مارچ ۲۰۰۲

فہرست مضامین

مسلمان اور معاشی عوامل (دوسری اور آخری قسط )

ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقی | مارچ ۲۰۰۲ | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلام اور کسب معاش

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دولت اور آمدنی کو اللہ کا فضل قرار دیا ہے:

فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ o (الجمعہ ۶۲: ۱۰)

پھر جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔

سورہ مزمل کی بیسویں آیت میں بھی یہی عبارت اِبْتَغَائَ فَضْلِ اللّٰہِ آئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

حلال کمائی کی کوشش فرض (نماز) کے بعد ایک فریضہ ہے۔ (مشکوٰۃ ‘ کتاب البیوع ‘ باب الکسب وطلب الحلال بحوالہ بیہقی فی شعب الایمان)

اور امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفردمیں یہ حدیث نقل کی ہے:

نیک آدمی کے لیے پاک مال کیا خوب چیز ہے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۴۵-۴۶ ‘ المطبعۃ التازیہ‘ مصر ۱۳۴۹ھ)

اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ادایہ دعا بھی روایت کی ہے:

اللھم انی اعوذبک من الفقر والقلۃ والذلۃ

الٰہی! میں تیری پناہ چاہتا ہوں غربت‘ تنگ دستی اور ذلت (و خواری) سے۔ (بخاری‘ الادب المفرد‘ ص ۹۹‘ المطبعۃ التازیہ‘ مص ۱۳۴۹ھ)

اس حدیث سے واضح ہے کہ غربت کی زندگی‘ احتیاج کی زندگی‘ وقار کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ ذلت کی طرف لے جاتی ہے‘ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’کبھی غربت کفر تک پہنچا دیتی ہے‘‘۔

ابن ماجہ نے تجارت کے بارے میں یہ حدیث روایت کی ہے:

سچا‘ امانت دار مسلمان تاجر قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ (بیہقی‘ شعب الایمان)

مزید روایات نقل کیے بغیر‘ عام طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حسن نیت کے ساتھ اسلامی آداب و اخلاق کی پابندی کرتے ہوئے ہر طرح کی معاشی تگ و دو کی قدر کی گئی ہے اور اس کی ہمت افزائی فرمائی گئی ہے۔

جہاں تک فقہ اسلامی کا تعلق ہے‘ اس سے تفصیلی استشہاد کے لیے تو یہ مقالہ کافی نہیں ہوگا‘ صرف اس اصول کا ذکر کافی ہوگا کہ

جس کے بغیر کوئی فریضہ مکمل نہ ہو تو وہ چیز بھی واجب ہے۔(ابن ماجہ‘ ابواب التجارات‘ باب الحث علی المکاسب)

اس اصول کی روشنی میں اس آیت کریمہ کے تقاضے پر بھی غور کرنا چاہیے جس میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ دشمنان اسلام کے مقابلے کی ہر طرح سے تیاری کریں۔ ظاہر ہے کہ دور جدید میں دفاعی اور جنگی تیاری ایک مضبوط معاشی بنیاد چاہتی ہے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّا اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ ج لاَ تَعْلَمُوْنَھُمْ ج اللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ o (الانفال ۸:۶۰)

اور تم لوگ‘ جہاں تک تمھارا بس چلے‘ زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوف زدہ کر دو جنھیں تم نہیںجانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے‘ اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا۔

آیات ‘احادیث اور فقہ کی مذکورہ بالا دلیلوں کے پہلو بہ پہلو ہمارے پاس سنت نبویؐ اور عہد خلافت راشدہ کے قولی نظائر موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ معاشی تدابیر کی طرف پوری توجہ دی گئی اور معاشی وسائل فراہم کرنے میں کسی طرح کی جھجک کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔

نبی کریمؐ جب نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو بڑی تعداد میں آپؐ کے دوسرے ساتھی بھی مدینہ آگئے۔ رہنے کے لیے گھر تو ان میں سے کسی کے پاس نہ تھا‘ اکثر کے پاس ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی انتظام نہ تھاکیونکہ وہ اپنے مال و اسباب ساتھ نہ لا سکے تھے۔ اس ہنگامی صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے نبی اکرمؐ نے ہر مہاجر کو مدینہ میں رہنے والے کسی باشندے کا بھائی بنا کر اس کے ساتھ ٹھہرا دیا۔ اس طرح انصار اور مہاجرین کا بھائی چارہ‘ ’’مواخاۃ‘‘ وجود میں آیا۔ مگر مہاجرین نے اپنے انصاری بھائیوں پر بار بننا گوارا نہ کیا اور بعض حضرات نے تو ایک دن کی تاخیر کے بغیر بازار کا راستہ پوچھا اور اپنی روزی خود کمانے کے راستے تلاش کرلیے۔

نبی کریمؐ کی ہجرت سے پہلے آپؐ کے ایما پر بعض مسلمانوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ یہ لوگ جن کی تعداد بالآخر سو سے زیادہ ہو گئی تھی‘ نبی اکرمؐ کے مدینہ پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ حبشہ سے مدینہ آنے لگے مگر ایک معتدبہ تعداد اس کے بعد بھی کئی برس وہاں ٹھہری۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہاں وہ پناہ گزیں بن کر کسی کی امداد کے سہارے نہیں رہ رہے تھے بلکہ تجارت اور کسب معاش کے دوسرے طریقے اختیار کر کے اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے گئے۔

۶ہجری میں خیبر کی فتح اور اس کے بعد ہجرت کے آٹھویں سال مکہ کی فتح سے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر ہو گئی۔ پھر خلافت راشدہ کے ۳۰ برسوں میں تو مدینہ میں بسنے والے مسلمانوں کے ہاتھوں میں کافی دولت آئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انھوں نے اس سے پورا فائدہ اٹھایا‘ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اجتماعی زندگی میں بھی۔ اجتماعی زندگی میں دولت کے استعمال کی نمایاں شکلوں میں کنویں یا زرعی زمین کو وقف علی اللہ کے طور پر سماج کے حوالے کر دینا‘ جہاد کی ضروریات کے لیے اسلحے‘ سواریاں اور نقد مال پیش کرنا اور آگے چل کر مسجدیں اور راستے میں قیام گاہیں وغیرہ پبلک عمارتوں کا تعمیر کرانا شامل ہے۔

اسلام کی ابتدائی تاریخ سے مزید استشہاد کی بجائے اب ہم اپنے اصل سوال کی طرف لوٹتے ہیں: جب قرآن و سنت میں اصولاً‘ اور عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ کے زمانے میں عملاً معاشی عوامل کی اہمیت کماحقہ تسلیم کی جاتی تھی تو پھر بعد کے ادوار میں وہ صورت حال کیسے پیدا ہوئی جس کا اوپر ذکر آیاہے۔ کیا بات ہے کہ گذشتہ دو صدیوں میں بالعموم اور بیسویں صدی میں خاص طور پر جب مسلمان علما اور دانش وروں کو اُمت کی کمزور حالت‘ مسلمان ممالک کی خستہ حالی اور بحیثیت مجموعی اسلامی تہذیب اور مسلمانوں پر زوال کے آثار چھائے ہوئے نظر آئے اور انھوں نے اس زوال کو دوبارہ عروج سے بدلنے کے لیے تحریر‘ تقریر اور عملی جدوجہد کے ذریعے کوششیں شروع کیں تو ان تحریروں‘ تقریروں اور کوششوں میں معاشی عوامل کی کماحقہ اہمیت کا احساس نہیں ملتا۔

گذشتہ ۵۰ برسوں کی تاریخ میں ایک ایسا نمونہ سامنے آیا جس کو دیکھ کر ہر اس فرد‘ جماعت اور قوم کو سبق سیکھنا چاہیے تھا جس کو اپنے ضعف کو قوت سے‘ ذلت کو عزت سے‘ اور زوال کو عروج سے بدلنے کی فکر دامن گیر ہو۔ یہ نمونہ جاپان نے پیش کیا ہے۔ ۱۹۴۵ء میں ایٹم بم گرائے جانے کے بعد لڑائی میں ہار ماننے کے نتیجے میں اس ملک کو بڑی ذلت و خواری کے دَور سے گزرنا پڑا۔ سارے ملک کی معیشت جنگ کے بار سے تباہ تھی امریکی تسلط نے جلد پنپنے کے راستے بھی بند کرنا چاہے‘ مگر ۳۰‘ ۳۵ سال کی مختصر مدت میں جاپانی قوم نے دن رات کی محنت سے جاپان کو دُنیا میں امریکہ کے بعد دوسری زرعی معیشت کے درجے تک پہنچا دیا جس کی مسابقت سے امریکی معیشت کوپسینہ چھوٹنے لگا۔

سب جانتے ہیں کہ اس کا راز معاشی ترقی کے لیے وہ بے مثال جدوجہد ہے جس نے تعلیم گاہوں‘ کارخانوں اور ایوان ہاے تجارت میں عمل پیہم کی روح پھونک دی تھی۔ اگر ہم نے نہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھا‘ نہ دوسروں کے تجربے سے سبق حاصل کیا تو کوئی وجہ ضرور تھی۔ اس وجہ یا ان وجوہ کی تحقیق‘ بحث طلب ہے۔ علما اور دانش وروں کو اس کے لیے وقت نکالنا چاہیے۔ یہاں مقالہ نگار اس سلسلے میں اپنی یہ رائے پیش کرنا چاہتا ہے کہ بعض تاریخی عوامل کے سبب دوسری صدی ہجری میں بعض دین داروں نے دولت کمانے‘ بچانے اور بچت کے نفع آور استعمال کو دینی سند سے محروم کر کے عامۃ المسلمین کے دلوں میں اس کی طرف سے شک پیدا کر دیا‘ چنانچہ دین داروں میں کسب مال اور تکوین ثروت اور اس کے ذریعے معاشی قوت کے حصول کا رجحان کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ یہی صورت حال اب بھی قائم ہے۔

معاشی سرگرمی کی اہمیت گھٹنے کا سبب

مذکورہ بالا رائے کی تائید‘ طویل تاریخی استدلال کی محتاج ہے جس کا نہ تو یہ مقالہ نگار اپنے کو اہل پاتا ہے‘ نہ ایک مقالہ اس کا متحمل ہی ہو سکتا ہے۔ البتہ سوچنے کی بنیاد کے طور پر یہ ایک قابل توجہ بیان ضرور ہے۔ ذیل میں ہم اس بیان کی مزید تشریح کریں گے۔

ہم جانتے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب‘ بالخصوص اسلام نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اصل زندگی‘ موت کے بعد کی دائمی زندگی ہے‘ رہی دُنیا کی زندگی‘ تو وہ ناپایدار ہے‘ جانے کب کس کی موت آجائے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ جب فرد انسانی کو عقیدئہ حیات بعد الممات پر مکمل یقین ہو جاتا ہے تو دُنیا اور اس کی زندگی کا اس کی نظر سے گر جانا کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے۔

چنانچہ اکثر مذاہب میں جلد یا بدیر ترک دُنیا کا رجحان قوت پکڑ گیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال عیسائیت کی تاریخ پیش کرتی ہے۔ مگر اسلام نے یہ جتلا کر انسان کو اس فکری غلطی سے بچایا کہ آخرت کی فلاح کا انحصار اسی دُنیا کی زندگی میں انسان کے عمل و کردار پر ہے۔

اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمًلاً ط (الملک ۶۷: ۲)

جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تم کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔

دُنیا کو امتحان گاہ قرار دیتے ہی اس کی اہمیت آسمان پر پہنچ گئی۔ یہ درست ہے کہ حیات بعد الموت ابدی ہے‘ اور حیات دُنیا عارضی مگر اسی عارضی زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق گزار کر آخرت کی فلاح حاصل کی جا سکتی ہے‘ اس مقصد تک پہنچنے کا کوئی دوسرا مختصر راستہ (shortcut)نہیں ہے جو دُنیا کی زندگی سے کترا کر گزر جاتا ہو۔ چونکہ عیسائی علما اور عبادت گزار اس غلط روش میں مبتلا ہو چکے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بات کو بالکل واضح کر دیا:

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰھِیْمَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِھِمَا النُّبُوَّۃَ …… وَکَثِیْرٌ مِّنْھُمْ فٰسِقُوْنَ o (الحدید ۵۷: ۲۶-۲۷)

ہم نے نوح ؑاور ابراہیم ؑکو بھیجا اور ان دونوں کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی۔ پھر ان کی اولاد میں سے کسی نے ہدایت اختیار کی اور بہت سے فاسق ہو گئے۔ ان کے بعد ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے اور ان سب کے بعد عیسٰی ابن مریمؑ کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی‘ اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا‘ اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کرلی‘ ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا‘ (ہم نے تو ان پر) صرف اللہ کی مرضی چاہنا فرض کیا تھا۔ چنانچہ وہ رہبانیت کی پابندی کا حق نہیں ادا کرسکے۔ ان میں سے جو لوگ ایمان والے تھے ان کا اجر ہم نے انھیں ادا کر دیا مگر ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔(۱)

کتنی واضح بات ہے! امتحان اس میں ہے کہ تمام کارہاے دُنیا خدا کی مرضی کے مطابق خدا کی مرضی کی طلب گاری میں انجام دیے جائیں۔ اللہ نے انسان پر یہی ذمہ داری ڈالی تھی لیکن بعض لوگوں نے اپنی دانست میں آگے بڑھ کر ترک دُنیا کا نسخہ اختیار کر لیا مگر یہ طریقہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ نہ تھا۔چنانچہ عام طور پر لوگ اسے برت نہ کر سکے بلکہ بھٹک کر فسق و فجور میں مبتلا ہو گئے۔ ترک دُنیا یا رہبانیت کواسلام نے ردّ کر دیا ہے‘ مسلمانوں کو اس سے دُور رہنا چاہیے اور عیسائیوں نے اس راہ پر چل کر جو پایا‘ جو کھویا‘ اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔

خلافت راشدہ کے بعدحکمرانوں کے طریقے بدل گئے‘ ان کا رہن سہن‘ ان کے ارد گرد پائے جانے والے لوگ‘ ان کے مقرر کردہ افسران … ان سب سے دین دار مسلمانوں میں عام طور پر‘ اور علما و مشائخ میں خاص طور پر یک گونہ بیزاری پیدا ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ روایت پختہ ہوتی گئی۔دین دار لوگ‘ علما اور بزرگان ملت نہ صرف دربار سے کنارہ کش رہے بلکہ جو لوگ کسی بھی درجے میں امور حکمرانی اور انتظام و انصرام مملکت سے وابستہ رہے‘ ان کو بھی ہدف تنقید بناتے رہے اور ان کی سرگرمیوں کو بھی۔ ظن غالب ہے کہ ابتدا میں ان کا منشا یہ رہا ہوگا کہ لوگ کاروبار دُنیا میں اسلامی حدود کے پابند رہیں اور بنوامیہ اور بنوعباس کے ان حکمرانوں کے طریقے پر نہ چلیں جنھوں نے شریعت کی بیشتر حدود پامال کر رکھی تھیں اور جن کی عملی زندگی ‘ اسلامی اخلاق و آداب سے بہت دُور تھی جس کے نتیجے میں ایک ایسی ذہنی فضا بننے لگی جس میں عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ امور دُنیا میں زیادہ انہماک اخلاص اور تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیاروں کے ساتھ ہم آہنگ نہیں۔

قیاس یہی ہے کہ ایسی فضا بننے میں عجمی تصوف کے اثرات کو بھی دخل رہا ہوگا جس کے علم بردار صرف عیسائی علما اور راہب نہیں تھے بلکہ جس کے بعض علم بردار ایران اور ہندستان سے بھی بغداد (دارالخلافہ خلافت عباسیہ ۱۳۴ھ-۶۵۸ھ/۷۵۱ء-۱۲۵۸ء) پہنچنے لگے تھے۔ چنانچہ اسلامی تصوف کی سب سے اونچی شخصیت‘ حضرت حسن بصری (م ۱۱۰ھ/۷۲۸ء) کے شاگردوں کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ عیسائیوں کے لٹریچر کا مطالعہ کرتے تھے۔ ان کے دینی مراکز پر جاتے تھے اور ان کے علما و اکابر سے ان کی بات چیت اور ملاقات رہتی تھی۔ ان بزرگوں میں مالک بن دینار (م ۱۳۱ھ/۷۴۷ء) کی شخصیت سب سے نمایاں تھی اور ان ہی کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ تجرد کی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے اور ان پر زہد و تقشف کا غلبہ تھا۔(۲)

معاشی سرگرمیوں کی اہمیت بحال کرنے کی کوشش

یہ باب بہت طویل ہو سکتا ہے‘ اسے آیندہ آنے والے محققین کے لیے چھوڑتے ہوئے ہم اب ایک دوسرا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم ذیل میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص‘ امام محمد بن الحسن شیبانی کی کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی تجزیہ کریں گے۔(۳) امام محمد کا انتقال (۱۸۹ھ/۸۰۵ء) میں ہوا ہے۔ گویا جب یہ کتاب لکھی گئی تو مالک بن دینار اور ان جیسے دوسرے بزرگ بھی اُسی شہر‘ بغداد میں موجود تھے‘ جیساکہ ذیل کے تعارف سے واضح ہوگا۔ اس کتاب کی تالیف کا مقصد ہی یہ تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اہل تصوف کے ذریعے جو غیر متوازن رویہ‘ معاشی امور کے بارے میں پھیل رہا تھا‘ اس کی روک تھام کی جائے۔

پہلے تو امام محمد نے آیات و احادیث کی روشنی میں یہ واضح کیا ہے کہ روزی کمانا ہر مسلمان پر فرض ہے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۲۱-۲۲)۔ پھر جب انھوں نے روزی کمانے کے طریقوں پر گفتگو شروع کی توضروری سمجھا کہ یہ بھی لکھیں: ’’روکھی سوکھی زندگی گزارنے والے(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص۷۱- ۸۰)۔ بعض جاہلوں اور اہل تصوف میں سے بعض احمقوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روزی کمانا حرام ہے‘ صرف ضرورت پڑنے پر ایسا کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی بقدر ضرورت جیسے کہ کوئی مردار کھائے۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ کسب سے اللہ پر توکل کی نفی ہوتی ہے یا اس میں کمی آجاتی ہے‘ جب کہ ہمیں توکل کا حکم دیا گیا ہے‘‘(عربی عبارت اھل التقشف (۳) عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۸۱)۔اِن سطروں کے بعد کتاب میں تین چار صفحات تک اہل تصوف کی اسی طرح کی دلیلیں نقل کر کے ۱۰ صفحات (۸۵-۹۵) ان کی دلیلوں کے ردّ میں لکھے ہیں اور ان صفحات کے آخر میں یہ ریمارک بھی پاس کیا ہے:

ان صوفیہ کی اس بات پر حیرت ہے کہ جب کوئی دوسرا اپنے ہاتھوں کی کمائی سے یا اپنی تجارت کے نفع میں سے ان کی دعوت کرتا ہے تو یہ اس کے کھانے سے انکار نہیں کرتے۔(عبدالفتاح ابوغدہ‘ ص ۹۵)

پھر فرماتے ہیں کہ ’’ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ان کی یہ باتیں نادانی اور کاہلی کا نتیجہ ہیں‘‘۔(ایضاً‘ ص ۹۵)

اس کے بعد امام محمد نے چھ صفحات ’’کرامیۃً‘‘ نامی فرقہ کے خیالات کے ردّ میں صرف کیے ہیں جن کے نزدیک روزی کمانے کی اجازت ہے مگر اسے فرض نہیں قرار دیا جا سکتا۔(ایضاً‘ ص ۹۶-۱۰۱)

اس مختصر مقالے میں ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ کتاب الکسب میں اس کے آگے کے مباحث کا تفصیلی تعارف کرائیں۔ ہم صرف دو تین مباحث کا ذکر کر کے اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آنا چاہیں گے۔ انھوں نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ سارا وقت عبادت میں صرف کرنا افضل ہے یا روزی کمانے میں وقت صرف کرنا(ایضاً‘ ص  ۱۰۱)۔ اگر دولت ملی ہو تو اس پر شکر کرنے میں زیادہ ثواب ملے گا یا غربت ہو تو اس پر صبر کرنے میں؟(ایضاً‘ ص ۱۱۶)۔پھر وہ اس موضوع پر مفصل گفتگو کرتے ہیں کہ مال جمع کرنے کے لیے بھی مال کمانا جائز ہے اور اس سلسلے میں بعض احادیث نقل کرتے ہیں جن سے آخر عمر کے لیے مال بچا کر رکھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے (ایضاً‘ ص ۱۳۱ ومابعد)۔ اس کے بعد اسراف و تبذیر کی ممانعت پر گفتگو کے بعد انھوں نے تجارت‘ زراعت اور حرفت وغیرہ مختلف ذرائع کسب پر مفصل گفتگو کی ہے۔ آخر میں امام محمد نے اپنی بات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

آدمی کو چاہیے کہ اچھی عادتوں میں سے بعض کو اختیار کرے‘ مثلا:  

  • کھلے اور چھپے اور ہر طرح کے فحش کام سے پرہیز کرے۔ 
  • فرائض کی ادایگی میں چوکس رہے اور انھیں ہمیشہ ان کے مقررہ اوقات میں ادا کرے۔ 
  • حرام کھانے اور ناجائز طریقوں سے مال کمانے سے بچا رہے۔ 
  • کسی مسلمان یا معاہد پر‘ کسی پر بھی ظلم نہ کرے (وہ غیر مسلم جو اسلامی حدود میں مقیم ہوں)۔ رہے اس کے علاوہ دوسرے امور‘ تو اللہ نے ان کے بارے میں کافی گنجایش رکھی ہے۔ ان کے بارے میں نہ ہمیں اپنے سلسلے میں تنگی برتنی چاہیے‘ نہ دوسرے مسلمانوں پر سختی کرنی چاہیے۔(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۲۴۸)

یہاں کتاب الکسب کا قدرے تفصیلی ذکر اس لیے نہیں کیا گیا ہے کہ ہمیں اس میں پیش کردہ مواد کی ضرورت ہے یا امام صاحب کی رایوں کا تجزیہ کرنا ہے۔ ہماری نظر اس اہم بات پر ہے کہ خلافت راشدہ ختم ہوئے صرف ۱۰۰ سال گزرے تھے کہ اُمت کی رہنمائی کرنے والے علما کو ترک دُنیا‘ روزی کمانے سے گریز‘ تقشف اور تنگی کی زندگی گزارنے… وغیرہ منفی(۴) رجحانات کے قلع قمع کرنے کے لیے کتابیں لکھنی پڑیں۔ ہم آپ کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ اگر عجمی تصوف کے غلط اثرات اور عیسائی رہبانیت کی بے اعتدالی کی مقبولیت مسلم معاشرے میں خطرہ بن کر سامنے نہ آچکی ہوتی تو امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد خاص اس موضوع پر قلم نہ اٹھاتے۔

یہاں ہم یہ واضح کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ خود اکابر فقہا ان منفی رجحانات سے بالکل پاک تھے۔ اس کے ثبوت میں خود امام ابوحنیفہؒ کا کردار سامنے لانا کافی ہے۔ وہ عالم جس کے شاگردوں میں ہارون الرشید کے چیف جسٹس قاضی ابویوسف کا نام بھی شامل ہے مگر جس نے خود عباسی خلیفہ منصور کے اصرار کے باوجود قاضی کا عہدہ نہیں قبول کیا‘ جس کی سزا میںان کو قیدوبند کی مصیبت سہنی پڑی… وہی عالم جلیل نفیس کپڑوں کی تجارت کرتا تھا اور کوفہ کے مضافات میں اس کا کارخانہ چلتا تھا۔ (عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۵-۱۷)

مگر مسلمان اُمت کی فکری اور عملی اُٹھان صرف فقہا کے ہاتھوں نہیں انجام پائی ہے‘ اس میں صوفیا اور مشائخ کو بھی بڑا دخل رہا ہے۔ صوفیا اور مشائخ کی مثبت خدمات کے تذکروں سے کتب خانے بھرے پڑے ہیں۔ ان سے کسی کو انکار نہیں‘ مگر یہاں صرف ایک خاص رجحان کا ذکر ہے جو ان میں سے بعض نے پیدا کیا اور اُمت کے مزاج پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑا کہ وہ بحیثیت مجموعی اس مزاج سے مختلف ہو گیا جو ہمیں شروع کے دور میں ملتا ہے۔

اپنے اس خیال کی تائید میں ہم اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے کہ امام محمد کے بعد بھی ان کی کتاب الکسب کی طرح کی کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ غالباً فضا ایسی تھی کہ فقہا کو اپنی بات بار بار کہنی پڑی۔

استاذ عبدالفتاح ابوغدہ نے اس موضوع پر جن کتابوں کا ذکر کیا ہے‘وہ ہیں:(عبدالفتاح ابوغدہ‘ کتاب الکسب‘ ص ۱۷)

  •  امام ابوعبداللہ احمد بن حرب‘ نیساپوری‘ متوفی ۲۳۴ھ/۸۴۹ء جنھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’التکسب‘‘ رکھا۔
  • ابومحمد عبدالعزیز بن احمد بن نصر الحلوانی حنفی‘ متوفی ۴۴۹ھ/۱۰۵۷ء کی کتاب الکسب۔
  • عبداللہ بن محمود بن مودود موصلی‘ حنفی‘ متوفی ۶۸۳ھ/۱۲۸۸ء نے اپنی کتاب المختار میںاس موضوع پر گفتگو کی ہے جس میں امام محمد کی کتاب الکسب ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

آخر میں استاذ ابوغدہ نے امام غزالی (م ۵۰۵ھ/۱۱۱۱ء) کی احیا علوم الدین کا ذکر کیا ہے جس میں کتاب آداب الکسب والمعاش کا عنوان علیحدہ سے باندھا گیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس سوال کا جواب چاہتے ہیں کہ دوسری صدی میں جس بحث کا آغاز ہوا اس میں ہمارے دانش ور پانچویں صدی ہجری کے آخر تک کہاں پہنچے تھے۔ تو امام غزالی کی اس عبارت پر غور کیجیے جو مذکورہ بالا عنوان ہی کے تحت لکھی گئی ہے:

لوگ تین قسم کے ہیں: وہ جن کی معاشی تگ و دو نے ان کو اپنی آخرت سے غافل کر دیا‘ تو یہ تو ہلاک (و ناکام) ہوں گے۔ دوسرے وہ جو اپنی آخرت بنانے میں اتنے مشغول ہوئے کہ معاشی تگ ودو سے غافل رہے‘ تو یہ کامیاب ہو کر رہیں گے۔ البتہ اعتدال کا راستہ تیسری قسم کے لوگوں کا طریقہ ہے جس نے معاشی تگ و دو اپنی آخرت بنانے کے لیے انجام دی‘ یہ درمیانہ رو لوگ ہیں۔(ابواسحاق شاطبی: الموافقات فی اصول الشریعۃ‘ ج۲ ‘ ص ۱۸۸۔ المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ‘ مصر۔ سنہ طباعت درج نہیں ہے)

امر واقعہ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں جو مثالی کردار بنتا ہے‘ وہ دوسرے قسم کے لوگوں کا نہیں جن کو امام غزالی ؒنے کامیاب قرار دے کر تیسری قسم کے لوگوں پر افضلیت دی ہے۔ امام غزالیؒ کی درجہ بندی میں اس عنصر کا اثر پوری طرح موجود ہے جس کی اصلاح کے لیے امام محمد نے کتاب الکسب لکھی تھی۔

یہ مقالہ نگار‘ تحقیق کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس مسئلے کو نظر میں رکھتے ہوئے آج تک کی تاریخ کھنگالیں۔ یہ دیکھیں کہ اس موضوع پر فقہا اور صوفیا کے کلام میں کیا فرق رہا  اور یہ بھی دیکھیں کہ عام تقریروں‘ جمعہ کے خطبوں‘ کہانیوں اور منظوم دینی ادب میں کس رجحان کا غلبہ رہا۔ مقالہ نگار کا خیال ہے کہ توازن بحال نہ ہو سکا اور معاشی قوت حاصل کرنے اور معاشی عوامل کی اہمیت پہنچانے کے معاملہ میں امت وہاں نہیں واپس جا سکی جہاں وہ عہدنبویؐ اور عہد راشدہ میں تھی اور یہی وجہ ہے کہ ہمیں آج بھی وہ سوال اٹھانے پڑ رہے ہیں جن سے اس مقالہ کا آغاز کیا گیا تھا۔

اس مرحلے پر کسی کو یہ خیال نہ آئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی معاملے میں ابتدائی ۱۰۰ سال ہی کے بعد راستہ بدل گیا ہو‘ کیونکہ ہمارے سامنے اسلام کے نظام حکمرانی کی واضح مثال موجود ہے جسے قرآن و سنت کے مطابق شورائی ہونا چاہیے‘ اور جو ابتدائی ۴۰ برسوں میں شورائی رہا مگر اس کے بعد بادشاہت کا جو دور آیا وہ بعض مختصر وقفوں کے بعد آج تک جاری ہے اور گذشتہ ۱۰۰ سال میں بھی اس کو اپنے اصل راستے پر لانے کی متعدد کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ لہٰذا اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ اُمت جس ڈگر پر ہزار سال سے چل رہی ہے وہ ڈگر ٹھیک ہی ہوگی۔ خوب ناخوب کا معیار قرآن و سنت ہے‘ نہ کہ یہ بات کہ ہمارے آبا و اجداد کس ڈگر پر چلتے رہے۔

معاشی عوامل کی اہمیت پر ازسرنو غور کی ضرورت

اب رہا یہ سوال کہ آج اس مسئلے کو اٹھانے کی کوئی خاص وجہ ہے؟ تو بات یہ ہے کہ توازن کی بحالی تو بہرحال ضروری تھی لیکن جو صورت حال آج کل ہے ‘ اور جس کی شدت میں آیندہ دہائیوں میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا ‘ اس میں اس اصلاح کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ دُنیا ایک ہو گئی ہے‘ ہر میدان میں مسابقت پہلے سے بہت زیادہ ہونے لگی ہے۔ فرد کو اپنی خدمات کے عوض معاوضہ حاصل کرنا ہو یا کسی ملک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنی ہوں‘ کسی ملّت کو اپنے کلچر کا فروغ مطلوب ہو یا کسی داعی گروہ کو اپنے افکار و خیالات کی ترویج مقصود ہو‘ ان سب کو اب عالمی سطح پر دوسرے افراد‘ ملکوں‘ ملتوں اور داعی گروہوں سے مسابقت کرنی ہے۔ بالآخر جس چیز کو قبول عام حاصل ہوگا‘ لوگ اسے اپنے لیے نفع بخش پائیں گے۔ اس کو پایداری نصیب ہوگی جو اپنی بہتری اور برتری کا سکہ نہ جما سکے گا وہ پیچھے رہ جائے گا اور بھلا دیا جائے گا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اس مسابقت میں‘ ہر سطح پر‘ معاشی وسائل اور معاشی قوت کو بڑا دخل ہے۔ فرد کو علم و ہنر سے سنوارنا ہو یا ملک کو صنعتی پیداوار کو بہتر اور بیشتر بنانا ہو‘ اخبار و جرائد ہوں‘ ادبی کتابیں ہوںیا ریڈیو کی نشریات‘ ٹی وی پر پیش کیے جانے والے مسلسل ڈرامے (serials)یا فلمیں … اشیاے خوردنی ہوں یا ملبوسات‘ اور دعوت پیش کرنے کے لیے لوگوں کی تیاری ہو یا انٹرنیٹ کا استعمال… ہر کام میں ہر قدم پر وسائل صرف کرنے اور اچھی تنظیم کی ضرورت پڑے گی۔ وہ افراد‘ گروہ اور ملتیں جو معاشی وسائل سے محروم ہوں اور کسی طرح گزربسر کر رہے ہوں‘ وہ بھلا اس دوڑ میں کیسے حصہ لے سکتے ہیں مگر جیسا کہ واضح کیا گیا‘عالمی مسابقت کے دور میں جو دوڑ نہ سکے اسے کھڑے رہنے یا بیٹھ رہنے کا موقع نہیں ملتا‘ وہ مٹا دیا جاتا یا مٹ جاتا ہے‘ لاسامح اللّٰہ۔

آج عالمی اُمت اسلامیہ ضعف میں ہے۔ شرق اوسط اور بعض دوسرے ممالک کو تیل کی دولت نصیب ہوئی ہے اور حال ہی میں جنوب مشرقی ایشیا کے بعض مسلمان ممالک کی ترقی کے باوجود مجموعی طور پر مسلمان ممالک اور مسلمان اقلیتوں کے ہاتھوں میں اتنے وسائل نہیں یا وہ اپنے ہاتھ میں موجود وسائل کا ایسا استعمال نہیں کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ان کی قوت میں اضافہ ہو‘ اقوام عالم میں ان کا وزن بڑھے‘ ان کی بات کا وزن بڑھے اور ان کی طرف دوسرے اس نظر سے دیکھنے لگیں کہ ان سے کچھ سیکھنا چاہیے۔

اُمت کی اس کمزوری کا بیتی ہوئی صدی میں کئی بار مظاہرہ ہوا۔ پہلا حادثہ بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی میں خلافت عثمانیہ کا رسمی طور پر ختم ہونا اور قلب عالم اسلامی کا ٹکڑوں میں بانٹ کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جانا تھا‘ جو آیندہ بہت سے جھگڑوں کاسبب بنا۔ پھر صدی کے وسط میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جسے نہ صرف یہ کہ عالم اسلامی روک نہ سکا بلکہ عربوں کی شکست کی وجہ سے اسرائیل کی حدود اس سے زیادہ وسیع ہوتی چلی گئیں جو مجلس اقوام متحدہ نے مقرر کی تھیں۔ اس کے بعد اغیار کی سازشوں اور اپنوں کی بے تدبیریوں سے ایران و عراق کے درمیان جنگ‘ پھر عراق کے کویت پر حملے کے بعد عراق کے خلاف امریکہ اور اس کے معاونین کی فوجی کارروائی کا عمل سامنے آیا جس نے ہماری لاچاری اپنوں اور غیروں سب کے نزدیک ایک مسلمہ امر کے طور پرسامنے رکھ دی۔ اسی اثنا میں بوسنیا میں جو کچھ ہوتا رہا اس پر مسلمان ممالک کا اتحاد‘ تنظیم اسلامی کانفرنس قراردادیں پاس کرتا رہا مگر نتائج پر اثرانداز نہ ہو سکا اور صدی کی آخری دہائی میں ہندستان میں بابری مسجد ڈھائے جانے کا المیہ پیش آیا ] اور اب افغانستان کا المیہ[ ان تمام مظاہر میں قدر مشترک یہ ہے کہ مسلمان اتنی قوت نہیں رکھتے کہ دوسروں کے کیے فیصلوں کی تنفیذ کو روک سکیں یا اپنے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے کر خود اپنا فیصلہ نافذ کر سکیں۔ یہ قوت نہ انھیں انفرادی طور پر‘ کسی ایک ملک یا گروہ کو‘ حاصل ہے نہ اجتماعی طور پر سارے مسلمان ملکوں کے اتحاد کو۔

قوت ہی سب کچھ نہیں ہے‘ حق و انصاف کی روشنی میں ہمارا موقف بھی درست ہونا چاہیے لیکن موقف درست ہونے کی صورت میں بھی اگر ہم قوت سے محروم ہیں تو اپنے حق سے محروم رکھے جانے کے امکانات زیادہ ہیں جیسا کہ اوپر دی گئی مثالوں سے ظاہر ہے۔ اس مقالے میں ان المیوں کا ذکر صرف ایک نکتے کی تائید و تاکید کے لیے کیا گیا ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک باوقار مستقبل کی ضمانت اسی صورت میں دی جا سکتی ہے جب وہ اپنی قوت میں اضافہ کریں۔ اور یہ امر تو بدیہی ہے کہ مادی قوت کا جوہر معاشی قوت ہے۔ اگر اس مقالے کے آغاز میں اٹھائے گئے سوالات برمحل ہیں تو یقینا ہماری موجودہ کمزوری اور معاشی طور پر قوی نہ ہونے میں ہمارے معاشی عوامل کے بارے میں غلط نقطۂ نظر کو دخل ہوگا۔

آخر میں ہم اس بات پر غور کریں گے کہ اپنے موقف میں توازن کس طرح بحال کیا جائے اور مسلمانوں کو معاشی تگ و دو کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی طور پر قوت حاصل کرنے پر کس طرح کمربستہ کیا جائے۔

ہمارے خیال میں اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ دینی فکر‘ معاشی عوامل کی اہمیت کا اعتراف کرے اور معاشی جدوجہد کی ترغیب دے۔یہ بتائے کہ اسلام میں اگر اعلیٰ مقاصد کے لیے معاشی جدوجہد کی جائے تو وہ نہ صرف یہ کہ مطلوب ہے بلکہ اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جو مسلمان معاشی میدان میں آگے ہیں ان کا‘ الا ماشا اللہ‘ دینی رجحان کمزور ہے اور جن کا دینی رجحان قوی ہوتا ہے وہ معاشی میدان میں زیادہ فعال نہیں ہوتے۔ اُمت کو ضرورت اس کی ہے کہ مسلمان قوی دینی رجحان کے ساتھ فعال معاشی سرگرمی اختیار کریں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس کے لیے صحیح فکری بنیادیں فراہم کی جائیں۔ اسی طرح اس بات کی ضمانت دی جا سکے گی کہ جب مسلمان افراد‘ گروہوں اور ملکوں کے ہاتھوں میں معاشی وسائل آئیں تو وہ صحیح مقاصد کے لیے استعمال میں لائیں اور مسلمانوں کی معاشی قوت بڑھے تو وہ دُنیا میں عدل و امن اور سارے انسانوں کی فلاح و بہبود کی خاطر استعمال کی جائے۔

اعلیٰ تہذیبی مقاصد کے لیے مال کمانے اور معاشی قوت حاصل کرنے کا تصور عین اسلام ہے:

اس طرح کی (معاشی) سرگرمی کا اہتمام بہت سے بزرگوں سے مروی ہے بلکہ صحابہ کرامؓ اور تابعین کے سلسلے میں بھی یہی روایت ہے کہ وہ روزی کمانے میں ماہر تھے اور کسب معاش کے مختلف میدانوں میں جم کر کام کرتے تھے مگر اس لیے نہیں کہ اپنی ذات کے لیے خزانہ جمع کریں اور اپنی دولت جمع کیے رکھیں بلکہ اس لیے کہ اسے اچھے کاموں اور اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے لیے صرف کریں اور ان مصارف میں اسے استعمال کریں جن کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور جنھیں شرعی عرف میں اچھا رتبہ حاصل ہے۔ اپنے ذاتی مال کی نسبت سے بھی ان کا حال وہ تھا جو بیت المال کے نگراں کا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں ان کے درجات مختلف تھے۔ جیسا کہ ان کے احوال کی تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے۔(بلاذری‘ فتوح البلدان‘ ص ۴۳۹‘ طبع قاہرہ‘ ۱۹۳۲ء)

اس امر کی بھی قوی سندیں موجود ہیں کہ حال کی آمدنی میں سے بچا کر مستقبل کی خاطر سرمایہ کاری کرنا مطلوب ہے۔ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ سے منقول ہے کہ:

کیا ہی اچھا ہوتا اگر لوگ ایسا کرتے کہ جب کسی کو وظیفہ ملے تو اس میں سے کچھ بھیڑ بکریاں خرید کر اپنے زرخیز زرعی علاقے میں چھوڑ دے۔ پھر جب دوسرے سال کا وظیفہ ملے تو ایک دو غلام خرید کر ان کو بھی اسی (علاقہ) میں (کام پر) لگا دے۔ اگر ان کی اولاد میں سے کوئی باقی رہا تو اس طرح ان کے لیے ایک قابل اعتماد سہارا فراہم ہو جائے گا…

اگر اپنے لیے سہارا فراہم کرنے کا اہتمام شرعاً معتبر ہے تو پوری اُمت کے لیے سہارے کا اہتمام اور اس کے زوال کو عروج سے بدلنے کے لیے وسائل کی فراہمی کے جہاد ہونے میں کسے شبہہ ہو سکتا ہے؟


حواشی

۱- ابن تیمیہ: السیاسۃ الشرعیۃ فی احوال الراعی والرعیۃ‘ ص ۱۳۷‘ طبع دارالکتاب العربی‘ مصر ۱۹۵۵ء‘نیز ملاحظہ ہو: آمدی کی الاحکام فی اصول الاحکام ‘ ج ۱‘ ص ۱۵۸‘ مطبع معارف‘ مصر‘ ۱۹۱۴ء۔ اور قرطبی کی احکام القرآن‘ ج ۶‘ ص ۸۵‘ قاہرہ‘ دارالکتب المصریہ‘ ۱۹۵۲ء۔

۲- جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں بتایا گیا ہے ‘ بعض لوگوں نے آیت کا یہ مطلب بھی لیا ہے کہ عیسائیوں نے ترک دُنیا کا راستہ مرضی خدا کی طلب گاری میں اختیار کیا تھا‘ مگر دوسرا قول آیت کی تفسیر کے بارے میں ہے‘ جس کے مطابق ہم نے ترجمہ کیا ہے‘ یعنی‘ بقول: ابن کثیر ’’ما کتبناھا علیھم‘ انما کتبنا علیھم ابتغا رضوان اللّٰہ‘ ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۳۱۵‘ مطبع دارالعروبہ‘ بیروت ۱۹۸۴ء۔

۳- ملاحظہ ہو: عبدالرحمن بدوی: تاریخ التصوف الاسلامی من البدایہ حتی نھایۃ القرن الثانی ‘ وکالۃ المطبوعات‘ ۴۸ شارع فہد سالم‘ بیروت ۱۹۷۵ء۔ ص ۱۳۴-۲۲۱‘ خاص طور پر ص ۹۸ اور ص ۲۰۷۔

۴- معاش کے لیے امام نے اپنا آبائی پیشہ‘ تجارت اختیار کیا۔ کوفہ میں وہ خز (ایک خاص قسم کے کپڑے) کی تجارت کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے اس پیشہ میں بھی غیرمعمولی ترقی کی۔ ان کا اپنا ایک بڑا کارخانہ تھا جس میں خز تیار کیا جاتا تھا۔ ان کی تجارتی کوٹھی صرف کوفہ میں ہی کپڑا نہیں فروخت کرتی تھی بلکہ اس کا مال دُور دراز علاقوں میں بھی جاتا تھا۔ پھر ان کی دیانت پر عام اعتماد جب بڑھا تو یہ کوٹھی عملاً ایک بنک بھی بن گئی جس میں لوگ کروڑوں روپے امانت رکھواتے تھے۔ ان کی وفات کے وقت پانچ کروڑ درہم کی امانتیں اس کوٹھی میں جمع تھیں‘‘۔ ابوالاعلیٰ مودودی: خلافت و ملوکیت‘ مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ہند‘ دہلی ۱۹۶۷ء‘ ص ۲۲۶۔