جنوری ۲۰۲۲

فہرست مضامین

پاکستان کی نظریاتی اساس اور سیکولر لابی

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۲۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

فرد ہو یا قوم، نظریے اور مقصود حیات کے بغیر اس کی ترقی اور استحکام ممکن نہیں۔ علامہ اقبال نے اس نکتے کو اسرار و رموز میں بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے:

زندہ فرد از ارتباطِ جان و تن
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن

مرگِ فرد از خشکیِ رودِ حیات
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات

(فرد کی زندگی جان و تن کے تعلق سے قائم ہے، اور قوم کی زندگی اپنی قدیم روایات کے تحفظ سے قائم رہتی ہے۔ فرد کی موت جوئے حیات خشک ہوجانے سے واقع ہوجاتی ہے، اور قوم کی موت مقصودِ حیات ترک کردینے سے ہے۔)

نظریۂ حیات کی اہمیت

فرد اور قوم دونوں ہی کی زندگی میں نظریہ، تصورِ حیات اورزندگی کے مقصود کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ قرآن نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہدایت کو قرار دیا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اس کی سب سے بنیادی دعا ہے اور ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اس دعا کا جواب ہے۔ قرآن پاک میں تخلیق آدم ؑکے واقعے کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، اس کا مرکزی نکتہ انسان کا مقصدِ وجود ہے، یعنی خلافت اور نیابتِ الٰہی اور پورا قرآن اس ہدایت کا امین ہے جو انسان کو یہ کردار ادا کرنے کے لائق بناتا ہے۔

اس سلسلے کی سب سے پہلی چیز یہ ہے جس انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ بنایا، اسے علم الاشیاء سے نوازا۔ اسے عقل، ارادے اور اختیار کی دولت سے مالا مال کیا۔ اس کے اندر خیر اور شر دونوں کا داعیہ رکھا: فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا o (الشمس ۹۱:۸)، اسے حق و باطل اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت سے نوازنے کے بعد، ہدایت سے بھی نوازا اور کامیابی کی شاہراہ کو روشن کرکے اسے بتادیا کہ جو ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہے اور جو اس سے رُوگردانی کرے گا وہ ناکام و نامراد ہے:

فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَـآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج  ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲: ۳۸-۳۹) پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ انسانی زندگی کی سب سے کارفرما قوت نظریہ اور ہدایت ہے۔ اس مثالیے (paradigm ) میں تین چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں:

       ۱-    علم الاشیاء، یعنی انسان کو اس کائنات کے وسائل اور خزانوں کا علم اور ادراک عطا کیا گیا ہے۔ اسی چیز نے انسان کو دوسری تمام مخلوقات پر فوقیت بخشی اور اسے نیابت و خلافت کا اہل بنایا۔

       ۲-    عقل اور انتخاب کی آزادی انسانوں کو عطا کی۔ فرشتوں نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’یہ فساد کرے گا‘‘۔ گویا رد وقبول کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کوجبر میں نہیں کسا بلکہ اس کو آزادی اور انتخاب کی صلاحیت بھی دی ہے۔ یہ دونوں چیزیں تو سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں مشترک ہیں۔ البتہ اس سلسلے کی تیسری چیز (ہدایت) کے بارے میں (جو انسانی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے) سیکولر سوچ اور دینی سوچ میں بُعدالمشرقین نظر آتا ہے اور یہیں سے اختلاف کی بنیاد سامنے آتی ہے۔

       ۳-    ہدایت سے مراد اس زندگی کو گزارنے کا اسلوب ، احساس ذمہ داری کی میزان اور آخرت میں جواب دہی کی ذمہ داری ہے، جس کے لیے انبیاورسل علیہم السلام کو بھیجا گیا، کتابوں اور ہدایت کی روشنی دی گئی اور خاتم الانبیا محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی اس ابدی ہدایت کی تکمیل کی۔

               فرمایا: اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ قف لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا۝۰ۤۡ غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُ o (البقرہ ۲:۲۸۵)’’رسولؐ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اس رسول کے ماننے والے ہیں، انھوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کرلیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں ، اور اس کی کتابوں، اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں، اور ان کا قول یہ ہے کہ : ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطابخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

مرادیہ ہے کہ ہدایت وہ چیز ہے جو مقصد تک پہنچنے کی تمام تر جدوجہد کو سہارا عطا کرتی ہے، علم کو انسانیت کے لیے نافع اور سودمند بناتی ہے، اور نیابت و خلافت کی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے رہنمائی عطا کرتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں علم الاشیاء، آزادیِ انتخاب اور ہدایت کے تین ستونوں پر ہی نظریہ،  مقصد اور منزل کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ان کے بغیر نہ زندگی میں انضباط پیدا ہوتا ہے، نہ اصل جوہرِ انسانیت کا اظہار ہوتا ہے، اور نہ تحریک و تحرک کو کوئی راستہ ہی ملتا ہے۔ اس لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے نظریہ ناگزیر ہے، اور یہ سبھی معاشروں اور انسانوں کے لیے ضروری ہے، جب کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہدایت، انسانی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے جس کے لیے   یہ اصول طے کر دیا گیا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo (الفاتحہ ۱:۵-۶)’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔

انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریہ کا کردار

انسانی زندگی اور انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ  جن قوموں اور انسانوں کے سامنے کوئی نظریہ اور منزل تھی، انھی نے اوراقِ تاریخ اور دامنِ تہذیب میں نام پیدا کیا۔ نظریہ غلط ہو یا درست، شر پہ مبنی ہو یا خیر کا علم بردار، دونوں ہی صورتوں میں وہ ہمیشہ زندگی کی نشوونما اور پیش رفت اور ترقی کے لیے، ایک بنیادی محرک رہا ہے۔ البتہ نظریہ اگر حق پر مبنی ہے تو اس سے انسانی زندگی اور دنیائے تہذیب میں خیر اور فلاح کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اگر وہ باطل پر مبنی ہے تو یہ جہان تگ و دو فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔

تاریخ کے اس فتوے کو ایک طرف تو ابن خلدون[م:۱۴۰۶ء] نے اپنے انداز میں مقصد، شریعت اور عصبیت کے فریم ورک میں پیش کیا ہے، اور دوسری جانب خود دورِ جدید کے فلاسفۂ تاریخ نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ساروکن [م:۱۹۶۸ء]، آرنلڈ جے ٹائن بی[م:۱۹۷۵ء] اور عصرِ حاضر کے دیگر ماہرین تاریخ نے بھی اپنے اپنے انداز میں اس موضوع پر لکھا ہے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ وہی قومیں انسانی تاریخ کے اسٹیج پر ابھری ہیں، جن کے سامنے ایک اعلیٰ نصب العین تھا، اور جو اس نصب العین اور نظریے کی بنیاد پر فکری، سماجی، معاشی اور نفسیاتی زندگی کے چیلنجوں کا جواب دینے کا داعیہ، صلاحیت اور جذبہ رکھتی تھیں۔ اس چیز کو گذشتہ ربع صدی کے ماہرین تہذیب و تاریخ: ’انسانی تہذیب کی تشکیل میں نظریے اور افکار کی فیصلہ کن کار فرمائی‘ کے جملے میں پیش کرتے ہیں۔ اس اصول کو ہمارے اہلِ دانش نے فکری و عملی جدوجہد سے مربوط کیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ [م:۱۷۶۲ء] نے اسے ’اجتہاد اور جہاد‘ سے تعبیر کیا ہے، اور شعرو ادب نے اسے ’قلم اور تلوار‘ کی علامات کی شکل میں پیش کیا ہے۔

یہ تاریخ انسانی کا نہایت صاف اور واضح فیصلہ ہے کہ تہذیبی تبدیلی کے لیے فیصلہ کن عامل قلم ہی ہے۔ قلم سے مراد ہے فکرو دانش اور اخلاق و اصول، جب کہ اس تبدیلی کو روبہ عمل لانے اور اس کی حفاظت کے لیے قوت، تنظیم اور تلوار کا وجود ناگزیر ہے۔ یوں قلم اور تلوار انسانی تاریخ، تہذیب اور زندگی کے لیے دست راست اور ایک دوسرے کے زبردست معاون اور پُشتی بان ہیں۔

۲۰ویں صدی ایک طرف بے خدا فلسفوں کے درمیان کش مکش اور دوسری طرف یورپی قوموں کے درمیان تجارتی و معاشی رقابت کی بنا پر خوں ریز تصادم کی صدی تھی___ اس سے ماقبل متصل ۱۹ویں صدی میں ایوان ترگینف [م:۱۸۸۳ء] نے نہل ازم ( Nihlism :’زندگی ایک   بے معنی اور محض وجودی چیز ہے‘) کے نظریے کو بڑے دعوے سے پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ گذشتہ  دو صدیوں میں جواب دہی کے تصور سے بالا انسان کی مزعومہ سوچ کا سرچشمہ اسی فکر سے پھوٹتا ہے۔ ۱۹ویں صدی کے اواخر میں اشتراکیت اور پرولتاری، یعنی مزدوروں کی آمریت کا نعرہ بلند ہوا، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے وسیع حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سماجی، معاشی اور سیاسی زندگی کے افکار کو تہہ وبالا کر دیا، مگر اپنی غیر فطری بنیاد کے باعث ۷۰، ۸۰ سال کے بعد ہی اشتراکیت کا سورج ڈوب گیا۔اسی درمیان میں فسطائیت (Fascism) کا ڈنکا بھی بجا مگر ایک دوعشروں میں ہی، یہ انسانی تاریخ کی بدترین اصطلاح بن کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ انسانیت کے ساتھ یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ وہی مغربی تہذیب جس نے ۲۰ویں صدی میں سائنسی ترقی کا سہارا لے کر دو عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا تھا، آج مسلمانوں کو امن کا درس دے رہی ہے؟ پھر سوویت یونین کے انہدام [۲۶دسمبر۱۹۹۱ء] کے بعد فرانسس فوکویاما [پ:اکتوبر ۱۹۵۲ء] نے End of the History میں گویا نظریاتی تاریخ کے خاتمے کا اعلان کیا  مگر چند ہی برسوں میں یہ فکر بھی پانی کے بلبلے کی طرح تحلیل ہوگئی۔

آج دنیا میں ایک بار پھر نظریات کی بالادستی، مقاصد اور ’اقدار بطور اصل کار فرما قوت‘ کے فہم اور حصول کی پیاس بڑھ رہی ہے۔ عصر حاضر میں پیدا شدہ عالمی، تہذیبی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران کا حل ایک بار پھر نظریاتی آدرشوں میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اصل بحران،  اخلاقی بحران ہے، نظریاتی شعور کی پستی کا بحران ہے، جس نے انسانی زندگی اور اس کے مستقبل کو خوف ناک چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔

آج اہل فکر ونظر، اقدار اور اخلاق کی کارفرمائی کو زندگی کے فیصلہ کن مظہر کی صورت میں پیش کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ انسانیت کا مستقبل اسی وقت روشن قرار دیا جاسکتا ہے، جب ایک ایسا عالمی نظام معرض وجود میں آئے، جو احترامِ آدمیت، اخوت، حریت اور مساوات اور بے لاگ انصاف پر استوار ہو، جو استحصال سے پاک اور انسانوں کے درمیان محبت، امداد باہمی اور مؤدت کا داعی ہو۔ پاکستان کے فکری بانی علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:

وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے، اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے، جو نسل و زبان و رنگ سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت میں سے اس ناپاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا، جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا، جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ ونسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا، اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے، اور اخوت، حریت اورمساوات کے شان دار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو پائیں گے [یکم جنوری۱۹۳۸ء کو  سالِ نو کا پیغام، آل انڈیا ریڈیو، لاہور]

اسی طرح علامہ محمد اقبال ایک دوسرے موقع پر لکھتے ہیں:

جو کچھ قرآن سے میری سمجھ میں آیا ہے، اس کی رو سے اسلام محض انسان کی اخلاقی اصلاح ہی کا داعی نہیں، بلکہ بشریت کی اجتماعی زندگی میں ایک تدریجی مگر اساسی انقلاب بھی چاہتا ہے، جو اس کے قومی اور نسلی نقطۂ نظر کو یکسر بدل کر، اس میں خالص انسانی ضمیر کی تخلیق کرے… یہ اسلام ہی تھا جس نے بنی نوع انسان کو سب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ دین نہ تو قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی، نہ پرائیویٹ، بلکہ خالصتاً انسانی ہے۔ اس کا مقصد، باوجود تمام فطری امتیازات کے عالمِ بشریت کو متحد و منظم کرنا ہے۔

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا:

اسلام، فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا۔ وہ مادے اور روح کی کسی ناقابلِ اتحاد ثنویت کا قائل نہیں ہے۔ اسلام کی رُو سے خدا اور کائنات، روح اور مادہ، کلیسا اور ریاست ایک ہی کُل کے جزو ہیں، اور ایک دوسرے سے پیوست ہیں۔ اسلام یہ نہیں سکھاتا کہ انسان اس آلایشوں سے لبریز اور ناپاک دنیا کا کوئی باشندہ ہے اور وہ اسے کسی دوسری دنیا کی خاطر ترک کردے، جہاں روح رہتی ہے۔ اسلام کے نزدیک مادہ روح کا وہ روپ ہے جو قیدمکان و زمان میں گھرا ہوا ہے۔ یورپ کی عیسائی ریاستوں کی زندگی سے مذہب عیسوی تقریباً خارج ہوگیا ہے… میری خواہش ہے [اور مجھے یقین ہے کہ] شمال مغربی ہندستان کے مسلمانوں کو ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔

گویا اسلام ان نسلی اور علاقائی امتیازات سے بلند ہو کر انسان کو اس کی فطرت کی جانب بلاتا اور اسے ایک تصور جہاں (World View) کی روشنی دیتا ہے کہ جس کی بنا پر منصفانہ نظامِ جہاں (World Order) نموپذیر ہوتا ہے۔

اس وقت جو لوگ نظریے کی کار فرمائی اور اس کی اہمیت کا انکار کر رہے ہیں، وہ اس بات کو بھول گئے ہیں کہ مقصد حیات، نظریے، اخلاقی اور سماجی اقدار سے کٹ کر، اور مفاد وعصبیت کی دلدل میں پھنس کر انسان حیوانیت کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنا وہ نظریے اور اخلاق سے دُور ہوتا ہے، اتنا ہی وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے تباہی وبربادی کا سبب بنتا ہے۔نہ اس کی قوم پرستانہ جمہوریت، انسانیت کے لیے ہمدردیِ عمل کا پروگرام پیش کرتی ہے اور نہ ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ ہی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کر پاتی ہے۔ ان طرزِ ہائے حکومت کی طرح معاملہ قوموں اور ملکوں کا بھی ہے۔

 تحریکِ پاکستان کی قوتِ محرکہ

پاکستان میں نظریہ پاکستان کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان اور اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے وجود کو سمجھنے کی کنجی تحریک پاکستان کا نظریہ ہے۔ اس مناسبت سے سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اور اسلام دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام ہی مسلمانوں کے تشخص کی علامت ہے اور مسلمان ہی اسلام کی پہچان ہیں۔ اس حوالے سے یہ نظریہ کہ’’ مسلمان ہونا تو ٹھیک ہے، مگر اس کا اسلامی ہونا کوئی ضروری تقاضا نہیں ہے‘‘، ایک احمقانہ اور تباہ کن تصور ہے۔ مسلمان اپنی تعریف کے اعتبار سے ایک اُمت کا حصہ ہے، ایک مشن اور مقصد کا علَم بردار ہے، جسے مسلمانیت کی پہچان نے ایک خاص ذمہ داری سونپ دی ہے۔ مسلمان گناہ گار ہو سکتا ہے، مگر وہ اسلام کے تصور جزا و سزا، اور اُخروی جواب دہی کے تصور سے اپنے آپ کو الگ کرلے یا اس کی مسلسل نفی کرے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس لیے عقیدہ ہی اول وا ٓخر مسلمان کی پہچان ہے۔

یہ عقیدہ انسان کے ذہن میںتین بنیادی تصورات راسخ کر دیتا ہے: lغیر اللہ سے بغاوتl اللہ پر ایمان اور اس کے سامنے مکمل سپردگیlزندگی گزارنے کے لیے اللہ، رسولؐ،  قرآن اور آخرت پر ایمان اور قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق زندگی کو ڈھالنے کی جدوجہد ___ یہ تینوں تصورات ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور یہی مسلم اُمت کی بنیاد ہیں، اور اسی مناسبت سے ہر مسلمان مرد اور عورت کی شناخت متعین ہوتی ہے۔

یہ وضاحت ضروری ہے کہ جس چیز کو ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے یہ ہندستانی مسلمانوں کی اختراع نہیں ہے، بلکہ وہ پہلے دن سے اسلام کے ایمانی، فکری، تہذیبی تصورات اور اہداف کو قائم کرنے والا نظریہ ہے۔ سورۂ فاتحہ دو قوموں اور دوامتوں کے خدوخال واضح کرتی ہے، فرمایا:

صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ o

قرآن کریم کا یہی افتتاحیہ اس دو قومی نظریے کو وجود بخشتا ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ہمیشہ سے دوراستے متعین کرکے، انسانوں کو رد و قبول کا اختیار دے دیا گیا ہے، یعنی ایک سیدھا راستہ اور دوسرا اس کے برعکس اللہ کی ہدایت سے انحراف اور انکار کا راستہ۔ ایک راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے اصولوں سے تشکیل پاتا ہے، اور دوسرا راستہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے انکار، مخالفت یا اپنی خواہشات کی پیروی سے منسوب ہے۔ اس دو قومی نظریے میں جو بنیادی حقیقت بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسانیت دراصل انھی دو بنیادی قافلوں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں قافلوں میں فکر، صورت، ہیولا، شکل اور منزل جدا جدا ہے۔ ایک قافلہ انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہے اور دوسرا انحراف اور بغاوت کو اپنائے ہوئے ہے۔

اس نظریے کے تین مضمرات ہیں، جن کا سمجھنا از بس ضروری ہے:

  • پہلی بات یہ کہ افراد اور اقوام کو اس امر کی آزادی حاصل ہے کہ وہ کون سی منزل اور کس نظریے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی انتخاب کے مطابق وہ اجتماعی زندگی میں نتائج بھگتیں گے اور انفرادی طور پر آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔
  • دوسری یہ کہ ہر قوم کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنے تصور اور منزل کے انتخاب کے مطابق اپنے تشخص اور تہذیبی اور معاشرتی دروبست کا انتظام و انصرام کرے، اور اس میں مسابقت و بہتری کے امکانات کو بروئے کار لائے۔
  • تیسری جہت، انسانی زندگی کے اُس پہلو سے وابستہ ہے، جس کا ذریعہ ہدایت الٰہیہ ہے۔ صرف اس ایک پہلو سے جو عقیدے پر مبنی ہے، اس میں تو لازماً یک رنگی ہے، تاہم احوال و ظروف اور زمان و مکان کی مناسبت سے، اس عقیدے کے تحت یک سو اور باہم مربوط ہوتے ہوئے، افراد اور ممالک کے لیے کثرتیت کی گنجایش پوری طرح موجود ہے۔ اسلام نے اس جزوی اختلاف اور تنوع کو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ کے پیش کردہ ضابطے کے فریم ورک میں اختیار کرنے اور راستے نکالنے کی اجازت دی ہے۔

یہی چیز ہے دوقومی نظریے کی اساس اور وسیع تر بنیاد۔ اسی بنا پر ایک مسلمان کے لیے  لازم ہے کہ تصور حیات اور الہامی ہدایت کی بنیاد پر دنیا میں علم پھیلائے، رہنمائی دے اور دوسروں کے لیے قابل اتباع نمونہ پیش کرے۔ یہی حق دو قومی نظریہ دوسروں کو بھی دیتا ہے کہ وہ اپنے تصورات و عقائد کے مطابق انفردی اور اجتماعی زندگی کے معاملات کو چلائیں۔ یہ نظریہ مغرب کے ’قومی ریاستوں‘ (Nation States) کے تصور سے بالکل مختلف سوچ کا حامل ہے۔ اس میں قومی ریاست کا نہیں، قوموں کی ریاست کا تصور ہے جس میں یہ اہتمام موجود ہے کہ ہر قوم کو اپنے تشخص کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، تاہم جس کو اکثریت حاصل ہے، اس کی یہ اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اصولوں اور اقدار کے مطابق اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے، وہیں اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ اختلاف اور تنوع کا احترام کرے اور اقلیتوں کے لیے آسودگی پیدا کرے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اس فریم ورک کی مختلف اور متنوع صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، مگر ان میں مسلمانوں کے لیے تین کو مرکزیت حاصل ہے:

۱- وہ ملک، جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے اور اس میں انھیں اقتدار بھی حاصل ہے۔

۲- وہ ملک، جس میں مسلمانوں کی اکثریت تو ہے، مگر اقتدار سے محروم ہیں۔

۳- وہ ملک، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اورانھیں اقتدار بھی حاصل نہیں ہے۔

پہلی صورت میں اسلامی نظریے کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کانظام، اسلام کی روشنی میں وضع کیا جائے جس میں اکثریت نظام زندگی اور منزل کو متعین کرے اور دوسری تمام اقوام کو انفرادی، تہذیبی اور اجتماعی حقوق حاصل ہوں، تاکہ وہ اس نظریاتی ریاست میں اپنے مذہبی اور نظریاتی تشخص کے لیے مناسب جگہ (space) پا سکیں۔ اس طرح اکثریت اور اقلیت، دونوں عدل و انصاف اور افہام و تفہیم کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔

دوسری صورت میں مسلمانوں کی فطری طور پر خواہش اور کوشش ہوگی کہ وہ اپنی اکثریت کو اختیار اور اقتدار دلانے کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ ان کاجائز حق ہے۔ اگر انھیں اس میں کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ پہلی صورت میں آ جاتے ہیں، ورنہ جدوجہد کے مرحلے میں شامل رہتے ہیں۔

رہی تیسری صورت، تو اس میں اسلام نے یہ بات قبول کی ہے کہ جن کو اکثریت اور اقتدار حاصل ہے، انھیں اجتماعی زندگی میں انصاف اور دوسروں کے حقوق کی پاس داری کے ساتھ حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے۔ دوسرے مذہبی اور تہذیبی تشخص کے حاملین کو قرار واقعی جگہ اور سہولت حاصل ہونی چاہیے، تاکہ وہ باوقار اور منصفانہ انداز سے زندگی گزار سکیں۔

مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں دو قومی نظریہ، انسانی تاریخ و تہذیب اور زندگی سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم حالات کی مناسبت سے اس میں تقدیم و تاخیر ہو سکتی ہے۔ اس نظریاتی فریم ورک میں برعظیم پاک و ہند کے حالات کا جائزہ لیں تو صاف نظر آتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ۹۰۰ سالہ دور حکمرانی میں اس بات کی پوری کوشش کی ہے کہ وہ بڑی حد تک شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایک کار فرما قوت بنانے کا اہتمام کریں۔ انھیں اس میں کامیابیاں بھی ملیں اور ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس طرز احساس کا منہ بولتا ثبوت اس خطۂ ارضی میں تجدیدِ دین اسلام کی متعدد تحریکیں ہیں، مگر اس تمام تر احساس کے باوجود خطۂ ہند کی تاریخ یہ ثبوت پیش نہیں کرتی کہ مسلمانوں نے جبر اور قوت کے ذریعے یہاں بسنے والی اکثریت کو اپنے مذہب، اپنی زبان اور اپنے تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے پر کبھی مجبور کیا ہو، بلکہ اس کے برعکس انھیں اس چھتری کے تحت پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقیدے اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا موقع دیا گیا اور اجتماعی امور میں معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر کے مواقع میسر رہے۔

مسلمانوں کی آمد سے پہلے کے ہندستان کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت کے پیرو کاروں کو جب بھی اقتدار ملا، انھوں نے دوسرے مذہب کو نیست و نابود کیا۔ اس کے پیروکاروں کو ملک بدر کیا یا اپنے نظام میں تحلیل کرنے کے لیے ہر ناجائز کوشش کی، یا ان کی انفرادی شناخت کو ختم کرکے دم لیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کی ۹۰۰سالہ حکمرانی کے زمانے کا ریکارڈ   پوری دنیا کے سامنے موجود ہے، اور ان لوگوں کے پاس بھی موجود ہے جنھیں ’ہندوسیکولرازم‘ میں ’روشن خیالی‘ کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس زمانے کا ریکارڈ گواہی دیتا ہے کہ مسلمانوں نے سیاسی غلبے کے باوجود، دوسرے مذاہب کی شناخت کو ختم کرنے یا ان کے پیروکاروں کو اس مناسبت سے کبھی شہری حقوق سے محروم کرنے کی کوشش نہیں کی (البتہ متحارب اور جنگ میں مصروف عناصر کا معاملہ دوسرا ہے)۔ یوں سرزمین ہند پر مسلم دور حکومت میں تمام افکار و مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ، باغ کے مختلف اور رنگارنگ پھولوں کی طرح پھلتے پھولتے اور اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

بعدازاں برطانوی استعمار کے قبضے کے اولین دور میں شعوری طور پر، ہوشیاری اور  چابک دستی کے ساتھ، اس نو آبادیاتی طاقت نے کوشش کی کہ یہاں مسلمانوں کو کمزور اور غیر مؤثر بنادیں کیونکہ انھیں اصل چیلنج مسلمانوں سے تھا، جن سے انھوں نے اقتدار چھینا تھا اور اسی مناسبت سے ہندو نفسیاتی طور پر برطانوی استعمار کے حلیف تھے۔ اسی استعمار نے سیاسی، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے اپنے ہم نوائوں کی ایک قوت تیار کی جس کے لیے عیسائی مشنری قوتوں، جدید تعلیم کی تحریک اور دوسرے تمام سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوئوں کی بالادست قوت کو ہرممکن سہولت مہیا کی۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک مراعات یافتہ طبقہ   پیدا کیا، جو دور غلامی میں انگریزوں کا وفادار، اور مسلمانوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنا رہا۔  قیامِ پاکستان کے بعد اس طبقے نے اپنے اس کردار کو پوری وفاداری سے انجام دے کر ملک کو نظریاتی کش مکش اور تہذیبی انتشار کی دلدل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہندستان میں چونکہ مسلمانوں کی آبادی تقریباً ایک چوتھائی تھی اور ہندوغالب اکثریت رکھتے تھے، اس لیے بھی ہندوئوں کو اجتماعی نظام میں بالادستی دی گئی۔ اس پس منظر میں تحریک آزادی اُبھری۔

انگریزوں کے اس دور حکمرانی میں جو پہلی عوامی تحریک زبان زدِ خاص و عام ہوئی، جس کی بازگشت سمندر پار بھی سنی گئی اور جس نے اہلِ ہند میں ایک عوامی شعور بیدار کیا، وہ تحریکِ خلافت تھی۔ اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ تب مسلمان دو قومی نظریے کی روشنی میں اپنے سیاسی حقوق اور نظریاتی و تہذیبی تشخص کو ہندستان کے اجتماعی وجود ہی میں حاصل کرنے کی کوشش شروع کررہے تھے۔ اس ضمن میں ۱۹۰۶ء میں مسلم لیگ کا قیام، مسلم شناخت کا تحفظ، حقوق کا حصول، سیاسی جدوجہد میں نظم و ضبط کا احساس اورتقسیم اختیارات بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں۔مسلم لیگ کے قیام ہی نے وفاقی اور صوبائی اختیارات کی بحث کو ایک رخ دیا۔ اس کے مقابلے میں انڈین نیشنل کانگریس اختیارات کی مرکزیت چاہتی تھی۔ سائمن کمیشن اور نہرو رپورٹ میں کانگریس کی اس سوچ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ۱۹۳۵ء کے ایکٹ کے تحت قائم شدہ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے مسلمانوں کا جو حشر کیا، وہ ٹھیک اسی طرز عمل کا ایک عکس تھا جسے اپنے دورِ اقتدار میں ہندوئوں نے جین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں سے روا رکھا تھا۔

یہ تھا منظر نامہ تیسری صورت کے حوالے سے جسے مسلمانوں نے دوسری صورت میں ڈھالتے ہوئے آگے بڑھنے اور پھر نمبر ایک میں تبدیل کرنے کی منزل کا انتخاب کیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد لاہور (جسے ہندوئوں نے قرارداد پاکستان کا نام دیا) دراصل اُس راستے کا سنگ میل ہے، جس راستے کی طرف کانگریس کی تنگ نظری نے مسلمانوں کو دھکیلنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس چیزنے تہذیبی شناخت کے لیے دو قومی نظریے کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ مسلمانوں کے ذہنوں میں اتارا اور دلوں کی دھڑکن بنادیا۔

اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ علامہ محمد اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد (۲۹دسمبر ۱۹۳۰ء) کو غور سے دیکھا جائے۔ ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے زمانے میں مسلمان مفکرین، سیاست دان،  علمائے کرام اور دانش ور ایک گہرے اضطراب کا شکار تھے۔ پھر حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ   لے کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کا ہدف محض برطانوی سامراج سے آزادیِ محض کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ آزادی وہ اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی    یہ آزادی دوسرے عقائد رکھنے والوں کے لیے بھی امن و آشتی کی نوید ثابت ہوگی۔

آزادی کے اس تصور کو ایک طاقت ور جذبے کی شکل ۱۹۰۶ء سے ۱۹۳۸ء کے درمیانی عرصے کے معروضی حالات نے دی۔ یہ بات طے ہوگئی کہ ایک تنگ نظر اکثریت سے آزادی حاصل کرکے مسلم ریاست کا قیام لازم ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم ؒکے مابین جو خط کتابت ہوئی، اور ۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کے درمیان آل انڈیا مسلم لیگ نے جو قرار دادیں منظور کیں، اور ان میں جو مسائل نمایاں کیے گئے، اگر دیانت داری سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو صرف ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے، اور وہ یہ کہ اپنے دینی، نظریاتی، تہذیبی، سیاسی اور معاشی تشخص اور مستقبل کو محفوظ کرنے اور اسے ترقی دینے کے لیے مسلمانوں کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ مسلم ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔یوں احساس اور سوچ جب عمل میں تبدیل ہونا شروع ہوئی تو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

قائداعظم کا وژن

قائداعظم محمد علی جناح نے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۸ء تک اپنے ۱۰۰ سے زیادہ بیانات میں: اسلامی نظریے، اسلامی تہذیب، اسلامی قومیت، اسلامی تشخص، اسلامی قانون، اسلامی کلچر، اسلامی تاریخ اور اسلامی معاشرت کا ذکر کیا ہے۔

قائداعظم نے ہندو قوم پرست لیڈر گاندھی جی (م: ۱۹۴۸ء) کے نام اپنے ۱۰ستمبر ۱۹۴۴ء کے خط میں لکھا تھا:

قرآن مجید مسلمانوں کا ضابطۂ حیات ہے۔ اس میں مذہبی، مجلسی، دیوانی، فوج داری، عسکری، تعزیری، معاشی، سیاسی اور معاشرتی، غرض یہ کہ سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ مذہبی رسوم سے لے کر روزانہ کے امورِ حیات تک، روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرم تک، زندگی میں جزا اور سزا سے لے کر عقبیٰ کی جزا تک___ یہ قول و فعل اور حرکت کے احکامات کا مجموعہ ہے۔

اس پس منظر میں ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور اس کی بنیاد پر یک سر مختلف استدلال گھڑنا، قائداعظم کے ساتھ سخت ناانصافی اور علمی اعتبار سے سراسر بددیانتی ہے۔ خود قائد اعظم نے باانداز دگر اس تقریر کی تین مرتبہ وضاحت کی۔ ہم یہاں قائداعظم کا ایک بیان اور تین تقاریر پیش کر رہے ہیں۔بیان ۱۱؍اگست۱۹۴۷ء سے ڈیڑھ ماہ قبل کا ہے اورتقریریں ۱۱؍اگست کے بعد کی ہیں۔

تحریک پاکستان کے زمانے میں کانگریس کے حامی، قیام پاکستان کے مخالف، متحدہ قومیت کے طرف دار اور روشن خیال، مسلمان رہنمائوں میں ایک نمایاں نام خان عبدالغفار خاں [م:۱۹۸۸ء]  کا تھا۔ انھوں نے ۳جون ۱۹۴۷ء کے اعلان تقسیم کے بعد اپنا موقف تبدیل کرتے ہوئے، ۲۳جون کو کہا تھا:

’جملہ پٹھانوں کے لیے ایک ’آزاد پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ اس ریاست کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف کے مطابق وضع کیا جائے۔ جملہ پٹھانوں سے اپیل ہے کہ وہ اس محبوب منزل کے حصول کے لیے متحد ہو جائیں اور کسی غیر پختون غلبے کے سامنے سرتسلیم خم نہ کریں۔

 اس کے جواب میں ۲۸ جون ۱۹۴۷ء کو نئی دہلی سے قائداعظم نے ایک طویل بیان جاری کیا:

اس سے قبل اس نوع کا پرفریب اور عیارانہ مطالبہ خان برادران یا کسی اور کی جانب سے پیش نہیں کیا گیا کہ سارے پختونوں کے لیے آزاد ’پٹھان ریاست‘ قائم کی جائے۔ ان کا دوسرا نعرہ دو رنگا ہے، اور اس کا مقصد بھی پٹھانوں کو گمراہ کرنا ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ مجوزہ ’پٹھانستان‘ کا دستور جمہوریت کے اسلامی تصورات، مساوات اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہوگا، تو ان کا مطلب، مجلس دستور ساز پاکستان، جومسلمانوں کی عظیم اکثریت پر مشتمل ہوگی، پریہ بہتان طرازی کرنا ہے کہ وہ جمہوریت کے اسلامی تصوراتِ مساوات ومعاشرتی انصاف کو نظر انداز کر دے گی… یہ محض ایک عیارانہ حربہ ہے جس کا مقصد شمال مغربی سرحد کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہے… خان عبدالغفار خاں جو سرحدی گاندھی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، ان کو اسلامی تصوراتِ مساوات و معاشرتی انصاف پر اجارہ داری حاصل نہیں ہے… یہ اچانک اور نئی قلابازی خالصتاً سیاسی عیاری اور ایک حربہ ہے … خاں برادران نے اخبارات میں ایک اور زہریلا نعرہ بلند کیا ہے کہ مجلس دستور ساز پاکستان، شریعت کے بنیادی اصولوں اور قرآنی قوانین کو نظرانداز کر دے گی۔ یہ بھی بالکل نادرست بات ہے۔ ۱۳ سے زیادہ صدیاں بیت گئیں، اچھے اور بُرے موسموں کا سامنا کرنے کے باوصف، ہم مسلمان نہ صرف اپنی عظیم اور مقدس کتاب قرآن کریم پر فخر کرتے رہے، بلکہ ان تمام ادوار میں جملہ مبادیات کو  حرز جان بنائے رکھا… معلوم نہیں کہ خان برادران کو اچانک اسلام اور قرآنی قوانین کی علَم برداری کا دورہ کیسے پڑا ہے، اور انھیں اُس ہندومجلس دستور ساز پر اعتبار ہے جس میں ہندوئوں کی ظالمانہ اکثریت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ صوبہ سرحد کے مسلمان واضح طور پر یہ سمجھ لیں کہ وہ پہلے مسلمان ہیں اور بعد میں پٹھان‘‘۔ [قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ترجمہ اقبال احمد صدیقی، بزم اقبال، لاہور، ص ۳۴۶-۳۴۷]

اس بیان میں قائداعظم نے خصوصاً دو چیزوں کو وضاحت سے نمایاں کیا ہے۔ ایک یہ کہ سیکولر، روشن خیال اور ’اکھنڈ بھارت‘ کے طرف دار پرلے درجے کے موقع پرست ہیں، اور دوسرا یہ کہ اسلام،نسلی اور علاقائی تفریق سے بالاتر ہے۔ اسی لیے انھوں نے کہا کہ آپ پہلے مسلمان اور پھر پٹھان ہیں۔ یہی چیز دو قومی نظریے کی جان ہے۔

۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام میلاد النبیؐ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے، قائداعظم نے فرمایا:

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے،  یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی، حالانکہ آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے، جس طرح تیرہ سو برس پیش تر ہوتا تھا… اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھایا ہے۔ اسلام نے ہر شخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے… رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم راہبرتھے، آپؐ ایک عظیم قانون عطاکرنے والے تھے،آپؐ ایک عظیم مدبر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے، جنھوں نے حکمرانی بھی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اس بات کو نہیں سراہتے… اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ ہر مسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے، جو اس کی زندگی اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست اور اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ [ایضاً، ص ۴۰۲-۴۰۳]

اس خطاب میں قائداعظم نے برملا اعلان کیا ہے کہ جو لوگ، اسلامی نظریۂ حیات کے حوالے سے پاکستانی مسلمانوں کی یکسوئی کو ابہام و انتشار کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہ شر انگیز عناصر ہیں۔ وہ تیرہ صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح اسلام کے قانون شریعت کو قابل عمل قرار دیتے ہوئے اس پر زور دے رہے ہیں___فروری۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیو نشری پیغام میں قائداعظمؒ نے فرمایا:

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا، جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان اصولوں کا عملی زندگی پر اطلاق ویسے ہی ہو سکتا ہے، جیسے کہ ۱۳ سو برس قبل ہو سکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں، اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ [ایضاً، ص۴۲۱-۴۲۲]

امریکی عوام کے نام اس نشریے میں وہ صاف لفظوں میں بتاتے ہیں کہ ۱۳سو برس قبل جس طرح اسلام کے اصولوں کا اطلاق ہوا تھا، ویسا ہی آج بھی ہو سکتا ہے، اور ریاستِ پاکستان کے دستور میں انھی اصولوں کو پیش نظر رکھا جائے گا___یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انھوں نے کہا:

مغربی اقدار، نظریے اور طریقے___ ایک خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا، اور دنیا کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا، جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کر سکیں گے، اور بنی نوع انسان تک امن کا پیغام پہنچا سکیں گے۔[ایضاً،ص۵۰۱]

اس بیان میں انھوں نے مستحکم لہجے میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مغربی دانش ہمارے مسائل کا حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے اسلامی نظریے کی بنیاد پر ہمیں اپنا معاشی نظام بھی پیش کرنا ہوگا۔

آخر میں یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ ۱۱؍اگست کی تقریرمیں قائداعظم غیر مسلموں کے شہری حقوق کی بات کررہے تھے، نہ کہ تحریک پاکستان کے بنیادی استدلال اور موقف کی نفی کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان کے سیکولر دانش وروں اور بھارت کے مصنفین نے قائداعظم کے تمام خطبات کو نظر انداز کرکے فقط اس ایک تقریر کو بنیاد بناکر اس سے بالکل ہی دوسرامفہوم اخذ کرلیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان ’روشن خیال‘ دانش وروں کو دیانت کا دامن تھامنا اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ دینا چاہیے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں ہمیں ایک نظریاتی چیلنج درپیش تھا، آج پھر اس مسئلے کو زیادہ شدت کے ساتھ ابہام کا شکار کیا جا رہا ہے۔ کل اس کے علم بردار، خود پاکستان میں چند سیکولر اور اباحیت پسند لوگ تھے، اور آج بھارت سے لے کر امریکا تک اس منفی پروپیگنڈے کے     پشتی بان حضرات کی ایک فوج ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے نشانِ منزل پر نظریں جما کر اس منزل کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔

کہا جاتا ہے کہ اس نظریاتی بحث میں پڑنے سے بھلا کون سا مسئلہ حل ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرلابی نے اسی دینی اور نظریاتی رشتے کو کمزور بنانے کے لیے وہ سارا جال بُنا جس کے نتیجے میں، پاکستان کی نظریاتی اساس سے ہاتھ دھونا کوئی بڑا خسارہ نہیں سمجھا جارہا۔ حالانکہ سیانا دشمن اسی جڑ پر تیشہ چلا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پاکستان کے دینی اور آئینی رشتے کو نشانہ بناکر توڑ پھوڑ نہیں دیا جائے گا اس وقت تک، اس مملکت ِ خدادا د کی تخریب ممکن نہیں ہوگی۔ اندریں حالات تمام اہلِ وطن کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی اس پہچان اور رشتے کو سمجھیں، اس کی حفاظت کریں اور اس کی بنیادوں پر اپنے سماجی، تہذیبی، معاشی اور سیاسی مستقبل کی تعمیر کریں۔

یاد رہے کہ آج پاکستان جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا واحد حل دو قومی نظریے کی بازیافت اور اسلامی نظریۂ حیات کے لیے مکمل یکسوئی میں پوشیدہ ہے۔ امریکا کی یلغار ،داخلی انتشار، بلوچستان کا قضیہ، مہنگائی کا عفریت اور سیاسی، معاشی اور اخلاقی بحران، ان سب کا علاج اسی سے ممکن ہے۔ نیت ٹھیک نہ ہو تو اسے محض ایک نظری بات کہہ کر ٹالا جاسکتا ہے لیکن اگر نیت درست ہو تو اسلام کی یہ رہنمائی اور بانیانِ پاکستان علامہ اقبال و قائداعظم کی یہ پکار اُلجھی راہوں کو صراط مستقیم بنا دے گی۔