جنوری ۲۰۲۲

فہرست مضامین

افغانستان میں حکومت کا مسئلہ اور پاکستان

قاضی حسین احمد | جنوری ۲۰۲۲ | یادداشت

Responsive image Responsive image

۱۹۸۸ء کے اوائل میں، افغانستان پر جنیوا مذاکرات سوویت یونین [یعنی کمیونسٹ روسی سلطنت] اور افغانوں کے نمایندوں کے درمیان اقوام متحدہ کے توسط سے گفت و شنید کے آخری مرحلے میں تھے کہ اچانک سوویت روس نے فیصلہ سنا دیا کہ ’’ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں اور مجاہدین افغانستان کو سنبھال لیں‘‘۔ روس کے اس فیصلے نے اچانک پاکستان کی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔ جنیوا مذاکرات کے زیربحث چار نکات میں روسی فوجوں کے نکلنے کے بعد عبوری حکومت کے ڈھانچے کا نکتہ شامل نہیں تھا۔

روس اور امریکا نے جان بوجھ کر اور پاکستان کی حکومت نے کم فہمی کی بنا پر، ہماری وزارتِ خارجہ میں امریکی نفوذ کی بناپر یا اس خواہش کی بنا پر کہ افغان مجاہدین کی عبوری حکومت کے ڈھانچے کے بغیر وہاں کے معاملات کُلی طور پر حکومت ِ پاکستان ہی کے ہاتھ میں رہیں، جنیوا مذاکرات کے ایجنڈے کے اس خلا کو پُر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ افغانستان میں مجاہدین کی حکومت کا ڈھانچا کیا ہو؟ کون صدر بنے؟ کون وزیراعظم بنے؟ اختیارات کی تقسیم کیسے ہو؟ عبوری دستور کیا ہو؟ یہ سارے اہم سوالات تشنہ تھے کہ روس نے حکومت پاکستان اور مجاہدین کو مشکل میں ڈالنے اور باہمی آویزش کا شکار کرنے کے لیے فوری انخلا کی چال چلی۔

۱۹۹۲ء کے ابتدائی مہینوں میں اس تسلسل کے اگلے مرحلے پر مَیں وزیراعظم محمد نواز شریف صاحب سے وقت لے کر ان کے سیکرٹریٹ میں ملاقات کی غرض سے پہنچا۔ اگرچہ اس وقت ہم ’اسلامی جمہوری اتحاد‘ (IJI) سے نکل چکے تھے، لیکن ابھی نوازشریف کے ساتھ تعلقات اس حد تک قائم تھے کہ رابطہ کرکے اس اہم موقعے پر اپنا رول ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیراعظم ہائوس میں اس وقت استاذ بُرہان الدین ربانی [۲۰ ستمبر ۱۹۴۰ء- ۲۰ستمبر۲۰۱۱ء] موجود تھے، جو یا ملاقات کرچکے تھے یا میرے بعد ملاقات کے انتظار میں تھے۔ استاذ ربانی ۱۹۷۴ء میں کابل یونی ورسٹی میں پولیس کے گھیرے سے نکل کر اپنے دو شاگردوں کے ہمراہ پشاور میں میرے پاس آئے تھے۔ میرے ہاں پناہ لینے کا فیصلہ انھوں نے اس لیے کیا تھا کہ میں صدر سردار داؤد کے زمانے میں خطرہ مول لے کر مشکل حالات میں ان کی مدد کے لیے، اور کابل یونی ورسٹی اور دوسرے تعلیمی اداروں میں موجود اسلامی تحریک کے لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے گیا تھا۔اس وقت گلبدین حکمت یار، استاذ ربانی اور استاد عبدالرسول سیاف [پ: ۱۹۴۶ء] ایک ہی تحریک میں شامل تھے اور مولوی محمدیونس خالص [۱۹۱۹ء- ۱۹جولائی ۲۰۰۶ء] بھی ان کے ساتھ مربوط تھے۔

بہرحال، اس اہم اور حساس موقعے پر مَیں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا کہ ’’مجاہدین کی دو اہم جماعتوں گلبدین حکمت یار [پ: یکم اگست ۱۹۴۹ء]کی ’حزبِ اسلامی‘ اور استاذ برہان الدین ربانی کی ’جمعیت اسلامی‘ کے درمیان پہلے مرحلے پر بنیادی فارمولا طے کر دیا جائے۔ افغان مجاہدین کے درمیان نزاع اور اختلاف ان دونوں کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اگر یہ دونوں آپس میں کسی فارمولے پر متفق ہوجائیں، تو باقی لوگوں کو آمادہ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ لیکن اگر یہ دونوں کسی فارمولے پر متفق نہ ہوسکے تو دونوں میں سے ہر ایک یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ افغانستان میں کوئی بڑا انتشار پیدا کردے‘‘۔ میں نے ان دونوں کے ساتھ کسی خصوصی تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ ایک امرواقعہ کے طور پر یہ مشورہ دیا تھا۔

میاں نواز شریف نے فیصلہ کیا کہ اسی دن شام کو گورنر ہائوس پشاور میں اجلاس منعقد کیا جائے، جس میں ان دونوں رہنمائوں کے ساتھ بات کی جائے۔ چنانچہ مجھے کہا گیا کہ میں ہیلی کاپٹر میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید ناصر (جو اس وقت انٹرسروسز انٹیلی جنس کے سربراہ تھے) کے ہمراہ پشاور پہنچ جائوں اور وہ خود بھی دوسرے ذریعے سے پشاور کے گورنر ہائوس میں پہنچ جائیں گے۔

گورنر ہائوس میں داخل ہوتے ہی معلوم ہوگیا کہ میرے مشورے پر عمل کرنے کے بجائے، وہاں افغانستان کے تمام چھوٹے بڑے لیڈروں کو بلایا گیا ہے۔ نواز شریف صاحب میٹنگ چھوڑ کر کابل میں اقوام متحدہ کے نمایندے سے بات کرنے کے لیے باربار اُٹھ جاتے تھے۔ ایک موقعے پر اسی میٹنگ کے دوران میں انھوں نے پرچیاں تقسیم کروا دیں کہ ’’ہرایک شریک ِ اجلاس اپنی پرچی پر مجوزہ سربراہِ حکومت کا نام تجویز کردے۔ میں سمجھ گیا کہ معاملات کا فیصلہ کسی اور کو کرنا ہے۔ نوازشریف صاحب نہ خود کچھ جانتے ہیں نہ کسی اچھے مشورے پر عمل درآمد کروانے کی پوزیشن میں ہیں۔ چنانچہ جب ایک موقعے پر نواز شریف صاحب کابل سے آنے والا ٹیلی فون سننے کے لیے اُٹھ کر چلے گئے تو میں بھی اجلاس چھوڑ کر پشاور میں اپنے گھر چلا گیا۔

دو دن بعد یہ عجیب و غریب فارمولا سامنے آیا کہ ’’جس کے تحت صبغت اللہ مجددی [۲۱؍اپریل ۱۹۲۵ء-۱۲ فروری ۲۰۱۹ء] تین ماہ کے لیے صدر ہوں گے۔ ان کے تین ماہ بعد استاذ ربانی صدر ہوں گے‘‘۔ اس کے لیے حکمت یار کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جب کہ وہ خود بھی اس غلط فہمی میں تھے کہ انھوں نے کابل کو فتح کرلیا ہے اور وہ کسی ایسی گفت و شنید میں شامل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے، جس میں ان کی مرکزی حیثیت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ ظاہر ہے گلبدین حکمت یار اور استاذ ربانی کا اتحاد بڑی طاقتوں کے لیے قابلِ قبول نہیں تھا۔

صبغت اللہ مجددی صاحب کا یہ پختہ خیال تھا کہ استاد ربانی اور حکمت یار کی افغانستان میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے کہتے تھے کہ ’’یہ دونوں تو آپ لوگوں کی بنائی ہوئی مصنوعی قوتیں ہیں اور افغانستان میں اصل دینی اور مذہبی قوت مجددیوں کی ہے‘‘۔ انھوں نے نواز شریف صاحب اور بڑی طاقتوں کو بھی یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ’’ایک دفعہ مختصر عرصے کے لیے ہی کیوں نہ سہی، مجھے صدر کے عہدے پر فائز کر دیا جائے۔ پھر اس کے بعد دیکھنا سارا افغانستان میرے ہاتھ کا بوسہ لینے اُمڈ پڑے گا اور افغانستان میں استاذ ربانی یا حکمت یار کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی‘‘۔

استاذ بُرہان الدین ربانی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سیاسی روابط قائم کررکھے تھے اور انھوں نے خصوصی طور پر اس بات پر توجہ دی تھی کہ وہ افغانستان کے تاجکوں کے متفقہ لیڈر بن جائیں۔ افغانستان میں عسکری قوت بڑھانے کے لیے انھوں نے سوویت یونین کے آخری دور میں فارسی بولنے والے کمیونسٹ جرنیلوں سے روابط بڑھائے تھے۔ احمد شاہ مسعود[۲ستمبر ۱۹۵۳ء-۹ستمبر ۲۰۰۱ء] کے ساتھ ان کا مضبوط اتحاد تھا، لیکن احمد شاہ مسعود نے اپنی فوجی قوت کی بنیاد پر اپنی آزاد حیثیت بھی برقرار رکھی تھی، اس لیے عسکری لحاظ سے استاذ ربانی ہمیشہ مسعود کے محتاج رہے۔ استاذ ربانی کی حیثیت اس عمارت کی دوسری منزل کی تھی، جس کی پہلی منزل احمد شاہ مسعود تھے۔ استاذ ربانی اپنے مزاج کے مطابق کبھی دوٹوک بات نہیں کہتے۔ ان کی ہربات کسی شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے۔ وہ بظاہر ہر بات مان لیتے، لیکن ’’اگر، مگر، بشرطیکہ‘‘ کے ساتھ مشروط کرکے وہ ہراتفاق سے نکل جاتے ہیں۔

افغانستان میں مجاہدین کے درمیان اختلافات کا آغاز ہی ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب کے اختلاف سے ہوا تھا۔ حرکت انقلاب اسلامی کے مولوی محمد نبی محمدی صاحب [م:۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء] ہمیشہ مجھے کہتے تھے کہ آپ اپنے دو اخوانیوں میں صلح کرا دیں تو ہم سب کا مسئلہ حل ہوجائے، ساری مشکل ان دونوں میں ہے۔ مولوی محمد نبی صاحب کی اپنی جماعت کی تشکیل کا بنیادی سبب بھی یہی بنا تھا کہ حزب اور جمعیت میں اتحاد ہوا اور مولوی محمد نبی صاحب اس کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مولوی محمد یونس خالص نے جو حزب اسلامی میں شامل تھے اتحاد میں شامل ہونے سے انکارکیا اپنی الگ حزب اسلامی کو برقرار رکھا۔ ایک ماہ بعد ربانی صاحب اور حکمت یار صاحب بھی الگ الگ ہوگئے اور مولوی محمد نبی نے اپنی جماعت جو اتحاد کی صورت میں وجود میں آئی تھی برقرار رکھی۔ اسی طرح اتحاد کی کوشش کے نتیجے میں دو سے چار جماعتیں بن گئیں۔ استاذ سیاف کی ’اتحاد اسلامی‘ بھی اتحاد کی کوششوں کے نتیجے میں بنی تھی جو اتحاد ٹوٹنے کے بعد الگ جماعت کے طور پر باقی رہ گئی۔

اتحاد کی کوششوں کے لیے مجالس ساری ساری رات چلتی رہتی تھیں۔ پشاور میں میرا مکان اس طرح کی مجالس کا مرکز تھا۔ جب عرب حکمرانوں نے دلچسپی لینی شروع کی تو عرب ممالک کے علما اور اسلامی تحریکوں کے رہنمائوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی۔ انھوں نے پشاور میں ڈیرے ڈال دیئے۔ اتحاد کی کوششوں میں وہ بھی شریک رہتے تھے۔ بظاہر یہ کوششیں مجاہدین گروپوں کے اتحاد کے لیے ہوتی تھیں لیکن تخریب کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری رہتا تھا۔ ان میں ہرملک کی خفیہ ایجنسی کے لوگ شامل رہتے تھے۔ بظاہر سب کا جامہ علمائے کرام اور شیوخ کا ہوتا تھا۔

ایک مجلس میں استاذ ربانی سے میں نے گزارش کی کہ استاذ آپ کوئی ایسی بات کردیں کہ اس کے آخر میں اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن، اگر، مگر) نہ ہو‘‘۔لیکن اس گزارش کے باوجود یہ ایک امرواقعہ ہے کہ استاذ اما ولکن اور اِلَّا  (لیکن اگر، مگر) کے بغیر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

صدر جنرل محمد ضیاء الحق [م: ۱۷؍اگست ۱۹۸۸ء]کی حکومت بھی ایک لیڈر کی قیادت میں مجاہدین کو متحد کرنے کی بالکل خواہش مند نہ تھی۔ حکومت ِ پاکستان اور آئی ایس آئی کی اس سلسلے میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ افغان اپنی قسمت کے خود مالک بن جائیں، اور افغانستان کو پاکستان کی ایک طفیلی ریاست بنانے کے شوق میں ایران کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ افغانوں کے سارے گروپ بھی ناراض ہوگئے۔ احمدشاہ مسعود اور استاذ ربانی کا حکومت پاکستان سے بڑا شکوہ یہ تھا کہ وہ انجینئر حکمت یار کی حمایت کر رہی ہے۔ پھر خود ہمارے بارے میں بھی ربانی صاحب کو یہی شکایت تھی، حالانکہ ہم نے ہر دور میں افغانوں کے آپس کے اتحاد کی مخلصانہ کوشش کی۔

میاں نواز شریف صاحب نے جب تین ماہ کے لیے صبغت اللہ مجددی صاحب کی صدارت کا فیصلہ قبول کیا جو ربانی صاحب اور سیاف صاحب اور کچھ عرب شیوخ کے درمیان طے پاجانے والے فارمولے کا حصہ تھا اور حکمت یار کو بالکل نظرانداز کردیا، تو میں نے ایک امرواقعہ کے طور پر اورفیلڈ کے حالات کو جانتے ہوئے، اور انجینئر حکمت یار کے ذہن کو سمجھنے کے باعث انھیں بتادیا کہ ’’اس سے ایک بڑے فتنے کی بنیاد پڑگئی ہے‘‘۔ بعدمیں جب ان کے درمیان جنگ چھڑگئی تو میاں نواز شریف صاحب نے برسرِعام مجھے اس لڑائی کا ذمہ دار ٹھیرا دیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی افغان رہنما نے، کسی بھی وقت کسی بھی شخص یا گروہ کی ایسی کوئی بات تسلیم نہیں کی، جس میں اس کا اپنا مفاد نہ ہو۔ افغانوں کے بارے میں یہ تجربہ ہراس گروہ کو ہوا ہے، جس کا ان سے واسطہ پڑا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی بات کے علاوہ کسی کی نہیں سنتے۔ پھر پورے افغانستان میں جو تباہی مچی، اس کی بنیادی ذمہ داری افغان جہادی گروپوں کے لیڈران کرام پر عائد ہوتی ہے، جو ایک دوسرے کے سامنے شانے جھکانے کے لیے تیارنہ ہوئے اور ہر ایک نے اپنی اَنا کی خاطر پوری قوم کو آگ اور خون میں جھونک دیا اور سوویت یونین کے خلاف جہاد میں جو نام پیدا کیا تھا، اسے بدنامی میں تبدیل کر دیا۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ان تمام گروہوں کو ایک قیادت کے تحت اکٹھا کرنے کا امکان موجود تھا کیونکہ وسائل فراہم کرنے کا بنیادی ذریعہ حکومت پاکستان ہی تھی۔ باہر کی امداد بھی حکومت پاکستان کے ذریعے تقسیم ہوتی تھی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق صاحب اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ ’’اگر یہ لوگ ایک قیادت میں متحد ہوجائیں گے تو حکومت ِ پاکستان کو نظرانداز کرکے اپنے معاملات براہِ راست دُنیا کے ساتھ طے کرلیں گے اور متحدہ قوت کی صورت میں حکومت پاکستان کے لیے بھی پریشانی کا موجب بنیں گے‘‘۔

ان سارے واقعات کی روشنی میں المیہ افغانستان سے ہمیں پہلا بنیادی سبق یہ ملتا ہے کہ ملک و قوم کی اصلاح کے لیے بیرونِ ملک کی مدد اور وسائل پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ افغان مجاہدین کا کُلی انحصار پاکستان پر تھا اور پاکستان کا انحصار امریکا پر تھا۔ امریکا نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد پاکستان اور افغان عوام کو جہاد کے ثمرات سے محروم کردیا۔

دوسرا بنیادی سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ ملک کے تمام مکاتب ِ فکر اور نسلی اور لسانی گروہوں کو قومی مشترکات پر ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ جب تک ایک قوم کے واضح مشترک مقاصد کا تعین نہ کیا جائے، اور قومی مفاد کو گروہی مفاد پر ترجیح نہ دی جائے، اس وقت تک کوئی بھی قوم حقیقی معنوں میں ایک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوتی۔ افغانستان میں اسلامی قوتیں بھی آپس کے تعصبات کا شکار تھیں اور نسلی اور لسانی گروہ بھی سینوں میں قبائلی بتوں کی محبت سجائے ہوئے تھے۔افغانوں کے بارے میں علّامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا تھا:

ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی
کہ ہرقبیلہ ہے اپنے بتوں کی زناری

ایک منظم تحریک اس وقت تک منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی، جب تک کہ اس کے پاس ایک متفقہ قیادت نہ ہو۔ یہ قیادت ضروری نہیں ہے کہ ایک فرد کی ہو، اجتماعی بھی ہوسکتی ہے، لیکن اس کا ہم آہنگ ہونا اور مشاورت سے چلنا ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان اس طرح کی قیادت سے محروم تھا۔ بدقسمتی سے وہاں اسلامی تحریک ٹھیک طرح منظم نہیں ہوسکی اور جلد ہی شخصیات کی اَنا کی وجہ سے ٹکڑیوں میں تقسیم ہوگئی۔ بعض ٹکڑیوں نے لسانی تنظیموں کا رُوپ دھار لیا۔ آپس کی دشمنی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اب افغان، غیرملکیوں کی مدد سے ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں۔ غیرملکی پریس انھیں ایک دوسرے کی لاشوں کو مسخ کرتے دکھا رہا ہے تاکہ دشمنی کے زخم اور بھی گہرے ہوجائیں، یہ کبھی مندمل نہ ہوسکیں اور اس طرح افغانستان مستقل طور پر لسانی بنیادوں پر تقسیم ہوجائے اور وہ پُل ٹوٹ جائے جو پاکستان کو وسط ایشیا کے ساتھ جوڑ سکتا ہے۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ’پختون اکثریت کا نعرہ‘ پختونوں کی ہمدردی میں نہیں بلکہ امریکا اور مغربی ممالک کے اشارے پر لگایا، اگر افغانستان میں پختونوں کی اکثریت کا حوالہ دے کر پختونوں کی حکمرانی پر زور دیا جائے گا تو سوچ لینا چاہیے کہ پاکستان میں پنجابیوں کی اکثریت کی بنا پر اگر پنجابیوں کی حکومت کا نعرہ لگایا جائے تو اس کے کیا نتائج ظاہر ہوں گے۔ یہ سب لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے۔

طالبان نے کبھی اپنے آپ کو پختونوں کا نمایندہ نہیں کہا، اور نہ گلبدین حکمت یار نے اپنے آپ کو پشتونوں کے نمایندے کے طور پر پیش کیا۔ نہ بُرہان الدین ربانی نے کبھی یہ کہا ہے کہ وہ تاجکوں کا نمایندہ ہیں۔ خود افغانستان کے شاہی خاندان نے نسلاً پختون ہونے کے باوجود فارسی زبان کو دربار کی زبان کے طور پر استعمال کیا اور اس میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ ظاہر شاہ، دوفقرے پشتو کے درست نہیں بول سکتا اور شاہی خاندان کلچر کے لحاظ سے فارسی بولنے والے تاجکوں کے قریب ہے۔

مسلم ممالک کو متحد رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ ہم لسانی اور نسلی تعصبات سے اپنے معاشرے کو پاک رکھیں اور اسلامی تہذیب اور اخوت کو ہی اپنی پہچان بنالیں۔ دشمن کی اس سازش کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہمارے اخبارات بھی مغربی میڈیا کی پھیلائی ہوئی اشتعال انگیزی ہی کو اپنے پہلے صفحے پر نمایاں کر رہے ہیں۔

سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ہمیں آیندہ کے لیے احتیاط برتنی چاہیے۔ یہ خواہش رکھنا کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت بنے، بہت اچھی بات ہے لیکن یہ کام زبردستی نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کی آزادی اور خودمختاری کو دل سے تسلیم کرکے ایسے عناصرکے ساتھ دوستی بڑھائی جاسکتی ہے جن کے ساتھ خارجہ اور داخلہ اُمور میں مشترکہ مقاصد پر معاملہ فہمی ممکن ہے، مگر جن لوگوں نے ماضی میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی تحریک چلائی، انھی کی طرف رجوع کر کے ان کے لیے افغانستان میں زیادہ نمایندگی طلب کرنا مغربی ایجنڈا ہے جس پر ہماری حکومتیں بے سوچے سمجھے گامزن رہی ہیں۔ ہماری ان حکومتوں کی مثال اس روایتی بڑھیا کی سی ہے، جس نے اپنا سوت کاتنے کے بعد ریزہ ریزہ کر دیا۔ احمد شاہ مسعود جیسے قیمتی انسان کو دشمن بنادیا گیا، وہ ۱۹۷۴ء میں پشاور آئے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ عالمِ دین سابقہ ایم این اے مولانا عبدالرحیم چترالی سے قرآن پڑھا اور استاذ بُرہان الدین ربانی کے ساتھ قریبی ساتھی کے طور پر منسلک رہے۔ کچھ دن میرے گھر میں بھی قیام کیا۔ ان کے والد صاحب اپنی وفات تک پشاور میں مقیم رہے اور یہیں پر ان کی تدفین ہوئی۔ لیکن حکومت پاکستان نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے انھیں اتنا دُور کر دیا کہ آخرکار انھوں نے پاکستان دشمن رویہ اپنا لیا۔

استاذ بُرہان الدین ربانی ہمیشہ کوشاں رہے کہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات درست ہوں، لیکن حکومت پاکستان ان سے اتنی بدظن ہوچکی تھی کہ جب بھی ہم نے حکمت یار اور ربانی کے درمیان اتحاد کی کوششیں کیں، حکومت پاکستان نے ان کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اور حکمت یار کو ان سے الگ رہنے کا مشورہ دیا۔

گلبدین حکمت یار پر پاکستان کی حکومت اور فوج نے سب سے زیادہ محنت صرف کی۔ ایک وقت ایسا تھا کہ حکمت یار افغانستان کی سب سے بڑی جہادی قوت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ وہ آخر وقت تک پاکستان دوست رہے اور مسلم دُنیااور پاکستان کے ساتھ ان کی دوستی میں کبھی بھی تزلزل نہیں آیا۔ وہ کشمیر کے بارے میں پاکستانیوں سے بھی زیادہ یکسو تھے۔ لیکن چونکہ وہ آزاد ذہن سے سوچنے کے عادی تھے اور تابع مہمل رہنے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس لیے انھیں بھی دھتکار دیا گیا۔ طالبان کے ساتھ پاکستان کی حکومت کے تعلق کا یہ عالم تھا کہ ترکی الفصیل نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’ہم نے اس لیے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا تھا کہ نصیراللہ بابر نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ ’’یہ میرے بچے ہیں‘‘۔

اور پھر حکومت پاکستان نے اپنے ان بچوں کو امریکیوں سے بے دردی کے ساتھ قتل کروایا۔[۲۰۰۲ء]