مارچ ۲۰۰۳

فہرست مضامین

قرآن اور تشدد

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مارچ ۲۰۰۳ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

مستشرقین کے نقطۂ نظر کا جائزہ

مغربی محققین واضح تاریخی حقائق کا دیدہ دلیری سے مذاق اڑاتے ہوئے خود قرآن کریم کے حوالے سے وہ بہت سی باتیں دوبارہ اٹھا رہے ہیںجو صدیوں سے زیربحث آتی رہی ہیں اور جن پر مسلم علما اور دانش وروں نے علمی سطح پر بغیر کسی معذرت کے حقائق کو بلاکم و کاست پہلے ہی پیش کر دیا ہے۔

بعض مغربی ناقدین قرآن کریم کی ان آیات کے حوالے سے جن میں جہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ہے یہ کہتے ہیں کہ ایسی آیات کی موجودگی میں‘ جو ان کے بقول ان آیات کو منسوخ کر دیتی ہیں جن میں امن ‘ترقی اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے‘ اسلام کو کس طرح ایک امن پسند مذہب کہا جا سکتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت ۷۴ کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ ’’اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں۔ پھر جو اللہ کی راہ میں لڑے گا اور مارا جائے گا یا غالب رہے گا اسے ضرور    ہم اجرعظیم عطا کریں گے‘‘ (النساء ۴:۷۴)۔


  • وائس چیئرمین ‘انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ اسلام آباد

اس آیت مبارکہ کو نقل کرنے کے بعد مغربی مستشرق یہ کہتے ہیں کہ اسلام لوگوں کو لڑائی اور قتل پر اُبھارتا ہے۔ کاش! یہی مستشرق اس آیت سے اگلی آیت کو بھی پڑھ لیتے اور پھر دونوں آیتوں کو ملا کر ان کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کرتے۔ رب کریم اگلی آیت میں فرماتا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگارپیدا کر دے‘‘ (النساء ۴:۷۵)۔ اس آیت کو اگر صرف ایک غیرجانب دار نظرڈال کر پڑھ لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ پہلی آیت کس کے خلاف جنگ پر اُبھارتی ہے ؟اگر ظلم‘ تشدد‘ حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے سفاک افراد کو ان کے حال پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا جائے کہ ہم تو امن کے پرستار ہیں‘ ہم تلوار کو ہاتھ لگا کر گناہ کا ارتکاب نہیں کرنا چاہتے تو کیا یہ رویہ اخلاق کے کسی بھی پیمانے پر پورا اُترے گا؟

اسلام اور قرآن کو کوئی معذرت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر جہاد کی بات کرتا ہے تو دوٹوک‘ سیدھے اور غیرمبہم انداز میں یہ بات کہتا ہے کہ ہر ظالم‘ جابر‘سفاک کے خلاف جنگ کرنا انسانی فریضہ ہے۔ اسلام کا مقصد قیامِ امن و عدل ہے اور اس میں گفت و شنید‘ اخلاقی دبائو‘ترغیب‘ مکالمہ ہرچیز ناکام ہو جائے اور عورتیں‘بچے اور بوڑھے مسلسل ظلم کا شکار ہو رہے ہوں تو پھر اس سے قطع نظر کہ وہ مظلوم مسلمان ہیں یا غیرمسلم‘ ان کی نصرت و امداد مسلمان پر فرض ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہے جو یہ دو آیتیں دیتی ہیں۔ ان میں کس جگہ یہ کہا گیا ہے کہ بلاکسی سبب کے جب اور جہاں چاہو مذہب کے نام پر خون بہائو؟

اسی طرح سورۂ توبہ کی ایک آیت کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس میں غیرمسلموں اور اہل کتاب کے خلاف قتل عام کی اجازت دی گئی: ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اوردین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں‘‘ (التوبہ ۹:۲۹)۔ یہاں بھی  قرآن کریم یہ بات واضح الفاظ میں بیان کر رہا ہے کہ غیرمسلم اہل کتاب ہوں یا کوئی اور‘ ان کے خلاف صرف اس وقت تک جنگ کی جا سکتی ہے جب تک وہ اسلامی ریاست کی امارت  تسلیم نہ کرلیں۔ اصل مقصد ان کو قتل کرنا‘ ختم کرنا‘ تباہ کرنا نہیں ہے بلکہ قانون کی حکمرانی اور  امن و عدل کا قیام ہے۔ جہاد کا مدعا انھیں مار مار کر قوت کے زور سے مسلمان بنانا یا صفحۂ ہستی سے مٹانا نہیں ہے۔ اسلام کسی بھی ذی روح بلکہ غیر ذی روح کو بھی تشدد کے ذریعے تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا‘ خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات۔ یہ صرف مغربی سامراجی طاقتوں کا طریقہ ہے کہ وہ جہاں چاہیں ’’تورابورا‘‘ کرنے کا پیدایشی حق بزعم خود استعمال کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔ وہ ویت نام ہو‘ کوریا ہو‘ بوسنیا ہرذی گوونیاہو‘ چیچنیا ہو‘ آذربائیجان ہو‘ افغانستان ہو یا عراق وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانا اپنا’’انسانی فرض‘‘سمجھتے ہیں۔

سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱ کے حوالے سے بھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہ یہود اور عیسائیوں کو دشمن کے مقام پر رکھ دیتی ہے اور اس طرح ان کے خلاف نفرت کے جذبات کو ہوا دیتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انھی میں ہے‘ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے‘‘۔ (المائدہ ۵:۵۱)

سلسلۂ مضامین پر غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ آیت ۴۲ سے جس موضوع پر بات کی جا رہی ہے وہ اہل کتاب کا عناد‘ جھوٹ اور دھوکا دہی پر مبنی طرزِعمل ہے جس میں ان کے مذہبی رہنمائوں کا اپنے ذاتی مفاد کے لیے تورات و انجیل کی تعلیمات کو بدل دینا اور اللہ کے ساتھ حضرت عزیر ؑ اور حضرت عیسٰی ؑ کو شریک بنانا ہے۔

پھربتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو شریعتیں مختلف ادوار میں نازل کی ہیں ان میں بہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت بھی انھی اصولوں پر مبنی اور من جانب اللہ ہے‘ اس لیے یہود و نصاریٰ کے بہکائے میں آئے بغیر فیصلے اللہ کی شریعت کے مطابق کیے جائیں‘ باوجود اس کے کہ یہود و نصاریٰ کی کوشش یہ ہو کہ اہل ایمان کو فتنے میں ڈال کر اپنی طرح گمراہ کر دیں۔

اس تفصیل کے بعد جو آیت ۴۲ سے آیت ۵۰ تک بیان کی گئی ہے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ یہود اور عیسائیوںکو رفیق نہ بنایا جائے کیونکہ یہ تو آپس ہی میں گمراہوں کے رفیق ہوسکتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو سیاق و سباق کی روشنی میں اس سے زیادہ سچی بات اور کیا ہو سکتی ہے جو یہاں کہی جا رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جس سورہ کے حوالے سے مستشرقین یہ الزام اسلام کو دیتے ہیں‘ اس کا آغاز جن الفاظ سے کیا جا رہا ہے وہ ان محققین کی نگہ انتخاب سے     نہ جانے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے۔ اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا ان قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘ (یہودی یا عیسائی) بشرطیکہ تم ان کے مہر ادا کر کے نکاح میں ان کے محافظ بنو‘‘۔ (المائدہ ۵:۵)

ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جن یہودی یا عیسائی نیک خواتین کے ساتھ رشتہ مناکحت کی اجازت دی جا رہی ہو گویا انھیں اپنے گھر اور اپنے معاشرے میں ایک قابلِ احترام بیوی کا مقام دیا جا رہا ہو اور جن کے ساتھ کھانے پینے کے معاشرتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی جا رہی ہو‘ ان کے بارے میں کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ وہ تمھارے دشمن ہیں‘ جہاں کہیں مل جائیں انھیں تہ تیغ کر دو‘ تہس نہس کر دو اور صفحۂ ہستی سے مٹا دو!

دوسری جانب کیا قرآن کریم کو یہ چاہیے کہ جو یہودی اور عیسائی بظاہر دوست بن کر آئیں‘ جب کہ ان کا واضح مقصد فتنہ و فساد ہو‘ اہل ایمان کو آپس میں لڑانا ہو‘ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو دعوت کے بہانے بلا کر زہر بھرا گوشت کھلا کر قتل کرنے کی نیت ہو تو کیا قرآن یا تورات کو ایسے افراد کو جگری دوست بنانے کا مشورہ دینا چاہیے؟ قرآن کریم ہی نہیں‘ کسی بھی کتاب سے ایک جملہ نکال کر اس کو اپنے من مانے معنی پہنانا نہ تو فکری دیانت ہے اور نہ اس کتاب کے ساتھ انصاف۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہ کہا تھا کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھرجائو۔ عدل کرو‘ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (المائدہ۵:۸)

ایک اور قرآنی آیت: ’’پس جب ان کافروں سے تمھاری مڈبھیڑ ہو تو پہلا کام گردنیں مارنا ہے‘ یہاں تک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوں کو مضبوط باندھو‘ اس کے بعد (تمھیں اختیار ہے) احسان کرو یا فدیے کا معاملہ کر لو‘ تاآنکہ لڑائی اپنے ہتھیار ڈال دے‘‘ (سورہ محمد ۴۷:۴)۔ مغربی مستشرق اس آیت کی یہ تعبیرکرتے ہیں کہ قرآن یہ چاہتا ہے کہ اہل ایمان کو جہاں کہیں کفار مل جائیں ان کی گردنیں مارتے چلے جائیں اور کشتوں کے پشتے لگادیں‘ بالکل اسی طرح جیسے کہ بوسنیا ہرذی گوونیا میں بہت سے مقامات پر اجتماعی قبروں کی دریافت سے معلوم ہوا کہ کروٹ اور سرب عیسائیوں نے مسلمانوں کو بلاتفریق جنس و عمرتہ تیغ کیا۔

اس آیت مبارکہ کے نزول سے قبل سورۃ الحج کی آیت ۳۹ اور سورۃ البقرہ کی آیت ۱۹۰ جہاد کی اجازت کے سلسلے میں آچکی تھیں۔ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی قانونِ جنگ کی وضاحت جنگ پیش آنے سے قبل ہی کر دی جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر مشرکین و کفار کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو دبانے اور مٹانے کے لیے اورتمھیں مدینہ سے بے دخل کرنے کے لیے پوری قوت سے مدینہ پر حملہ آور ہو کر اس دعوتِ حق کی روشنی کو بجھا دیں تو جہاد کی اجازت کی روشنی میں تم بھی ان کی قوت توڑنے میں تکلف نہ کرو۔ ’’گردنیں مارنا‘‘ محض قتل کرنے کے معنی میں نہیں بلکہ واضح طور پر ان کی قوت توڑنے کے معنی میں استعمال ہواہے۔

کسی بھی جنگ کی حکمت عملی یہی ہوتی ہے کہ مخالف کی قوت کو توڑا جائے۔ اس لیے قرآن کا یہ کہنا اخلاق و عدل کے اصولوں پر مبنی صحیح ترین عمل نظر آتا ہے۔ ہاں اگلی بات یہ سمجھا دی گئی کہ مقصود ان کا بے رحمانہ قتل نہیں بلکہ اگر ان کی قوت ٹوٹ جائے تو انھیں قید میں آنے کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا‘ہرقیدی کو عزت و احترام کے ساتھ لباس‘ کھانا‘ تحفظ دیا جائے گا اور اس کے سامنے یہ اختیار ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو فدیہ دے کر آزاد کرا لے یا اسلامی ریاست ان پر احسان کر کے رہا کر دے یا تبادلۂ اسیران میں اسے رہا کر دیا جائے۔ ہمارے علم میں کسی انتہائی ’’پُرامن‘‘ فلسفے پر مبنی مذہب کا کوئی ایسا اصول نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ جب دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دروازے کھول کر سرجھکا کر ادب سے اس کا استقبال کرتے ہوئے اپنی گردنیں قلم کرانے کے لیے پیش کرو اور یقین کرلو کہ تمھاری طرف سے ایک انگلی بھی نہ اُٹھے‘ نہ اس میں سے ایک قطرہ خون ٹپکے!

مستشرقین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش یہ علم کے مدعی بات کرنے سے قبل حصول معلومات بھی کرلیتے‘ مثلاً یہ کہنا کہ مسلم معذرت خواہ (apologists) یہ کہتے ہیں کہ تمام غلط فہمی اس بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کریم کے انگریزی تراجم ناقص ہیں‘ اس بنا پر جہاد اور قتال کے بارے میں غلط تصورات پائے جاتے ہیں (الراوندی "Islam and Armageddon")۔ یہ نصف سچائی پر مبنی ایک بیان ہے۔ ہمارے خیال میں بعض صورتوں میں اس کا امکان تو ہے لیکن اصل مسئلہ ترجمے کا نہیں بلکہ قرآن کریم کی آیات کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس کا مفہوم اپنے ذہنی مفروضوں کی روشنی میں متعین کرنا ہے۔

تحقیق کا بنیادی اصول ہے کہ زیربحث مسئلے کو براہِ راست اس کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے‘ اس کے بعد کوئی رائے قائم کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ مستشرقین بعض ایسی باتیں بھی کہہ جاتے ہیں جو بنیادی اسلامی علمی اصطلاحات سے ان کی ناواقفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ مکّی آیات رحم و عفو و محبت سے بھری ہوئی ہیں‘ جب کہ مدنی آیات‘ مثلاً ’’مشرکین کو جہاں پائو قتل کر دو‘‘ نے ۱۳۴ ایسی آیات کو جو رحم و لطف سے متعلق تھیں منسوخ کر دیا ہے (الراوندی‘ایضاً) نہ صرف مکی و مدنی آیات سے ناواقفیت ظاہر کرتا ہے بلکہ نسخ فی القرآن جیسے اہم مضمون سے مکمل لاعلمی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔

حقیقت واقعہ یوں ہے کہ ۹ ہجری میں جب مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کی قیادت میں پہلا حج کیا تو سورۂ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں اللہ اور اس کے رسولؐ نے ان مشرکین سے اپنی برأت کا اعلان کیا جن سے اس سے قبل بعض معاہدے ہوئے تھے اور وہ ان کی   خلاف ورزی کرتے رہے تھے۔ انھیں مہلت دی گئی کہ وہ آیندہ چار ماہ تک اپنے بارے میں طے کرلیں اور اگر کہیں اور جاکر آباد ہونا ہو تو بلاروک ٹوک چلے جائیں یا اپنی روش بدلنی ہو تو ایساکرلیں۔ اس کے بعد ان کے خلاف عام اعلان جنگ کرتے ہوئے یہ بات سمجھا دی گئی کہ ان چار ماہ کے بعد مشرکین کے خلاف اس وقت تک جنگ ہوگی جب تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف (توبہ) کرنے کے بعد نماز اور زکوٰۃ پر عامل نہ ہو جائیں۔

چنانچہ اس آیت سے اگلی آیت میں مشرکین کے حوالے ہی سے یہ ہدایت کی گئی کہ گو ان کے خلاف جارحیت کی اجازت ہے لیکن اگر کوئی مشرک حالت جنگ میں بھی اہل ایمان سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دی جائے اور اسے قرآن سننے اور اہل قرآن کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پھر اسے مجبور کیے بغیر اور اس پر کسی قسم کا تشدد کیے بغیر اس کے گھر تک اپنی امان اور حفاظت میں پہنچانا مسلمانوں کا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کے مامن تک پہنچادو۔ یہ اس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے‘‘۔ (التوبہ ۹:۵)

دونوں آیات کو ملا کر پڑھیے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ’’مشرکین کو قتل کرو جہاں پائو‘‘ کے حکم کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ یہ ایک مطلق اجازت نہیں ہے کہ جہاں کسی مشرک کو دیکھا اور نشانہ بنا دیا بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ہماری اصل جنگ شرک و کفر کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی مشرک حصولِ معلومات کے لیے اہل ایمان سے پناہ طلب کرتا ہے تو قرآنی حکم کی اطاعت میں اسے نہ ہاتھ لگایا جائے گا نہ قیدی بنایا جائے گا بلکہ اپنی حفاظت میں اسے اس کے گھر تک لے جایا جائے گا۔ یہاں بھی آیت کے ایک حصے کو سیاق و سباق سے الگ کرنے کے نتیجے میں مستشرقین ایک گمراہ کن تعبیرکرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے خود قرآن سے فلسفۂ تشدد کو ثابت کردیا۔