مئی ۲۰۱۲

فہرست مضامین

کشمیر کی مظلوم بیوائیں اور نیم بیوائیں

امجد عباسی | مئی ۲۰۱۲ | کشمیریات

Responsive image Responsive image

اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے بھارتی فوج کے ظلم و جبر، انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسمانی اذیتوں، معاشی مصائب کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ٹارچر بھی سہ رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمان خواتین کی تذلیل اور بے حُرمتی کا سامنا کرنا انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ ان حالات میں کشمیری خواتین کا جدوجہد آزادی کو جاری رکھنا اور مردوں کی ہمت بندھائے رکھنا عزیمت کا بے مثال نمونہ ہے۔

کشمیری خواتین آج کن مصائب سے دوچار ہیں، خاوندوں کے شہید ہوجانے یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں بیوگی اور نیم بیوگی کی جس کیفیت سے وہ دوچار ہیں، کن معاشی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں، لاپتا افراد کی تلاش میں بھارتی انتظامیہ کے ظالمانہ رویوں اور انسانیت سے    گری ہوئی حرکات کا کیسے سامنا کر رہی ہیں، نیز کمانے والے افراد کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں گھروں کو چلانے اور بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے کن مشکلات اور کیسے کیسے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں___ ان گرفتاریوں، ہلاکتوں اور کشمیر کی مظلوم عورت کو درپیش مسائل کی یہ  دکھ بھری داستان افشاں راشد نے Widows & Half Widows (بیوائیں اور نیم بیوائیں)  کے عنوان سے تحریر کی ہے (ناشر: Pharos Media، نئی دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۱۵ڈالر)۔ افشاں راشد معروف صحافی ہیں اور سری نگر سے تعلق رکھتی ہیں۔

بھارت کے اس سفاکانہ ظلم و ستم کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے  اب تک ایک لاکھ سے زائد مرد، جب کہ ۲ ہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد گرفتار ہیں، ۳۲ہزار سے زیادہ خواتین بیوہ اور تقریباً ۲لاکھ بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ذہنی دبائو اور ذہنی امراض سے دوچار ہے۔ خاص طور پر   اُن خواتین کو شدید ذہنی اضطراب کا سامنا ہے جن کے خاوند خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں طویل عرصے سے لاپتا ہیں اور نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟گویا ان کی حالت ’نیم بیوہ‘ کی سی ہے! وہ   اپنے خاوندوں کی پنشن بھی نہیں لے سکتیں کہ خاوند کا تصدیق نامۂ وفات (death certificate) نہیں پیش کرسکتی ہیں۔ وہ اس اُمید پر جی رہی ہیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں۔ وہ دوسری شادی  بھی نہیں کرسکتی ہیں کہ اس طرح مصیبت زدہ خاندان کی معاشی کفالت سے محروم ہوجاتی ہیں۔بچے   کس خوف و ہراس سے دوچار ہیں اور جوان بچیوں کے تحفظ کے لیے مائیں کس طرح پریشان ہیں، ان سارے مسائل کی وضاحت بھی مختلف کشمیری خواتین کے مصاحبوں ( انٹرویو) کے ذریعے   اس کتاب میں کی گئی ہے۔

کشمیر میں بیوگی اور نیم بیوگی کی حالت سے دوچار مظلوم خواتین اور یتیم بچے کسمپرسی سے دوچار ہیں۔ کمانے والے افراد کی شہادت یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں معاشی بوجھ خاندان کے بزرگوں کے کاندھوں پر آن پڑا ہے اور پیرانہ سالی کے باوجود محنت مشقت کر کے وہ کنبے کو پالنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟ اس کتاب میں طاہرہ نامی خاتون کا تذکرہ ہے جس کا خاوند گذشتہ سات برس سے لاپتا ہے۔ ہاجرہ کا ذکر ہے جس کے چار میں سے تین بیٹے شہید ہوچکے ہیں، جب کہ چوتھا بیٹا لاپتا ہے۔ پروین جس کا بیٹا ۱۹سال سے لاپتا ہے لیکن وہ اُمید کا دامن تھامے ہوئے اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعداد وشمار اور حقائق پر مبنی یہ کتاب بہت سی تصاویر سے بھی مزین ہے۔ پوری کتاب ایسی بہت سی مظلوم خواتین کی داستانِ الم پر مبنی ہے جسے پڑھ کر دل دہل جاتا ہے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں ایسی کشمیری خواتین ہیں جو انصاف کی منتظر ہیں! (Kashmir's Suffering Women ، ڈاکٹر اے جی خان، ملّی گزٹ، دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۱۱ئ)

بھارتی دانش ور خاتون ارون دتی راے اور کئی دوسرے صحافیوں نے بھی اہلِ کشمیر پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اور اجتماعی قبروں کی نشان دہی کی ہے۔ اب کشمیری خود بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے براہِ راست اپنے اُوپر روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور دنیا کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ اس طرح دنیا کو براہِ راست حقائق جاننے اور بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت کا علم ہونے لگا ہے۔

کشمیری خواتین ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز (APDP) کے تحت منظم ہورہی ہیں جو خواتین کے حقوق اور لاپتا افراد کی بازیابی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تنظیم احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے مسائل کو بھی عدالت میں اُٹھا رہی ہے جن کے خاوند لاپتا ہیں اور وہ تصدیق نامہ وفات نہیں پیش کرسکتی ہیں۔

’اے پی ڈی پی‘ نے ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife (آدھی بیوہ، آدھی بیوی) کے نام سے شائع کی ہے جس میں ایسی خواتین کے حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں جن کے خاوند لاپتا ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس ایسی خواتین کے ساتھ کس ہتک آمیز رویے سے پیش آتی ہے۔ نوجوان بچیوں کے تحفظ کے لیے کشمیری مائوں کو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا ہے، مارے خوف کے کہ نہ جانے کون رات کو آن دھمکے، مائیں سو نہیں پاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ بچیوں کو ملازمت کے حصول میں ہزارہا دقّتوں کا سامنا ہے۔ بعض عورتیں گھروں میں کام کر کے بھی گزارا نہیں کرپاتیں، اور برقع پہن کر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ کہیں پہچانی نہ جائیں۔ اگر خواتین حکومتی ریلیف فنڈ لینے کے لیے مجبوراً جاتی ہیں تو اپنی عزت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ نوجوان بیوائوں کے ناموس کے تحفظ کے لیے ساس اپنے ۱۲سالہ بیٹے سے جوان بیوہ بہو کی شادی کے لیے مجبور ہے۔  (کشمیری خواتین کی دردناک اپیل، مطبوعہ: ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)

افشاں راشد نے Widows & Half Widows کے ذریعے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ وہ کشمیر کے مظلوم عوام خصوصاً خواتین کی داد رسی کے لیے آواز اُٹھائے،نیز بھارت پر عالمی دبائو ڈالا جائے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کو روکے اور اہلِ کشمیر کو جینے کا حق دے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اہلِ کشمیر کی اخلاقی تائید اور مالی تعاون کے ساتھ ساتھ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عالمی راے عامہ کو ہموار کرے، نہ کہ بھارت کو ’پسندیدہ ملک‘ قرار دے کر اہلِ کشمیر کے ساتھ غداری کی مرتکب ہو!