مئی ۲۰۱۲

فہرست مضامین

فروعی مسائل اور علما کی ذمہ داری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ | مئی ۲۰۱۲ | فقہ و اجتہاد

Responsive image Responsive image

حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ غالباً وہ پہلے انسان ہیں جو امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے ایک مشہور شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ’’دینی معاملات کو کس نے خراب اور فاسد کیا ہے، سواے حکمرانوں اور علما کے‘‘۔ گویا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلم معاشرے میں بالخصوص اور انسانی معاشرے میں بالعموم جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو دو طبقوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ایک اس طبقے کی وجہ سے جو کسی ملک میں کسی نہ کسی حیثیت میں حکمرانی یا ذمہ داری کے منصب پر فائز ہوتا ہے، اور دوسرا علماے کرام جس سے مراد صرف  علماے دین نہیں بلکہ معاشرے کے وہ تمام لوگ ہیں جو کسی بھی اعتبار سے علمی و فکری رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوں۔ گویا اُمت یا قوم کے سیاسی، فکری اور دینی قائدین اگر اچھے ہوں اور درست راستے پر گامزن ہوں تو پھر اُمت درست راستے پر گامزن رہتی ہے، اور اگر یہ طبقے راہِ راست سے ہٹ جائیں تو بالآخر اُمت بھی راستے سے ہٹ جاتی ہے۔

یہ وہی چیز ہے جس کو ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا:’’تمھارے بہترین ائمہ وہ لوگ ہیں کہ جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، تم ان کے لیے دعاے خیر کرتے ہو وہ تمھارے لیے دعاے خیر کرتے ہیں، اور تمھارے بدترین ائمہ وہ ہیں کہ تم ان پر لعنتیں بھیجو وہ تم پر لعنتیں بھیجیں،   وہ تم سے نفرت کریں، تم ان سے نفرت کرو‘‘۔ یہاں بھی ائمہ کا لفظ کسی خاص شعبے کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ ہراس فرد کے لیے استعمال ہوا ہے جو اُمت میں قیادت اور امامت کا مقام رکھتا ہے۔ وہ تعلیم میں قیادت ہو، امامت ہو، مسجد کی امامت ہو، فکر کی امامت ہو، سیاست کی امامت ہو یا کسی بھی طرح کی امامت۔ اگر تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ وہ بہترین لوگ ہیں جو اُمت سے اخلاص رکھتے ہیں، اُمت ان کے اخلاص کی قدر کرتی ہے، اس کی وجہ سے ان کے لیے دعاگو ہے، ان سے محبت کرتی ہے اور وہ اُمت سے محبت کرتے ہیں، تو پھر وہ بہترین قیادت ہے۔

عصرِحاضر اور علما کی ذمہ داری

ان دونوں اقوال کی روشنی میں جن میں سے ایک حدیث پاک ہے اور ایک عظیم محدث اور امام اسلام کا قول ہے، دیکھا جائے تو ائمہ کرام، خصوصاً دینی ائمہ کرام کی ذمہ داری نہایت ہی نازک اور بھاری ہوجاتی ہے۔ خاص طور پر دورِ جدید میں یہ ذمہ داری بہت زیادہ نازک ہوگئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو مغرب کی طرف سے بڑھتا ہوا سیکولرزم ہے جو ایک طوفان کی طرح دنیاے اسلام کو اپنے گھیرے میں لے رہا ہے۔ مغرب نے اپنے تاریک ادوار کے ایک ہزار سال کے ناگفتہ بہ تجربات کے بعد سیکولرزم کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھا، اور یہ محسوس کیا کہ ان کے مصائب اور مشکلات کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مذہب اور سیاست یک جا تھے۔ ان کا مذہب اور ان کی سیاست یک جا نہیں ہوسکتے تھے، اس لیے انھوں نے ان دونوں کو الگ الگ کردیا۔ اس علیحدگی کے بعد وہ بڑی حد تک ان مصائب سے آزاد ہوگئے جن کا وہ ایک ہزار سال شکار رہے، لیکن کچھ نئے مصائب کا بھی شکار ہوگئے۔

مشکل یہ ہوئی کہ اگر یہ چیز مغرب تک محدود رہتی تو ہمارے لیے زیادہ قابلِ اعتراض بات نہیں تھی۔ ایک علمی سوال تھا کہ ان کی تاریخ میں ایسا کیوں ہوا؟ اصل خرابی اس لیے پیدا ہورہی ہے کہ وہ نتائج جو مغرب میں ان کی خاص تاریخ اور خاص ماحول کے پیداوار تھے، مغرب کے   موجودہ سیاسی اثرورسوخ، اس کی عسکری طاقت، اس کی اقتصادی خوش حالی ، اور دنیوی معاملات میں ان کے کنٹرول کی وجہ سے دنیاے اسلام میں درآمد بلکہ مسلط کیے جارہے ہیں۔ حالانکہ نہ دنیاے اسلام کی تاریخ ریاست اور مذہب میں وہ کش مکش رہی ہے جو یورپ میں ایک ہزار سال موجود رہی، نہ وہ قباحتیں دنیاے اسلام میں پیدا ہوئیں، نہ یہاں وہ احتسابی عدالتی نظام تھا جس نے سیکڑوں ہزاروں نہیں، لاکھوں انسانوں کو مذہب کے نام پر موت کے گھاٹ اُتارا، نہ یہاں عقل و شعور کی ہرکاوش کا یہ کہہ کر انکار کیا گیا کہ فلاں مذہبی پیشوا اور فلاں مذہبی ادارہ اس سے اتفاق نہیں کرتا، نہ لوگوں کو  اس لیے سزاے موت دی گئی ہے کہ انھوں نے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کوئی سائنسی نتیجہ بیان کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ سارے معاملات دنیاے اسلام میں نہیں تھے۔

دنیاے اسلام میں تو پہلے دن سے عقل اور وحی کے درمیان اتنی ہم آہنگی، یکسانیت اور قرب تھا کہ اسلام کی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا کہ عقل اور وحی یا دین اور دنیا یا مذہب اور غیرمذہب دو متعارض کیمپوں میں تقسیم ہوئے ہوں۔ ہمارے ہاں تو وہ لوگ بھی جو مذہبی فکر کے ترجمان نہیں سمجھے جاتے، ایک طرح سے اسلامی فکر کے دائرے کی حدود میں رہے، کبھی حدود سے باہر سمجھے گئے، اور کبھی حدود کے اندر خیال کیے گئے۔ خالص فلسفی، ابن سینا اور فارابی جیسے لوگوں کی مثال دیکھیے کہ کسی نے انھیں اسلامی فکر کا مسلم نمایندہ قرار نہیں دیا اور وہ فلاسفہ کے نمایندہ رہے۔  اگر یہ کہا جائے کہ مغرب کی تاریخ میں جو بہترین مذہب کے علَم بردار تھے، یہ لوگ ان سے زیادہ مذہبی تھے تو غلط نہ ہوگا۔ یورپ کی تاریخ میں مذہب کے جو بہترین نمایندے رہے ہیں، مثلاً سینٹ نامس کناس کہ جن کو مسیحیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سینٹ پال کے بعد تیسرا بڑا مجدد جانا جاتا ہے، اس سے بھی زیادہ یہ لوگ مذہبی اور دینی خیالات سے قریب تر تھے۔ انھوں نے جس طرح عقل اور دین کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، جس طرح سے دینی عقائد اور دینی تصورات کو عقلیات کی زبان میں کامیابی سے بیان کیا، ان کی مثالیں یورپ کی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتیں۔

اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنج

ہمارا بڑا المیہ یہ ہے کہ ہمارے دانش وروں نے نہ اپنی تاریخ کا مطالعہ کیا، نہ مغربی تاریخ کا، نہ دیکھا کہ ہمارے ہاں کیا خرابیاں تھیں اور کیا نہ تھیں۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں خرابیاں نہ تھیں، لیکن جو خرابیاں تھیں ان کو کسی نے دیکھا نہیں، اور جو خرابیاں نہیں تھیں ان کو زبردستی اپنے اندر مان لیا اور ان خرابیوں کو ماننے کے بعد وہ نتائج بھی خود بخو د تسلیم کرلیے جو یورپ میں ان خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اس سے دنیاے اسلام میں سیکولرزم کو فروغ ملنا شروع ہوگیا۔ سیکولرزم کے فروغ کے نتیجے میں ایک ایسی صورت حال انڈونیشیا سے مراکش تک موجود ہے، جو  بین الاقوامی قوتوں کے مفاد کی وجہ سے شدید تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ کس طرح سے مذہب کے دائرے کو زیادہ سے زیادہ محدود کردیا جائے، اور ریاستی اور سرکاری،اجتماعی ، قانونی، اقتصادی اور تہذیبی معاملات سے دین و مذہب کو نکال کر مذہب اور اخلاق کا دائرہ محدود کردیا جائے۔

یہ ہے وہ چیلنج جو دنیاے اسلام کو آج درپیش ہے۔ بظاہر یہ فکری اور علمی مسئلہ ہے جس کا روزمرہ کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن آج دنیاے اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کا گہرائی سے جائزہ لیں اور فکری سطح پر دیکھیں کہ اس کے اسباب کیا ہیں، تو یہی بنیادی سبب نظر آئے گا کہ دنیاے اسلام کے خاصے قابلِ ذکر حصے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جس طرح سے مغرب ایک خاص رُخ پر مذہب اور سیاست کو الگ الگ کرنے پر مجبور ہوا، دنیاے اسلام کو بھی اسی نتیجے پر پہنچنا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قوانین بنیادی حقوق سے متعارض ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ  فلاں قسم کے نظام سے معاشرے میں امتیاز اور فرق پیدا ہو رہا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ فلاں قسم کا نظام اگر آیا تو ریاست کے فلاں مفاد کو زد پہنچے گی۔ ریاست کے مفاد کو زک پہنچنے، امتیازی قوانین اور بنیادی حقوق کی یہ باتیں بظاہر خوب صورت عنوانات ہیں لیکن ان عنوانات کے پردے میں جو گفتگو کی جارہی ہے اس پر غور کریں تو بالآخر جو بنیاد نکلے گی، وہ یہی ہے کہ ریاست یا مذہب کو اور مذہب یا زندگی کے معاملات کو الگ الگ ہونا چاہیے۔ میرا مذہب کیا ہے اس سے آپ کو سروکار نہیں، اور آپ کا مذہب کیا ہے مجھے اس سے سروکار نہیں۔ یہی چیز اسلام کے بنیادی تصور سے متعارض ہے۔

سیکولرزم اور اسلام کا بنیادی فرق

حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری شناخت ہی مذہب ہے۔ مسلمان کے ہاں ہر اچھائی اور برائی کا تعین مذہبی حوالے سے ہوتا ہے۔ اخلاق اور قانون کا تعلق مذہب سے ہے، تہذیب کا  تعلق مذہب سے ہے، اور کوئی چیز مذہب کے اس دائرے سے خالی نہیں جو قرآن مجید اور  صاحب ِ قرآن مجید کے اقوال میں موجود ہے۔ یہاں تو قانون کا بھی بنیادی حوالہ بالآخر مذہبی کتاب ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ بھی مذہبی کتاب ہے، جب کہ وہاں یہ چیز ناقابلِ تصور ہے کہ ایک مذہبی کتاب کا دورِ جدید کے اقتصادی معاملات سے کیا تعلق؟ ہمارے دینی قائدین جزئیات پر تو بہت زور دیتے ہیں لیکن اس مسئلے کی اصل جڑ پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ علماے کرام، دینی قائدین اور دینی فکر کے لوگوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ اسلوب ذہن نشین کروائیں کہ حق ایک ہے اور اس میں کوئی تفریق دین و دنیا کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی۔ جب یہ تفریق ہوگی تو ہوس پر ہوگی   ؎

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ، ہوس کی وزیری

پھر انسانی خواہشات اور انسانی شہوات کی بالادستی ہوگی۔ جب بالادست طاقت کے احکامات چلیں گے، جیساکہ دنیا میں چل رہے ہیں، تو پھر جو کمزور ہے وہ بتدریج مجبور ہوتا جائے گا۔ روزانہ کمزور سے مطالبہ کیا جائے گا اور بالادست روزانہ آگے بڑھتا جائے گا تاآنکہ وہ یہ تسلیم کروا لے کہ دین و مذہب الگ الگ چیزیں ہیں اور مذہب کا اجتماعی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب تک یہ اصول مسلمان تسلیم نہیں کرے گا اس وقت تک ان کے مطالبات جاری رہیں گے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ، جس نے اکثر و بیش تر مغربی ماحول میں تعلیم پائی ہے اور جو مغربی یونی ورسٹیوں کا پڑھا ہوا ہے، اس میں بڑے ماہر، بڑے اچھے، بڑے مخلص اور محب وطن لوگ ہیں، لیکن مخلص اور محب وطن ہونا کافی نہیں ہوتا جب تک ذہن کی بنیاد درست نہ ہو۔ جب تعمیر میں بنیادی کج ہوجائے تو    ؎

خشت اوّل چوں نہج معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

اس بنیاد کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کہ قرآن مجید ہر سچائی اور ہرصداقت کا سرچشمہ ہے، اگر تسلیم ہے تو اس کے بعد پھر سب حوالے ختم ہوجانے چاہییں۔ کسی بڑے سے بڑے انسان کی عقل، تجربہ، حتیٰ کہ کسی بڑی سے بڑی تہذیب کی کوئی تہذیبی سچائی یا کلیہ ، اگر  قرآن مجید سے متعارض ہے تو وہ ناقابلِ قبول ہے۔ جب تک یہ معیار لوگوں کے ذہن نشین نہیں ہوگا، اس وقت تک یہ جزوی مسائل اُٹھتے رہیں گے اور لامتناہی سوالات کا سلسلہ جاری رہے گا۔ علماے کرام کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بنیادی سوال کے جواب کو جو ایک رویے کاسوال ہے، پہلے واضح کردیں اور لوگوں کا ذہن اس معاملے میں صاف کریں۔

دین کی بنیاد کلیات، نہ کہ جزئیات

دوسری بڑی ذمہ داری جو دورِ جدید میں علماے کرام پر خاص طور پر آگئی ہے، وہ یہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال سے ان کا ایک خاص کردار مسلم معاشرے میں رہا ہے۔ وہ کردار اُس معاشرے میں واضح ہوا جہاں اسلامی قوانین، اسلامی احکام، اسلامی اخلاق، اسلامی کردار قائم اور جاری و ساری تھا۔ اگر ایک چیز اسلامی خطوط پر قائم ہے، معاشرہ اسلامی اساس پر کارفرما ہے، اسلامی قوانین عدالتوں میں نافذ ہیں، لوگوں کی زندگیاں اسلامی ہیں، لوگوں کے علوم و فنون اسلامی ہیں، درس گاہ کا ماحول اسلام کے مطابق ہے، بازار میں کاروبار اسلام کے مطابق ہو رہا ہے، وہاں علماے کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جزئیات کا جواب دیں۔ جزوی مسائل اگر کوئی پوچھے تو آپ بتا دیں کہ یہ خریدنا حلال ہے یا حرام ، یہ کاروبار جائز ہے یا ناجائز، فلاں قسم کا لباس مکروہ ہے یا غیرمکروہ۔ یہ جزئیات کے سوال اُٹھتے رہتے تھے اور علماے کرام جزئیات کا جواب دیتے رہے۔ آپ فتاویٰ کی ساری کتابیں دیکھیں، سب جزئیات پر مبنی ہیں۔ آج ہم جس دور میں ہیں، اس میں اسلامی معاشرہ بڑی حد تک موجود نہیں ہے۔ اس نظام میں قوانین اسلام کے مطابق نہیں ہیں۔ اس میں معاشرتی اقدار اسلام سے بڑی حد تک ہٹ گئی ہیں۔ معیشت کا نظام اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ حلال و حرام کی تمیز بھی کمزور پڑگئی ہے۔ یہاں محض جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔

جزئیات کا جواب تو وہاں دیا جائے جہاں کلیات اسلام کے مطابق ہوں۔ اگر جزوی خلاف ورزی ہورہی ہو تو آپ اس کی رہنمائی کردیں، مگر جہاں سارے کلیات ہی بدل دیے گئے ہوں وہاں جزئیات کا جواب دینا کافی نہیں ہے۔ جس طرح ایک عمارت آپ کے استعمال میں ہے، اور فرض کریں کہ آپ ڈیکوریشن کے ماہر ہیں، آپ سے پوچھا جائے کہ کرسی اِس ڈیزائن کی بنوائوں یا اُس ڈیزائن کی، اسٹیج اِس طرف ہو کہ اُس طرف تو آپ جواب دے سکتے ہیں۔ خدانخواستہ عمارت ہی گری ہوئی ہو اور پھر کوئی یہ سوال پوچھے کہ کرسی کس ڈیزائن کی ہو اور اسٹیج کس طرف ہو، یہ غیرمتعلق سوال ہے۔ یہ جزوی سوال بعد میں آئے گا، پہلے آپ کلیات کو درست کریں۔

علماے کرام اس تبدیلی کا احساس فرمائیں، اور وہ رویہ کہ آپ کے سامنے اپنے شیخ کے جاری کیے ہوئے فتاویٰ معتمد علیہ اور مستند فتاویٰ کا مجموعہ رکھا ہے، اور کوئی سوال آیاتو آپ نے جزو کا جواب دیا اور سمجھا کہ رہنمائی کا کام پورا ہوگیا، یہ کافی نہیں۔جزئیات کا جواب دینے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ جواب ان افراد، خاندان اور ادارے کو دیا جائے گا جو اسلام پر کاربند ہیں۔ ان کو جزئیات کے سوال پوچھنے کی ضرورت ہوگی اور انھیں اسی حوالے سے رہنمائی دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کلیات کے معاملات بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

کلیات اور جزئیات میں بنیادی فرق

لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے کے بنیادی اوصاف کیا ہیں؟ اسلام میں خاندان کیسا ہوتا ہے؟ خاندان کے تعلقات کیا ہیں؟ خاندان کس بنیاد پر قائم ہے؟ یورپ میں جو خاندان ٹوٹا ہے تو کیوں ٹوٹا ہے؟ دنیاے اسلام میں جو ٹوٹ رہا ہے تو کیوں ٹوٹ رہا ہے؟ وہ کیا چیز بگڑ گئی ہے جس سے ٹوٹ رہا ہے؟ ان کلیات کا سوال جب کیا جاتا ہے تو اس کے جواب دینے میں بالعموم دو غلطیاں ہوتی ہیں جن کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک یہ کہ ہم میں سے بہت سارے انسان اسلام کی کلیات کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تعلیم ایسی ہے جو جزئیات پر مشتمل ہے۔ پھر کلیات کے حوالے سے وہ تین چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو قرآن کے نصوص ہیں، جن کے بارے میں دو راے نہیں ہوسکتیں۔ اسی طرح کچھ وہ ہیں جو احادیث اور سنت ِ متواترہ سے ثابت ہیں، وہ نصوص کا درجہ رکھتی ہیں۔ وہ اصول جو فقہ کی اصطلاح میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالہ ہیں، یہ دین کی اساسات ہیں۔ یہ ہیں وہ کلیات جن پر معاشرے کو زندہ رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کلیات کی کسی تعبیر پر اُمت کا اتفاق ہے تو یہ بھی انھی کا حصہ ہیں۔ لیکن اس کے بعد کسی ایک یا دو تین فقہا کی ذاتی آرا ہیں تو وہ کلیات نہیں ہیں۔ ان کلیات کے بارے میں اگر اس دور کے اہلِ علم یہ فیصلہ کریں کہ ہمارے لیے یہ راے، یا فلاں تعبیر، یا فلاں اجتہاد زیادہ موزوں ہے تو اس کو بھی آپ کلیات میں شامل کرلیں، لیکن جو جزوی اور انفرادی آرا ہیں، مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک راے ہے، امام شافعیؒ کی ایک راے ہے، امام غزالیؒ کی ایک راے ہے، ضروری نہیں کہ   وہ راے ہمارے لیے اسی طرح متعلق ہو جیسے قرآن پاک متعلق ہے۔ دونوں کو ایک جگہ پر رکھیں گے تو قباحتیں پیدا ہوں گی۔ قرآن پاک کا جو دوام ہے وہ امام غزالیؒ کی راے کو حاصل نہیں ہے۔  سارے احترام کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ یا کسی اور کی راے کو بھی حاصل نہیں ہے۔

اس بات کا خیال نہ رکھا جائے تو بڑی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب آپ یورپ یا امریکا تشریف لے جائیں۔ وہاں ایک عالم ہندستان سے آئے بیٹھے ہیں، ایک سعودی عرب سے، ایک مصر سے۔ امریکا کا ایک سیدھا سادہ آدمی جس نے کل اسلام قبول کیا ہے، ایک اس کو ایران کی بتا رہا ہے ، ایک طوران کی، ایک کہیں اور کی بتا رہا ہے، اور کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ یہ بیچارہ نہ شافعی ہے، نہ حنبلی، نہ مالکی، نہ حنفی۔ یہ کچھ نہیں، یہ تو مسلمان ہے۔ گویا یہ سنہ ۲۵ ہجری میں مسلمان ہوا ہے۔ اس کو آپ ان چیزوں میں کیوں پھنساتے ہیں، اس پر کیوں آپ فقہ حنفی مسلط کر رہے ہیں، کیوں فقہ شافعی یا فقہ اہلِ حدیث یا جو بھی ہے، وہ آپ اس پر مسلط کر رہے ہیں۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر یہ ہوتا ہے کہ تم ہاتھ یہاں باندھو ، اذان ہو تو انگوٹھا چومو یا مت چومو۔ ابھی آپ کچھ نہ کیجیے، اس کو نماز پڑھنا سکھایئے جو کہ اساسِ دین ہے۔ جب وہ نماز پڑھنا سیکھ لے گا تو جس مسلم معاشرے میں اس کی تربیت ہوگی اور جس مسلم ماحول کا وہ حصہ بنے گا، بتدریج وہ خود ہی اختیار کرلے گا۔ پھر جب وہ آپ سے مسائل پوچھے تو آپ اسے بتائیں۔

اس حد تک بھی یہ گوارا ہے کہ یہ بھی فقہا کے اقوال ہیں، وہ بھی دین کے معتبر شارحین کے ارشادات ہیں۔ اس حد تک بھی چلیے مان لیں، لیکن کچھ چیزیں ہیں جو مقامی رواج ہیں۔ کسی رواج کا اسلام کے مطابق ہونا اور چیز ہے اور اسلام ہونا اور چیز۔ ایک رواج ہے جو اسلام سے متعارض نہیں، قابلِ قبول ہے، لیکن اس رواج کو آپ مسلمانوں پر زبردستی مسلط کریں، یہ اسلام کا تقاضا نہیں۔ آپ کسی شیخ کے مرید ہیں، ان کا اللہ کی بارگاہ میں بہت اُونچا مقام ہے، ان کا کچھ ذاتی ذوق تھا، آپ کا جی چاہتا ہے تو آپ اس ذوق کی پیروی کریں، نہیں جی چاہتا مت کریں، لیکن پیغمبرؐ کے علاوہ کسی کے ذوق کو زبردستی دوسروں سے منوانا یہ شریعت کا نہ تقاضا ہے اور نہ حکم ہے۔ مثلاً آپ کے بزرگ ایک خاص انداز سے عمامہ باندھتے ہیں، آپ کو ان سے محبت ہے تو اُس طرح کا عمامہ باندھیے، لیکن جب آپ لوگوں سے یہ کہیں کہ اس طرح کا عمامہ باندھنا دین کا تقاضا ہے تو یہ چیز قابلِ اعتراض ہوجاتی ہے اور اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ دین یہ نہیں کہتا کہ فلاں بزرگ کی طرح عمامہ باندھو یا فلاں بزرگ کی طرح کا لباس پہنو۔ ہاں، اگر کوئی مرد سونے کی انگوٹھی استعمال کرتا ہے تو اس کی نصوص میں ممانعت ہے، اس لیے اس کو روکیں۔ کوئی عورتوں جیسا لباس پہنتا ہے تو اس کو بھی روکیں، کیونکہ اس کی بھی شریعت میں ممانعت ہے۔

یہ تین چیزیں ہیں جن میں عام طور پر لوگ تفریق نہیں کرتے۔ نصوص کیا ہیں؟ جو دائمی ہیں۔ جو امریکا، برطانیہ ، فرانس، مصر، ہر جگہ رہیں گی۔ ائمہ کرام کے اجتہادات اس ماحول کے مطابق ہیں جس میں اس ماحول کے مانوس لوگ رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں امام ابوحنیفہؒ کے اجتہادات سے مانوس لوگ چلے آرہے ہیں۔ سالہا سال سے یہاں وہ چیز اس حد تک قابلِ قبول ہے جہاں تک ہمارے ہاں رہی ہے۔ لیکن اس ماحول سے نکل کر آپ امریکا جائیں اور امریکا کے نومسلم کو زبردستی کہیں کہ تم ہاتھ یہاں باندھو۔ و ہ کہے کہ میں تو یہاں باندھتا چلا آرہا ہوں، آپ کہیں کہ آپ کی نماز نہیں ہوئی۔ اب وہ بیچارہ جو دس سال سے یہاں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتا چلا آرہا ہے، آپ نے اس کی نماز کو شک میں ڈال دیا۔ کسی مالکی امام سے اسلام قبول کرنے کے باعث وہ ہاتھ چھوڑ کر پڑھتا تھا، آپ نے کہا کہ اس طرح تو نماز نہیں ہوتی۔ اب وہ پریشان ہوا کہ میں کیا کروں؟ میری نماز ہوئی کہ نہیں؟ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کو ان کے حدود میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

ایک دفعہ مجھے بقرہ عید پر انگلستان کے ایک شہر میں وقت گزارنے کا موقع ملا۔ طے ہوا کہ سارے مسلمان ایک جگہ پر عید کریں گے۔ اب ایک خاص علاقے کے لوگوں کا اصرار تھا کہ عیدمنانے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ بچپن سے ہم اسی طرح مناتے چلے آرہے ہیں اور ہمارے    آبا و اجداد اسی طرح کرتے آرہے ہیں۔ ایک دوسرے علاقے کے مسلمانوں کا اصرار تھا کہ     ہم ایسے کریں گے۔ پندرہ بیس وہاں کے مقامی مسلمان حیران تھے کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ترک کہتے تھے ایسے کرو، حالانکہ عید کا حکم شریعت میں نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ شریعت کچھ نہیں کہتی۔ ہمارا ایک رواج ہے جو شریعت کے مطابق ہے تو قابلِ قبول ہے، اور شریعت سے متعارض نہیں ہے تو بھی  قابلِ قبول ہے، لیکن وہ دین اور شریعت نہیں ہے۔ وہ بس ہمارے یہاں کا رواج ہے۔

اس لیے دین کے جو کلیات قرآن اور سنت ہیں وہ دین کی دعوت کا موضوع ہیں۔ باقی چیزیں دعوتِ دین کا موضوع نہیں ہیں۔ وہ تحقیق، راے، فتویٰ اور اجماع کا اور ذاتی ذوق کا موضوع ہے، ان کو دعوت کا موضوع نہیں بنانا چاہیے۔ دعوت کا موضوع وہ چیزیں ہیں جو قرآن پاک، سنت اور دین میں متفق علیہ ہیں۔ جو چیزیں صحابہ کرامؓ سے چلی آرہی ہیں، جو چیزیں صحابہ کرامؓ میں متفق علیہ نہیں تھیں ، وہ دین نہیں ہوسکتیں۔ اگر آپ کہیں کہ وہ دین ہے تو جو صحابہ اس سے ہٹے ہوئے تھے  تو گویا نعوذ باللہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ جو چیز تابعین میں متفق علیہ نہیں تھی، وہ دین نہیں ہے۔ وہ اجتہاد ہے، راے ہے اور فتویٰ ہے۔ اگر آپ ایک راے کو دین کہیں تو دوسری راے کو کیا کہیں گے؟

اختلافی مسائل میں اعتدال کی روش

تیسری اور آخری چیز جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اور خاص طور پر جو بنیادی طور پر دین کا حوالہ رکھتے ہیں، وہ دوسروں کے بارے میں راے دینے میں بعض اوقات جلدبازی کرتے ہیں۔ لوگوں میں طرح طرح کے عقائد موجود ہیں۔ مسلمانوں کا جو تصورِعلم ہے وہ ان کے لیے مانوس نہیں ہے، وہاں اصل بنیاد کو نظرانداز کرکے جب آپ کسی جزوی مسئلے پر راے یا رویہ اختیار کریں گے تو وہ دین سے مزید دُور ہوگا۔ ایسے بے شمار لوگ آپ کو ملیں گے جو مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں، اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بحیثیت مجموعی جب ان کو کہا جائے کہ آپ اسلام کو مانتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں مانتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کوئی بات ہو تو وہ دکھ بھی محسوس کرتے ہیں، لیکن کسی جزوی معاملے میں وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ دین کے نام پر ہم جو بات انھیں بتا رہے ہیں، اس میں یہ تمام چیزیں، یعنی نصوص، اجتہادات، انفرادی بزرگوں کا ذاتی ذوق اور کسی مقامی علاقے کا اسلامی رواج بھی شامل ہیں۔

 اب اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ میں اس رواج کو نہیں مانتا، یہ غلط ہے تو آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ اتنا ہی اچھا مسلمان ہوسکتا ہے جتنا کوئی اور۔ کوئی کہتا ہے کہ فلاں بزرگ کی پگڑی کا اسٹائل بڑا فضول ہے، میں نہیں مانتا تو کسی بزرگ کی پگڑی کے اسٹائل کو فضول کہنے سے آدمی نہ فاجر ہوجاتا ہے نہ فاسق اور نہ کچھ اور۔ اس حد تک بھی درست ہے کہ وہ کہے مَیں امام ابوحنیفہؒ کے فلاں اجتہاد کو نہیں مانتا تو آپ تھوڑی بات کریں، مگر گستاخی اور جہالت کا کوئی عنصر نہ آنے پائے کہ یہ قابلِ اعتراض بات ہے۔ لیکن اگر وہ نصوص کا انکار کرے تو وہاں مسئلہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ جو چیزیں اسے بتائی جارہی ہیں بظاہر وہ غلط محسوس ہوتی ہیں، وہ اس لیے غلط معلوم ہوتی ہیں کہ وہ شریعت کا حکم ہی نہیں ہے، وہ شریعت کے حکم کے طور پر اس کو سمجھتا ہے۔ اس لیے اس میں کسی جلدبازی کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ یہ محسوس کریں کہ چونکہ اس کی بنیاد کمزور ہے، اس بنیاد پر جو عمارت کھڑی ہے اس کی کبھی ایک اینٹ گرتی ہے اور کبھی دوسری، کسی ایک اینٹ گرنے کی وجہ سے اس آدمی کو کچھ نہ کہیں۔ عمارت کو دیکھیں کہ اس کی بنیاد درست ہے یا نہیں، ورنہ بنیاد کو درست کرنے کی کوشش کریں۔