نومبر ۲۰۰۲

فہرست مضامین

نعیم صدیقی مرحوم رفتید ‘ ولے نہ از دل م

پروفیسر خورشید احمد | نومبر ۲۰۰۲ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ برادرم مسلم سجاد کا فیکس موصول ہوا: ’’نعیم صدیقی بھی اللہ کو پیارے ہوئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ موت تو برحق ہے اور ہر لمحہ ہم سب کا تعاقب بھی کرتی رہتی ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہمیشہ زندہ ہی دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور نعیم صاحب بھی ایسے چنیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ میرے لیے ذاتی تعلقات کی نسبت سے ایک بڑے بھائی‘ فکری میدان میں رہنما‘ تحریکی زندگی میں قائد‘ علمی اور ادبی میدان میں ایک عہدساز شخصیت!

برادر محترم نعیم صدیقی کے انتقال کی خبر سے دل پر ایک اور پہلو سے بھی چوٹ لگی جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں‘ میں آئی ایل ایم کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کے لیے لاہور گیا۔ بعد میں جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہا تھا توکسی نے اطلاع دی کہ نعیم صاحب ایک حادثاتی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے جاسکتا۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اگر ستمبر میں لاہور جانا ہوا تو ان سے ضرور ملوں گا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس ملاقات کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل منصورہ میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ کی مجلس اعلیٰ کی میٹنگ میں ہوئی تھی۔ وہ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میری درخواست پر علالت کے باوجود شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے ساتھ ۵۰ برس کی یادوں کی سوغات بھی لائے۔ جماعت اسلامی سے قانونی رشتہ منقطع کرنے کے بعد بھی‘ وہ ہمارے لیے ویسے ہی محترم اور محبوب رہے جیسے پہلے تھے اور ان کی شفقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ان کو دل کا مکین بنا دیا تھااور صرف ان کی علمی‘ ادبی اور تحریکی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات اور برادرانہ محبت کا میرے ہی نہیں ‘سیکڑوں افراد کے دلوں پر ایسا نقش ہے کہ ان کی وفات پر بے ساختہ یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ    ؎

بعد از وفات تربت ما در زمین مجو
درسینہ ہاے مردم عارف مزار ما ست

ہماری وفات کے بعد ہمیں زمین کے اندر قبروں میں مت تلاش کرو۔ ہم اہل معرفت کے دلوں میں رہتے ہیں۔

نعیم صاحب سے میرا پہلا تعارف جمعیت کے ابتدائی دور میں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا مطبوعہ تعارف‘ جس سے مجھے جمعیت کو سمجھنے کا موقع ملا‘ ان ہی کا لکھا ہوا تھا۔ تعارف میں نے کراچی ہی میں پڑھ لیا تھا اور جب سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو فطری طور پر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے بعد جس شخص سے ملنے کا شوق تھا وہ نعیم صاحب تھے۔ اس لیے بھی کہ مولانا مودودی کی گرفتاری کے زمانے میں ترجمان القرآن کی ادارت انھوں نے کی تھی اور ان کے ’’اشارات ‘‘نے ہم سب کو بے حد متاثر کر رکھا تھا۔ خرم‘ ظفر اسحاق اور میں اپنے پہلے ناظم اعلیٰ ظفراللہ خان کے ساتھ نعیم صاحب سے ملنے گئے۔ پہلا تاثر ملا جلا تھا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور ذہن نے بنا لیا تھا۔ ملا تو اپنے سامنے ایک دبلے پتلے اور چہرے مہرے سے شرمیلے بزرگ کو پایا۔ لیکن تھوڑی ہی گفتگو میں ان کے جوہر کھلے۔ علمیت‘ متانت‘ جمعیت سے محبت اور نوجوانوں کے دل موہ لینے والے حسنِ بیان نے اپنا جادو چلا دیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ  ع

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

پھر نعیم صاحب کو کراچی میں جہانگیر پارک کے ایک تاریخی اجتماع میں سنا جس میں دو گھنٹے کی تقریر میں انھوں نے ’’معاشی ناہمواریوں کا اسلامی حل‘‘ پیش کیا۔ یہ تقریر علم اور خطابت کا شاہکار تھی اور یہی تقریر اس کتاب کی بنیاد بنی‘ جو اسی نام سے بعد میں شائع ہوئی۔ چراغ راہ سے بھی اسی زمانے میں رشتۂ ارادت استوار ہوا اور اس طرح نعیم صاحب بحیثیت مصنف‘ مقرر‘ ادیب‘ شاعر‘ تحریکی قائد ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے۔ پھر جب میں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت سے ۲۰۰۲ء تک نعیم صاحب سے بڑا قریبی تعلق رہا جس کی حسین یادیں میرا بہترین سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ علم‘ عمر‘ تحریک‘ ہر اعتبار سے فوقیت رکھنے کے باوجود ہمارا تعلق دوستانہ اور برادرانہ رہا۔ ان کے ساتھ علمی اور تحریکی دونوں محاذوں پر کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ہمیشہ انھوں نے اتنی عزت سے معاملہ کیا کہ خوردو بزرگ کا فرق باقی نہیں رہا۔

ہم تو انھیں صرف نعیم صدیقی ہی کے طور پر جانتے تھے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ ان کا اصل نام فضل الرحمن ہے۔ ان کی پیدایش خان پور‘ تحصیل چکوال‘ ضلع جہلم میں ہوئی (۴ جون ۱۹۱۶ء)۔ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۴۱ء ہی میں بستر بوریا لے کر اور مدرسے کی تعلیم نامکمل چھوڑ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دارالاسلام کی خانقاہ میں داخل ہو گئے اور پھر علم و ادب‘ تحقیق و صحافت‘ نظم و نثر ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ نعیم صاحب ِایک صاحب طرز ادیب اور مشکل کُشا مفکر تھے۔

بلاشبہہ مولانا مودودی کو انھوں نے اپنا استاد‘ مرشد اور رول ماڈل بنایا لیکن اپنی تخلیقی انفرادیت (originality) کی بنا پر ہر میدان میں اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے گراںقدر خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ محسن انسانیتؐ ہے جو سیرت نگاری میں ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ہر پہلو ہی سے کام ہواہے لیکن نعیم صاحب نے محسن انسانیتؐ کے ذریعے وہی خدمت انجام دی ہے جو تفسیرکے میدان میں مولانا مودودیؒ نے  تفہیم القرآن کی شکل میں انجام دی--- یعنی نبی کریمؐ کی زندگی بحیثیت داعی‘ قائدتحریک اسلامی اور عالمی انقلاب کے بانی۔ واقعات وہی ہیں جو ہر سیرت کی کتاب میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے ان کی معنویت کو دورنبویؐ ہی نہیں آج کے دور سے ان کی نسبت اور مطابقت کے حوالے سے ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی یہ کتاب حق کے طالبان اور سیرت پر کام کرنے والوں کے لیے برسوں روشن چراغ رہے گی۔

انھوں نے اجتماعی علوم اور معاشرت و سیاست کے دسیوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر میدان میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے پختگی کے ساتھ جس تخلیقی انفرادیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ نعیم صاحب کا کمال ہے کہ ایک گھسے پٹے موضوع کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں اور ایک جانی بوجھی بات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیںکہ اس میں ندرت اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔

افسانہ‘ رپورتاژ اور ادبی تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ تحریک ادب اسلامی کے سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر کے میدان میں بھی وہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا شعر جس نے مجھے چونکا دیا تھا وہ وہ تھا جو چراغ راہ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے شمارے کی لوح پر رقم تھا    ؎

گر ایک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج دود سے صد آفتاب ابھریں گے

ان کی نظم ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ ایک زمانے تک ہم سب کے جذبات کی ترجمان رہی۔  نعیم صاحب کے یہاں حسن خیال اور حسن بیان دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور حرکت‘ جدوجہد‘  کش مکش اور روح جہاد ان پر مستزاد۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں‘ ایک تحریکی شاعر بھی ہیں۔ جس طرح فیض احمد فیض کے یہاں شعری حسن کے ساتھ تحریکیت (گو ایک دوسرے پس منظر سے) پائی جاتی ہے‘ اسی طرح اسلامی انقلابیت کے پس منظر میں نعیم صاحب کا شعر ایک پیغام اور تبدیلی کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ نعت کے میدان میں ان کی نعتیہ نظم ’’میںایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے ہوں؟‘‘ ایک منفرد کاوش اور روح کو تڑپا دینے والی چیز ہے:  محسن انسانیتؐ کا شعری خلاصہ!

مجھے ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریب سے کام کرنے کا موقع  سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر کی ترتیب کے وقت میسر ہوا۔ اس کی پہلی دو جلدیں ہماری مشترک کوشش ہیں اور آخری جلد صرف نعیم صاحب کی مرتب کردہ ہے۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق بس ایک علمی خزینہ مرتب کرنے کی کوشش کی (محمود فاروقی مرحوم‘ معروف شاہ شیرازی اور نثاراحمد میرے معاون تھے)۔ لیکن نعیم صاحب نے اپنی محنت سے اس پورے مجموعے کو چار چاند لگائے اور ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے بیش بہا اضافے کیے۔

مرکزی شوریٰ کی قراردادیں پہلے مولانا محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مرتب فرمایا کرتے تھے۔ پھر یہ سعادت نعیم صاحب اور مجھے حاصل ہوئی۔ لیکن میں نے نعیم صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔ میں نے اس زمانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا (شاید طول نویسی سمیت--- جو ہم دونوں میں مشترک رہی!)۔

نعیم صاحب کا وہ دور ہمارے لیے بہت روحانی کرب کا باعث رہا جو جماعت سے ان کے قانونی تعلق کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوا۔ الحمدللہ اس دور میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارا ذاتی تعلق کبھی متاثر نہ ہوا۔ جماعتی حیثیت سے بھی ان کا احترام اور ان کی فکر سے استفادہ اسی طرح جاری رہا بلکہ استعفے کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میں امیر جماعت کے مشورے سے ان کے گھر جاکر ان سے ملے اور ذاتی ہی نہیں‘ تحریکی تعلق کو بھی جس شکل میں بھی ممکن ہو‘ جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے خاص طور پر برادرم حفیظ الرحمن احسن کو بھی مدعو کیا۔

برادر محترم نعیم صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ذاتی شرافت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی‘ ہر میدان میں انھوں نے ایسی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کے اثرات ایک مدت تک جاری رہیں گے۔ وہ علم و ادب دونوں کے شہسوار تھے۔ تحقیق‘ تحریر‘ تقریر‘ مجلسی گفتگو‘ ہرمیدان میں ان کا ایک منفرد مقام تھا۔ اپنے ۵۰ سالہ تعلق پر نظرڈالتا ہوں تو میرتقی میرکی زبان میں ان کی روح کو گنگناتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ     ؎

باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیںایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا‘ تو دیر تلک سر دھنیے گا

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے‘ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہمیشہ ضوفشاں رکھے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے‘ انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے‘ ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے اور اس اُمت کو ان جیسے خادمان دین سے کبھی محروم نہ کرے۔ آمین!