مارچ ۲۰۰۲

فہرست مضامین

تم ہی غالب رہو گے اگر تم

مصطفی مشہور | مارچ ۲۰۰۲ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

ترجمہ: محمد ظہیر الدین بھٹی

مسلمانوں پر جب بھی کوئی مصیبت پیش آتی ہے‘ وہ تنگی اور کرب محسوس کرتے ہیں‘ آزمایشوں اور حوادث کا شکار ہوتے ہیںتو بعض لوگ پریشان ہو کر مایوسی و ناامیدی کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ناامیدی اور بے قراری کا جواب‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں ہے: ’’اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا‘ میری اُمت کا قبضہ زمین کے ان تمام حصوں پر ہوگا جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے‘‘۔ (مسلم و احمد)

مصائب و آلام کے وقت اہل ایمان کا رویہ کیا ہونا چاہیے‘ اسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے: وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ لا قَالُوْا ھٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَمَا زَادَھُمْ اِلاَّ ٓاِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا o (الاحزاب ۳۳:۲۲) ’’اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ) جب انھوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا توپکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کااللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے وعدہ کیا تھا‘ اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچی تھی‘‘۔ اس  واقعے نے ان کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا‘‘۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا:  اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا ق وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۷۳) ’’جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں‘ اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔

آج مسلمان ہر طرف سے طوفانوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ مغرب نے مسلمانوں کے خلاف اپنی سازش اور حقیقی چہرے کو بے نقاب اور اپنی عداوت و فریب کاری کو نمایاںکر دیا ہے‘ مگر اس سب کے باوجود عظیم دین اسلام‘ اپنے آپ کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے گا۔ وہ ہر زمانے اور ہر نسل کے لیے ہدایت و رحمت‘ عدل و انصاف اور عفو و درگزر جیسی اپنی لازوال اقدار پیش کرتا رہے گا۔ وہ پوری دنیا کے لیے اپنے عظیم تمدن اور اپنی بے مثال تہذیب کی روشنی پھیلاتا رہے گا۔ جب بھی راستہ بے نور ہوگا‘ تاریکیاں بڑھیں گی اور کچھ لوگ یہ سمجھ کر کہ سائنسی و مادی ترقی نے انھیں اتنا طاقت ور بنا دیا ہے کہ وہ نورخدا کو اپنی پھونکوں سے بجھا سکتے ہیں‘ اپنی بڑائی کے نعرے بلند کرنے لگیں گے تو آفتاب اسلام کی درخشندہ کرنیں‘ انھیں یہ باور کرنے پر مجبور کر دیں گی کہ وہ تو ناکام و نامراد ہیں‘ خائب و خاسر ہیں۔ انھی تاریکیوں کے باطن‘ انھی اندھیروں کے اندر اور انھی حوادث و واقعات کے بیچ سے اسلام اپنی اصلیت ‘ گہرائی‘ گیرائی اور جوہر کے ساتھ یک دم اُبھرے گا۔ حق تعالیٰ اپنے اس دائمی پیغام کے نور کو ظاہر کریں گے تاکہ بشریت ہدایت پائے اور انسانیت جادۂ حق و صواب پر گامزن ہو۔ اسلام لوگوں کو تاریکیوںسے نکال کر روشنی میں پہنچا دے گا‘  لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ  لا(تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے۔ التوبہ ۹:۳۳)‘ اور تمھاری طرف یہ کتاب بھیجی جو مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُھَیْمِنًا عَلَیْہِ (الکتاب میں سے جو کچھ اس کے آگے موجود ہے اس کی تصدیق کرنے والی اور اس کی محافظ و نگہبان ہے ۔المائدہ ۵:۴۸)۔

اخوان المسلمون کی دعوت کے عمدہ طریقوں اور پسندیدہ عادات میں سے جس کے اب وہ عادی بن چکے ہیں اور نرمی و سختی‘ تنگی و خوش حالی کے ہر قسم کے حالات میں اسے ملحوظ رکھتے ہیں--- یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ رہتے ہیں‘ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں‘ اسی سے لو لگاتے ہیں‘ اسی کی چوکھٹ پر حاضری دیتے ہیں اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور وہی دُعا کرتے ہیں جو اُس نے اپنے رسول کریمؐ اور ہر مومن کو صبح و شام کرنے کی تلقین کی ہے:  قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اِنَّک عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ o (آل عمران۳:۲۶) ’’کہو! خدایا‘ ملک کے مالک ‘تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ جسے چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے۔ بے شک تو ہرچیز پر قادر ہے‘‘--- یہ دعا الوہیت واحدہ کی حقیقت کا اقرارہے۔ اس جہان کے نظم واحد کا اعتراف ہے۔ یہ دعا حیات بشری کی اصلیت کو نمایاںکرتی ہے۔ ایک پناہ اور مضبوط سہارا ہے۔ اس میں مالک الملک خداے بزرگ و برتر کی طرف رجوع ہے۔ عزت بخشنے والے‘ ذلت دینے والے‘ زندگی اور موت کے مالک‘ عطا کرنے اور محروم کر دینے والے‘ کائنات اور بندوں کے امور و معاملات کی تدبیر کرنے والے‘ عدل و خیر اور فضل و رحمت عطا فرمانے والے کے حضور‘ اپنے دل و دماغ کو جھکا دینے کا عمل ہے۔

حق و باطل کے تصادم میں شیطان کے پجاری‘ اغراض کے بندے اور مادہ پرستی میں اندھے قہروعدوان‘ ظلم و تعذیب‘ قتل و تخریب اور تباہی و بربادی کے ذریعے‘ آزادیوں کو کچل دینا چاہتے ہیں۔ وہ توپ و تفنگ کی زبان میں مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ پورے کرئہ ارض پر‘ اُمت اسلامیہ کے سوا‘ کوئی اور ایسی قوم نہیں پائی جاتی جس کے خلاف اتنا کچھ مکر و فریب‘ کینہ و بغض اور حیلہ و سازش سے کیا جاتا ہو۔ پوری دُنیا کے لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر متفق اور ان کی تباہی و بربادی پر متحد ہیں۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ مسلمان متشدد ہیں‘ بنیادپرست ہیں‘ انتہا پسند ہیں اور دہشت گرد ہیں۔  وَاللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ o (التوبہ ۹:۱۰۷) ’’مگر اللہ گواہ ہے کہ وہ قطعی جھوٹے ہیں‘‘۔

آج مغرب اس بات کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنے استعماری منصوبوں کو پوری دُنیا پر مسلط کر دے‘ خاص طور پر دنیاے عرب اور عالم اسلام پر۔ وہ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ وہ ان کا گھیرائو کر کے‘ انھیں بالکل نیست و نابود کرنے کا مصمم منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ وہ یہ سب کچھ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کے نام سے کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ وہ اپنے اس ناپاک منصوبے کو خوش نما اصطلاحات میں پیش کرتا ہے تاکہ ہماری قوم کے نادانوں میں سے اکثر کو دھوکا دے اور انھیں اپنا ہم نوا بنا سکے۔ چنانچہ مغرب جس کی قیادت امریکہ کر رہا ہے عالمیت‘بھائی چارہ‘ انسانیت اور ’’دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں عالمی تعاون‘‘ جیسی تراکیب استعمال کرتا ہے۔

سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن اپنی ایک کتاب میں دینی لہر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’البتہ تیسری لہر ایک خوف ناک اور خطرناک امکان ہے۔ یہ ہیں بنیاد پرست لوگ جو ماضی سے مربوط رہتے ہیں مگر وہ ماضی میں رہتے نہیں بلکہ ان کی نگاہیں مستقبل پر لگی رہتی ہیں۔ یہ قدامت پرست نہیں بلکہ انقلابی ہیں۔ یہ دین و مملکت دونوں لحاظ سے اسلام چاہتے ہیں۔ یہ اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ ازسرنو اسلامی تہذیب پھیلانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد نکسن نے نیٹو کو اس لہر کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی ہے۔

اسلام سے فکری طور پر خوف زدہ یہ لوگ‘ عالم اسلام کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں تاکہ اس کے جغرافیائی محل وقوع‘ اس کے اقتصادی خزانوں اور معدنی خزینوں پر قبضہ کر سکیں۔

بلاشبہہ پوری دنیا حق کے خلاف ہے‘ اُمت اسلامیہ کے خلاف ہے مگر اللہ ہر بڑے سے بڑا ہے۔ وہ قہار و جبار ہے۔ حق و باطل کی آویزش بہت پرانی ہے۔ اللہ کے مقدس رسولوں نے حق کی سربلندی کی طویل تاریخ رقم کی ہے۔ انسانیت جب بھی اللہ کے سیدھے راستے سے بھٹکنے لگی‘ سچے دین سے منحرف ہونے لگی تو اللہ کے رسولوں نے‘ اسے شیطان کے چنگل سے نکال کر تباہی و بربادی کے جہنم میں گرنے سے بچا لیا۔ حق و باطل کے اس ٹکرائو میں انبیا و رسل نے پرچم حق کو سربلند رکھا۔ نوح و ہود‘ صالح و ابراہیم‘ لوط و شعیب‘ موسٰی و عیسٰی اور حضرت محمد صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین نے‘ تذکیر و انذارکا فریضہ پورا کیا اور یوں انسانیت کو بربادی سے بچا لیا۔ ہر مرحلے پر اہل ایمان نے نجات پائی اور باطل پرستوں کو شکست ہوئی۔ تمام رسولوں نے اپنی اپنی قوم کو ایک ہی چیز کی طرف بلایا: یٰقَوْمِ اعْبُدُواللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط (الاعراف ۷:۵۹) ’’اے برادرانِ قوم‘ اللہ کی بندگی کرو‘ اس کے سوا تمھارا کوئی خدا نہیں ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ پیغمبروں کو استکبار‘ دھمکیوں اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا ط (ابراھیم ۱۴:۱۳) ’’آخرکار منکرین نے اپنے رسولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا توتمھیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے‘‘۔

اسلام کو چھوڑ کر‘ اپنے سابقہ مذہب کو پھر اختیار کر لینا‘ اسلام کے مزاج کے بالکل خلاف اور ناپسندیدہ ہے۔ پیغمبر ہمیشہ اس سے سختی سے بیزاری ظاہر کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان کے لیے یہ مناسب بھی نہیں کہ وہ اپنے عقیدے کو چھوڑ دے۔ نجات پانے کے بعد وہ ہلاکت کی طرف کیسے جائے؟ فَاَوْحٰٓی اِلَیْھِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ o (ابراھیم ۱۴:۱۳) ’’تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ’’ہم ان ظالموں کو ہلاک کر دیں گے‘‘۔ قومِ عاد نے بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے ذلّت و رسوائی کے عذاب کا مزہ چکھا۔ قومِ ثمود کے بارے میں ارشاد ہوا: ’’رہے ثمود‘ تو ان کے سامنے ہم نے راہِ راست پیش کی‘مگر انھوں نے راستہ دیکھنے کے بجائے اندھا بنا رہنا ہی پسند کیا۔ آخر ان کے کرتوتوں کی بدولت ذلّت کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو ایمان لائے تھے اور گم راہی و بدعملی سے پرہیز کرتے تھے‘‘ (حم السجدہ ۴۱:۱۷)۔ دیکھیے سیدنا موسٰی ؑ و فرعون کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں مگر وہ تکبر و سرکشی کرتا رہا‘ پھر نتیجہ کیا ہوا؟ فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی o (النازعات ۷۹:۲۵) ’’آخرکار اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا‘‘۔

اسلام ہمیشہ سربلند رہے گا ‘ یہ سربلند رہنے کے لیے ہی دُنیا میں آیا ہے۔ اسلام کو اگر ختم ہونا تھا‘ تو اس دن ختم ہو جاتا‘ جب آنحضرتؐ نے اپنے رفیق کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے غارِثور میں پناہ لی تھی اور مشرکوں نے غار کا گھیرائو کر رکھا تھا۔ ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا: اگر کسی شخص نے اپنے پائوں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ اس خدشے کا جواب انھیں ان الفاظ میں ملا تھا: ما ظنک باثنین اللّٰہ ثالثھا؟ لاتخزن اِنَّ اللّٰہ مَعَنَا‘ تیرا اُن دو شخصوں کے بارے میں کیاخیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہو؟ غم نہ کر‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔

اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس دن ختم ہو جاتا جب عرب دین اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے۔ ارتداد کی تحریک نے زور پکڑ لیا تھا۔ مدعیانِ نبوت اور کذاب دندنا رہے تھے۔ مسلیمہ‘ اسود عنسی اور سجاح اپنے اپنے پیروکاروں کے ساتھ سرزمین عرب پر ہر طرف چھا چکے تھے۔ مسلمانوں کی اس حالت زار کو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے کیسی بلاغت کے ساتھ بیان کیا ہے: ’’مسلمان اس وقت بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ کی مانند تھے جو موسم سرما کی بارش والی رات میں کھلے آسمان تلے ہو۔ آنحضرتؐ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے تھے‘ مسلمانوں کی تعداد کم اور ان کے دشمنوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان حالات میں ایک نرم دل‘ خشیت الٰہی سے کثرت سے گریہ و بکا کرنے والا شخص اُٹھا اور ایک مضبوط چٹان کی مانند حق پر ڈٹ گیا۔ یہ شخص ابوبکر صدیقؓ تھا جس نے حضرت عمرؓ جیسے مرد جری سے بآوازِ بلند کہا تھا: ’’کیا جاہلیت میں زبردست آدمی‘ اسلام میں آکر اس قدر کمزور ہو گیا ہے۔ میں تو آپ سے مدد و نصرت کی اُمید کر رہا ہوں اور آپ مجھے رسوا کرنے کے لیے‘ میرے پاس آئے ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ لوگ اگر مجھ سے ایک رسّی بھی روکیں گے جو وہ رسولؐ اللہ کو دیا کرتے تھے‘ تو میں اس پر ان کے خلاف لڑائی کروں گا۔ جب تک میرا ہاتھ تلوار کے قبضہ پر ہے‘‘۔ حضرت ابوبکرؓ نے باطل کے خلاف جہاد کیا‘ اللہ کے لشکر نے سرکشوں کی مزاحمت کچل کے رکھ دی۔ مرتدوں نے شکست کھائی‘ منحرف و بے راہ لوگ ازسرنو‘ اسلام میں داخل ہو گئے۔

اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس دن ختم ہو جاتا جب تاتاریوں نے عالم اسلام کو اپنی وحشت و درندگی سے روند ڈالا تھا۔ انھوں نے شہروں اور آبادیوں کو تباہ کر دیا اور خون کی ندیاں بہا دیں۔ اسلام کا اعجاز سامنے آیا۔ کعبہ کو صنم خانوں سے پاسبان مل گئے۔ فاتح تاتاریوں کے دل اسلام کے لیے کھل گئے۔ فاتح نے مفتوح کے دین کو اپنا لیا۔ غالب نے مغلوب کے عقیدے میں پناہ لی۔ کیا یہ اللہ کی نشانیوںمیں سے ایک نشانی نہیں ہے؟

دین اسلام کو اگر ختم ہونا ہوتا تو اس روز ختم ہو جاتا جس دن صلیبیوں نے بیت المقدس کے تقدس و احترام کو گھوڑوں کے سموں تلے روند ڈالا تھا۔ ان کے گھوڑے مسلمانوں کے خون میں دوڑ رہے تھے۔ اسلام ختم نہ ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی ؒکی شکل میں‘ اپنی نصرت و مدد بھیجی۔ سلطان نے مسلمانوں کو متحد کیا۔ صلیبیوں کو عالم اسلام سے نکال باہر کیا اور بیت المقدس کو گناہوں اور جرائم پیشہ صلیبی فوج کے قبضے سے نکال کر پاک صاف کر دیا۔

ہم موجودہ عالمی حالات سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہم برملایہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ظلم اور ظالموں‘ تکبر اور متکبروں‘ باغیوں اور سرکشوں کا انجام ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارا یہ اٹل عقیدہ اور محکم ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیا‘ اور اپنی جماعت کی مدد پر قادر ہے۔ وہ اپنے فرماں بردار بندوں پر‘ اپنی کتاب کے داعیوں اور اپنے رسول کے حامیوں کی‘ جن وسائل و ذرائع سے چاہے نصرت و اعانت کر سکتا ہے‘ خواہ ہمیں ان ذرائع و وسائل کا علم ہو یا نہ ہو۔ ارشاد الٰہی ہے: اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَکَانُوْآ اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً ط وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْ ئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلاَ فِی الْاَرْضِ ط اِنَّہٗ کَانَ عَلِیْمًا قَدِیْرًا o (فاطر ۳۵:۴۴) ’’کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انھیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو اُن سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھے؟ اللہ کو کوئی چیز عاجز کرنے والی نہیں ہے‘ نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔ وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے‘‘۔

ہم یہودیوں سے کہتے ہیں:جرائم سے بھرپور اپنی تاریخ کا مطالعہ کرو‘ بغض و کینہ اور حسد و نفرت سے مملو اپنے ماضی پر نظر ڈالو‘ اور مسلمانوں کی خون ریزی سے باز آجائو۔ فطرت کا کوڑا‘ اب تمھارے خلاف حرکت میں آنے والا ہے۔ مسلمانوں کا خون بڑا قیمتی ہے۔ اپنے انجامِ بد پر غور کر لو‘ باطل کو تو مٹ کر ہی رہنا ہے۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ سرکش ہمیشہ طاقت ور نہیں رہا کرتے۔ دُنیا میں دائمی غلبہ کسی کے لیے نہیں۔ غلبہ و اقتدار بدلتا رہتا ہے۔ مگر یہودیو! اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ اچھا انجام متقیوں کا ہی ہوتا ہے۔ یہ اللہ کا نافذ کردہ فیصلہ ہے۔ اللہ نے مومنوں سے مدد کا جو وعدہ کررکھا ہے وہ کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اللہ اہل ایمان کا دفاع کرتا ہے۔ اللہ نے باعمل مجاہد مومنوں سے تمکن و غلبہ کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ارشاد حق ہے: ’’اللہ نے وعدہ فرمایاہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے‘ اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے‘ اور اُن کی (موجودہ) حالت ِ خوف کو امن سے بدل دے گا‘ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں۔ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دو اور رسولؐ کی اطاعت کرو‘ اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ جو لوگ کفر کر رہے ہیں ان کے متعلق اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ وہ زمین میں اللہ کو عاجز کر دیں گے ۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔ (النور۲۴:۵۵)

مسلمانوں کو ان حالات میں گھبرانا نہیں چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ وہ اللہ کی نصرت اور اس کے وعدے پر مکمل یقین رکھیں۔ اسلام سے اپنی نسبت پر فخر کریں۔ عوام کو ان کے حقوق دیں۔ انھیں اپنی رائے کے اظہار کے مواقع فراہم کریں۔

اُمت اسلامیہ کی حالت کسی سے مخفی نہیں۔ مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ ان کی وحدت ختم ہو چکی ہے۔ ان کے ملکوں اور زمینوں پر غیروں کی نظریں گڑی ہیں۔ یہودیوں اور صلیبیوں کی سازشیں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اخلاقی انحطاط اور بے راہ روی نے تمام حدیں توڑ دی ہیں۔ بے پردگی‘ عریانی اور فحاشی عام ہو چکی ہے۔ مرد و زن کا آزادانہ اختلاط ایک فیشن بن چکا ہے۔

اے اہل اسلام! یہ سب باتیں تم سے چھپی ہوئی نہیں لہٰذا اپنی اس ذمہ داری کا خیال کرو جو تمھارے پروردگار نے تم پر ڈالی ہے۔ مظلوم کی مدد کرو‘ ظالم کا ہاتھ پکڑو۔ اُمت کی پراگندگی کو اتحاد میں بدل ڈالو۔ اس کی صفوں کو متحد کرو۔ یہ نصرت‘ فتح‘ عزت اور غلبے کا راستہ ہے۔ جہاد کے لیے کمربستہ رہو۔ مجاہدین کا ساتھ دو‘ ان کی مدد کرو۔ مظلوموں‘ مقہوروں اور مغلوبوں کی مدد کے لیے ہر وقت آمادہ رہو۔ یہ ہے غلبہ و استحکام کا راستہ اور فلاح و کامیابی کا راستہ۔ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَہٗ بَعْدَ حِیْنٍ o (ص ۳۸:۸۸) ’’اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمھیں اس کا حال خود معلوم ہو جائے گا‘‘۔ فَسَتَذْکُرُوْنَ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ ط  وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللّٰہِ  ط اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ م بِالْعِبَادِ o (المومن ۴۰:۴۴) ’’آج جو کچھ میں کہہ رہا ہوں‘ عنقریب وہ وقت آئے گا جب تم اسے یاد کرو گے۔ اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے‘‘۔