جولائی۲۰۰۶

فہرست مضامین

بچوں کی تربیت‘ بنیادی امور

بدرالاسلام | جولائی۲۰۰۶ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ وہ تربیت ہے جو انھیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تربیت کا اہم ترین پہلو بچوں (اولاد) کے ساتھ والدین‘ بالخصوص ماں کے طرزِعمل سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں چند اصولی نکات درج ذیل ہیں:

  • بنیادی دینی تعلیم: ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے۔ قرآن کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال اور حرام کے احکامات سے واقفیت فراہم کی جائے۔ سات سال کی عمر سے نماز کا‘ اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے۔ بچوں کو بالکل ابتدا سے اللہ سے تقویٰ اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لیے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا‘ اور ان میں یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے۔
  • اخلاقی تربیت: بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے‘ کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انھیں سچائی‘ امانت داری‘ بہادری‘ احسان‘ بزرگوں کی عزت‘ پڑوسیوں سے بہتر سلوک‘ دوستوں کے حقوق کی پاس داری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے۔ پھر انھیں بُرے اخلاق مثلاً جھوٹ‘ چوری‘ گالی گلوچ اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے اور عیش کوشی و آرام پسندی سے دُور رکھا جائے۔
  • جسمانی تربیت: والدین کی طرف سے بچوں کی جسمانی نشوونما‘ غذا اور آرام کا خیال رکھا جائے اور انھیں ورزش کا عادی بنایا جائے۔ جسمانی بیماریوں اور جائز ضروریات کو پورا کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے۔

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لیے پرہیز کرنا لازم ہے:

  • تحقیر آمیز سلوک: بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجاے صبرواستقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔ بچوں کی اہانت یا تحقیر کرنے سے گریز کیا جائے۔
  • سزا میں بے اعتدالی: بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا دونوں باتیں غلط ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتائو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے۔ ان دونوں رویوں میں اعتدال لازم ہے۔
  • بے جا لاڈ پیار: بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا‘ غیرضروری لاڈ پیار انھیں ضدی اور خودسر بناتا ہے۔ اس میں اعتدال ضروری ہے۔
  • بچوں کو ایک دوسرے پر ترجیح دینا: ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیراسلامی رویہ ہے‘ جس سے بچے بہت سے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوکر انتہاپسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے مریضانہ رویے سے اجتناب لازم ہے۔

ان اصولی نکات کے علاوہ چند عملی اقدامات جن پر والدین آسانی سے عمل کرسکتے ہیں:

۱- اپنے خاندان میں‘ بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے‘ تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نامناسب اور غیرمعقول طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات‘ دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔

۲- بچوں کوسخت کوشی اور محنت کا عادی بنانے کے لیے انھیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُرمشقت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔

۳- اوّل تو جیب خرچ دینے سے بچا جائے اور بچوں کی ایسی ضروریات کو خود پورا کیا جائے‘ اور اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر اسے ڈسپلن کا پابندبنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے‘ تاکہ ان میں بچپن سے ہی کفایت شعاری‘ بچت اور غیرضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے   اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے۔ مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا‘ ان کے  مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں‘ اس طرح ان میں غیرمطلوب مقابلہ آرائی کو روکاجاسکتا ہے۔

۴- ابتدا ہی سے بچوں سے خودانحصاری (self reliance)یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے یعنی جوتے صاف کرنے‘ کمرے کو ترتیب دینے کی عادت ڈالی جائے۔

۵- والدین کا یہ بھی فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔

۶- بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور  نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتاہے۔ اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی لازمی ذمہ داری ہے۔

۷- بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی برائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے۔ مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کریں گے۔

۸- اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تادیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل‘ انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔

۹- ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے متوازن رویہ اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو خود اپنے آپ کونظم کا پابند بنانا ہوگا‘ تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور‘ اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلہ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے‘ جہاں سب آتے جاتے ہوں تاکہ لغو اور غیراخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔

۱۰- ٹی وی اور کمپیوٹر کتابوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ اچھی کتب اور رسالے‘ بچوں کی شخصیت سازی میںغیرمعمولی کردار ادا کرتے ہیں‘ اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انھیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کے لیے ذاتی لائبریری بنائیں‘ ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کر کے کتابیں خریدیں۔

۱۱- بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے‘ تاکہ ملک و ملّت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں بہت حساس ہے‘ مگر اپنے فرائض کی ادایگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے‘ اس رویے کو تعلیمی عمل کے دوران ہی تبدیل کرنا ہوگا۔

۱۲- بچوں میں عوامی املاک کی حفاظت کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ ملک میں پارک‘ عوامی ٹرانسپورٹ‘ راستوں اور سرکاری عمارتوں وغیرہ کا حال سب کے سامنے ہے۔ ہرکوئی اس کے نقصان پر تلا ہوا ہے۔ (پارک میں کھیلنے کا سامان چند دنوں میں ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے‘ بسوں کی سیٹیں پھاڑ دی جاتی ہیں اور اسٹریٹ لائٹس بچوں کی نشانہ بازی کی مشق کا ہدف قرار پاتی ہیں)۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ معاشرے میں قومی جایداد کا تصور بیدار نہیں ہے۔ اسلام ان املاک کے بارے میں امانت دار ہونے اور اللہ کے سامنے جواب دہی کا تصور دے کر اس کی حفاظت کراتا ہے۔

۱۳- بچوں میں سماجی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا احساس پیدا کرنا چاہیے۔ اسکول کی فیس ہو‘ میونسپل ٹیکس ہو یا انکم ٹیکس‘ اس ضمن میں والدین اپنے عمل سے بچوں کے لیے نمونہ پیش کریں اور انھیں عوامی واجبات کو بروقت ادا کرنے کی تلقین کی جائے۔

۱۴- گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول‘ ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔

۱۵- قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے‘ بچے اپنے بڑوں کے اعمال سے غیرمحسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ماں باپ اوردیگر بڑوں کا طرزِعمل بچوں کی شخصیت کو بناتا ہے۔ والدین کو سچائی‘ امانت داری وغیرہ کے حوالے سے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ اور بظاہر نقصان ہی ہوتا نظر آرہا ہو‘ اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔

۱۶- والدین عموماً اپنے بچوں سے اُونچی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ مگر جب وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو والدین مایوس ہوجاتے ہیں اور بچوں سے ناراض ہوکر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچے دونوں احساسِ کمتری اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ نامناسب رویہ ہے۔ بچوں کو ملنے والی کامیابی پر انھیں حوصلہ دینا اور مناسب انعام سے نوازنا چاہیے۔ بچوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت ان کی صلاحیت‘ دل چسپی اور کمزوریوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ والدین کو اپنی خواہشات بچوں پر تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۱۷- ناکامی کو کامیابی کا زینہ بنانے کی تربیت دینی چاہیے۔ زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی بحران سے مقابلہ درپیش رہتا ہے اس لیے نامطلوب حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے فرارکے بجاے ان سے نبردآزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے۔ عزم محکم‘ عمل پیہم اور سخت محنت کامیابی کی شرائط ہیں۔ مشکلات کی صورت میں حسب موقع بچوں سے مشاورت بھی ان کی تربیت اور ان میں خوداعتمادی پیدا کرنے میں معاون ہوتی ہے۔

۱۸- بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق‘ محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کاکردار نہایت اہم ہوتا ہے۔

۱۹- بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین تدریج سے کام لیں‘ ان کی اصلاح سے مایوس نہ ہوں۔

۲۰- بچوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے واقف کرانا اور اسوۂ رسولؐ کی پیروی کو جزوایمان بنانا‘ اسی طرح سلف صالحین کی زندگیاں مشعل راہ کے طور پر بچوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔

۲۱- گھر میں مطالعے کا وقت متعین کرکے‘ والدین اپنی نگرانی میں تعلیمی ادارے کا کام کرواتے ہوئے بچوں کی ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

۲۲- وقت کی تنظیم اور قدر والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت کا ضیاع ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اس قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔

۲۳- تعلیم و تربیت پر خرچ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ موجودہ دور کے نہایت مہنگے تعلیمی اخراجات کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ہرخاندان اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک مقررہ حصہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت پر خرچ کرے۔ اگر بچے چھوٹی جماعتوں میں ہوں تو اس بچی ہوئی رقم کو پس انداز کرکے آیندہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔