحیثیت ادارہ تنقیدو دشنام کا ہدف بناتی ہے، جس کا مجموعی نتیجہ دفاعی حصار میں رخنہ اندازی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔  اب پیمانہ سنگین خطرات کی حدود کو چھو رہا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ ہو یا نچلی سطح کی عدالتی تنظیم___ اس کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو عدل و انصاف مہیا کرے۔ دستور کی پامالی اگر طاقت ور طبقے کریں تو ان کے ہاتھ روکے۔معاشرے کو اعتماد ہو کہ اُن کی داد رسی کے لیے عدلیہ کا ادارہ موجود ہے۔ لیکن یہ ہمارے عدالتی نظامِ کار کی بے عملی ہے کہ برسوں تک مقدمات عدالتوں کی فائلوں، اہل کاروں کی آوازوں، وکیلوں کی بے نیازیوں اور جج حضرات کی طویل طویل پیشیوں کے وقفوں میں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس اذیت ناک منظرنامے کو  تبدیل کرنے کی جانب عدالت، وکلا اور قانون سازادارے توجہ دینے پر آمادہ نہیں نظر آتے۔ گذشتہ ہفتوں کے دوران پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں براہِ راست تصادم کی صورتِ حال پیدا ہوئی تو عدلیہ نے ایک جانب وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے بارے میں فیصلہ دینے سے بے نیازی کا رویہ اختیار کیا، مگر دوسری جانب مداخلت کرکے ایک راستہ نکالا، جسے بعض حلقے پارلیمانی روایت سے ٹکراتا ہوا فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ خود ارکانِ پارلیمان نے کس طرح اور کب، پارلیمانی روایات کی پاس داری کی ہے؟ یہ خود سیاست دان ہی ہیں، جو بعض اوقات دولت کے لالچ میں یا مقتدر قوتوں کے اشارے پر اپنی وفاداریوں کا سودا کرتے ہیں۔

برسوں سے ہماری برسرِاقتدار پارٹیوں نے پارلیمنٹ کو پتلی تماشے کی طرح چلایا ہے۔ نہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں اور نہ اس کی کارروائی سنجیدگی سے چلائی جاتی ہے۔ کوئی اہم فیصلہ اسمبلی اور سینیٹ کے فلور پر نہ زیربحث لایا جاتا ہے اور نہ ارکانِ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے اجلاسوں کے انعقاد پر صرف ہوتے ہیں، مگر یہ اجلاس زیادہ تر سماجی میل جول، پکنک یا سرپھٹول کا سرکس بننے سے آگے نہیں بڑھتے۔ فیصلے پارٹی کے چند مرکزی لوگ یا اپنے اپنے مراکز میں طاقت ور طبقے کرتے ہیں، اور پارلیمنٹ محض ان فیصلوں کی توثیق کا ربڑسٹمپ ثابت ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے جمہوریت کہا جائے یا محض ’جمہوری تماشا؟‘۔ ایسے جعلی نظام پر جمہوریت کی حُرمت کا غلاف چڑھانا اپنی جگہ ایک بدمذاقی ہے۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ قوم ایک ہیجانی کیفیت میں تصادم کی سمت بڑھ رہی ہے۔ شعلہ بار تقریریں اور آتشیں بیانات اس آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ جذباتی طرزِ تکلم اور دشنام طرازی نے اداروں کے ڈسپلن ہی نہیں ،خود گھروں کے سکون کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اختلاف، اختلاف رائے سے بڑھ کر نفرت کے سانچے میں ڈھل رہا ہے۔ مخالف کو زیر کرنے کے لیے بہتان اور الزام، تہمت جیسے تیروتفنگ سے کام لیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کا ہتھیار بہت بُری طرح آزمایا جارہا ہے۔ دُور دُور تک کوئی مردِ دانش نہیں کہ جو اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ دکھائے۔ دشمن اس بھڑکتی آگ پر خوش ہیں اور نادان ہم وطن اس آگ کو پھیلانے میں سرگرم۔

اس فضا میں مسئلے کا واحد اور فوری حل یہ ہے کہ اگلے تین چار ماہ میں منصفانہ انتخابات منعقد کرائے جائیں، اور جو لوگ منتخب ہوں، انھیں باہم مل کر حکومت چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ اس حوالے سے ایک اصول پرسختی سے عمل کیا جائے کہ انتخابات سے پہلے یا انتخابات کے دوران کسی صورت فوج کی جانب سے مداخلت کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔انتخابات ہو جائیں تو حکومتیں بنوانے کے لیے بھی فوج کو کسی سیاسی گروہ کی سرپرستی سے سختی سے باز آناچاہیے۔

ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مارکیٹ پر نہ ریاست کا کنٹرول ہے اور نہ صنعت و تجارت کے کارپردازوں کو ریاست کی قوت اور احتساب کا کوئی ڈر۔ اس صورتِ حال میں عام شہری بُری طرح پس کر رہ گیا ہے۔ بیماری، بے روزگاری، ملاوٹ اور مہنگائی قہر بن کر ہرگھر پر برس رہی ہے۔ اس صورتِ حال کو نئی منتخب حکومت آنے تک ٹالے رکھنا سفاکیت ہوگی۔ معاملات کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے سول اور مالیاتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔

دوسری جانب بڑی خاموشی کے ساتھ کشمیرکے مسئلے پر ایک سرگرمی جاری ہے۔ ’ماضی کو بھلا کر‘ جیسے ناسمجھی کے ’ڈاکٹرائن‘ کی پیشوائی میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سے تجارت کو بحال کرنے اور کشمیر کی وحدت کو متاثر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہم انتباہ کرتے ہیں کہ ایسی کسی کج فہمی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ بھارت نے جارحیت اور بڑے تسلسل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو پامال کرنے کی کوششیں تیز کر رکھی ہیں۔ اس کے بالمقابل ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے درست تسلسل سے جواب دینے کے بجائے، رفتہ رفتہ اسی راستے پر خود چل پڑنے کا یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔

ہم اُمید رکھتے ہیں کہ مقتدر حلقے اور سیاسی قائدین عبرت پکڑیں گے۔ اپنی ذات، گروہ یا قول کو ضد اور اَنا کو پرستش کا محور بنانے سے اجتناب کریں گے اور قوم سے زیادتی کاارتکاب نہیں کریں گے۔ انھیں تاریخ سے عبرت پکڑنی چاہیے کہ آج سے پہلے انھی کی طرح اقتدار و اختیار سے چمٹے محض چند لوگوں کی حماقت نے ملک و ملّت کو شدید نقصان پہنچایا اور ایسے کرداروں کے نام تاریخ میں ذلّت کی علامتوں کے سوا کوئی مقام نہ پاسکے: فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ  !

وطنِ عزیز کے موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو سخت تشویش ناک منظر سامنے آتا ہے۔

۲۳ کروڑ آبادی کا ملک بے یقینی اور بداعتمادی کا شکار ہے۔ لاکھوں انسانوں کی کتنی عظیم قربانیوں کے بعد یہ وطن حاصل ہوا؟ یوں لگتا ہے کہ اس سوال کو پاکستان کی دوسری اور تیسری نسل کے ذہنوں سے کھرچ کر مٹا دیا گیا ہے۔ عوام بظاہر بے بس ہیں لیکن وہ اتنے بے گناہ بھی نہیں۔ آخری ذمہ داری بہرحال عوام کی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بگاڑ کو فروغ دینے میں ہرکسی نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اخبار، ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا اور سماجی محفلوں میں بیٹھیں تو تعمیر کی بات خال خال ہوتی ہے، اور تخریب، جنگ و جدل اور انتقام در انتقام کا تذکرہ ہرچیز پر حاوی ہوجاتا ہے۔ اور ایوانِ حکومت و سیاست کسی مچھلی منڈی کا منظر پیش کررہا ہے۔ اہلِ اختیار نے قوم کو ایک ایسی اندھی سرنگ میں دھکیل دیا ہے، جس کے دوسرے سرے پر روشنی کی کوئی کرن بمشکل نظر آتی ہے۔

ہم نہایت اختصار کے ساتھ، قارئین کے سامنے چند معروضات پیش کر رہے ہیں:

  • کچھ بھی کہا جائے، پاکستان کے حالات کو بگاڑنے میں کلیدی کردار اُن مؤثر سیاست دانوں نے ادا کیا، جنھوں نے ملازمینِ ریاست (سول اور فوجی) کو اپنی حدود سے باہر نکل کر اقتدار کے کھیل کا کھلاڑی بننے کا نہ صرف موقع دیا، بلکہ اس میں شریک رہے۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اپنے وقتی اقتدار اور ذاتی و گروہی مفاد کی سطح سے بلند ہوکر، قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آئین سازی پر توجہ مرکوز رکھتی، اور صحیح جمہوری اصولوں کے مطابق ملک کی نظریاتی بنیادوں کو معاشی و سماجی عدل کی بنیاد پر مستحکم کرتی، اور نظامِ حکومت کو اچھی کارکردگی کے ساتھ چلاتی تو عوامی اقتدار کے ایوانوں اور راہداریوں میں غیرسیاسی عناصر کے ناجائز تجاوزات کا وہ ہنگامہ برپا نہ ہوتا، جس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ پہلے تو ہماری سیاسی قیادت نے دستور سازی میں غفلت برتی اور بعد میں صدقِ دل سے دستور پر عمل نہ کرکے عملاً دستور کو تسلیم کرنے سے نہ صرف پہلوتہی برتی بلکہ اس سے کھلم کھلا انحراف کیا۔

پھر انھی سیاست دانوں نے آنے والے اَدوار میں، اقتدار اور سیاست کو اعلیٰ قومی و تہذیبی  مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنانے کے بجائے، محض حصولِ اقتدار، جلب ِ زر اور اپنے سماجی رُتبے کی بلندی کا ذریعہ بنایا۔ قومی و عالمی حالات سے واقفیت، علم و دانش میں وسعت اور مسائل و معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت کو نچلی سطح سے بھی کم تر درجے کا مقام دیا گیا۔ اس طرح کی ناخواندہ اور اَن پڑھ سیاسی قیادت نے اپنے مقام و مرتبہ کو کچھ ملازمین کے ہاتھوں رہن رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی قیادتوں کا اپنی پارٹیوں میں آمریت مسلط کرنا، میرٹ کے بجائے اقرباپروری اور خوشامد کو اوّلیت دینا، مشاورت کی روح کچلنا اور اپنے مفادات کے لیے دن رات وفاداریاں تبدیل کرتے رہنا___ ان علّتوں نے اعتماد اور تعاون کے سرچشموں کو گدلا کر کے رکھ دیا۔

  • دوسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ فوجی قیادت پرآتی ہے، جس نے جنرل محمد ایوب خاں کے زمانے سے اقتدار میں بالواسطہ اور پھر بلاواسطہ دراندازی اختیار کی۔ پھر رفتہ رفتہ سیاسی پارٹیوں، صحافیوں اور سول ملازمین میں اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دی اور آخرکار اقتدار پر قابض ہوگئے۔ فوجی حکمران بظاہر تو چار اَدوار میں تقسیم ہیں، یعنی محمد ایوب خاں، آغا یحییٰ خان ، محمد ضیاء الحق، پرویز مشرف اور اقتدار شماری کے ۳۳برس___  مگر یہ گنتی حدرجہ غیرحقیقی ہے۔ حقائق کی دُنیا میں، براہِ راست اور بالواسطہ یہ اقتدار کم و بیش ۶۵برس پر پھیلا ہوا ہے۔ اس چیز نے ایک طرف وطن عزیز کی دفاعی صلاحیت کو نقصان پہنچایا۔ دوسری جانب خود قومی فوج نہ صرف بار بار متنازع بنی بلکہ سول میدان میں تعامل کے نتیجے میں کئی خرابیوں سے بھی دوچار ہوئی۔ اگرچہ اسی فوج نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بڑے پیمانے پر پیش کیا ہے، اور بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جو ہماری تاریخ کا قابلِ فخر باب ہے۔ مگر سیاسی کھیل میں اس براہِ راست یا بالواسطہ شرکت نے مسلح افواج کے کردار کو گہنانے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ چونکہ یہ بات ایک روشن سچ ہے اس لیے ہر آمر اور اس کے ساتھیوں نے وقت گزرنے کے بعد اس مہم جوئی کی مذمت ضرور کی۔
  • تیسری ذمہ داری ہماری اعلیٰ عدلیہ پر آتی ہے۔ ہرچند کہ عدلیہ نے بہت قابلِ ذکر خدمات انجام دی ہیں، مگر ملک کو دستور، اصول اور قاعدے کی پٹڑی سے اُتارنے اور ماورائے دستور حکمرانی کی افزایش میں اعلیٰ عدلیہ سے ایسے اقدام بھی سرزد ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں دستور و قانون کی بالادستی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔اسی طرح عدالتی فعالیت نے عوام کی داد رسی کم اور بیان بازی کے کلچر کو زیادہ فروغ دیا ہے۔ یہ سب چیزیں ہمارے عدالتی نظام کو ضُعف پہنچانے کا سبب بنی ہیں۔
  • چوتھی ذمہ داری اہلِ صحافت اور اصحابِ دانش پر عائد ہوتی ہے۔ کسی قوم کا حدردرجہ قیمتی طبقہ اس کے اہلِ صحافت اور دانش وروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ہماری صحافت، گروہی تقسیم کی اُن گھاٹیوں میں گم ہوئی کہ عوام کو مبالغہ آمیزی کی خوراکیں دی گئیں، تسلسل کے ساتھ جھوٹ سنایا گیا، اور سچ کو بڑی عیّاری سے چھپایا گیا۔ چند قابلِ احترام صحافت کاروں کو چھوڑ کر، ہماری قومی اور علاقائی صحافت، پاکستان میں سیاسی و قومی تخریب کا ذریعہ بنی۔

اہلِ دانش، درحقیقت کسی قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ اور اس کے مستقبل اور وقار کا تاج ہوتے ہیں۔ بلاشبہہ قدرتِ حق نے ہمیں دانش سے آراستہ افراد عطا کیے۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان کے سادہ لوح شہریوں کو، جن میں تمام علاقوں کے لوگ شامل ہیں، انھی مؤثر دانش وروں نے لڑانے، نفرت کو بڑھاوا دینے اور تعمیر و ترقی کا راستہ روکنے میں وہ رویہ اختیار کیا، جس پر سوائے افسوس کے کیا کہا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فساد کی صورتِ حال میں وہ کوئی مؤثر قومی خدمت انجام نہ دے پائے۔

  • قومی تعمیر میں اساتذہ، بالخصوص اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا کردار بڑا مرکزی ہوتاہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں یونی ورسٹی اساتذہ، قومی پالیسیوں کی تشکیل میں بہت قیمتی حصہ ڈالتے ہیں اور اس سے بڑھ کر وہ اپنے ہونہار شاگردوں کی صورت میں قوم کو ایسی ٹیم تیار کر کے دیتے ہیں، جو قدم قدم پر قوم کو رہنمائی دینے میں اہم حصہ ادا کرتی ہے۔مگر ہمارے اساتذہ کی اکثریت نے اپنے فرائض سے غفلت برتی۔ اسی لیے جب ہم اپنی اعلیٰ درس گاہوں کے احوال دیکھتے ہیں تو مایوسی ہوتی ہے۔ یہ درس گاہیں ڈگریوں کی افزائش میں تیز تر، لیکن اعلیٰ ذہن تخلیق کرنے میں سُست تر نظر آتی ہیں۔
  • چھٹی ذمہ داری سول ملازمین (بیوروکریسی) پر عائد ہوتی ہے، کہ ان میں بہت سے مؤثر ملازمین نے اقتدار پرست طبقوں کی ہوس پورا کرنے میں اُنھیں تحفظ دیا اور یوں قوم کو خوار کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ نوکر شاہی کے ان کارندوں نے فوجی اور سیاسی قیادت کو غیرقانونی افعال چھپانے کے گُر سکھائے۔ عوام سے غلاموں کا سا سلوک روا رکھا، اور زندگی کے معاملات مستعدی سے چلانے کے بجائے سُست روی کا رویہ اپنایا۔ یوں اپنے نوکر شاہانہ اقتدار کومستحکم کیا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان چھے طبقوں کے نامناسب رویوں نے وہ صورتِ حال پیدا کردی ہے، جس سے ہم دن رات گزر رہے ہیں۔ اہلِ سیاست اور صاحب ِ اختیار گروہوں اور طبقوں کی نظر میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے وزن چیز ہے تو وہ دستورِاسلامی جمہوریہ پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ انھیں اس چیز سے کچھ غرض نہیں کہ ان کی جنگ ِ اقتدار کے نتیجے میں ملک کا کتنا نقصان ہوتا ہے؟ انھیں کچھ فکر نہیں کہ ان کی ضد اور محض ہوس اقتدارکے نتیجے میں قوم کے مستقبل کی راہ میں کون کون سے ہمالہ کھڑے ہورہے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہ تو بس یہ سمجھتے ہیں کہ ۲۳کروڑ عوام محض اُن کی غلامی کے لیے ان کو ورثے میں ملے ہوئے ہیں۔ انجامِ کار بدانتظامی، معاشی بے تدبیری ، قانونی شکنی اور نفرت آمیزی نے فساد کی آگ کو بھڑکا رکھا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں پاکستان امن و سکون اور تعمیروترقی کا گہوارہ بن سکے۔ ذرا سوچیے تو!

اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں کو، اللہ کی بتائی ہوئی راہ پر چلانے والے انسان خوش نصیب ہوتے ہیں۔ لکھنے اور سنانے والے تو ہزاروں ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے والے تھوڑے ہیں۔ ایسے ہی کم یاب لوگوں میں مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کا نام مدتوں یادوں کا عنوان بنارہے گا۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی ۹جولائی ۱۹۳۲ء کو ضلع اٹک (صوبہ پنجاب،پاکستان) کے قصبے ’پرملی‘ میں پیدا ہوئے اور ابھی چار سال کے تھے کہ ۱۹۳۶ء میں ان کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا عبدالقدیم (م:۱۹۸۹ء) اپنے بچوں سمیت بریلی (یوپی) منتقل ہوگئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ مظاہرالعلوم سہارن پور سے حاصل کی، پھر مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں چار برس تک زیرتعلیم رہے،جہاں مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم (۱۹۰۱ء-۱۹۵۸ء) کی شاگردی کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ اختر احسن وہی ہیں، جن کے بارے میں مولانامودودی نے لکھا ہے: ’’مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب فی الواقع اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے تھے‘‘۔

محمد یوسف صاحب ۱۹۵۱ءمیں مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوئے۔ اصلاحی صاحب، جماعت اسلامی سے متعارف ہونے کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’میں نے گیارہ سال کی عمر میں قرآنِ مجید حفظ کیا۔ ہائی اسکول پاس کرنے کے بعد میرے والدمحترم چاہتے تھے کہ میں صرف علم دین حاصل کروں۔ ہمارے محلّے میں ایک صاحب پیشے کے اعتبار سے درزی تھے۔ وہ آتے جاتے مجھے کوئی نہ کوئی کتاب مطالعے کے لیے دے دیا کرتے تھے، لیکن میں ان کی دی ہوئی کتاب کبھی پڑھتا نہیں تھا، اور کتاب لاکر الماری میں رکھ دیا کرتا تھا۔ چندروز بعد وہ مجھ سے کتاب کے بارے پوچھتے تو کتاب لاکر واپس کر دیتا، اور وہ ایک دوسری کتاب دے دیتے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ ایک دن نہ جانے کس موڈ میں، میں نے ان کی دی ہوئی ایک کتاب اُٹھائی اور پڑھ ڈالی۔ اس کتاب نے تو میرے خیالات میں ایک انقلاب برپا کر دیا،اور اندر کی دنیا تہ و بالا کرڈالی۔ اس کتاب کا نام تنقیحات تھا، اور مصنف کا نام سیّدابوالاعلیٰ مودودی تھا‘‘۔

۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی ہند کے رکن بن گئے اور ۱۹۵۹ء سے رام پور کو اپنا مستقل مستقر بنا لیا۔ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے طویل عرصے تک رکن رہے۔ مولانا ابوسلیم عبدالحئی (م: ۱۶ جولائی ۱۹۸۷ء) نے رام پور (اترپردیش) میں جامعہ الصالحات کے نام سے طالبات کی ایک بہترین دینی، اقامتی درس گاہ قائم کی۔ ان کے انتقال کے بعد توسّل خان صاحب اور پھر آخر دم تک محمد یوسف اصلاحی صاحب کی نگرانی میں یہ درس گاہ پورے ہند میں ایک مثالی درس گاہ کے طور پر اپنی پہچان رکھتی اور خدمات انجام دے رہی ہے۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء کو انتقال فرماگئے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب نے مولانا کے انتقال کو اسلام اور اسلامی تحریکات کے لیے بڑا نقصان قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سعادت اللہ حسینی کے بقول: ’’مولانا محمد یوسف مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نہایت مقبولِ عام کتابیں ہیں، جنھوں نے بلامبالغہ کئی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ ان کی کتاب آدابِ زندگی نصف صدی سے زیادہ عرصے سے اَن گنت مسلمان گھروں کی بک شیلف کا لازمی حصہ ہے۔ مائیں اپنی بچیوں کو شادیوں کے موقعے پر اس کتاب کا تحفہ اس اُمید کے ساتھ دیتی ہیں کہ اس کے مطالعے سے ان کی زندگیاں سلیقہ مند اور اسلامی آداب کی آئینہ دار ہوں گی۔ مولانا مرحوم کی کتابوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ہرطبقے میں مقبول ہیں۔ آسان، سادہ، لیکن دل کش زبان اور پُرکشش اسلوب میں بنیادی اسلامی تعلیمات کی ترسیل و ابلاغ کا جو ملکہ، اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو عطاکیا تھا، اس کی نظیر مشکل ہی سے نظر آتی ہے‘‘۔

ڈاکٹر زاہد حسین بخاری (واشنگٹن) نے بتایا کہ ’’ایک روز مَیں نے مولانا اصلاحی صاحب سے کہا کہ آپ کی ہر تقریر کے تین حصے ہوتے ہیں، مگر موضوعات الگ الگ‘‘۔فرمایا: ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے کہا: ’’آپ کی تقریر کے پہلے حصے میں قرآن، حدیث اور سیرت پاکؐ کا لازمی حوالہ ہوتا ہے۔ دوسرے حصے میں آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا امریکا آنا، اللہ تعالیٰ کا ایک احسان اور ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ یہاں اسلام کے داعی اور اسلامیت کا نمونہ اورحُسنِ معاشرت کی بہترین مثال بنیں گے، تو آخرت میں کامیاب و کامران ہوں گے۔ اور تیسرے حصے میں آپ کسی نہ کسی حوالے سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کا حوالہ ضرور دیتے ہیں‘‘۔

ایک تقریر میں دُنیا کی حقیقت اور فرد کی ذمہ داری مولانا اصلاحی صاحب نے ان لفظوں میں سمجھائی: ’’کویت کے محل پر ایک جملہ لکھا ہے: لَوْ دَامَتْ لِغَیرِکَ مَا وَصَلَتْ اِلَیْکَ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر یہ [دُنیا] کسی اور کے لیے دائمی ہوتی تو تم کو کبھی نہ ملتی‘‘۔ مراد یہ کہ اگر یہ محل تیرے پچھلوں کے لیے ہمیشہ کے لیے ہوتا تو تجھے نہ ملتا، اور تجھے اس لیے ملا ہے کہ پچھلے رخصت ہوگئے۔ جب ان کے لیے ہمیشہ کے لیے نہیں تھا، تو تجھے بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ تیرے لیے بھی ہمیشہ کے لیے نہیں ہے کہ تیرے بھی جانشین رخصت کا انتظار کر رہے ہیں۔بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ باپ رخصت ہو تو سارے کارخانے اور کاروبار کا مَیں مالک بن جائوں۔ پھر اس کا بیٹا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ یہ رخصت ہوجائے تو میں اس کا مالک بن جائوں۔ یہ دُنیا اسی طرح چل رہی ہے۔ ہمارے سوچنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہماری زندگی کا زمانہ کیسا گزرا؟ کل ہم نہیں ہوں گے ، تو اللہ کرے ہمارا یہ زمانہ ایسے گزرے کہ لوگ کہیں: کچھ لوگ تھے کہ جنھوں نے نیکیاں پھیلائیں اور بھلائیاں پروان چڑھائیں اور وہ انھیں یاد کرکے دُعائیں دیں کہ اللہ ان کی عاقبت اچھی کرے‘‘۔

اکثر اوقات کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے: ’’جماعت اسلامی والو! تم خوش قسمت ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہے، جس نے اپنی کتاب تمھارے ہاتھوں میں دے رکھی ہے۔ جب وہ ناراض ہوگا تو یہ کتاب [قرآن] تمھارے ہاتھوں سے لے لے گا‘‘۔ آپ نے اس ایک جملے سے اللہ کی نعمت کی قدر اور اللہ کے فضل سے محرومی و بربادی کا راستہ واضح کر دیا۔

مولانا یوسف اصلاحی دل کش بزرگی اور علم و فضل کی بلندی کے باوجود، ایک خوش گوار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کی سنجیدگی میں وقار اور سماجی روابط میں دل بستگی تھی۔ لہجے میں نرمی کے باوجود، جملوں میں بلا کی قوت اور داخلی دنیا کو ہلادینے کی صلاحیت تھی۔ مجلس میں آپ شرکاء کی حوصلہ افزائی کرتے کہ سوال پوچھے جائیں اور اگر کسی چیز کے بارے میں معلومات کم ہوتیں تو بلاتکلف کہہ دیتے، ’’یہ بات معلوم نہیں لیکن معلومات حاصل کرکے بتادوں گا‘‘۔

مولانا اصلاحی کبھی کبھی اپنے وطنِ مالوف کا دورہ کیا کرتے تھے۔ آخری مرتبہ ۲۰۱۶ء میں آئے اور ایک ہفتہ لاہور میں، دوسرا ہفتہ اپنے گائوں (پرملی، حضرو) میں گزارا۔ قرب و جوار کے لوگ اُن کی زیارت و ملاقات کے لیے اُمڈ آئے۔ ہرنزدیکی گائوں اور قصبے سے مطالبہ تھا کہ مولانا آئیں اور خطاب کریں۔

آپ نے اپنے پیچھے علم دین اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اسالیب اور اسباق کا ایک خزانہ چھوڑا ہے، جو مدتوں علم کے متلاشیوں کی تسکین کا باعث بنا رہے گا۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، اُردو میں لکھا، اور کیا شان دار اُردو میں لکھا ،ایسی شاندارکہ پڑھتے ہوئے جس میں شیرینی کی سی حلاوت کا احساس ہوتا ہے۔

مولانا مودودیؒ ان کی تحریروں کے قدردان تھے۔ انھوں نے ۲؍اگست ۱۹۶۷ء کو اُن کے نام خط میں لکھا: ’’قرآنی تعلیمات کا سیٹ موصول ہوا۔ آپ نے یہ ایک بڑا مفید مجموعہ مرتب کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس خدمت کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور خلقِ خدا کو اس سے فائدہ پہنچائے‘‘۔پھر ۲۳جنوری ۱۹۷۸ء کو لکھا: ’’میں دُعا کرتا ہوں کہ آپ نے سیرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر جو مختصر کتاب [داعی اعظمؐ] لکھی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو‘‘۔ دل گواہی دیتا ہے کہ مولانا مودودی مرحوم کی یہ دونوں دعائیں قبول ہوئیں۔

مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب نے اکتوبر۱۹۷۲ء میں رام پور سے ماہ نامہ ذکریٰ   کا اجرا کیا، اور اسے اپریل ۲۰۰۴ء سے ماہ نامہ ذکریٰ جدید کے نام سے دہلی سے شائع کیا جارہا ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی تربیت اور پڑھنے والوں کی رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ یہ پرچہ اس اعتبار سے بہت قیمتی ماخذ ہے کہ اس میں تسلسل سے لکھی جانے والی تحریریں اصلاحی صاحب کی کتب کا ذریعہ بنیں۔بہت سی تصانیف میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: l قرآنی تعلیمات lتفہیم الحدیث lداعی اعظمؐ lگلدستۂ حدیثlآدابِ زندگی lاسلامی توحید lفقہ اسلامی lآسان فقہ lشمع حرم lسچا دین lحُسنِ معاشرت lشعورِ حیات lخاندانی استحکام  lروشن ستارے lمسائل کا اسلامی حل lحج اور اس کے مسائل وغیرہ۔