پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد


گذشتہ چند برسوں سے پاکستان سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات میں گرفتار چلا آرہا ہے۔ اس صورتِ حال نے ملکی قیادت پر اعتماد کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ مایوسی، نا اُمیدی، جھنجلاہٹ اور  منفی طرزِ فکر میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔جس کا ایک پہلو ملک سے نوجوانوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی (Brain drain)ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ، ذ ہین اور باصلاحیت نوجوان ملک میں روزگار کے مواقع نہ ہونے، اورغیر یقینی سیاسی حالات کے پیش نظر بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جارہے ہیں۔ ایسی ہی مایوسی اور دل گرفتگی اس وقت بھی پیدا ہوئی تھی، جب برطانوی سامراجی طاقت نے مسلم بادشاہت کا خاتمہ کیا اور برصغیر میں اپنی حکومت قائم کی۔ اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہی سلطنت ِ عثمانیہ جس کی طرف مسلمان امیدوں کے ساتھ دیکھتے تھے، اپنے ہی گھر کی مصطفےٰکمال کی سیکولر قوم پرست قیادت نے ان اُمیدوںکا چراغ گُل کرتے ہوئے علامتی خلافت تک کا خاتمہ کر دیا۔ اس صدمہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور برصغیر کے مسلمانوں کو شدید دُکھ ، افسوس اور مایوسی کی فضا میں دھکیلا اور ہجرت کی تحریک کو جنم دیا۔

اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ  اپنے اس بندے کو بھی اپنی شفقت اور محبت سے محروم نہیں کرتا، جو بظاہر سیدھی راہ سے بھٹک گیا ہو۔ اسی رحمت کی بنا پر رحیم و کریم رب نے ہر دور میں ایسے رجالِ کار پیدا کیے، جو اس کے بھیجے ہوئے دینِ مبین پرمبنی نظامِ حیات کے قیام کی جدوجہد کرتے ہیں۔

الحمدللہ! قیام پاکستان سے قبل ایک ایسی تحریک وجود میں آئی، جس کے سامنے اسلام کا حرکی تصور نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملی طور پربھی موجود تھا اور یہ تھی جماعت اسلامی جو ۱۹۴۱ء میں منظم صورت میں سامنے آئی۔ اس سفر میں جماعت اسلامی کے بانی نے قرآن وسنت کے تابع حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک دعوتی اور اصلاحی تحریک منظم کی، اور اقامت دین کے لیے تربیت یافتہ افراد تیار کرنے کا آغاز کیا۔

مولانا مودودیؒ نے قوم کو علمی، فکری اور عملی قیادت فراہم کی اور ایسے افرادِ کار کی تیاری کا راستہ دکھایا جو اسلامی نظام حیات کا شعوررکھتے ہوں۔ اس تحریک کے دستور میں اس نصب العین کو واضح الفاظ میں یوں بیان کیا گیا:’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود عملا ًاقامت ِدین (حکومت الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اور حقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاح اُخروی کا حصول ہوگا‘‘۔(دستور جماعت اسلامی، دفعہ ۴)

اقامت دین کی جامع قرآنی اصطلاح، اللہ کے دین کو زندگی کے ہر شعبہ میں خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کی روشنی میں نافذ کرنے کا نام ہے۔یہ دین کے کسی ایک پہلو اور اسلام کی کسی ایک تعلیم کو کُل قرار دینے کا نام نہیں ہے۔اللہ سے تعلق، تزکیہ، کردار سازی اور اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ سیاسی جدوجہد میں حصہ لینا دین کا لازمی تقاضا ہے۔ البتہ یہ واضح رہنا چاہیے کہ تنہا سیاسی جدوجہداقامت دین نہیں ہے، بلکہ یہ اس جامع جدوجہد کا صرف ایک حصہ ہے۔ تحریک کو وہ سیاسی جدوجہد مطلوب ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے بھیجے ہوئے نظام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے نفاذ کے لیے ہو، جس میں کسی فرد کی ذاتی غرض، حصولِ اقتدار کے ذریعے اپنی نمایش مقصود نہ ہو۔ گویا سیاسی جدوجہد اصل میں توسیع دعوت کا ایک ذریعہ بنے ۔

دستور جماعت کے مطابق، جماعت کوئی ایسے ذرائع استعمال نہیں کرے گی، جو صداقت اور دیانت کے منافی ہوں یا جن سے فساد فی الارض کا خطرہ ہو۔ دستورِ جماعت یہ بھی طے کر دیتا ہے کہ وہ مطلوبہ اصلاح اور اسلامی نظام کے قیام کی انقلابی جدوجہد کے لیے جمہوری اور دستوری ذرائع استعمال کرے گی اور نصب العین کے حصول کی یہ جدوجہد کھلم کھلا اور علانیہ ہو گی۔دستور کی یہ واضح دفعات اگر تحریکی کارکنوں کے سامنے وضاحت کے ساتھ موجود ہوں، تو دعوتی کام میں پیش آنے والی مشکلات ہوں یا سیاسی رکاوٹیں اور سیاسی ناکامیاں، حالات جو بھی ہوں نہ کارکن اورنہ قیادت مایوسی کا شکار ہو گی اور نہ اس میں غصہ، نفرت، جھنجلاہٹ اور انتقام کے جذبات اُبھر سکیں گے ۔

اللہ پر توکّل کا آسان مفہوم یہ ہے کہ ایک کارکن جتنی قوت اور اختیار رکھتا ہو، اس میں ہرممکنہ کوشش میں یکسوئی کے ساتھ لگا رہے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنا  سب کچھ اس کی راہ میں لگا دے ، پھر نتائج کو اللہ پر چھوڑ دیا جائے ،کیونکہ صرف وہی علم رکھتا ہے کہ  کس وقت کس نوعیت کی کامیابی مفید ہے اور کس وقت کامیابی میں تاخیر مفید ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے صرف رحم وکرم، محبت اور  یسّر پسند کرتا ہے۔ اس پہلو پر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو مکہ میں تیرہ سال آزمایشوں کی بھٹیوں سے گزار ے بغیر صرف ’کُن‘ فرما کر غالب کردیتا۔ اور اہل ایمان کے لیے پہلے سال میں کامیابیوں کے دروازے کھول دیتا اور مکّہ میں اسلامی ریاست قائم ہو جاتی ۔ لیکن مالک اور آقا کی حکمتیں وہی جانتا ہے۔ وہ علام الغُیوب ہے۔ انسانی عقل اپنی محدوددیت کی وجہ سے پیش آنے والے واقعات پر جلد جذباتی فیصلے کر بیٹھتی ہے، جب کہ دین صبر و استقامت دونوں کی تلقین کرتا ہے۔

 عام طور پر اسلامی تحریکات کو سیاسی جدوجہد میں جب مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے تو خود تحریک کے اندر اور باہر سے اس پر بحث شروع ہو جاتی ہے۔ عموماً رد عمل کے طور پر سارا الزام بیرونی قوتوں یا مدِمقابل عناصر پر رکھ دیا جاتا ہے کہ وہ سیکولر اور لادینی عناصر کو کامیاب اور تحریکی نمایندوں کو ناکام بنانے کے ذمہ دار ہیں۔

 تحریکاتِ اسلامی کے لیے ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تجزیہ و تحلیل کرتے وقت ممکنہ حد تک معروضی طور پر اپنی کارکردگی، منصوبہ بندی اور منصوبۂ عمل پر عمل درآمد میں انتظامی اور تربیتی کمزوریوں کا خصوصی طور پر جائزہ لے، کوئی رائے قائم کرنے میں جلدبازی نہ کریں اور پہلے سے قائم کردہ گمان پر اصرار سے بھی اجتناب کریں۔ انتخابی مہم میں اپنے اصولوں اور عوام کی نفسیات و مسائل پر اپنے موقف اور بیانیہ کو کڑی تنقیدی نگاہ سے دیکھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بھی وہی چیزیں دُہرا رہے ہیں جن سے بچنے کی ضرورت تھی؟ کسی بھی جماعت کے الیکشن میں متوقع اہداف کے حصول میں یکساں طور پر اندرونی اور بیرونی عوامل کا دخل ہوتا ہے ۔اختصار کے ساتھ ان میں سے چندعوامل کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:

عوامی تصویرو تصور اور منشور

نظریاتی اور اصولی تحریکات اپنے منشور پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں تاکہ عوام کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ وہ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتی ہیں۔ چنانچہ معیشت، تعلیم، دفاع، معاشرتی فضا، قانون اور امن کی صورتِ حال، خواتین کے حقوق، بین الاقوامی پالیسی، زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی وہ موضوعات ہیں، جن پر سیاسی جماعتیں اپنا موقف مرتب کرتی ہیں اور اس کے اہم نکات کو مہم میں عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک غیر جانب دار تعلیمی اور تحقیقی ادارے PIDEنے اپنے سیاسی جماعتوں کے منشوروں کے تجزیہ میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے منشوروں کا تقابلی مطالعہ پیش کیا، مگر جماعت اسلامی کو اس تقابل میں شامل نہیں کیا ۔ اس تعصب اور جانب داری کو تسلیم کرتے ہوئے، جو اس قسم کے نیم سرکاری اداروں میں پائی جاتی ہے ، سوچنا چاہیے کہ ہم اس مقابلے میں نمایاں کیوں نہیں ہوئے؟

ہم اپنے منشور کو کس طرح عوامی سطح پر ایک ایسی زبان میں پیش کریں کہ عوام اسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ یہ چیز خود منشور سے زیادہ اہم پہلو ہے۔ ہر جماعت کا ایک مزاج ہوتا ہے اور قیادت اپنے بیان اور تقریروں میں جن باتوں پر زور دیتی ہے ،وہ خود تو اس سے مطمئن ہوتی ہے، لیکن اصل چیلنج اپنے سے باہر کے حلقوں اور عوامی رد عمل کا اندازہ کرناہوتا ہے، جس میں عام طور پر معروضیت (objectivity) اختیار نہیں کی جاتی۔ جو لوگ اس کے انتظامی امور کے ذمہ دار ہوتے ہیں، تحریکی قیادت کی کہی ہوئی بات کی توثیق کرتے ہوئے، وہ قیادت کے سامنے اپنی مقبولیت اور مؤثر ہونے ہی کی بات کرتے ہیں، جس سے قیادت کے ذہن میں بھی اپنی مقبولیت کا غیر حقیقی تصور راسخ ہو جاتا ہے، جب کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس تصور کی تردید کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ذیلی حلقے، نظم اور اردگرد کے لوگ ایک مبالغہ آمیزتصویر کشی کرتے ہیں ،جس پر اعتبار کرنے کا نتیجہ ایک بالکل برعکس صورتِ حال کا آئینہ دار بن کر سامنے آتا ہے۔

ایک اہم نفسیاتی غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے علاوہ دیگر جماعتوں یا ان کی قیادت کے بارے میں ہمیشہ منفی بات سوچی، کہی اور دُہرائی جاتی ہے۔ اس باب میں زبان اور لہجہ دونوں وہ ہوتے ہیں جن کی ایک داعی سے توقع نہیں کی جاتی۔ مختلف سطح پر قیادت اپنے خیال میں دوسرے کی تحقیر اور الزام تراشی کو کلمۂ حق کا اظہار سجھتی ہے جو تجربے کی روشنی میں غلط حکمت عملی ہے ۔ اصل چیز اپنی کارکردگی اور صلاحیت کو مثبت انداز سے، لیکن خودنمائی کے بغیر پیش کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو مشرکین کے بتوں تک کو تحقیرآمیز الفاظ اور لہجے میں پکارنے سے منع کیا ہے۔ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا قرآن کے اس واضح اصول کی پیروی ہر مقام پراور ہرمقرر نے کی ؟یہ ایک بڑا بنیادی اور اہم سوال ہے۔ اپنی کارکردگی یا اپنے پیش نظر مجوزہ تبدیلی کے پروگرام کی مثبت نمایندگی کی جگہ اگر مدِمقابل پارٹیوں پر ہمیشہ منفی انداز میں بات کی جائےتو عوام اسے تعصب سے تعبیر کرتے ہیں اور حق بات کا اثر زائل ہو جاتا ہے۔

اس بات کے جائزے کی بھی ضرورت ہے کہ ہرحلقے میں کتنے اجتماعات ہوئے، جن میں صرف منشور کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا اور دیگر افراد کی کارکردگی پر لعن طعن نہیں کی گئی۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہنگائی، اقرباپروری، لُوٹ مار، فحاشی، بیرونی قوتوں کی غلامی، مسلم اُمّہ کے مفاد سے لاپروائی جیسے موضوعات پر بات نہ ہو ۔بلکہ ان تمام موضوعات پر لازمی کھل کر بات کہے بغیر مہم نہیں چل سکتی، لیکن بنیادی اصول یہ ہے کہ بات کیسے کی گئی کہ اس کا رد عمل مثبت رہا؟ دلوں کو جیتنے کا اور نرم گفتاری کے ساتھ دلوں کو مسخر کرنے کا رہا یا تلخ وتُرش الفاظ کے ذریعے دوسروں کی کارکردگی کی تردید کرنے کا رہا؟ یہ جائزہ لینا اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم، موعظہ حسنہ اور قول لین (نرمی سے گفتگو) کا حکم دیتا ہے اور وقت کے فرعون سے بات کرنے کے لیے یہ نہیں کہتا کہ اس کے تمام کرتوتوں پر سخت تنقید کے بعد اسے حق کی دعوت دی جائے، بلکہ واضح طور پر کہتا ہے کہ طرز تخاطب میٹھا ہو، جو اس کو ہدایت سےقریب لے آئے۔ تنقید ہمیشہ مخالف کو دفاعی نفسیات پر اُبھارتی ہے، جو بات کی معقولیت اور مقبولیت کے راستے میں دیوار بن جاتی ہے۔ آج کے عوام سوشل میڈیا کی وجہ سے باخبر ہیں اور اشارتاً بات کہنے کو بھی سمجھ جاتے ہیں۔

اپنے جائزے میں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ دعوتی مہم اور سیاسی مہم کےفرق کو سمجھا جائے۔ ایک نظریاتی اور اصولی جماعت کی سیاسی مہم بھی اصلا ًدعوتی مہم ہوتی ہے، جس میں للہیت، استغفار،اللہ سے استعانت اور خصوصاً قرآن و سنت کے پیغام کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ بے شک اقامت دین کا مفہوم ہر سننے والے کے ذہن میں الگ ہوسکتا ہے۔ لیکن تحریک اسلامی کا فرض ہے کہ وہ سیاسی مہم میں اقامت دین کے مفہوم کو اس طرح بیان کرے کہ دیگر مسلکی جماعتوں کے موقف اور اس کے موقف میں فرق نمایاں ہو سکے۔ایک عام دیہاتی بلکہ شہری بھی جماعت اسلامی کو سیکولر جماعت نہیں بلکہ دینی جماعت سمجھتا ہے۔ اس لیے اس کے موقف میں قرآن و سنت کی دعوت کی توقع رکھتا ہے۔ وہ اگر صرف دوسروں پر تنقید ہی سنے، جو ہر دوسری جماعت بھی کر رہی ہوتی ہے تاکہ وہ دوسروں کو تاریک تر دکھا کر اپنے آپ کو روشن ترین دکھا سکے،تو وہ عام شہری، جماعت کو بھی مسلکی جماعتوں یا دیگر عام جماعتوں کی طرح سمجھنے لگتا ہے۔ مخاطب کی نفسیات کے پیش نظر اپنے موقف کا پیش کرنا دعوتی مہم میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

اصلاح اور انقلاب کے خد و خال

انتخابی مہم کا جلسہ مسجد میں ہو رہا ہو یا میدان میں، ایک سننے والے کے لیے اہم چیز اعداد و شمار پر مبنی غیر جانب دارانہ موقف اور اس کے بعد تحریک کی جانب سے اس مخصوص مسئلے کا مجوزہ حل پیش کرنا ہے ۔ یہ اسلوب ہمارے طرزِ بیان کو مؤثر بناتا ہے، جب کہ ماضی کے حکمران کا نام لے کر یا اس جماعت کا نام لے کر اس کی ناکامی کا مبالغہ آمیز تذکرہ، تحریک کے بارے میں منفی تاثر پیدا کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے جلسے میں موجود عام سامعین بھی بجائے قریب آنے کے کچھ دور ہو جاتے ہیں۔دعوتی مہم کا ہدف اور مقصد ہم خیال اور ہمدرد بنانا ہوتا ہے، لوگوں کو دُور کرنا نہیں۔ اس بات کے جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوتی اخلاقیات اور انبیا علیہم السلام کی سنت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مہم میں کتنے دل و دماغ جیتے اور کتنوں کو دُور کیا؟

کارکردگی کی مثال

جن مقامات پر تحریک ماضی میں کسی اتحاد کا حصہ رہی ہو، خاص طور پر ان مقامات پر اس کے قول سے زیادہ اس کی کارکردگی لوگوں کو فیصلہ کرنے میں کارگر ثابت ہوتی ہے ۔ایسے مقامات پر محض نظری گفتگو اور دعوے متوقع نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔

دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے مقامات پر عام شہریوں سے ہمارے رابطے میں کیا کمی رہی ہے؟ مقامی مسائل میں ہم نے آگے بڑھ کراگر ان کے مسائل کو کسی اتحاد کا حصہ ہونے کے باوجود حل نہیں کیا تو محض ہمارے خطبات کی تکرار اور پوسٹروں کی بھرمار انھیں متاثر نہیں کرسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا کسی ایک شہر میں نہیں، ایک گاؤں میں یا ایک محلے میں دعوتی مہم کے حصے کے طور پر ہر ہفتہ ایک طبی کیمپ لگایا گیا اور ڈاکٹر صاحب اور عملے نے خوش اخلاقی کے ساتھ مریضوں کی تیمارداری اور صحیح تشخیص کے ساتھ ان کی امداد کی؟ اگر اس نوعیت کے فلاحی کام کیے ہیں تو وہاں کسی عظیم الشان جلسے کی ضرورت نہیں ہوگی،بلکہ عوام بغیر کسی تقریر سنے اور سیاسی جلسے کا انعقاد کیے تحریک کو ووٹ دیں گے۔ اگر کسی مقام پر تحریکی فکر کے کسی ادارے، اسکول یا کالج نے تحریکی مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ادارے میں طلبہ وطالبات کی ذہنی، فکری، عملی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا ہو اور اس میں اساتذہ و معلمات اور ماحول وہ رہا ہو، جیساکہ تحریک ملک میں تعلیمی ادارے قائم کرنا چاہتی ہے، تو اسکول اور کالج کا ہر بچہ اور اس کے والدین کا ووٹ تحریک کے حق میں ہوگا۔

یہ چھوٹے چھوٹے کام ریاستی اقتدار کے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں اور جب یہ دعوتی جذبے کے ساتھ رضائے الٰہی کے حصول اور آخرت میں اجر کی نیت سے کیے جائیں گے، تو جس کے لیے یہ کام کیے جا رہے ہیں وہ وعدہ فرماتا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچ ہی ہوتا ہے کہ وہ ایسے افراد کو جنّت دے گا، چاہے وہ اس دنیا میں اقتدار نہ بھی حاصل کر سکیں، مگر وہی اصل کامیاب افراد ہیں۔

سیاسی شعور کی جانب ایک قدم

۷۵سال کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے جوش و خروش کے زاویہ سے حالیہ انتخابات تمام انتخابات سے زیادہ کامیاب انتخابات ہیں کیونکہ اس انتخاب نے  جس عوامی شعور کو بیدار کیا، وہ اس سے پہلے کبھی وجود میں نہیں آسکا۔ ماضی میں ہارنے والی جماعت پہلا کام یہ کرتی تھی کہ پریس کانفرنس میں انتخابات کو متنازع اور غلط قرار دے۔ لیکن آج چند لیڈر نہیں، بلکہ ملک کا بچہ بچہ انتخابات کا ناقد ہے۔ انتخابی دھاندلی کے مختلف طریقوں پر عام بحث و مباحثہ کر رہا ہے اور یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔

یہ عوامی شعور اس لیے ایک حقیقت ہے کہ اس کی بنا پر جن سیاسی جماعتوں کو سرکاری انتظامیہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی ہمدردی پر بھروسا تھا، یا جو اپنی ناجائز دولت کے ناجائز استعمال پر اعتماد کرتے تھے ،ان سب کو اس عوامی شعور نے کھلے عام آئینہ دکھا کر ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دے کر ان تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا، جن پر انتظامی یا عدالتی وسیلوں کو برق رفتاری سے استعمال کرتے ہوئے، پاک صاف ہو کر دوبارہ قسمت آزمائی کرنے والوں کو بھروسا تھا۔ یہ عوامی شعور وہ اثاثہ ہے جسے ملک کے مستقبل کے بارے میں فکر مند تما م عناصر کو پارٹی تعصبات سے بالاتر ہوکر مثبت انداز میں صحیح رُخ دینے کی ضرورت ہے۔

 ان انتخابات کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ اس زمین کی زرخیزی میں کمی نہیں ہے۔ عوام کو اپنی قوت کا اندازہ ہو گیا ہے، وہ پُرامن تبدیلی کے لیے متحد ہیں۔ ان کی اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کو مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قوت جو تعمیری کام کر سکتی ہے، وہ کسی شیطانی بہکاوے میں آکر لاوے کی طرح پھٹ نہ پڑے ۔ اللہ سے اچھی امید کے ساتھ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد، دستوری ذرائع کا استعمال، قول لین کے ساتھ کرنا ہی دین کی حکمت ہے ۔ جن حالات میں انتخابات ہوئے ہیں، وہ اس لحاظ سے بھی بہت اہم ہیں کہ آنے والے چند برسوں میں اداروں پر اعتماد کی بحالی ہی سب سے مشکل کام ہے، جس پر پوری قوم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک ملکی ادارے غیرجانب دار اور ملکی مفاد کو اوّلیت نہیں دیں گے اور اپنے مفادات کے غلام بنے رہیں گے، ملک میں استحکام نہیں آسکتا۔ قومی سرمایے سے قوت اور اختیار حاصل کرنے والے طاقت ور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں واپس جانا ہوگا اور یہ فیصلہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعے دُہرا دیا ہے۔ یہ ووٹ جو عوامی شعور نے دیا،اس کا مظاہرہ آج سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ زیرِ لب الزام اور محدود سطح پر لعن طعن ہمیشہ تھا، لیکن قوم نے بڑے پیمانے پر آزاد نمایندوں کے حق میں ووٹ دے کر ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو سیاسی منجم لگا رہے تھے، اور جو ہر آمرانہ، سرمایہ دارانہ ماحول میں پلنے بڑھنے والے اہلکاروں کے ذہن میں پائے جاتے ہیں۔

قومیں ایسے ہی وجود میں آتی ہیں۔ جب خاکہ اُبھر کر سامنے آتا ہے اس میں رنگ بھرنے کی فوری ضرورت ہوتی ہے۔ یہ رنگ محبت ،اطاعت، ایمانداری اور دین اور ملک کے مفاد کو محفوظ کرے گا۔تحریک اسلامی کو صبغت اللہ کو اپنی پہچان بنانا ہوگا۔اگر اس کا ہر اقدام دعوتی اور اصلاحی جذبے کے ساتھ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ملک ِعزیز کو اپنے قیام کے مقصد کے حصول سے نہیں روک سکتی۔ یہ ملک بنا ہی اس لیے تھا کہ یہاں وہ نظام عدل قائم ہو جس کا درس ہمیں مدینہ منورہ میں قائم کردہ ریاست سے ملتا ہے۔ قائداعظم، علّامہ اقبال اور سیّد مودودی ایسی ہی عادلانہ، نہ کہ آمرانہ ریاست کے قائل اور علَم بردار تھے۔

 _______________

آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اشاعت

دُنیا کے ملکوں کے دساتیر میں جن شہری حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے، ان میں آزادیٔ رائے ، اجتماع، ملکیت، جان و مال، شہرت وغیرہ کا تحفظ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تمام انسانوں کے لیے جو ہدایت نازل فرمائی ہے،وہ سب دساتیر سے زیادہ اکرامِ انسانیت کی تعلیم دیتی اور ایسے قوانین فراہم کرتی ہے، جو آنے والے ہردور میں انسانوں کی جان، مال، عزّت، شہرت اور آزادیٔ فکر وغیرہ کو بنیاد شمار کرتی ہے۔

اسلام کا یہ اعجاز ہے کہ وہ نامکمل ہدایات نہیں دیتا۔ اگر ایک عمل کی آزادی دیتا ہے تو ساتھ ہی وہ حدود بھی متعین کردیتا ہے، جنھیں پار کرنا، قانون کو حرکت میں لے آتا ہے۔ قرآنِ عظیم نےدین اسلام کی اقامت کے حوالے سے واضح الفاظ میں اُمت مسلمہ کو باضابطہ طور پر امربالمعروف اور نہی عن المنکر اور حاکمیت ِ اعلیٰ کے قیام کے لیے ذمہ داری سونپی ہے۔ قیامت تک یہ ذمہ داری ادا کرنے اور جواب دہ ہونے کا حکم دیا ہے۔ مگر ساتھ یہ بات بھی طے کردی ہے کہ کسی فرد پر جبری طورپر کوئی تعلیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ کسی غیرمسلم کو مجبور کرکے مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔

لیکن چند ایسے افراد کا ایک گروہ اور ان کی پشت پناہی کرنے والے بعض بیرونی اور اندرونی ادارے، جو ببانگ ِدہل اپنی تحریروں میں دُنیا کے تمام مسلمانوں کو اس وقت تک ’کافر‘ ماننے پر اصرار کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اُن کے وضع کردہ ایک جھوٹے مدعیِ مسیح و نبوت کو اپنا رہنما  نہ مان لیں۔ ان قادیانی یا مرزائی یا احمدی افراد کی شائع کردہ ایک تصنیف تفسیرصغیر  کی طباعت اور پاکستان اور ملک سے باہر اس کی تقسیم کرنے والے ایک فرد کے خلاف ملکی قانون کی رُو سے ایک مقدمہ (FIR) ۲۲/۶۶۱، ۶ دسمبر ۲۰۲۲ء کو چناب نگر تھانے میں دائر کیا گیا کہ ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ ۲۰۱۱ء کے سیکشن ۱۷ ، ۹ (ب) اور ’تعزیراتِ پاکستان‘ (Pakistan Penal Code) کے سیکشن ۲۹۸-سی اور ۲۹۵-بی کے تحت سزا دی جائے، چنانچہ اسے قید کردیا گیا۔

مجرم کی جانب سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجداری درخواست دائر کی گئی اور سپریم کورٹ نے ایک فنی نکتہ کی بناپر یعنی مجرم نے یہ جرم ۲۰۱۹ء میں کیا تھا، اور قانون کا نفاذ ۲۰۲۱ء میں ہوا اور چونکہ مجرم کے جرم کرتے وقت یہ قانون حرکت میں نہیں تھا، اس لیے اس قانون کے تحت اس کی گرفتاری غیرقانونی تھی۔

محترم چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں یہ نصیحت بھی فرمائی ہے: ’’(۶) عقیدے کے متعلق مسائل سے نمٹتے وقت عدالتوں پر لازم ہے کہ بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں…(۱۶) مذہب کے خلاف جرائم سے نمٹتے ہوئے جذبات، حقائق کی جگہ لے لیتے ہیں‘‘___ چنانچہ فنی بنیاد پر مجرم کو رہا کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے سے قطع نظر جو پہلو زیادہ غورطلب ہے، وہ یہ کہ اگر تفسیرصغیر ، جیساکہ نام سے ظاہر ہے، قرآن کی تفسیر ہونی چاہیے، اور ۹۷ فی صد مسلم آبادی کے ملک میں ایک ایسا فرد، جو قرآن کے واضح حکم یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل نہیں ہے ، اور ایک جھوٹے مدعی کو نبی یا مجدد مانتا ہے تو FIR میں درج دیگر دفعات، جن کا تعلق توہینِ قرآن و رسالتؐ سے ہے،انھیں فیصلے میں کیوں مکمل طور پر ایسے نظرانداز کردیا گیا ہے، جیسے ان کا ذکر فردِ جرم میں ہوا ہی نہ ہو؟

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ: کیا آزادیٔ رائے کا اصول، چاہے وہ دستور ِ پاکستان میں ہو، ایک غیرمسلم قادیانی کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی من مانی تفسیر قرآن کو ملکی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے (دیکھیے: ۲۹۸-سی، پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈ ایکٹ ۲۰۱۱ء، سیکشن ۷،۸،۹) تفسیرصغیر کے عنوان سے مسلمانوں کو دھوکا دےکر ایک ایسی تحریر جو قادیانی فکر کی نمایندگی کرتی ہے، مسلمانوں میں تقسیم کرے؟ کیا اسی کا نام آزادیٔ اظہار ہے؟

پاکستان کا ہرمسلمان شہری شریعت کے منافی یہ حق کسی قادیانی، فرد یا ادارے کو دینے پر تیار نہیں ہے، اور نہ یہ حق دستورِ پاکستان اور ’قانون تعزیراتِ پاکستان‘ کسی غیرمسلم کو دیتے ہیں۔  اندریں حالات، اس فیصلے کو قانونی کارروائی کے ذریعے کالعدم کرانا ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔

رمضان کے روزوں کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (بخاری، مسلم ،ابو داؤد)، ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے‘‘۔

اس پورے ایک ماہ کی تربیت و اصلاح کو تین مراحل میں تقسیم کرتے ہوئے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ انعامات سے نوازا گیا ہے، جن سے مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں نوازا گیا: پہلا انعام یہ ہے کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو (اللہ عزوجل امت محمدیؐ کو) نظرِ رحمت سے دیکھتا ہے اور جسے اللہ (نظرِ رحمت سے) دیکھتا ہے، اسے کبھی عذاب نہیں دیتا ۔دوسرا یہ کہ (روزہ دار) کی منہ کی بُو (دن بھر بھوکا رہنے سے ) جب وہ شام کرتے ہیں، اللہ کے ہاں کستوری کی مہک سے زیادہ پاکیزہ ہوتی ہے۔ تیسرا یہ کہ فرشتے ہر رات دن میں ان کے لیے دعا کرتے ہیں ۔چوتھا یہ کہ اللہ اپنی جنت کو یہ کہہ کر حکم دیتا ہے کہ میرے بندوں کے لیے آمادہ و تیار ہو جا اور زینت کر لے، وہ (روزے دار)دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میری عزت افزائی میں آرام کریں گے۔ پانچواں یہ کہ جب آخری رات ہوتی ہے تو اللہ ان کی مغفرت فرماتا ہے (بیہقی ، عن جابر بن عبداللہ)۔

اس نوعیت کے انعام وبرکت کا ذکر اس حدیث میں بھی آتا ہے، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے، اور جس شخص نےرمضان میں قیام کیا (رات کو کھڑے ہو کر عبادت کی) ایمان و احتساب کے ساتھ تو اس کے وہ تمام قصور جو اس سے پہلے کیے ہوں گے،معاف کر دیے جائیں گے، اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کر دیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کیے ہوں گے (متفق علیہ)۔

رمضان کے روزوں کی شانِ نزول

رمضان کے روزوں کی فضیلت کو سمجھنے کے لیے اس ماہ میں روزے کی شانِ نزول کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں جس معاشرے اور ریاست میں دین کی اقامت ہونی تھی، اس کے لیے تین عناصر لازمی تھے: ایسی سرزمین جہاں حاکمیت الٰہی کو اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ نافذ کیا جا سکے، ایسی افرادی قوت جو اقامت دین کرنے کی خصوصیات و کردار سے آراستہ ہو، اور ایسا پیمانہ جو افراد اور معاشرے کی صالحیت، للہیت اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سمع و طاعت کو جانچنے میں مدد کر سکے___ ان تین بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے ہجرت کے بعد اسلامی معاشرے کی تعمیر حاکمیت الٰہی اور اقامت دین کی صورتِ حال کا تعین کرنے کے لیے دو ایسے اقدامات تعلیم کیے گئے، جن کے بغیر یہ اہم کام ممکن نہیں ہوسکتا تھا یعنی تربیت نفس، قلب، ذہن اور جسم کے لیے ایک ماہ کا نظام تربیت اور اس نظام تربیت سے گزرنے والوں کے لیے جانچنے کا پیمانہ جہاد۔

یہ پہلا رمضان تھا، جس میں ایک جانب تزکیۂ نفس و اخلاق اور دوسری جانب تقویٰ، قرب الٰہی اور اطاعت ِرب اور اطاعت ِ رسولؐ کا پیمانہ اجتماعی جہاد کی شکل میں اہل ایمان کے لیے مقرر کیا گیا۔ ۱۷رمضان کو ہونے والے معرکۂ بدر نے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچا دی کہ اہل تقویٰ اور اللہ کی مغفرت کے مستحق مجاہدین فی سبیل اللہ ہوتے ہیں یا جان بچا کر بیٹھنے والے قائدین؟ صیامِ رمضان کی فرضیت کو اس کے ممکنہ نتیجہ(out come) یعنی حصولِ تقویٰ سے وابستہ کر دیا گیا، کیونکہ تقویٰ کے بغیر نہ فرد، نہ معاشرہ اور نہ اقامت دین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس تقویٰ، توکل علی اللہ اور اطاعت الٰہی اور رسول کو جاننے کا پیمانہ جہاد بھی فرض کر دیا گیا، تاکہ کسی بھی دور میں اقامت دین کی جدوجہد کے لوازمات ،مطلوبہ نظامِ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ اسے جانچنے کا پیمانہ بھی سامنے آجائے۔

روزہ اور ضبط نفس

رمضان کے روزے نہ صرف اہل ایمان کی سیرت و کردار میں ظلم و استحصال کے خلاف عملی جدوجہد کرنے کی استطاعت پیدا کرتے ہیں بلکہ اس روایتی نفس کشی کی اصلاح بھی کرتے ہیں، جس کا تصور بعض دیگر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے ماننے والے بھوک، پیاس، نیند اور آرام اور جنسی خواہش سے آزاد ہونے کو معرفت ِنفس سمجھتے ہیں۔اسلام انسان کی فطرت سے انحراف نہیں کرتا۔ یہ جسم ونفس کی ضروریات کی نفی نہیں کرتا بلکہ انھیں ایک مصلح قوت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ بقول مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ:’’اسلام جس ضبط کا قائل ہے، وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سرِ تسلیم خم کر دے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اُس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے‘‘۔( نشری تقاریر ،ص ۸۰-۸۱)

رمضان اور قرآن کے حقوق

رمضان کے روزوں سے جو تربیت اور تعمیرِ سیرت و کردار مقصود تھی، اس کو بھی قرآن کریم نے مبہم نہیں چھوڑا بلکہ چند الفاظ میں وضاحت سے بیان کر دیا، یعنی اس ماہ کی فضیلت اور برکت کا سب سے اہم سبب اس ماہ میں قرآن کریم کی شکل میں انسانوں کے لیے ہدایت کا مکمل نظام نازل کرنا ہے ،جو بذات خود شان کریمی کا ایک مظہر ہے کہ وہ جو مکمل طور پر عفو و درگزر سے اوراپنے بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ اپنے بندوں کو ٹھوکریں کھا کر حق و صداقت تک پہنچنے سے بچانے کے لیے اس نے اپنی جانب سے اسی ماہ میں وہ کلامِ عزیز نازل کیا ، جو قیامت تک انسانیت کے لیے واحد راہِ نجات و کامیابی ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ (البقرہ۲:۱۸۳)اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیاؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔

اس ایک ماہ کی تربیت سے اسی وقت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب اس مہینہ میں اس کی اصل روح اور مقصد کو سامنے رکھا جائے اور قرآن کریم سے وہ حقیقی تعلق قائم کیا جائے جو اقامت ِدین کی اولین شرط ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ (البقرہ۲:۱۸۵)رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔

 قرآن ِ کریم کی شکل میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے اس ماہ میں جو رحمت اہل ایمان اور تمام انسانوں کے لیے نازل کی گئی ہے اس کااوّلین مطالبہ بلکہ حق یہ ہے کہ اسے صحیح طریقے سے تلاوت کیا جائے اورساتھ ہی اس کے مفہوم پر غور کرتے ہوئے اپنی سیرت و کردار کو اس کے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ صبغت اللہ کو اختیار کرنے سے یہی مراد ہے کہ ایک صاحبِ ایمان شخص اور ایک صاحب ِایمان معاشرہ اپنے ہر عمل اور اقدام کو کرنے سے پہلے یہ دیکھے کہ اس کے اس عمل سے اس کا ربّ خوش ہوتا ہے یا ناراض؟ تقویٰ اسی رضائے الٰہی کے حصول اور اللہ کے غضب سے بچنے کا نام ہے۔ جب تک اس کلامِ حق کی تلاوت صحیح طور پر نہ کی جائے اور اس کے معنی ومفہوم کو سمجھ کر وظیفۂ عمل نہ بنایا جائے، اس وقت تک ہمارا یہ کہنا کہ ہم اللہ ،اس کے کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کو مانتے ہیں صرف ایک زبانی دعویٰ ہے۔

 قرآن کریم کے ذریعے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے لیے اس عظیم کلام کا دوسرا حق یہ ہے کہ اس کے فہم کو اپنے فکر و عمل میں اس طرح ڈھالا جائے جس کی زندہ مثال حیات طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب کسی نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا تو ان کا انتہائی مختصر لیکن جامع جواب یہی تھا کہ کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیں کیا؟ آپؐ کا ہر عمل قرآن کریم کی تفسیر و تشریح تھا۔قرآن پر جتنا تفکر و تدبر کیا جائے گا، اتنا ہی ایک صاحب ِایمان سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ ہوگا ۔اس کا سوچنا، کاروبار کرنا، فیصلے کرنا ہرمعاملہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ہوگا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر اقامت ِدین کا فریضہ جیسا کہ اس کا حق ہے، ادا نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندگی بھر کے تمام معاملات میں قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بناتے تھے اور یہی ان کی اقامت دین کی کوششوں کی کامیابی کا سبب تھا۔

قرآن کریم کا تیسرا اہم حق یہ ہے کہ قرآن کے سائے میں تعمیر سیرت کرنے کے ساتھ دعوتِ قرآن کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے کی جہدِ مسلسل ہو۔ گویا قرآن کو سمجھنے، اس پر تفکر اور تدبر کرنے کا تقاضا ہے کہ قرآن کی دعوت کو قائم کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوکراور اس مقدس کام میں اپنی تمام متاع ِ حیات کو لگا دیا جائے ۔یہی وہ قیمتی ترین سرمایہ کاری ہے ، جس میں نہ کبھی نقصان ہوا نہ کمی بلکہ ہر لمحہ رب کریم کی غیر محدود رحمت کے سبب اضافہ اور بڑھوتری ہی ہوتی ہے۔

قرآن کریم جس تقویٰ کو پیدا کرتا ہے وہ ایک صاحب ِایمان کو حقیقی حریت سے آشنا کرتا ہے۔ وہ جو کل تک دن میں تین چار مرتبہ زبان کی لذت اور معدہ کی پکار پر کھانے پینے کا عادی تھا، جس کا دن بھر کا مشغلہ کہیں سبز ،کبھی سیاہ چائے، کبھی کافی ، کبھی پھلوں کا رس پینا تھا۔ وہ اپنے جسم کو لذّتِ کام و دَہن کی غلامی سے آزاد کر کے صبح سے شام تک ایک گھونٹ پانی یا چائے کے بغیر نہ تھکن محسوس کرتا ہے ،نہ اس کی طبیعت میں چڑچڑاہٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ ہر آنے والے مہمان کے ساتھ مسکرا کر اور رمضان کی مبارکباد کے ساتھ اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ جو کل تک آٹھ نو گھنٹے سونے کو بھی کافی نہیں سمجھتا تھا کہ اس کے نفس کا حق ادا نہیں ہوا، اب فجر سے مغرب تک روزہ رکھنے کے بعد گرم جوشی کے ساتھ عشاء کی نماز اور پھر ایک ڈیڑھ گھنٹے مزید تراویح میں شرکت میں لذت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ چاہتا ہے کہ سحری سے پہلے بھی کم از کم دو رکعت تہجد پڑھ لے اور فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کر لے ۔یہ جوش اور ولولہ،یہ ایمان کی تازگی اس مبارک مہینہ کی رحمت و برکت ہی سے ہوتی ہے۔یہی وہ حریت و آزادی ہے، جس کا مطلب اپنی خودی اور نفس کو اللہ کی رضا کا تابع کرنا ہے ۔ یہ رمضان کے روزوں سے پیدا ہوتی ہے اور جس کی لذت ایک مسلمان محسوس کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔

مطلوبہ صفات کا حصول

یہ پورا مہینہ انفرادی اور اجتماعی تربیت کے ذریعے اہلِ ایمان کو اپنی سیرت و کردار میں وہ صفات پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے،جن کے بغیر اقامت دین کا کام آسانی سے نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سب سے پہلی صفت صبر کی ہے۔ صبر کا ایک مفہوم وہ ہے کہ جو ہر بچہ اور بڑا جانتا ہے یعنی اپنی روز مرہ زندگی میں قناعت کا رویہ اختیار کرنا۔ بغیر کسی شکایت کے جو کچھ اللہ نے دیا اس پر شکرگزار ہونا، لیکن صبر کا وہ مفہوم جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایاہے بہت وسیع ہے ۔ اس میں دوچیزیں بنیادی ہیں۔ اوّلاً: حق پر جمنے کے ساتھ اعتماداور توکّل، اور دوسرے جہد ِ مسلسل ۔ یہی اقامتِ دین کی روح ہے اور یہ رمضان کے روزوں سے حاصل ہونے والی ایک بنیادی صفت ہے۔ ایک روزے دار صرف اللہ کے لیے بھوک و پیاس، جسمانی آرام، جائز لذت سے نہ صرف رُکتا ہے بلکہ ان تمام مواقع سے اپنے آپ کو بچاتا ہے جو اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف کوئی رجحان پیدا کرتے ہوں۔ یہاں صبر میں سب سے زیادہ نمایاں پہلو استقامت کا نظر آتا ہے جو اقامتِ دین کے لیے ایک لازمی صفت ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نہ صرف انفرادی صالحیت ، تقویٰ اور احسان ضروری ہے، بلکہ اجتماعی طور پر ایک ایسی جماعت کا وجود میں آنا ضروری ہے جو اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی فرماں بردار ہو۔ جو کسی اقتدار ،منفعت، شہرت ،منصب اور لالچ کی غلام نہ ہو بلکہ اس جماعت کا ہر فرد اور بذاتِ خود و ہ جماعت شہرت، منصب اور منفعت سے بلند ہو۔ اس کے سامنے کامیابی صرف اور صرف آخرت کی کامیابی ہو ۔اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ دنیا میں اس جماعت کو اقامتِ دین میں کامیابی دے دیں تو یہ ان کا فضل و کرم ہے، لیکن اس جماعت کا اصل ہدف اور نصب العین اصلاً آخرت کی کامیابی ہو۔

اللہ کی حاکمیت اپنی ذات پر ، اپنے خاندان پر، اپنے معاشرہ میں اور اللہ کی زمین پر قائم کرنا اقامت دین کا پہلا مطالبہ ہے اور اس مقصد کے لیے فرد اور جماعت کا بے غرض ہونا پہلی شرط ہے۔للہیت کے ساتھ صرف اللہ تعالی کی بندگی و اطاعت کو اپنے گھریلو معاملات میں، معیشت میں، اخلاق میں ،سیاست میں، غرض زندگی کے تمام معاملات میں صرف اللہ کی رضا کو مقصود بنانا ہی اس کا مقصود ہو۔ جب تک فرد اور جماعت اس حوالے سے ایک سطح پر (on one page) نہیں ہوں گے اقامت دین کا کام نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ دین کا کُلی قیام محض حصول اقتدار نہیں ہے بلکہ پوری زندگی کے معاملات میں بہ شمول افراد اور ریاست اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا قیام ہے۔ رمضان کے روزے اسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام اور اقامت دین کے لیے مطلوبہ کردار اور سیرت یا تقویٰ کی تیاری کے لیے فرض کیے گئے ہیں۔

روزہ کے آداب

امام غزالیؒ نے روزہ کے آداب کو چھ مختصر نکات میں انتہائی مؤثر اور مدلل انداز میں بیان کیا ہے:

  • پہلا ادب یہ کہ ایک روزہ دار اپنی نگاہ کو باحیا بنائے۔ چنانچہ نگاہ صرف اسی جانب جائے جو خیر اور حلال ہو ۔اس بات کو حضرت جابرؓ سے مروی ایک حدیث میں یوں کہا گیا ہے کہ شہوت کی نگاہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
  • دوسرا ادب یہ ہے کہ زبان کو جھوٹ اور غیبت سے محفوظ رکھا جائے اور ان کے خلاف روزہ کو ڈھال بنا لیا جائے۔
  • تیسرا ادب یہ ہے کہ اپنے کانوں کو صرف حق اور سچائی کی بات سننے کی تربیت دی جائے اور جھوٹ اور غیبت کے سننے سے مکمل پرہیز کیا جائے کہ اس کا سننا حرام ہے ۔
  • چوتھا ادب یہ ہے کہ اپنے اعضا ہاتھ پاؤں کو گناہ کی جانب بڑھنے سے روکا جائے اور اپنے پیٹ اور جسم کو حرام غذا اور لباس سے روکا جائے۔ کیونکہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انھیں روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
  • پانچواں ادب یہ ہے کہ افطار میں حلال کھانا بھی اعتدال کے ساتھ کھائے اور غذا کو اپنے اُوپر بوجھ نہ بنا لے۔
  • چھٹا ادب یہ ہے کہ روزہ مکمل کرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے حضور استدعاکرتا رہے کہ وہ اپنی شان رحیمی سے اسے معاف فرما دے اور اُس کے اِس عمل کو قبول فرما لے کیونکہ یہ اس کا اختیار ہے کہ وہ کسی عمل کو قبول کرے یا نہ کرے ۔

ان چھ آداب کا اہتمام روزہ کو نہ صرف تربیت و اصلاح اور حقیقیِ ضبط نفس کا ذریعہ بناتا ہے بلکہ اس دنیاوی زندگی میں ظلم و استحصال، کفر و طاغوت اور شرک کے خلاف جہاد کرنے کے لیے بہترین قوت، صلاحیت اور استعداد پیدا کرتا ہے۔

قوتِ ایمانی

 رمضان کے روزے ایک مسلمان کے دل و دماغ کو وہ غذا فراہم کرتے ہیں جو ان کی حقیقی تقویت کا باعث ہو۔جس طرح ایک ماہر قلب ایک شخص جس کا قلب کسی مرض کا شکار ہو، اس کو نہ صرف کوئی دوا بلکہ ساتھ ہی کچھ ورزشیں، کھانے پینے اور اوقات کار کے بارے میں ہدایات دیتا ہے ۔ایسے ہی رمضان کے روزے قلب و دماغ کی قوت کے لیے یہ آزمودہ نسخہ تجویز کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنی زندگی کو بے شمار آقاؤں کی غلامی سے نکال کر صرف ایک اللہ کی بندگی اختیار کر لے، صرف اس کا عبد اور عابد بن کر اپنے قلب و دماغ کو یکسو کر لے۔ اللہ کا بندہ بننے سے جو قوت ملتی ہے، اس کی اعلیٰ مثال مکہ کی موسم گرما میں تپتی ہوئی سنگلاخ وادی میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال ؓ کا طرزِ عمل ہے جو قیامت تک ایک زندہ مثال رہے گا۔ جلتی ہوئی سنگلاخ زمین پر چت لٹا کر ان کے سینے پر پتھر کی گرم سلیں رکھ دی جاتیں اور تپتی زمین پر گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹا جاتا ہے لیکن وہ تمام غلامیوں سے آزاد ہو کر جس رب کے ہو رہے تھے اسی کا نام احد، احد کہہ کر پکارتے ہیں اور ظلم و تشدد انھیں ایک لمحے کے لیے مفاہمت پر آمادہ نہیں کرپاتا۔

اللہ سے تعلق جڑنے کے بعد حضرت بلالؓ نے عزیمت کی جو مثال قائم کی وہ ہمیشہ اہل ایمان کے لیے ایمان اور یقین کے روشن راستے کی نشان دہی کرتی چلی آرہی ہے ۔ ان کے سینے پر پر پتھر کی گرم سلیں رکھ کر کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا رب مان لو تو ان کا جواب صرف یہی ہوتا ہے کہ نہیں میں تو صرف اس ربّ کا بندہ ہوں جو احد ہے ،جس کا کوئی مثل نہیں، جویکتا ہے، جو تمام کائنات کا مالک ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو قلب اور دماغ کو یکسو کر دیتی ہے اور ایک مسلمان اِس قوت کی بنا پر ظلم و استحصال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔

 یہی قوتِ ایمانی ہے کہ چار ماہ سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی غزہ اور فلسطین کے مظلوم مسلمان اپنے سے دس گنا زیادہ بڑی آبادی اور دنیا کی چوتھی عسکری طاقت کے سامنے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہیں اور انھوں نے نہ عربوں پر بھروسا کیا نہ ترکوں اور پاکستانیوں پر، بلکہ وہ صرف اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ پر ایمان رکھتے ہیں ۔یہی تقویٰ اور ایمان کا پیمانہ ہے ،یہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہی اقامت دین کے لیے اپنے آپ کو منظم کرنا ہے۔ گویا قوت ایمانی جو رمضان کے روزہ سے حاصل ہوتی ہے اگر اسے صحیح طریقے سے دل و دماغ میں جاگز یں کر لیا جائے، تو پھر میدان بدر ہو یا حنین، جو ایک مرتبہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر استقامت اختیار کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے فرشتے بھیج کر ان کی امداد فرماتے ہیں ۔

 اہم اورقابلِ غور پہلو صرف یہ ہے کہ کیا واقعی جو لوگ اقامت دین کی جدوجہد کے لیے نکلے ہیں کیا ان کا اللہ پر ایمان و توکّل اور طرزِ عمل اس معیار کا ہے، جس کی بنا پر رب کریم فرشتے بھیجتے ہیں، یا ابھی ان کی استقامت اور اللہ کی حاکمیت کو اپنی سیرت اور اپنی معاشرت میں مکمل طور پر نافذ کرنے میں کوئی کمی ہے؟ مدینہ کا معاشرہ اور ریاست اسی وقت وجود میں آئی جب تحریک اسلامی کے کارکن اور قیادت آزمایشوں کی بھٹی سے گزر کراور ہر تکلیف دہ مرحلہ سے کامیاب ہو کر مکہ کی سنگلاخ چٹانوں سے مدینہ کی زرخیز زمین میں پہنچے، تو اس کے پاس وہ افراد کار تھے جو آزمائشوں میں ثابت قدم اور ہر لمحہ تقویٰ اور ایمان اور احسان میں ترقی کی طرف گامزن تھے۔

رمضان کے روزے انفرادی اور اجتماعی اصلاح اور فلاح کی ضمانت ہمیں صرف اس وقت دیتے ہیں جب قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق کتاب کو محض پڑھنے کی جگہ کتاب پر عمل کرنے والا ہو اور اس کتاب کے ذریعے تزکیۂ نفس ،تزکیۂ مال، تزکیۂ اوقات اور تزکیۂ معاشرتی رسومات کرنے والا ہو۔ رمضان کا حق ایک صاحب ایمان پر یہ ہے کہ اس کا استقبال محض مسجد کے میناروں پر چراغاں کر کے نہ کیا جائے بلکہ دل کی ویران بستی کو اس کے نور سے منور کیا جائے۔اس کی دعوت انقلاب کواپنے ذاتی معاملات اور معاشرہ میں اللہ کی حاکمیت کے قیام اور اللہ کے دین کو اپنی مجموعی شکل میں اللہ کی زمین پر قائم کرنے کی جدوجہد کا کام تیز سے تیز تر کیا جائے۔ اپنے گھروں میں اس ہدایت اور فرقان کی روشنی میں تعمیر سیرت و کردارکی جائے۔ اس ابدی ہدایت کی سربلندی کے لیے معاشرہ سے استحصال، جہالت، جاہلانہ رسومات کی غلامی، مغربی استعمار سے مرعوبیت، بیرونی اداروں کی غلامی اور خصوصاً ملک کے دستور کی خلاف ورزیوں کو دور کیا جائے۔ پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا اس کے حصول کی جدوجہد کے لیے سرگرم ہوا جائے ۔

اس ماہ کی ۲۷ویں شب کی اہمیت اور برکت پر نہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم جیسی لازوال نعمت کے نزول کے حوالے سے بلکہ خود قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور جس طرح قرآن کریم نے شرک اور بت پرستی کے فتنہ کو دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دور کیا، ایسے ہی آج اس عظیم کلام کے ذریعے پاکستان سے بدعتوں، بد عنوانیوں، دہشت گردی، معاشی استحصال ، نظام خاندان کے انہدام،معاشرتی زوال اور سیاسی بےیقینی کو دُور کر کے ملک کے دستور کی روشنی میں ایسے افراد کو برسرِ اقتدار لایا جائے، جو اللہ اور اس کے رسولؐ کے وفادار، ایماندار، سچے اور امین ہوں ۔جو نظریۂ پاکستان کے محافظ اور اسلامی طرزِ حیات پر عامل ہوں۔ جن کا ماضی ہر قسم کی بد عنوانیوں سے پاک ہو اور جو بے لوثی کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی اس عظیم نعمت و امانت پاکستان میں اللہ کے دیے ہوئے نظام کو نافذ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ سے زیادہ وعدہ کی پابندی کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ اس کا وعدہ ہے کہ وہ ایسے افراد کو جو خلافت فی الارض کی امانت کے اہل ہوں اور اس جدوجہد میں مخلص ہوں، جو اپنی ذات کی نمایش کی جگہ غلبۂ حق و صداقت اور عدل اجتماعی کو اہمیت دیتے ہوں، ایسے افراد کو وہ جنتوں کا وارث بنائے گا اور عین ممکن ہے کہ وہ انھیں اس دنیا میں میں بھی سلطنت اور اقتدار بخش دے ۔ اگر اس وعدہ کی تکمیل میں تاخیر ہے تو اس کا واضح سبب اہل امانت میں صلاحیت کا فقدان ہے کیوں کہ وہ صرف اصحاب رُشد وکمال ہی کو قیادت دیتا ہے ۔

ملت اسلامیہ کی تاریخ میں بیسویں صدی میں دو ایسے اہم واقعات کا ظہور ہوا، جنھوں نے مغربی مفکرین اور خصوصاً مستشرقین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا اس جدید لادینیت کے دور میں ایک صدیوں پرانا سیاسی نظام، جس کی بنیاد انسانوں کی محدود عقل کی بنیاد پر وجود میں آنے والے قوانین پر نہیں بلکہ کئی سو سال پرانی الہامی شریعت پر ہو ، قابل عمل اور قابل نفاذ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کے اُبھرنے کا ایک بڑا سبب بیسویں صدی میں ابھرنے والی دو اہم اسلامی تحریکات اخوان المسلمون (۱۹۲۸ء) اور جماعت اسلامی (۱۹۴۱ء ) کی دعوت کا بنیادی نکتہ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی معاشرہ اور ریاست کا قیام تھا، جو مغرب کی زمان و مکان کی غلام، لادینی سیاسی فکر سے براہِ راست ٹکراتا تھا۔

دوسرا اہم واقعہ ۱۹۴۷ء میں اللہ کی حاکمیت قائم کرنے کی غرض سے وجود میں آنے والی ریاست پاکستان کا قیام تھا ۔ جو اسلام کے نام پر اسلامی نظام حیات اور تہذیب ِ اسلامی کے احیا اور قیام کی ایک کوشش تھی اور جس کا سہرا برطانوی لادینی سیاسی نظام سے بخوبی آگاہ ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے سرتھا، جنھوں نے اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ پاکستان کا قیام مسلمانوں اور اس خطے میں اسلام کی بقا کے لیے ایک لازمی شرط ہے ۔ 

مغربی سیاسی فکر، کلیسائی عیسائیت سے بغاوت کے نتیجے میں وجود میں آئی، جس میں قانون سازی ، معیشت اورمعاشرت کو عوام کے نمایندوں کی مرضی کا تابع کر دیا گیا اور یہ تصور راسخ کرلیا گیا کہ لادینی جمہوریت ہی دور جدید کے مسائل حل کر سکتی ہے ۔ عیسائیت (یا دیگر مذاہب) کے دور کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ البتہ ذاتی سطح پر ایک فرد اگر چاہے تو وہ عیسائیت یا اپنے کسی بھی عقیدے اور مذہب کی تعلیمات کو اختیار کر سکتا ہے۔ گویا زمان و مکان کی حدود اور دائرہ کار کو ذاتی اور عوامی یا Public place میں تقسیم کر دیا گیا اور اسی تصور کو ’جدیدیت‘ اور تہذیب کے ’نقطۂ کمال‘ سے تعبیر کیا گیا۔

اس مغربی فکری تناظر میں تحریکات اسلامی کا قیام اور ان کے نصب العین میں فرد ،خاندان، معاشرہ اور ریاست کو صرف ایک اصول یعنی توحید کا تابع قرار دینا،مغربی ذہن کے لیے ناقابلِ فہم معاملہ تھا ۔ آج اسلام کے سیاسی نظام کے قیام کی ہر کوشش کو  Political Islam یا ’سیاسی اسلام‘ جیسی توہین آمیز اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ،جب کہ اسلامی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی نظام کا قیام مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی نگاہ میں ایک ناقابلِ عمل تصور ہے۔

’سیاسی اسلام‘ کی تعریف مغربی دانشوروں کی نگاہ میں اسلام کی وہ تعبیر ہے جس میں اسلام محض عبادات و رسومات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ ذاتی حدود سے نکل کر عوامی حدود میں دخیل ہو اور معاشی ، سیاسی اور معاشرتی معاملات میں ’شریعت‘کے اطلاق کی کوشش کرے۔ مغربی لادینی جمہوریت، ذاتی اور عوامی دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے پر ایمان رکھتی ہے اور یقینی حد تک یہ سمجھتی ہے کہ معاشی ترقی( Economic Development) اور معاشی فلاح (Economic Well being) صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب معاشی، سیاسی، قانونی اور انتظامی اُمور میں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو۔

’سیاسی اسلام‘ اور اسلامی تحریکوں پر تنقید

یہ وہ بنیادی عنصری فرق ہے، جس کی بنا پر دنیا میں کوئی بھی اسلامی تحریک ، وہ اخوان المسلمون ہو، جماعت اسلامی ہو، نورسی تحریک ہو وغیرہ۔ اگر اس کے نصب العین میں فرد کی تعمیرِ سیرت کے ساتھ معاشرے، معیشت ،قانون اور سیاسی نظام کی اصلاح شامل ہے تو وہ ’رجعت پسند‘، ’بنیاد پرست‘ ، ’انتہا پسند‘ ، حتیٰ کہ ’تشدد پسند‘ کہلانے کی مستحق بن جاتی ہے۔اور اس پر Political Islam یعنی ’سیاسی اسلام‘ کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے ۔اس فکر کے برخلاف اسلام اصولی طور پر لادینیت کی کوکھ سے پیدا ہونے والے ہر نظام کو چیلنج کرتے ہوئے معیشت، معاشرت، ثقافت، سیاست اور قانون، غرض یہ کہ ہر شعبۂ حیات کو ایک آفاقی عالم گیر اخلاقی ضابطے کا پابند بنانا چاہتا ہے۔ تحریک اسلامی کا یہ مزاج بیسویں صدی کی پیداوار نہیں ہے (یہ مستشرقین اور مغربی دانش وروں کی غلط فہمی ہے کہ تحریکاتِ اسلامی سامراجی نظام کے ردِ عمل کے طور پر وجود میں آئی ہیں یا یہ کہ یہ ایک ایشیائی معاملہ ہے)۔

اسلام کی تعلیمات اور تصور حضرت ابراہیم ؑسے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک توحید پر مبنی ہے۔ یہ تصور جو صرف ذاتی زندگی (personal space) میں نہیں بلکہ معاشی، قانونی، سیاسی، بین الاقوامی اور ثقافتی میدانوں میں الہامی تصور حلال و حرام ،قرآنی تصور تقویٰ،احسان، عدل، عفوو درگزر ،بین الانسانی تعاون البر اور منکر، فحش اور رذائلِ اخلاق کے خلاف منظم جدوجہد کا نام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان تعلیمات کی تازگی میں نہ کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ اس کی ضرورت تھی، کیونکہ اگر دین ابراہیمیؑ میں تقویٰ کا مطلب اللہ تعالی کی خشیت تھا تو شریعت محمدیؐ میں بھی یہ تصور جوں کا توں پایا جاتا ہے۔اگر صداقت کا مطلب دین ابراہیمیؑ میں طاغوت کے سامنے توحید کو بلاکسی معذرت و نظرثانی کےپیش کرنا تھا، تو آج بھی صداقت و امانت کا مفہوم وہی ہے۔ اخلاق ایک اضافی عمل نہیں ہے بلکہ اسلام اخلاق کو مطلق طور پر ایک عالم گیر فریضہ کے طور پر متعین کر دیتا ہے،جو اپنے اندر ہرپیش آنے والی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے اور مشکلات و مسائل کو زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 قرآن نے اس جامع اور آفاقی اخلاق کو عملاً کر کے دکھانے والے کے لیے یہ کہا تھا: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴ (القلم ۶۸:۴) ’’اور بے شک آپؐ اخلاق کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہیں‘‘۔ کیونکہ آپؐ نے ذاتی اخلاقی طرزِ عمل سے لے کر عسکری، سیاسی، معاشی، ثقافتی، قانونی ہرشعبہ میں مثالی اخلاقی طرز ِعمل کو عملاً نافذ کر کے وہ قابلِ عمل سنت قائم فرمائی جو ترقی اور خوش حالی لانے کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔

خواتین اور قدامت پرستی کا الزام

 مغرب کے ’سیاسی اسلام‘ کے تصور کا ایک پہلو خواتین کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ مغربی مفکرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’جب تک خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل نہیں کیا جائے گا اور ان کا دائرہ کار صرف گھر کی چار دیواری تک محدود رہے گا ،ایک جدید معاشرہ اور ترقی یافتہ ماحول پیدا نہیں ہو سکتا‘‘۔اکبر الٰہ آبادی اور علامہ محمد اقبال نے سو سال پہلے قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ خواتین کو ان کے اصل دائرہ سے نکال کر معاشی دوڑ میں شامل کرنے کے نتیجے میں کیا منظر نامہ وجود میں آئے گا؟

یہاں یہ بات واضح طور پر کہنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ اور مغربی دانش وروں کے ہاں تعمیروترقی کا جو تصور بطور ایک قاعدے اور کلیے کے پیش کیا جاتا ہے، وہ عملاًصرف معاشی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی ملک میں ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ تعداد میں خواتین معاشی دوڑ میں شامل ہوں تو اسے ترقی یافتہ ملک قرار دے دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تصور بھی ذہنوں میں  بٹھا لیا گیا ہے کہ ’سیاسی اسلام‘ خواتین کو تعلیم ، معاشی سرگرمی اور سیاسی معاملات میں حصہ لینے کا اختیار نہیں دیتا ، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہر مسلمان خاتون پر حصولِ علم کو فرض قرار دیا ہے۔ پھر زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جملہ معلومات کے حصول اور اپنی معاشرتی وثقافتی ذمہ داریوں کے ساتھ معیشت ،قانون سازی اور دیگر معاملات میں علم، تجربہ اور تخصص کی بنا پر حصہ لینے کو خواتین کے بنیادی حقوق میں شامل کیا ہے۔لیکن چونکہ یہ تمام حقوق ایک ’دین‘ دیتا ہے ، اس لیے دین کی پیروی کو ’قدامت پرستی‘ قرار دیا جاتا ہے ۔

جس چیز کو مغرب سمجھنے سے قاصر ہے وہ یہ ہے کہ مغرب میں جو اخلاقی، معاشرتی اور ثقافتی اضمحلال اور زوال واقع ہوا ہے ،اس کا ایک بڑا بنیادی سبب معاشی خوش حالی کے نام پر خاندان کی یکجہتی اور مرکزیت کا ختم کیا جانا ہے۔خواتین کو مردوں کے شانہ بہ شانہ معاشی دوڑ میں شامل کرنے کا قدرتی نتیجہ خاندان کا منتشر ہونا تھا۔اسلام وہ واحد دین ہے جس نے زکوٰۃ کی فرضیت مرد اور عورت دونوں پر واجب کی ، دونوں کے دولت کے پیدا کرنے ،خرچ کرنے، صرف کرنے کے ساتھ معاشی فوائد کے حصول کو دینی سرگرمی میں شامل کیا اور ساتھ ہی خاندان کو بھی تحفظ فراہم کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ تنگ نظری اور خود غرضی کی بنا پر خواتین کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ذاتی یا روایتی و قبائلی خواہش کو شریعت سے منسوب کر دیا جائے ، یا عملاً اس سلسلہ میں کوتاہی کی جائے۔

گویا’سیاسی اسلام‘ پر یقین رکھنے والے مغربی یا مشرقی مفکرین کا یہ تصور کہ اسلام کے نفاذ سے خواتین حقوقِ انسانی سے محروم کر دی جائیں گی ،مکمل طور پر بے بنیاد تصور ہے اور قرآن و سنت کی واضح ہدایات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتا۔ آج ابلاغ عامہ ہو یا علمی تحقیق کا میدان، ہر جگہ یہی بات دہرائی جا رہی ہے کہ ’طالبانائزیشن‘ ہی ’سیاسی اسلام‘ کی عملی شکل ہے اور اس میں خواتین کی تعلیم اور حقوق ِانسانی پر عمل کی کوئی گنجایش نہیں پائی جاتی۔

جس طرح یورپ کو سوویت یونین کے خوف اور جنگ عظیم کے اثرات نے بہت سے کام کرنے پر آمادہ کیا، جن میں NATO (ناٹو) کا قیام بھی شامل ہے۔ اسی طرح ’سیاسی اسلام‘ کو ایک خوفناک جِنّ یا عفریت قرار دے کر یورپی اقوام کو اسلام سے ذہنی طور پر متنفر کرتے ہوئے انھیں ’سیاسی اسلام‘ کے خلاف جا رحانہ اقدامات کے لیے آمادہ کیا جا رہا ہے ۔ یوں اسلام اور یورپی عوام کے درمیان ذہنی اور ثقافتی بُعد میں روز بروز اضافہ واقع ہو رہا ہے۔ اگرچہ دوسری جانب اسلام دشمن قوتوں کے بعض جارحانہ اقدامات نے خود اسلام کے بارے میں تجسس پیدا کیا ہے اور حقیقتِ حال معلوم کرنے کی خواہش کے ساتھ جن افراد نے قرآن کی طرف رجوع کیا ہے ، ان میں سے بڑی تعداد نہ صرف اسلام سے قریب آئی ہے بلکہ بعض نے اسلام پر ایمان لانے کا اظہار بھی کیا ہے۔

اسلامی قیادت سے خدشات

’سیاسی اسلام‘ کے حوالے سے یہ بات بھی بار بار دہرائی جا رہی ہے کہ اس کی قیادت روایتی علما نہیں کر رہے بلکہ سیکولر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے ایسے نوجوان ہیں جو ماضی قریب یعنی ساٹھ کی دہائی میں اشتراکی فکر سے متاثر تھے اور کارل مارکس کو حُریت کا پیغمبر سمجھتے تھے۔ وہ اپنے موقف سے رجوع کر کے ’سرخ نظام‘ کی جگہ اب ’سبز نظام‘ یعنی نظامِ مصطفیٰ ؐکے علَم بردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان میں چونکہ اشتراکیت زدہ افراد کی طرح انتہا پسندی اور تشدد کی طرف رجحان بھی پایا جاتا ہے،اس لیے یہ مغرب کے لیے خطرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی خطرناکی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ روایتی علما کی طرح محض عقیدے پر زور نہیں دیتے ۔یہ اسلام، سائنس اور ٹکنالوجی کو یکجا کر کے ایک نئے ’عادلانہ نظام‘ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے کی ایجاد کردہ سہولیات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی بیخ کنی بھی کرنا چاہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: اولیورائے کی کتاب The Failure of Political Islam ،ص۳)۔ ’سیاسی اسلام‘ کو ناکام قرار دینے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ سیاسی اسلام جغرافیائی حدود میں محدود تصور نہیں ہے بلکہ یہ عالمی تبدیلی کا داعی ہے اور مغرب کی لادینی تہذیب کے مقابلے میں وسائل اور اختیارات سے محروم ہے، اس بنا پر عملاً کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یاد رہے یورپی ذہن میں ریاست کا تصور جغرافیائی حدود پر مبنی ہے اور اسلام کی عالم گیریت، ریاست کی بنیاد جغرافیائی سرحد کو قرار نہیں دیتی۔

لادینیت اور قوم پرستی کا فروغ

اولیورر ائے ’سیاسی اسلام‘ کے جغرافیائی حدود سے ماورا اور پوری امت مسلمہ کی ایک باوقار قیادت کی یک جہتی کے تصور کو جدید تہذیب کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے، ’سیاسی اسلام‘ کو آمریت اور جبر سے تعبیر کرتا ہے ۔ اس کو اسلام میں مذہب اور سیاست کی عدم تفریق، یورپ کے ’تاریک دور‘میں چرچ کے مظالم کی یاد دلاتی ہے اور نفاذ شریعت کو کلیسا کی پاپائیت سمجھتے ہوئے وہ  یہ نتیجہ اخذ کرتا ہےکہ مغربی سیکولر جمہوریت ہی انسانیت اور مسلمانوں کی فلاح اور ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ (ایضاً،ص ۱۳)

عالمی سطح پر دانش ورانہ حلقوں، بین الاقوامی کانفرنسوں، یورپی اور امریکی یونی ورسٹیوں کے شعبہ ہائے تقابلی سیاست ، عمرانیات ، مذہب، معیشت اور خصوصاً اسلام کےعصری انقلابی پہلو پر کام کرنے والے لوگوں کا ایک مخصوص نقطۂ نظر بنتا ہے۔ ان کے زیرانتظام چلنے والے    تھنک ٹینکس کی تحقیقات کا مطالعہ کرے گا، پھر ان کے مذاکروں اور مکالموں میں جو فرد بھی شرکت کرے گا وہ ایک نہیں پندرہ بیس محققین کی زبان سے اعداد و شمار پر مبنی ’سیاسی اسلام‘ پر مقالات اور تقاریر سننے کے بعد اگر مکمل نہیں تو کم از کم نصف قائل ہو کر نکلے گا کہ واقعی سیاست میں اگر ’مذہب‘کا عمل دخل ہوا تو’سیاسی اسلام‘ ملک و ملت اور دنیا کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔

 مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک تاریخی طور پر ایک ایسی نفسیاتی اور معاشرتی فضا میں وجود میں آئے، جو فرانس اور برطانیہ کے مشرقِ وسطیٰ کا ایک نیا نقشہ بنا کر سلطنتِ عثمانیہ کی بندر بانٹ کر نے کا نتیجہ تھا ۔ اس لیے وہ اپنی قومی عصبیتوں میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنی اصل تاریخ اور فکر سے لاتعلق ہو گئے اورروز ِاوّل سے استعماری فکر و تعلیم میں تربیت پانے کے سبب دین و سیاست کے عدم اتحاد کے تصور کو ہی حق و صداقت پر مبنی سمجھ بیٹھے۔

نہ صرف یہ بلکہ عیسائی اور یہودی ماہرین سماجی علوم نے ان کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کہ کویتی ایرانی سے ، قطری مصری سے، سعودی یمنی سے ، عراقی شامی سے قومیت کی بنا پر برتر ہے۔ قومیت کے اس دو آتشہ زہر نے ہر اس فرد کو جو چاہے عربی دانی کا دعویٰ کرتا ہو، قرآن کریم کے اصولِ اخوت اور امت مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کی جگہ نسلی ،لسانی اور قبائلی تفریق کی بنا پر قومیت پرستی پراس حد تک یقین دلا دیا ہے اور ایسے اقوال ایجاد کر لیے گئے جو قرآن و سنت سے براہِ راست ٹکراتے ہیں، مثلاً حُبُّ الوطن من الإیمان (یعنی وطن سے محبت ایمان کا جز ہے)۔ایسے اقوال کو بنیاد بنا کر لادینی قومیت کے لیے راہیں نکالی گئیں اور اسلام کی عالم گیر فکرپر نقب لگائی گئی، جو اسلام دشمن قوتوں کا ہدف تھا۔

قومی منظرنامہ

 اس تناظر میں اگر پاکستان پر ایک نظر ڈالی جائے تو منظر نامہ فوری توجہ طلب نظر آتا ہے ۔ ۷۵سال سے معاشی پالیسی ہویا تعلیمی اور ثقافتی، تینوں محاذوں پر مقدور بھر کوشش کی گئی کہ برسرِاقتدارآنے والی پارٹی یا مقتدر قوت اپنے ذاتی مفاد کی پرستش کرے اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دے۔ چنانچہ وسائل کی تقسیم اور اس سے زیادہ اہم وسائل کا درست استعمال کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہا ۔وہ حضرات جو مثلا ًبلوچستان کے مجبور و مظلوم عوام کو غلام رکھنے کے لیے مشہور تھے، انھی سرداروں کو صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل کرانے کے لیے منتخب کیا گیا جو نسلا ًبعد نسل انگریز کے وظیفوں پر پلتے رہے تھے۔ جنھیں انگریز نے اپنی وفاداری پر خطابات اور وسیع زمینی قطعات سے نوازا تھا۔ کیا کوئی صاحب ِعقل ایسے حکمرانوں سے یہ امید کر سکتا ہے کہ جو اپنے عوام کو ’کم تر انسان‘ اور اپنا ’غلام‘ سمجھتے ہوں ، وہ ان کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں؟ لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود ہماری مقتدر قوتوں نے آنکھیں بند کر کے انھی کو اپنے سیاسی اتحادوں میں شامل کر کے ظلم و استحصال اور محرومی کے شجر کو پھلنے پھولنے دیا ۔

بانی ٔپاکستان قائداعظم نے ایک مرتبہ نہیں بارہا یہ بات دُہرائی تھی کہ اب یہاں نہ کوئی بنگالی ہوگا، نہ پنجابی، نہ بلوچی بلکہ سب پاکستانی ہوں گے اور انھیں ان کے حقوق دیے جائیں گے۔ ۱۱؍اگست کی وہ تقریر جس کا وظیفہ پاکستان کے یورپ زدہ دانش ور دُہراتے ہیں ، اسی تقریر میں قائداعظم نے عصبیت، چور بازاری، کرپشن اور چودھراہٹوں کے بخیے ادھیڑے تھے اور قوم کو اس کے اصل اندرونی دشمنوں سے آگاہ کیا تھا، لیکن قوم اگر انھی راہ زنوں کو راہنما بنا کر خوش ہو تو اس میں کوئی کیا کر سکتا ہے؟ خالق ارض و سما تو اسی صورتِ حال کی مناسبت سے فرما چکا ہے:’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی‘‘۔ (الرعد۱۳:۱۱)

پاکستان کے تناظر میں ’سیاسی اسلام‘کے تصور کو دیکھا جائے تو تقلید پسند روایتی علما اور مفکرین بغیر یہ تصور کیے کہ شریعت کے وہ اصول جنھیں وہ طلبہ کو حفظ کراتے ہیں ،کیا کہتے ہیں اور انھیں ہم کس طرح آج استعمال کر سکتے ہیں؟ ان دو کلمات پر مبنی اپنے طول طویل خطبوں سے لوگوں کے دل گرماتے ہیں: ’’ہر مسئلے کا حل ’خلافت‘اور شریعت کا نفاذ ہے‘‘۔ بلاشبہہ اپنی جگہ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا انھوں نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت فرمائی کہ ’خلافت اور شریعت‘ ایک ایسے ماحول میں جہاں عوام کو ان تصورات کی کوئی آگہی نہ ہو، محض ان کے فرمانے کی بنا پر، وہ جو دو وقت کی روٹی سے بھی محروم ہیں ، ان کی بات پر یقین کرلیں گے؟سیاسی تبدیلی کو اُوپر سے نیچے تک، اور نیچے سے اُوپر تک کیسے نافذ کیا جائے گا؟ کیا محض تقریروں اور نعروں سے یہ عظیم کام انجام پاسکے گا؟کیا ماحول تیار کیے بغیر ایک انتہائی اعلیٰ نظام محض ایک سرکاری اعلامیہ سے نافذ کیا جا سکتا ہے؟

ان بنیادی سوالات کے معقول جوابات کے بغیر روایتی علما کی بات اثر نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب وہ حضرات جو جوشِ ایمانی میں یہ سمجھتے ہیں کہ عوامی انقلاب ہی ہر مسئلے کا حل ہے،یا کسی مسلح سرگرمی سے اچانک قبضہ کر کے تمام برائیوں کی اصلاح ہو سکتی ہے، کیا وہ کبھی غور کرنے کی زحمت کرتے ہیں کہ خود مکہ مکرمہ میں انقلابی حکمت عملی کے بے انتہا روشن امکانات ہونے کے باوجود، ہادی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکمت عملی پر کبھی توجہ فرمائی؟ اگر حضرت عمرؓ، حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، ہر ایک قرآن کریم کی رو سے اپنے سے دس گنا افراد کے لیے کافی تھے، تو کیا ایک شب ایسی نہیں ہوسکتی تھی، جس میں تمام سردارانِ مشرکین کو تہہ تیغ کر کے اسلامی ریاست کے نفاذ کا اعلان مکہ ہی میں کر دیا جاتا اور وہ ساری آزمائشیں جو بدر و اُحد اور حنین و خندق کی تھیں، ان کی ضرورت ہی پیش نہ آتی؟

دین اسلام عقل و ہوش ،تاریخ، مقامی صورتِ حال، مستقبل کے نتائج کے ہر ہر پہلوپر غور کرنے کے بعد کوئی اقدام تجویز کرتا ہے۔ اسلام نہ جذباتیت کا غلام ہے اور نہ محض عقل کا پابند، یہ حکمتِ دین کی بنیاد پر فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ بہرحال، اس جملۂ معترضہ سے قطعِ نظر پاکستان کے تناظر میں تقلید پسند علمااور مفکرین نے جو اپنے رسائل کے سرورق پر’ خلافت‘اور’شریعت‘کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں، وہ نقشۂ عمل پیش نہیں کیا، جسے قوم سمجھ سکتی اور جو قابلِ عمل (viable)بھی ہوتا۔

قائداعظمؒ کا تصورِ پاکستان

’ سیاسی اسلام‘ کو سب سے زیادہ ان پاکستانی دانشوروں نے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھا جو ذہنی طور پر پہلے ہی صبغتہ اللہ کی جگہ، اپنے آپ کو یورپ کے رنگ میں رنگ چکے تھے، اور پاکستان کی اکثر یونی ورسٹیوں میں اپنی اسی خام دانش کو بکھیرنے کا مقدس فریضہ انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اس تصور کو خود تسلیم کیا بلکہ قائداعظمؒ سے بھی منسوب کر دیا۔ پھر اس علمی بددیانتی کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ آج اکثر یونی ورسٹیوں سے فارغ ہونے والے اساتذہ اورطلبہ یہی سمجھتے ہیں کہ قائداعظم ایک سیکولر انسان تھے اور سیکولر نظام کے حامی تھے ۔

وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ قائداعظمؒ ایک سچا، نڈر، بااصول اور کسی کے سامنے نہ جھکنے والا انسان تھا۔ جس نے کبھی ساری عمر ایک جھوٹا کیس بطور وکیل پسند نہیں کیا، اور جس نے کبھی دوغلی بات نہیں کی۔ اس نے سو سے زیادہ مقامات پر جو بات کہی، اس تمام تفصیل کو ان کے صرف دو خطبے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر صرف یہ دو بیانات ہی قوم نے کھلے ذہن کے ساتھ پڑھ اور سمجھ لیے ہوتے تو آج ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ قائد کے یہ اور دوسرے بیانات کسی ’مظاہرے‘ یا ’علما کے دھرنے‘کے ردعمل میں نہیں دیے گئے، بلکہ ایک سوچنے سمجھنے والے اور ایک ایک لفظ ناپ تول کر بولنے والے شخص کے الفاظ ہیں:

In Pakistan we shall have a state which will be run according to the principles of Islam.It will have its cultural, political and economic structure based on the principles of Islam. The non-Muslims need not fear because of this, for fullest justice will be done to them.... they will have their full cultural, religious, political and economic rights safeguarde. As a matter of fact they will be more safeguarded than in the present day so-called democratic parliamentary form of Government.(Address at the Hostel Parliament of Ismail Yusuf College, Jogeshwari (Bombay), 1st February 1943. M.A Harris (ed)  1976,  p.173.

پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جسے اسلام کے اصولوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ اس کا ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی ڈھانچا اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا… غیرمسلموں کو کسی قسم کے اندیشے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے، ان سے پوری طرح عدل کا معاملہ کیا جائے گا۔ وہ مکمل طور پر اپنے ثقافتی، مذہبی، سیاسی اور معاشی حقوق میں محفوظ و مامون ہوں گے۔ درحقیقت انھیں آج کل کی نام نہاد پارلیمانی جمہوری حکومت سے زیادہ تحفظ ملے گا۔

  • یہاں قائداعظم نے مثبت طور پر اور بغیر کسی معذرت کے، نہ صرف اسلام کو بطور عقیدہ بلکہ اسلام بطور سیاسی،معاشی، معاشرتی اور ثقافتی نظام کے اپنے تصور کو واضح کر دیا کہ پاکستان کی اسلامی ریاست میں اسلام صرف’ مذہب‘ (Sate religion)نہیں ہوگا بلکہ ملکی معیشت، سیاست، ثقافت مکمل طور پر اسلامی اصولوں پر مبنی ہوگی۔
  • دوسری بات یہ واضح کر دی کہ غیر مسلم یکسا ں حقوق رکھیں گے بلکہ حقوق انسانی کا تحفظ کیا جائے گا۔
  • تیسری اہم بات یہ کہی کہ پاکستان میں اسلام کا دیا ہوا نظام اس ’نام نہاد‘ مغربی پارلیمانی سسٹم سے زیادہ بلند اورشفاف ہوگا۔

یہ تین باتیں کہنے والا نہ توکبھی کسی کی دھمکی کے زیراثر تھا اور نہ دھمکی دی تھی، نہ وہ کسی جذباتی دباؤ میں یہ بات کر رہا تھا، کیونکہ وہ یہ بات ۱۹۴۵ء میں کہہ رہا ہے ۔ پھر وہ ایک نڈر شخص ہے جو یہی بات شملہ میں کہہ چکا ہے ، یہی بات علی گڑھ میں کہی کہ یہ نام نہاد مغربی پارلیمانی نظام ہمارے لیے ناکارہ ہے۔

                        اولیور رائے دیگر مفکرین کے پیمانے سے دیکھا جائے تو وہ شخص جس کی فکر اتنی واضح اور غیرمبہم طور پر اسلامی ہو،اسے کیا کوئی ذی ہوش شخص سیکولر قرار دے سکتا ہے؟

دوسرا اہم بیان جسے قوم سے جان بوجھ کر مخفی رکھا گیا وہ ۲۳ مارچ کو لاہور کے مشہورِ زمانہ کنونشن، جس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی،اس کے اگلے دن کا واقعہ ہے ۔ ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو خواجہ عبدالرحیم جو چودھری رحمت علی کے ساتھی اور پاکستان کا نام تجویز کرنے والے نوجوانوں میں شامل تھے، انھوں نے اپنے گھر پر قائداعظم اور دیگر مسلم لیگی زعما کو چائے پر مدعو کیا۔ اس نشست میں جو گفتگو ہوئی وہ غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ قائدا عظم نے ان سے کہا کہ ’’جو نام تم لوگوں نے ۱۹۳۰ء میں تجویز کیا تھا، اس پر ہندو پریس میں بڑی گفتگو ہو رہی ہے۔ خواجہ عبدالرحیم نے کہا: ’’پھر آپ کے خیال میں ملک کا نام کیا ہونا چاہیے ؟علامہ اقبال بھی اس نام کو پسند کر چکے ہیں‘‘۔ قائداعظم نے جواب دیا:

if you people and the Muslim nation likes this name I have no objection, except in the name you have on the pamphlet Pakstan add ‘I` which stands for Islam and is the link between these provinces.

اگر آپ لوگ اور مسلم قوم اس نام کو پسند کرتی ہے تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے پمفلٹ پر جو نام ’پاک- ستان‘ لکھا ہے اس میں ’آئی‘ کا اضافہ کرلیں جو اسلام کی نمایندگی کرتا ہے اور ان صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔

خواجہ عبدالرحیم نے قائد کا یہ پیغام چودھری رحمت علی کو جو ان دنوں کراچی میں تھے پہنچا دیا۔ (سلطان ظہیر اختر، شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات، راولپنڈی، تنظیم کارکنان پاکستان، ۱۹۹۸ء، ص ۲۳-۲۴)

پاکستان کے نام کی تاریخ کا یہ باب ۷۵سال سے قوم سے مخفی ہے۔ دوبارہ سوال یہی ہے کہ جو شخص ملک کے نام کو اسلام کے بغیر نامکمل سمجھتا ہو، وہ کس قسم کے پاکستان کا خواہش مند تھا؟ پھر ایک ماہر قانون دان منطقی طور پر یہ سمجھتا ہے کہ نئے ملک کے مجوزہ نام میں P جو پنجاب سے لیا گیا ،A جو افغانستان سے لیا گیا،Kجو کشمیر سے لیا گیا اور stan سندھ، بلوچستان کے لیے استعمال کیا گیا، لیکن ان سب صوبوں کو کیا چیز جوڑے گی ؟ ان کی عصبیتوں کو کون سنبھالے گا ؟ ان میں اتحاد کون پیدا کرے گا ؟ چنانچہ عقلی اور منطقی طور پر وہ  یہ مشورہ دیتا ہے کہ چاہے علامہ اقبال نے یہ نام پسند کر لیا ہو، تب بھی اس میں اسلام کے لیے ’I‘ کا اضافہ کیا جائے۔

چودھری رحمت علی کے تحریر کردہ پمفلٹ Now or Never میں جو نام تجویز ہوا، وہ PAKSTANتھا۔( ملاحظہ ہو اصل خط کی نقل جس میں’ I‘کے بغیر ملک کا نام تجویز کیا گیا تھا)

Pakistan میں  ’I‘  کا اضافہ قائداعظم کی خواہش پر ہوا اور ’I‘ سے مراد اسلام ہے۔

 ’سیاسی اسلام‘ پر ڈاکٹریٹ کے مقالے لکھنے والے مغرب زدہ پاکستانی دانش وروں کے سوچنے کے لیے صرف یہ دو اقتباسات کافی ہیں کہ وہ قائد کو کس کھاتے میں رکھنا پسند کریں گے۔ ’بنیاد پرست‘، ’مقلد‘، ’بند ذہن‘، ’روایت پرست‘، ’ سیکولر‘ یا ایک سچا، نڈر، بے باک ، دوٹوک بات کہنے والا؟ یا لنکن اِن سے بار ایٹ لا کرنے والا، برطانیہ کے نظام ،وہاں کی معیشت، معاشرت، ثقافت سے براہ راست آگاہ شخص، لیکن اس کے باوجود اسلام کو بغیر کسی معذرت اور تردد کے کھل کر ملک کا نظام قرار دینے والا روشن دماغ، ترقی پسند رہنما!

قومی منظرنامہ اور تقاضے

اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک اسلامی کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ کیا وہ کسی نہ کسی طرح اقتدار میں آجانے کے راستے کو اختیار کرے، جس میں کچھ compromise (سمجھوتے) کرنے پڑیں یا وہ ’انقلابی‘بن کر سٹریٹ پاور کے ذریعے اقتدار میں آجائے ۔ یا پھر بجاطور پر وہ اپنے دستور میں واضح درج شدہ پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، بغیر کسی سازشی حربے کے، کھلے ماحول میں دستوری جدوجہد کے ذریعے ان منطقی مراحل کو اختیار کرے، جن کی دستور جماعت اسلامی خود وضاحت کرتا ہے۔ یعنی پہلے اس ذہن کو ہموار کرنا، جس میں شجر طیبہ کا بیج ڈالنا ہے، فکری اور عملی تطہیر، تربیت اور خاندان اور معاشرہ کی اصلاح کے نتیجے میں زمامِ کار کا صالح افراد کے ہاتھ میں آنا۔

اس پہلے مرحلے کو جب تک بنیادی اہمیت نہیں دی جائے گی جو دیوار بھی تعمیر ہوگی وہ آسمان تک جا کر بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔اولین ترجیح عظیم الشان جلوس اور جلسوں کی جگہ دلوں کی کائنات میں تبدیلی ہے، ذہنوں کا اتحاد ہے اور اَرواح کی یکجائی ہے۔ فکر کی اصلاح اور راستی ہے۔یہ کام محض خطبوں سے نہیں بلکہ باہمی ربط، قربانی، اخوت، باہمی امداد اور خصوصاً للہیت ہی سے ہوسکتا ہے۔ اطمینان قلب، ذکر الٰہی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے قرآنی اجتماعات کی ضرورت ہے جن میں آخرت اور سنت پر عمل کو اُجاگر کیا جائے تاکہ عوام میں دین سے محبت اور دین کے لیے اپنے ذاتی مفاد کو قربان کرنے کی تڑپ اور طلب پیدا ہو۔ یہ کام محض جلسے، جلوس نہیں کر سکتے۔ یہ ایک سنجیدہ، گہرا، سوچا سمجھا، محنت طلب اور طویل المعیادکام ہے۔

دوسری اہم چیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی مرکزیت اور اس کی روح اور الفاظ کا تحفظ اور اس چیزسے عوام کو آگاہ کرنا ہے ۔کیونکہ ۹۹ فی صد پڑھے لکھے افراد بھی دستور پاکستان کی اسلامی دفعات سے مکمل طور پر لا علم ہیں ۔یہ دستورکا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں نظام تعلیم ، معاشی نظام، سیاسی نظام، معاشرت، ثقافت، غرض ہر شعبۂ حیات کو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔

نفاذ شریعت کسی سیاسی جماعت یا کسی گروہ کا مطالبہ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بغیر دستور پاکستان نامکمل ہے۔اس دستوری فریضے کو سیکولر طبقے نے ایک متنازعہ مسئلہ جان بوجھ کر بنایا ہے اور اس میں دانش وروں کو الجھا کر رکھ دیا ہے، تاکہ دستور پاکستان پر عمل نہ ہو سکے ۔ اس لیے تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے کارکنوں کو دستور پاکستان کا شق وارشعور  دے اور پھر اس دستور کے عملی نفاذ اور تحفظ کو اپنی ترجیح قرار دے ۔اس مطالبہ کی مخالفت سیکولرزم پر ایمان بالغیب لانے والا بھی نہیں کر سکے گا۔

تیسری اہم چیز اس قومی مرحلے میں اس کی قطعیت (polarity) ہے، جس میں تقسیم در تقسیم کو دُور کرنا کہ جس کا اس وقت ملک شکار ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملکی ادارے قومی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر قومی مفاد نہیں بلکہ ذاتی خواہش کی وفادارانہ اطاعت میں ایک فریق کو ’پاک باطن‘ اور دوسرے کو ’مکمل شیطانیت‘ ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔یہ امر نہ صرف انسانی عقل و عدل اور  اسلامی شریعت کے منافی ہے، بلکہ جو بھی شریعت اسلام پر ایمان رکھتا ہو، اس کا فرض ہے کہ اس ظلم کے خلاف آواز بلند کرے، چاہے اس سے اس کو سیاسی فائدہ ہو یا نقصان۔ یہ کتمانِ حق کسی بھی شکل میں مفید نہیں۔ ملکی یک جہتی اس وقت ہوگی جب اختلاف کو برداشت کرتے ہوئے ہر فریق کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہو اور عوام بغیر کسی رکاوٹ کے حقائق پر مبنی تجزیہ کے بعد اپنی رائے استعمال کر سکیں۔

قطعیت کی نفی اور تقسیم محض سیاسی محاذ پر نہیں ہے ۔ یہ گھروں کے اندر تک پہنچ چکی ہے اور اسے دوبارہ ملکی اور قومی اتحاد میں تبدیل کرنا ایک اہم قومی فریضہ ہے ۔دو صوبے خاص طور پر اس کی شدت اور کرب کو دن رات محسوس کر رہے ہیں۔ موسم کی شدت میں گھر میں بیٹھنے والی خواتین تک سڑکوں پر آ کر اپنے رنج و الم کا اظہار کر رہی ہیں ۔اس صورتِ حال کو فوری طور پر محبت، رواداری، تحفظ، اخوت کے ماحول سے بدلنے کی ضرورت ہےاورموجودہ حالات میں تحریک اسلامی ہی وہ غیر جانب دار ملک گیر اور مؤثر تحریک ہے، جو اس قومی فریضہ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔

 _______________

گذشتہ ۳۰ برسوں کے دوران ماہ نامہ ترجمان القرآن کی ادارت اور مشاورت سے وابستہ ممتاز محقق، استاد، دانش ور اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ۲۵جنوری ۲۰۲۴ء کو ۸۳ برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ احباب سے اپیل ہے کہ ان کی مغفرت اور خدمات کی قبولیت کے لیے دُعا فرمائیں۔ ادارہ

اسرائیل جیسی غاصب ریاست نے سالہا سال سے فلسطینی باشندوں کے حقوق غصب کررکھے ہیں۔ مسلمانوں، غیرمسلموں اور حقوقِ انسانی کے علَم برداروں کی طرف سے دُنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف ہونے والے مظاہرے ایک طرح کا احتجاج تھا۔ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کے جواب میں حماس کی دندان شکن جوابی کارروائی ہر لحاظ سے ایک جائز فطری عمل تھا، جب کہ اسرائیل زدہ مغربی صحافی اور سیاسی لیڈر اسے ’دہشت گردی‘ کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔

اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو صہیونی و امریکی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں طے پانے والے ’ابراہیمی معاہدہ‘ کے نتیجے میں مسئلہ آزادی فلسطین ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا تھا جب صرف نصرتِ الٰہی اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کے کر گزرنے کی توفیق ہی ۷؍اکتوبر کا اقدام کروا سکتی تھی ۔ کون نہیں جانتا کہ اسرائیلی فوج اپنی ایٹمی طاقت، عسکری تربیت اور اسلحہ کی کثرت میں تمام  عرب ممالک سے زیادہ قوت رکھتی ہے اوراسے عالمی طور پر چوتھی سب سے زیادہ منظم فوجی قوت شمار کیا جاتا ہے ۔ ایک ایسی قوت سے گنتی کے چند سرفروش مجاہدین کا صرف میزائلوں کے ذریعے اسرائیل کی دہشت گردی کا جواب دینا ایک چیونٹی کا ہاتھی کے خلاف اعلانِ جنگ کرنے سے کم نہیں تھا،لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت کے ہے کہ حماس نے اپنے سے سیکڑوں گنا زیادہ آلات جنگ، امریکی پشت پناہی اور تربیت یافتہ جنگجو مرد اور عورتوں کے خلاف صف آرا ہو کراور چند لمحات میں ان کے طلسماتی آہنی دفاعی نظام (iron dome defense system) کے سحر کو توڑ دیا اور ان کی تمام خفیہ تنصیبات کے باوجود، کامیاب حملہ کر کے ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کے اس اقدام کی اس سے زیادہ قرآن کریم کی مزید عصری تعبیر نہیں ہو سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ۝۰ۭ اِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْــرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ۝۰ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَۃٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ۝۶۵(الانفال۸:۶۵) اے نبیؐ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے( ۱۰ گنا زیادہ پر) اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار پر بھاری رہیں گے ،کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔

مقابلہ اسلحہ کی قوت کا ہو یا تربیت یافتہ فوجی افراد کا، غزہ کے اہل ایمان نے قرآن کی تفسیر اپنے عمل سے پیش کر دی ہے کہ شاید اس سچائی کو آنکھوں سے دیکھ کر امت مسلمہ اپنی گراں خوابی، کم ہمتی، عدم اعتماد اور غلامانہ ذہنیت پر شرمندہ ہو کر گریبان میں جھانک کر دیکھے اور اپنے مالک حقیقی کی اس پکار پر لبیک کہہ کر میدانِ عمل میں اتر آئے جس میں فرمایا گیا تھا:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۝۷۵( النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے کوئی حامی و مددگار پیدا کر دے۔

 یہ ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں نے تعداد اور اسلحہ ہر لحاظ سے کمتر ہونے کے باوجود اپنے حجم اور کمیت میں اپنے سےسیکڑوں گنا بڑے ظالم، جابر اور سفاک اسرائیلی نظام کو دن کی روشنی میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ للکارا ہے۔ اس کا سبب اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ پر اعتماد اور وہ ایمان ہے جو امت مسلمہ کو اپنی حالت تبدیل کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔حماس کا یہ اقدام قرآنی حکم کی تصدیق کرتا ہے کہ جن مٹھی بھر افراد نے اپنی حالت کو تبدیل کیا اور جو بھی وسائل میسر تھے ان کو استعمال کیا اور اس خوابیدہ امت مسلمہ جو مغربی آقاؤں پر تکیہ کرتی ہے ، اس کی جگہ رب کریم پر بھروسا کیا۔عظیم قربانیوں کے باوجود آخر کار فتح ان ہی کی ہو ئی :

وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ۝۱۷۳ (الصٰفّٰت ۳۷:۱۷۳) اور ہمارا لشکر ہی غالب ہو کر رہے گا۔

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّــۃٌ۝۰ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۝۱۲۳ (ال عمرٰن ۳ :۱۲۳) آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمھاری مدد کر چکا۔حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے۔

غزہ کے مسلمانوں کی اس عظیم قربانی نے ثابت کر دیا کہ اصلی قوت ، قوتِ ایمانی ہے۔ چنانچہ اسرائیل اپنے تمام تر تکبر، ساز و سامان اور حکمت عملی کے باوجود، دنیا میں اس واقعہ کی بنا پر تمام دنیا کے باضمیر انسانوں کی نگاہ میں ظالم، مجرم اور قاتل ٹھیرا، اورمسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک کے غیر مسلم باشندوں نے اس معاملے میں اسرائیل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر کے گویا ایک عالمی ریفرنڈم کے ذریعے فلسطین کی مقدس سرزمین پر فلسطینیوں کے حق کو جائز اور اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دے دیا ۔

اس کھلی حقیقت کے باوجود اگر مسلم ممالک اپنی حالت بدلنے پر غور نہیں کرتے اور اسی بھول میں ر ہیں کہ چچا سام ان کا خیر خواہ ہے تو اللہ سے ان کی ذہنی سلامتی کی دعا ہی کی جاسکتی ہے، کیوں کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ ایک ناجائز طور پر پیدا ہونے والی اسرائیلی ریاست کے ساتھ دوستی، تعلقات اور امن کامعاہدہ انھیں معاشی اور سیاسی سربلندی سے سرفراز کر دے گا۔ قرآن کریم نے ایسے افراد ہی کو دنیا اور آخرت میں ناکام قرار دیا ہے :

وَمَنْ كَانَ فِيْ ہٰذِہٖٓ اَعْمٰى فَہُوَ فِي الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا۝۷۲(بنی اسرائیل ۱۷:۷۲)،اور جو اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا بلکہ راستہ پانے میں اندھے سے بھی زیادہ ناکام۔

’ابراہیمی معاہدہ‘ __ عالمِ اسلام کے خلاف سازش

مسلم ممالک کی سیاسی ناعاقبت اندیشی کی ایک مثال وہ دستاویز یا معاہدہ ہے جسے ’ابراہیمی معاہدہ‘ I2U2  یا Abraham Accord کا نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدے پر اسرائیل، ہندستان اور یو اے ای کے ساتھ بطور گواہ صدر امریکا کے دستخط ثبت ہیں۔اس معاہدے کے نام میں I2U2  کا جو مخفف استعمال کیا گیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں انگریزی کے لفظ I سے شروع ہونے والے نام کے دو ممالک یعنی انڈیا اور اسرائیل ہیں اورU سے شروع ہونے والے بھی دوممالک ہیں، یعنی امریکا اور یو اے ای ۔ گویا یہ چار ممالک کا مشترکہ عہد نامہ ہے جو ایک عوامی دستاویز کے طور پر کسی بھی باشعور فرد کو حیران اور فکر مند کرنے کے لیے کافی ہے (سوائے ان کے جو قرآن کی زبان میں جان بوجھ کر آنکھیں موندے ہوئے ہوں)۔

اس متفقہ دستاویز کا مقصد یہ بیان کیا گیا ہے:

Normalization : Peace, establishment of peace diplomatic relation and full normalization of bilateral ties are hereby established between the United Arab Emirates and the state of Israel.

۱۲ شقوں پر مبنی اس معاہدے کے اہم نکات میں پہلے نکتے کا تعلق اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنے سے ہے:

 a sovereign country". "Full recognition of Israel as

اس معاہدے میں بیان کردہ دوسرے ’مقدس فرائض‘ کو حسب ذیل الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :

2. To work together to counter extremism, which promotes hate and divisions and terrorism and its justifications, including by promoting radicalization and recruitment and by combating incitement and discrimination.

3. To Further undertake to adopt any legislation or other internal legal procedure necessary in order to implement this treaty, and to repeal any national legislation in official publication inconsistent with this treaty.

اگر صرف ان دو شقوں پر غور کیا جائے تو I2U2  کے مضمرات کسی بھی ایسے شخص سے مخفی نہیں رہ سکتے جو دو آنکھوں کے ساتھ تھوڑا بہت دماغ بھی رکھتا ہو۔اسرائیل کو ایک باضابطہ ریاست تسلیم کرنے کے بعد پہلی بات جو اس معاہدے میں قبول کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ فلسطینی باشندوں کی حقوق انسانی کے لیے جدوجہد کرنا انتہا پسندی ،دہشت گردی، نفرت اورتقسیم پیدا کرتی ہے جو اس معاہدۂ امن کے منافی ہے ۔اس لیے حقوق انسانی کی بحالی پر کوئی زبانی یا تحریری کوشش اس معاہدے کی خلاف ورزی شمار کی جائے گی۔

دوسری اہم بات جس پر اتفاق کیا گیا ہے، یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے حصول کے لیے تحریک آزادی، جہاد یا اس نوعیت کے کسی لفظ کا استعمال جو ایسی کسی تحریک کا جواز (Justification) کہا جا سکتا ہو، اس کے استعمال سے مکمل پرہیز کیا جائے گا۔ یہاں اصل مقصد لفظ ’جہاد‘ کے استعمال پر مکمل پابندی لگانا ہے کیونکہ یہودیوں کے نزدیک یہ دہشت گردی پر ابھارنے کی تعریف میں آتا ہے اور ’اسرائیلی آقاؤں‘ کو اس سے وحشت ہوتی ہے۔ اگلی اہم بات جو واضح الفاظ میں کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس معاہدے کی بنا پر وہ تمام قانونی ،پارلیمانی، سرکاری دستاویزات جن میں اسرائیل کی ’ناجائز پیدائش‘ یا اس کے وجود کی کسی قسم کی تضحیک و تذلیل پائی جاتی ہو، وہ بھی بعض مبینہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو اُکسانے کی تعریف میں آتی ہے۔ اس لیے ایسی ہر تحریر کو دستاویزات سے حذف کیا جائے گا۔

مثلاً ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کی یا نام نہاداقوام متحدہ کی قراردادیں ہوں یا سرکاری بیانات ہوں یا جہادِ فلسطین کے حق میں کہی یا لکھی ہوئی کوئی دستاویز ، قرارداد یا بیان ہو، اسے سرکاری ریکارڈ سے حذف کرنے کے بعد ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی جس میں اسرائیل کی ولادت کو نہ صرف ’جائز‘ قرار دیا جائے گا بلکہ اس کے کیے ہوئے کسی بھی استحصالی، ظالمانہ ، سفاکانہ اقدام کا تذکرہ چاہے وہ دیریاسین کا قتل عام ہو یا صابرہ اور شتیلہ میں اسرائیلی درندگی ،ایسی تمام تحریروں کو کالعدم قرار دے کر کتب سے حذف کیا جائے گا، اور غالباً اس کی جگہ اسرائیل کی اَزلی اور ابدی پاکیزگی، معصومیت، امن پسندی ، حقوق انسانی کے احترام اور بچوں سے محبت و شفقت کا تذکرہ کیا جائے گا۔ گویا ۷۵سال کی وہ تمام تاریخ جو دنیا کے ہر دیدہ ور نے دیکھی ہے، پڑھی ہے، اسے تاریخ کے صفحات سے مٹا کر اسرائیل کو اچھے کردار کا سرٹیفکیٹ کوئی اور نہیں نام نہاد مسلم ممالک عطا کریں گے۔

’امن اور تجارتی ترقی‘ کے خوش نما الفاظ کے زیر سایہ اس اسرائیلی نوشتۂ تقدیر پر دستخط کرنے سے جو فوائد حاصل ہوں گے، یہ دستاویز ان کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے ۔اسی نوعیت کے Indo-pacificاور South-pacific معاہدوں میں جو امریکا، برطانیہ ،آسٹریلیا ،بھارت کے درمیان پہلے ہو چکے ہیں اور ’ابراہیمی معاہدہ‘ میں جن مالی فوائد کا تذکرہ کیا گیا ہے ،ان میں یو اے ای کی جانب سے بھارت میں دو بلین ڈالر زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے دیے جائیں گے۔ گجرات میں جہاں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا، وہاں ۳۰۰ میگا واٹ کا شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کا پراجیکٹ لگایا جائے گا۔

بھارت اور اسرائیل کے یہ قریبی تعلقات کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے اور انتقال آبادی کے ذریعے کشمیری باشندوںکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی پالیسی میں اسرائیل کا بنیادی ہاتھ ہے۔ اسرائیل نے بھارتی فوج کو کشمیر کے تناظر   میں خاص تربیت فراہم کی ہے اور اس کے مشیر مسلسل بھارت کی مددمیں مصروف ہیں۔ بھارت کا ۴۵ فی صد اسلحہ اسرائیل سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان تجارت ۹۰۰ ملین تھی،جب کہ ایک سال بعد۲۱-۲۰۲۰ء میں یہ ۷ء۸۶ بلین پر جا پہنچی ۔ اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل ۲۰۲۱ء تک بھارت میں ۲۷۰ ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکا ہے، جب کہ یواے ای اس دوڑ میں کچھ پیچھے نہیں ہے ۔ اس نے بھی بھارت میں تقریباً ۱۷،۱۸بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔بھارت آئی ٹی میں خدمات کے ذریعے امریکا کوسالانہ۱۰۲ء۳ ملین ڈالر کی خدمات فراہم کرتا ہے جو اس کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔

اس پس منظر میں اگر ’ابراہیمی معاہدے‘ کے دور رس اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یوں نظر آتا ہے کہ گوبھارت کی تجارت چین کے ساتھ تقریباً ۲۲ء۸ ملین کی ہے اور ایک تجارتی معاہدہ ۳۰۰ملین کا بھی ہو چکا ہے لیکن وسیع ترتناظر میں مذکورہ معاہدے کے ذریعے امریکا اور اسرائیل، بھارت کو مزید اپنے دائرۂ اثر میں لے کراور اسی نوعیت کے معاہدات کے ذریعے وسط ایشیاکی مسلم ریاستوں، مثلاً ازبکستان و دیگر کو ایران اور پاکستان کو شامل کر کے چین کے معاشی منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ (Belt and Road) کو ناکام بنانا چاہتا ہے ۔ ایسے ہی گوادر کو غیر فعال بنا کر نہ صرف پاکستان کو بلکہ چین کو معاشی نقصان پہنچایا جائے گا ۔اس پورے معاملہ میں بھارت کا موقف دونوں جانب سے اپنا فائدہ حاصل کرنے کا ہے۔ وہ بیک وقت اپنی سیاسی چالوں کے ذریعے امریکا اور چین سے اپنے مفادات کا حصول چاہتا ہے۔

اس معاہدے کا پہلا اثر یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات جوپہلے بہت زیادہ نمایاں نہیں تھے، اب بہت واضح ہو گئے ہیں۔خصوصاً بھارت کے تعاون سے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات کا قیام تاکہ ایسے مسلم ممالک جو ابھی تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حق میں نہیں ہیں انھیں ’شرعی جواز‘ فراہم کر دیا جائے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے تو دوسروں کو کیا اعتراض ہے؟ گویا سعودیوں کا کسی غلط کام کو کرنا ’مستحب‘ عمل ہے اور اس کی پیروی کرنا ’ثواب‘ کا باعث ہے۔ یہ حقائق ظاہر کر رہے ہیں کہ تمام مسلم ممالک نظریاتی طور پر اتنے کھوکھلے ہو چکے ہیں کہ’معاشی ترقی‘ کے حصول کے لیے جن یہودکو قرآن نے مسلمانوں کے مفادات کا دشمن قرار دیا ہے ، ان سے کھلم کھلا تعاون ، اشتراک ہی نہیں بلکہ ان کی قیادت اور سربراہی کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کے مشورےسے یہ ممالک اپنے سیاسی ، معاشرتی اورتعلیمی میدانوں میں امریکا اور اسرائیل کی تجویز کردہ تبدیلیاں کرنا چاہتے ہیں۔

 ’ابراہیمی معاہدے‘  کے طرز پر دوسرے مجوزہ معاہدے کا اہم مقصد یہ تھا کہ پاکستان، ایران، افغانستان، ازبکستان اور بھارت کو ایسے ہی معاہدے کے بندھن میں لا کر وہ تمام مقاصد حاصل کر لیے جائیں جن کی تمنا بھارت اور اسرائیل کو ۷۵ سال سے تھی ۔ان مقاصد میں سرفہرست مقبوضہ کشمیر کو ایک ماضی کا قصہ قرار دے کر بھارت اور پڑوسی ممالک سے معاشی ترقی کے زیر عنوان مقبوضہ کشمیر کی مظلوم مسلم آبادی کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ہے۔ آج غزہ جیسے مسئلہ پر جس کی کھلی عوامی حمایت غیرمسلم یورپ اور امریکا کے شہری جو غیر مسلم ہیں وہ بھی کر رہے ہیں، لیکن دوسری جانب مسلم ممالک کے سربراہان بشمول پاکستان نے زبانی جمع خرچ اور دکھاوے کےایک آدھ رسمی بیان سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی جرأت نہیں کی ۔ اسی طرح پاکستان بہ تدریج مجوزہ معاہدے کی بنا پر کشمیر کے مسئلہ سے عملاً کنارہ کشی اختیار کر ے جو بھارت اور اسرائیل کی ازلی خواہش رہی ہے۔

اس معاہدے کا ایک اہم مقصد خود بخود پاکستان کی ایٹمی طاقت کو غیر مؤثر کر نا اور اسرائیل اور بھارت کو پاکستان کی طرف سے کسی ممکنہ خطرہ سے محفوظ کرانا ہے۔ اس کے ساتھ اس معاہدے میں اسرائیلی مشیر و ماہرین پاکستان کے دفاع کو Iron dome کی طرح ناقابل تسخیر بنانے کے  نیک کام میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے اور ہمارے غازی اور مجاہد ان کی قیادت میں ملک و قوم کا سرفخر سے بلند کرنے میں کامیابی حاصل کر سکیں گے !!

اس معاہدے کا اوّلین نتیجہ یہ ہو گا کہ چین کے BRI اور سی پیک کے منصوبے کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے اور پاکستان کی نوکر شاہی اور غلامانہ ذہنیت کے سیاست دان اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر امریکا، بھارت اور اسرائیل کی حاکمیت اعلی ٰکے اچھے کارندے بن کرابھی تک جو خفیہ خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں، اب وہ علی الاعلان اسرائیلی بالا دستی کےسائے میں یہ خدمات بجا لا سکیں۔

ایک بنیادی اصول جس کا تعلق دنیا کے تمام غیور ممالک سے ہے وہ ان کی حاکمیت کا تحفظ ہے۔ یہ حاکمیت ایوان نمایندگان ہی میں نہیں بلکہ ہر معاملے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا سودا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم جان بوجھ کر کم از کم دوسو سال کے لیے اپنی خوشی ا و رضامندی سے انگریز کی غلامی کی جگہ ہندو اور اسرائیل کی اطاعت و فرماں برداری کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس معاشی، سیاسی اورفکری غلامی کو آنکھوں دیکھے قبول کر لینا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے! تاریخ کا ہرطالب علم جانتا ہے کہ استعمار کسی بھی ملک میں مختصر عرصے کے لیے نہیں آتا۔ وہ جب بھی آتا ہے اپنے ساتھ کم از کم دوسو سال کی محکومیت لے کر آتا ہے ۔ اسرائیل اور بھارت کی غلامی ابھی تک ایک خواب رہا ہے جسے تقسیم ہند سے قبل متعصب دشمنانِ اسلام ہندو قیادت نے دیکھا تھا اور جسے قائد اعظمؒ اور علامّہ اقبالؒ نے ردّ کرتے ہوئے معجزانہ طور پر پہلے انسانوں کے ایک گروہ کو ایک نظریاتی قوم میں تبدیل کیا اور پھر اس نظریاتی قوم کے لیے ایک نظریاتی خطۂ ارض کا حصول کیا۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ کی طرح کے معاہدے ان محسنانِ قوم کے ساتھ کھلی بے وفائی اور قوم کے ساتھ ایک ناقابلِ قبول کارروائی ہو گا۔

غزہ کے پُرعزم صاحبانِ ایمان نے جس طرح جانوں کی، مال کی، عزتوں کی قربانی دے کر پڑوسی مسلم ممالک کے گھناؤنے عزائم کو چکنا چور کیا ہے ، اس کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ پاکستان، نظریۂ پاکستان اور جہاد کشمیر کے لیے ایسے کسی بھی معاہدے کو پوری قوم کو پوری قوت سے ردّ کرنا ہوگا کیوں کہ اسی میں پاکستان کی فلاح ہے۔

کرنے کے کام

            ۱-         نوکر شاہی اور احساسِ کمتری پر مبنی ایک مقروض ،مفلوک الحال کی نفسیات سے نکل کر ایک باعزّت اور باوقار قوم کی نفسیات کو اپنانا ہوگا، جو صرف نظریۂ پاکستان کے احیا سے ممکن ہے ۔

            ۲-         پاکستان کے پاس اتنے قدرتی اور انسانی وسائل موجود ہیں کہ وہ صرف ان کی ایماندارانہ تنظیم اور منصوبہ بندی سے نہ صرف قومی قرض سے بلکہ آیندہ دو سو سال کے لیے I2U2  کے تحت غلامی سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ۔صرف قوم کو اعتماد میں لے کر جھوٹے اور گمراہ کن اعداد و شمار کی جگہ عوام کے نمایندوں کے ذریعے قومی تعمیرِ نو کرنا ہوگی جو قطعاً مشکل کام نہیں ہے۔

            ۳-         پاکستان کو اپنی خوش فہمیوں سے نکل کر دوبارہ چین کے ساتھ معاملات کو سلجھانا ہوگا لیکن اس میں بھی طویل المیعاد قومی مفاد سامنے ہو۔ ایک نئی ’چینی ایسٹ انڈیا کمپنی‘کی صورتِ حال کی پیدا شدہ شکل بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔

            ۴-         پاکستان صرف عقل کا استعمال کر کے افغانستان ، وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعاون اور تعلقات کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے قائدانہ کردار کو حاصل کر سکتا ہے۔

            ۵-         غزہ، فلسطین اور کشمیر پر عوام کو آگاہ کرنے اور ان کی اہمیت کو اُجاگر کرنے اور ضمیر کو جگانے کے لیے ہربڑے اور چھوٹے شہر میں جلسے ،جلوس اور سیمی نار منعقد کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھنا ہوگا، تاکہ نہ صرف فلسطین بلکہ کشمیر کے مسئلے کو بھی نوجوانوں کے ذہن سے محو نہ ہونے دیا جائے۔

            ۶-         عوامی اجتماعات میں تقاریر ، قراردادوں اور سرکاری حکام سے رابطوں کے ذریعے مسئلہ فلسطین کی امت مسلمہ کے لیے اہمیت کو اجاگر کیا جائے ۔ حکومت سے غزہ کے مظلوموں کی حمایت اور استعماری طاقتوں ، امریکا ، برطانیہ و دیگر سے سخت لب و لہجے میں اسرائیلی سفاکیت بند کروانے کے مطالبات کیے جائیں ۔ نیز ان ممالک کے گھناؤنے کردار کو جلسے، جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں پوری جرأت سے آشکار کیا جائے۔

            ۷-         برقی ابلاغ عامہ کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں پر مظالم کی داستان کو سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے پوری دنیا کے عوام کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کے مسائل سے بھی دنیا کو آگاہ کرنا ہو گا ۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلہ کو صرف تحریک اسلامی ہی صحیح انداز میں پیش کر سکتی ہے۔

            ۸-         دوسروں کی کاسہ لیسی کی جگہ ملک میں زراعت، پانی کی صحیح قدر، غیر ضروری پُرتعیش درآمدات پر پابندی،تجارت کی سہولتوں کی فراہمی ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکتی ہے۔ اس کے لیے صرف تین سال کے لیے تعیش کی زندگی سے دُوری اختیار کرنی ہوگی، سادہ طرزِزندگی اور خودانحصاری کی راہ اپنانا ہوگی۔ تاہم، یہ تمام اقدامات اس وقت ہوسکتے ہیں جب ملک میں شفاف انتخابات ہوں اوروقت پر ہوں اور منتخب افراد کو بغیر کسی دباؤ اور دخل اندازی کے کام کا موقع دیا جائے۔ اس قوم میں غیر معمولی طور پر بہترین صلاحیتوں کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ بھی ہیں جو ملک کے باہر بڑے بڑے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اگر انھیں اعتماد ہو کے منتخب نمایندے واقعی ملکی ترقی چاہتے ہیں تو وہ ہرقربانی دے کر ملک کی خدمت کے لیے آگے بڑھیں گے، شرط صرف یہ ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں اور شفاف ہوں۔

وَمَكَرُوْا وَمَكَرَ اللہُ۝۰ۭ وَاللہُ خَيْرُ الْمٰكِرِيْنَ۝۵۴(اٰل عمرٰن ۳:۵۴)اورانھوں نے خفیہ چالیں چلیں تو اللہ نے بھی ان کا خفیہ توڑ کیا۔ اور اللہ بہترین توڑ کرنے والا ہے۔

آج پاکستان جس نوعیت کے معاشی ، معاشرتی، سیاسی اور ابلاغی بحران سے گزر رہا ہے سابقہ سات دہائیوں میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔اس بحران کے گہرے اثرات ،ریاستی اداروں میں ہی نہیں بلکہ ایک عام شہری کی زندگی میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔وہ کوئی تاجر ہو یا سرکاری ملازم، طالب علم اور معلم ہو یا طبیب یا کاشت کار ذہنی کش مکش نے اسے ایک شدید ذہنی انتشار (confusion ) اور سماجی تقسیم (social polarization ) میں مبتلا کر دیا ہے۔خاندان کے افراد ہوں یا ایک بازار میں ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی روابط رکھنے والے دکاندار ،جامعات کے طلبہ و اساتذہ ہوں یا فنی ماہرین ہر جگہ ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نظر نہیں آرہی۔ اس صورت حال پر بلاکسی تاخیر کے، سنجیدگی کے ساتھ غور اور اس کا حل نکالنے کی ضرورت ہے۔اگر اس بے چینی کو بڑھنے دیا گیا، جو پاکستان دشمن قوتوں کی خواہش ہے، تو یہ بین الصوبائی کش مکش کی حد تک جا سکتی ہے جو ملکی استحکام اور یک جہتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہے۔

ملک میں polarization یا تقسیم کا ایک ردعمل، ایک گونہ مایوسی، نا اُمیدی اور فرار کی صورت نظر آتا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ہزارہا نوجوان جو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں، ملک سے باہر حصولِ روزگار کی تلاش میں جا رہے ہیں۔یہ عمل ملک میں ذہنی افلاس اور نااُمیدی میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔حالیہ نگران حکومت اور اس سے قبل سیاسی اتحاد کی حکومت معیشت، سیاست، معاشرت، ابلاغ عامہ، ہر سطح پر سخت ناکام رہی ہے۔ عبوری حکومت نواز شریف کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ برسرِ اقتدار طبقے کو شاید زمینی حقائق کا اندازہ نہیں ہے ۔ ابلاغ عامہ پر مکمل قابو پانے کے باوجود، سابق وزیر اعظم جیل میں ہونے کے باوجود رائے عامہ کے جائزوں میں دیگر جماعتوں سے آگے نظر آتے ہیں ۔

 ملّی یک جہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات اعلان کردہ تاریخ یعنی ۸فروری ۲۰۲۴ ء کو منعقد ہوں اور انھیں متنازعہ نہ بننے دیا جائے ۔ عوام کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اداروں کے احترام کو بحال ہونے کا موقع دیا جائے ۔ اداروں پر عدم اعتماد اور ان کے بارے میں یہ تاثر کے ان کی امداد و حمایت کے بغیر کوئی سیاسی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی، ملکی اداروں کی ساکھ کو تباہ کر دیتا ہے ، اس لیے اداروں کی ساکھ کی بحالی کے بغیر کوئی سیاسی عمل مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتا۔ ان حالات میں جن چند اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کا ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:

  • دستور کی بالادستی :موجودہ سیاسی حالات میں تحریک سے وابستہ افراد کے بیانیے میں دستور کی بالا دستی کو سرفہرست ہونا چاہیے۔ دستور کے دائرئہ کار میں رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد کے ذریعے تبدیلیٔ قیادت ہماری تحریک کا معروف موقف ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام غیر دستوری ذرائع کو رَد کرتے ہوئے مثبت طور پر پُر امن دستوری جدوجہد ہی مطلوبہ نتائج پیدا کر سکتی ہے۔

اس وقت کچھ تحریکی کارکن ابلاغ عامہ کے منفی کردار اور ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی کے زیر اثر یہ سوچنے لگے ہیں کہ انتخابات کا کیا فائدہ ؟جو مراکز ِقوت کچھ عرصہ سے سیاسی تبدیلیاں لا تے رہے ہیں، ان کی غیر رسمی حمایت کے بغیر تحریک اسلامی سیاسی عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس منفی فکر کو ذہنوں سے نکالنے کی ضرورت ہے اورپورے اعتماد کے ساتھ اس عزم کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی کوشش کے نتائج صرف اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رب سے عبادات میں زیادہ کثرت اور انہماک کے ساتھ اللہ پر توکّل کرتے ہوئے ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جو دستورِ جماعت میں درج طریقۂ کار سے پوری مطابقت رکھتی ہو۔

جو بنیادی حقوق ہمیں دستور دیتا ہے، ان کے احیا اور ان پر عمل کرتے ہوئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے، چاہے حکمت عملی کی بنا پر کسی سیاسی گروہ کو فائدہ پہنچے یا نقصان اور چاہے اس عمل میں تحریک کو ایک طویل عرصہ تبدیلی ٔقیادت کا انتظار کرنا پڑے۔

  • تحریکِ اسلامی اور اخلاقی سیاست:تحریک اسلامی کی ایک پہچان یہ ہے کہ تحریک اپنے نصب العین کے حصول کے لیے دستوری اور اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتی ہے۔ یہ بات کسی تعارف کی محتاج نہیں کہ تحریک اسلامی ایک اصولی اصلاحی جماعت ہے جو دین کے مکمل قیام کو ہی مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اور ماضی کے انتشار اور    عدم استحکام کا اصل سبب وہ اخلاقی بحران ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرایت کر گیا ہے،چنانچہ سیاست ہو یا معیشت و معاشرت، صالح اخلاق کی غیر موجودگی ہی فساد اور انتشار کا حتمی سبب ہے۔اس لیے اخلاقی انقلاب، تعمیر سیرت و کردار اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے احیا کے بغیر ملک و ملت نہ قرضوں سے نکل سکتا ہے اور نہ سیاسی شفافیت اور معاشرتی فلاح کا قیام ہو سکتا ہے۔اسلام اپنے قرآنی اور نبویؐ اخلاقی اصولوں ہی کے ذریعے باطل ،طاغوت و گمراہی ،شرک و لذت پرستی اور اقتدار پرستی پر غالب آیا ۔یہ اسلام کی اخلاقی برتری تھی جس نے اپنے سے بڑی عددی قوت رکھنے والے باغیانہ معاشروں کو زیر کیا اور وہ اسلام کی اخلاقی بر تری کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوئے۔

اسلامی اخلاق کا مقصد فرد، معاشرہ اور ریاست میں توحید ووحدانیت کا قیام ہے۔ گویا فرد کی زندگی کا ہر عمل توحید کا عکس ہو اور اس کا جسم اور دل و دماغ ہر معاملے میں وہی فیصلہ کرے جو خالق حقیقی کو خوش کرنے والا ہو۔معیشت کے میدان میں وہی سرگرمی اختیار کی جائے جو حلال اور نافع ہو اور ہر اس سرگرمی سے بچا جائے جو استحصالی سودی نظام، خود غرضی اور نفع خوری پر مبنی ہو۔ ہرمیدانِ عمل میں حاکمیت نہ عوام کی ہو، نہ پارلیمنٹ کی، نہ عدلیہ کی، نہ انتظامیہ کی بلکہ صرف اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی ہو۔جس بات کو قرآن و سنت نے جائز قرار دیا ہو وہی سیاست، معیشت، معاشرت غرض یہ کہ ہر شعبہ کی زبان قرار پائے۔

جب بھی اللہ کی رضا کی جگہ کسی بیرونی طاقت کی غلامی اور حمایت کو اپنا رب بنایا جائے گا، اندرونی خلفشار اور طوائف الملوکی کی کیفیت کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہوگا۔آج ملک کے کئی صوبوں میں بیرونی دشمنوں کی مدد سے جو باغیانہ ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا حل صرف فوج کے استعمال سے نہیں ہو سکتا ۔ اصل چیز باہمی اعتماد کی بحالی اور مقامی مسائل پر خلوصِ نیت کے ساتھ مشاورت کے ذریعے دیرپا حل کا اختیار کرنا ہے ۔ بلاشبہہ مالی اور دیگر وسائل کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کا مسئلہ بھی اہم ہے لیکن اصل مسئلہ اخلاقی زوال اور اخلاص کے فقدان کا ہے۔یہ اخلاقی فساد اور افلاس صرف وہ تحریک ہی دُور کر سکتی ہے جس کی بنیاد رضائے الٰہی پر ہو ۔جو اپنے کارکنوں میں ایمان، تقویٰ، احسان اور ایثار و قربانی اور بے غرضی کی خوبیوں کی بنا پر ممتاز ہو۔ جس کے مخالفین بھی اس کی قیادت اور اس کے عام کارکن کے بارے میں یہ شہادت دیں کہ وہ مالی معاملات میں ایماندار ہیں، ان کا دامن بد معاملگی سے پاک ہے، وہ اپنے گھر میں اہل خانہ کے ساتھ محبت کا رویہ رکھتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بھی سخت زبان سے مخاطب نہیں کرتے، نہ کسی پر طنز و استہزا کے تیرچلاتے ہیں، نہ کسی کا نام بگاڑتے ہیں، نہ کسی کو چور اور بداخلاق کہتے ہیں بلکہ انبیا ؑ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے ان کا ہر قول قولِ صادق ہے۔ایک عام شہری تحریک کے کارکن کے بارے میں یہ شہادت دینے پر آمادہ ہو کہ وہ حق کی حمایت کرتا ہے چاہے حق بات کہنے میں اس کے سیاسی مخالف کو فائدہ پہنچتا ہو۔

تحریک کے عام کارکن کی یہ اخلاقی برتری ہی تحریک کا سرمایہ اور اس کا بیانیہ ہے۔ یہ بیانیہ جتنا مضبوط ہوگا، تحریک کی جڑیں عوام میں اتنی ہی گہری ہوں گی۔اس کے مقابلے میں اگر تحریک کا عوام کی نگاہ میں تصور یہ ہو کہ یہ بھی ایک مسلکی جماعت ہے جو اسلام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جدوجہد کر رہی ہے، تو چاہے تحریک کا ووٹ بینک وسیع ہو جائے، اس کی اکثریت اس کی کامیابی کی ضامن نہیں ہوسکتی۔ گویا تحریک کا بیانیہ اس کا وہ مخلصانہ اصولی اور اخلاقی عمل ہے جو خدمت خلق، اعلائے کلمۃ اللہ اور اخلاقی اصولوں کی سختی سے پیروی کرنے کی شکل میں عوام کے دل و دماغ میں پیوستہ ہو۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی ایک سیاسی یا محض ایک تبلیغی جماعت نہیں ہے بلکہ اخلاقی، اصلاحی اور اصولی تحریک ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اقامت دین محض عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام اُمور میں اللہ کی اطاعت کو عملا ًنافذ کر دینے کا نام ہے۔

اب چند لمحات کے لیے اس کی جانب توجہ کی ضرورت ہے کہ اس وقت تک ملک کا منظرنامہ کیا ہے اور اس منظر نامہ میں تحریک کے کرنے کے کام کیا ہیں؟

یہ بات نقشِ دیوار کی طرح نمایاں ہے کہ ملک ایک بڑی مجموعی تبدیلی کا متقاضی ہے۔ یہ محض حکمرانوں کی تبدیلی نہیں چاہتا بلکہ نظم و نسق اور اداروں میں ایک بنیادی تبدیلی (strategic change)کی ضرورت ہے۔اصلاح، جزوی تبدیلی سے نہیں ہو سکتی۔ قومی اجماع اور قومی یک جہتی کے بغیر نئے چہروں کو لانا مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ ملک و ملت کو اس کے مقصد ِوجود کے پیش نظر ایک جامع اصلاحی عمل سے گزرنا ہو گا تاکہ ہر ادارہ اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے وسیع تر قومی یک جہتی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ انجام دے سکے۔

  • اصولی سیاست کا فروغ: تحریک کا بیانیہ عوام میں یہ احساس پیدا کرے کہ اس کا اصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے جو ایک مجموعی عمل ہے۔ نماز بلاشبہہ اوّلین اہمیت رکھتی ہے، مگر تحریک کا ہدف محض نماز کا قیام نہیں ہے بلکہ زندگی سے دو رخی پر مبنی طرزِ عمل کو چھوڑ کر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی حاکمیت کو نہ صرف مسجد بلکہ معاشی، معاشرتی ،قانونی ، ثقافتی ، تعلیمی اور سیاسی معاملات میں عملاً نافذ کرنے کا نام ہے ۔ ایک معمولی عقل رکھنے والا فرد بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ حاکمِ کل، خالقِ کائنات اور العزیز ہے، تو کیا یہ بات معقول ہو گی کہ اس کی حاکمیت کا مسجد میں تو اہتمام کے ساتھ ،اس کا نام بلند کیا جائے۔ اس کے برعکس پارلیمان میں قرآن و سنت کے خلاف بل پاس ہوتے رہیں؟ ملکی معیشت اور بین الاقوامی معاشی نظام کے سودی کاروبار میں شرکت جاری رہے بلکہ گریہ و زاری کر کے عالمی مہاجنی اداروں سے سودی قرض کے حصول کی درخواستیں کی جاتی رہیں تاکہ ملک پر جو قرضے ہیں صرف ان پر واجب سود کی ادائیگی کی جاسکے۔ یہ دو عملی اللہ کو راضی نہیں کرسکتی۔ رضائے الٰہی کا ایک ہی طریقہ ،ہرجگہ حاکمیت الٰہی کا قیام ہے۔
  • مثالی نمایندے:اصولی سیاست کا مطالبہ ہے کہ نہ صرف نظری طور پر بلکہ عملاً تحریک جس فرد کو ایوان نمایندگان کی کسی نشست کے لیے تجویز کرے وہ اپنی سیرت و کردار میں مثالی اوصاف رکھتا ہو۔ وہ اپنی علمی اور فنی قابلیت میں صاحب رائے ہو اور اس کا تعلق جس شہر سے ہو وہ وہاں پر عوامی فلاح کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہو اور کسی کے دباؤ میں آکر یا کسی ذاتی منفعت کے لیے مفاہمت کا قائل نہ ہو۔ صرف بے غرض ،خلوصِ نیت اور آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھنے والے امیدوار ہی تحریک کے نمایندے ہو سکتے ہیں۔یہاں یہ بات واضح ہو کہ ہمارا مقصود محض نشستوں کا حصول نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس نشست کا استعمال ہونا چاہیے۔ حدیث شریف میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ نیت دین کی بنیاد ہے اور عہدے کی طلب کرنے والے کسی فرد کو موقع دینا سنت نبویؐ کے خلاف ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ سیکڑوں نمایندگان والی پارلیمنٹ میں ایسے تین چار افراد نےجو اپنے کردار کی بنا پر پہچانے جاتے ہوں، دوسری جماعتوں کی زیادہ تعداد پر اپنے اخلاقی اور اصولی موقف کی بنا پر کامیابی حاصل کی اور خصوصا ً ۱۹۷۳ء کے دستور کی مہم میں اور بعد میں سیاسی جدوجہد میں قلّت ِتعداد کے باوجود تحریک کے باصلاحیت، مخلص اور دیانت دار نمایندوں نے قومی سطح پر سیاسی فیصلوں کے باب میں کلیدی کردار ادا کیا۔اصل قوت، ایمان و کردار کی قوت ہے جو ہرمحاذ پر تحریک کو کامیاب کرتی ہے۔

  • معاشی فلاح و نجات:ملکی معیشت اور شہریوں کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تحریک معاشی ماہرین کی مدد سے قرضوں سے نجات کا ایک قابل عمل منصوبہ قوم کے سامنے پیش کرے۔ اسے گلی گلی عام کرے ۔اس سلسلے میں بیرون ملک پاکستانیوں کو اپنا حصہ ڈالنے پر آمادہ کیا جائے اور ملک کے اندر سادگی اور اشیائے تعیش کے درآمد اور فروخت پر پابندی اور ملکی مصنوعات کے فروغ کے لیے تجارت اور زراعت دوست پالیسی قوم کے سامنے لائی جائے۔
  • جدید سائنسی ذرائع کا استعمال:آیندہ پانچ برسوں میں عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے صنعت و تجارت، تعلیم، ابلاغ عامہ اور معاشرت میں غیر معمولی تبدیلیوں کا امکان ہے۔تحریک کو ماہرین کی مدد سے مستقبل کے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بغیر کسی تاخیر کے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو جدید علوم سے پیشہ ورانہ واقفیت رکھتے ہیں اور بیرونِ ملک یا ملک میں موجود ہیں ، انھیں خصوصی دعوت پر ایک مجلس فکری میں مدعو کر کے ایک جامع معاشی منصوبہ کو قوم کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ ہم قرضوں کی معیشت سے نکل سکیں۔
  • نوجوان قیادت کی ہمت افزائی:ملک کی ۷۰ فی صد کے لگ بھگ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جنھیں آیندہ ۵۰سال اس ملک میں فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہے۔ اس نعمت سے فائدہ اسی وقت اٹھایا جا سکتا ہے جب نوجوان تعلیم یافتہ افراد کو ایسی فکری غذا فراہم کی جائے جو ان امیں اعتماد ، پُر اُمیدی اور نظریہ پاکستان سے وابستگی پیدا کرنے کے ساتھ ان کی صلاحیتوں کو نشوو نما دے ۔اس غرض کے لیے نوجوانوں کے فکری حلقے، کھیلوں کے مقابلے اور اصلاحِ معاشرہ کے کاموں میں ان کی شرکت کے ذریعے ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو جلا بخشی جائے، تاکہ وہ آیندہ ۱۰برس میں تحریک کو بالغ نظر ،تصورِ پاکستان کے محافظ فراہم کر سکیں۔اس غرض سے ملک کی تمام جامعات میں تحریری اور تقریری مقابلوں، یوتھ اسمبلیوں اور خصوصاً فلسطین اور کشمیر پر ابلاغی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے، تو ایسے افراد کو باآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یہی نوجوان قیادت فراہم کریں گے۔
  • باحیا ثقافتی مہم: ملک کو درپیش سنگین اخلاقی خطرات میں سر فہرست ٹرانس جینڈر کے نام پر معاشرے میں بنیادی فساد و فحاشی پھیلانے کا عالمی منصوبہ شامل ہے جسے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں مغرب و مشرق میں عالمی معاشی اہداف SDG's کی شکل میں ۲۰۰ سے اوپر ممالک پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔اس فتنے کو حقوق انسانی کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وہ افراد اپنی جنس کا تعین خود کرنے کا حق استعمال کرتے ہوئے خواتین کے غسل خانے میں یہ کہہ کر گھس جائیں کہ   ان کے خیال میں وہ عورت ہیں، گو جسم مرد کا ہے۔ اسی طرح اَزدواجی نظام کو درہم برہم کرنے کے لیے ان کا یہ حق تسلیم کیا جائے کہ وہ پیدائشی طور پر جس جنس کے ساتھ پیدا ہوئے انہیں اس کی مخالف جنس کہلانے کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہیں اپنی جنسی تسکین کر سکیں۔اس تصور کو بچوں کے کارٹون ،بزرگوں کے ٹی وی مباحثوں ،پارلیمنٹ میں ان کی نمایندگی، حتیٰ کہ عدلیہ اور تعلیمی اداروں اور فوج میں ان کی نمایندگی کے بہانے اخلاق کے تمام الہامی اصولوں کو نظر انداز کر کے ایک اندھی لذت پرست اقلیت کو اللہ کی مخلوق پر مسلط کر نے کے منصوبہ پر عمل کیا جا رہا ہے ۔ اس فتنے کی مخالفت نہ صرف ملک گیر بلکہ عالمی سطح پر کرنے کی ضرورت ہے، کہ تحریک ایک اصولی جماعت ہے اور اس کی بنا پر اگر انتخابات میں کچھ ووٹوں سے ہاتھ دھونے پڑیں تو اسے اس بات کو خوشی اور   فخر سے برداشت کرنا چاہیے۔
  • نظام صدقات و  انفاق فی سبیل اللہ:تحریک کو اپنی دستوری انتخابی مہم میں عوام کے سامنے ایک قابل عمل منصوبہ پیش کرنا چاہیے جسے ماہرین معاشیات تیار کریں اور جس میں اعداد و شمار کی مدد سے دکھایا جاسکے کہ اگر صرف زکوٰۃ،صدقات، قرضِ حسن اور انفاق فی سبیل اللہ کی مہم کو ایمانداری سے چلایا جائے اور زکوٰۃ کی رقوم کو قابل اعتماد ادارے وصول کریں اور تحقیق کی بنیاد پر مستحقین کو ان کا حق دیں، تو ملک کو درپیش معاشی مسائل کو بڑی حد تک حل کیا جاسکتا ہے اور ملک سے بے روزگاری، فاقہ کشی اور بہت سی اموات کو روکا جا سکتا ہے جو معاشی بدحالی کی بنا پر واقع ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب مدینہ اکنامکس ایک بڑی مفید پیش کش ہے، جو معاشی اصلاح کا ایک واضح نقشۂ کار پیش کرتی ہے۔
  • نوجوان رضاکاروں کی قوت:ملک میں نو عمر افراد کی ایک بڑی تعداد زندگی کے مقصد سے عدم آگہی ، صحیح رہنمائی اور صحیح تربیت نہ ہونے کی بنا پر بے راہ روی اور نشہ آور اشیا کے استعمال کی عادی بنتی جا رہی ہے ۔ان نوجوانوں کو اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں بطور رضاکار شامل کر کے ان کی کونسلنگ اور ان کی قوت کارکردگی کو مثبت اور تعمیری کاموں میں لگا کر انھیں نشے اور دیگر اخلاقی خرابیوں سے بتدریج ایک نفسیاتی اور اسلامی حکمت عملی کے ذریعے نکال کر ایک بامقصد اور تعمیری زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھانے کی ضرورت ہے ۔ اس مقصد کو شہروں اور گاؤں میں نوجوانوں کے سوشل ورک کے ذریعے  حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم ، صفائی، صحت اور امداد باہمی کی مہم کے ذریعے بنیادی مسائل کے حل میں ان کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ یہی نوجوان تحریک کو نیا خون اور ولولہ فراہم کریں گے۔
  • دستوری جدوجہد ، ووٹ کی حیثیت:تحریک کو ووٹ کی شرعی اہمیت اور ووٹ کے ذریعے اپنی آزاد رائے کا استعمال کرنے پر عوامی مہم چلانی چاہیے تاکہ لوگ انتخاب کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ ان میں یہ اعتماد پیدا ہو کہ اگر وہ کسی صحیح اور سچے امیدوار کے لیے ووٹ کا استعمال کریں گے تو ان کا یہ عمل دنیا اور آخرت میں اجر کے حصول کا ذریعہ ہوگا ،اور پر امن اصلاحی تبدیلی میں مددگار ہوگا۔
  • دین و سیاست:اس معاملے کو جہاں کہیں ضرورت ہو اٹھانا چاہیے کہ دین اور سیاست دو الگ دائرے نہیں ہیں۔ دین اور سیاست کے یک جا تصوّر سے عوام کو آگاہ کرنا ایک دینی فریضہ ہے ۔ یہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا عملی استعمال ہے ۔اس لیے پرانے نظام سے پیدا ہونے والی مایوسی کی جگہ پر اُمیدی کے ساتھ حق رائے دہی کو استعمال کیا جائے تاکہ ملک میں نظامِ عدل کے قیام کو یقینی بنایا جا سکے۔
  • صبر و تحمل اور  قولِ حسن کا اہتمام:سیاسی مہم میں عموما ًعقل پر جذبات غالب آجاتے ہیں، اس لیے تحریک سے وابستہ افراد کو خصوصاً اپنے ایک ایک لفظ کو سوچ سمجھ کر اور قرآن و سنت کے بتائے ہوئے اصولوں یعنی حُسنِ ظن، قول معروف ،شہادت حق اور اکرام مسلم کے پیش نظر وہ اسلوب اختیار کرنا چاہیے جو تحریک کی اصل پہچان ہے۔ماضی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کرتے ہوئے تحریکی کارکنوں کو اُمید کے چراغ روشن کرنے اور رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد کرنے میں نتائج سے بے پرواہ ہونے کے جذبہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ تحریک دیگر شعبوں اور تنظیموں سے ممتاز ہو۔ اس جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کے حضور راتوں کے لمحات میں اور دن کی روشنی میں ہر لمحہ استعانت کی درخواست ، استقامت کی دعا اور دین کی سربلندی کی استدعا کرنا ایک انتہائی اہم کام ہے۔اسباب و وسائل کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے لیکن اصل کامیابی دینے والا صرف اور صرف رب کریم ہے،اسی کی طرف رجوع کرنا اور اسی کی امداد طلب کرنا ہی تحریک کا شعار ہے۔
  • قومی انتخابات کا ناگزیر تقاضا:جماعت اسلامی وہ جماعت ہے جس نے اپنا مفصل منشور انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے پہلے ہی شائع کر دیا ہے۔ اس منشور میں جو پروگرام اور ہدف قوم کے سامنے رکھا گیاہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی نظریۂ حیات ہے اور اس کی ریاست اور معاشرے کی تعمیر کا اصل ہدف اسلامی نظریے کی روشنی میں زندگی کے ہرشعبے کی تشکیل و تعمیر نو ہے۔ یہی بات پاکستان کے دستور میں صاف الفاظ میں کہی گئی ہے اور اس کا ہر رکن اسمبلی حلف اُٹھاتا ہے۔ گوبدقسمتی سے اس سے سب سے زیادہ غفلت اور انحراف حکومتوں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں ہی نے کیا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ووٹر ۸فروری ۲۰۲۴ء کو منعقد ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ بہت سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور ایک ایسی قیادت کو منتخب کریں جو ملک و ملّت کی حقیقی اسلامی تشکیل کا عزم اور صلاحیت رکھتی ہو۔ آج اگر ووٹر اپنے اس حق کو ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کرتا تو حالات کو بدلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔

اسلامی نظریے کی تشکیل ہی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ملک میں ایک جمہوری اور عوام دوست اور عوام کا معتمدعلیہ نظام قائم ہو جس میں انفرادی آزادی، انسانی حقوق کی پاسداری اور معاشرتی فلاح کا پورا اہتمام ہو۔ اس امر کا بھی پورا لحاظ رکھا جائے کہ ملک کے عسکری ادارے اور اسٹیبلشمنٹ اپنی تمام توانائیاں ملک کی سیکورٹی پر مرکوز کریں اور سیاست میں مداخلت سے مکمل اجتناب کریں۔ اسی طرح ملک کے جن علاقوں میں غربت، وسائل کی عدم فراہمی اور قومی سطح پر احساسِ محرومی کا احساس ہے، ان کی شکایات کو دُور کیا جائے اور انھیں قومی دھارے میں واضح کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس کے ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں معاشی اور سیاسی ہردواعتبار سے مکمل خودانحصاری (self-reliance) کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ عالمی بلاکس سے اپنے کو آزاد رکھا جائے اور سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر خارجہ اُمور کو طے کیا جائے۔ پاکستان کے لیے کشمیر کا مسئلہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے اور تحریک ِ آزادیٔ کشمیر کی ہرممکن مدد و معاونت کی جائے۔ عالمی سطح پر فلسطین کے مسئلہ اور اس کے منصفانہ حل کو بھی اُجاگر کرنے، اور خصوصیت سے اسرائیل کے مکمل عالمی معاشی بائیکاٹ کے لیے مؤثر کوشش کی جائے۔ان سب کے ساتھ ایک اہم مسئلہ ملک میں ہرسطح پر کرپشن کا سیلاب ہے جس نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ پاکستان میں عورتوں کو وہ تمام حقوق بلاکم و کاست دیئے جائیں، جو اسلام انھیں دیتا ہے، اور جن میں سے بیش تر سے وہ محروم ہیں۔ان تمام اُمور پر فوری توجہ وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کا انحصار ۸فروری ۲۰۲۴ء کو ہونے والے الیکشن کے صاف و شفاف اور منصفانہ ہونے اور ووٹر کے اپنے حق کو صحیح صحیح استعمال کرنے پر ہے۔ ہم عوام سے اس فیصلہ کن مرحلے میں الیکشن میں بھرپور شرکت اور ووٹ کے استعمال کی اپیل کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا کردار ملک گیر اور ہمہ پہلو ہونا چاہیے۔ اس کام کا مکمل نقشہ مرتب کیا جائے اور اس کو گھر گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کا بھرپور استعمال ازبس ضروری اور فیصلہ کن ہے۔

القدس اور حرم کعبہ اپنی عظمت و حرمت کے لحاظ سے دنیا کی ہرمسلم آبادی کے لیے غیرمعمولی اہمیت کے حامل مقامات ہیں۔روئے زمین پر پہلا مرکز عبادت حرم کعبہ بیت اللہ ابوالانبیا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں تعمیر ہوا، اور قیامت تک کے لیے محترم جائے سجود قرار پایا۔

اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمان کی طرف دیکھنے اور دل سے قبلۂ ابراہیمی کو اختیار کرنے کی خواہش کو قبول فرماتے ہوئے ہدایت فرما دی کہ ہر صاحب ایمان جہاں کہیں بھی ہو، نماز ادا کرنے کے لیے حرم کعبہ کی طرف رخ کرے۔ لیکن بنی اسرائیل کی تاریخ میں ایک دور وہ بھی آیا جب حضرت سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کو بنی اسرائیل نے جو اس سے قبل کعبہ کی طرف ہی رخ کر کے دعائیں مانگتے تھے، اپنا قبلہ قرار دے دیا اورالقدس کی طرف رخ کر کے عبادت کرنے لگے۔اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کے اذِن سے نبی کریمؐ نے بھی مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد تقریباً ۱۴ ماہ تک القدس ہی کی طرف رُخ کر کے نماز ادا فرمائی اور جب ربِّ کریم نے حکم دیا تو بلاکسی تاخیر قبلۂ ابراہیمی کو اختیار فرما لیا۔اس علامتی طور پر تبدیلیِ امامت و قیادت نے قیامت تک کے لیے ہدایت کا راستہ اور اس کی طرف دعوت کی ذمہ داری اُمت مسلمہ کو تفویض فرما دی۔

 مسلمانوں کے لیے الاقصیٰ کی اہمیت محض جذباتی نہیں بلکہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن کریم نے الاقصیٰ کے اردگرد کے علاقے کو مبارک قرار دیا ، یہیں حضرت ابراہیمؑ نے مسجد قائم کی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج کا آغاز بھی یہیں سے ہوا ۔اس مسجد کے قرب و جوار میں حضرت ابراہیمؑ اور بنی اسرائیل کے انبیاؑ کی آخری آرام گاہیں واقع ہیں ۔ ان اسباب کی بناپر القدس کی اور مسجد اقصیٰ کی اہمیت ہرصاحب ِایمان کے دل میں جاگزیں ہے۔

یہی وہ القدس ہے جو گذشتہ کئی دہائیوں سے عالمی استعمار اور صیہونی ناجائز تعاون کے نتیجے میں ظلم و جبر ،قتل و غارت اور حقوق انسانی کی پامالی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔غزہ کی مسلم اور عیسائی آبادی ناجائز طور پر قائم کردہ صیہونی اسرائیلی ریاست کے فضائی ،بری اور بحری تینوں راستوں سے بمباری کا ہدف بنی ہوئی ہے اور ہزار ہا معصوم بچے، خواتین، بزرگ، حتیٰ کہ ہسپتالوں میں داخل مریض بھی اسرائیلی بمباری اور قتل و غارت گری سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہر لمحہ زندگی سے ہاتھ دھوتے اور شہادت کا درجہ پانے والے مظلوموں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ مسلم دنیا کا ضمیر صرف حمایتی بیانات تک محدود ہے۔

امریکا کی اسرائیلی صیہونیت کی حمایت علانیہ طور پر اسلحہ اور سیاسی حمایت کے ذریعے واضح ہو چکی ہے۔ مارچ۲۰۲۳ء میں امریکی کانگریس سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۴۸ء سے اب تک امریکا نے اسرائیل کی ۲۶۰ بلین ڈالر کی بیرونی امداد کی ہے، جس میں نصف جنگی سازوسامان پر صرف ہوئی ہے۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے حق میں ۴۲ (بشمول حالیہ۲) مرتبہ ’ویٹو‘ کا حق استعمال کیا ہے۔ یورپی ممالک اسرائیل کی ہمدردی میں بچھے جا رہے ہیں لیکن وہ مسلم ممالک جن کی جغرافیائی سرحدیں فلسطین کے ساتھ ملی ہوئی ہیں، ان کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے، ان کے حقوق انسانی کی بحالی اور انھیں زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کوئی سنجیدہ کوشش تاحال سامنے نہیں آئی ۔ البتہ سفارتی محاذ پر اس حوالے سے سرد مہری اور نیم دلی سے جاری کیے گئے بیانات تواتر سے جاری کیے جا رہے ہیں۔

تاریخی پس منظر

تاریخی لحاظ سے ۶۳۸عیسوی میں حضرت عمر ؓکے دور میں مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اور حضرت عمر فاروق ؓ نے خود فلسطین جا کر وہاں کی غیر مسلم آبادی کو حقوق شہریت عطا کیے۔ حضرت عمرؓ کا یہ سفر تاریخ انسانی میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔اس سفر میں کلیسا کے سربراہ سےگفتگو کے دوران نماز کا وقت آیا تو پادری نے کہا کہ آپ یہیں نماز پڑھ لیں لیکن حضرت عمرؓ نے کلیسا سے کچھ فاصلہ پر جا کر نماز ادا فرمائی ۔انھیں خدشہ تھا کہ عیسائی عبادت گاہ میں ان کی نماز کی ادائیگی کو نظیر قرار دے کر بعد میں آنے والے مسلمان، عیسائی عبادت گاہ کو مسجد میں تبدیل نہ کردیں۔ دوسرے مذہب کے عبادت خانے کا ایک فاتح کی طرف سے یہ احترام تاریخ میں کہیں اورنہیں نظر آتا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر ساڑھےچار سو سال تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر انتظام رہا۔ ۱۰۷۸ء میں سلجوقی اس کے حکمران بنے اور ۱۰۹۹ء میں کئی ممالک کی متحدہ عیسائی افواج نے مل کر حملہ کیا اور فلسطین پرعیسائی قابض ہو گئے ۔ اکتوبر ۱۱۸۷ ء میں صلاح الدین ایوبی (۱۱۳۷ء-۱۱۹۳ء)نے اسے دوبارہ فتح کیا اور رواداری اور عدل کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ ۱۵۱۷ء میں فلسطین کو عثمانی فرماں روا نے دوبارہ فتح کیا اور پھر ۴۰۰ سال یہ عثمانی ریاست کا حصہ رہا۔۱۹۰۸ء میں سلطان عبدالحمید کی برطرفی کے بعد مصطفیٰ کمال کی قیادت میں’نوجوان ترکوں‘کے زیر عنوان ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دے دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال نے پہلی جنگ عظیم کے دوران ۱۹۱۴ء میں غیر جانب دار رہنے کی بجائے جرمنی کے حلیف کے طور پر معاہدہ کرلیا تھا۔ دوسری جانب برطانیہ ،فرانس ،روس اور امریکا آپس میں اتحادی بن گئے اور جرمنی کی شکست کے بعد اتحادیوں نے ترک مقبوضات کو ایک نئے نقشے کے تحت آپس میں تقسیم کرلیا۔

۱۰؍ اگست ۱۹۲۰ء مسلم دنیا کی تاریخ میں وہ تاریک دن ہے جب فرانسیسی اور برطانوی استعمار کے نمایندوں نے سہیورس(Sevres) میں سائکس- پائی کوٹ(Sykes-Picot) معاہدہ کے نام سے ایک دستاویز کے ذریعے طے کیا کہ سلطنت عثمانیہ کو تتّر بتّر کرنے کے لیے فرانس کے حصے میں لبنان اور شام اور برطانیہ کی جھولی میں عراق، فلسطین اور اردن کو ڈال دیا جائے ۔تاکہ مسلم ممالک فرانس اور برطانیہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں اور یہ دونوں ممالک مسلم دنیا کے قدرتی وسائل کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کر سکیں۔

۱۹۱۴ءکے اعداد و شمار کے لحاظ سے فلسطین میں چھ لاکھ فلسطینی تھے اور یہودی بمشکل ۵۰ہزار تھے۔ آج اسرائیل کی دُوررس منصوبہ بندی اور مسلمانوں کی آنکھیں بند رکھنے کے نتیجے میں یہ تناسب اُلٹا ہے۔ فلسطین میں بمشکل ۲۰ فی صد مسلم آبادی ہے اور اس کو بھی قتل و غارت گری، دہشت گردی اور خوف کی فضا کے ذریعے مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک آج بھی آنکھیں، کان اور عقل کو استعمال کرنے پر آمادہ نظر نہیں آ رہے۔

مسئلہ فلسطین کی تخلیق مغربی استعمار کی وسیع تر تخریبی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد یورپی مسیحی اتحادی حکومتوں نے ایک وسیع تر تخریبی حکمت عملی کے تحت عثمانی مملکت کا جس نے غیر دانش مندانہ بنیاد پر جرمنی کا ساتھ دیا تھا، بٹوارےکا فیصلہ کیا تاکہ مسلم قوت کی مرکزیت کو ختم کر کے انھیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بانٹ دیا جائے ،جو ہمیشہ طاقت ور یورپی ممالک کی مدد طلب کرنے پر مجبور ہوں۔

برطانوی شاطر دو قدم اور آگے بڑھے اور برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میکموہن نے اپنے ایک خفیہ خط کے ذریعے عثمانیہ ریاست کے مقرر کردہ والی شریف حسین کو عثمانیوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا اور برطانوی حکومت کی جانب سے کسی اختیار کے بغیر شریف مکہ کو ایک نجی خط کے ذریعے برطانیہ کی جانب سے ایک آزاد مملکت کی سربراہی کی پیش کش کر دی، جسے شریف حسین نے بلا کسی تردد کےقبول کر لیا اور اس طرح عثمانی ریاست کے منتشر ہونے پر شام ، عراق ، فلسطین اور سعودی عرب سیاسی نقشے پر اُبھرے۔

نہ صرف یہ بلکہ برطانیہ نے کھلم کھلا فلسطین کے علاقے میں یہودی آباد کاری کے ایک منظم منصوبے کا بھی اہتمام کیا ۔دسمبر ۱۹۱۷ء میں برطانوی فوج نے فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اوربرطانوی استعمار نے اگلے تیس برسوں میں اس خطے میں یہودی آباد کاری کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کیا اور مقامی سادہ لو ح افراد کی زمینیں اونی پونی قیمتوں پر دنیا بھر سے آنے والے یہودیوں نے خریدنی شروع کر دیں ۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کی ناجائزریاست کے قیام کے وقت اس میں بہ مشکل ۷لاکھ ۵۸ ہزار یہودی آباد تھے۔ ملک کا بٹوارا کرتے وقت کل رقبےکا ۵۶  فی صد رقبہ اسرائیل کو دیا گیا اور ۴۴ فی صد حصہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، وہاں فلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کو رہایشی حقوق دینے کا اعلان کیا گیا۔یہودی آبادی اس وقت کل آبادی کا بہ مشکل ایک تہائی تھی ۔ دوتہائی آبادی میں مسلمان اکثریت میں تھے اور قلیل تعداد میں عیسائی بھی آباد تھے۔ آج نا جائز مقبوضہ اسرائیل میں تقریباً ۱۸ لاکھ مسلمان ہیں ، جب کہ آبادی کے جائزوں اور گوشواروں میں مسلمانوں کی شرح پیدائش یہودیوں سے بہت زیادہ ہے ۔یہودی آبادی ۶۳ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

مسئلہ کی اصل نوعیت

مشرق وسطیٰ کے وہ مسلم ممالک خصوصا ًجہاں عربی زبان رائج ہے ،وہ مسئلہ فلسطین کو فلسطینی عربوں اور یہودیوں کا تنازع سمجھتے ہیں اور اپنے سیاسی مصالح کو اولیت دیتے چلے آرہے ہیں اور اس نازک اور حساس معاملہ پر زبانی جمع خرچ سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتے۔اگر واقعی یہ صرف عربوں اور یہودیوں کا مسئلہ ہے تو وہ عرب ممالک جو کچھ عرصہ قبل معقول عسکری قوت رکھتے تھے، وہ سیاسی اور عسکری دباؤ کا استعمال کر کے مسئلہ کا سیاسی حل نکال سکتے تھے۔لیکن مصر ہو یا اُردن یا مراکش ان ممالک نے ایک ناجائز قابض حکومت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہوئے اپنے سفارتی تعلقات ہی قائم نہیں کیے بلکہ خفیہ اداروں کے ذریعے معلومات کے تبادلے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ’معاہدہ ابراہیم‘ (Abraham accord )کے عنوان سے امریکا کی سرپرستی میں خلیجی ریاستوں یو اے ای نے اسرائیل سے ایک ایسے شرمناک معاہدے پر دستخط کیے جو نہ صرف ایک اعترافِ جرم کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ صدیوں کی تاریخ کو غلط قرار دیتے ہوئے اصلاحات کرنے کے بعد ایک ایسی تاریخ تحریر کرنے کاپابند کرتا ہے جس میں کسی مقام پر جہاد کا تذکرہ نہ ہو اور صیہونیت کے خلاف ماضی میں جو کچھ قانونی یا دستوری اقدامات کیے گئے ہیں، انھیں منسوخ کرنے اور تاریخ کی نئی تعبیر کرنے کا پابند بناتا ہے ۔

یہ مسئلہ فقط عربوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی انسانی مسئلہ ہے۔ ۳۰ لاکھ سے اُوپر مقامی باشندوں کو حقوق انسانی سے محروم اور بے گھر کرنے اور بچوں، خواتین، بزرگوں اور جوانوں کو تشدد اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنانے کی ذمہ داری صیہونی دہشت گردی پر ہے۔

یہ محض ایک مذہبی اختلافی مسئلہ بھی نہیں ہے کیونکہ صیہونی حکومت کو صحیح العقیدہ یہودی بھی یہودیت کانمایندہ نہیں سمجھتے۔ یہ ایک ناجائز حکومت کا نسلی برتری اورنسل پرستی (Racism) کی بنیاد پر نسل کشی (Genocide )کی پالیسی کے خلاف جدوجہد ہے، جو ہرباشعورانسان کی دل کی آواز ہے۔ اسرائیلی حکومت نسل پرست لادینی قومیت کی علَم بردار ہے، جب کہ فلسطین کے مسلمان صرف اپنے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور سرزمین پر اپنے آبائی حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ فلسطینی یہودیوں کی طرح مشرقی یورپ ، افریقہ اور دیگر ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے افراد نہیں ہیں بلکہ صدیوں سے مسجد اقصیٰ کے ارد گرد آباد ہیں، جنہیں ان کے گھروں سے جارحیت اور قتل و غارت گری کے ذریعے بے گھر کیا جا رہا ہے ۔یہ مسلمانوں کے قبلۂ اول کی حفاظت کا مسئلہ ہے جو سیکولر ، صیہونی اسرائیلی حکومت کی نگاہ میں ایک غیر مطلوب عبادت گاہ ہے اور جسے مسمار کرنا ان کے مقاصد میں شامل ہے ۔غزہ میں حالیہ فضائی حملوں کے بعد زمینی بکتر بند حملے کا مطلب یہ ہے کہ جو جاندار بھی غزہ میں ہے ،اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے اور یہی وہ کام ہے جو ہلاکو خان نے بغداد میں کیا تھا۔ اس سفاکانہ عمل کی مخالفت اور اسرائیل کو اس سے باز رکھنا ہر انسان پر ایک فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔

جس بے شرمی کے ساتھ مغربی ممالک، ہندستان اور اقوام متحدہ نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بے اعتنائی اور انسانی حقوق کی پامالی کو گوارا کیا ہے، اس کے بعد ان اداروں اور ممالک سے کسی خیریا تعاون کی امید رکھنا عقل مندی کے منافی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلم ممالک آنکھیں کھولیں اور خود کو مغربی اداروں کی معاشی غلامی سے نکالنے کے لیے ایک عالمی مالی ادارہ قائم کریں جو ان کے معاشی مسائل میں امداد کرے۔اس کے ساتھ ہی نظام تعلیم میں بنیادی اصلاحات کریں تاکہ قوم میں اعتماد پیدا کریں اور یوں القدس کی آزادی آج نہیں تو کل باشعور مسلم نوجوانوں کے ذریعے عملی شکل اختیار کرسکے۔

تحریکِ اسلامی اور مسلم ملّت کے کرنے کے کام

اقامت دین کی جدوجہد کرنے والی تمام تحریکات اسلامی کا ایک اہم ہدف اسلامی نظام عدل پر مبنی معاشرہ اور ریاست کا قیام ہے۔ ملک اور ملک کے باہر جہاں کہیں بھی ظلم و استحصال ہورہا ہو، حقوق انسانی پامال کیے جا رہے ہوں اور انسانی جان اور مال کی حرمت باقی نہ ہو، تو تحریک اسلامی پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ہرممکنہ ذریعے سے مظلوم اہل ایمان کی مدد کرے اور انھیں ظلم سے نجات دلائے۔

اس حوالے سے پہلا کرنے کا کام عوام و خواص کو مسئلے کی اصل نوعیت سے آگاہی فراہم کرنا ہے ۔اس غرض سے بڑے اور چھوٹے اجتماعات، وفود، گھر گھر جا کر مظلوم مسلمانوں کے لیے ادویات اور غذا فراہم کرنے کے لیے مالی وسائل کا جمع کرنا ،اسکولوں کالجوں اور جامعات میں امدادی فنڈ کی مہم کے ذریعے وسائل جمع کر کے جلد از جلد پوری ذمہ داری کے ساتھ مستحقین تک پہنچانا تحریک کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ مرکز جماعت کی جانب سے تمام اضلاع کو اس موضوع پر امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے جاری کردہ تفصیلی ہدایات دی جاچکی ہیں۔ ان کی روشنی میں ذیلی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ پوری تندہی سے اس فریضے کو سر انجام دیں۔

طبّی وفود

جتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی جا رحیت کے نتیجے میں بچے، خواتین اور ضعیف افراد زخمی ہورہے ہیں، ان کے لیے مقامی طور پر طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ۷؍اکتوبر سے ۲۲؍اکتوبر تک صرف دو ہفتوں میں۷ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور ۱۵ہزار ۲سو۷۳؍ افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں ۱۱۱۹ خواتین اور دو ہزار ۳۵ بچّے شامل ہیں۔اسرائیلی بمباری نے ہسپتالوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں مریض ، ڈاکٹر اور طبی عملے کے افراد روزانہ کی بنیادوں پر شہید ، زخمی اور معذور ہو رہے ہیں ۔ علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھرپور سر گرمی ضروری ہے ۔ اس حوالے سے تحریک کو ملکی اور عالمی تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کی جانوں کے تحفظ کے لیے قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ یہ ایک انسانی فریضہ ہے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ طبی امدای وفود کے لیے غزہ تک کے راستے سہولت میں تعاون کرے۔

ابلاغ عامہ کا استعمال

 تحریک سے وابستہ اصحاب علم کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے فلسطین کے مختلف پہلوؤں پر علمی اور تحقیقی مواد (حقائق اور معلومات) تیار کریں اور یونی ورسٹیوں اور بیرون ملک اخبارات تک ای میل اور دیگر ابلاغی و سماجی میڈیا کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ 

سوشل میڈیا کا محاذ

 اس وقت سوشل میڈیا محاذِ جنگ کے بعد دوسرا اہم ترین محاذ بنا ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اسرائیل کی حمایت میں یہود و ہنود کے اشتراک سے جھوٹا پروپیگنڈا نقطۂ کمال پر ہے ۔ حماس کی تازہ کارروائی کے فوراً بعد اسرائل میں حماس کے ہاتھوں ۴۰ بچوں کے قتل کی جھوٹی خبر کو سوشل میڈیا پر پھیلا دیا گیا ۔ امریکی صدر نے بھی اس بنیاد پر حماس کے خلاف سخت ترین غیر سفارتی زبان میں اس عمل کی مذمت کی ۔ بعد ازاں خبر غلط ثابت ہوئی ۔ موبائل اور کمپیو ٹر کے ذریعے لڑی جانے والی اس جنگ کے لیے ہمیں بھی فعال ، ذہین اور مستعد افراد کے ذریعے منظم انداز میں روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے پروپیگنڈے کا توڑ کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا محاذ کے ذریعے حسب ذیل اہداف پر توجہ کی ضرورت ہے :

  • اسرائیل کے زیر اثر عالمی میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈا کا توڑ
  • ہر گھنٹے کی بنیاد پر اسرائیل کے غزہ کے انسانوں پر توڑے جانے والے مظالم سے دنیا کو آگاہ کرنے کا اہتمام
  • عوامی بیداری کے لیے حقائق اور تاریخی پس منظر کی مسلسل تشہیر
  • لاکھوں محصور لوگوں کی جانیں بچانے کے لیےعطیات کے حصول کی مہم کو آگے بڑھانا
  • دیگر رضاکار اداروں کی سرگرمیوں کا ابلاغ
  • اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کی مصنوعات کی نشان دہی اور ان کے بائیکاٹ کے لیے عوام کی ذ ہن سازی
  • تعلیمی اداروں اور جامعات میں سرگرمیاں

اہم تاریخی اور نظریاتی اہمیت کے موضوعات ہمارے نصاب تعلیم کا حصہ نہیں ہیں۔جس کے باعث ہماری نوجوان نسل میں اہم نظریاتی موضوعات پر شعور کی کمی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں ایسے پروگرام اور سرگرمیاں منعقد کرنی چاہییں جن کے نتیجے میں نوجوان نسل کے شعور میں اضافہ ہو۔ جامعات میں یونینوں پر پابندی کے باوجود ہر جامعہ میں طلبہ کی سرگرمیوں کے لیے سوسائٹیاں اور کلب موجود ہیں۔ مسئلہ فلسطین کی تاریخ، پس منظر، حقائق واضح کرنے کے لیے تقاریری مقابلے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔ ہینڈ بلوں، کتابچوں، اور سوشل میڈیا پوسٹوں کے ذریعے نوجوان نسل کو اس انسانی مسئلے کے حقائق اور تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنے کا اہتمام ضروری ہے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر پُرامن احتجاجی واک، شعور بیدار کرنے والی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے نوجوان نسل کی سیاسی جدوجہد کی تربیت کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔تعلیمی اداروں کی سطح پر مختلف ڈارما سوسائٹیوں کے قیام کے ذریعے ڈراموں اور مختصر تمثیلی خاکوں کے ذریعے غزہ کے مظلوموں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور عالمی سامراج کے دُہرے منافقانہ معیار کو اجاگر کیا جائے۔غرض ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں بیداری کے حصول کے لیے مختلف النوع تربیتی و آگاہی سرگرمیاں منعقدکرنا ضروری ہے۔ ان سرگرمیوں کے مختصر دورانیئے کے کلپس سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی شعور میں اضافے کا بھی سبب بنیں گے۔

بین الاقوامی اداروں کو قراردادیں جمع کرانا

غزہ کا مسئلہ بنیادی طور پر ایک انسانی مسئلہ ہے جس میں لاکھوں لوگ اپنی سرزمین سے بے دخل کر کے جبری طور پر مہاجر بنائے جا رہے ہیں اور ان پر بنیادی ضروریات زندگی کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ظالمانہ بمباری کے ذریعے ہزراوں عورتوں ، بچوں ،مریضوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس عظیم انسانی المیے کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مقامی دفاتر کے سامنے مظاہروں کا انعقاد کیا جائے اور قراردادیں جمع کروائی جائیں ،جن میں اقوام متحدہ کو ذمہ داری ادا کرنے پر متوجہ کیا جائے۔ اس صورت حال پر اقوام متحدہ سے سوال کیا جائے کہ اگر وہ انڈونیشیا میں عیسائیوں کے تحفظ کے لیے اقدام کر سکتی ہے تو وہ فلسطین کے نہتے اور مظلوم انسانوں کے لیے کیوں جنگ بندی نہیں کروا سکتی اور اسرائیل پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر ہرجانہ کیوں نہیں کر سکتی؟ اقوام متحدہ پر زور ڈالا جائے کہ وہ غزہ کے متاثرین تک طبی اور غذائی امداد کی فراہمی کے جلد از جلد انتظامات کرے۔

سیاسی محاذ

پاکستانی سیاست دان، دانش ور اور عوام عمومی طور پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے قائد اعظم ؒ کے اصولی موقف سے آگاہ نہیں ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی قائدا عظمؒ کے موقف سے انحراف کی راہ پر گامزن ہے۔ قومی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں سے روابط اور اس موضوع پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ تحریک کے زیر اہتمام عوامی احتجاجوں میں دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی شرکت سے یک جہتی کی فضا کے قیام میں مدد ملے گی ۔ تمام جماعتوں کے قائدین کو آل پارٹیز فلسطین کانفرنسوں میں مدعو کرکے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے۔ تمام جماعتوں کی جانب سے مشترکہ اعلامیوں اور قراردادوں میں حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ جنگ بندی کے قیام ، فوری طبی امداد و دیگر بنیادی ضروریات کے ذریعے متاثرین کی ہر ممکن فوری امداد کی ذمہ داری ادا کرے۔ نیز تمام ریاستی وسائل مثلاً ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات کو بروئے کار لاتے ہوئے تنازع فلسطین کے تاریخی پس منظر اور اسرائیل کے سفاکانہ کردار کو پاکستان سمیت پوری دنیا کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کرے ۔

مسئلہ فلسطین اور قائداعظم ؒ

ذیل میں قائد اعظم ؒ کے فلسطین کے حوالے سے اصولی موقف کی ترجمانی کرنے والے اہم حوالے پیش کیے جا رہے ہیں ۔ قائداعظمؒ کے اصولی موقف کی روشنی میں قومی اتفاق رائے اور خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ ۱۷فروری ۱۹۴۴ء کو اپنے ایک تارکے ذریعے پیغام میں مسٹر چرچل کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :(روزنامہ ڈان، ۱۸فروری ۱۹۴۴ء)

America-Zionist  propaganda  supported by influential quarters causes alarm and serious apprehension. Any departure from White Paper and definite assurances given to Muslim India by Lord Linlithgow, Viceroy on behalf of His Majesty’s Government would be further act of flagrant injustice to Arabs and breach of faith. Not only Muslim India but entire Muslim world would deeply resent it. Consequences fraught with gravest danger.

بااثر حلقوں کی حمایت سے امریکی ور یہودی پروپیگنڈا زبردست خوف اور خطرے کو جنم دیتا ہے۔ قرطاسِ ابیض اور ان یقین دہانیوں سے کوئی انحراف جو وائسرائے لارڈ لنلتھگو نے ملک معظم کی حکومت کی جانب سے مسلم ہند کو کرائی تھی عربوں کے ساتھ صریحی ناانصافی اور عہدشکنی کی جانب ایک اور قدم ہوگا۔ نہ صرف مسلم ہند بلکہ پورا عالم اسلام اس کے خلاف اظہارِ ناراضی کرے گا۔ اس کے نتائج شدید تشویش اور سنگین خطرات کا باعث ہوں گے۔

اسی طرح کا ایک برقی پیغام میں (۲؍ اکتوبر۱۹۴۵ء) برطانوی وزیر اعظم مسٹر ایٹلی کو لکھتے ہیں:

President Truman's reported Palestine immigration proposal is unwarranted, encroaching upon another country, monstrous and highly unjust. Any departure from the White Paper and Britain’s pledge will not only be sacrilege and a breach of faith with Muslim India but an acid test of British honour. It is my duty to inform you that any surrender to appease Jewry at the sacrifice of Arabs would be deeply resented and vehemently resisted by the Muslim would and Muslim India and its consequences will be most disastrous.

فلسطین میں یہودیوں کی آمد کے بارے میں صدر ٹرومین کی تجویز، جو اخبارات میں شائع ہوئی، ناجائز، دوسرے ملک کے معاملے میں مداخلت، خوفناک اور نہایت غیرمنصفانہ ہے۔ قرطاس ابیض اور برطانیہ کے عہد سے ماورا کوئی اقدام نہ صرف [مذہبی] بے حُرمتی اور مسلمانانِ ہند کے ساتھ عہدشکنی ہوگی بلکہ برطانوی وقار کی آزمایش بھی ہوگی۔ مَیں یہ اطلاع دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کی خوشامد کے لیے عربوں کو قربان گاہ کی بھینٹ چڑھانے کی سعی عالمِ اسلام اور مسلم ہند میں بے جا خفگی کا باعث ہوگی اور اس کی زبردست مزاحمت ہوگی اور اس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے۔

۲۳ جنوری ۱۹۴۶ء کو اپنے ایک بیان میں اسی بات کو دُہراتے کرتے ہیں :

If there is going to be any departure from the policy declared by Britain in the White Paper on Palestine, Mussalmans in India cannot remain detached observers and will support the Arabs in any way they can.

However, boycott measures might be levelled against goods of Jewish origin, as indicated by the Agra Report that Muslim shopkeepers are already refusing to sell "Jewish cigarettes" (APA). (The Dawn, January 24, 1946).

اگر برطانیہ کی جانب سے فلسطین کے متعلق قرطاس ابیض میںا علان کردہ حکمت عملی سے انحراف ہوا تو مسلمانانِ ہند خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے، اور وہ ہرممکن طریقے سے عربوں کی حمایت کریں گے…تاہم یہودی الاصل اشیا کی خریدوفروخت کے مقاطعے کے اقدامات اختیار کیے جاسکتے ہیں، جیساکہ ’آگرہ رپورٹ‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں مسلمان دکان دار ’یہودی سگریٹ‘ فروخت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔

۲۴ دسمبر ۱۹۴۷ء کو یمن کے بادشاہ امام یحییٰ کے نام ان کے پیغام کے جواب میں اس عزم کا اظہار (روزنامہ پاکستان ٹائمز، ۲۵دسمبر ۱۹۴۷ء)کرتے ہیں:

I fully share your Majesty’s surprise and shock at the serious lack of judgment shown by the UNO by their unjust decision in respect of Palestine. I once more assure you and our Arab brethren that  Pakistan  will  stand  by  them and do all that is possible to help and support them in their opposition on the UNO decision which is inherently unjust and outrageous.

اقوام متحدہ کے فلسطین کے حوالے سے انتہائی غیرذمہ دارانہ رویے کی بناپر کیے گئے غیرمنصفانہ فیصلے پر میں عزّت مآب کی حیرت اور صدمے کی کیفیت میں پوری طرح شریک ہوں۔ میں ایک بار پھر آپ کو اور اپنے عرب بھائیوں کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس مسئلے میں پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی مخالفت میں ان کی ہرممکن مدد اور حمایت کرے گا، جو کہ فطری طور پر غیرمنصفانہ، انتہائی شرمناک اور توہین آمیز ہے۔

قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر فلسطینی جہاد کی حمایت اور اسرائیل کو ایک ناجائز غاصبانہ ریاست قرار دیا تھا لیکن نئی نسل ان کے موقف سے آگاہ نہیں ہے ۔ ہم نے صرف دو تین حوالے انھی کے الفاظ میں درج کیے ہیں جنھیں ابلاغ عامہ کے ذریعے سے حکومت پاکستان کی سرکاری پالیسی کو طور پر بڑے پیمانے پر پھیلایا جا سکتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فلسطین کے مجاہدین کی غیبی مدد فرمائے اور انھیں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں کامیابی دے ، یروشلم جس کا دار الخلافہ ہو اور دنیا بھر کے مسلمان مسجد الاقصیٰ میں آزادی کے ساتھ عبادت کی سعادت سے بہرہ مند ہوں ۔ اس عظیم مقصد کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو اللہ رب العزت شہادت کے اعلیٰ درجے سے نوازے (آمین)۔

حال ہی میں پاکستان کی ایک معروف یونی ورسٹی میں منشیات کے حوالے سے جو معلومات ابلاغ عامہ میں آئی ہیں، انھوں نے ہر باشعور پاکستانی کے سر کو شرم و ندامت سے جھکا دیا ہے۔ ہماری تاریخی، اسلامی تہذیبی روایات میں ایک جامعہ (یونی ورسٹی) کو مسجد کے برابر تقدس کا درجہ حاصل رہا ہے۔ اسلامی روایات میں استاد ،جامعہ اور طالب علم یکساں احترام کا مقام رکھتے ہیں، پھر ایک مسلم معاشرے میں اس حد تک شرمناک اقدام کیسے ہوا ، نیز کسی ایسی صورت حال سے بچنے کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟بدعنوانی اور بے راہ روی کی تحقیقات اور واقعہ میں ملوث افراد کو اگر قرارِواقعی سزا بھی دے دی جائے جب بھی مسئلہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا۔ یہ دیگ کے چاول کے چند دانوں کی طرح ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ نظامِ تعلیم ، تصورِ تعلیم اور طریقِ تعلیم و تربیت شدید مسائل کا شکار ہے۔

اس سے قبل بھی جامعات اور مدارس میں ایسے واقعات کا تذکرہ اخبارات میں آتا رہا ہے جو چونکا دینے والے ہیں، مثلاً ملک کے دارالحکومت کی ایک معروف سرکاری یونی ورسٹی میں مسلمان طلبہ و طالبات نےہندو تہوار ہولی کا اہتمام کیا ۔اطلاعات کے مطابق غیر مسلم طلبہ و طالبات اس تقریب کے نہ محرک تھے اور نہ تائید کرنے والے، لیکن ان کے نام کو استعمال کرتے ہوئے اس ہندووانہ مذہبی اور ثقافتی تہوار کا اہتمام،ہندو طلبہ کی مخالفت کے باوجود، بعض مسلمان طلبہ نے کیا اور انتظامیہ نے مجبوری میں اسے گوارا کیا۔

اسلام غیر مسلموں کو مکمل مذہبی اور ثقافتی آزادی دیتا ہے اوروہ ایک اسلامی ریاست میں اپنے رسوم و رواج پر آزادانہ عمل کر سکتے ہیں ،جب تک اس کے نتیجے میں امن عامہ میں خلل کا خطرہ نہ ہو ۔اور یہ شرط بھی تمام شہریوں کے لیے ہے، صرف غیر مسلموں کے لیے نہیں۔ تفصیلات میں  جائے بغیر اس حد تک بات واضح ہے کہ ہولی کی تقریب ان مسلمان طلبہ و طالبات نے منعقد کی، جو اپنے آپ کو لبرل اورسیکولر کہتے ہیں، اپنی لادینیت اور نسلی قوم پرستی میں انتہا پسندی کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اس طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ لادینیت پر مبنی تعلیم ایسے انفرادیت اور شدت پسند نفوس پیدا کرتی ہے جو زندگی کا مقصد تفریح ،لذت اور مادیت کا حصول سمجھتے ہوں۔

اس نوعیت کے واقعات ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتے ہیں کہ کیا پاکستان کے قیام کا مقصد ایک غیر ذمہ دار، لذت پرست معاشرہ وجود میں لانا تھا ،یا بانیٔ پاکستان نے لاکھوں افراد کی جان و مال اور عزّت کی قربانی اس لیے قبول کی تھی کہ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھے جو ایمان و اتحاد اور تنظیم کے اصولوں پر مبنی ہو،جس کی ترجیح اول اس خطے میں ایمان یعنی اسلام کے عادلانہ اور پُرامن اخلاقی اصولوں پر مبنی خاندان، معاشرے،تعلیم و تہذیب اور معیشت اور سیاست کا قیام تھا؟وہ مسلمانوں کو رنگ و نسل، زبان ، برادری اور صوبائیت سے نکال کر ایک ایسے اتحاد میں منسلک کرنا چاہتے تھے جس کی بنیاد نہ معاشی وسائل ہوں، نہ عصبیتیں بلکہ صرف اور صرف اسلامی اخوت اور مقصد ِحیات کا اتحاد ہو۔اور اہلِ پاکستان میں وہ تنظیم پیدا ہو، جس میں معاشرتی فرائض کی ادائیگی  عوام اور خواص دونوں کی ذمہ داری ہو۔

قائد کی نظر میں تعلیم کا اصل مقصد

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ علامہ اقبال ؒاور قائد اعظم ؒنے پاکستان کے قیام سے قبل منتشر مسلمانوں کے گروہ کو ایک ملّت میں منظم کیا۔ اس ملت نے جغرافیائی ، نسلی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے ایمانی اور اسلامی تشخص کی بنیاد پر اپنے ایک قوم ہونے کے احساس کو تازہ کیا۔ پھر جان و مال کی قربانیاں دے کر اپنے قومی تحفظ و بقا کے لیے ایک جغرافیائی خطّے کو حاصل کیا۔ اس طرح پاکستانی ملت یا قوم پاکستان کے قیام سے پہلے اپنے ایک آزاد وجود کے ساتھ تاریخ کے نقشے پر اُبھری۔ یہ وہ واحد قوم ہے جس نے اپنے آپ کو نہ زمین سے، نہ نسل اور رنگ اور نہ زبان سے منسوب کیا بلکہ اپنے عقیدے ،ثقافت اور تاریخ کی بنیاد پر ایک خطۂ زمین کا مطالبہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے پاکستانی ملت کو ایک ملک دیا جہاں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مثالی معاشرہ ،معیشت، انتظامیہ اور ابلاغ عامہ کے ادارے قائم کر سکے۔عقل مطالبہ کرتی ہے کہ اس قوم اور ملک کا تعلیمی نظام بھی اسی تصورِ قومیت پر مبنی ہو۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جو پہلی قومی تعلیمی کانفرنس۲۷نومبر ۱۹۴۷ء میں منعقد ہوئی اس کے لیے قائد اعظم نے جو پیغام دیا وہ ملکی تعلیم کے خد و خال کی طرف اشارہ کرتا ہے:

الغرض ہمیں آنے والی نسلوں کے کردار کی تعمیر کرنی چاہیے۔ جس میں وقار، راست بازی اور قوم کی بے لوث خدمت کا بے پناہ جذبہ اور احساسِ ذمہ داری پیدا کردیا جائے، اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ان میں اقتصادی زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہو، اور اس طرح سے کام کریں جو پاکستان کے لیے نیک نامی کا باعث بنے۔(قائداعظم: تقاریر و بیانات، ج۴، ص۳۹۶)

قائد کی نگاہ میں تعلیم کا اصل مقصد تعمیرِ کردار تھا جس کے ذریعے وہ نسل وجود میں آئے جو اپنی عزّت، وقار، ایمانداری، بے لوثی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ معاشی زندگی کی مختلف شاخوں میں مہارت رکھتی ہو تاکہ پاکستان کی بقا اور ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

قومی تعلیمی کمیشن اور تعلیمی سفارشات

۱۹۵۹ء میں قومی تعلیمی کمیشن نے ملک میں تعلیم کے حوالے سے جو تجاویز دیں، ان میں درجِ ذیل خاص طور پر توجہ کی مستحق ہیں:

            ۱-         تعلیم بنیادی کردار ادا کرے ،ان مقاصد سے تحفظ اور بقا میں، جو پاکستان کی تخلیق کا سبب تھے۔ تعلیم ایسی متحدہ قوم کو وجود میں لائے جو اسلامی طریقۂ زندگی کے قیام اور تحفظ کی امین ہو۔

            ۲-         تعلیم افراد میں اسلامی اقدار، حق و صداقت ،عدل، اشاعت خیر اور عالمی اخوت کی آبیاری کرے۔

            ۳-         اسلام کی اخلاقی، روحانی اقدار، حق و صداقت ، عدل ،عزت نفس اورپاکستان کو تقویت دینے کے اصول ،نظام تعلیم کے رہنما اصول ہوں۔

            ۴-         تعلیم قومی یک جہتی اور دینی اقدار کو افراد کے عمل و کردار میں جاگزیں کر دے اور فکری دیانت، کردار میں سچائی کے ساتھ معاشرتی عدل کے قیام اور معاشرے سے غربت اور کھنچاؤ کو دُور کرنے میں مددگار ہو۔

نہ صرف اس تعلیمی پالیسی میں بلکہ بعد میں آنے والی ۱۹۷۲ء کی تعلیمی پالیسی میں بھی مقصدِ تعلیم کو واضح الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ۱۹۷۲ء کی پالیسی کے نمایاں خد و خال یہ تھے:

            ۱-         اسلامی اقدار کا تحفظ اور قومی اتحاد اور ترقی کے لیے ان کی ترویج۔

            ۲-         معاشرتی تبدیلی کے مؤثر عنصر کی حیثیت سے ترقی اور جمہوری معاشرے اور یکساں مواقع کے حصول میں امداد فراہم کرنا۔

            ۳-         معاشی ضروریات کے پیش نظر نصابات پر نظر ثانی اور معیاری تعلیم کی فراہمی۔

۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی میں تعلیم کے قومی اہداف اور مقاصد کی یوں وضاحت کی گئی:

            ۱-         طلبہ اور پاکستانی باشندوں کے دل و دماغ میں اسلام اور پاکستان سے وفاداری کے جذبے کو مستحکم کرنا اور اس بنیاد پر ملک میں اتحاد و یک جہتی پیدا کرنے کے ساتھ معاشرتی عدل اور روحانی ترقی کے مواقع پیدا کرنا۔

            ۲-         ہر طالب علم اور طالبہ کو یہ شعور دینا کہ وہ ملتِ پاکستان سے گہری وابستگی کے ساتھ مسلم امت کے ساتھ بھی مربوط ہے، اس لیے نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کے لیے بھلائی اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا۔

            ۳-         ایسی نئی نسل پیدا کرنا جو نظریۂ پاکستان سے آگاہ اور تحریک پاکستان کی نظریاتی بنیادوں، تاریخ اور ثقافت سے نہ صرف واقف ہو بلکہ اس پر فخر کے ساتھ پاکستان کے روشن مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکے اور پاکستان کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے میں اپنا حصہ ادا کرے۔

            ۴-         مذہبی اقلیتوں کو ان کی مذہبی اور ثقافتی ضروریات کے پیش نظر سہولت فراہم کرنا اور قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنےکے مواقع فراہم کرنا۔

            ۵-         سائنسی تحقیقات اور ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنا۔

۱۹۹۲ءکی قومی تعلیمی پالیسی میں چار اہم پہلوؤں کو اُجاگر کیا گیا:

            ۱-         موجودہ تعلیمی نظام کو جدید معلومات کی بنیاد پر اسلام کے اصولوں کی روشنی میں مرتب کرنا تاکہ ایک پُرامید مستقبل اور مسلم معاشرے کا حصول کیا جا سکے۔

            ۲-         معاشرتی علوم کی اسلامی تدوینِ جدید کے ذریعے تنقیدی ذہن کے ساتھ اسلامی تصورِ کائنات، انسان اور معاشرے کی تعمیر۔

            ۳-         مسلسل حصولِ علم کی تڑپ، پاکستان اور امت مسلمہ کی معاشی، سائنسی اور معاشرتی ترقی کے لیے علمی اور انسانی ذرائع کاحصول۔

            ۴-         نظریۂ پاکستان کی عالمی سطح پر نمایندگی و اشاعت۔

یہی فکری تسلسل قومی تعلیمی پالیسی برائے ۱۹۹۸ء تا ۲۰۱۰ء میں اختیار کیا گیا اور تعلیم کے مقصد کو وضاحت سے بیان کیا گیا:

۱-قرآنی اصولوں اور اسلامی روایت کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بناتے ہوئے تعلیم و تربیت کے ذریعے مستقبل کی پاکستانی نسل کو صحیح معنی میں باعمل مسلمان بنانا جو اعتماد،یقین ،حکمت، رواداری کے ساتھ اگلی صدی کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔

۱۹۷۲ء کی نئی تعلیمی پالیسی ہو یا ۱۹۷۹ء کی قومی تعلیمی پالیسی یا ۱۹۹۲ء کی قومی تعلیمی پالیسی اور۱۹۹۸ء-۲۰۱۰ء کی تعلیمی پالیسی ، ان تمام سرکاری دستاویزات میں مختلف الخیال سیاسی حکومتوں اور قیادتوں کے با وجود جو عناصر مشترک نظر آتے ہیں ، ان میں واضح الفاظ میں نظریۂ پاکستان، اسلامی، علمی اور ثقافتی میراث کے ساتھ اسلامی شخصیت و کردار کی تعمیر کو ترجیحات میں شامل کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک واضح قومی اجتماعی پالیسی کے باوجود اسے تعلیمی اداروں میں نافذ نہیں کیا گیا۔ ان تمام قومی تعلیمی پالیسیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو علمی، تحقیقی اور ثقافت کے فروغ کے ساتھ ہر پالیسی کا لازمی جزو کے طور پر تین امور مشترک نظر آتے ہیں:

  • اوّل: اسلامی نظریۂ حیات اور اخلاقی اقدار کو طلبہ و طالبات کی شخصیت کا حصہ بنانا ۔
  •  دوم :دین اور تہذیبی روایات کا تحفظ اور ان کی روشنی میں ترقی کا سفر ۔
  • سوم :ہر فرد کو جدید ترین علم سے آراستہ کرتے ہوئے ٹکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ملکی ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنا۔

ان تین تصورات کے ساتھ یہ بات بھی پالیسی کا لازمی حصہ رہی کہ قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے تاکہ تمام صوبوں میں تعلیم پانے والے طلبہ و طالبات کاروبار اور ملازمتوں میں یکساں طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بن سکیں۔

اس مختصر سے جائزے میں یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بیرونی امداد پر چلنے والے جن اداروں کے افراد نے حکومتی مشیر کی حیثیت سے تعلیم کو نظریۂ پاکستان سے کاٹنے اور ہر مضمون کے نصاب سے اخلاقی اور تربیتی پہلو کو خارج کرنے کا جو مشورہ دیا ،وہ قومی تعلیمی پالیسی کے متفقہ اصولوں کی ضد تھا، پھر مخصوص حکومتی اور بیورو کریسی کے حلقوں کی حوصلہ افزائی سے نصابات سے قرآنی اور اخلاقی تعلیمات کے اسباق کو مکمل طور پر نکال دیا گیا۔یہ اقدام نہ صرف تعلیمی پالیسی بلکہ دستور ِاسلامی جمہوریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تھا ، جسے قانونی طور پر بھی چیلنج کیا جا نا چاہیے تھا ۔بعد میں آنے والی تعلیمی پالیسیوں میں یکساں نصاب ِتعلیم کا تصور، ملکی وحدت اور ملکی یک جہتی کے لیے بڑا بنیادی اور مفید اقدام تھا، لیکن سیاسی رسّہ کشی اور تعصبات نے اس پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا۔

تعلیمی پالیسی کی روشنی میں دیکھا جائے تو مروجہ نظام تعلیم اور پالیسی کے متفقہ اصولوں میں واضح خلیج نظر آتی ہے۔ گویا یہ تعلیمی پالیساں دستاویز سے زیادہ حیثیت نہیں اختیار کر سکیں اور ان کے ایک بڑے اور اہم حصے پر کسی بھی دور میں عمل نہیں ہوا۔مزید یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ تعلیم اور نظریۂ پاکستان اور اسلامی ثقافت ،اخلاقیات اور قرآن و سنت کی تعلیم پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کسی مخصوص دور کی پیداوار نہیں ہے بلکہ قائد اعظمؒ کے تصور اور بعد میں تعلیمی ماہرین پر مبنی ہرسیاسی دور میں کمیشن نے جو پالیسی تجویز کی نظریۂ پاکستان اور اسلامی نظریۂ حیات کوبطور نصابات کی بنیاد کے ہر پالیسی کا لازمی جزو برقرار رکھا گیا۔یہ الگ بات ہے کہ جیسا عرض کیا گیا کہ پالیسی کی روح اور الفاظ دونوں پر کسی بھی دور میں بشمول فوجی اور غیر فوجی ادوار کے عمل نہیں کیا گیا۔ہماری نگاہ میں آج جو تعلیمی اور اخلاقی زوال پایا جاتا ہے اس کا ایک بنیادی سبب ملک کی متفقہ تعلیمی پالیسیوں کو دیدہ دلیری کے ساتھ نظر انداز کرنا ہے۔

موجودہ نظام تعلیم کے مسائل

اس بنیادی نقص کی وضاحت کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مروجہ نظام تعلیم میں نمایاں خرابیاں اور مسائل کیا ہیں؟

۱- مروجہ نظام کی فرسودگی: پالیسی کے برخلاف حکومتی تعلیمی اداروں اور نجی اداروں میں رائج نصابات کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔اور صدیوں پرانی برطانوی سامراجی تعلیمی روایت میں مصنوعی رد و بدل پر انحصار کر لیا گیا، نیز تیزی سے بدلتے تعلیمی تصورات سے کوئی استفادہ بھی نہیں کیا گیا ،حتیٰ کہ جو نصابی کتب قیام پاکستان کے وقت استعمال میں تھیں انھیں بھی تبدیل نہیں کیا گیا، اور بعد کے ایڈیشن معمولی ردو بدل کے ساتھ زیر استعمال ہیں۔

۲-غیر ترجیحی رویہ:یہ ایک المیہ ہے کہ جس دین نے ہر صاحب ِایمان پر حصولِ علم کو فریضہ قرار دیا ہو، جیسےنماز اور روزہ فرض ہے، اس دین کا دعویٰ کرنے والے معاشرے میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم مسلسل عدم توجہی کا شکار ہو رہی ہے۔ اگر کسی شعبے کو اعلیٰ ٰترین سرمایہ کاری کا مستحق کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف تعلیم کا شعبہ ہے کہ اس میں جو رقم بھی لگائی جائے گی، وہ قومی ترقی اور تعمیر کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرے گی، لیکن حقائق جو تصویر پیش کرتے ہیں، اس میں تعلیم قومی ترجیح میں بہت نیچے نظر آتی ہے۔ ۲۲-۲۰۲۱ء میں ہم نے جی ڈی پی کا ۱ء۷۷ فی صد مرکزی اور صوبائی دونوں سطح پر صرف کیا، جب کہ اسے کم سے کم ۴ فی صد ہونا چاہیے تھا ۔سرکاری ذرائع کے مطابق خواندگی کا تناسب ملک گیر بنیاد پر۶۲ء۳ فی صد ہے، جب کہ عملاً خواندگی اس سے بہت کم ہے۔ تعلیم کی عالمی درجہ بندی میں دنیا کے معاشی فورم کی۱۸-۲۰۱۷ء کی رپورٹ پاکستان کو ۱۳۷؍ اقوام کی فہرست میں ۱۲۹ویں نمبر پر دکھاتی ہے۔ تعلیم اور صحت میں پاکستان، بھارت، چین،  بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ملائشیا سے بہت پیچھے ہے۔ ملک کے۳۰لاکھ ۵ہزار ۷ سو ۶۳ تعلیمی اداروں میں ۱۲۵ ملین کی آبادی میں سے صرف ۵۱ کروڑ۱۸ لاکھ ۶۵ ہزار ۶سو ۹ طلبہ کو تعلیم فراہم کرنے کی گنجایش ہے۔ سرکاری تعلیم گاہیں ۲۸ء۴۹ ملین طلبہ کو تعلیم فراہم کر رہی ہیں، جب کہ ۷۰ء۲۲ملین بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں اور صرف کل نوجوانوں میں سے۱۱ فی صد نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں ۱۱۱ سرکاری جامعات اور ۷۵ نجی جامعات ہیں۔ کل۱ء۵۷۶ ملین طلبہ سرکاری جامعات میں اور ۳۰۹ ملین طلبہ نجی جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اتنی کم تعداد میں اعلیٰ تعلیم پانے والوں میں ایک بڑی تعداد بوجوہ تعلیم نامکمل چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

۳- طریق تعلیم کا مسئلہ:۷۵سال سے اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جو طریق تعلیم رائج رہا ہے، اس میں لیکچرز،معلومات کا حفظ کروانا اور سالانہ امتحانات کے نظام میں، یادداشت کی جانچ کے علاوہ علمی تطبیق اور تجرباتی علمی تعلیم (Experimental Education) پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ طالب علم کتاب کے منتخب ابواب سے زیادہ نفس مضمون کے بارے میں کچھ نہیں جان پاتا۔ اساتذہ اپنے لکھے ہوئے نوٹس کی بنیاد پر طلبہ و طالبات کو جانچتے ہیں اور تنقیدی و تحقیقی ذہن کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی، طلبہ کو دورانِ درس سوالات اٹھانے کا رجحان نہیں ، زیادہ توجہ لیکچر سننے یا نقل کرکے دُہرانے پر مرکوز ہے ۔

۴- متعدد نظام ہائے تعلیم کا رواج: اس وقت ایک وقت میں کم از کم تین نظام تعلیم ملک میں رائج ہیں۔ ملک کے امیر طبقات کے لیے نجی سکول و کالج اور یونی ورسٹیاں ہیں ،جو مغربی ممالک سے درآمد کیا ہوا علمی ذخیرہ طلبہ و طالبات کو منتقل کر کے انھیں ذہنی اور عملی طور پر برطانوی یا امریکی روایات کا خوگر اور اپنی تعلیم کا بڑا حصہ ملک سے باہر جا کر مکمل کرنے کی دلی خواہش ان میں پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اداروں کے فارغ طلبہ و طالبات، والدین کی مالی سرپرستی میں یورپ یا امریکا جانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس طرح ملک ذہین افرادی قوت کے بیرونِ ملک منتقلی (Brain drain) کا شکار ہو رہا ہے ۔

۵- سرکاری تعلیمی نظام اور ادارے :سرکاری تعلیمی ادارے کم تر تعلیمی معیار اور سہولیات کی کمی کے سبب علمی تربیت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ الا ماشاءاللہ !اس لیے ان سے فارغ نوجوان عموماً روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بے روزگاری کی وجہ سے ان بہت سی خرابیوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لیے زہر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ چنانچہ منشیات، غیراخلاقی اعمال ، محنت کی جگہ سفارش ، صلاحیت کی جگہ رسوخ ، ان کے آگے بڑھنے کا ذریعہ بنتا ہے، جو زندگی کے ہر شعبے میں بے ایمانی، بددیانتی ،بدمعاملگی اور بد اخلاقی کو فروغ دیتا ہے۔

۶- یونی ورسٹیاں اور علمی قیادت: یہ حقیقت بھی پریشان کن ہے کہ دوسو سے اوپر یونی ورسٹیوں میں جو تحقیقی مقالات تحریر کیے جاتے ہیں ، وہ اپنے معیار ، ملک وقوم کو درپیش عملی مسائل اور صنعتی دنیا کی تعمیر و ترقی کے امور سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔صرف معاشرتی علوم کو دیکھا جائے تو ملکی یونی ورسٹیوں میں فی یونی ورسٹی ۳ء۶ پروفیسر پائے جاتے ہیں ۔یہ تناسب بعض خطوں میں اور کم ہوجاتا ہے ، مثلاً گلگت ، بلتستان میں یہ شرح صرف ۵ء۱ فی صد ہے۔ یہی وہ معلّمین ہیں جو تحقیقی نگرانی اور خود تحقیق کے میدان میں کارنامے انجام دے سکتے تھے ۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کی یونی ورسٹیوں میں بعض مقامات پر ۵۴ء۱۵ فی صد پروفیسر ہر شعبہ میں پائے جاتے ہیں (مثلاً اسٹین فرڈ یا ہاورڈ یونی ورسٹی میں ۳۳ء۸۵  فی صد)۔ اس علمی کمی کی بنا پر پاکستان ۱۶۳؍ اقوام میں ۶۳ ویں نمبر پر پایا جاتا ہے ۔جہاں ۳۱ فی صد نوجوان مرد اور ۵۱ فی صد خواتین بے روز گاری کا شکار ہیں ۔نتیجتاً ملک سے باہر ملازمت تلاش کرنے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے ۔ یہ ذہنی قحط ملک کی ترقی اور استحکام میں کمی کا ایک بڑا سبب ہے ۔

۷- دینی مدارس کا نظام : دینی مدارس میں عام طور پر مروجہ درس نظامی کے مضامین تعلیم کا محور ہیں، اور ہر مدرسہ کسی نہ کسی مسلک سے اپنی وابستگی کی بنا پر یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اس درس گاہ میں ایک مخصوص مسلک کے طلبہ کے لیے دروازے کھلے ہیں۔ان کی روایتی اسلامی علوم کی واقفیت لازما ًسرکاری جامعات کے طلبہ سے زیادہ بہتر ہوتی ہےلیکن یہ مدارس عصری مضامین اور عربی اور اردو کے علاوہ کسی زبان پر توجہ نہیں دیتے۔ گو بعض مدارس نے اپنے نصاب میں جدید مضامین شامل کیے ہیں ،لیکن یہ شمولیت ایک نئے مسئلہ کو وجود دیتی ہے۔ تمام عصری علوم کی بنیاد جس تصورِ علم پہ ہے وہ اسلام کے تصورِ علم کی ضد ہے۔ اس لیے طالب علم جدید علوم کی آگاہی کے باوجود سیکولر ذہن کے ساتھ تعلیم سے فارغ ہوتا ہے ۔طلبہ بعض روایتی دینی علوم کی واقفیت اور مغربی تصور علم کی روشنی میں کمپیوٹر یا انتظامی امور کے بارے میں ایسی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں جو اسلامی تصور سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔یکساں نصابی تعلیم ہی اس کمزوری کا علاج ہے، جس میں اسلام کی جامع تعلیمات کی روشنی میں معاشرتی اور تطبیقی علوم کی تدوینِ جدید ہو اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی میں طلبہ و طالبات کی جامع اخلاقی تربیت کے ساتھ تعمیرِ شخصیت کی جائے۔

۸- تعلیم کی سمت کا عدم تعین:۷۵سال میں ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ ایک تعلیم یافتہ شخص سے ہم کیا چاہتے ہیں یعنی تعلیم کے نتائج (outcome or goals )کیا ہوں گے؟ ۷۰سال کے بعد ہم بہت دور کی کوڑی لے کر آئے کہ واشنگٹن قرارداد(accord) کی پیروی میں ’تعلیم کے تربیتی و پیداواری نتائج‘ (Outcome Based Education-OBE) کو رواج دیا جائے۔ واضح رہے کہ اسلامی تعلیمی روایت میں آج سے تقریبا ًہزار سال قبل ہی مقاصد کے زیر عنوان تعلیم، تجارت، معاشرت، قانون، ثقافت، گویا ہر انسانی سرگرمی کے لیے مقاصد کا تعین کیا گیا جو وقتی تعین نہیں تھا بلکہ یہ وہ آفاقی اصول ہیں جو آج بھی تمام علوم کے لیے ایک الہامی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ اسلامی تصور سے عدم آگاہی کی بنا پر آج بھی تعلیمی ماہرین OBE پر فخر کرتے ہیں،جب کہ OBE کے تحت جو مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں، وہ مستعار مقاصد ہیں یعنی سامراجی قوتوں کے عالمی مقاصد اور ان کی روشنی میں تقریباً ۱۵۰؍اہداف۔ مسلم اور غیرمسلم ممالک انھیں ’کتاب مقدس‘سمجھتے ہوئے اپنے نصابات میں شامل کرنے کو ترقی کی ضمانت سمجھتے ہیں جو ذہنی غلامی اور مغرب زدگی کی ایک واضح علامت ہے۔ انھی اہداف میں یہ ہدف بھی شامل ہے کہ ابتدائی تعلیم سے بچوں کو سمجھایا جائے کہ جس جنس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہیں وہ قطعی یا حتمی نہیں ہے۔ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں اگر وہ یہ محسوس کریں کہ ان کے جسم میں جو فرد یا روح مقید ہے وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے تو وہ اپنی آزادانہ جذباتی رائے سے اپنے آپ کو ایک نئےقالب میں ڈھال سکتے ہیں۔

مغرب سے آئے ہوئے تصورات ( Sustainable Development Goals ) پر عمل کرتے ہوئے جب بچوں کو یہ تصور سمجھایا جائے گا ،تو وہ زندگی کے لذت پر مبنی تصور کے غلام ہوں گے اور اس کش مکش کا شکار رہیں گے کہ پیدائش کے وقت جو ان کی جنس تھی، وہ بہتر ہے یا اپنی رائے میں وہ جس جنس کو اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ بہتر ہے ؟اس اختلاف کے بعد کیا کوئی معاشرہ اپنا نظریاتی و ثقافتی تشخص برقرار رکھ سکتا ہے؟

اسلام تو الہامی ہدایت ہونے کی بنا پر اعلیٰ ترین ہدایت ہے۔ انسان کی اپنی عقل اس نامعقول، غیر منطقی اور غیر حقیقی تصور کو قبول نہیں کر سکتی، لیکن’جدید فکر‘ اور ’جدید تعلیم‘، ’روشن خیالی‘اس تصور پر اندھا ایمان رکھتی ہے اور اسے نظامِ تعلیم میں شامل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا فوری سدِباب ضروری ہے ۔

۹- غیر تربیت یافتہ اساتذہ:اساتذہ کی اکثریت تعلیمی اسناد کی بنیاد پرمنتخب کی جاتی ہے لیکن ہمارے اساتذہ کی اکثریت بنیادی تدریسی مہارتوں مثلاً تعلیمی حکمت عملی، جانچنے کے طریقوں،حتی ٰکہ سوالات بنانے کےطریقے، فلسفۂ تعلیم،تعلیمی نفسیات ودیگر لوازمات کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتی اور وہ طلبہ و طالبات کو پڑھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اساتذہ کے طلبہ بھی اپنے اساتذہ ہی کا چربہ ہوں گے اور وہ کبھی علمی تحقیق اور قیادت کے قابل نہیں ہو پائیں گے۔

۱۰- امتحانات اور جانچنے کے معیارات:سالانہ امتحانات ہوں یا سمسٹر سسٹم، دونوں میں بہت کم ادارے ایسے ہیں جو روایتی یادداشت کے امتحانات کے علاوہ کچھ اور کرتے ہوں۔ نتیجتاً علمی تجسس، تنقیدی نظر اور ہمہ وقت حصول علم کی خواہش کی جگہ محدود معلومات رکھنے والے سندیافتہ نوجوان جامعات سے فارغ ہو رہے ہیں، جو معاشی، سائنسی، معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

۱۱-سہولیات کی کمی: بہت کم اسکول ، کالج اور جامعات ایسی ہیں جہاں تحقیق و تجربہ کے مواقع طلبہ کو فراہم کیے گئے ہوں۔نظری علم اور وہ بھی جزوی طور پر حصول کے بعد یہ زندگی کے میدان میں آتے ہیں تو اپنے شعبے میں بھی عملی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ نہ صرف سائنسی علوم بلکہ معاشرتی علوم کی بھی یہی شکل ہے۔ سہولیات اور عملی تجربے کے مواقع نہ ہونے کے سبب سند رکھنے کے باوجود یہ نوجوان بعض اوقات ایک اَن پڑھ مستری سے بھی کم صلاحیت رکھتے ہیں۔

۱۲-تعلیم کا تجارتی پہلو:نجی تعلیمی اداروں کی کثرت اور خود سرکاری اداروں میں قیادت اور راہ نمائی کے فقدان سے تعلیم ایک تجارت بن گئی ہے، جس کی ایک قیمت ہے اور اس قیمت کے بعد گاہک یہ سمجھتا ہے کہ اب تعلیمی سند اس کا حق ہے۔ یہ مسئلہ محض پاکستان کا نہیں ہے عالمی سطح پر تعلیمی ادارے اپنے وجود کے لیے معیاری تعلیم کی جگہ کم معیاری تعلیم کی طرف جا رہے ہیں۔یورپی اور امریکی جامعات بیرونی طلبہ پر اتنی توجہ نہیں دیتے جتنی مقامی طلبہ پر دیتے ہیں۔  گو ان جامعات کا معاشی وجود بیرونی طلبہ کا رہینِ منت ہے۔چونکہ ان طلبہ کو جلد واپس اپنے ملک جانا ہوتا ہے، اس لیے اگر یہ کم معیاری تعلیم بھی لے کر جائیں تو ان جامعات کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ ان طلبہ کے ذریعے ان کی شہرت یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت ’اچھی‘جامعات ہیں کہ وہاں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ تعلیم کو تجارتی ذہن سے نجات دلائے بغیر تعلیم کے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔

۱۳- مخلوط تعلیم کے نتائج:ملکی یونی ورسٹیوں کا ماحول تکلیف دہ ہے۔ خبریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ غیر اخلاقی ماحول کا ایک بنیادی سبب مخلوط تعلیم ہے۔مغربی جامعات بھی اس کا شکار ہیں اور ملکی جامعات اب اس مقام تک پہنچ چکی ہیں کہ اگر فوری طور پر مخلوط تعلیم کی بجائے جداگانہ تعلیم کو فروغ نہیں دیا گیا تو یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ گھر اور تعلیم گاہ دونوں جگہ طلبہ و طالبات کے اختلاط کے مواقع کو کم سے کم کیا جائے اور مسلسل تعلیمی اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے ان میں حیا، شرم اور عزت کی اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں طلبہ و طالبات کے لیے تمام سہولیات (کیفے ٹیریا، کھیل کے میدان، تجربہ گاہیں ، لائبریریاں وغیرہ ) الگ الگ ہوں یعنی ان کے درمیان فاصلہ قائم ہو تاکہ برائی کے امکانات کم کیے جا سکیں۔

۱۴- جدید معلوماتی انقلاب:آئی ٹی اور پھر AIیعنی مصنوعی ذہانت کی تیزی کے ساتھ رواج پانے سے جو اخلاقی اور انسانی مسائل سامنے آ رہے ہیں، ملکی جامعات بظاہر ان سے کم آگاہ نظر آتی ہیں۔ یہ تیزی سے بدلتا ماحول چند برسوں میں تعلیم کے شعبے میں مکمل انقلاب برپا کر دے گا اور انسان کا تصورِ کائنات، تصورِ معاشرہ اور باہمی تعلقات اس سے متاثر ہوں گے ۔ اس چیلنج کو سمجھنے اور اس کا اسلامی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو کے تقاضے

ان حالات میں بھی مایوسی کفر ہے۔ اس لیے ایک تابندہ سحر کی تلاش میں ہمیں بعض اہم اور بنیادی فیصلے کرنے ہوں گے:

۱- تعلیمی سمت کا تعین:سب سے پہلے تعلیمی پالیسیوں میں قائد اعظمؒ کے تین بنیادی اصولوں: ایمان ،اتحاد اورتنظیم کے پیش نظر بنیادی تبدیلیاں کرنی ہوں گی ۔ قائد کی نگاہ میں ایمان کا واضح مفہوم نظریۂ پاکستان کی روشنی میں نوجوان نسل کو جدید ترین علم کے ساتھ اپنی منزل اور مقصد حیات کا شعوردینا تھا، چنانچہ اسی مناسبت سے ورکشاپ، کھیل، ہم نصابی سرگرمیوں اور خود نصاب کے اندر ایسے موضوعات کا شامل کیا جانا لازمی ہےجو ان کو دین اور نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کے ساتھ عملی زندگی میں راہ نمائی اور پاکستانیت کو رائج کرنے کی تربیت دے سکیں۔

نظریۂ پاکستان یا پاکستان آئیڈیالوجی کے بغیر ملکی ترقی ناممکن ہے۔ ۷۵سالہ تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ بے ایمانی، بددیانتی اور ملک سے بے وفائی ہمارا شعار بن چکا ہے ۔ قائد کے پہلے اصول یعنی ایمان کی بنیاد پر تعلیم کی تشکیل ِجدید کرنی ہوگی تاکہ ملک و قوم ترقی کرسکیں۔

۲-ملکی دستور اور انسانی حقوق سے آگاہی:تعلیم کا ایک بنیادی مقصد ایسے شہری تیار کرنا ہے جو اپنے دین اور ایمان کے ساتھ ملکی دستور کے وفادار اور اس کی عصمت کے امین ہوں۔ دستور وہ اہم وثیقہ ہے جو ملک اور قوم کی سمت کا تعین کرتا ہے اور ہر شہری کو یکسا ںحقوق کے ساتھ ملکی ترقی میں دستوری ذرائع سے کام کرنے کا پابند کرتا ہے۔

موجودہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ دستور کی خلاف ورزی نہ صرف پارلیمنٹ میں، عدلیہ میں ،انتظامیہ میں، تعلیم بلکہ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کو دن رات توڑ کر کی جا رہی ہے۔ اس غیراخلاقی، غیر دستوری طرز عمل کو دستور کی روشنی میں تعلیمی اور ماحولی ذرائع سے تبدیل کرنا ہماری اہم ترجیح ہونا چاہیے۔ جو بدنظمی آج دیکھنے میں آتی ہے ،وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی ۔تعلیم کے ذریعے پوری قوم کو صبر اور ایثار و قربانی کے ساتھ دستوری ذرائع پر عمل پیرا ہونے کی تربیت دیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔

۳- سیاسی تربیت:تعلیم کا ایک مقصد نوجوانوں کو ملکی قیادت کے لیے تیار کرنا ہے، جو تعلیم گاہ میں انتظامی امور خود اپنے ہاتھوں سے سر انجام دیے بغیر نہیں آسکتی۔ دستور سے آگاہی اور اس کی حُرمت وعزت سے وابستہ تیسرا اہم کام نوجوان نسل کی سیاسی اور اخلاقی تربیت ہے۔ نوجوانوں کو سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر ملک ، قوم اور ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے کام کرنے کی سوچ اور فکر سے آراستہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔نوجوانوں کو سیاسی مسائل کو اخلاقی ضابطہ میں اسلام کے اصولوں کی روشنی میں حل کرنے کا طریقہ سکھایا جائے ۔یہاں سیاسی تعلیم کا مقصد محض ہڑتال، دھرنا، جلوس نہ ہو بلکہ مکالمہ، مثبت فکر ،قائدانہ کردار، اصول پرستی ،حق اور عدل و انصاف کے لیے استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تا کہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی ونگ سیاسی جماعتوں کے محدود سیاسی فوائد اور مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنیں۔ یہ نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا صحیح ذریعہ نہیں ہیں۔ اس وقت چند جاگیردار خاندان اور مالی وسائل رکھنے والے سیاسی تاجر ۷۵ سال سے سیاست اور وسائل پر قابض ہیں۔اس کا حل نہ فوجی قبضہ ہے، نہ صحافت پر قدغن، بلکہ نوجوانوں کی صحیح تربیت ہے تاکہ وہ کل کے قائد بنیں اور قائد کے اصولوں: ایمان، اتحاد اور تنظیم کی بنیاد پر ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے کھڑے ہوں۔

۴- نئی درسی کتب کی تیاری: اسلامی طرزِحیات اسی وقت رائج ہو سکتا ہے جب نظامِ تعلیم کی اصلاح ہوجائے۔ اس کے لیے محض دینیات نہیں بلکہ سماجی علوم کے ساتھ فزکس، کیمسٹری ،کمپیوٹر سائنس اورانفارمیشن ٹکنالوجی کو اسلامی اخلاقی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔معاشرتی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک نئی درسی کتب تیار کی جائیں۔

یہ وہ بنیادی کام ہے جو نظریۂ پاکستان کے وفادار افراد ہی کر سکتے ہیں۔ ایسے ماہرین فن کو جمع کرنا جو طے شدہ وقت میں ہر نصابی مضمون پر جدید معلومات اور اسلامی اخلاقی اقدار کو یک جان کر کے نصابی کتب کی شکل میں پیش کریں، ایک بنیادی کام ہے۔ یہ مسلسل یکسوئی ،صبر و حکمت اور فنی قابلیت کے ساتھ کرنے کا کام ہے، جس کے لیے سب سے زیادہ ذمہ داری تحریک اسلامی کی ہے۔

۵- اساتذہ کی تربیت:اساتذہ کو جب تک جدید تحقیقی ذرائع اور مقامی مسائل سے متعلق تحقیق کی تربیت نہ دی جائے گی، ان کی تحقیق سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ ہماری یونی ورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور محققین کو اپنی تحقیق کے دائروں کو ملکی معیشت ، زراعت، صنعت،  معاشرت، ثقافت، تجارت ، درآمد ات ، آئی ٹی ، ادویات سازی، غرض ہر شعبے کو تحقیق سے ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ یہ کلچر اس وقت ناپید ہے۔ہر جامعہ کو اپنے اساتذہ کو شعوری طور پر اس طرف متوجہ کرنا ہوگا تاکہ تحقیق کا رخ مقامی، اخلاقی ،معاشی، سیاسی، معاشرتی ،قانونی، ثقافتی، ابلاغ عامہ اور تعلیم کے مسائل کا حل ہو، محض نظری تحقیق نہ ہو۔

۶- جامعات کا تخصص:ہمیں یونی ورسٹیوں کو عمومی تعلیم کی جگہ خصوصی تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا کہ وہ گہرائی میں جا کر عرق ریزی کے ساتھ وہ علم پڑھائیں جسے قرآن و سنت علم نافع قرار دیتا ہے۔  مسلمانوں کا دورِ عروج کلامی بحثوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ علم نافع کی بنیاد پر تھا۔ آج بھی ہمیں سپیشلائزیشن یعنی تخصص کی طرف جانا ہوگا، جس کا مقصد علوم وحی کی روشنی میں علم کے نئے اُفق تلاش کرنا اورانھیں زمینی مسائل کے حل کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ زراعت، آئی ٹی، ماحولیات، پانی کی منصوبہ بندی، شہری اور دیہی آبادیوں کو درپیش مسائل جیسے موضوعات پر یونی ورسٹیوں کو تحقیق کرکے قابل عمل اور قابل حل تجاویز پیش کرنی ہوں گی، تاکہ عوام الناس کو مشکلات سے نجات دلائی جا سکے اور ملک و قوم کو ترقی کی دوڑ میں عالمی سطح پر قابل عزت مقام دلایا جا سکے ۔

۷- خواتین کی اعلٰی تعلیم:خواتین کو ایسے ماحول میں اعلیٰ تعلیم دینا تعلیمی پالیسی کا فرض ہے جس میں وہ پردے کی اسلامی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے محفوظ ،آزاد اور اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوں۔ان کا تحفظ ایسی تعلیم گاہ میں ہی ہو سکتا ہے جہاں صرف خواتین ہوں۔ وہ اپنی جنس کی بچیوں کے ساتھ تعلیمی میدان میں مقابلہ کریں تاکہ انھیں ہراساں کرنے کا امکان نہ ہو اور مرد اساتذہ کے استحصال سے محفوظ ہوں۔ ان کے لیے علمی ، تحقیقی اور جسمانی نشو و نما کے لیے بہترین سہولیات کا فراہم کرنا ایک دینی ، ملی اور قومی فریضہ ہے۔

۸-جنسی تشخص:تعلیم کا ایک مقصد شخصیت کی متوازن اخلاقی تعمیر ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قرآن و سنت اور انسانی عقل کے مطالبات کے پیش نظر تہذیبی تباہی کو روکنے کے لیے جامعات اپنا کردار ادا کریں۔ یونی ورسٹیوں کو عالمی دباؤ سے قطع نظر انسانی حقوق کی شیطانی تعبیر کو رد کرتے ہوئے انسانی فطرت اور اسلامی تصورِ انسان کی روشنی میں تعلیم دینی ہوگی تاکہ آیندہ نسل اس دجالی فتنہ سے بچ سکے ورنہ نہ صرف پاکستان بلکہ انسانیت کا مستقبل تباہی سے نہیں بچ سکتا۔

قرآن و سنت نے مرد اور عورت کی فطری تقسیم اور ان کے فرائض و واجبات کو متعین کر دیا ہے۔ ایسے افراد جو جسمانی طور پر کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوں، ان کے لیے بھی انسانی حقوق وہی ہیں جو دیگر انسانوں کے لیے ہیں۔ تاہم، ان کے بہانے صحیح سالم جسم ودماغ رکھنے والوں کو گمراہ کن نفسانی یا نفسیاتی خلجان میں مبتلا کر کے یہ دروازہ کھول دینا کہ ایک پیدائشی مرد اگر چاہتا ہو تو جنس تبدیل کر کے عورت بن جائے ،یا ایک مکمل عورت ذہنی انتشار کے باعث اپنے آپ کو مرد بنانے کے لیے جنس تبدیل کروائے ، اس نوع کے افعال اسلام کی تعلیمات کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ اس لیے مغرب سے آئے ہوئے اس فتنے کو پوری قوت اورعلمی دلائل کے ساتھ رد کرنا جامعات کا فرض ہے۔

۹-شدت پسندی اور جاہلی رویوں کی اصلاح :یونی ورسٹیوں کو اپنی نصابی، ہم نصابی سرگرمیوں اور مسلسل مکالمے کے ذریعے طلبہ میں قانون شکنی ،شدت پسندی کے رجحانات کو روکنا ہوگا۔ کسی بھی تعلیمی ماحول میں شدت پسندی کا وجود پورے معاشرے کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر طلبہ کی سیرت و کردار کی تعمیر قرآن و سنت کی روشنی میں کرنی ہوگی، تاکہ ان میں عدل، توازن، اعتدال، میانہ روی، حق گوئی، صبر و حکمت کا صحیح شعور اور عملی مظاہرہ کی صلاحیت پیدا ہو۔

۱۰-مذہبی عبادت گاہوں کا احترام: تعلیم کے بنیادی تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ قرآن کریم کے دیے ہوئے اصول لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ اور لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی روشنی میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا احترام پیدا کیا جائے اور جذباتی رد عمل کی جگہ دینی تعلیمات کے تحت مسائل کے حل کی تربیت دی جائے۔ اسلام سے زیادہ عدل اور احترام کسی اور نظام زندگی میں نہیں پایا جاتا لیکن اس پہلو کو تعلیمی اور تدریسی ذرائع سے ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے۔

۱۱- ہر سطح پر نظامِ تعلیم کی اصلاح: تحریک اسلامی کے بنیادی مقاصد و اہداف میں یہ بات شامل ہے کہ تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کے ذریعے اسلامی عادلانہ معاشرے کا وجود عمل میں لایا جائے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب تحریک اسلامی تعلیم اور تعلیمی نظام کی تشکیلِ نو کے لیے مؤثر علمی اور عملی کردار ادا کرے اور ہر سطح پر نصابی کتب ،معاون کتب جو نصابی موضوعات پر آسان انداز میں قرآن و سنت کی بنیاد پر علوم کی تدوینِ جدید کرتی ہوں، تیار کرے اور فنی طور پر ان کا معیار اتنا بلند ہو کہ خودوہ اپنے طلب گار پیدا کریں اور جامعات اور کالجوں میں انھیں متعارف کرایا جائے۔

 یہ درسی کتب نئی نسل میں قرآن و حدیث کی اخلاقی تعلیمات کا ذوق و شوق، نوجوانوں کی تعمیر سیرت اور پاکستان سے نظریاتی وابستگی پیدا کریں گی ،جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نوجوان جس رفتار سے ملک چھوڑ کر باہر جا رہے ہیں، اس رجحان کو روکنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ انسانی سرمایہ جو ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے، ملک کے اندر رہے اور ایک خوش حال اسلامی، فلاحی معاشرہ وجود میں آ سکے۔

پاکستانی معاشرے کی ۷۶ سالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو حالیہ عشرہ بلکہ اس کے آخری پانچ سال معاشرتی ،معاشی اور سیاسی استحکام کی غیر معمولی خراب صورت حال کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹ مؤرخہ ۶ جون ۲۰۲۳ء کے مطابق اپریل ۲۰۲۲ء میں ملک پر مجموعی قرض کا حجم ۴۳ہزار ۷۰۵؍ ارب روپے تھا جو اپریل ۲۰۲۳ء میں بڑھ کر ۵۸ہزار۵سو ۹۹ ؍ ارب روپے ہوگیا، یعنی ۴۱ ؍ارب روپے یومیہ قرض لیا گیا۔ ملک پر واجب الادا بیرونی قرض ۷ہزار۲ سو۵۹؍ ارب روپے یعنی ۴۹ فی صد سے بڑھ کر ۲۲ ہزار۵۰؍ ارب روپے ہوگیا اور اسی طرح ایک سال کی مدت میں اندرونی قرض ۷ہزار ۶سو۳۵؍ ارب روپے یعنی ۳۴ فی صد سے بڑھ کر ۳۶ ہزار۵سو۴۹ ؍ارب روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔

قرض لے کر اِترانے کے یہ سرکاری اعداد و شمار ہی معاشی زندگی کا گلا گھونٹنے کے لیے کافی ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی اورمعاشی عدم استحکام کی بناپر بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں کسی کاروبار میں ہاتھ ڈالنے کا خطرہ مول لینے پر تیار نظر نہیں آتے۔ مقامی کاروباری برادری کی جانب حکومت کی عدم توجہی، کاروبار میں معاونت کی بجائے حیلوں بہانوں سے رشوت طلب کرنا اور غیر ضروری رکاوٹوں کی وجہ سے کاروبار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ مزیدبرآں سستی بجلی ، پانی ، اور گیس کی عدم فراہمی اور کاروبار میں پیش آمدہ مختلف مسائل کے حل سے لاتعلقی ایک ایسی مجرمانہ روش ہے جس کے نتیجے میں مقامی کاروباری برادری اپنے پاؤں پر کبھی کھڑی نہیں ہو سکتی۔

ان معاشی مسائل کے ساتھ نصف عشرے کے دوران ملک پر اجارہ داری کا دعویٰ کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کےپشت پناہ اداروں نے معاشی مسئلے سے مجرمانہ لاپروائی برتی ہے اور ملکی مفاد سے عدم دلچسپی اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دینے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔

ان حالات میں ملکِ عزیز میں معاشرتی خرابیوں اور عدم تحفظ کا جو منظر نامہ سامنے آرہا ہے، وہ ہرمحب وطن کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے۔ معاشی اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں شہروں اور دیہاتوں میں جان و مال کو جو خطرات لاحق ہیں، ان کا اندازہ ڈان ۴جنوری ۲۳ء کو  شائع ہونے والے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے۔ دارالحکومت میں ایک دن میں ۳۶ جرائم رپورٹ کیے گئے ۔ایک سال کے دوران صرف اسلام آباد میں۱۳ ہزار ۴۰۹ وارداتیں پولیس تھانوں میں درج ہوئی ہیں، جب کہ ملک میں (وارداتوں کی اطلاع کے باقاعدہ نظام کی عدم موجودگی کے باوجود) ۲۱۸۰ ڈکیتیوں، ۱۳۹۲جھپٹ کر چھیننے کے واقعات، ۷۱۹گاڑیوں کی چوری، ۲۰۹۵موٹر سائیکلوں کی چوری، ۹۵۴ قتل یا قتل عمد اور اغوا اور جنسی زیادتی کے واقعات جو پولیس کے علم میں لائے گئے ہیں۔خیبر پختون خوا میں ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے دو ماہ میں ۷۴ قتل ، ۱۲۶ قتل عمد، ۷۴ڈکیتیوں، ۵۱چوری کے واقعات ، ۵۹ موٹر سائیکل کی چوری کے واقعات پیش آئے۔

 سندھ میں جنوری ۲۰۲۳ء کی ایک اطلاع کے مطابق صرف چار ماہ میں ۵۲۹ خواتین اغوا کی گئیں۔۱۱۹ گھریلو دہشت گردی کے واقعات ، ۱۴۲ بچوں کے ساتھ زیادتی ، ۵۶ جنسی زیادتی کے واقعات اور ۳۷ واقعات عزت کے نام پر قتل کے پیش آئے۔

معاشرتی انتشار کا اہم سبب

معاشی، اخلاقی اور سیاسی زبوں حالی کے ساتھ ساتھ خاندان کا نظام بھی انتشار کا شکار ہے۔ جولائی ۲۰۲۳ء کے ٹربیون کی اطلاع کے مطابق صرف پاکستان کے ایک بڑی آبادی والے شہر لاہور میں ۲۰۱۹ء سے تا حال طلاق کے مقدمات کی تعداد ۲۴ ہزار ایک سو ۵۷ ہے۔ ۹ہزار ۸ سو ۱۱ خلع کی درخواستیں جمع کرائی گئیں ۔ یہ معاملہ شہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ تحصیل کی سطح پر ۱۱ہزار ۸سو ۷۹طلاقیں دی گئیں، جن سے ۶۰ ہزار بچوں کا مستقبل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

 طلاق میں کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک کی مدت میں کل ۷۵ ہزار طلاقیں واقع ہوئیں،جب کہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۱ء کے عرصہ میں ۲۴ہزار ایک سو ۳۹ طلاقیں دی گئیں ۔ ایسے میں ۲۰۱۲ءمیں خلع کے واقعات ۱۳ہزار ۲ سو ۹۹ تھے، جب کہ ۲۰۱۳ءمیں ۱۴ہزار ۲ سو ۴۳ اور ۲۰۱۴ء میں ۱۶ہزار ۹سو ۴۲، اور ۲۰۱۶ء میں یہ تعداد ۱۸ہزار ۹۱ تک پہنچ گئی۔ یاد رہے یہ وہ واقعات ہیں جو قانون کی نگاہ میں آگئے ۔پاکستان میں بے شمار مقامات پر ایسے واقعات کو کسی کے علم میں لانا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے اور ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔

ان خاندانی معاملات میں مرد کی طرف سے اکڑ، دھونس، چودھراہٹ اور خواتین کی طرف سے معاشی آزادی کے لیے ملازمت اختیار کرنے کے بعد اپنی خود مختاری تسلیم کرانے کی خواہش کے علاوہ دیگر بہت سے عوامل شامل ہیں، جو محض پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر پائے جاتے ہیں ان میں ایک اہم محرک ابلاغِ عامہ بھی ہے۔

معاشرتی علوم کے ماہرین مغرب کے مقرر کیے ہوئے پیمانوں کی روشنی میں مشترکہ خاندانی نظام میں ساس کے کردار کو خرابی کی جڑ قرار دیتے ہیں، جب کہ پسند کی شادی اور نام نہاد محبت کی بنیاد پر نکاح بھی عام طور پر زیادہ پائدار ثابت نہیں ہوتے۔

اخلاقی انحطاط

ہمارے معاشرے میں شرم و حیا جیسی بنیادی اسلامی قدر کا علم و فہم اور عملی زندگی میں اس پر عمل پیرا ہونے کا رویہ بڑی تیزی سے کمزور ہو رہا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں ، سکول ، کالج ، یونی ورسٹی کی سطح پر شرم وحیا، کردار کی پاکیزگی ، عصمت و عفت کے بنیادی اسلامی تصورات کی تعلیم و تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں ۔ اس کے برعکس تعلیمی اداروں میں منعقدہ مختلف مخلوط پروگرامات اور سر گرمیوں میں ناچ گانے ، موسیقی اور دیگر بے ہودہ انداز و اطوار اور چلن عام ہوتے چلے جارہے ہیں۔ دیگر سماجی رسومات مثلاً شادی بیاہ کے مواقع پر بھی فلموں ، ڈراموں میں دکھائے جانے والے نیم عریاں لباس کا شرفا گھرانوں تک کے مرد وخواتین میں بے دھڑک استعمال بھی فیشن بن گیا ہے ۔عمر کے مختلف حصوں میں شرم و حیا کے اسلامی تصورات سے عاری کارٹون کرداروں، فلموں ، ڈراموں کے زیر اثر نشو و نما پانے والی نئی نسل کے یہ بچے اور بچیاں جب اعلیٰ تعلیم کے لیے اداروں کے مخلوط ماحول میں پہنچتے ہیں تو ان کے گم کردہ راہ کا مکمل امکان اور سامان موجود ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں متعدد تعلیمی اداروں سے تواتر کے ساتھ ایسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں ، جن کو سن کر اور جان کر ہرذی شعور فرد کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

ظاہر ہے جب تعلیمی اداروں اور والدین نے انھیں شرم وحیا ، پاکیزگی، سچائی ، امانت و دیانت، عزّت و آبرو، عصمت و عفت کے طرزِ عمل کی تعلیم و تربیت ہی نہیں دی، تو نئی نسل سے اعلیٰ اخلاقی رویے ، باحیا طرزِ عمل، ضبط نفس اور تقویٰ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ مغرب کے تعلیمی فلسفے، تصورات اور پیمانوں میں فرد کی اخلاقی تربیت ،تعمیر کردار و سیرت کے پہلو نہ ہونے کے برابر ہیں اور اخلاق و کردار کی اہمیت سے عاری یہی پیمانے ہمارے تجزیہ نگاروں کے دل و دماغ پر بھی سوار ہیں اور وہ معاشی مسائل کا حل یہی تجویز کرتے ہیں کہ جب تک خواتین معاشی میدان میں نہ اُتریں گی ترقی نہیں ہو سکتی۔

گذشتہ تین عشروں میں ابلاغ عامہ کو جس طرح بے لگام کیا گیا اور ہندستانی اور مغربی ثقافت، رسوم و رواج اور اقدار، ڈراما ، فلم کوسرکاری سرپرستی میں عریانی، فحاشی، نوجوان لڑکیوں کی مخلوط محفلیں اور ٹی وی کے ہر پروگرام میں ان کی مشروط شرکت، گویا جب تک ان کا کندھے سے کندھا نہ چھلے، ملک کی معاشی ترقی نہیں ہوسکتی ۔اس برائی اور معصیت کے فروغ نے گھریلو تنازعات میں شدت پیدا کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا اور ہر شعبۂ حیات میں منظم انداز میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لا کھڑاکیا۔

بیرونی امداد پر چلنے والے اداروں نے پوری وفاداری کے ساتھ ’حقِ نمک‘ ادا کیا اور پاکستان میں’عورت مارچ‘کے نام پر اور جامعات میں نوجوانوں کو مخلوط محفلوں کا عادی بنا دیا گیا۔ حقوقِ نسواں کے نام پر خواتین میں شدت پسندی ، انانیت اور انفرادیت کو پروان چڑھا یا گیا ، جس کا نتیجہ اَنا کے ٹکراؤ اور اپنی مرضی پر اصرار کا جذبہ فروغ پایا ۔ جیساکہ پہلے ذکر کیا گیا کہ والدین کی لاپروائی نےاور اپنی اولاد کو محض تعلیم گاہ کے حوالے کر دینے اور خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں کے حوالے کرنے سےجو اباحیت اور لبرلزم کے لیے مشہور ہیں اور جہاں لباس، زبان ، لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان باہم آزادانہ دوستی اور دونوں جنسوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور فاصلہ نہیں رکھا جاتا۔ ایسے اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم کے لیے بھیج کر والدین نے درمیانی اور بالائی طبقات میں مغرب کی اباحیت پسندی کی ہمت افزائی کی ۔والدین اور تعلیمی اداروں کی جانب سے بچوں کی تربیت سے لاپروائی اور غفلت کے افسوس ناک طرزِ عمل کے گھناؤنے نتائج اغوا، قتل ، جنسی زیادتی اور مختلف قبیح جرائم ہرچھوٹے بڑے شہر، آبادی میں آئے روز سب کے سامنے آ رہے ہیں۔

اس پس منظر میں حال ہی میں ملک کی ایک معروف یونی ورسٹی میں جنسی استحصال کے جو مبینہ واقعات منظر عام پر آئے ہیں، وہ ہر باشعور پاکستانی کے لیے شرم و ندامت کے ساتھ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا تعلیم کا مقصد گرے ہوئے اخلاق کی حامل نسل پیدا کرنا ہے، جو تعلیمی سند کے حصول کے لیے اپنی عزّت کی پروا بھی نہ کرے ! بلاشبہہ کسی بھی معاشرے میں معاشی استحصال اور سیاسی عدم استحکام معاشرے کے افراد کے اخلاق پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن اخلاقی زوال کا سبب محض معیشت اور سیاست کو قرار دینا غلط ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ معاشی استحصال کیوں رُونما ہوتا ہے؟ کیا اس کا سبب صرف معاشی مسائل ہوتے ہیں یا ان کا بڑا سبب معاش پیدا کرنے والے کا اخلاق ہے؟

پیشہ ورانہ اخلاقیات پر عمل نہ کیا جائے تو معاشی بدمعاملگی ، دھاندلی اور ذخیرہ اندوازی وجود میں آتے ہیں۔ دین اسلام بڑی وضاحت کے ساتھ خرابی کے راستوں اور کامیابی کی شاہراہ دونوں کے لیے عملی ہدایات دیتا ہے۔ ملاوٹ، مطلوبہ معیار کا خیال نہ رکھنا، اپنے کیے ہوئے وعدوں کو توڑنا، ہوس اور خود غرضی میں مبتلا رہنے کو کامیابی سمجھنا، معاشرتی ذمہ داری کا احساس تک نہ ہونا، کردار میں استقامت کا نہ پایا جانا، سچ اور عدل کی جگہ دھوکا، جھوٹ ،بے ایمانی، ملاوٹ کا کلچر پروان چڑھانا___ یہ ذاتی خرابیاں، رذائل اخلاق اورمنفی خصوصیات ہیں جو معاشی بگاڑ، استحصال اور   کساد بازاری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اگر انسان بدعہد، بد معاملہ ،بداخلاق، بدکردار، ناقابل اعتبار اور محض نفس اور ہوس کا بندہ ہو، تو کیا اس سے کسی مستحکم عادلانہ معاشی نظام کو قائم کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟ اس سے تو چوری ، دھاندلی اور بے ایمانی ہی کو فروغ ملے گا۔

گذشتہ دنوں رانی پور (صوبہ سندھ) میں جنسی درندگی کے ہولناک واقعہ اور جڑانوالہ (صوبہ پنجاب) میں آتش زنی کا المیہ، ہمارے معاشرے کی بدنما تصویر پیش کرتا ہے، جسے درست کرنے کے لیے حکومت اور علما و اساتذہ اور میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

معاشرتی اصلاح اور خودا نحصاری کا حصول

 گویا معاشی زوال ہو یا سیاسی عدم استحکام اصل اور بنیادی سبب وہ فرد ہے، جو اس نظام کو چلانے، فروغ دینے، اس کا دفاع کرنے میں اپنی صلاحیت ،ذہن ،علم و فکر اور جان کو کھپاتا ہے۔ ہمارے دین نے ہماری معیشت کو ایمان کا حصہ بنا کر ایک انقلابی راہ دکھائی، اور قرآن کریم میں جہاں بھی اہل ایمان کا ذکر کیا، وہاں یہ نہیں کہا کہ وہ علمِ کلام، فصاحت و بلاغت اور ادبیت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہوں بلکہ یہ بات کہی کہ اہل ایمان دو باتوں کا اہتمام اور قیام کرتے ہیں، یعنی صلوٰۃ اور زکوٰۃ۔ زکوٰۃکو عبادت اور دین میں شامل کرنے کا مطلب یہ تھا کہ معیشت استحصال سے پاک ہو۔ کمائی کے ذرائع حلال ہوں ،ذخیرہ اندوزی اور دیگر حرام طریقوں سے اجتناب برتا جائے۔

سود کو حرام، ممنوع اور اللہ کے غضب کو جوش میں لانے والی برائی قرار دیا گیا ۔ قرض کو بغیر سود قرار دے کر تجارت اور زراعت اور صنعت کو اخلاق کے تابع کر کے دین و دنیا کی تفریق کے خاتمے کے ساتھ ایک ایسے معاشرے اور نظم مملکت کی بنیاد رکھی گئی ، جہاں عدل، حقوق کا تحفظ، مال کی حرمت، جان کی قدر، عصمت و عفت کا تحفظ، خاندان اور نسل کی حُرمت، غرض معاشرتی، معاشی اور سیاسی تینوں محاذوں پر اخلاق، سیرت و کردار کو خوفِ الٰہی، جواب دہی کا احساس، ربِّ کریم کے شاکر بندے کی حیثیت سے اس کی مخلوق کی خدمت کرنے کو ایمان کا جزو قرار دیا گیا ۔معاشرہ ہو یا معیشت یا نظم مملکت، استحکام، ترقی اور کامیابی کی علامت اور انحصار سڑکیں، پُل، فیکٹریاں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں نہیں صرف اور صرف مخلص، ایمان دار ، باصلاحیت ، محنت کش، صالح فرد ہوتے ہیں، جن کا کردار شفاف اور سیرت عیوب سے پاک ہو۔

اخلاص اور تقویٰ کا تعلق نماز اور ذکر الٰہی کے وسیع تر مفہوم سے ہے ،جس کو قرآن کریم نے یومِ جمعہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے واضح کر دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا: جب نمازِجمعہ کی اذان سنو تو تمام کاروبارِ معیشت و سیاست کو چھوڑ کر مسجد کی طرف اللہ کا ذکر کرنے کے لیے تیزی اختیار کرو اور جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تو واپس آؤ اور کاروبارِ حیات کی طرف رجوع کرو، مگر اللہ کاذکر کثرت سے کرتے ہوئے (الجمعہ ۶۲:۹)۔ گویا مسجد کی طرح اپنے کاروباری ادارے میںبھی اللہ کے سامنے حاضری کے احساس کے ساتھ ناپ تو ل اور کیفیت و کمیت (quality) کے اعلیٰ معیار کو اختیار کیا جائے۔ اسی کا نام اللہ کا ذکر اور تقویٰ ہے ۔

تقویٰ کا ایک مظہر قیام ،رکوع ،سجود اور حق گوئی ہے، تو اس کا دوسرا مظہر کسی بھی کام کا انتہائی نقطۂ کمال کے ساتھ اللہ کی رضا کا طلب کرنا ہے ۔ایک سنار جب سونے کو آلودگی سے پاک کر کے کھٹالی میں پکا کر نکالتا ہے تو وہ اس کے اپنےاخلاص اور تقویٰ کا مظہر ہوتا ہے۔ معیشت اور معاشرت میں تقویٰ کا مطلب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خوش اخلاقی، صداقت، فیاضی ،عفو و درگزر، حلم و بُردباری، صبر و استقامت اور حکمت و دانش کے ساتھ والدین ہوں یا اولاد، بیوہ ہو یا یتیم بچّے یا اقربا یا احباب، ہر ایک کے ساتھ وہ طرزِ عمل اختیار کرنا ہے،جو قرآن و سنت میں تعلیم کیا گیا ہے۔ معاشی اور معاشرتی ترقی اس وقت ممکن ہے، جب دین ودنیا کی تفریق کی جگہ اسلام پوری زندگی پر حاوی ہو ۔معاشرتی اصلاح اور معاشی خود انحصاری کا حصول صرف اسی وقت ممکن ہے، جب کشکولِ گدائی کو توڑا جائے اور خاندان اور اسلامی اخلاقی معاشرتی نظام کو معاشرے میں نافذ کیا جائے۔ یہ کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے، بہت آسان اور قابلِ عمل ہے۔

 معاشرے اور معیشت کی تعمیر

  • سمت کا تعین: جس طرح سمت کے تعین کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی، ایسے ہی معیشت و معاشرت کی سمت کا تعین کیے بغیر کوئی اصلاح اور ترقی ممکن نہیں۔ اگر سمت مغرب کی طرف ہوگی، تو معیشت اور معاشرت بھی مغربی تہذیب کا عکس ہوںگے۔ اسلام مشرق و مغرب کی جگہ مشرق و مغرب کے خالق کی طرف اپنا رخ کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ گویا اللہ کی حاکمیت کو معاشی، معاشرتی اور سیاسی طرزِ عمل میں قائم کیا جائے اور مروجہ مغربی یا مشرقی روایات سے پاک اسلام کا مطلوب معاشرہ وجود میں لایا جائے ۔جب یہ عزم اور سمت ہوگی تو راستے کا انتخاب بھی ممکن اور آسان ہوگا۔
  • حکمت عملی :سمت کے تعین کے بعد ہدف تک پہنچنے کی حکمت عملی کا تعین بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر عادلانہ معاشرے اور معیشت کا قیام کرنا ہے تو تزکیۂ نفس اور تزکیۂ مال دونوں کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ باحیا معاشرت کا قیام مغرب اور مشرق کی نمائشی تہذیب کو اپنانے سے نہیں ہو سکتا۔ احترامِ انسانیت اسی وقت ممکن ہے، جب انسان کا استحصال کرنے والے سودی نظام معیشت سے نجات اور مصالح عامہ پر مبنی عادلانہ معاشی نظام قائم کیا جائے۔ دونوں کام آج کی دنیا میں نہ صرف ممکن بلکہ پہلے سے زیادہ آسان ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور دونوں کاموں کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیتا ہے ۔صرف دستور کو اس کی روح کے ساتھ واضح الفاظ کے مطابق نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
  • افرادِ کار کی تیاری :کسی بھی انقلابی تبدیلی کے لیے ایسے افراد کا میسر آنا ضروری ہے جو اس نظام پر نہ صرف یقین رکھتے ہوں بلکہ اعلیٰ کردار کے حامل اور انفرادی و اجتماعی طور پر  اس پر عامل ہوں ۔وہ نہ سود دیتے ہوں نہ سود لیتے ہوں۔ انفرادی کاروبار میں دُہرے پیمانے استعمال نہ کرتے ہوں بلکہ صرف ایک شفاف پیمانۂ عدل استعمال کرتے ہوں، اور اجتماعی معاملات میں بھی ان کا رویہ مقاصد شریعت اور مصالح عامہ سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہ سب کچھ اس دور میں ضروری ہے اور ترقی کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔

افراد سازی، تعمیر سیرت و شخصیت کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمیں گھر ،تعلیم گاہ، مسجد، یونی ورسٹی، ابلاغ عامہ ، ہر محاذ پر قرآن و سنت کے عالم گیر اخلاقی اصولوں کی روشنی میں نئی نسل کی تربیت کرنی ہوگی۔ یہ کام نعر و ں ،مطالبوں کی سیاست اور دھرنوں سے نہیں بلکہ خاموشی سے نظر نہ آنے والی محنت و مشقت کے ساتھ افراد کی زندگیوں کو تبدیل کرنے سے ہوگا۔ یہ ایک صبر آزما اور طویل عمل ہے۔ جس طرح کھجور کا درخت آٹھ سے دس سال میں پھل دیتا ہے، اسی طرح تعمیر سیرت ۱۰ سے ۲۰سال تک مسلسل اخلاقی آبیاری کرنے کے بعد ہی ممکن ہو سکتی ہے۔

 اس کام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تعریف و تحسین کی جگہ تنقید اور تضحیک مقدر ہوتی ہے۔ اللہ کے کسی بھی برگزیدہ نبی کی دعوتِ اصلاح و انقلاب کا استقبال نہیں کیا گیا، بلکہ مخالفت و مزاحمت، رکاوٹ اور اس استہزا کے ساتھ مخاطب کیا گیا کہ اللہ کو تمھارے علاوہ کوئی اور نہ ملا کہ وہ اپنا رسول بناتا؟

عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ حکومت ان سادہ لوح مولویوں کے بس کی بات نہیں۔ اس تاثر کو صرف وہ افراد دُور کر سکتے ہیں جو علمی اور پیشہ وارانہ معاملات میں مہارت رکھتے ہوں اور ان کے مخالف ان کی صلاحیت کے معترف ہونے پر مجبور ہوں۔

  • بنیادی سطح پر کام: معاشرتی اور معاشی اصلاح کا آغاز عوام الناس میں کام کرنے سے ہوتا ہے۔ قرآن کریم نےمکی دور میں توحید اور آخرت کے ساتھ یتیم ،مقروض ،غلام اور مالی طور پر ضرورت مند کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ان کے مقام کو بلند کرنے اور ان کی مشکلات دور کرنے کو اس حد تک اہمیت دی کہ حضرت ابوبکرؓ جو غلاموں کی قیمت ادا کر کے انھیں آزاد کرنے کے لیے مشہور تھے ،قرآن کریم میں ان کی جانب اشارہ کیا گیا کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔اپنے نصب پر فخر کرنے والے قریش کو اعتراض تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد ’کمتر طبقہ‘کے لوگ جمع ہیں۔ ان کی محفل میں وہ کیسے شامل ہوں؟ دعوت با اثرفراد تک محدود نہیں تھی بلکہ غلام اور مفلوک الحال افراد بھی بلا تفریق اس کے مخاطب تھے اور اس لیے مخاطب تھے کہ اسلام معاشرتی عدل کا علَم بردار بن کر آیا تھا۔

یہ صاحبِ حیثیت افراد کا دین نہیں تھا بلکہ اس میں جہاں حضرت عثمان ؓجیسے صاحبِ مال  و ثروت تھے، وہیں حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت بلال ؓجیسے مالی دولت سے محروم شمع رسالتؐ کے پروانے بھی تھے۔ لیکن امانت و تقویٰ میں دوسروں سےبرتر افراد تھے ۔معاشرے کے کم مال دار افراد انفاق فی سبیل اللہ ، ایثار و قربانی میں دوسروں سے کچھ آگے ہی تھے ۔ وہ جو کل تک غلام تھے، انھوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج کو زمین بوس کر دیا ۔ صدقات اور زکوٰۃ کی تقسیم (آٹھ مدوں میں)کے ذریعے معاشی استحکام اسلام کا بنیادی ہدف تھا۔ فقر و فاقہ شرک کی طرف لے جاتا ہے، جب کہ انفاق و صدقات انسان کو متقی بناتے ہیں اور مال کی محبت سے پاک فرد اپنے رب کی محبت و اطاعت میں سکون حاصل کرتا ہے۔

  • مساجد بطور دعوتی مراکز: مسجد اسلامی معاشرے کی پہچان اور قلب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا صحیح استعمال دورِ نبوتؐ کی روشنی میں جب تک نہیں کیا جائے گا، وہ تبدیلی جو اسلام چاہتا ہے، نہیں آسکے گی۔ مسجد تربیت گاہ ہے ، مسجد تعلیم گاہ ہے ، مسجد بیرونی سفارت کاروںسے ملاقات کی جگہ ہے ۔مسجد میں بین الاقوامی معاہدے لکھے گئےاور یہاں امت کی تعمیروترقی کی منصوبہ بندی کی روایت ڈالی گئی ۔ مسجد کی اس حیثیت کا احیابے حد ضروری ہے ۔
  • علمی و فکری قیادت: معاشرتی اور معاشی ترقی اس وقت ممکن ہے، جب عصرحاضر کے معاشرتی اور معاشی تصورات کو براہ راست سمجھنے اور ان کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد، متبادل اسلامی نظام قرآن و سنت سے براہ راست استفادے کے ساتھ پیش کیا جائے۔ بیسویں صدی میں جو کام علا مہ اقبال، حسن البنا شہید، مولانا مودودی اور علامہ محمد اسد اور ان کے رفقا نے کیا، اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے جامعات سے وابستہ محققین کو آگے بڑھنا ہوگا اور قرآن و سنت کی بنیاد پر علم کی تدوینِ جدید کرنی ہوگی۔

 علم کی تدوینِ جدید کی بنیاد حقیقی اور قطعی علمِ وحی پرہوگی ۔یہ تعمیر محض تجرباتی علم یا قیاسی، ظنی یا وجدانی اور روحانی تجرباتی احساس پر نہیں ہو سکتی۔ مروجہ علوم کی بنیاد تجرباتی تصورِ علم پر ہے، یعنی وہ علم جسے تجربہ گاہ میں جانچا جا سکتا ہے ۔وحی الٰہی کا منبع کسی کا ذاتی تجربہ نہیں بلکہ وہ ربّ العالمین ہے، جو ہر خیر اور شر کا علم بھی رکھتا ہے اور ہر خیر و شر پر قدرت بھی۔علم کی تدوینِ جدید وحی کی روشنی میں اس کے عالم گیر ہونے کے سبب واحد اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے۔وحی کے علاوہ تمام علم محدود، وقتی اور داخلی ہے۔ وحی معروضی، عالم گیر اور تطبیقی علم کا واحد قطعی ذریعہ ہے۔ اس بنا پر تمام معاشرتی اور تجربی علوم کی اخلاقی اصولوں پر مبنی تدوینِ جدید اسی وقت پُرمعنی ہو سکتی ہے، جب اس کی بنیاد روشن ثبوتوں پر استوارہو۔

معاشرتی علوم اور تجرباتی علوم کی تشکیلِ جدید قرآن و سنت کے عالم گیر اصولوں کی بنیاد پر کرنی ہوگی اور یہ کام اُن پُرعزم معلمین و معلمات اور طلبہ و طالبات کو کرنا ہوگا جو شعور حیات رکھتے ہوں ،جو رضاکارانہ طور پر اللہ کے انصار بننے پر تیار ہوں۔ ایسے انصار ہی سے یہ وعدہ کیا گیا ہےکہ جب وہ اللہ کو اپنا رب مان کر اس کے راستے یعنی اس صراط مستقیم پر چلیں گے اور ان کے قدم جادۂ حق اور صراطِ مستقیم کی طرف اٹھیں گے، تو اگر وہ ۲۰ ہوں تو ۲۰۰ پر اور اگر سوہوں تو ہزار پر غالب آئیں گے۔ باطل کی چمک دمک ان کے عزم و ارادے کے سامنے تحلیل ہو جائے گی۔فرشتے ان کے ساتھ صف بہ صف شریک ہو کر ان کی استعانت اور مدد کریں گے۔

 مستقبل انھی کا ہے جو تمام غلامیوں کو پامال کر کے صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کی بندگی میں آجائیں، دین میں پورے کے پورے داخل ہوں، خلوص، قربانی ،عزمِ صمیم کی تصویر ہوں، تو مستقبل خود ان کی طرف پیش قدمی کرے گا اور وہ ایک تابناک صبح کے پیغامبر بن کر انسانیت کو عدل، حُریت، احترامِ انسانیت، پاک دامنی ، حیا اور معاشرتی عدل کی برکات سے بہرہ وَر کردینے والے خوش نصیب ہوں گے ۔یہ وہ کام ہے جو سب سے زیادہ ترجیح کا مستحق ہے اور جسے شعوری طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو ذہنی ،جذباتی اور عملی طور پر اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر چکے ہیں۔

 اگست کا مہینہ ہر سال پاکستان اور بیرونِ پاکستان پاکستانیوں میں تصورِ پاکستان سے وابستگی کے احساس کو تازہ اور قیام پاکستان پر اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان مندی کے جذبات میں اضافہ کرتا ہے۔ ہرشخص گلی کوچوں میں، شہروں میں، گاؤں میں ، موٹر سائیکل ، سائیکل ، ریڑھی ، ویگن ، پبلک اور پرائیوٹ ٹرانسپورٹ، ہرپاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ اسکولوں میں بچے پاکستان کے پرچم کے رنگ کے لباس زیب تن کرکے ملی ترانے اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں اور تقریباً پورا مہینہ جشنِ آزادی کا منظر پیش کرتا ہے جس سے وطن عزیز کے ساتھ نوجوانوں کی محبت کا اظہار ثابت ہوتا ہے، لیکن قوم کیا اس محبت کے محرکات ، تقاضوں اور مطالبات کا شعور بھی رکھتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب جواب تلاش کیے بغیر ہم ملک و قوم کے مستقبل کی تعمیروتشکیل کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔

تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے تو دنیا کے نقشے میں شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو جس نے صدیوں کی جنگ ِآزادی کو محض ایک عشرے سے بھی کم یعنی سات سال کی قلیل مدت میں اپنی منزل اور اپنے فوری ہدف کے حصول کو ممکن بنایا ہو ۔ الجزائر ہو یا یورپ میں برپا ہونے والی آزادی کی تحریکات،مثلاً: شمالی آئرش ریپبلک کی آزادی کی تحریک، یہ سب دو صدیوں پرمحیط نظر آتی ہیں۔ برعظیم میں مسلمانوں میں انگریز کی محکومیت سے آزادی کی تحریک مختلف مراحل سے گزرتی رہی۔ آخر۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور میں قراردادِ پاکستان مسلم لیگ کے کنونشن میں منظور کی گئی۔ اس میں باضابطہ طور پر برعظیم کے مغربی اور مشرقی صوبوں پر علاحدہ قومیت کی بنیاد پر دو ایسے خطوں کی خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت پائی جاتی تھی ۔ اس تاریخی موڑ پر یہ سوال کرنافطری ہے کہ کیا حصولِ پاکستان محض ایک قومی ریاست کے وجود کا مطالبہ تھا یا دو سو سال کی غلامی کے بعد مسلمان بطور ایک امت اس خطّے میں اسلامی تصور حیات ،اسلامی معیشت، ،اسلامی ابلاغ عامہ، اسلامی معاشرے اور اسلامی ثقافت کے احیا کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے ؟

تحریکِ پاکستان: تاریخی پس منظر

تاریخ گواہ ہے کہ برعظیم کے مسلمان ایک طویل عرصے انگریز کے عدم مساوات کے رویے کا شکار رہے۔ مسلمانوں کے ساتھ عداوت اور ہندوؤں کے ساتھ ہمدردی، ملازمتوں میں واضح جانب دارانہ رویہ اور تعلیم اور تجارت میں کھلے کھلے تعصبات اور تفریق کو دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ اپنے اسلامی تشخص اور اپنی ثقافت و تہذیب کے تحفظ و بقا کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کریں ۔

ہندو اکثریت انگریز کے ساتھ قریبی تعلق پیدا کر کے اپنی عددی فوقیت کی بنیاد پر مسلمانوں پر حاکمیت کے منصوبے پر مصروفِ عمل تھی لیکن اپنی فطرت سے مجبور ہوکر دکھاوے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ لگا کراور مغرب سے متاثر مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بے تاب اور سرگرم تھی۔

ان حالات میں۱۹۰۰-۱۹۰۱ء کے دوران نواب محسن الملک نے بزم دفاع اردو کے تناظر میں ہندو کانگریس سے الگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت کے قیام پرقوم کو متوجہ کیا ۔ اور اسی تصور اور فکر کی بنیاد پر ۱۹۰۵ء میں نواب سلیم اللہ کے مکان پر مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ پھر اکتوبر ۱۹۰۶ء میں آغا خان کی سربراہی میں ۳۵؍ افراد پر مشتمل مسلمانوں کے ایک وفد نے وائسرائے لارڈ مینٹو سے شملہ میں ملاقات کی اور انھیں اپنے مطالبات و خدشات سے آگاہ کیا اور جداگانہ انتخابات کا مطالبہ کیا ۔ یہ گویا باضابطہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان تھا کہ مسلمان اپنی ثقافت ،لباس ، غذا ، زبان، تصورِخدا،طرزِ معاشرت،معیشت، غرض ہر شعبۂ حیات میں اختلاف کے سبب صدیوں سے ایک ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ہر تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں ، جن کا دین بنیادی تصورات و ترجیحات ہندوؤں کے تصور حیات کی ضد اور اپنا ایک مستقل وجود رکھتے ہیں، اور اب گویا وہ وقت آگیا تھا کہ وہ اپنے وجود اور تشخص کے لیے ایک آزاد خطّے کا مطالبہ کریں ۔ مسلم لیگ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت ، ان کی جدوجہد اور اللہ ربّ العزت کے فضل و کرم سے ایک مختصر عرصے میں قیام پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو گیا۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’ایمان، اتحاد اور تنظیم ‘‘کے بغیر پاکستان کا حصول ناممکن تھا۔ جنگ آزادی کے عمل کی بنیاد ایمان پر تھی ۔ وہی ایمان اتحاد کی بنیاد تھا جس نے عصبیتوں اور قومیتوں کی جگہ لا الٰہ الا اللہ کے ذریعے دلوں کو جوڑ دیا، اور یہ ایمان ہی تھا جس نے منتشر افراد کے اس گروہ کو جو۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد مایوسی اور ناامیدی کا شکار تھا ایک تنظیم میں یکجا ہونے کی توفیق دی اور یہ ثابت کر دیا کہ ایمان کا لنگر مضبوط ہو گا، اور بقیہ دواُصول اتحاد اور تنظیم بھی مستحکم ہوں گے تو پھر دنیا کی کوئی قوت اسے زیر نہیں کر سکتی ۔

اس سے قطع نظر کہ مصلحت یا سیاسی حکمت عملی کی بنا پر مسلم لیگ میں ایسے افراد بھی شامل ہوگئے تھے جو انگریز سے ٹکراؤ قطعاً نہیں چاہتے تھے ۔ اور پھر وہ انگریز کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ کانگریس کی طرح وہ بھی برطانوی تاج کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہیں،اور مسلمان صرف چندحقوق کے حصول کے لیے دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود جس چیز نے پورے خطے کے مسلمانوں کو یکجا کرنے میں اکسیر کا کام کیا وہ صرف لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ تھے ، جن کا واضح مفہوم اللہ کی حاکمیت کا اللہ کی زمین پر قیام تھا۔

۱۳؍ اگست ۱۹۱۹ءکو جلیانہ والا باغ، امرتسر کے سانحے میں ۱۵۱۶؍ افراد کو بہیمانہ طور پر گولی کا نشانہ بنایا گیا۔یہ واقعہ ملک گیر پیمانے پر عوام الناس کو جگانے کا ایک بڑا سبب بنا۔

مسلم لیگ کے مصلحت پسند مسلمانوں کو بھی یہ یقین ہو گیا کہ ان کی جان، مال، دین اور مستقبل انگریز کےہاتھوں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس دوران اتحادی افواج کا ترکی کے ساتھ رویہ مسلمانوں کے جذبات کو مزید مشتعل کرنے کا سبب بنا اور انگریز کی مسلم دشمنی کی اس واضح مثال کے بعد ردعمل کے طور پر تحریک ِ خلافت شروع ہوگئی۔ اس سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کا کردار نمایاں رہا۔

اس دوران ہندو راہ نماؤں نے جو اپنی عددی اکثریت پرپہلے ہی نازاں تھے، شدّھی کی تحریک کا آغاز کردیا اور مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے کی مہم شروع کی۔ ان تمام واقعات نے مسلم قیادت کو اس بات پر یکسواور متفق کر دیا کہ حقیقت میں مسلمان ایک الگ قوم ہیں ۔ ان کا دین، زبان، ثقافت ،تاریخ ،تصور کائنات، تصور انسان ،تصور آخرت ہر چیز ہندوؤں سے مختلف ہے۔ اس لیے ایسے حالات میں جب ہندو اکثریت زبر دستی مسلمانوں کو ہندو بنانے اور اپنی محکوم بنانے پر تلی ہوئی ہے، آزادی کے لیے متحدہ طور پرجدوجہد بے معنی ہے ۔چنانچہ انھیں اپنی آزادی کے حصول کےلیے ایک الگ قوم کی حیثیت سے خود اپنے پائوں پر کھڑے ہوکر جدوجہد کرنا ہوگی۔

 فروری ۱۹۲۸ء میں جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کی سربراہی میں جو رپورٹ پیش کی گئی، اس میں لکھنوکے معاہدہ ۱۹۱۶ء کو مکمل طور پرنظرانداز کرکے خود کانگریس نے باضابطہ یہ اعلان کردیا کہ وہ صرف ہندوؤں کی آزادی کے لیے متحرک ہےاوروہ کسی مسلم مفاد کا تحفظ نہیں کرسکتی ۔ مولانا محمد علی جوہرؒبھی اس واقعے کے بعد کانگریس سے علاحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے۔

دینی و ثقافتی تشخص کا تحفظ اور اقبال

۲۹ دسمبر ۱۹۳۰ء کو الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علّامہ اقبالؒ نے حالات کے تجزیہ کے ساتھ یہ تجویز پیش کی کہ اپنے دینی اور ثقافتی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے بطور نقطۂ آغاز وہ علاقے جہاں مسلم اکثریت ہے، ایک یا زائد خود مختار اکائیوں کی شکل میں یکجا ہوں، مثلاً: پنجاب، شمالی مغربی سرحد، سندھ اور بلوچستان کو بطور ایک اکائی یکجا کر دیا جائے ۔ اس خطاب میں انھوں نے نظریاتی بنیاد کو بھی واضح کر دیا کہ توحید اور اللہ کی حاکمیت کی بنیاد پر ایک مسلم ریاست کا قیام ہی اہل خطہ کے لیے راہ نجات فراہم کر سکتا ہے۔ علامہ کے الفاظ یہ تھے :

 یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے___ اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے تحت عمل میں آتا ہو، اور جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرم عمل ہو ___ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات و عواطف سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے،اور جن سے متفرق و منتشر افراد بتدریج متحد ہوکرایک متمیز ومعین قوم کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کے اندر ایک مخصوص اخلاقی شعور پیدا ہو جاتا ہے۔

حقیقت میں یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں شاید ہندستان ہی ایک ایسا ملک ہے، جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندستان میں بھی اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام ہی کی رہین منت ہے۔ اس لیے کہ اسلامی تمدن کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح کارفرما ہے.... لہٰذا مسلمانوں کا یہ مطالبہ کہ ہندستان میں ایک اسلامی ہند قائم کیا جائے بالکل حق بجانب ہے....ذاتی طور پر میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔

 میری ذاتی طور پر خواہش ہے کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے۔ خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری حاصل کرے، خواہ اس کے باہر۔ مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم مسلم ریاست قائم کرنا پڑے گی ۔

۱۶؍ اگست ۱۹۳۲ء کو کیے جانے والے کمیونل ایوارڈ (Communal Award)نے جداگانہ انتخاب کے اصول کو تسلیم کر کے مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونےپر سرکاری مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ برطانوی سامراج اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہو چکا تھا کہ استعماری چراغ کی لَو بجھنے والی ہے، اس لیے اس نےاپنی روایتی مسلم دشمنی کی بنا پر ایسے فیصلے کیے جن کا نقصان مسلمانوں کو ہوا اور جنھیں مسلمان مجبوراً ماننے پر آمادہ ہوئے ، مثلاً ۱۹۳۵ء کے ایکٹ میں فیڈرل ، پروینشنل اور concurrent کی تقسیم جس میں فیڈرل فہرست اور صوبائی فہرست میں بعض اختیارات دینے کے باوجوداسے ایک ملغوبہ بنایا گیا۔ اس قانون کو قائد اعظم نے ناقابلِ قبول قرار دیا لیکن تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مسلم لیگ کو ٹکراؤ کی جگہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

۱۹۳۵ءکے ایکٹ کی روشنی میں ہونے والے انتخابات کے بعد ۱۹۳۷ء-۱۹۳۹ء میں کانگریس کی حکومت نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دیں۔ ابھی مکمل آزادی نہیں ملی تھی لیکن کانگریس نے اپنے ماتحت مقامات پر نظام تعلیم اور نصابی کتب کووِدیا مندر منصوبہ کے تحت تبدیل کردیا اور طلبہ کے لیے ہر صبح بندے ماترم کا ترانہ گانا لازمی قرار دیا ۔ دسمبر ۱۹۳۸ء میں مسلم لیگ کے پٹنہ سیشن میں اس ترانے کو شدت کے ساتھ ردّ کیا گیا اور اسے بت پرستی اور مسلم دشمنی کی واضح مثال قرار دیا گیا ۔

اس تناظر میں علامہ اقبال کا ۲۸مئی ۱۹۳۷ء کا خط اہم راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ قائداعظم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو سو سالہ زوال اور ہندو کی مہاجن کی حیثیت سے مسلمانوں کے معاشی استحصال کے بعد اب نجات کی راہ کیا ہو گی؟ پھر خود جواب دیتے ہیں:

’’روٹی کا مسئلہ روز بروز شدید تر ہوتا چلا جارہا ہے۔مسلمان محسوس کر رہے ہیں کہ گذشتہ دوسوسال سے ان کی حالت مسلسل گرتی چلی جارہی ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کے افلاس کی ذمہ داری ہندو ساہوکار و سرمایہ داری پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ احساس کہ ان کے افلاس میں غیرملکی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے اگرچہ ابھی قو ی نہیں ہوا لیکن یہ نظریہ بھی پوری قوت و شدت حاصل کرکے رہے گا۔

’’ جواہر لال نہرو کی منکر خدا اشتراکیت مسلمانوں میں کوئی تاثر پیدا نہ کر سکے گی۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو افلاس سے کیونکر نجات دلائی جا سکتی ہے؟لیگ کا مستقبل اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مسلمانوں کو افلاس سے نجات دلانے کے لیے کیا کوششیں کرتی ہے؟ اگر لیگ کی طرف سے مسلمانوں کو افلاس کی مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی گئی تو مسلمان عوام پہلے کی طرح اب بھی لیگ سے بےتعلق رہیں گے۔

’’خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ میں اس مسئلہ کا حل موجود ہے اور فقہ اسلامی کا مطالعہ مقتضیاتِ حاضرہ کے پیش نظر دوسرے مسائل کا حل بھی پیش کر سکتا ہے۔ شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی قانون کو معقول طریقے پر سمجھا اور نافذ کیا جائے، تو ہر شخص کو کم از کم معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے۔ لیکن اسلامی شریعت کا نفاذ ناممکن ہے جب تک اس ملک میں ایک یا ایک سے زائد آزاد ریاستوں کا وجود نہ ہو۔ سالہا سال سے یہی میرا عقیدہ رہا ہےاور میں اب بھی اسے ہی مسلمانوں کے افلاس اور ہندستان کے امن کا بہترین حل سمجھتا ہوں اور اگر ہندستان میں اس طریق کار پر عمل درآمد اور اس مقصد کا حصول ناممکن ہے، تو پھر صرف ایک ہی راہ رہ جاتی ہے اور وہ خانہ جنگی ہے۔ جو فی الحقیقت ہندومسلم فسادات کی شکل میں کئی برسوں سے شروع ہے۔

’’لیکن جیسا کہ اُوپر ذکر کر چکا ہوں اسلامی ہندستان میں ان مسائل کا حل بہ آسانی رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کے ذریعے ایک یا زائد آزاد اسلامی ریاستوں کا قیام اشد لازمی ہے۔ کیا آپ کی رائے میں اس مطالبہ کا وقت نہیں آن پہنچا ؟شاید جواہرلعل کی بے دین اشتراکیت کا آپ کے پاس یہ بہترین جواب ہے‘‘۔

مسلم لیگ کے ۲۵ویں اجلاس منعقدہ لکھنؤ میں ۱۵-۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں اسی بات پر غورکیا گیا اور قائد اعظم نے طے کیا کہ مسلم لیگ اب مکمل آزادی یا ایک فیڈریشن یا آزاد جمہوری ریاستوں کے قیام کی جدوجہد کرے گی تاکہ مسلمانوں کا مفاد محفوظ ہو سکے اور اقلیتوں کو بھی تحفظ ملے ۔ اس غرض کے لیے مسلمانوں میں اتحاد اور تنظیم پیدا کرنا لیگ کا مشن قرار پایا ۔ اس جدوجہد کا منطقی نتیجہ ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ءکو لاہور میں منظور ہونے والی قراداد میں ان الفاظ میں ظاہر ہوا:

آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہایت غوروخوض کے بعد اس ملک میں مسلمانوں کے لیے صرف ایسے آئین کو قابلِ عمل اور قابلِ قبول قرار دیتا ہے، جو جغرافیائی اعتبار سے باہم متصل خطّوں کی صورت میں حدبندی کا عامل ہو اور بوقت ِ ضرورت ان میں اس طرح ردو بدل ممکن ہو کہ جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت بہ اعتبار تعداد ہو، جیساکہ ہندستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقے میں، انھیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کردیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں۔

یہ وہ تاریخی موقع تھا جب مسلم لیگ نے یکسو ہو کر منزل کے حصول کے لیے ساری قوت صرف کرنا شروع کی۔ قائداعظم کے فولادی اعصاب نے ہر لمحہ بدلتے حالات کی صورت حال میں اللہ پر اعتماد کے ساتھ مستقل مزاجی سے جنگ آزادی کی کامیاب قیادت کی ۔ اس جدوجہد کا مقصد جیسا کہ علامہ اقبال کے خط بنام قائد سے واضح ہوتا ہے، نئے خطۂ پاک میں اسلامی شریعت کا نفاذ تھا۔ یہ ایک عجیب سانحہ ہے کہ علامہ اقبال اور قائد کے واضح تصور پاکستان کے باوجود پاکستان کے نام نہاد روشن خیال اور اباحیّت پسند دانشوروں نے پاکستان کے قیام کے فوراً بعد تصور پاکستان کے حوالے سے ہندو کانگریس کے سیکولر ریاست کے تصور کو قائد کے تصور کے طور پر تکرار کے ساتھ پیش کیا اور دو قومی نظریہ کی جگہ سیکولر ریاست کے تصور کو عام کرنے میں اپنی تمام ذہانت استعمال کرتے ہوئے ابہام در ابہام پیدا کرنے میں اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں ۔ صحافت ، نوکر شاہی اور دیگر ملکی اداروں میں جو افراد ذمہ دار بنے ، ان میں سے کسی کو علامہ اور قائد کے تصور پاکستان سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اس لیے انھیں پہاڑ کھودنے کے بعد لے دے کر ایک تقریر ایسی ملی جس کو اپنی فکر کے مطابق معنی پہنا کر اس کی جو تعبیر وہ کرنا چاہتے تھے، اس تعبیر کو قائد سے منسوب کر کے اس کا اتنا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ لوگ اسے سچ مان لیں لیکن حق و باطل کی اس کش مکش میں حق ہی کو غالب آنا تھا۔ اس تناظر میں علامہ اقبال اور قائد اعظم کا تصور پاکستان کیا تھا؟ اسے انھی کے الفاظ میں جان کر ایک قاری صحیح فیصلہ کر سکتا ہے ۔

قائداعظم کا وژن

یکم فروری ۱۹۴۳ءکو قیام پاکستان سے بہت پہلے ہوسٹل پارلیمنٹ اسماعیل یوسف کالج، بمبئی میں خطاب کرتے قائد اعظم فرماتے ہیں :

 پاکستان میں ریاست اسلامی اصو لوں کے مطابق چلائی جائے گی ، اس کی ثقافت ، سیاسی اور معاشی تشکیل اسلامی اصولوں پر مبنی ہو گی۔غیر مسلم اس امر سے خائف نہ ہوں کیوں کہ ان کے ساتھ مکمل عادلانہ رویہ رکھا جائے گا ۔ ان کے ثقافتی ، مذہبی ، سیاسی ، معاشی حقوق کا مکمل تحفظ ہو گا ۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ انھیں موجودہ نام نہاد جمہوری پارلیمنٹری طرز حکومت سے زیادہ تحفظات حاصل ہوں گے۔

لاہور میں ہونے والی یونی ورسٹی ریلی سے حصولِ آزادی کے بعد خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 ہم نے اپنی منزل مقصود ’آزادی‘پالی ہے اور ایک آزاد خودمختار اور دنیا کی پانچویں بڑی مملکت قائم ہو چکی ہے۔ اس برعظیم میں رونما ہونے والے حالیہ اندوہناک واقعات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ کوئی قوم ابتلا اور ایثارکے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتی.... کچھ لوگوں کی غداری اور سازشوں سے اس برعظیم میں بدنظمی اور افراتفری کی قوتوں کو بےلگام چھوڑ دیا گیاجس کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوئیں۔بہت وسیع پیمانے پر املاک کی تباہی اور بربادی ہوئی اور لاکھوں انسانوں کو اپنے گھر بار اور اپنی محبوب اشیا سے جدا کر کے اذیت اور مصائب میں مبتلا کر دیا گیا ۔ ہم ایک نہایت گہری اور خوب سوچی سمجھی سازش کا شکار ہوئے جس کا ارتکاب کرتے ہوئے دیانت داری، شجاعت اور وقار کے بنیادی اصولوں کا بھی مطلق لحاظ نہیں کیا گیا ۔ ہم اس تائید غیبی کے لیے سراپا شکر گزار ہیں کہ اس نے طاغوتی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بہت حوصلہ اور ایمان کی قوت عطاکی۔ اگر ہم قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرتے رہے تو حتمی فتح، میں پھر کہتا ہوں، ہماری ہو گی ۔کام کی زیادتی سے، میں کہتا ہوں، گھبرایئے نہیں!

 نئی اقوام کی تاریخ میں کئی مثالیں (ملتی ہیں )جنھوں نے محض عزم اور کردار کی قوت کے بل پر اپنی تعمیر کی۔آپ کی تخلیق ایک جوہرِ آب دار سے ہوئی ہے اورآپ کسی سے کم نہیں ہیں ۔اوروں کی طرح اور خود اپنے آبا و اجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہیں ہوں گے؟آپ کوصرف اپنے اندر مجاہدانہ جذبہ کو پروان چڑھانا ہو گا۔آپ ایسی قوم ہیں جس کی تاریخ قابل ، صلاحیت کے حامل کرداروں اور بلند حوصلہ اشخاص سے بھری پڑی ہے ۔ اپنی روایات پر قائم رہیےاور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کر دیجیے ۔

اب میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ ہر شخص تک میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ وہ یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی صف میں شامل کرنے کے لیے بوقت ضرورت اپنا سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ ہوگا ، جن کا نصب العین اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی امن ہوتا ہے۔

اسی بات کو قائد اعظم محمد علی جناح نے فروری ۱۹۴۸ء میں امریکی عوام کے نام ریڈیائی پیغام میں کہا اور یاد رہے کہ یہ بیان بھی اس نام نہاد ۱۱؍ اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے بعد کا ہے جسے  جان بوجھ کر بار بار اس طرح پیش کیا جاتا ہے گویا ۱۱؍ اگست کی تقریرہی ان کی وصیت تھی۔ قائداعظم امریکی عوام سے ریڈیو پر خطاب کرتےہوئے کہتے ہیں کہ :

 میرے لیے یہ امر انتہائی مسرت کا باعث ہے کہ میں اہلیان ریاست ہائے متحدہ امریکا سے پاکستان ،اس کی حکومت ،اس کے افراد اور اس کے وسائل کے بارے میں اس نشریے کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں۔ یہ مملکت جو کسی حد تک برعظیم کے ۱۰کروڑ مسلمانوں کے حسین خواب کی تعبیر ہے ۱۴؍اگست ۱۹۴۷ء کو معرض وجود میں آئی۔ پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت (Premier Islamic State) اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔

مجلس دستور ساز پاکستان کو ابھی پاکستان کے لیے دستور مرتب کرنا ہے۔مجھے اس بات کا علم تو نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہو گی، لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ایسے ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ تیرہ سو برس قبل ہوسکتا تھا۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل اور انصاف کی تعلیم دی ہے۔ ہم ان شان دار روایات کے وارث ہیں اور پاکستان کے آیندہ دستور کے مرتبین کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے باخبر ہیں۔ بہر نوع پاکستان ایسی تھیا کریسی نہیں ہوگا جہاں پادری فرماں رواں ہوں۔

غیر مسلم ہندو، عیسائی اور پارسی ہیں، لیکن وہ سب پاکستانی ہیں ۔انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی اور شہری کو حاصل ہو سکتی ہیں اور وہ اُمورِپاکستان میں اپنا جائز کردار ادا کر سکیں گے۔

قائداعظم اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور جدید دور میں قابل عمل نظام سمجھتے تھے۔ ۲۵جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں فرماتے ہیں:

وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگوں کا ایک طبقہ جو دانستہ طور پر شرارت کرنا چاہتا ہے، یہ پراپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے  گی....  آج بھی اسلامی اصولوں کا زندگی پر اسی طرح اطلاق ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو برس پیشتر ہوتا تھا....جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔

اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویے بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لیے عدل کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔

قائد کی ۱۹۴۳ء یعنی قیام پاکستان سے قبل اور ۱۹۴۸ء میں اس تقریر کے بعد جس میں انھوں نے وہ بات نہیں کہی جو ان کے شارح اپنی تعبیرات میں بیان کرتے ہیں ، ان تمام تقاریر کو ، جو بے ساختہ نہیں بلکہ تحریری شکل میں لکھنے کے بعد کی گئی تھیں، سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ان کے تسلسل ، فکر اور موقف کی یگانگت اور یکسوئی میں ذرہ برابر فرق نظر نہیں آتا۔ جس طرح ۱۹۴۳ء میں وہ پاکستان کو بطور اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے تھے بالکل اسی طرح ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو کراچی بار سے خطاب ،۱۴ فروری ۱۹۴۸ءکو سبی دربار سے خطاب ، فروری ۱۹۴۸ءکو امریکی عوام سے خطاب، ۲۱فروری ۱۹۴۸ء کو اِک اِک ریجمنٹ کراچی سے خطاب، یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک سے خطاب میں وہ ریاست کے اسلامی خدوخال کو اسلام کے سیاسی اور معاشی نظام پر مبنی قرار دیتے ہیں۔

قائدا عظم کے تصور پاکستان کے تقاضے

قائد کے ارشادات کی روشنی میں خود قائد کی حیات اورسر براہی میں دستور ساز اسمبلی میں ایک شعبہ مولانا سیّد سلمان ندوی کی صدارت میں قائم کر دیا گیا تھاجو اسلامی اصولوں کی روشنی میں دستور کے حوالے سے اسمبلی کی راہ نمائی کرکے دستوری سفارشات مرتب کرے ۔ اسی طرح لاہور میں علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک ادارہ پاکستان کی تعمیر نو کے نام سےقائم کیا گیا اور قائد کی حیات میں انھیں یہ کام سپرد کیا گیا کہ وہ پاکستان کے لیے دستور کے خدو خال پر دستاویز تیار کریں ۔ یہ دستوری خاکہ جو علامہ اسد نے تحریر کیا، آج بھی ان کے اعزاز میں انگریزی میں طبع شدہ کتاب: Muhammad Asad (Leopold Weiss): Europe's gift to Islam (دو جلدیں)میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب انگریز کے اداروں میں تربیت پانے والے سرکاری اہل کار ، عدلیہ میں انگریز کے ذہنی غلام نمایندے اور خود سیاسی محاذ پر پاکستان کے تصور کے مخالف افراد، مثلاً باچا خان و دیگر کے لیے یہ امر نا قابل ہضم تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بن جائے ، چنانچہ جسٹس منیر ہوں یا بیورو کریسی کے افراد جن میں ۱۹۶۴ء تک ۶۰ سے اُوپر افراد سیکرٹری کے عہدے تک وہ تھے جن کی قومیت بھی برطانوی تھی ۔ جن کی علمی تربیت برطانوی تصور ریاست پر ہوئی تھی۔ یہ افراد مغربی تصورات اور طرز ِ زندگی پر یقین رکھتے تھے اور اسی وجہ سے دین اور ریاست کو ایک دوسرے کی ضد سمجھتے تھے ۔

اس سب کے باوجود ۱۹۵۶ء کے دستوری مسودے میں قائد اور قوم کے خیالا ت کو نمایندگی دینے کی کوشش کی گئی، حتیٰ کہ ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی جن دفعات کو اسلامی کہا جاتا ہے، دستور کا دیباچہ (preamble)اس تصور کی وضاحت کرتا ہے ۔ قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت قائدِ ملت نے جو مفصل تقریر کی، اس کا ایک ایک لفظ قائد اعظم کے تصور کی نمایندگی کرتا ہے۔ عوام نے بھی ہمیشہ تحریک پاکستان کے آغاز سے لے کر آج تک صرف اسلام کو ملک کی نظریاتی بنیاد قرار دیا۔ اب گذشتہ دو دہائیوں سے ملک جس تکلیف دہ صورتِ حال میں مبتلا ہے ، اس سے نکلنے کی راہ اور حکمت عملی کیا ہو ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جس پر ملک کے ہر صائب الرائے فرد کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ گو، ملک کی سیاسی قیادت آج بھی مفادات کی جنگ اور اخلاقی اقدار کی پامالی میں مصروفِ عمل ہے اور اس کے نتیجے میں ایک مزدور سے لے کر ایک دانش ور تک، ہر فرد ذہنی و فکری انتشار میں مبتلا ہے ۔ قومی زندگی کے اس فیصلہ کن موڑ پر ریاست کے نظریاتی تحفظ کی ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ہم اس بھنور سے کیسے نکلیں اور قائد کے تصورِ پاکستان کے حصول کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟ اس حوالے سے چند بنیادی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔

  • سیاسی انتہا پسندانہ لب و لہجے اور رویوں کی اصلاح : ہندوؤں کی شاطرانہ سیاست ، انگریز کی عیاری و مکاری ، برعظیم کے علما کے ایک طبقے کی قائدا عظم کے خلاف انتہا پسندانہ مہم اور ’کافر اعظم‘ جیسے بدترین لقب سے نوازے جانے کے باوجود قائد اعظم نے صبرو استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور انتہائی متانت اور برد باری سے سیاسی مکالمے اور بات چیت کا عمل جاری رکھا۔ قائد اعظم کا یہ طرزِ عمل پاکستان کے موجودہ سیاست دانوں کو دوبارہ یاد دلانے کی ضرورت ہے ۔ آج سیاست میں رائج زبان ، لب و لہجے اور طرز عمل کو کسی طور پر درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ دُکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تمام سیاسی قائدین اور بڑی جماعتیں شاید حالات کے دباؤ اور نفسیاتی تناؤ کے باعث مہذب زبان و بیان کو مکمل طور پر ترک کر کے محض دھونس ، دھمکی اور اشتعال انگیز لب ولہجے میں ایک دوسرے کو مخاطب کرنے کی عادی ہو گئی ہیں۔ اس کشیدہ سیاسی منظر نامے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے کارکنان بالخصوص نوجوان بھی سوشل میڈیا کے محاذ پر اشتعال انگیز لب و لہجے میں ایک دوسرے سے برسر پیکار نظر آتے ہیں ۔ اس کشیدہ فضا کو دُور کرنے کے لیے مناسب لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے ۔کسی تبادلۂ خیال کے آغاز سے قبل یہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ مسائل کے حل کے لیے باہمی مشاورت و گفتگو کا لہجہ باہمی احترام اور مفاہمت کا ہو۔ ہمارا دین ہمیں قولِ حسن کا پابند کرتا ہے اور اختلاف ِ رائے کے حق کا احترام کرتے ہوئے اور آداب اختلاف کی پابندی پر زور دیتا ہے۔ اس اصول کو کسی قیمت پر پامال نہیں ہونا چاہیے۔ آج باہمی احترام اور ذاتیات سے بلند ہو کر اصولوں پر تبادلۂ خیال کی روایت کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ انانیت ، عدم برداشت ، ٹکراؤ سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ مداہنت کے بغیر مکالمہ مسائل کے حل کی طرف لے جانے کا زیادہ بہتر ذریعہ ہے ۔
  • پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کا تحفظ:قائداعظم نے اپنے متعدد خطابات میں خصوصاً اِک اِک رجمنٹ ملیر کراچی، پنجاب یونی ورسٹی کی ریلی اور پشاور میں مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے نام اپنے تحریری پیغام میں قوم کے نوجوانوں ، مسلح افواج کے افسران اور عام طلبہ سے خطاب میں پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کے تحفظ اور ان کے لیے جان، مال، وقت، صلاحیت، غرض ہر شے کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوئے پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دیا ۔ چنانچہ اب ملک گیر پیمانے پر علمی اور عملی میدانوں میں عصبیت ،مسلکی منافرت ،بدامنی اور لاقانونیت کے خاتمے اور ملک میں اسلامی عادلانہ نظام کے قیام کے لیے منظم جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔
  • قائد کے فرمان کی روشنی میں سودی نظام سے نجات :قائد نے اسٹیٹ بنک کے تحقیقی ادارے کے افتتاح کے موقعے پر اپنے خطاب میں، جو ان کے انتقال سے قبل ان کا آخری خطاب تھا، اس تحقیقی ادارے کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مغربی سرمایہ دارانہ معیشت کی جگہ (جو ان کی نگاہ میں اپنی تباہی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھی) اسلامی معاشرتی عدل پر مبنی ایک معاشی حکمت عملی تیار کرے۔ افسوس کہ پاکستان قائد کی خواہش کے خلاف سرمایہ دارانہ معیشت میں دھنستا چلا گیا ہے۔اسے اس دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ معاشیات کے شعبے اور تحقیقی اداروں کا کام ہے کہ وہ معاشی مسائل کا اسلامی حل پیش کریں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے متبادل اسلامی معیشت اور بنکاری کے عملی تجربات کی روشنی میں ایک مشترکہ حکمت عملی وضع کریں، تاکہ کم سے کم وقت میں ملک اور دنیا کو سود کی لعنت سے نجات دلائی جا سکے ۔
  • دستور کی روح اور الفاظ کی پیروی: قائد کی خواہش کے مطابق دستورِ پاکستان کی دفعات کی پیروی کرتے ہوئے ملک میں عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ تینوں کو دستور کے احترام اور پیروی کو اختیار کرنا چاہئے۔ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر ہی ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔ جو ادارے کسی بیرونی حملے سے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں ان کا کام بیرونی دشمنوں سے تحفظ ہی ہے، اور جو ادارے عدل و انصاف کے لیے بنے ہیں انھیں بلا کسی خوف و خطر اپنا فرض منصبی ادا کرنا چاہیے۔انھیں کسی سیاسی جوڑ توڑ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہیے۔ یہی بات قائد نے سول اور فوجی افسران سے خطابات میں صاف الفاظ میں کہی ہے۔
  • نظام تعلیم کی درستی :قائد، ملک میں اعلیٰ اقدار پر مبنی نظام تعلیم و ابلاغ عامہ کا فروغ چاہتے تھے ۔مقتدر اداروں اور عوام دونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک سے فحاشی ، عریانی ، لادینیت ، انانیت پسندی ، انفرادیت اور مفاد پرستی کی جگہ اسلام کے عالم گیر اُصولوں کو اداراتی بنیادوں پر رواج دیں تاکہ آیندہ نسلیں قائد اور اقبال کے خواب کی تعبیر پیش کرسکیں۔موجودہ نظام تعلیم کے ذریعے ایسے ماہرینِ فن تو پیدا ہو رہے ہیں جو ملک میں اور ملک سے باہر جا کر اپنے پیٹ کی ضروریات پوری کرتے ہیں ، لیکن ایسے انسان، جو حق و باطل میں امتیاز کرنے کے ساتھ حق ،سچائی، عدل، حقوق اللہ کی ادائیگی اور اللہ کے بندوں کے حقوق کو ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، پیدا نہیں ہورہے۔ اسلامی اخلاقی اقدار کو جب تک نصاب تعلیم، طریقِ تدریس اور شخصیت کی نشوونما کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا، اس وقت تک ہم ایسا معاشرہ تعمیر نہیں کرسکتے جو عدل، احترامِ عقل و نسل اور حُرمت ِمال اور دینی شعار کا احترام کرنا سکھائے ۔
  • تعلیمی نصاب پر نظر ثانی : نصابی کتب میں قائد کے تصورِ پاکستان پر مبنی تقریریں، قائد ملت کے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے وقت تقریر، اور دیگر ایسی دستاویزات کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، جو قائد کے تصورِ پاکستان کی وضاحت کرتی ہیں۔ اسی طرح نئی نسل کے لیے قائد اعظم ، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے موضوع پر اردو اور انگریزی زبان میں کتب اور خوب صورت دیدہ زیب کتابچے و دیگر تعلیمی مصنوعات تیار کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
  • علمی مواد کی فراہمی: دینی مدارس اور جدید تعلیمی جامعات جہاں نظریۂ پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے افراد ہوں، وہاں لائبریریوں میں تحریک پاکستا ن ، قائد اعظم ، علامہ اقبال کے افکار و نظریات پر مبنی کتب کے خصوصی گوشے بنائے جائیں اور تسلسل سے طلبہ و طالبات کو ان گوشوں سےمتعارف کروایا جائے تاکہ نئی نسل کی ذہنی و فکری آبیاری ہو ۔
  • جامعات اور تعلیمی اداروں میں آگاہی مہمات: قائداعظم ، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر راہنماؤں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے اور ان کی فکر سے نئی نسل کو روشناس کروانے کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کے تحت بین الاضلاعی، صوبائی اور ملک گیر پیمانے پر کالجوں، اسکولوں اورجامعات کے طلبہ وطالبات کے لیےمضامین نویسی اور تقریری مقابلوں کا انعقاد ہونا چاہیے۔
  • معمّر افراد کی گفتگو :  ابھی کچھ ایسے لوگ زندہ ہیں جنھوں نے پاکستان کو وجود میں آتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، ان سے براہِ راست نوجوان نسل کی گفتگو ملک کے تحفظ اور مستقبل کی تعمیر کے حوالے سے بہت ضروری ہے۔
  • قائد کی مغربی فکر کی مذمت کی روشنی میں اسلامی خاندانی نظام کا تحفظ :قائد نے مغربی فکر ، نظام اور طرز زندگی کو انسانیت کے لیے زہرِ قاتل قرار دیا اور اسلامی اصولوںکی روشنی میں نئی مملکت میں معاشرے کی تعمیر کا تصور پیش کیا ۔ آج مغرب اور مغرب کے زیر اثر مسلم فرماں روا آنکھیں بند کر کے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے نعرہ کے نام پر ہم جنس پرستی اورخواجہ سراؤں کے نام پر ہونے والی قوانین سازی کے ذریعے عریانی ، فحاشی اور مہلک بیماریوں کی جڑ جنسی آزادی کو مسلم دنیا کے اسکولوں کے تعلیمی نصاب میں بہ خوشی شامل کر رہے ہیں۔ اسلامی خاندانی نظام کے احیا اور خاندان کے ادارے کو تباہی سے بچانے کے لیے تعلیم، ابلاغ عامہ، قانون، سوشل میڈیا،غرض ہر ممکنہ ذریعے سے خاندان کی عظمت و احترام کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔
  • قومی ایام کا اہتمام : یوم آزادی اور یوم قرارداد پاکستان کے خصوصی اجتماعات کے لیے تحقیقی مواد پر مبنی سرگرمیاں ہر ضلعے میں منعقد کی جائیں اور نوجوان مقررین کو بات کرنے کا موقع دیا جائے۔

ان چند عملی تجاویز پر عمل کرنے کے لیے کسی بڑے سرمائے کی ضرورت نہیں صرف عقلی اور علمی سرمایہ کو استعمال کرتے ہوئے اور غیر سرکاری اداروں میں حکمت و تدبر کے ساتھ ان تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم اپنے طرز عمل میں سیاسی ہنگامہ خیزی اور سیاسی تبدیلی کے ذریعے ملک اور معاشرے میں اصلاح کی جگہ اسلامی تعمیر شخصیت اور کردار کی تبدیلی کو اوّلیت اور فوقیت دے۔تعمیر کردار اور اصلاح فکر کے بغیر کوئی سیاسی تحریک نہ آج تک کامیاب ہوئی ہے، نہ ہو سکتی ہے ۔ انسانیت کے محسن اور کامل ترین قائد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدہ اور عمل کی اصلاح کے بعد جو باکردار اصحاب پیدا کیے، وہی سیاسی ،معاشی ، معاشرتی اور قانونی نظام کے معمار اور محافظ بنے۔جائزہ لینے کی ضرورت ہےکہ کسی اصلاحی اور دعوتی تحریک کا کتنے فی صد مساعی کا حصہ تطہیر افکار اور تعمیر شخصیت و کردار پر صرف ہو رہا ہے اور کتنے فی صد سرگرمی ہنگامی طور پر آگ بجھانے کے کام میں لگ رہی ہے۔

 تحریک کو ایسے انسانی وسائل کی ضرورت ہے جو مثبت طور پر حکمت عملی پر پورا عبور رکھنے کے ساتھ فکری، جذباتی اور عملی طور پر اس سیرت و کردار کا نمونہ ہو ںجو صداقت، امانت، شہادت حق، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری اور اسلام کے حقیقی تصور کی عملی مثال ہوں ۔ فکری و نظریاتی طور پر تربیت یا فتہ با اخلاق کارکنان کے بغیر کوئی پائدار سیاسی ہدف حاصل نہیں ہو سکتا اور بنیادوں کے استحکام کے بغیر کوئی مضبوط عمارت نہ قائم ہو سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔پاکستان میں   عدم استحکام کا سبب ان بنیادوں کو اہمیت نہ دینا ہے، جس کی طرف قائداعظم نے متوجہ کیا تھا۔ اگست کا مہینہ اس بابرکت رات یعنی لیلۃ القدر کی یاددہانی کراتا ہے جس میں ستائیسویں شب کو  اللہ تعالیٰ نے معجزاتی طور پر لا الٰہ الا اللہ کی علَم بردار ایک قوم کو ایک ملک دیا تھا، تاکہ وہ اس ملک میں حاکمِ کائنات کی ہدایت و احکامات کے نفاذ کے لیے کمر بستہ ہو۔ یہ یاددہانی ۷۶ سال کے بعد بھی ویسی ہی تابناک ہے جیسے روز ِاول تھی۔ صرف آگے بڑھ کر اس کے لیے انسانی وسائل کو یکجا کرنے اور منظم جدوجہد کے ذریعے عقل ، فہم و تدبر اور حکمت کی قوتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے ۔

 جدید سائنسی تحقیقات میں مصنوعی ذہانت (Artifical Intelligence)نے جسے AI بھی کہا جاتا ہے، گذشتہ چندبرسوں میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر لی ہے۔ تقریباً ہر روز علمی اُفق پر مصنوعی ذہانت کے معیشت ، معاشرت ،عالمی دفاع ، فرد اور معاشرے پر اثرات کےتعلق سے موضوعات زیر بحث لائے جا رہے ہیں ۔ علمی و تحقیقی حلقوں میں چیٹ جی پی ٹی(Chat GPT) کے عمل دخل کی بنا پر پیدا ہونے والے اخلاقی سوالات ابھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی عقل اور تحقیق اس مقام تک پہنچنے لگی ہے جہاں فرعون اور نمردود کی پیروی کرتے ہوئے سائنس خوداپنے ربّ ہونے اور جدید دجّال کی طرح زندگی اور موت پر قابو کاعملاً اعلان کرنے کے لیے آمادہ ہو۔

تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں گذشتہ ربع صدی میں عالم گیر سطح پر بعض جائزے یہ شواہد فراہم کر رہے ہیں کہ جرمن مفکّر نیٹشے کے یہ لکھنے کے باوجود کہ عیسائیت کے خدا کی (نعوذ باللہ ) موت واقع ہوچکی ہے اور جس کے نتیجے میں امریکن اکیڈمی آف ریلجنز کے سالانہ علمی اجتماعات میں ایک سے زائد فکری حلقوں میںDeath of God Theology کے موضوع پر مختلف مقالات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں گیلپ انٹرنیشنل نے ایک عالمی جائز ہ لیا (سروے کیا)، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے ’خطرے‘ کے پیش نظر یہ دیکھا جائے کہ مختلف مسلم ممالک اور غیرمسلم دُنیا اور علاقوں میں کیا رجحانات پائے جاتے ہیں اور اسلام سے خائف یورپ اور امریکا کس طرح اپنا دفاع کرسکتے ہیں؟

اس جائزے میں یہ بات اُبھرکر سامنے آئی کہ ایسے ممالک میں بھی جہاں ظلم و استبداد، عسکری تسلط اور اسلام دشمن قوتیں یا کم ازکم لادینیت (Secularism) کے حمایتی برسر اقتدار ہیں ، ان ممالک میں بھی ۶۰ فی صد یا زائد مسلمان اسلامی شریعت کو اپنے مسائل کا حل اورآمریت اور مغربی لادینیت کے مقابلے میں اسلامی احیا کو اپنی ترجیح قرار دیتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرتب اور اسلامیات پر گہری نگاہ رکھنے والے پروفیسر جان ایل اسپوسیٹو کے تجزیے کے مطابق مشرق وسطیٰ کے مسلم اکثریتی ممالک کے ایسےمرد و خواتین جنھیں مغرب زدہ یا Moderate سمجھا جاتا ہے، ان کے ۸۳فی صد نے اسلامی شریعت کے حق میں رائے دی ۔ جب کہ وہ معاشرتی گروہ جو اسلامی انقلابی (Politicaly radical)کہلاتے ہیں، ان سے تعلق رکھنے والے ۹۱ فی صد افراد کی نگاہ میں شریعت پر مبنی نظام ہی ان کے مسائل کا حل ہوسکتا ہے ۔اسی طرح اس سوال کے جواب میں کہ اسلام کا مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ مصر اور سعودی عرب میں بالترتیب ۹۰فی صد اور ۹۱فی صد مرد اور عورت دونوں کا خیال تھا کہ اسلام انھیں روحانی سکون عطا کرتا ہے، زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور زندگی کو بامعنی بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

نماز کی ادائیگی اور اس کے اثرات کے بارے میں ۲۰۰۱ء میں گیلپ ہی کے ایک تجزیے کے مطابق چھے ممالک کی دوتہائی آبادی کے تاثرات پر مبنی جائزے میں مراکش میں ۸۳فی صد پاکستان اور انڈونیشیا میں ۷۹فی صد، کویت میں ۷۴ فی صد، انڈونیشیا میں ۶۹ فی صد ،لبنان اور ایران میں ۶۸فی صد مردو خواتین نے یہ اقرارکیا کہ ’’نماز انھیں اپنے ذاتی مسائل کے حل میں مدد اور تسکین فراہم کرتی ہےاور روزہ اللہ رب العزت کے دروازہ تک اور صدقہ ہمارے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنتے ہیں‘‘۔

گیلپ انٹرنیشنل کے حالیہ علمی جائزے ۲۰۲۳ء میں خدا کے وجود، آخرت پر یقین ، جنت اور جہنم پر ایمان کے نکات پر دُنیا کی تقریباً دوتہائی آبادی سے حاصل کردہ معلومات  تمام اہل دانش کے لیے قابلِ غور ہیں، خصوصاً ایسے افراد جو اقامت دین کو اپنا مقصد ِحیات قرار دیتے ہیں، ان کے لیے اس جائزے میں غور و فکر کے کئی عنوانات موجود ہیں۔

خدا کے وجود اوراپنے تشخص کے بارے میں عالمی سطح پر ۶۲ فی صد افراد اپنا تشخص مذہبی ہونا بتاتے ہیں،جب کہ ۷۲فی صدخدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔دنیا کی آبادی کے دوتہائی افراد میں سے ۵۷ فی صد حیات بعد موت پر یقین رکھتے ہیں ۔ ۵۹ فی صد افراد جنت کے وجود پر اور ۵۳ فی صد جہنم کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔

ان اعداد و شمار کا مقابلہ ۲۰۱۳ء کے جائزے سے کیا جائے تو امریکا میں ۵۶ فی صد افراد خود کو مذہبی سمجھتے تھے،جب کہ روس میں ۷۰ فی صد اپنے مذہبی ہونے کا اقرار کرتے تھے۔ ۲۰۲۳ءمیں امریکا میں اس رجحان میں اضافہ ہوا۔ چنانچہ ۶۰فی صد افراد خود کو مذہبی قرار دیتے ہیں لیکن روس میں ۲۰۲۳ء میں اس رجحان میں کمی ہوئی اور وہاں آج ۷۰ فی صد کے مقابلے میں ۶۲ فی صد اپنے آپ کومذہبی سمجھتے ہیں۔

۲۰۲۳ء کے اعداد و شمار کی روشنی میں میں دنیا کی آبادی کے دو تہائی حصے میں سے ۱۰فی صد خود کو دہریہ (Atheist)قرار دیتے ہیں،جب کہ ۲۰۱۳ء میں یہ شرح ۹فی صد تھی ۔ گویا اس جائزے کے مطابق دہریت میں ایک فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اگر صرف مسلم ممالک کو دیکھا جائے تو خدا کے وجود پر مسلم ممالک میں سو فیصد اور غیر مسلم ممالک جہاں مسلمان آبادی قلیل تعداد میں ہے، ۱۷ممالک میں ۹۰ فی صد یا اس سے کچھ کم درجہ رکھنے والے افراد ۹۰ تا ۹۹ فی صد خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ مسلم اکثریتی ممالک میں یہ تناسب ۱۰۰ فی صدیا اس کے لگ بھگ ہے۔

دنیا کے دو سو سےزائد ممالک پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو دہریت میں ایک فی صداضافہ ہوا ہے، لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ، آخرت ، جنت اور جہنم پر یقین کو دیکھا جائے تو مسلم ممالک دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں، اور ۱۰۰ فی صد یا اس کے لگ بھگ آبادی میں دہریت سے دُوری اور اور مذہب سے وابستگی کا اظہار موجود ہے۔اگرچہ عالمی سطح پر ایک فی صد دہریت میں اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عالمی سطح پر دینی معلومات میں کمی ہےاورایسے طبقات تک دعوت کا مؤثر ابلاغ نہ ہو سکا  جس کی بے پناہ ضرورت ہے۔

زمینی حقائق کے اس جائزے سے بظاہر یہ عمومی تاثر ہمارے ذہن میں اُبھرتا ہے کہ ’’تمام تر دہریت (Atheism) اور لادینیت (Secularity) اور مادہ پرستی (Materialism) کے باوجود، لوگوں کی ایک معقول تعداد عیسائیت ، اسلام ، ہندو ازم اور بودھ ازم کے تناظر میں اپنے آپ کو مذہب سے وابستہ کرتی ہے اور دنیا کی مکمل آبادی میں بہ مشکل ۱۰ فی صد افراد ہیں جو الحاد میں اپنی نجات سمجھتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ۱۰ فی صد افراد عالمی معیشت،سیاست ، ثقافت ، تعلیم اور دفاعی معاملات میں کتنا مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں اور جو اکثریت اپنے آپ کو ’مذہبی‘ کہتی ہے معاشرہ اور عالمی حالات پر اس کا کتنا اثر (impact)ہے؟

یہ بات جانی پہچانی ہے کہ تمام معروضیت کےباوجود کسی بھی عددی جائزے میں جو سوالات مرتب کیے جاتے ہیں، انھی سے دیگ کے چندچاولوں کی بنیاد پر کھانے کے قابلِ طعام ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ نتائج بڑی حد تک مختلف عوامل سے متاثر ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر چند لمحات کے لیے یہ مان لیا جائے کہ تجزیے میں دنیا کی دو تہائی آبادی سے سوالات و استفسارات سے جو مواد حاصل ہوا ہے، وہ معتبر ہے اور بڑی حد تک مذہب ، خدا اور انسانی زندگی پر ان اثرات کے حوالے سے جو اعداد و شمار ہمارے سامنے آئے ہیں، وہ زمینی حقائق کی ترجمانی کرتے ہیں، توبآسانی یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ مختلف اسباب اور عوامل کے نتیجے کے طور پر عالمی سطح پر الحاد میں لازماً اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب بعض مذاہب نے ان علاقوں میں جہاں پہلے ان کا اثر کم تھا، وہاں اپنی پہنچ میں اضافہ کیا ہے اور بعض مذاہب باوجود اپنی اعلیٰ صلاحیت کے وقت کے مطالبات کے معقول حل پیش کرنے میں دوسروں سے پیچھے ہیں۔

پیش نظر مسئلے کا تقابلِ ادیان کے زاویے سے جائزہ لیں تو خصوصاً افریقا میں ۱۹۷۰ء میں عیسائی چرچ نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ذریعے عالمی سطح پر عیسائیت کی ترویج کے لیے وسائل مہیا کیے تھے ، جس کے اثرات ربع صدی کے بعد ظاہر ہوئے اور سروے میں اس کا ثبوت عیسائیت کے فروغ کی شکل میں موجود ہے۔ بہرحال فی الوقت ہمارے پیش نظر صرف اسلام کے حوالے سے چند بنیادی اُمور پر غور کرنا ہے ۔

دین کی بنیادوں سے لاعلمی

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے وجود یا آخرت کے واقع ہونے اور جنت اور جہنم پر ایمان کا تعلق ہے، مسلمانوں کے انتہائی زوال کے دور میں بھی ایک پیدایشی یا ثقافتی مسلمان بھی جنت اور جہنم کے حقیقت ہونے کا قائل تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی ذاتی زندگی اس عقیدے سے کتنی مطابقت رکھتی تھی۔ اللہ کے وجود اور دنیا میں کیے جانے والے اعمال کے لیے ایک امتحان گاہ کو نہ صرف  عقلی ضرورت بلکہ اپنے وجود سے وابستہ سمجھتا تھا ، لیکن امتداد ِزمانہ کے ساتھ برصغیر جنوب مشرقی ایشیا میں ہمارے دینی عقائد میں بیرونی تصورات غیر شعوری یا شعوری طور پر داخل ہوتے گئے جس کا سبب برصغیر میں غیر اسلامی خصوصاً ہندو مت کے بہت سے طریقوں کا روایتی مسلم معاشرے میں نفوذ کر جانا ہے۔ ان بہت سی رسومات کو جو بنیادی دینی تعلیمات سے عدم آگاہی کی بنا پر رواج پا گئیں، روحانیت اور قرب الٰہی کے نام پر رواج دیا گیا۔ میر تقی میر نے ڈھائی صدی قبل اس مسئلے کا اظہار یوں کیا تھا   ؎

میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو اُن نے تو
قشقہ کھینچا ، دَیر میں بیٹھا ،کب کا ترکِ اسلام کیا

دوسری جانب جنت اور جہنم کے وجود پر ایمان لاتے ہوئے ایک ایسے ذہین شاعر نے جو اپنے آپ کو نصف مسلمان اس لیے کہتا تھا کہ حرام مشروب کے استعمال کے باوجود کبھی حرام گوشت کی طرف نہیں گیا ، جنت اور جہنم کے وجود پر اپنے ایمان کو یوں بیان کیا ہے کہ  ؎

کیوں نہ جنت کو جہنم سے ملادیں یا رب
سیرکے واسطے تھوڑی سی جگہ اور سہی

گویا مسلم معاشرتی شعور میں روح کی گہرائیوں اور ذہن کی وسعتوں میں کوئی گوشہ ایسا نہیں ملتا،جہاں عملاً دین کے بعض ارکان کو ترک کرنے کے باوجود ایک مسلمان، چاہے وہ محض پیدائشی اور ثقافتی طور پر مسلمان ہو ، بنیادی تعلیمات سے واقفیت اور آگاہی کے ساتھ ان پر یقین رکھتا تھا۔ ان کے ہاں دین کا جامع تصور مفقود نظر آتا ہے ۔ اگر جدید جائزوں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دین کی بنیادی تعلیمات سے لاعلمی آج تک ایک تلخ زمینی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ اس رجحان کے اسباب اور ان کا ممکنہ حل کیا ہو؟ یہ تحریکات اسلامی کے لیے ایک اہم غور طلب امر اور چیلنج ہے۔

تعلیم و تربیت

معاشرتی رجحانات کے بننے اور بگڑنے میں تربیت ، ماحول اور تعلیم کا کردار فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ مذکورہ جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں بھی اسلام سے جذباتی وابستگی پائی جاتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور ایک اطمینان بخش صورتِ حال ہے، لیکن وہاں بھی اگر باریک بینی سے دیکھا جائے تو پرائیوٹ تعلیمی اداروں سے فراغت پانے والی نئی نسل اے لیول اور او لیول اور سیکولر کلچراور نصاب کے سائے میں پرورش پا کر فارغ التحصیل ہو رہی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے طلبہ و طالبات بھی دین کے بارے میں محض رسمی معلومات سے زیادہ کچھ بھی نہیں جانتے ۔ تحریک اسلامی کے لیے یہ صورت حال خاص طور قابل غور ہے اور فوری اقدام کی متقاضی ہے۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں ۷۵ سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود، ہرحکومت کے دور میں زبانی جمع خرچ تو ہوا لیکن خاطرخواہ طریقے سے نصابی تبدیلی اور نصاب کے ساتھ بنیادی دینی معلومات فراہم کرنے والی کتب ، اساتذہ اور ماحول فراہم نہیں کیا جاسکا۔

اب ذرا غور فرمایئے کہ جن اداروں میں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد پائے جاتے ہیں، کیا وہاں تعلیم و تربیت سے متعلق منظم اور مستقل اقدامات کیے جارہے ہیں؟ اور جہاں تحریکی افراد کے اپنے ادارے ہیں، ان میں ملک گیر پیمانے پر کیا تجربات کیے گئے ہیں؟ اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرنے کے بعد آیندہ کے لیے کیا لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے؟ اس پر بلاکسی تاخیر جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ضرورت کے تعین (Need Analysis) کے ذریعے ایک قابلِ عمل حکمت عملی کا نفاذ کیا جاسکے۔

زمینی حقائق کچھ یوں ہیں: گھر جو سب سے پہلی تربیت گاہ یا مدرسہ ہے اور جو دینی اور تہذیبی اقدار کا آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے کا فطری ذریعہ ہے، اس گھر کو ہم نے شعوری یا لاشعوری طور پر جدید الیکٹرانک سمعی اور بصری آلات کی رنگینی کے حوالے کر دیا ہے۔ ایک تین سالہ بچہ بھی ڈزنی کی دنیا کا شہری بن گیا ہے اور اپنے والدین کی دنیا سے کٹ کر اپنے احساسات ، زندگی کے مقصد اور مثالی طرزِ عمل کے لیے ان کارٹون کرداروں کا مرہونِ منت ہو گیا ہے،جو ڈزنی نے لادینیت،  عریانیت ، نفس پرستی ، اَنانیت او ر اپنی ذات کی نمائش ا ور پرستش کے اصولوں پر نوعمر ذہنوں اور ان کی روح میں اُتر جانے کے لیے ایجاد کیے۔ یہ رجحان مثبت متبادل مواد کی فراہمی کے بغیر تبدیل نہیں ہو سکتا۔

ذہنی غلامی اور مرعوبیت

 دوسرا اہم سبب مسلمانوں کے ایک اہم اور مؤثر حصے کا ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو جانا اور ہرمعاملے میں اعلیٰ معیار کے لیے صرف اور صرف مغرب کی طرف دیکھنے کو اختیار کرنا ہے ۔ وہ موزہ ہو ، قلم ، قمیص ، جو تا ، غسل خانے میں لگنے والی ٹونٹی ہو یا عمرانیات ، طب ، ریاضی یا دیگر علوم، ہرشعبے میں اعلیٰ معیار( state of the art) مغرب کو قرار دے کر لادینیت پر مبنی علمی روایت کو پوری مسلم دنیا نے پورے عقیدت و احترام کے ساتھ اختیار کر لیا۔اس ذہنی مرعوبیت کے نتیجے میں گفتگو ہو یا تحریر، ہرمیدان میں مغربی جدیدیت کو علمیت کے ثبوت کی شکل میں اختیار کر لیا گیا، جس کے نتیجے میں مغرب سے درآمد کردہ اصطلاحات کا استعمال دانش وری کی علامت اور علمیت کی دلیل سمجھا جانے لگا۔ ان اصطلاحات کے پیچھے جو تصورات ہمارے ذہنوں میں گھر کر رہے ہیں ،حتیٰ کہ اپنی ثقافت کے مطابق لباس پہننا اور اپنی زبان میں اظہار خیال کرنا بھی معاشرے میں ایک معیوب عمل سمجھا جانے لگا ۔

تعلیم و تربیت کا شعبہ دور جدید میں عددی ابلاغ عامہ (Digital Media )کا تابع ہو چکا ہے۔ جس تیزی کے ساتھ برقی ذرائع کا استعمال ، تعلیم ، تفریح اور ابلاغ عامہ میں ہو رہا ہے، اس میں صرف چند قرآنی قصوں پر مبنی کتابچے کام نہیں کرسکتے ۔ اگر ہم صرف ہم خیال تعلیمی اداروں کی ضروریات کا جائزہ لیں تو معاشی طور پر ایسی چیزیں جو تربیتی زاویے سے برقی ذرائع میں تیار کی جاسکیں، مارکیٹ میں اپنا مقام پیدا کریں گی۔ شرط یہ ہے کہ اس مواد میں تعلیمی نفسیات اور نصابی کتب کے مطالبات کو فنی مہارت کے ساتھ استعمال کیا جائے ۔ یہ کام جہاں حکومتی دائرے میں کرنا ضروری ہے، وہیں کسی حکومتی اختیار کے بغیربھی ہو سکتا ہے اور کامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔

ایسے ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ضروریات کے پیش نظر ایسے مواد کی تیاری جو اخلاق،  سیرتِ پاک ، قرآنی تعلیمات اور فنی معلومات کو یکجا کرتا ہو ، آج کی بنیادی کی ضرورت ہے ۔ دینی فہم، دینی تعلق اور دینی جذبات کا پیدا کرنا تحریک کی بنیادی ذمہ داری ہے ۔ یہ کام محض بیانات اور تبدیلی کے نعروں سے نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے قابلِ محسوس اعلیٰ فنی معیار کے مواد کی ضرور ت ہے ، جس کی برتری کا اعتراف مخالفین کو بھی کرنا پڑے۔

اس غلامی سے نکلنے کے لیےچند اہم اقدامات ضروری ہیں ۔ اولاً: مغربی فکر سے واقفیت کے ساتھ اس کا تنقیدی جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح کا کام مولانا مودودی نے تنقیحات، تفہیمات، رسائل و مسائل  اور دیگر تحریرات میں کیا ہے تاکہ اس زہر کو سمجھا جاسکے۔ دو سو سال اور خصوصاً ۷۵سالہ پاکستانی دور میں ہردرس گاہ میں یہ زہر پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اس غرض سے مولانا مودودی کی ان تمام تحریرات کو بغور کئی کئی بارپڑھنے اور ان سے قابلِ عمل نکات اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔

 مولانا مودودی کے علاوہ بھی دیگر اہل فکر کی تحریرات کو زیربحث لا کر نہ صرف استعماریت کے اثرات کو کم کرنے (decolonization )بلکہ اسلامی اخلاقی اصولوں کو تعلیم و تربیت کے نظام اور نصاب میں سمونے اور مختلف علوم کی تدوینِ جدید کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ کام کسی کمیٹی کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس میں ماہرین تعلیم جو تحریکی شعور اور براہِ راست قرآن و سنت اور مسلمانوں کی تاریخ سے آگاہی رکھتے ہوں، ان کی ہمہ وقت شرکت ضروری ہو گی۔ اس کام کوواضح نقشۂ کار اور وقت کے تعین کے ساتھ کرنا ہو گا، تاکہ مقررہ مدت میں نتائج سامنے آسکیں ۔ یہ کام بغیر کسی بڑے مالی بوجھ کے ہو سکتا ہے۔پروفیسر سیّد محمد سلیم مرحوم نے بغیر ماہرین کی کسی ٹیم کے، بہت سے علمی کام کیے۔ یہ کام آج بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام طویل عرصہ سے مؤخر ہوتا چلا آرہا ہے ۔ اب اس کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔اس قابلِ عمل کام کے لیے قوتِ فیصلہ، ارادے کی پختگی، اجتماعی مشاورت اور آغاز کی ضرورت ہے۔

دین اور دنیا میں تفریق

تیسرا اہم سبب جو دوسرے سبب سے وابستہ ہے دین اور دنیا میں تفریق کا بیرونی اور غیراسلوبی تصور ہے ، جسے دینی اور غیر دینی دونوں طبقات میں بااثر افراد نے نہ صرف قبول کر لیا بلکہ اس کی بنیاد پر زندگی کو دوخانوں میں تقسیم کر دیا۔ چنانچہ عبادات کا اہتمام اللہ تعالیٰ کا حق قرار پایا اور سیاست، تعلیم ، معاشرت، ثقافت وغیرہ میں مرغ بادِنما کی طرح زمانے کی ہوا کے ساتھ چلنے کا طرزِعمل اختیار کیا گیا۔

 اس ذہنی پس منظر میں دنیا کو ترجیح دینا اور دین کو محض مذہبی رسومات یا تہواروں تک محدود کر نا ایک فطری عمل تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ رسمی مذہبیت ہی کو اسلام سمجھ بیٹھا۔ قرآن و سنت سے لاعلمی اور پیری مریدی کے ذریعے نجات حاصل کرنا، جاہل عوام کا نہیں مغربی تعلیم یافتہ اور مغرب پلٹ دانش وروں کابھی مسلک بن گیا۔خود دینی فکر کے حامل طبقات بھی اس دورُخی کو عملاً اختیار کرنے کے سبب زندگی کے دوخانوں پر اظہارِ خیال کرتے رہے اور چند علما اور اہل فکر کو چھوڑ کر دین داری اور دنیاداری دونوں کی آمیزش کو اچھی ’مسلمانیت‘ سمجھ لیا گیا۔

ان حالات میں سیّدابوالاعلیٰ مودودی نے براہ راست قرآن و سنت پر مبنی تصورِ دین کو متعارف کرانے کا فریضہ سرانجام دیا اور ان کے انقلابی لٹریچر نے مسلم دُنیا ہی نہیں پوری عالمی سطح پر اسلام کے ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے اور مسلم اُمت کے مقصد وجود کو اقامت دین، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا میدانِ عمل مقرر فرمایا، جس کی بازگشت ساری دُنیا میں سنی جاسکتی ہے۔ اسی طرح علامہ محمد اقبال نے توحید کی وضاحت کرتے ہوئے دین کی ہمہ گیریت اور دین و سیاست کی تفریق کو اپنے شعر اور خطبات کے ذریعے مغربی تعلیم یافتہ افراد تک پہنچایا۔  اور ’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘ کی آواز بلند کی۔

آج پہلے سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کی طرح تجدید ِفکر کے کام کو بنیادی اہمیت دی جائے اور چار سطح پر دین کی بنیادی تعلیمات کو متعارف کروایا جائے ۔ اول: لادینیت اور دہریت پر اعلیٰ تنقیدی ، غیر معذرت پسندانہ انداز میں انگریزی اور اردو میں سلسلۂ مضامین کو پڑھے لکھے افراد تک پہنچایا جائے ۔ دوم: دین کے جامع تصور کے پیش نظر ابلاغ عامہ اور سوشل میڈیا پر اسلام اور لادینیت اور دہریت پر علمی تبادلۂ خیال کے لیے ہر ماہ دونشستیں منعقد کی جائیں ۔ اس نوع کی نشستوں میں شرکا بھر پور تیاری کے ساتھ شریک ہوں، نیز ایسی نشستوںمیں موضوعات کے ایسے ایک یا دو ماہرین کو شامل کیا جائے جو ان موضوعات پر مہارت رکھتے ہوں اور علمی حلقوں میں پہچانے جاتے ہوں ۔

اس علمی سلسلے کو بہترین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا جائے، اور اس عمل میں تحریک اسلامی سے باہر کے ایسے افراد کو بھی شامل کیا جائے جو موضوع سے مناسبت رکھتے ہوں ۔ اس عمل کو بہ تدریج آگے بڑھانے سے تحریک کے اندر اور باہر سے اہم علمی موضوعات پر مضبوط اور یکساں آواز بلند کرنے میں مدد ملے گی ۔ثالثاً: تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے لیے منصوبہ بندی کے تحت ماہانہ مطالعاتی حلقے (Study Circles) منعقد کیے جائیں جن میں نہ صرف مولانا مودودی بلکہ دیگر علما اور مغرب کے معروف نمایندہ افراد کی فکر کو براہ راست مطالعہ میں لایا جاسکے ۔ اس مشق سے نوجوانوں میں عصری موضوعات کو سمجھنے اور مولانا مودودی کی پیش کردہ اسلامی فکر کی روشنی میں جدید نظریات کے محاکمے اور علمی دانش میں اضافہ اور گفتگو کی صلاحیت پروان چڑھ سکے گی۔ 

ان خطوط پر تعمیر سیرت و کردار کے ذریعے ایک نئی باشعور مسلمان نسل کو دورِ جدید کے دہریت، الحاد اور لادینیت کی یلغار کا مثبت طور پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔ یہ کام اسلام کے قرآنی اور سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی تصور کی روشنی میں قابلِ فہم ابلاغ کے ذریعے انجام پائے گا۔

اہل علم کی ذمہ داری

قرآنِ کریم اہلِ علم اور لاعلم افراد میں نمایاں فرق کرتا ہے اور حصولِ علم کو تفہیم دین کے لیے ایک اہم فریضہ قرار دیتا ہے ۔ پہلی وحی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ پڑھنا اور قلم کا استعمال کرنا دعوت دین و تفہیم دین کا زینہ ہے :

الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝۵ۭ (العلق۹۶:۴-۵)جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا،انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔

اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے انسان کو وہ علم دیا جس سے وہ پہلے آگاہ نہ تھا تاکہ وہ اس علم کو   قول و عمل دونوں ذرائع سے دوسروں تک پہنچا سکے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل تمام انبیا ـؑ کے مبعوث کیے جانے کے مقاصد میں تعلیم ، تذکیر ، تزکیہ کو بنیادی مقام دیا گیا ہے۔ اور یہ امر بھی نبوت کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ دین سربلند ہو اور بالآخر غالب ہوکر رہے:

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۚ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝۱۶۴  ( اٰل عمرٰن۳:۱۶۴) درحقیقت اہل ایمان پر تو اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان خود انھی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا جو اُس کی آیات انھیں سناتا ہے، اُن کی زندگیوں کا تزکیہ کرتا ہے (سنوارتا ہے)اور ان کو کتاب اور دانائی (حکمت) کی تعلیم دیتا ہے، حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

ہر صاحب ِایمان کو بلا تفریق جنس اور عمر یہ دعا سکھائی گئی تاکہ ان میں اللہ کی خشیت میں اضافہ ہو ، گویا علم اللہ کی خشیت پیدا کرتا ہے:

 اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ۝۲۸ (الفاطر ۳۵:۲۸) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں۔ بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے۔

اہل علم سے سوالات کے ذریعے دین کا علم حاصل کرنا ایمان کی صفت قرار دیا گیا:

فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۝۴۳ (النحل ۱۶:۴۳)سو، اگر تمھیں معلوم نہیں تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔

اس حوالے سے جامعات میں نہ صرف معاشرتی علوم بلکہ اطلاقی علوم کے اُن ماہرین کو تلاش کیا جائے، جو تحریک سے وابستگی نہ ہونے کے باوجود اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، نیز بنیادی اخلاق پر عمل پیرا ہوں ۔ ایسے افراد ہر جگہ موجود ہیں۔ صرف ان تک رسائی اور انھیں تحریک دے کر ایک علمی تربیتی ماحول سے وابستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ افراد جامعات میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی ، اساتذہ کے احترام میں کمی ، علم کو محض مالی فائدہ کے لیے استعمال کرنے اور مغرب سے مرعوبیت کے رجحانات کو اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے ذریعے مثبت طور پر غالب کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ یہ کام تحریک سے وابستہ افراد سب سے بہتر کرسکتے ہیں۔ مسئلہ صرف ترجیحات کی درستی کا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کام کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے مولانا مودودی نے تطہیر افکار اور تعمیر سیرت کو اولیت دی۔ اس کے ساتھ اسلامی فکر اور احکام کے ذریعے معاشرے میں امن و انصاف کے نظام کے قیام کا حکم دیا گیا ہے (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج  الحدید ۵۷:۲۵)۔ تحریک میں جب تک ان امور کو ترجیح نہیں دی جائے گی ، اس وقت تک تعلیم و تحقیق کے متحرک ادارے وجود میں نہیں آسکیں گے اور اسلامی بنیادوں پر تبدیلی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔

اجتماعی تحریکی ذمہ داری

 نہ صرف اہل علم بلکہ ہر مسلمان پر بلا تفریق جنس اور عمر اور خصوصاً ان باشعور افراد پر جو دین کی بنیاد پر اپنے آپ کو ایک تحریک سے وابستہ کریں، یہ فریضہ عائد کر دیا گیا کہ وہ شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ      بن کر اپنے عمل اور علم کے ذریعے اسلام کی عالم گیر تعلیمات کے نفاذ کےلیے استقامت کے ساتھ ہرممکنہ ذریعے سے جدوجہد کریں :

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَہِيْدًا۝۰ۭ (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔

اس فریضہ کو مزید وضاحت سے اس گروہِ اہل ایمان کے سپرد کر دیا گیا جو اعلائے کلمۃ الحق کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہو :

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴  (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴) تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جولوگ یہ کام کریں گے ، وہی فلاح پائیں گے۔

اتنی واضح ہدایات کے بعد اگر معاشرے میں دین کی بنیادی تعلیمات و عقائد سے لاعلمی پائی جائے،تو اس کی بڑی ذمہ داری اس گروہ پر ہے جو دین کی بنیاد پر منظم ہوا ہو ۔ گویا دین کی تفہیم اور بنیادی عقائد توحید ، رسالت اور آخرت سے آگاہی کے ساتھ اپنے معاملات کو کھرا ، سچا اور اپنی دعوتِ حق کا نمایندہ بنا کر ہی کوئی اسلامی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے۔ تحریک سے وابستہ افرادکو توازن ، نرم گفتاری اور مخالفین کے لیے بھی عدل و انصاف کے رویوں کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ قرآن تقاضا کرتا ہے کہ ہم ذات برادری ،شخصیات ،نسلی ، لسانی ، تنظیمی ، سیاسی تعصبات سے بالا تر ہوکر ہر طرح کے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف حکمت اور جرأت کے ساتھ آواز بلند کریں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚۚ (النساء۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو ، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔

 یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ زبان سے ظلم ، جبر اور ناانصافی کے خلاف دعوے کرنا اور عملاً معاشرے میں رونما ہونے والے مختلف سماجی و سیاسی ظلم اور ناانصافی کے واقعات پر خاموشی اختیار کرنا، قول و فعل کے تضاد کے مترداف ہے :

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۲ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۝۳ (الصف ۶۱:۲-۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

قرآن کریم نے ایک ایسی جماعت کی ضرورت پر زور دیا ہے جو قول و فعل میں یکساں ہواور مسلسل دعوت و اصلاح کا جامع کام کرے ۔ وہ جماعت قرآنی حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی بجاآوری کے لیے مسلسل متحرک ہو اور منظم انداز میں حکمت اور تدبر کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھائے۔

تحریک اسلامی اس فریضے کی ادائیگی کے لیے کسی اور گروہ کے مقابلے میں زیادہ جواب دہ ہے۔غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا تحریک آج کے دور کی زبان میں نوجوان نسل کے لیے دین یعنی قرآن و سنت کے پیغام اور اس کی تفہیم کے کام کو ترجیحی بنیاد پر کر رہی ہے؟ اگر وہ معاشرتی اصلاح ، معاشی اصلاح ، اور اداروں کی اصلاح چاہتی ہے، تو کیا ترجیحات میں سب سے اول ترجیح دعوت الی اللہ ہے یا بعض عصری مطالبات اسے مشغول رکھے ہوئے ہیں؟جس کے منفی اثرات بنیادی دعوتی کام پر پڑ رہے ہیں۔

دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی جدو جہد

 ایک مسلم ملک میں جس کا دستور اس کی عدلیہ ، مقننہ ، ریاست اور تعلیمی اداروں کو اس بات کا پابند کرتا ہو کہ وہ اپنے عوام کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ کرے، ملک میں قرآن و سنت کے نظام معیشت ، معاشرت ، صحافت ، ابلاغ عامہ، تعلیم ، عدلیہ غرض ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات کو نافذ کرے۔ دیکھنا ہوگا کہ دستور کی اس شق پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں___ اگر نہیں تو اس کے لیے  کون سے دیگر دستوری ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے؟ جمہوری روایات پر عمل کرتے ہوئے ریاست ملک کی ۹۷ فی صد مسلم آبادی کی دستوری ضرورت کو پورا کر رہی ہے یا ۳ فی صد اقلیتی آبادی کی خوشنودی کے لیے ۹۷ فی صد اکثریت کےقرآن و سنت سے آگاہی کے حق کو نظرانداز کیا جارہا ہے؟

چار سالہ ڈگری پروگرام میں سرکاری تعلیمی اداروں میں محض دو کریڈٹ گھنٹے یعنی ہفتہ میں ایک مرتبہ یا اس سے بھی کم ’اسلامیات‘کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اس کے مقابلے میں معاشرتی علوم یا دیگر تجرباتی علوم جن کی بنیاد میں لادینی فکر موجود ہے، وہ ۱۲۵ تا ۱۳۰ تعلیمی گھنٹوں میں روزانہ کی بنیاد پر پڑھائے جارہے ہیں، کیا اس طرح ریاست نوجوان نسل کو قرآنی پیغام سے آگاہی کی دستوری ذمہ داری سے سبک دوش ہو سکتی ہے؟ اور کیا تحریک سے وابستہ افراد بھی اس کا احساس رکھتے ہیں اور اس پر کیا اقدامات کر رہے ہیں؟

قرآن کریم اسلامی ریاست کو ( جو دستوری طور پر پاکستان ہے) اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اسلام کے معاشی نظام (زکوٰۃ) اور نظام عبادات (صلوٰۃ) کو حکومتی اختیارات کے ذریعے نافذ کرے ۔ کیا اس آئینی و دستوری تقاضے کی تکمیل کے لیے ہم ریاست کو اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی طرف مسلسل متوجہ کر رہے ہیں؟ آئین کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور جدید تعلیم یافتہ دینی طور پر باشعور اور متحرک افراد کے ساتھ مسلسل مشاورت اور مکالمہ کے عمل کے ذریعے دستور کی اسلامی دفعات پر عمل درآمد کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۝۰ۭ وَلِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۝۴۱ (الحج ۲۲:۴۱)یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز (کا نظام) قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے (حلال معیشت کے قیام کے ذریعے)، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

یہاں قرآن کریم نے یہ بات دوٹوک انداز میں واضح کر دی ہے کہ اہل ایمان میں سے جس گروہ کو بھی زمین میں اقتدار دیا جائے، تو وہ نہ صرف اسلام کے نظام عبادات ( نماز اور زکوٰۃ کے نظام کا قیام) پر اس کی روح کے مطابق عامل ہوگا بلکہ معاشرے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے بھلائی ، پاکیزگی ، حیا کی اشاعت و قیام اور بے حیائی، عریانی و فحاشی، بدگوئی ، جھوٹ ، الزام تراشی ، منکر اور برائی کے تمام مظاہر کو حکومتی اور اداراتی اختیارات کے ذریعے  ختم کرے گا ۔ دوسری جانب محض ریاستی اور اجتماعی ہی نہیں بلکہ انفرادی سطح پر ہر فرد اپنے گھر کا سربراہ ہے اور اہل خانہ کے امور کانگران ہے ۔ علاوہ ازیں جو فرد کسی ادارے ، دفتر یا کسی بھی سطح کا ذمہ دار ہے، تو اس کی ذمہ داری بھی ایسی ہی ہے جیسا کہ حکومت عوام کے معاملات کی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح وہ فرد بھی اپنے گھر ، دفتر ، ادارہ و دیگر کے بارے میں اللہ ربّ العزت کے سامنے جواب دہ ہے۔  اسی بات کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔ چنانچہ امیر ذمہ دار ہے، مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر ذمہ دار ہے۔ اس طرح تم میں سے ہرشخص نگران ہے اور اس سے اس کے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(صحيح ، متفق علیہ)

اس غرض کے لیے ایک طویل المیعاد اور قلیل المیعاد حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر کام کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جو ذرائع موجود ہیں ان کا استعمال کیا جائے ۔

 یہ وہ بنیادی کام ہیں جن کو ذمہ داری سے ادا کیے بغیر ہم الحاد ، مادیت ، لادینیت اور دین و دنیا میں تفریق سے غیر توحیدی تصور کی اصلاح نہیں کر سکتے ۔یہ وہ فریضہ ہے جسے اقامت دین اور کلمۂ حق کے قیام کے عنوان سےقرآن کریم نے پکارا ہے اور جس کی ادائیگی کے لیے ’خیراُمت ‘ کو پیدا کیا ہے۔

 ہمیں جو ’امت وسط‘ بنایا گیا ہے ، اس کی وجہ ہماری نسل ، رنگ ، زبان نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ہماری ذمہ داری دعوتِ دین اور اقامت ِ دین کے باب میں ہے۔ اس غرض کے لیے ہرکلمہ گو کو آگے بڑھ کر عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم، معیشت ، سیاست ، ثقافت ، ابلاغِ عامہ، ہر شعبۂ زندگی کی ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں علم کی تدوینِ جدید اور بغیر دُنیاوی معاوضے کے، ایک صالح نظام معاشرت ، معیشت و سیاست کے قیام کے لیے افرادِکار کی تیاری کو ترجیحی بنیاد پر کرنا ہو گا۔ نوجوان ہمارا اصل اثاثہ ہیں ۔ اگر یہ کام کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ۱۰فی صد افراد جو دینی تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کے سبب الحاد کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ افراد بھی جو دین کی لاعلمی کا شکار ہیں، انھیں قرآن پاک اور سیرت نبویؐ کے زیر سایہ لا کر پاکستان کے فعال ، تعمیری اور متحرک افراد میں تبدیل نہ کیا جاسکے ۔ اللہ ہمیں اقامت دین کی اس عظیم ذمہ داری کو احسن انداز میں سمجھ کر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی قوم اور خصوصیت سے موجودہ قیادت کو قطعاً احساس نہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کے قیام کی جدوجہد میں لاکھوں انسانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور بڑے نامساعد حالات میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒکی بصیرت اور عوام کی جدوجہد کے نتیجے میں یہ ملک قائم ہوا جوہمارے ہاتھوں میں امانت ہے۔ یہ ہمارا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے۔

مَیں نے ۴دسمبر ۱۹۴۷ء کو اپنی آنکھوں سے قرول باغ، دہلی میں اپنے گھر کو بلوائیوں کے ہاتھوں لُٹتے دیکھا ہے۔ مجھ پر اور میرے خاندان پر ایک رات ایسی بھی گزری ہے کہ جان بچانے کے لیے پانچ جگہیں تبدیل کرنا پڑیں۔ انسانوں کی جلتی ہوئی لاشوں کی بُو سونگھی ہے۔ایک مہینہ مہاجرین کے کیمپ قلعہ شیرشاہ میںزمین پر، دریوں پر زندگی گزاری ہے۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ ہرسطح پر کارفرما موجودہ قیادت   کس غفلت ، فکری انحطاط، بے فکرے پن، اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے مسائل کو یکسرنظرانداز کر رہی ہے اور ملک مسائل اور بحرانوں کی دلدل میں دھنس رہا ہے۔ ان حالات میں اجتماعی زندگی کے پانچ اہم پہلوئوں کے بارے میں اس مضمون میں ڈاکٹر انیس احمد نے بنیادی نقشۂ کار کی طرف متوجہ کیا ہے، جس پر عمل کرکے بحران سے نکلنے کا سامان فراہم ہوسکتا ہے۔مدیر]

ملک عزیز کے ۷۰سالہ اُتار چڑھاؤ کی تاریخ پر اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ایک غیرجانب دار مبصر یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ کہ ملک کی بار بار آزمائی ہوئی سیاسی جماعتیں    ملّی مفاد کی جگہ انتخابی سیاست کی شطرنجی بساط کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہیں۔ آج ملک جس سیاسی ، معاشی، دفاعی اور سب سے زیادہ اخلاقی بحران کا شکار ہے، وہ ان کی ا نتخابی سیاست کا ایک منطقی نتیجہ ہے۔ہر وہ جماعت جو کسی اتحاد کی بنا پر یا کسی حوالے سے اپنی اکثریت کی بنا پر برسرِ اقتدار آئی، اس نے یہی سمجھا کہ اب نہ صرف سیاست بلکہ پوری ریاست بھی صرف اس کی میراث ہونی چاہیے۔ اس کی مثال ان دوسگے لیکن خود غرض بھائیوں کی طرح ہے، جو زمین کی تقسیم پر ایک دوسرے کی کردار کشی ، الزام تراشی اور اتہام بازی سے دریغ نہیں کرتے۔ یہ وہ گھنائونی حرکت ہے جسے قرآن کریم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملت کے وجود کے کے لیےزہر قاتل قرار دیا ہے۔   افسوس ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں پوری تندہی کے ساتھ یہ کام کرنے میں مصروف ہیں اورقوم کے مستقبل سے بے نیاز ہوکر ملک کو تباہی کی طرف لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ آج جو ہنگامی سیاست کی فضا ملک میں قائم ہے اور ہر فریق دوسرے کی ذات، عزّت، شخصیت اور وقار کو نشانہ بنارہا ہے، اس کے نتیجے میں انتشار اور توڑ پھوڑ کے لیے کسی بیرونی دشمن کے حملے کی ضرورت باقی نہیں رہی ۔

اس نازک صورتِ حال میں بلاتاخیر ذاتی اور اجتماعی احتساب کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ، رب کریم کے حضور استغفار اور اجتماعی توبہ اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ حالات میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقۂ خیال کے افراد یکسو اور یکجا ہو کر پانچ اہم اُمور کے لیے صف بستہ ہوجائیں، جس میں ابلاغ عامہ اپنی سنسنی خیزیت کو ملتوی کرتے ہوئے ملک و ملت کو ایک تعمیری راستے کی طرف لانے کی کوشش میں تعاون کرے :

  • پہلا اہم امر ملک کے دستور کی روشنی میں ملک و ملت کی نظریاتی اساس کا تحفظ ہے ۔ قائداعظم ؒنے پاکستان کا مقصدِ وجود ’اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ‘ کو قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر یہ ملک نہ بنا تو یہ سانحہ اسلام اور مسلمانوں دونوں کے لیے تباہ کن ہو گا۔ موجودہ صورتِ حال میں جس طرح مسائل کو گڈ مڈ کر کے افواہوں کا بازار گرم کیا جارہا ہے، یوں دوسرے لفظوں میں یہ منفی پیغام دیا جارہا ہے کہ سیاسی آزادی نے نہ ہمیں معاشی استحکام دیا، نہ سیاسی قوت ۔ اس لیے گویا قائد اعظمؒ کا ملک کو الگ سے وجود میں لانا ہی درست نہ تھا، اورمسلمان ہندو اکثریت کے غلام رہ کر شاید زیادہ بہتر زندگی بسر کرتے! اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی دُہرائی جا رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ گویا سارا قصور یا تو قائد اعظمؒ کا ہے یا پھر دستور کا، اور ۷۰ سال سے اقتدار پر قابض رہنے والی جماعتیں اور ان کے معروف ذاتی مفاد پرست سربراہ تو بے چارے معصوم اور بے گناہ ہیں اور کسی برائی کے مرتکب نہیں ہیں ۔

اس تناظر میں ملک و ملت کو دستور پاکستان کی حرمت و تحفظ کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ دستور ملکی اتحاد، نظریاتی تحفظ اور جمہوری روایات کا امین ہے ۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ہماری کمزوری دستور نہیں ہے بلکہ دستور سے مذاق و انحراف کرنے والے افراد اور ادارے ہیں ۔اس خرابی کی ذمہ داری کسی دوسرے پر منتقل کرنے سے یہ صداقت تبدیل نہیں ہو سکتی ۔

  • دوسری اہم ضرورت عقل و شعور کے راستے کو اختیار کرنا اور اپنی اَنا یا اپنی بات پر اصرار اور ضد، ہٹ دھرمی اور ملکی اداروں کے ناجائز استحصال کے ذریعے سے اپنی بات منوانے کی جگہ مشاورت ، گفتگو ، مکالمہ ، تبادلۂ خیالات یا شورائی فکر کو اختیار کرنا ہے ۔ شوریٰ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی مسئلے کے مثبت ، منفی ، اچھے بُرے پہلوؤں پر ہرزاویے سے غور کیا جائے اور پھر پارٹی یا ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر اجتماعی ملّی مفاد کو ملحو ظ رکھتے ہوئے آئین کی روشنی میں اتفاق رائے حاصل کیا جائے کہ اسی اتفاق رائے میں برکت ہے۔ اس کے برعکس ہر ایک کا اپنی اپنی ڈفلی بجانا نقارخانے میں شور و غل اور ہنگامہ تو پیدا کرسکتا ہے لیکن اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
  • تیسرا اہم قومی کام عدلیہ کی مکمل آزادی اور اسے دستور کا محافظ اور شارح تسلیم کیا جانا اور عدلیہ کا عملاً اس کردار کوپوری ذمہ داری اور دستور کی متعین کردہ حدود میں ادا کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی خاص موقعے پر بعض ایسےا فراد عدلیہ میں ہوں جو انسانی کمزوری کی بنا پر کوئی غلط فیصلہ کر دیں،اور ایسا ہونا بعید از امکان نہیں ہے، مگر اس کے باوجود عدلیہ کا وقار، معروضیت اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہونا اور آزاد رہنا، نہ صرف دستور کی روح ہے بلکہ ملکی سالمیت کے لیے شرطِ اوّل ہے۔ ہر اس رویے سے بچنے کی ضرورت ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی ، احترام اور کردار کو نقصان پہنچتا ہو۔
  • چوتھا اہم کام اس پورے عمل میں دفاعی اداروں کا ملک کے دفاع کو اوّلیت دینا اور ملکی سیاست میں کسی جانب داری کا اختیار نہ کرنا ہے۔ جس طرح عدل کے بغیر ملک میں امن نہیں ہو سکتا، ایسے ہی جب تک دفاعی ادارے غیر جانب دارنہ ہوں، ملک میں امن و سکون نہیں ہو سکتا اور ان پرعوام کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا ۔

موجودہ صورت حال میں ایک پھل فروش سے لے کر کالج کے ایک طالب علم اور کسان تک یہ یقین رکھتا ہے کہ اداروں کے دائرہ کار اور حدود پر عمل کرنے میں توازن کافقدان ہے۔ خاص طور پر الیکشن کمیشن بظاہر اپنی دستوری ذمہ داری ادا کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہا۔ کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں مشکوک انتخابی عمل اور حکمران سیاسی جماعت کو کامیاب بنانے کے لیے کی جانے والی انتخابی بے ضابطگیوں نے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا ہےاوراس ادارے کی غیر جانب داری کو مشتبہ نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن اور پارلیمان کے نمایندوں نے قوم کےا عتماد کو نقصان پہنچایا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستوری اداروں پر قوم کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں ۔

  • پانچواں اہم معاملہ انتخابات کا وقت پر ہونا ہے۔قوم اس وقت جس جذباتی تقسیم اور تضاد بلکہ ٹکراؤ کے راستے کی طرف جا رہی ہے،اس سے بچاؤ کے لیے انتخابات کا وقت پر اور غیرجانب داری کے ساتھ کیا جانا ایک لازمی ضرورت ہے ۔ اپنی تما م تر کمزوریوں کے باوجود، اس قوم میں بھلائی اور برائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اگر انتخابات کے ذریعے کوئی ملک مخالف عناصر اقتدار میں آنا چاہیں، تو یہ قوم ابھی اتنی اندھی نہیں ہے کہ انھیں اپنے اُوپر مسلط کر لے۔ اصل چیز جمہوری انتخابی عمل کا بلا انقطاع جاری رہنا ہے ۔ یہ ایک فطری عمل ہے اور یہ حق و باطل میں تمیز کو جلد یا بدیر واضح کر دیتا ہے ۔

ملک کے ایک حصے میں لسانیت اور علاقائیت کو مسلسل فروغ دیا جا تا رہا ہے، لیکن ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے شہر میں جب تحریک اسلامی نے صحیح حکمت عملی اور زمینی حقائق کی روشنی میں دعوت کو اختیار کیا، تو اس شہرکے عوام نے عصبیتوں کو رَد کر کے تحریک پر اعتماد کا اظہار اپنے ووٹ سے کیا ۔ یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں اگر قوم کو صیحح حکمت عملی سے متوجہ کیا جائے، تو وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنا جانتی ہے اور انتخابات میں اپنا حق اعتماد سے استعمال کرسکتی ہے۔

کرنے کا کام

ایک ایسے سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے جو ملک کے معاشی، سیاسی اور اخلاقی انتشار کو دُور کرنے کے لیے ان اقدامات پر مبنی ہو جو قابل عمل ہوں ، متعین ہوں، عمومی نوعیت کے نہ ہو ں بلکہ مقرر اہداف کی شکل میں ہوں۔ مروجہ سیاسی زبان میں دوسری جماعتوں پر الزام تراشی اورا نھیں بدعنوانی کا ذمہ دار ٹھیرا کر مخالفت برائے مخالفت کی جاتی ہے ، اس کی جگہ دعوتی اور اصلاحی زبان میں شائستگی سے اختلاف کی روایت کو فروغ دیا جائے ۔ اہل اور ایمان دار افراد کو تلاش کیا جائے اور ایک قابلِ عمل معاشی ترقی کے پروگرام کو عزم و ہمت اور نوجوان نسل سے تعلق رکھنے والے افراد کے ذریعے بنیاد بنایا جائے۔ ملک کے سیاسی منظرنامے میں متحرک نوجوان قیادت میں باصلاحیت افراد کی کمی نہیں ہے اور وہ زیادہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ایسے نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے جو ۳۰ تا ۳۵ سالہ عمر کے ہوں اور قیادت کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ معاشرتی فلاحی کاموں میں شریک ہوں، جیسے الخدمت فائونڈیشن کام کر رہی ہے۔

گذشتہ دو عشروں میں قوم بہت تیزی کے ساتھ اخلاقی زوال کا شکار ہوئی ہے۔ سیاسی، معاشرتی، حتیٰ کہ مسلکی زبان میں بھی شائستگی کی جگہ بد تہذیبی کو عام کیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ملک کے تعلیم یافتہ افراد مایوسی اور لاتعلقی کا شکار ہوئے ہیں اور انھیں مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی مسیحا کی شدت سے تلاش ہے ۔ مسائل کے گھنے بادلوں میں وہ امید کی کوئی کرن دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس معاشرتی نااُمیدی کو دُور کرنے کے لیے تحریک اسلامی ایک مثبت اور تعمیری سمت فراہم کر سکتی ہے، اور اپنے عام فہم اور قابل عمل معاشی ، سیاسی اور اخلاقی حل کے ذریعے تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کا منشور جو حال ہی میں جاری کیا گیا ہے، ایک قیمتی رہنما دستاویز ہے۔

 اس صورتِ حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دین کے فلاحی کردار کو اجاگر کیا جائے اور حقوق العباد کے کاموں میں الخدمت کی طرح زیادہ سے زیادہ سرگرمی کی طرف توجہ دی جائے، لیکن اس نیت کے ساتھ کہ ہم اس کا اجر صرف اللہ سے چاہتے ہیں ۔ اگر نیت درست ہوگی تو وہ جو دلوں کے حال سے آگاہ ہے، اپنے بندوں سے (جو نماز اور زکوٰۃ اور جہاد فی سبیل اللہ پر عامل ہوں)  وعدہ فرماتاہے کہ انھیں میراث میں جنت دی جائے گی ۔ گویا اصل کامیابی پارلیمنٹ کی کرسی نہیں بلکہ جنت کا حصول ہے ۔اس دنیا کی ساری کوششوں کا محور و مرکز دنیا کی شان وشوکت نہیں ہو نا چاہیے بلکہ آخرت ہونا چاہیے، ہاں اگر وہ جو ہر شے کا مالک ہے، اپنے بندوں کے خلوص سے خوش ہو کر انھیں یہاں بھی میراث میں سے کچھ دے دے تو یہ اس کا خاص فضل و کرم ہے۔

اقامت دین کی جدوجہد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس سرزمین کے عطیے کو جو اس نے اپنے دین کے قیام و فروغ کے لیے دیا ہے، اس کی سالمیت ا ور یہاں پر دستور کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی، عوام کو درپیش معاشی اور اخلاقی مسائل کا ایک قابل عمل حل پیش کرنا اور اس کے لیے عوام کو منظم اور متحرک کرنا تحریک اسلامی کی خصوصی ذمہ داری ہے۔تحریک اسلامی اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے کہ اس نے ملک کی سالمیت اور مظلوم عوام کے مسائل کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟ا صل جواب دہی اس دنیا کی پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ مالک کائنات کے حضور پیشی کے وقت ہے۔ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی اور اس کے ہر کارکن کو اس بڑی پیشی میں سرفراز فرمائے،آمین!

اس سلسلے میں علما، والدین، میڈیا اور سوشل میڈیا کو بھی خصوصی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے ہر طبقے اور ہرحصے میں وقت کی ضرورت کے مطابق دعوت اور اصلاح کے کام کو منظم اور متحرک کیا جاسکے۔

قرآن کریم نے انتہائی مختصر اور جامع انداز میں رمضان کے روزوں کا بنیادی مقصد صرف ایک ترکیب میں بیان کر دیا ہے یعنی ’حصولِ تقویٰ‘۔ اس کے ساتھ ہی جو ترکیب استعمال کئی گئی ہے، وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ روزوں کےاہتمام کے بعد بھی تقویٰ کا حصول متوقع تو ہے لازمی نہیں ہے۔یعنی جب تک تقویٰ کے حاصل کرنے میں خلوصِ نیت، رضائے الٰہی اور ہر اس کام سے شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں ہوگی جو رب کریم کو ناپسند ہے، روزوں اور تمام رات کی نماز کے باوجود روزہ کا مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ اسی لیے فرمایا گیا:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ (البقرہ۲:۱۸۳)اےلوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑکے پیروکاروں(اُمتوں ) پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی ۔

تقویٰ کا مادہ’وقایہ ‘ہے جس کا مفہوم لغت میں اپنے آپ کو روکے رکھنے، بچانے اور بعض چیزوں سے احتیاط کرنے کا ہے ۔ ہم عام طور پر تقویٰ کو اس طرح لیتے ہیں کہ محض چند کاموں سے بچنا چاہیے۔ یہ اگرچہ اپنی جگہ درست ہے لیکن اگر تقویٰ کے مفہوم کو خود قرآن کریم میں تلاش کیا جائے تو سورۂ بقرہ ہی میں اس کی تعریف مل جاتی ہے جو تقویٰ اور صدق کو کم از کم ۱۴ متعین اعمال سے وابستہ کرتی ہے اور ان میں محدود نہیں کردیتی:

 لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ۝۰ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّہٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ۝۰ۙ وَالسَّاۗىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ۝۰ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَى الزَّكٰوۃَ۝۰ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰھَدُوْا۝۰ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ۝۱۷۷ (البقرہ ۲:۱۷۷)

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔

یہ آیت البر تقویٰ کی جامع تعریف یہ بیان کرتی ہے کہ جب ایک صاحب ِایمان مرد ہو یا عورت ، جوان ہو یا بزرگ، ان چودہ اعمال کو اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے ایمانِ صادق اور تقویٰ پر عامل ہونے کو ظاہر کرتا ہے ۔ آیت میں ترتیب سے حسب ذیل چودہ اعمالِ تقویٰ بیان کیے گئے ہیں: 

۱- توحید یعنی ایمان باللہ ۲-آخرت پر ایمان۳- ملائکہ پر ایمان۴-نازل کردہ کتابوں پر ایمان۵-انبیا ؑپر ایمان ۶-اپنا پسندیدہ مال اقربا پر خرچ کرنا ۷-یتامٰی پر خرچ کرنا۸-مساکین کی خبر گیری ۹-مسافروںکی امداد ۱۰- ہاتھ پھیلانے والوں کی ضرورت پوری کرنا ۱۱-غلاموں کی رہائی پر خرچ کرنا۱۲-زکوٰۃ ادا کرنے پر خرچ ۱۳-اپنے وعدوں کو پورا کرنا ۱۴-تنگی اور مصیبت میں اور حق و باطل کے معرکہ میں استقامت اورتحمل اختیار کرنا ۔

گویا رمضان کے روزے جس تقویٰ کو پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ محض بعض اعمال و افعال یعنی چیزوں سے بچنا اور احتیاط کرنا نہیں ہے بلکہ یہ چودہ اعمال و افعال وہ ہیں جن کو یہ آیتِ مبارکہ تقویٰ اور صدق قرار دیتی ہے ۔ اس میں غور طلب پہلو یہ ہے کہ ان چودہ مثبت کاموں میں صرف دو وہ ہیں جن کا ہم پوری توجہ سے رمضان میں اہتمام کرتے ہیں، یعنی نماز اور زکوٰۃ۔

جن چیزوں سے بچنے کا تصور رمضان اور تقویٰ کے الفاظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں آتا   ہے، یہ ممنوع اعمال بہت معروف ہیں۔ قرآن نے انھیں جگہ جگہ بیان کر دیا ہے، یعنی قتل ناحق، چوری ، زنا ، جھوٹ ، شرک اور دیگر منکرات و فواحش، جب کہ تقویٰ محض ان سے بچنے سے زیادہ وسیع مفہوم رکھتا ہے ۔

جس طرح آیت البر تقویٰ کے مثبت پہلو کو واضح کرتی ہے ،ایسے ہی سورۃ الحجرات ان اجتماعی برائیوں کی وضاحت کر دیتی ہے، جن سے عموماً رمضان کے دوران بھی شعوری طور پر بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی :

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ اور اُس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اورجاننے والا ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلند نہ کرو،اور نہ نبیؐ کے ساتھ اُونچی آواز سے بات کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھارا کیا کرایا سب غارت ہوجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔ جو لوگ رسولِؐ خدا کے حضور بات کرتے ہوئے اپنی آواز پست رکھتے ہیں، وہ درحقیقت وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے جانچ لیا ہے، اور اُن کے لیے مغفرت ہے اور اجر ِعظیم۔

اے نبیؐ، جو لوگ تمھیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔ وہ تمھارے برآمد ہونے تک صبر کرتے تو انھی کے لیے بہتر تھا، اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ خوب جان رکھو کہ تمھارے درمیان اللہ کا رسولؐ موجود ہے۔ اگر وہ بہت سے معاملات میں تمھاری بات مان لیا کرے تو تم خود ہی مشکلات میں مبتلا ہوجائو۔ مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنادیا، اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رَو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔

اوراگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔ پھر اگر اِن میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔ پھر اگر وہ پلٹ آئے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو۔ اور انصاف کرو کہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کےدرمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، اُمید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمھارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔

لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبرہے۔(الحجرات ۴۹:۱-۱۳)

 سورۃ الحجرات کی درج بالا آیات میں ایسے کام گنوائے گئے ہیں، جو حیاتِ اجتماعی کی صحت کے لیے اہمیت رکھتے ہیں:

۱-اللہ اور رسولؐ کے واضح احکام کی روشنی میں اپنی رائے اور فکر کے مطابق فیصلہ نہ کرنا  ۲- اپنی آواز کو رسولؐ اللہ کی آواز سے بلند نہ کرنا۳- غیر مصدقہ اطلاعات اور خبروں کو بلا تحقیق نہ پھیلانا ۴- اہل ایمان کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ کو دُور کرنے کی کوشش کرنا ۵-اگر دو گروہ جنگ پر آمادہ ہو جائیں تو صلح کی کوشش کرنا اور بھائیوں کے درمیان تعلقات کی اصلاح کرنا ۶-لوگوں کا مذاق نہ اڑانا  ۷-ایک دوسرے پر طعن نہ کرنا ۸- ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد نہ کرنا ۹- ظن اور گمان کی بنیاد پر بدگمانی میں مبتلا نہ ہونا ۱۰-تجسس نہ کرنا ۱۱-غیبت نہ کرنا ۱۲-اپنے قبیلے ، برادری ، ذات پر فخرنہ کرنا ۱۳- تقویٰ کی روش اختیار کرنا ۔

یہاں جو اہم پہلو غور طلب ہے وہ یہ کہ رمضان کے دوران سورۃ الحجرات کے احکامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا ان اجتماعی برائیوں اور خرابیوں سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ کیا ہم اس ماہ میں ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑنے، دلوں سے نفرتیں دُور کرنے ، غیر مصدقہ سوشل میڈیا کے استعمال اور منفی فکر کی جگہ معاشرے کے مظلوم طبقات کی عملی امداد ، نوجوانوں میں تیزی سے پھیلنے والی خرابیوں اور نشہ آور ادویات کے استعمال کے خلاف شعور بیدار کرنے کی منظم کوششیں کرتے ہیں؟

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْۚ (الحجرات۴۹:۱۰)بے شک سب مومن آپس میں بھائی ہیں۔ تم اپنے بھائیوں میں صلح کرائو۔

تقویٰ کے مثبت تصور کو سمجھنا اور اسے اپنے طرز ِعمل کے ذریعے معاشرے میں متعارف کروانے کا نام ہی دعوت و اصلاح ہے ۔ انبیائے کرامؑ نے زبانی جمع خرچ کی جگہ اپنے دور میں مظلوم طبقات کے حقوق کے حصول کے لیے کوشش کی اور وہ جو کل تک غلام تھے، اُمت کے قائد بن گئے۔

تحریک اسلامی کے کارکنوں کا طرزِ عمل کیا ہو؟ اس پر قرآن بہت واضح ہدایات دیتا ہے:

يٰٓاَ يُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ

اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللہُ اَوْلٰى بِہِمَا۝۰ۣ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓى اَنْ تَعْدِلُوْا۝۰ۚ وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا۝۱۳۵  (النساء ۴:۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریقِ معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا توجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔

گویا اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو اختلاف کو ایک طرف رکھ کر اس کے حق کا تحفظ کرنا تقویٰ اور حق کا مطالبہ ہے ۔دین ہمیں ہر صورت حال میں چاہے وہ سیاسی ہو ، معاشی ہو ، دفاعی ہو یا معاشرتی اور ثقافتی ہو، مقاصد شریعہ کی روشنی میں واضح راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ شریعت کا اصول ہے کہ کسی کو ضرر نہ پہنچایا جائے ، کسی کی شہرت کو خراب نہ کیا جائے ، اختلافات کو حکمت کے ساتھ دُور کیا جائے کیوں کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا:

وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝۱۹۰ (البقرہ ۲:۱۹۰)اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

آج ہمارے معاشرے میں ظلم و ناانصافی کی بے شمار شکلیں رائج ہیں۔ اگر معاشرے میں کسی طبقے کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہو تو اس طبقے کی مدد کرنا اور اسے ظلم و زیادتی سے نجات دلانے کے لیے آئینی ، قانونی مدد فراہم کرنا امت کا اجتماعی فریضہ ہے ۔ سورۃ النساء میں مجبور اور کمزور عورتوں، بچوں اور افراد کے بارے میں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ کون ان کو ظلم و استحصال سے نجات دلائے گا –؟ یہ اجتماعی فریضہ امت مسلمہ کا ہے کہ وہ ہرمظلوم پر کیے گئے ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور مظلوم کی مدد کرے ۔ کیا رمضان کے روزے ہمارے اندر اس رویے کو پیدا کرتے ہیں یا ہم نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد بری الذمہ ہو جاتے ہیں؟

دین میں بنیاد ایمانی، معاشرتی ، سیاسی اور ثقافتی رویے ہیں ۔ ایک کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا اورحق کی حمایت کرنا، اللہ کے بندوں کے حقوق کا پورا کرنا ہے ۔ یہ وہ حق ہے جسے اللہ ربّ العزت جو سراپا عفو و درگزر اور مغفرت ہے، وہ بھی قیامت کے دن اُس وقت تک معاف نہیں فرمائے گا ، جب تک وہ جس پر ظلم ہوتا دیکھ کر ہم خا موش رہے خود معاف نہ کر دے ۔

اس عظیم امتحان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ حقوق العباد کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط اور دل کو ہر قسم کے تعصب ، رنجش اور تکلیف سے پاک کر کے صرف اللہ کی رضا کے لیے مظلوم کی حمایت کی جائے اور اسے ظلم سے نجات دلائی جائے ۔ تقویٰ کے مثبت پہلوؤں کے پیش نظر جن کاموں کو پورے اہتمام کے ساتھ رمضان میں کرنے کی ضرورت ہے ، ان میں قرآن پر غور و تدبر کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ، توحید اور زندگی کے تمام معاملات میں توحیدی رویہ اختیار کرنا سب سے زیادہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

 توحید کا تقاضا ہے کہ ہم صرف اللہ کو رب ماننے کے ساتھ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت پاک کو اپنے رویوں اور معاملات میں اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں اور اس دنیا کی زندگی کو انتہائی عارضی اور مختصر سمجھتے ہوئے اپنے تمام اعمال کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ  ہم نے آخرت کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں تنہائی میں اپنا احتساب کرنے کے ساتھ آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کو بہتر بنانے کا عہد اور عزم کیا جائے ۔ اس مبارک مہینے میں کسی ایک ایسے رشتے دار کو جس سے رابطے میں کمی آگئی ہو ، خصوصاً تحفے کے ذریعے ، ملاقات کے ذریعے اور (درحقیقت) اللہ کے لیے اپنے قریب لایا جائے ۔

رمضان میں جو لوگ مانگنے کے لیے آئیں، انھیں دھتکارا نہ جائے بلکہ جس حد تک ممکن ہو ان کی مدد کر دی جائے ۔ اپنے گھر والوں پر کھلے دل کے ساتھ خرچ کیا جائے۔ جو لوگ ملک میں یا ملک سے باہر قیدی بنالیے گئے ہوں،ان کی رہائی کے لیے ان کی مالی مدد کی جائے، یا کم از کم ان کے لیے دعا کی جائے۔ الخدمت فائونڈیشن جن یتیموں اور بیواؤں اور مستحقین کی امداد کر رہی ہے، اس کام میں تعاون کیا جائے، کیوں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نہایت کشادہ ہاتھ سے دوسروں کی مدد فرماتے تھے جیسے خیرو برکت کی بارش ہو رہی ہو ۔