مئی ۲۰۰۹

فہرست مضامین

رکو نہیں ، تھمو نہیں کہ معرکے ہیں تیز تر

سیّد منور حسن | مئی ۲۰۰۹ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

تمام تعریفیں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کے لیے سزاوار ہیں۔ درود و سلام ہو انبیا علیہم السلام، خصوصاً خاتم النبیین پر، آپؐ کے اصحابِ کرام اور اہلِ بیت پر اور اُمت کے صدیقین، شہدا اور صالحین پر۔

سب سے پہلے میں اپنے آپ کو اور اس کے بعد تحریکِ اسلامی کے تمام وابستگان اور  محبان کو اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ موت کو یاد رکھنے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی تاکید کرتا ہوں۔ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی محبت دل میں بسانے اور آپؐ کی اتباع کی تاکید کرتا ہوں۔

مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی ذمہ داری (چھوٹی ہو یا بڑی، جُزوی ہو یا کُلّی) دینی  نقطۂ نظر سے نہایت سنجیدہ، نازک، گراں بار اور آزمایشوں سے پُر فریضہ ہے۔ اگر بے طلب ملی ہو تو حدیثِ مبارکہ کے مطابق اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی تائید و نصرت اور رہنمائی و دست گیری کی اُمید رکھنی چاہیے۔ بس یہی احساس ہے جس کے نتیجے میں، جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی گراں بار ذمہ داری کا حلف میں نے اٹھایا ہے۔ کہنے کو تو یہ حلفِ امارت محض چند فقرے ہیں، لیکن انھیں  پڑھ کر ذمہ داریوں، تقاضوں اور جواب دہی کے اُمور کا ایک پہاڑ ہے جس کے نیچے انسان آجاتا ہے۔ ایسے میں خلیفۃ الرسولؐ، ثانی اثنین، رفیقِ بے مثل حضرت ابو بکر صدیقِ اکبرؓ کا وہ ارشاد یاد آرہا ہے کہ ’’لوگو!میں تمھارا امیر بنا دیا گیا ہوں۔ میں ہرگز تم سے بہتر اور برتر نہیں ہوں۔ سو، اگر میں سیدھے راستے پر چلوں تو میری مدد کرواور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے…… جب تک میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اِطاعت کروں، تم میری اطاعت کرو اور اگر میں اﷲ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم لوگوں پر میری اطاعت لازم نہیں‘‘۔ اسی طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے ذمہ داری کا بوجھ اٹھاتے وقت اپنے احساسات جن الفاظ میں بیان فرمائے، وہ بھی دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔

جماعت اسلامی کی امارت اگرچہ پوری اُمت کی امارت کی مانند تو نہیں، لیکن بہرحال   یہ جماعت، اسلام کی نشاتِ ثانیہ اور غلبۂ دین، بلکہ اِقامتِ دین کے لیے برپا عصرِحاضر کی نہایت اہم اور کلیدی تحریک ہے۔ محترم سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے بعد ارکانِ جماعت نے مجھے امارت کا بوجھ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ اپنی تمام تر کمزوریوں اور اپنے احساسِ کم مایگی کے باوجود میں نے جماعت کے طے شدہ طریقِ کار اور دستوری نظام کی پاسداری کرتے ہوئے حلفِ امارت اس اُمید پر اٹھا لیا ہے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کی دعائوں، مشوروں، تعاون اور نظامِ جماعت کی برکتوں کے طفیل مجھے اپنی رحمت و برکت اور تائید و نصرت سے نوازے گا۔ ہم سے کام تو اُس کو لینا ہے۔ ہم اپنی ایڑیاں رگڑتے رہیں گے، چشمہ نکالنا اُس کا کام ہے۔ سو میرے بھائیو اور بہنو! میری گزارش ہے کہ اپنے اس بھائی کو اپنی دعائوں میں شامل رکھیے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ میرے مزاج کے حوالے سے بہت سے رفقا کو گلہ ہے کہ اس میں تیزی اور تندی ہے۔ یقین رکھیے یہ تیزی یا تندی اﷲ اور اس کے دین کے لیے ہوتی ہے۔ ذاتی پرخاش سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ تاہم دعا کیجیے کہ میرے تحمل میں اضافہ ہو، مزاج کی تیزی اور تندی، نرمی اور حلاوت میں تبدیل ہو جائے۔ حق اور راستی کے سامنے میرا دل و دماغ اور مزاج و طبیعت ویسے ہی سرافگندہ ہوجایا کریں جیسے خلیفۂ بے مثل سیدنا عمر فاروقؓ کے معاملہ میں دنیا نے دیکھا اور برتا۔

جماعت اسلامی میں امارت کی تبدیلی کئی اہم اور تابناک پہلو رکھتی ہے۔ صرف دو کا تذکرہ تحدیثِ نعمت ِ اجتماعی کے لیے کرنا چاہوں گا:

ا - جماعت اسلامی پاکستان کا کوئی امیر دوسرے امیر کا نہ رشتہ دار ہے، نہ ہم قبیلہ۔ ان کے خاندان جدا ہیں۔ ان کی نسلی اور علاقائی شناخت الگ ہے۔ ان کے درمیان صرف ایک تعلق اور رشتہ ہے، مقصد اور مشن کا۔ یہ بات اس برعظیم (پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش) کے معمول اور رواج میں بڑی حیران کن بھی ہے اور منفرد و ممتاز بھی۔

ب- جماعت میں امارت کے انتخابات ایک تسلسل اور تواتر سے ہوتے رہے ہیں۔ کسی ایمرجنسی میں، کسی ہنگامی صورت حال میں اور کسی بھی بحران میں انتخابِ امیر کا عمل نہ رُکا ہے اور نہ مؤخر ہوا ہے۔ بڑی باقاعدگی سے ہر پانچ سال کے بعد امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔ دستور کی دفعات کی پابندی کرتے ہوئے مجلسِ شوریٰ کے طے کردہ ضوابط اور جماعت کی مستحکم روایات اور طریقِ کار کے مطابق جماعت اپنے امیر کا انتخاب کرتی آئی ہے۔ اس میں نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے، نہ انتخابی مہم چلتی ہے، نہ بوگس ووٹنگ ہوتی ہے، نہ کوئی جیتتا ہے، نہ کوئی ہارتا ہے، نہ انتخاب کے بعد الزامات کا تبادلہ ہوتا ہے اور نہ کوئی تلخی ہی پیدا ہوتی ہے۔

اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَ لَکَ الشُّکْرُ

ہم جیسے انسانوں کی اجتماعیت اگر اِن خوبیوں سے مرصع ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ اس پر  اﷲ کا ہاتھ ہے اور یہ ہاتھ اُس وقت تک رہے گا جب تک ہماری اجتماعیت میں خلوص اور خیر غالب رہے گا۔ اللھم زد فزد۔

جماعت اسلامی ۱۹۴۱ء میں قائم ہوئی۔ پاکستان بننے کے بعد اس کی تنظیمِ نو ہوئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس جماعت کا بنیادی مقصد اﷲ کے بندوں کو اﷲ کی بندگی کی طرف بلانا رہا ہے، دین و ملت کو کمزوری و مغلوبیت سے نکال کر قوت و سرفرازی اور غلبہ و عملداری کی طرف لے جانا رہا ہے۔ اس لیے یہ ’اقامتِ دین‘ کی تحریک ہے۔ یہ دین کو جزوی اور سطحی طور پر نافذ کرنے کی نہیں، اس کو مکمل، صحیح اور جامع صورت میں قائم کرنے کی تحریک ہے۔ یہی ہمارا نقطۂ نظر ہے، ہمارا مطمحِ نظر ہے، ہماری زندگی کا مشن ہے۔ اس کام کو ہم بہت سے کاموں میں سے ایک نہیں، بلکہ اصل، بنیادی اور مرکزی کام سمجھتے ہیں۔ اسی میں اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا اور اُس کی جنت تک جانے کا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ بقول سید مودودیؒ ہم دنیا کے دیگر کام تو زندہ رہنے کے لیے کرتے ہیں، مگر زندہ ہیں رضاے الٰہی کی طلب میں اور اِقامتِ دین کی جدوجہد کرنے کے لیے۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ’اقامتِ دین‘ کے لیے انفرادی، جزوی اور منتشر جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اس مقصد کے لیے اجتماعی، ہمہ پہلو، ہمہ گیر، جامع، مربوط، مسلسل اور منظم جدوجہد درکار ہے۔ گویا ’اقامتِ دین‘ کے لیے ’اِقامت ِ جماعت‘ ضروری ہے۔ اسی لیے ہم نے اپنی فہم کے مطابق ایک نظامِ جماعت بنایا ہے۔ جماعت اسلامی، اس کا دستور اور ادارے ’اقامت ِ جماعت‘ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں اور خود جماعت ’اقامت ِ دین‘ کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں جماعت اسلامی کسی خاص گروہ، قبیلہ، رنگ، نسل، زبان، علاقے، فرقے، مسلک کے لوگوں کی جماعت نہیں اور نہ ہماری دعوت کی بنیاد ہی ان میں سے کسی بات پر ہے۔ یہ ایک اصولی اور نظریاتی جماعت ہے۔ یہ اسلامی نظریہ و نظام اور معاشرہ و تہذیب کی طرف بلاتی ہے۔ یہ جماعت تو اپنے امیر کی طرف بھی نہیں بلاتی بلکہ خالص اور مکمل دین کی بات کرتی ہے، مسلمانوں کو اس کے تقاضوں کی یاد دہانی کراتی ہے، اور غیرمسلموں کو بتاتی ہے کہ قرآن    ہمارے لیے بھی ہے اور تمھارے لیے بھی۔ یہ ہمارے اور تمھارے رب کی طرف سے آیا ہے اور یہ کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہر انسان کے لیے رحمت و ہدایت کی روشنی بن کر آئے تھے۔ آئو  ہم سب اس روشنی سے اپنی زندگیاں منور کر لیں۔

’اِقامتِ دین‘ کا تصور دین کی اجتماعی عمل داری میں خلل واقع ہونے اور ملّت کی  عمارتِ اجتماعی کے منہدم ہونے سے ابھر اہے۔ یوں تو یہ فریضہ پوری امت پر عائد ہوتا ہے کہ  دین کو پھر سے قائم کر کے دنیا کو اس کی برکتوں میں شریک ہونے کی دعوت دے۔ مگر بدقسمتی سے سب لوگ اس کام میں شریک نہیں۔ لہٰذا ہم نے اس آیت کے مصداق یہ جماعت بنائی ہے جو اِقامتِ دین کا مشن لے کر مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (اٰل عمرٰن ۳:۱۰۴)

جماعت نے اپنی جدوجہد کے لیے قرآن و سنت کی رہنمائی میں جو طریقِ کار طے کیا ہے، وہ اس کے دستور اور بنیادی لٹریچر میں درج ہے۔ ہماری جدوجہد اسی کے مطابق ہے، مسلسل جدوجہد۔ لیکن ظاہر ہے کہ غلبۂ دین کی جدوجہد نہ ماضی میں آسان تھی اور نہ آج سہل ہے۔ اس میں طبیعتوں اور مزاجوں کی آزمایشیں بھی ہیں اور جی جان کا زیاں بھی۔ حصولِ دنیا پر قدغنیں بھی ہیں اور صبر و ثبات کی مشکل گھاٹیاں بھی۔ تھکا دینے والی ’اَن تھک‘ سعی و جہد کا لامتناہی سلسلہ بھی ہے اور نت نئے چیلنجوں اور تقاضوں کا کوہِ گراں بھی۔۔۔ اِقامتِ دین اور رضاے الٰہی کی مسلسل جدوجہد کے پل صراط سے گزرنے کے لیے مضبوط ایمان، پختہ ارادہ، گہری بصیرت، دانائی و حکمت، دل موہ لینے والا حسنِ اخلاق، مستحکم اور جاذبِ نظر شخصیت، خلوصِ نیت اور دل کی لگن درکار ہے۔ ورنہ لذات و خواہشات کے اس بت خانۂ جہاں میں پوری عمر کا سودا کر کے اسے دمِ آخر تک نبھانا کس کے بس میں ہے۔ ہم یہ خصوصیات اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پیدا کریں اور پھر اپنے رب کی مدد کے اُمیدوار ہوں، تب بات بنے گی۔ تبھی بات بن سکتی ہے۔

آج پوری دنیا اور خصوصاً ملتِ اسلامیہ کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی وسعت و سُرعت نے سب پر سب کچھ عیاں کر دیا ہے۔ اب صرف وہی بے خبر رہ سکتا ہے جو بے خبر رہنے کا طے کیے بیٹھا ہو۔ ورنہ استعمارِ جدید اور اس کی یلغار، اس کا ایجنڈا اور اس کی پیکار، اس کا طریقِ واردات اور اس کے ہتھکنڈے اور ہتھیار تو ظاہر و باہر ہیں۔ ان کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے اور نہ اس کی ضرورت۔ البتہ اگر ضرورت ہے تو اس بات کی کہ پوری امت کو خصوصاً اور کرۂ ارض پر آباد بنی آدم کو عموماً بیدار کیا جائے، ہوشیار کیا جائے اور تبدیلیِ حالات کے لیے آمادہ و تیار کیا جائے۔ یوں بھی یہ دنیا اب عالم گیریت (globalization) کے مرحلے میں ہے۔ ہر ایک ہر ایک سے متعلق ہو گیا ہے، سب لوگ سب لوگوں سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ کوئی اگر چاہے کہ دنیا سے، احوالِ دنیا سے، حوادثِ زمانہ سے کٹ کر، لاتعلق ہو کر جی سکتا ہے تو کم از کم اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ سب ایک دوسرے سے متاثر ہوتے اور ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔ عالمی طور پر مربوط ایسی دنیا میں آنکھیں کھلی رکھنا، ذہن و قلب کو بیدار رکھنا اور ’’چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو‘‘ کا مصداق بننا ضروری بھی ہے اور مفید بھی۔ آپ ہوں، آپ کی مربوط و منظم جدوجہد ہو، عام آدمی کی سطح پر آپ معاشرے میں موجود اور اس سے جُڑے ہوئے ہوں، آپ کی پشت پر انسانوں کا بحرِ بیکراں ہو، ایک مشن کی لگن ہو، نقشۂ کار واضح ہو، منزل کا پتا یاد ہو، جذبے صادق ہوں، اﷲ پر بھروسا ہو، نظم و ضبط اور ڈسپلن کا بے مثل مظاہرہ ہو، اپنے وقت، صلاحیت اور مال کا بیش قدر حصہ تحریک کی جھولی میں ڈالنے کا جذبۂ فراواں ہو اور صبر و حکمت کی ڈھال ہو تو منزلیں خود پکارتی چلی آتی ہیں۔ توسیعِ دعوتِ دین کی منزل، غلبۂ دینِ مبین کی منزل، رضاے ربِ متین کی منزل۔۔۔!!

ہم کسی کے دشمن نہیں، کسی کے بدخواہ نہیں اور نہ کسی انتقامی طرزِ فکر کے علَم بردار ہیں۔ تمام بنی نوعِ آدم سے ہمیں ہمدردی ہے، ہم اُن کے خیرخواہ ہیں اور اِسی لیے ہماری دعوت کے مخاطب ہرملک اور خطے میں بسنے والے تمام انسان ہیں، خواہ اُن کا تعلق کسی رنگ و نسل سے ہو، کسی جنس و ذات سے ہو، یا کسی مذہب و مسلک سے۔ ہمارے دین نے ہر انسان کو ایک خاص نوعیت کی آزادی عطا کی ہے۔ ہم اس کا احترام کرتے ہیں اور دوسروں سے اپنے اِسی حقِ آزادی کے احترام کا تقاضا کرتے ہیں۔ اپنی آزادی کا تحفظ ہمارا حق ہے۔ اگر کوئی ہماری یہ آزادی سلب کرنا چاہے تو یقینا ہم اپنے دفاع کا بھی حق رکھتے ہیں۔ مسلمان اور خصوصاً ’ملّتِ اسلامیہ پاکستان‘ جن استعماری حملوں کی زد میں ہے، اُن سے بچائو ان کا حق ہے اور اس میں ان کا ساتھ دینا ساری دنیا کے انسانوں کا فرض ہے۔

اﷲ کی یہ دنیا ہمیشہ تبدیلیوں کی زد میں رہی ہے، مگر تبدیلیوں اور انقلابات کی جو رفتار آج ہے، غیرمعمولی واقعات کے ظہور کا جو سلسلہ اب ہے، یہ پہلے نہیں تھا۔ ہم نے اپنی حیاتِ مستعار میں ملکوں کو ٹوٹتے اور بنتے، سپر پاورز کو ابھرتے اور ڈوبتے، غیرمعمولی کائناتی وسائل کو انسان کی گود میں تیزی سے گرتے، ممولوں کو شہبازوں سے پنجہ آزمائی کرتے اور دیوِ استبداد کو برف کی طرح پگھلتے دیکھا ہے۔ پچھلے چند عشروں میں ناقابلِ شکست کو سرنگوں ہوتے، ناقابلِ تسخیر کو مسخر ہوتے اور اٹل سمجھی جانے والی شے کو ٹلتے بلکہ پلٹتے دیکھا ہے--- جی ہاں پچھلے چند عشروں میں دنیا نے   یہ سب دیکھا ہے اور حیرت سے دیکھا ہے۔ مگر ہم حیران نہیں۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ (القصص ۲۸:۸۸)’’ہر شے ختم ہو جانے والی ہے، اُس ذاتِ لافانی     کے سوا‘‘۔ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (اٰلِ عمران ۳:۱۴۰) ’’یہ تو زمانے کے  نشیب و فراز ہیں، جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں‘‘۔

تیزی سے بدلتے اس جہاں میں خدشات و بلیّات کی کالی گھٹائیں بھی ہیں اور مواقع اور برکتوں کے روشن امکانات بھی۔ دنیا بدل نہ رہی ہو تو اسے بدلنا اور اپنے مطلب کی بدلنا بہت دشوار و محال ہے۔ مگر جب سب کچھ بدل رہا ہو، بار بار بدل رہا ہو، ہر نسل ایک جہانِ نو کا مشاہدہ کر رہی ہو تو ایسے میں دنیا کو اپنے خوابوں کے مطابق بنانا، اپنی امنگوں اور آرزوئوں کے سانچے میں ڈھالنا اور اپنے اصولوں کی بنیاد پر استوار کرنا اس سے کم دشوار و محال ہونا چاہیے۔ امکانات کے در کھلتے اور کام کے مواقع بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اسی کے ساتھ جہانِ نو کے چیلنج اور تعمیرِ جہاں کے منہ زور تقاضے بھی سیلِ بلا کی طرح سر پر کھڑے ہیں۔ حکمت و تدبر، صبر و تحمل اور جرأت و حوصلے کے ساتھ قدم بڑھا کر ہم بدلتی دنیا پر اپنا نقش ثبت کر سکتے ہیں۔ پگھلتا لوہا دستیاب ہے، اپنے سانچے میں انڈیلنے اور مطلوبہ پراڈکٹ حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ وقت،  زیادہ صلاحیت، زیادہ یکسوئی، زیادہ اتحاد و اتفاق اور اسی کے ساتھ زیادہ اخلاص، زیادہ حسنِ اخلاق اور زیادہ تعلق باﷲ۔ یہ ہمارا زادِ راہ ہے۔

ہمارا ملک پاکستان بظاہر ایک جغرافیائی وجود ہے مگر اس کی اصل و بِناے حیات ’اسلام‘ ہے۔ اسلامی اقدار، اسلامی اخوت، اسلامی تصورِ حیات، اسلامی نظامِ حیاتِ اجتماعی اور اسلامی تہذیب و تمدن ہی سے ہمارے ملک کی بقا، استحکام، سرفرازی اور ترقی ممکن ہے۔ اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف جو کچھ کیا جارہا ہے، چاہے وہ کسی کے دبائو پر ہی کیوں نہ ہو، یہ دراصل ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے اور شجرِ ملت کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔ ایسا کرنے والوں کو ہمیں سمجھانا ہوگا، اس کام سے روکنا ہو گا، ملت کو اس کے لیے بیدار اور متحرک کرنا ہو گا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے موقف، نظریے، طریقِ کار اور جدوجہد پر ہمیں کامل یکسوئی حاصل ہو، اور اس پر پختہ اعتماد و یقین کے ساتھ ہمارے دل پوری طرح مطمئن ہوں۔

قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَo(الانعام ۶:۱۶۱-۱۶۳) اے نبیؐ! کہیے، میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیم ؑکا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہیے، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اﷲ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اِسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔

آئیے! دنیا کے موجودہ نظریاتی، روحانی اور ایمانی خلا کو اپنے دین کے بخشے ہوئے ایمان و اخلاق سے پُر کر دیں۔ راہِ نجات کی متلاشی دنیا کو ربانی ہدایت کے چشمۂ صافی سے سیراب کردیں۔ استعمارِ عہدِ حاضر کے ہاتھوں برباد ہوتی انسانیت کو رحمت للعالمینؐ کے نسخۂ کیمیا سے شفایاب ہونے کی راہ دکھا دیں۔

جماعت اسلامی اپنی عمر کے تقریباً ۷ عشرے پورے کر چکی ہے۔ اس کا نظام، اجتماعی دانش اور باہمی مشاورت سے چلتا ہے۔ اس میں یک لخت کوئی تبدیلی لے آنا نہ تو ممکن ہے اور نہ مفید۔ لیکن وقت و حالات کے تقاضوں کو اپنے اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے پورا کرنا ضروری بھی ہے اور ہماری ذمہ داری بھی۔ میں کوشش کروں گا کہ اپنے بزرگ ساتھیوں، اپنے رفقاء کار اور اپنے بہی خواہوں کے مشوروں سے جماعت کا نظام چلائوں اور اہداف کے حصول کے لیے مناسب اِقدامات کروں۔ اس سلسلے میں ہم مرکزِ جماعت میں ایک شعبۂ تجاویز قائم کر رہے ہیں۔ جماعت کا کوئی بھی کارکن یا بہی خواہ اپنی تجاویز اور مشورے ہمیں ارسال کرے گا تو ہم اس شعبے میں انھیں باقاعدہ زیرِ غور لائیں گے اور جماعت کی اجتماعی بصیرت اور نظامِ مشاورت کے مطابق حتی الامکان مفید تجاویز پر عمل کی کوشش کریں گے۔ تاہم یاد رہے کہ تجاویز اور مشوروں میں سے بعض کو ہی اختیار کرنا ممکن ہوتا ہے۔

اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ امت اور تحریکِ اسلامی کے سامنے نت نئے ابھرتے چیلنجوں اور    وقت و حالات کے سیلابِ بلاخیز کے مچلتے تقاضوں کا ہمیں پورا شعور دے۔ ان کا سامنا کرنے کے لیے پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان دے۔ صبر و حکمت سے تبدیلیِ حالات کا رخ اپنے نقشے کے مطابق موڑنے کی قوت و طاقت دے۔ ہماری دعوت، موقف اور جدوجہد کی قبولیت کے لیے اپنے بندوں کے دل کھول دے۔ ہماری بے کسی و ناتوانی کو زور اور قوت میں بدل دے۔ ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کو اپنی رحمت سے دور فرما دے۔ ہم سے راضی رہے اور ہمیں اپنے آپ سے     راضی رکھے۔ دنیا میں بھی ہماری جدوجہد کے ثمرات و برکات دکھا کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرے اور آخرت میں ہمیں نبیِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت و قربت کا اعزاز بخشے، آمین!

میرے لیے خصوصی دعا فرمائیے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ مجھے صحت و توانائی، علم و حکمت،  ایمان و اخلاقِ حسنہ، قوتِ فیصلہ و نافذہ، تدبر و بصیرت، بہترین اعوان و انصار اور محبان و مشیران کی نعمتوں سے متمتع کرے تاکہ آپ کا یہ نیا امیر خود بھی سرخرو ہو اور پوری جماعت کی سرخروئی کا بھی سبب بنے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۷)

وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (البقرہ ۲:۱۲۸)