نومبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں

محمد یوسف اصلاحی | نومبر ۲۰۰۹ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ o وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ o (الزمر ۳۹:۵۳-۵۵) اے رسولؐ! کہہ دیجیے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ رہو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بے شک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔ پلٹ آئو، اپنے رب کی طرف اور اطاعت گزار بن جائو اس کے، اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آجائے، پھر کہیں سے تمھاری مدد نہ ہوسکے، اور پیروی کرو، اس بہترین ہدایت کی جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔

یہ تین آیتیں سورئہ زمر سے منتخب کی گئی ہیں۔ سورئہ زمر کا مرکزی مضمون ہے توحیدِ خالص، دینِ خالص اور بندگیِ خالص۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں انسانیت کے سارے مسائل کا حل اور دونوں جہان کی عظمت اور کامرانی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے لیے خالص ہوجائے اور صرف اسی کا ہوکر رہے۔

اللّٰہ کی شانِ کریمی

ان تین آیتوں میںسے پہلی آیت خدا کی بندوں کے لیے ان کے رب رحیم کی جانب سے ایک پیغامِ اُمید، نویدِ مسرت اور ایک مژدۂ جانفزا ہے، جو بندے کو وسعتِ رحمت کے تصور اور اللہ سے پُرامیدی کے احساس سے سرشار کر دیتا ہے۔

یہ آیت ایک طرف تو خدا کی شانِ رفعت و عظمت، اس کے بے پایاں عفو و درگزر اور اس کی بے مثال وسعتِ رحمت کا تعارف کراتے ہوئے بندے کو ہمیشہ پُرامید رہنے اور خدا سے کسی حال میں بھی مایوس نہ ہونے کا سبق دیتی ہے، اور دوسری طرف ابلیس لعین کی مکاری، چال بازی اور بندوں کو خدا سے مایوس کرنے والی سازشوں پر ابلیس کا دل ہلا دینے والی کاری ضرب لگاتی ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا کہہ کر آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندو! تم نے اپنی جانوں پر جو زیادتی بھی کی ہو، کافر و مشرک ہو یا ملحدو زندیق، قاتل و زانی ہو یا فاسق و فاجر، تم سرکش و باغی ہو یا خدا کے نافرمان، تم گناہوں کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، اللہ کا دَر وہ دَر ہے جس سے کبھی کوئی مایوس نہیں لوٹایا جاتا، وہ ایسا  قادرِ مطلق ہے کہ اس کے کیے ہوئے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ روے زمین پر اپنی کارگزاری دکھانے والے سارے انسان اس کے بندے ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے اور خالق کے پاس اپنی مخلوق کے لیے بے پناہ پیار بھی ہے اور ان کے لیے بیکراں عفو و رحمت بھی، جب کوئی باغی اور گنہگار بندہ سچے ارادے سے اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ ہرگز اس کو مایوس نہیں کرتا۔

یہ آیت اپنے دل نواز پیغام اور خدا کی شانِ رحمت کے انوکھے اندازِ بیان کی وجہ سے  اپنے اندر غیرمعمولی تاثیر رکھتی ہے اور کٹر سے کٹر انسان کے دل کو بھی ایک بار موم بنادیتی ہے اور بندہ بے اختیار اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے مہبط وحی حضرت محمد صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا: مَا اُحِبُّ اَنَّ لِی الدُّنْیَا وَمَا فِیھَا بِھٰذِہِ الْاَیَـۃِ ’’مجھے اس آیت کے بدلے یہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں بھی ملیں تو مجھے پسند نہیں‘‘۔ یعنی میری نظر میں اس آیت کے مقابلے میں یہ ساری دنیا اور اس کی تمام متاع قطعاً درخورِ اعتنا نہیں۔ اس ایک آیت کے مقابلے میں یہ سب کچھ ہیچ ہے۔

پھر آیت کا انداز محض تذکیر یا ضابطہ بیان کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اللہ نے اپنے رسولؐ کو اس پر مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اے نبیؐ! میرا یہ پیغام اور میرا یہ اعلان میرے بندوں تک پہنچا دو اور اس پیار بھرے اسلوب اور انداز میں پہنچا دو کہ اے بندو! تمھارا رب تمھیں خطاب کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، دیکھو اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، وہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (اس لیے کہ) یقینا وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔

ایک غلط فھمی

قرآن کی بنیادی تعلیم سے ناآشنا، یا دانستہ خود کو قرآن کی ہدایت سے محروم کرنے والے بعض لوگ جن کی تعداد ناقابلِ التفات ہے، اس آیت کی ترجمانی یوں کرتے ہیں: ’’اے محمدؐ!    تم بندگانِ خدا سے کہو: اے میرے بندو! یعنی محمد کے بندو! اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو‘‘۔    یہ ترجمانی قرآن کی اُس اصل اور بنیادی تعلیم کی نفی ہے جس کے لیے یہ قرآن نازل کیا گیا ہے۔ قرآن کی بنیادی اور جوہری تعلیم یہ ہے کہ سارے انسان صرف ایک ہی خدا کے بندے ہیں،   اس کے سوا ہر ایک کی بندگی باطل ہے۔ پیغمبروں کی بعثت کا اصل اور بنیادی مقصد ہی یہ ہے، خدا کا ارشاد ہے:

وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ  اللہ ہی کے بندے بنو اور طاغوت سے بچے رہو۔

یعنی دنیا میں جو رسول بھی بھیجا گیا، اسی غرض سے بھیجا گیا کہ وہ انسانوں کو ایک ہی خدا کی بندگی کی تعلیم دے اور اس کے سوا ہر طاغوت کی بندگی سے بچنے کی ہدایت کرے۔ سب سے آخر میں اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی پیغام کے ساتھ مکّے میں بھیجا۔ آپؐ نے بھی یہی تعلیم دی کہ اے انسانو! ایک اللہ کے بندے بن کر رہو، اور ہر طاغوت کی بندگی سے انکار کرو۔ حضرت محمد   صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور کرنا، کہ انھوں نے لوگوں کو لات و عزیٰ کا بندہ بننے کے بجاے بندۂ محمدؐ بننے کی دعوت دی، بدترین بہتان ہے۔

توحید کی اس بصیرت افروز آیت سے توحید کے خلاف یہ مفہوم پیدا کرنا، بدترین تحریف ہے، یہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے انحراف ہے۔ رسول کریمؐ پر بہتان ہے اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ پیغمبر یہ بنیادی تعلیم لے کر آتے ہیں کہ انسانوں کو خدا کا بندہ بنائیں، صرف اسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔ کبھی کسی رسولؐ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ میرے بندے بن جائو۔ یہ رسول کے مشن سے متصادم تعلیم ہے بلکہ وہ تعلیم ہے جس کو مٹانے ہی کے لیے رسول آتے ہیں، اور قرآن کی زبان میں خدا کے سوا کسی اور کا بندہ بننا کفر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:

مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ o وَ لَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا ط اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۷۹-۸۰) کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجاے تم میرے بندے بن جائو۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیساکہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ    تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو۔

’ربانی‘ یہودیوں کے یہاں ان علما کو کہتے ہیں جو دینی ذمہ داریوں کے منصب پر فائز ہوتے تھے، ان کا کام یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کی دینی رہنمائی کریں، ان کی عبادت اور دینی مراسم میں قیادت و امامت کریں، احکامِ دین بتائیں اور نافذ کریں۔ عیسائیوں کے یہاں اپنے مذہبی پیشوائوں کے لیے لفظ Divine بھی اسی مفہوم میں ہے۔

ان دونوں آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ رسولؐ اسی مشن پر بھیجے جاتے ہیں کہ انسانوں کو ہرایک کی بندگی سے آزاد کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بنائیں۔ بھلا وہ اپنے مقصد بعثت کے خلاف لوگوں سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرے بندے بن جائو۔ بندگی کا مستحق تو صرف اللہ ہے۔ ہر وہ تعلیم جو اس کے خلاف کسی اور کی بندگی سکھاتی ہو یا کسی انسان اور فرشتے کو بندگی کی حد سے بڑھا کر خدائی کے مقام پر پہنچاتی ہو، اور انسانوں کو کسی انسان یا فرشتے کا بندہ بناتی ہو، سراسر باطل ہے۔ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم ہرگز نہیں ہوسکتی، وہ آسمانی ہدایت نہیں، بلکہ وہ تحریف اور آسمانی ہدایت سے انحراف ہے۔

توبۃ النصوح

اس آیت میں خوش خبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو ہونا یہی چاہیے کہ بندہ سارے گناہوں سے پاک ہونے کے جذبے سے خدا کی طرف پلٹے۔ مگر انسان کا نفس کبھی کبھی اس دھوکے میں مبتلا کردیتا ہے کہ یکایک میں سب گناہوں کو تو نہیں چھوڑ سکتا، دھیرے دھیرے چھوڑوں گا۔ کچھ سے توبہ کرتا ہوں، کچھ معاملات میں بدستور رب کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرکشی کرتا رہوں گا۔ تو درحقیقت یہ وہ توبہ نہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے، خالص اور مطلوب توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردے اور توبہ کے بعد کی زندگی کامل فرماں برداری کی زندگی ہو۔

آگے دو آیتوں میں گناہوں کی معافی کے لیے تین باتوں کی تلقین کی گئی ہے جو یک گونہ شرائط بھی ہیں اور علامات بھی، یعنی اللہ کی طرف رجوع، اس کے حضور خود سپردگی، اور کلام اللہ کی کامل اطاعت و پیروی۔

  •  انابت الی اللّٰہ: پہلی شرط یا علامت ہے انابت الی اللہ۔ جس کے معنی ہیں اپنے رب کی طرف پلٹ آنا، خواہ کفر و شرک سے توبہ کر کے آدمی خدا کی طرف پلٹے اور ایمان لائے، خواہ گناہوں سے توبہ کرکے خدا کا فرماں بردار بندہ بننے کا عزم کرے، خدا کی طرف پلٹنے کا یہ عمل اور توبہ کی یہ کیفیت خدا کے نزدیک وہ پسندیدہ عمل ہے جو بندے کی کایا پلٹ دیتا ہے، اور اللہ کے آغوشِ رحمت میں بندے کو اپنے اندر سمیٹ لینے کا جوش پیدا کردیتا ہے۔ کسی بندے کی توبہ اور انابت سے اس کے خالق اور پروردگار کو کس قدر خوشی ہوتی ہے۔ اس تصوراتی حقیقت کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تمثیل کے ذریعے سے بڑے دلنشیں انداز میں یوں بیان فرمایا ہے:

ایک شخص کا تصور کرو جو کسی لق و دق ریگستان میں اس حال میں سفر کر رہا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا سامان اس کی اُونٹنی پر رکھا ہے، اس کی وہ اُونٹنی صحرا میں کھو گئی، اس نے اُونٹنی اِدھر اُدھر تلاش کی مگر نہیں ملی۔ آخرکار وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایے میں دراز ہوگیا۔ (کہ اب تو بس موت ہی کا انتظار کرنا ہے) وہ اسی کیفیت میں تھا کہ کیا دیکھتا ہے۔ اُونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے جھٹ اس کی لگام پکڑ لی اور پھر خوشی کی شدت میں مدہوش ہوکر کہتا ہے:’’اے پروردگار! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔ یعنی خوشی میں ایسا بے خود ہوگیا کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے کچھ نکل رہا ہے۔ جب کوئی بندہ توبہ کر کے خدا کی طرف پلٹتا ہے تو خدا کو  اس بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔

ہر انسان خدا ہی کا بندہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے احکام کی پیروی کرے کہ آخرت میں اُسے انعامات سے نوازا جائے۔ لیکن ناشکرا بندہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف    چل پڑتا ہے اور سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، لیکن جب بھی وہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تو ربِ رحیم اپنے بندے کو دھتکارتا نہیں، بلکہ خوش ہوتا ہے اور انتہائی خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ پھر میری طرف پلٹ آیا۔

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسی آیت کے بارے میں کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! اگر کوئی شرک میں مبتلا ہو تو؟ آپؐ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: ہاں، خوب سن لو، شرک کرنے والا بھی اگر خدا کی طرف پلٹ آئے، اور یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔

واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وسعتِ رحمت کی کوئی تھاہ نہیں، اس کی شانِ عفو و کرم سے بندہ کو کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا ہونے والا بلکہ گناہوں سے زمین و آسمان کی فضا بھر دینے والا بھی جب اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے اور واقعتا توبہ اور انابت کی کیفیت کے ساتھ رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم و رحیم اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔

  •  خود سپردگی: دوسری شرط یا علامت یہ ہے کہ توبہ کے بعد بندہ واقعی اپنی زندگی بدل دے، وہ اب  فرماں برداروں کی سی زندگی گزارے، حقیقتاً خود کو اللہ کے حوالے کردے اور اس توبہ و انابت اور فرماں برداری کی زندگی میں تاخیر نہ کرے کہ اس کا آخری وقت آجائے اور حلق میں سانس غرغرانے لگے تو اس وقت توبہ کرے، یا جب گناہوں کی پاداش میں کوئی دنیوی عذاب آجائے تو اس وقت توبہ کے لیے ہاتھ اُٹھائے… بلکہ جب بھی احساس ہو اور آنکھ کھلے، جلد سے جلد اپنے رب سے اپنا معاملہ صحیح کرلے۔ اس لیے کہ موت کے سکرات کے وقت جب آخرت کا عذاب سامنے ہو یا کوئی دنیوی عذاب سر پر آجائے تو اس وقت نہ تو توبہ قبول ہے نہ فرماں برداری کا عہد کوئی مفہوم رکھتا ہے۔ ایسی حالت تک پہنچنے پر تو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والی اور آئی مصیبت کو ٹالنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کہیں سے بندے کو کوئی مدد اورسہارا ملنا ممکن نہیں۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی عذاب آجائے‘‘ کے الفاظ بندے کو متوجہ کرتے ہیں کہ توبہ کرنے میں اور اللہ سے   اپنے معاملہ درست کرنے میں ہرگز تاخیر نہ کرنی چاہیے، احساس ہوتے ہی فوراً آدمی خدا کی طرف بے تابانہ دوڑ پڑے اور رب کے آغوشِ رحمت میں اپنے آپ کو دے دے۔
  •  اتباعِ قرآن: تیسری شرط اور علامت یہ ہے کہ بندہ قرآن پاک کی پیروی کرنے لگے، اس کے مطابق زندگی گزارنے لگے، یہی ہدایت نامہ بھی ہے اور یہ حق و باطل کا معیار بھی ہے اور اس کی اتباع اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ بندہ واقعی خدا کی راہ پر چل رہا ہے اس لیے کہ اس آسمان کے نیچے خدا کا واحد ہدایت نامہ اور خدا کی مرضی پر چلنے کا واحد مستند ذریعہ یہی قرآنِ پاک ہے۔ اس سے بے تعلق ہوکر یا اس سے انحراف کی زندگی گزار کر کوئی بندہ، خدا کا بندہ نہیں بن سکتا۔  یہ قرآن کچھ چیزوں کا حکم دیتا ہے، کچھ اعمال اختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے، کچھ عبادات سے زندگی آراستہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے اور اپنے پیارے بندوں کی کچھ لازمی اوصاف بتاتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ چیزوں سے روکتا ہے، کچھ رذائل ہیں جن سے مومن کی زندگی کو پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ جب بندئہ مومن خدا کے پسندیدہ احکام و اوامر کی پابندی کرتا ہے اور خدا کے ناپسندیدہ کاموں سے رُک جاتا ہے تو خدا اس کو معاف فرما کر اپنی آغوشِ رحمت میں سمیٹ لیتا ہے۔ اس پر نیکی کی راہ آسان کردیتا ہے اور منکرات سے اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ رہا وہ شخص جو قرآن پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود قرآن کی اتباع نہیں کرتا، جن چیزوں سے اس نے روکا ہے، ان سے رُکتا   نہیں ہے تو وہ درحقیقت ایمان بالقرآن ہی سے محروم ہے۔ اتباعِ قرآن ہی ایمان کا ثبوت بھی ہے اور اتباعِ قرآن ہی اس حقیقت کی علامت بھی ہے کہ کس بندے نے واقعی خدا کے حضور سچی توبہ کی ہے اور وہ خدا کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اتباعِ قرآن کا حکم قرآن نے ان لفظوں میں دیا ہے: ’’اور اتباع کرو اس بہترین کتاب کی جو تمھاری طرف نازل کی گئی ہے‘‘۔ اس اسلوب کا مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ قرآن کے بہترین پہلو کی اتباع کرو، اور بہترین پہلو یہ ہے کہ آدمی اوامر کی پابندی کرے اور نواہی سے اجتناب کرے اور اپنی زندگی کو قرآن کے سانچے میں ڈھالے…اور بدترین پہلو یہ ہے کہ آدمی قرآن کے خلاف زندگی گزارے۔ نہ اس کے اوامر کی پروا کرے، نہ اس کے نواہی کا لحاظ کرے۔ ایک اور مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے انسانو! تمھاری طرف خدا کے یہاں سے مختلف زمانوں میں جو کچھ نازل ہوا ہے، ان سب میں بہترین ہدایت نامے کی پیروی کرو جو قرآن ہے۔ یہ تمام آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بہترین ہے۔ اس لیے کہ یہ جامع ہے، ہمیشہ کے لیے ہے۔ اللہ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور ادبی اعجاز کے اعتبار سے بھی بے مثل ہے۔ اس کے احکام میں اس قدر آفاقیت، دوام اور لچک ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام حالات اور معاملات پر اس کے احکام ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتے ہیں اور کسی دور میں بھی خواہ وہ ترقی کا کیسا ہی امتیازی دَور ہو، اس کے ماننے والے کو کوئی عاجزی و درماندگی محسوس نہیں ہوتی۔ بہرحال یہ طے ہے کہ اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ سے مراد قرآن شریف ہے جو بہترین ہدایت نامہ ہے اور قرآن ہی کو    اللہ تعالیٰ نے اس سورہ کی ۲۳ویں آیت میں اَحْسَنُ الْحَدِیْث بھی کہا ہے، یعنی بہترین کلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اَحْسَنُ الْحَدِیْث اور اَحْسَنَ مَا اُنْزِلَ کا ایک ہی مفہوم ہے اور اچھے پہلو کی اتباع میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ اس کی اچھی تاویل کرتے ہیں، اچھے مفہوم کو اپناتے ہیں،   اس سے کوئی غلط مفہوم نہیں نکالتے، تحریف نہیں کرتے، من مانی تاویل نہیں کرتے۔