مئی۲۰۰۶

فہرست مضامین

راے عامہ کی تشکیل : اہم نکات

محمدوقاص | مئی۲۰۰۶ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

آزاد فکر معاشروں اور جمہوری ریاستوں میں راے عامہ کو طاقت کا سرچشمہ خیال کیا جاتا ہے۔ حکومتیں اپنی ترجیحات کا تعین راے عامہ کی روشنی میں کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنے منشور بناتے وقت اِسی کو مدّنظر رکھتی ہیں۔ یہی راے بڑے بڑے آمروں کے لیے لگام ثابت ہوتی ہے‘ بلکہ یہ ایک ایسی ویٹوپاور ہے جس کو وقت کے فرعون بھی چیلنج کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض اوقات عدالتیں فیصلہ دیتے وقت عوام کی راے کو مدّنظر رکھتی ہیں۔

راے عامہ کیا ہے؟ یہ کس طرح بنتی ہے‘ اور اسے کس طرح اپنے حق میں ڈھالا جا سکتا ہے؟ راے عامہ کسی معاشرے کے تمام یا اکثروبیش تر لوگوں کی مجموعی راے ہے جو لوگوں کی سوچ اورفکر‘ پسندوناپسند کی پوری طرح عکاسی کرے کہ لوگ کیا چاہتے ہیںاور رسم و رواج‘ تہذیب و تمدن‘ علم و فن‘ فیشن اوراسٹائل‘ سیاسی رجحانات اور معاشی مسائل میں اُن کا نقطٔہ نظر کیا ہے۔ یہ راے اگرچہ عامۃالناس کی راے کہلاتی ہے لیکن یہ راے بنتی کہیں اور ہے۔ عوام کالانعام تو بس اتباع کرتے ہیں۔

راے عامہ کی تشکیل کرنے والے عناصر کو تین بڑے گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

  • ذرائع ابلاغ (Media)
  • ادارے (Institutions)
  • اہل فکرودانش (Intelegentia)

ذرائع ابلاغ

دور جدید میں ذرائع ابلاغ کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ یہ اگر چاہے تو رائی کو پہاڑ بنادے اور پہاڑ کو آنکھوں سے اوجھل کردینا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ میڈیا کے دو بڑے شعبے یعنی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا الگ الگ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر پڑھا لکھا شخص کسی نہ کسی اخبار یا جریدے کا قاری ضرور ہوتا ہے اور اُس میں چھپنے والا مواد اُس کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ فرد کی سیاسی تربیت انھی ذرائع سے ہوتی ہے۔ پسندو ناپسند کا معیار مقرر ہونے میں اِن کا کردار کلیدی ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت اس سے بھی دوچند ہے۔ اس کی رسائی صرف پڑھے لکھے شخص تک نہیں بلکہ ہر اُس شخص تک ہے جس کی آنکھیں اورکان سلامت ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اس میڈیا کی رسائی بڑوں تک ہے بلکہ بچے بھی اس کی گرفت میں ہیں۔ یہ غیرمحسوس انداز میں اپنی بات عوام تک پہنچاتا ہے۔ کبھی ڈرامے کی صورت میں تو کبھی بحث و مباحثے کی صورت میں‘ کبھی تصویری رپورتاژ کی صورت میں تو کبھی واقعے کی براہ راست نشریے کی صورت میں۔ یہاں تک کہ آسٹریلیا کے کرکٹ گرائونڈ میں ایک کھلاڑی چھکا لگاتا ہے اور دنیا کے شرق و غرب میں اپنے گھروں میں بیٹھے لوگ اُس کو داد دیتے ہیں۔ گھروں کے اندر زیبایش کے سامان سے لے کر بولے جانے والے مکالموں تک‘ اور شادی بیاہ کی تقریبات سے لے کر ماتم کی رسومات تک میں میڈیا کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ الغرض‘ الیکٹرانک میڈیا کی گرفت اتنی موثر ہے کہ اس کا مقابلہ اس سے کم تر کسی چیز سے نہیں کیا جاسکتا۔

ادارے

ادارے ہر معاشرے کے اخلاق و کردار‘ تہذیب و تمدن اور فکروعمل کی راہوں کو متعین کرنے میں نمایاںکردارادا کرتے ہیں۔ ان میں گلی محلے اور گائوں کی مسجد سے لے کر کالج اور   یونی ورسٹی تک‘ گائوں کے چوپال سے لے کر ایوان ہاے قانون ساز تک اور چند معززین کے جرگے سے لے کر عدالت ہاے عظمیٰ تک‘ سب شامل ہیں۔ اگر ادارے قوی ہوں‘ اپنی تہذیب اور روایات کے امین اوراصولوں پر قائم ہوں‘ حق اور انصاف کو معیار کا درجہ دیا جا رہا ہو تو تمام خرابیوں کے باوجود قومیں انحطاط کے بجاے عروج کی طرف گامزن رہتی ہیں۔ لیکن اگر ادارے تباہ ہوجائیں اور حق اور انصاف کی جگہ ظلم و عدوان رواج پاجائے تو پھر ایسی قوم پر فاتحہ پڑھ دینی چاہیے۔

اھلِ فکرودانش

ہر معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو اپنی سوچ اور فکر سے معاشرے کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ اس طبقے میں خیرکا پہلو جتنا غالب ہوگا معاشرہ اتنا ہی پاکیزہ ہوگا‘ اور اگر یہاں شر ہوگا تو معاشرے میں اُس سے زیادہ شر ہوگا۔ ان میں اساتذہ‘ علما‘ مصنفین‘ شعرا اور صحافی‘ سب شامل ہیں۔

گذشتہ صدی میں اُمت مسلمہ کی تاریخ کے جگمگاتے ستاروں کا تعلق اسی طبقے سے ہی تھا۔ علامہ اقبال‘ الطاف حسین حالی‘ محمد علی جوہر اور ظفرعلی خان جیسے اہلِ قلم نے برعظیم کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا‘ جب کہ سید مودودی‘ حسن البناء اور سیدقطب نے عالمی اسلامی تحریک کی نیو ڈالی۔ ان سب مشاہیر نے اپنے قلم سے وہ جنگ لڑی اور کامیاب ٹھیرے جس کو بصورتِ دیگر اسلحے کے انباروں اور منظم فوج کے بل پر بھی نہیں جیتا جاسکتا تھا۔

مقابلے کی حکمت عملی

درحقیقت راے عامہ کی تبدیلی کے لیے منظم اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دعوت اور جہاد کے بہت سے محاذوں میں سے یہ بہت اہم اور بنیادی محاذ ہے جس پر دشمن کے تمام حملوں کا بروقت جواب دینا ازبس ضروری ہے۔ اس ہمہ جہت مقابلے کی حکمت عملی کیا ہو؟

  • زمینی حقائق پر نظر: درست فیصلوں کے لیے ٹھوس ذہنی حقائق کا اِدراک نہایت ضروری ہے۔ غلط‘ مبہم‘ غیرمکمل یا محض اندازوں پر مبنی معلومات کی بنیاد پر کبھی دُوررس‘ درست سمت کے حامل اور بہترین فیصلے نہیں ہوسکتے۔ کسی جگہ دعوت کے کام کا آغاز ہو‘ الیکشن میں حصہ لینا پڑے‘ یا کسی اجتماع‘ جلوس‘ جلسے یا مظاہرے کا انعقاد ہو‘ ہرجگہ جب تک قیادت معروضی حقائق کو مدنظر نہیں رکھے گی اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ تجرباتی طور پر ماضی میں کیے جانے والے فیصلوں کے نتیجے میں حال میں پیدا ہونے والی صورت حال کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ماضی کے فیصلوں میں کتنی دُوراندیشی سے کام لیا گیا۔
  • میسر ذرائع کا بہرپور استعمال : تحریک اسلامی اپنے پاس جو سرمایہ رکھتی ہے وہ محدود ہاتھوں میں ہی گردش کرتارہتا ہے۔ ایسے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ سب ذرائع‘ یعنی اخبارات‘ رسائل‘ جرائد‘ تصنیفات جن کے ذریعے اسلام کی دعوت کو قلوب و اذہان کی دنیا تک پہنچایا جاسکتا ہے‘ اُنھیں سہل الحصول بنایا جائے‘ اُن میں عامۃ الناس کے لیے دل چسپی کا سامان پیدا کیا جائے‘ بلکہ اُنھیں ایسی زبان میں منتقل کیا جائے جو عام آدمی کی زبان ہو اور لوگ اُسے اپنے دل کی آواز سمجھیں۔ الیکٹرانک میڈیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ بنایا جائے۔ اپنے ذرائع و وسائل میں سے ایک حصہ اس کام کے لیے مختص کیا جائے۔ بھارتی اور مغربی ثقافت سے نفرت بجا‘ لیکن لوگوں کو اِن آلودہ ثقافتوں کے مقابلے میں پاکیزہ اسلامی ثقافت فراہم کی جائے تب ہی اُن کی توجہ حاصل کی جاسکے گی۔
  • کارکن کا محاذ  : اسلامی تحریک کے لیے یہ امر باعث شکر ہے کہ اُسے کارکنان کا ایک سیلِ رواں میسر ہے۔ اِن کارکنان سے راہِ خدا میں خدمت لینے اور اِن کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی ذمہ داری قیادت پرعاید ہوتی ہے۔ سب سے پہلا ضروری امر تو یہ ہے کہ کارکن کو پیش نظر کام کے لیے تربیت دی جائے۔ بدقسمتی سے اس جانب کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔ مطالعۂ لٹریچر‘ دُروسِ قرآن اور اجتماعات میںشرکت کی وجہ سے کارکنان کی فکری تربیت تو کسی نہ کسی حد تک ہوجاتی ہے‘ اُن میں اخلاص اور للہیت کی صفات بھی پیدا ہوجاتی ہیں لیکن اُنھیں یہ نہیں سکھایا جاتا کہ اُنھیں معاشرے میں جاکر کام کیا کرنا ہے‘ کیسے کرنا ہے‘ اور اس سلسلے میں کون کون سے ذرائع اور وسائل اُنھیں دستیاب ہیں جنھیں استعمال میں لاکر وہ اپنے کام میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔ لہٰذا اس میدان میں سب سے پہلے کارکن کی تربیت ضروری ہے۔
  • کارکن: موثر ترین ذریعہ ابلاغ : ترکی کی شناخت ایک سیکولر ملک کی حیثیت سے اقوامِ عالم میں موجودہے۔ یہاں کے ذرائع ابلاغ تمام کے تمام فکری اور ذہنی اعتبار سے سیکولر بلکہ شدید سیکولر ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود وہاں اسلامی تحریک ایک غالب قوت کے طور پر اُبھری اور مسلسل پیش قدمی کرتی چلی آرہی ہے۔ اسی تناظر میں جب تحریک کے ایک ذمہ دار سے کسی نے پوچھا کہ آپ ذرائع ابلاغ کے مخالف پروپیگنڈے کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں تو اُنھوں نے بلاتامل جواب دیا کہ ہمارا کارکن اس پروپیگنڈے کا توڑ ہے۔ پھرکہا کہ ترکی میں تمام اخبارات کی مجموعی اشاعت ۱۰لاکھ یومیہ سے زیادہ نہیں‘ جب کہ ملک بھر میں ہمارے ایک لاکھ کارکن ہیں۔ چنانچہ ہرکارکن روزانہ دس ملاقاتیں کر کے مخالفانہ بلکہ زہریلے پروپیگنڈے کا تدارک کرسکتا ہے۔ چنانچہ  عام لوگوں سے کارکن کی ملاقات‘ گفتگو‘ خوشی غمی میں شرکت اور لٹریچر کی تقسیم وہ عمل ہے جس کے ذریعے سے معاشرے میں ہرسطح پر مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔
  • جاری کام کو ضرب دینے کی ضرورت : ہمارے ہاں عام طور پر تنقیدی ذہن پایا جاتا ہے۔ تنقید براے اصلاح ازحد ضروری ہے۔ لیکن جاری سرگرمیوں کو چاہے وہ معمولی سطح پر ہی کیوں نہ ہوں اُجاگر کرنے اور عامۃ الناس کو اُن کی طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی قیادت کے بیانات‘ انٹرویو اور ٹی وی پروگرامات کے تذکرے اور زبانی تشہیر سے ان مساعی کو  ضرب دی جا سکتی ہے۔ ان کی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ ۸اکتوبر کے زلزلے میں الخدمت نے جو بے مثال خدمت انجام دی اُس کاعلم معاشرے میں کتنے لوگوں کو ہے؟ اگر لوگ الخدمت کی سرگرمیوں سے اب تک بے خبر ہیں تو قصور کس کا ہے؟
  • مخالفت کی تعدیل : احتجاجی سیاست اور ہمیشہ تنقید سے بعض اوقات معاشرہ مختلف حصوں میں بٹ جاتا ہے جیساکہ ماضی قریب کی سیاسی تاریخ میں دیکھا گیا کہ قوم پیپلز پارٹی اور اینٹی پیپلزپارٹی میں تقسیم ہوگئی۔ اسلامی تحریک کے لیے ایسی فضا ہرگز سازگار نہیں۔ چنانچہ مخالفین سے بھرپور رابطہ تحریکی کارکن کا نشانِ امتیاز ہے۔ اس کے ذریعے سیاسی مخالف آپ کی سمت قدم نہ بھی بڑھا سکے۔ لیکن آپ کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ پیدا کرلے‘ اُس کی مخالفت کا جذبہ    سرد پڑجائے تو یہ کام بھی میدانِ جنگ میں دشمن کا مورچہ فتح کرنے سے کم تر نہیں۔
  • مساجد‘ مدارس‘ حجروں اور چوپالوں میں نفوذ : اسلامی معاشرے میں مسجد کا کردار کلیدی ہے۔ اپنے تمام تر انحطاط کے باوجود علما کا احترام باقی ہے۔ مسجد کا تقدس دلوں میں قائم ہے۔ مسجد سے اٹھنے والی آواز اگر آپ کے حق میں ہو تو نورٌ عَلٰی نُور۔ لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم یہ آواز آپ کی مخالفت میں نہیں اُٹھنی چاہیے۔ اس کام کے لیے کارکن کو ذاتی ملاقات کرنا پڑے یا تالیفِ قلب کے ذریعے تعلق بنانا پڑے‘یہ کام بہت ہی ضروری ہے۔ یہی حال دیگر عوامی اجتماع کی جگہوں کا ہے جو کہ اگر پہلے مرحلے پر ہماری دعوت کا مرکز نہ بھی بن سکیں‘ کم از کم ہمارے خلاف نہ استعمال ہوں تویہ بھی بڑی کامیابی ہے۔
  • آج کا علم کلام : کوئی بھی تحریک ماضی کے علمی سرماے پر زیادہ دیر تک قائم نہیں   رہ سکتی۔ مسلمانوں کا ماضی علمی کارناموں سے روشن ہے لیکن یہ تابناک ماضی مسلمانوں کو آج زوال سے نہ بچاسکا۔ چنانچہ ہر دور میں اہل فکرودانش کی ضرورت مسلّم ہے۔ بدقسمتی سے بعض اوقات اسلامی تحریک میں ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے جن کے پاس صرف لطیف احساسات ہوتے ہیں‘ جو قلم و قرطاس کے ذریعے توخدمت انجام دے سکتے ہیں لیکن شاید عملی طور پر کسی مظاہرے‘ جلسے یا جلوس میں شرکت نہیں کرسکتے‘ حالانکہ اسلامی تحریک میں تو حضرت حسان بن ثابتؓ کا بھی ایک کردار ہے‘ جن کے اشعار کی کاٹ تلوار سے زیادہ تھی۔ اسی طرح بعض اوقات یہ ذہنیت بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ جیسے یہ سمجھ لیا گیا ہو کہ سارا علمی کام تو سید مودودیؒ نے کردیا‘ اب یہ دروازہ بند ہوجانا چاہیے۔ یہ رجحان زندہ تحریکوں کے لیے سمِقاتل ہے۔ چنانچہ ہر دور میں ایسے افراد کی ضرورت رہتی ہے جو مبارزت کے لیے کھلنے والے نئے نئے میدانوں میں اُتریں اور اپنے قلمی جوہر دکھا کر علمی طور پر اسلامی تحریک کا بول بالا کرتے رہیں۔

حائل رکاوٹیں

آخر میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک نظر میں اُن رکاوٹوں کا ادراک کرلیا جائے جو     راے عامہ ہموار کرنے میں سدِّراہ ہُوا کرتی ہیں۔

  • ناخواندگی اور جھالت: پاکستانی تناظر میں خصوصاً اور اُمت مسلمہ کے حوالے سے عموماً سب سے بڑی رکاوٹ ناخواندگی اور جہالت ہے۔ پاکستان کی ۷۰ فی صد آبادی ناخواندہ ہے جب کہ تحریک کا سب سے بڑا ہتھیار تحریری لٹریچر ہے۔ چنانچہ پہلے ہی قدم پر ۷۰ فی صد آبادی تحریکی کارکن کے دائرہ کار سے نکل جاتی ہے۔ اس کے برعکس برعظیم کی ماضی قریب کی تاریخ میں جن مشاہیر نے بہت شہرت حاصل کی اور جن کا پیغام زبانِ زدعام ہوا‘ اُن میں اکثریت شعلہ بیان خطیبوں اور مقررین کی تھی۔ لہٰذا آج بھی آبادی کے اس بڑے حصے کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ایسے افراد کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ ایک چیلنج ہے جس سے نبردآزما ہونے کے لیے اولی الابصار کو سوچنا چاہیے۔

جہالت کا براہِ راست تعلق ناخواندگی سے نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی کیفیت (state of mind) کا نام ہے جس میں دل و دماغ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور انسان اپنے موہوم تصورات‘ اور موروثی عقائد کی گرفت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جاہلیت قدیم بھی ہے اور یہ موذی مرض جاہلیت ِ جدیدہ کی صورت میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ آج بھی لوگ لینن اور مارکس‘نطشے اور اسرانعمانی یا آمنہ ودود کے رطب و یابس پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد کا علاج بڑی حکمت‘ صبروضبط اور عالی حوصلگی کا متقاضی ہے۔

  • معاشرتی تفریق: اس راہ کی دوسری بڑی رکاوٹ معاشرے کے اندر پائی جانے والی تفریق ہے۔ چاہے یہ تفریق علاقائی یا نسلی ہو یا مذہبی‘ پاکستان میں اس کا بڑھتا ہوا رجحان انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہاں قومی‘ لسانی اور علاقائی عصبیتیں بھی مسلسل پروان چڑھ رہی ہیں اور مذہبی منافرت کی جڑیں بھی خاصی گہری ہیں۔ چنانچہ اسلام اور نظریۂ پاکستان ہی وہ اساس ہے جس پر اِس بکھری ہوئی ملت کی شیرازہ بندی کی جاسکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل مذہبی منافرت کا اگرچہ منہ توڑ جواب ہے لیکن اس اتحاد کو نچلی سطح تک لانے میں ابھی کچھ وقت درکار ہے۔
  • میڈیا کا مذموم پروپیگنڈا: تیسری بڑی رکاوٹ میڈیا کی ہمہ گیر جنگ ہے‘ جو اُس نے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف چھیڑ رکھی ہے۔ بنیاد پرستی‘ دہشت گردی اور     رجعت پسندی یہ وہ اصطلاحیں ہیں جو میڈیا نے تراش رکھی ہیں اور پوری قوت سے ان اصطلاحات کو اُمت مسلمہ کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے‘ جب کہ اُمت کا رویہ ابھی تک مدافعانہ بلکہ شاید معذرت خواہانہ ہے۔ اس کا تدارک کیسے کیا جائے‘ کیا حکمت عملی ترتیب دی جائے‘ کون کون سے ذرائع استعمال کیے جائیں‘ مغرب کے تاریک پہلوئوں کو کیوں کر اُجاگر کیا جائے اور اُن کی مفید اصطلاحات کو موثر طریقے سے اُن پر کیسے چسپاں کیا جائے___ یہ اور اس نوعیت کے بہت سے سوالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان پر غوروفکر کیا جائے اور ایک موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔