مئی۲۰۰۶

فہرست مضامین

تہران کی القدس کانفرنس

عبد الغفار عزیز | مئی۲۰۰۶ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

۱۲ ربیع الاول کو دنیا بھر سے بڑی تعداد میں آنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ   وہ مغربی افریقہ کے ملک مالی کے ایک تاریخی شہر ٹمبکٹو میں جمع ہوں گے۔ صحراے اعظم کا وہ شہر جو دُوری و استغراب کے لیے ضرب المثل بن چکا ہے ‘کبھی پورے افریقہ میں تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہوتا تھا۔ سولہویں صدی کے اختتام پر صرف اس ایک شہر میں ۱۸۰ تعلیمی ادارے تھے جن میں دُوردراز سے آنے والے ہزاروں طلبہ زیرتعلیم تھے۔ پھر یہ شہر قبائلی ‘ خاندانی اور علاقائی جنگوں کی نذر بھی رہا لیکن کبھی اجنبی استعمار کے قبضے میں نہیں آیا۔ یورپی ممالک میں اس کی تہذیب و ثقافت اور وہاں پائے جانے والے سونے کے انباروں‘ ہاتھی دانت اور شترمرغوں کی کثرت کا ذکر آتا تو اکثر حکمرانوں کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔

اس تاریخی شہر کا دل چسپ سفر لیبیا کی طرف سے ملنے والی ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کے باعث اچانک ممکن ہوگیا۔ لیکن آیئے اس کی تفصیلات سے پہلے تہران میں ہونے والی القدس کانفرنس میں چلیں۔

تھران کانفرنس

۱۴ اپریل کو تہران میں تیسری عالمی القدس کانفرنس شروع ہونا تھی۔ اس میں شرکت کے لیے صبح اڑھائی بجے تہران کے نئے امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ یہ نیا ایئرپورٹ جسے IKIA کا مخفف دیا گیا ہے تہران شہر سے ۳۵کلومیٹر کے فاصلے پر ساڑھے تیرہ ہزار ہیکٹر کے رقبے پر تعمیر ہونے والا جدید ترین ایئرپورٹ ہے۔ صحراے ٹمبکٹو سے نکل کر آنے سے اس کی جدت و خوب صورتی مزید بھلی لگ رہی تھی۔ ایئرپورٹ پر کانفرنس کی انتظامیہ شرکاے کانفرنس کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ میں نے ملتے ہی ان سے معذرت کی کہ ہمارے باعث اتنی رات گئے آپ لوگوں کو زحمت ہوئی۔ مکمل ایرانی پردے میں ملبوس ایک خاتون شایستگی سے بولیں: یہ رات گئے تو نہیں   صبحِ نو کا آغاز ہے۔ اس جذبہ پرور جملے سے سفر کی تھکن قدرے کم ہوتی محسوس ہوئی۔

کانفرنس کا اصل جمال وجلال کانفرنس کے شرکا کی فہرست سے سامنے آیا۔ فلسطین کی پوری قیادت وہاں موجود تھی۔ خالد المشعل (سربراہ حماس) ان کے نائب ڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق سے لے کر ارکانِ پارلیمنٹ کی بڑی تعداد‘ ڈپٹی اسپیکر اور سب سے نورانی وجود شہداے فلسطین کی مائوں کا تھا۔قارئین کو یاد ہوگا فروری کے ترجمان میںحماس کی نومنتخب رکن پارلیمنٹ اُم نضال کا ذکر کیا تھا۔ اچانک انھیں اپنے کامل وقار و متانت اور روحانیت کے ہالے میں جس نے بھی اپنے درمیان دیکھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ پایا۔ میں اُم نضال سے اہلِ پاکستان کا سلام کہتے ہوئے عرض کر رہا تھا کہ آپ نے کائنات کی تمام مائوں کا سر فخر سے بلند کردیا ہے‘ پوری اُمت کے بچے آپ کے بچے ہیں۔ آپ نے اپنے تین جوان بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے تیار کر کے شہادت کے سفر پر روانہ کر کے حضرت خنسائؓ کی یاد تازہ کردی… اسی دوران جرمنی سے آنے والے ایک شریک کانفرنس نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن آبدیدہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ آپ کی عظمت کے سامنے ہماری زبانیں گنگ ہوگئی ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی ان کے گرد جمع ہونے لگے تو اُم نضال گویا ہوئیں: ’’میرے بیٹو! اگر اللہ تعالیٰ مجھے کائنات کے تمام دولت و ثروت اور نعمتیں بھی عطا کردے اور میں ساری نعمتیں اس کی راہ میں قربان کر دوں‘ تب بھی اللہ تعالیٰ کا مجھ پر عائد حق تو ادا نہیں ہوگا‘‘… آنکھیں مزید نمناک ہوگئیں۔ دلوں میں اداے فرض کا احساس مزید جوان ہوگیا۔ شرکاے کانفرنس میں ایک اور بوڑھی خاتون اُم محمد بھی فلسطین سے آئی تھیں جن کا شوہر اور جوان بیٹا بھی شہید ہوچکا ہے۔

یہ تیسری عالمی کانفرنس براے القدس و حقوق انسان درفلسطین‘ ربیع الاول کے مبارک ایام میں منعقد ہورہی تھی۔ شیعہ تاریخ کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ۱۷ربیع الاول کو ہوئی تھی۔ عین انھی دنوں میں ایران نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس طرح یہ تین اہم عناصر یکجا ہو رہے تھے۔ ۱۴ اپریل کو پہلے کانفرنس کے سب شرکا نمازِجمعہ کے لیے تہران یونی ورسٹی کے وسیع و عریض میدان میں گئے۔ آیت اللہ جنتی کے خطبہ جمعہ سے پہلے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ خطاب کر رہے تھے: ’’امریکا ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے لیکن اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ایران‘ افغانستان یا عراق نہیں ہے اور پھر اسے یہ بھی جان لینا چاہیے کہ افغانستان و عراق میں ہم اس کی قوت و کمزوری کے تمام پہلوئوں کا بغور مطالعہ کرچکے ہیں اور ان کی روشنی میں اپنی تیاریاں مکمل کرچکے ہیں۔ اب ہمیں چھیڑنے کی حماقت وہی کرسکتا ہے جو ہلاکت و خودکشی پر تلا ہو۔

سہ پہر پانچ بجے کانفرنس کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کانفرنس سے ایک روز قبل استنبول میں   او آئی سی کے زیراہتمام ایک پارلیمانی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ تہران کانفرنس کے منتظمین کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہاں سے اکثر پارلیمانی وفود تہران بھی آجائیں اور یہاں پوری دنیا سے آئے ذمہ داران و عوامی نمایندگان سے مل کر فلسطین کے حوالے سے مضبوط موقف دنیا کے سامنے آجائے۔ ۱۶ممالک سے پارلیمانی وفود اپنے اپنے اسپیکر یا چیئرمین سینیٹ کی سربراہی میں موجود تھے اور ان کے پرچم بھی کانفرنس ہال میں نمایاں تھے‘ لیکن پاکستان کی سرکاری نمایندگی نہیں تھی   اس لیے قومی پرچم بھی نہیں لہراسکا۔ البتہ سیاسی نمایندگی موثر تھی اور مولانا فضل الرحمن‘ مولانا خان محمد شیرانی‘ علامہ ساجد نقوی‘ پروفیسر محمد ابراہیم‘ جناب سراج الحق اور بلوچستان سے مولانا عبدالرحمن نورزئی اور علامہ سرمدی موجود تھے۔ خود قاضی حسین احمد صاحب کی شرکت بھی یقینی تھی۔ منتظمین کا اصرار بھی تھا۔ سابق وزیرخارجہ اور آیت اللہ تسخیری سمیت کئی شرکاے کانفرنس ان کے بارے میں بار بار دریافت بھی کر رہے تھے لیکن وہ پاکستان کے اندرونی حالات و مصروفیات کے باعث شریک نہ ہوسکے۔ ملایشیا سے چیئرمین سینیٹ بھی موجود تھے اور ان کا تعارف کرواتے ہوئے ملایشیا کے دیگر ذمہ داران نے بتایا کہ ان کی اہلیہ اور چیئرمین سینیٹ پاکستان محمد میاں سومرو کی اہلیہ دونوں بہنیں ہیں یعنی دونوں بہنوں کے شوہر اپنے اپنے ملک میں چیئرمین سینیٹ ہیں۔

کانفرنس کے آغاز میں تلاوت و قومی ترانے کے بعد ایران کے روحانی رہبر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا مفصل خطاب تھا۔ انھوں نے کہا کہ عصرحاضر اسلامی بیداری کا دور ہے اور فلسطین اس بیداری کا دل ہے… دوسری طرف مطلق العنان وحشی پن ہے جو نسلوں کو ہلاک کر رہا ہے‘ چہار جانب تباہی پھیلا رہا ہے‘ اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کر رہا ہے اور فرات سے نیل تک اپنی سرحدیں پھیلانے کا علَم بلند کر رہا ہے۔ وہ اپنی سیاسی و اقتصادی ہلاکت آفرینی کی تکمیل کے لیے عالمِ اسلامی کے بعض حکمرانوں کی کمزوری اور خیانت سے فائدہ اٹھا     رہا ہے… لیکن اب اسے اچانک فلسطینی شیر کی بیداری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے‘ اسے ایک     پُرعزم و انقلابی تحریک انتفاضہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آج عالمِ اسلامی بیدار ہو رہا ہے اور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ کا شعار اُمت مسلمہ کے فہمیدہ عناصر کی اکثریت کا شعار بن گیا ہے… امریکی ذرائع ابلاغ جس لبرل جمہوریت کو علاج شافی کی حیثیت سے پیش کر رہے تھے اس کے کڑوے اور زہریلے اثرات نے پوری اُمت کے جسد کو بھسم کردیا ہے۔ آج جو کچھ عراق‘ افغانستان‘ لبنان‘ گوانٹامو‘ ابوغریب اور دنیابھر میں پھیلے خفیہ امریکی عقوبت خانوں اور اس سے پہلے غزہ اور مغربی کنارے میں ہورہا ہے اس نے آزادی اور حقوقِ انسانی کے بارے میں مغربی پروپیگنڈے اور امریکی انتظامیہ کے غرور و کمینگی کی حقیقت کو آشکار کر دیا ہے…

آج پورے عالمِ اسلامی کا فرض ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو اپنا مسئلہ بنا لے۔ یہ وہ پُرسحر کلید ہے جو اُمت کے سامنے نجات کا دروازہ کھول دینے کی ضامن ہے… ہمیں استعماری تسلط اور مداخلت و تکبر سے نجات پانے کے لیے ایک اور قسم کا جہاد بھی کرنا ہوگا۔ یہ علمی‘ سیاسی اور اخلاقی جہاد ہے۔ ایرانی قوم نے گذشتہ ۲۷سال میں اس کا عملی تجربہ کیا ہے اور اس کے بہت شیریں ثمرات حاصل کیے ہیں… جہاد فلسطین میں کامیابی کی اصل شرط اپنے اصول و مبادی پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنا ہے۔ دشمن جھوٹے وعدے کرکے‘ دھوکا اور دھمکیاںدے کر ہمیں ان اصولوں سے دستبردار کرنا چاہتا ہے۔ خود ہمارے اندر سے بھی کچھ لوگ حکمت و تدبیر کا نام لے کر ہمیں اپنا اصولی موقف چھوڑنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سورہ مائدہ کی آیت ۲۵ کے مصداق دشمن سے کوئی نفع نہیں پائیں گے۔… امریکا اور مغرب نے ثابت کردیا ہے کہ وہ شکست تسلیم کرلینے والوں اور دست بردار ہوجانے والوں پر رحم نہیں کرتے‘ اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں… دشمن کی قوت کو بڑھاچڑھا کر پیش کر کے ہمیں ڈرانے والے دشمن ہی کی چالوں کی تکمیل کرتے ہیں… ایران‘ عراق‘ شام اور لبنان کے خلاف امریکی سازشوں کی کڑیاں پورے مشرق وسطیٰ پر صہیونی سرپرستی میں اپنا قبضہ جمانے کے لیے ہیں لیکن اگر امریکا اپنی عقل اور وجدان سے کام لے تو وہ جان لے گا کہ خود اسے بھی تباہ کن گھاٹے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا… آخر میں فلسطینی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے کہا : اے بہادر و جاں باز فلسطینی قوم کے لوگو! تم نے اپنے جہاد‘ صبر اور شان دار مزاحمت کے ذریعے پورے عالمِ اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ہم آپ کے شانہ بشانہ ہیں۔ آپ کے شہدا ہمارے شہدا ہیں‘ آپ کا رنج و غم ہمارا رنج و غم ہے اور آپ کی نصرت و کامیابی ہماری نصرت و کامیابی ہے۔

خامنہ ای کے خطاب کے دوران اسٹیج پر صرف وہی بیٹھے تھے۔ صدرمملکت‘  چیف جسٹس اور اسپیکر یعنی ملک کی انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کے سربراہ سامنے رکھی تین کرسیوں پر بیٹھے تھے اور پھر دیگر ملکی و غیرملکی ذمہ داران‘ کہیں بھی فوجی قیادت کا تسلط نہیں تھا۔ بلکہ اس سے پہلے نمازِ جمعہ کے دوران ایک اور دل چسپ منظر دیکھنے کو ملا۔ نمازِجمعہ میںتقریباً پوری مرکزی فوجی قیادت موجود تھی۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کا خطاب بھی تھا لیکن جمعے کے پنڈال میںداخل ہونے سے پہلے فوجی جرنیلوں کو بھی دیگر تمام شرکا کی طرح اپنے بوٹ اُتارنے پڑتے ہیں۔ ان کے بوٹ انتہائی سلیقے اور ترتیب سے قطار در قطار شیلفوں میں لگے تھے اور اصل منظر یہ تھا کہ ہر فوجی جرنل کی تاروں اور بیج لگی ٹوپیاں (ہیٹ) ان بوٹوں کے اُوپر سجی تھیں یعنی فوجی جاہ حشمت کی نشان ٹوپیاں اور بوٹ رہ گئے تھے اور ان کے درمیان سے بندہ نکل کر اپنے امام کے پیچھے کھڑے ہوکر رب کے حضور پیش ہوجاتے تھے۔

خامنہ ای کے خطاب کے بعد صدر محمود احمد نژادی کا خطاب تھا۔ انھوں نے بھی حسب معمول اپنے مخصوص انداز سے گفتگو کی۔صہیونی مظالم کے نتیجے میں تذلیلِ انسانیت کے ذکر کے بعد اپنے ایٹمی پروگرام کا ذکر کیا اور کہا کہ ایٹمی ٹکنالوجی اقوام و ممالک کی ترقی کے لیے لازمی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ہر ملک اپنے مستقبل کی حفاظت کے لیے اور ضروری توانائی کے حصول کے لیے ایٹمی ٹکنالوجی کا محتاج ہوگا۔ انھوں نے ایک بار پھر ہولوکاسٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تو شک ہوسکتا ہے اورہے‘ لیکن فلسطینیوں کے خلاف ہولوکاسٹ سے تو کسی کو انکار نہیں ہے۔ یہ قتلِ عام گذشتہ ۶۰ سال سے جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ بعض یورپی حکومتیں خود اپنے مالی‘ صنعتی‘ زراعتی اور سیاسی مفادات کو صہیونی قوتوں کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔ وہ اپنے شہریوں کی آزادی اور عزتِ نفس کو صہیونیوں کے قدموں میں روند رہی ہیں۔ میں اس سلسلے میں یورپی اقوام سے جلد مخاطب ہوں گا۔

صہیونی ریاست کے بارے میں انھوں نے عزم و یقین سے کہا کہ دنیا مانے یا انکار کرے صہیونی ریاست اپنے خاتمے کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ فلسطینی مزاحمت ایمان و آزادی سے سرشار تازہ و تناور درختوں میں بدل رہی ہے‘ جب کہ صہیونی ریاست ایک خشک و بوسیدہ     تنہا درخت ہے جو مزاحمت کی آندھی سے جلد اپنی جڑوں سے اکھڑنے کو ہے۔

دونوں رہنمائوں کے بعد فلسطینی پارلیمنٹ کے اسپیکر عبدلعزیز دویک کا غزہ سے سیٹلائٹ پر براہِ راست خطاب ہوا کیوں کہ صہیونی انتظامیہ نے انھیں فلسطین سے نکلنے سے منع کردیا تھا۔ ان کے خطاب میں حماس کا جو موقف تھا وہ تو تھا ہی‘ لیکن ان کے کانفرنس میں شریک نہ ہوسکنے سے فلسطینی اتھارٹی کی اصل حقیقت آشکار ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی مل رہا تھا کہ اگر عزم مصمم ہو تو کوئی طاقت راستے مسدود نہیں کرسکتی۔ اسپیکر بنفسِ نفیس نہیں آسکے تو اپنے دفتر میں بیٹھ کر ہی   براہِ راست خطاب کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر جہاد اسلامی کے سربراہ رمضان عبداللہ شلح کا خطاب تھا‘ خالد المشعل سمیت کئی فلسطینی دھڑوں کے سربراہوں کا خطاب تھا اور ونزویلا و کیوبا کے اسپیکرز کا بھی خطاب تھا۔ تقاریر کا یہ سلسلہ تین روز جاری رہا۔ اس دوران مختلف جانبی ملاقاتیں‘ نشستیں‘ انٹرویوز اور پروگرامات ہوئے۔ ایرانی ٹی وی کی اُردو سروس نے سراج الحق صاحب اور راقم کو اسٹوڈیو لے جاکر آدھ گھنٹے کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو براہِ راست نشر کیا۔ کئی عرب و اجنبی ذرائع ابلاغ سے گفتگو ہوئی۔

تیسرے روز صبح کا سیشن ختم ہوا تو حماس کے احباب نے اطلاع دی کہ کانفرنس میں مختلف اسلامی تحریکوں کے ذمہ داران کی ایک ملاقات خالدالمشعل کی رہایش گاہ پر ہو رہی ہے۔ خالدمشعل اور دیگر کئی فلسطینی رہنمائوں کو صدارتی گیسٹ ہائوس میں رکھا گیا تھا جو اسلامی سربراہی کانفرنس سے چند روز قبل ہنگامی طور پر لیکن شان دار انداز سے تعمیر کیا گیا تھا۔

خالدالمشعل نے اس محدود نشست میں دنیابھر میں ہونے والے اپنے دوروں کے نتائج سے آگاہ کیا‘ نومنتخب فلسطینی حکومت کو درپیش چیلنجوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خود صدر محمود عباس کے ذریعے ہی ہماری راہ میں کانٹے بوے جارہے ہیں۔ سابق وزرا اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے اپنے دفاتر کا فرنیچر تک اُٹھا کر لے گئے ہیں‘ کاپی پنسل تک نہیں چھوڑ کر گئے اور کئی کئی کروڑ کی بلٹ پروف گاڑیاں بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہیں۔ فلسطینی حکومت کا خزانہ خالی ہی نہیں ایک ارب ۷۰کروڑ ڈالر کا مقروض ہے۔ مختلف کمپنیوں کو ساڑھے چار کروڑ ڈالر کے بلوں کی ادایگی نہیں کی گئی وہ بھی ہم سے تقاضا کر رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے ماہانہ اخراجات ۱۷ کروڑڈالر ہیں جن میں سے ساڑھے گیارہ کروڑ ڈالر صرف تنخواہوں پر اُٹھ جاتے ہیں۔ خزانے میں ابھی تک مارچ کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ صہیونی انتظامیہ تقریباً ۷کروڑ ڈالر‘ فلسطینی سامان تجارت پر ٹیکسوں کے ذریعے جمع کرتی ہے جو معاہدے کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کو ادا ہونا چاہییں جو گذشتہ حکومت کو ملتے رہے ہیں۔ اب وہ بھی روک لیے گئے ہیں۔ عالمی قوتوں کی طرف سے مدد بند کردی گئی ہے اور مسلم ممالک کو بھی مجبور کیا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کو کچھ نہ دیں اور دیں بھی تو فلسطینی صدر کے ذریعے دیں۔ فلسطینی صدر کسی طرح کی ذمہ داری قبول کرنے پر تو تیار نہیں‘ لیکن امدادی رقوم اور اختیارات اپنی ذات میں جمع کرنے پر مصر ہیں۔ ہم نے پوری کوشش کی‘ چار ہفتے مذاکرات کرتے رہے کہ الفتح ہمارے ساتھ شریک ہو‘ ایک قومی حکومت تشکیل پائے لیکن وہ نہیں مانے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر طرح کے چیلنج کا سامنا کرنا ہے ۔وہ ہماری حکومت منتخب کرنے پر فلسطینی قوم کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ اپنے بھائیوں کی مدد سے اپنی منزل بھی کھوٹی نہیں ہونے دیں گے اور نہ اپنے موقف اور حقوق سے دستبردار ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ہمیں اس مرحلے پر عوامی سطح پر بھی مالی امداد کی ضرورت ہے جو اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے لیکن بابرکت اور عالمی دبائو سے محفوظ ہوتی ہے۔ خالدالمشعل کی گفتگو پر تبصرے اور تبادلۂ خیال بھی ہوا۔ راقم نے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی عرض کیا کہ آپ اپنے صدر اور عالمی برادری کو یہ بھی باور کروا دیں کہ اگر ہمیں ناکام کرنے کی کوششیں اسی طرح جاری رہیں تو ہم یہ حکومت ناکام کرنے والوں کے منہ پر دے ماریںگے اور اپنی تمام تر توجہ جہاد و جہدِآزادی پر مرکوز کردیں گے۔

میں نے یہی گزارش کانفرنس میںگفتگو کے دوران بھی کی تو اکثر شرکا نے تجویز کی تائید تالیوں سے کی۔ کانفرنس میں شریک تمام فلسطینی تنظیموں نے باہم اتحاد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے افغانستان کے تجربے سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا کہ ہمارے تمام افغان رہنما اتحاد کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے‘ اس کا تقاضا بھی کرتے تھے لیکن سب اپنے اپنے موقف پر بھی بضد رہے اور دشمن کی چالوں کا بھی شکار ہوتے رہے اور آج صورت حال سب کے سامنے ہے۔ فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مظلوموں کو بھی یاد کروانے کی کوشش کی کہ دونوں کے دشمن یک جان ہیں اور دونوں کو امریکی سرپرستی حاصل ہے۔

خالدالمشعل کی اس اپیل پر کہ اب وعدوں اور اقوال کو افعال میں بدلنے کی ضرورت ہے‘ ایرانی وزیرخارجہ منوچہرمتقی نے فلسطینی حکومت کے لیے پانچ کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تو ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اسی طرح اسپیکر حداد عادل نے عوام سے عطیات دینے کی اپیل کرتے ہوئے ایک اکائونٹ نمبر کھول دیے جانے کی خبر سنائی تو اس پر بھی بھرپور تحسین کی گئی۔

کانفرنس میں فلسطین کے بعد سب سے نمایاں شرکت عراقی قیادت کی تھی جن میں سے اکثریت ان شیعہ لیڈروں کی تھی جو کسی نہ کسی طور حکومت عراق کا حصہ رہے ہیں یا ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ عراق کی اسلامی تحریک ’حزب اسلامی‘ کے سربراہ بھی تھے۔ ان میں سے اکثر کے ساتھ عراق و امریکا کے حوالے سے گفتگو رہی۔ ایران امریکا تعلقات پر بھی تقریباً ہر شریکِ کانفرنس تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ کچھ کے بقول ایران پر امریکی حملہ قریب آن لگا ہے۔ ایک عراقی شیعہ لیڈر کے بقول امریکا تو شاید یہ حملہ نہ کرسکے لیکن اسرائیل کے ذریعے حملہ کروا سکتا ہے اور یہ سانحہ آیندہ دو تین ماہ میں بھی ممکن ہے۔ کچھ سفارتی حلقے یہ خیال ظاہر کر رہے تھے کہ ایران نے یورنییم کی افزودگی صرف ۵ئ۳ درجے تک کی ہے جو عالمی ضوابط کے مطابق قابل مواخذہ نہیں بلکہ پُرامن مقاصد کے لیے مفید و ضروری ہے اس لیے اس بنیاد پر حملے کا جواز آسان نہ ہوگا۔ یہ بات بھی زیرغور آئی کہ   روس اور چین ایران پر کسی امریکی بھی حملے کی راہ میں ضرور رکاوٹ بنیں گے‘ کیونکہ اس حملے سے دنیا بھر میں پٹرول کی ترسیل اس بری طرح متاثر ہوگی کہ کوئی بھی ملک اسے برداشت نہ کر پائے گا۔ سب سے زیادہ وزن اس تجزیے کو دیا جا رہا تھا کہ ایک تو عراق میں روز افزوںامریکی مشکلات‘ دوسرے ایران کی جنگی و جہادی تیاریاں امریکا کو کسی طور اجازت نہیں دیں گی کہ وہ ایران پر حملے کی حماقت کرسکے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو بھی گیا تو یہ امریکا کی آخری حماقت ہوگی جس کے بعد قدرت شاید اسے مزید مہلت نہ دے۔

ایران پر اقتصادی پابندیوں کا امکان قدرے ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے بارے میں بھی ایرانی ذمہ داران خندہ لبی سے‘ امریکا ایران سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے پر امام خمینی کا تبصرہ دہراتے ہیں‘ انھوں نے کہا تھا: ’’اگر امریکا نے کبھی کوئی نیکی ہے تو وہ یہی ہے کہ اس نے   ہم سے اپنے تعلقات منقطع کرلیے‘‘۔ اقتصادی پابندیوں کی صورت میں ہمیں زیادہ تیزی سے مکمل خودکفالت کی منزلیں طے کرنے کا موقع ملے گا۔

ایک تجزیہ نگار نے امریکا کے دہرے معیاروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ کے زمانے میں امریکا خود چاہتا تھا کہ ایران کو ایٹمی توانائی حاصل ہو۔ ۱۹۷۵ء میں ہنری کسنجر نے قرار داد ۲۹۲ پر دستخط کیے جس کے مطابق تہران و واشنگٹن کے درمیان ایٹمی تعاون شروع ہوا۔ اس سے ایک برس بعد جیرالڈفورڈ نے پلوٹونیم علیحدہ کرنے کی تنصیبات لگانے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے ایٹم بم بنانے کی راہ آسان تر ہوئی۔ اس وقت ڈک چینی اور رامزفیلڈ بھی اس ایرانی ایٹمی صلاحیت کے لیے بہت فعال تھے تاکہ اس کے ذریعے سردجنگ میں امریکا اپنے حلیف ایٹمی ممالک کی صف میں اسرائیل کے ساتھ ایران کو بھی شامل کرلے۔ یعنی مسئلہ ایٹمی توانائی حاصل ہونا یا نہ ہونا نہیں‘ اسرائیل اور بھارت کی طرح کے وفاداروں اور ہم مشربوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو پرویزمشرف جیسا خدمت گزار بھی بالآخر قابلِ گردن زدنی قرار پائے گا۔

خیر بات ہو رہی تھی امریکا اور ایران کی‘ لبنان کے ایک ہفت روزہ الامان نے پال روجرز کے ایک مقالے کا ترجمہ حال ہی میں شائع کیا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف بڑھتی ہوئی تلخی کا ایک سبب عراق میں بڑھتی ہوئی امریکی مصیبتیں ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ ایران اس ضمن میں اس کا ہاتھ بٹائے۔ اس کے بقول امریکا ساڑھے سات کروڑ ڈالر ایرانی حکومت کے خلاف قائم مختلف فارسی ٹی وی چینلوں کے ذریعے ابلاغیاتی پروپیگنڈے پر خرچ کر رہا ہے۔

جنگ کے روز بروز گہرے ہوتے بادلوں کے باوجود ایرانی عوام اور ذمہ داران میں کہیں اس امر کا تاثر نہیں ملا کہ وہ جنگ سے خوف زدہ ہیں‘ بلکہ سب اس بات پر یک زبان تھے کہ امریکا کو ایران پر حملے کا جواب صرف ایران اور خلیج ہی میں نہیں‘ دنیاکے ہراس خطے سے دیا جائے گا جہاں امریکی مفادات ہیں کیونکہ انقلاب کے ۲۷سالوں میں ایران نے اپنے ہزاروں نہیں لاکھوںبہی خواہ پانچوں براعظموں میں پیدا کیے ہیں۔ ۵۰ ہزار طلبہ تو ہر وقت صرف قم میں زیرتعلیم رہتے ہیں۔

ان تمام تجزیوں‘ ملاقاتوں اور تقاریر کے بعد دو جامع اعلامیے کیے گئے۔ ایک تو تمام فلسطینی گروپوں کی طرف سے باہم اتحاد و تعاون پر اتفاق کے بارے میں‘ اور دوسرا القدس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر اللہ رب العزت کا شکر ادا کرتے ہوئے قبلہ اوّل کے لیے مطلوبہ موقف پر مضبوطی سے ثابت قدم رہنے اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی دامے درمے سخنے قدمے مدد کرنے کا عہد مصمم کرنے کے بارے میں۔ یہ پورا جامع اعلامیہ کانفرنس کی ویب سائٹ www.icpalestine.ir   پر دستیاب ہے۔